Da Khaora Ow Da Khalq

Da Khaora Ow Da Khalq Da Khaora Ow Da Khalaq:

تحریرمنورشاہ منور(فلک نیاز نیازی کی ادبی خدمات)سرزمین داودزئی اپنی تہزیب اپنی ثقافت اور بہادری و مہمان نوازی  کیلئےشہرت ...
31/07/2025

تحریرمنورشاہ منور
(فلک نیاز نیازی کی ادبی خدمات)
سرزمین داودزئی اپنی تہزیب اپنی ثقافت اور بہادری و مہمان نوازی کیلئےشہرت رکھتی ہےاگرایک طرف اس زرخیزاورمردم خیزمٹی نےنامورسیاستدانوں کوجنم دیاہےتودبوسری طرف اس دھرتی کی کوکھ سےایسےاعلی پائےکےشعراکرام بھی پیداہوئےجنہوں نےملک وقوم کیلئےہرمیدان میں کامیابی کےجھنڈےگاڑھےہیں ۔ایسےقابل ذکراور قابل رشک شعراءمیں ایک منفردنام فلک نیازنیازی کابھی ہے جوپشتوزبان وادب کےشاعرادیب شوقیہ رباب نوازہے ۔
فلک نیازتپہ داودزئی کےمشہورومعروف علاقہ اصحاب بابا چغرمٹی کےگاوں گڑنگہ بالامیں 13مارچ 1966کو مرحوم فقیرمحمدخان کےگھرآنگھن میں آنکھیں کھولی ۔
آپ ایک دینی فلاحی اور مغززخاندان کےچشم وچراغ ہے
آپ کےوالدمحترم ایک بااصول انسان تھےجبکہ آپ کادادا ظریف خان ایک جرگہ نشین شخصیت تھے۔اورتحریک آزادی کےمشاہیرمیں شمارکیےجاتےتھے
فلک نیازنےدینی علوم اپنےگاوں کےامام مسجدعلمی و روحانی شخصیت سیدحبیب شاہ صاحب المعروف باچاصاحب سےحاصل کی پرائمری سکول اپنےگاوں جبکہ میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول چغرمٹی اصحاب باباسےنمایاں نمبروں سےحاصل کرنےمیں کامیاب رہے۔
آپ بچپن اورلڑکپن سےبہت زہین اوربیدارمغزتھےیہی وجہ ہےکہ آپ ہرکلاس میں اول پوزیشن لیتےتھے
گورنمنٹ ہائی سکول چغرمٹی میں مایہ نازشاعراورمعلم محمداسلام عابدہرماہ کےآخری تاریخ کوبزم ادب پروگرام کااہتمام کرتےتھےجسمیں سکول کےہونہارطلبااپنی ذہنی صلاحیت کامظاھرہ کرتےتھےجس میں خاکےلطیفےاورشاعری کےسیگمنٹ شامل تھےفلک نیازبھی مذکورہ بزم ادب میں اشعارشامل کرتےمحفل کوچارچاندلگاتے سچ تویہ ہےکہ یہی نکتہ فلک نیازکی زندگی کاٹرنینگ پوائنٹ ثابت ہوا اورآپ ایک شاعرکےروپ میں جلوہ افروزہوئے۔
فلک نیازکاادبی تخلص نیازی ہے آپ نےباقی تعیلم پشاوریونیورسٹی سےحاصل کی ہے آپ ایک اعلی گریجویٹ انسان ہے
آپ نےاپنی سرکاری ملازمت کاآغاز1985میں سٹینوگرافرکی حیثیت سےکیاپھررفتہ رفتہ ترقی کےزینےپرچھڑتےہوئےوزیراعلی سیکرٹریٹ ۔گورنرسیکرٹریٹ آج کل خیرپختونخوا کے صوبائی اسمبلی میں ایک اعلی عہدےپرفائزہے۔
آپ کبھی بھی سرکاری عہدہ کوذاتی کومفادات کیلئےاسعتمال نہیں کیا۔بلکہ اپنی مفادات کوسرکاری مفادات پرترجیح دی ۔آپ قول کے سچےاوروعدےکےپکےانسان ہے۔آپ کےقول اورفعل میں کوئی تضادنہیں بلکہ قول اورفعل میں ہرجگہ یکسانیت کامظاہرہ کرتےہے ۔
رقم الحروف کوفخرہےکہ آپ کےزیرسایہ بہت کچھ سیکھنےکوملاہے۔
1992میں آپ کی شادی ہوگئی یوں آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئےآپ کی شریک حیات مرحوم شیرمحمدخان کی دخترہےاورایک کامیاب گھریلوتعلیم یافتہ خاتون ہے۔
آپ کے تین بیٹےہیں جوزیورتعلیم سےآراستہ ہے۔
فلک نیازشاعری ۔ شوقیہ گلوکاری رباب کےتاروں کواگر چیڑتےہےتودین سےبھی عافل نہیں صوم وصلوۃکےپابندفلک نیازنیازی نےحج بیت اللہ اورعمرہ کی سعادت اور روضہ رسول سرورکونین ﷺ پرحاضری دی ہے۔
فلک نیازادبی محافل کی جان ہے۔
مختلف ادبی پروگراموں میں شرکت کرتےہے ۔قدرت نے
آپ میں انسانیت سےمحبت کاجزبہ کوٹ کوٹ کربھراہواہے یہی وجہ ہےکہ اپ ہرکسی کےکام آتےہےعلاقہ میں ایک سماجی فلاحی شخصیت کےطورپرجانےجاتےہے ۔
آپ ایک صاف گوانسان ہےکسی کےساتھ حسدبغض جیسےجذبات نہیں رکھتےدیانت شرافت اور صداقت آپ کی شخصیت کےجوہرخاص ہیں ہرایک کےساتھ قلبی محبت رکھتےہے۔
فلک نیازنیازی دوستوں کےدوست اوریاروں کےیارہےویسےتوآپ حلقہ آحباب بہت وسیع ہےلیکن
آپ کےذلعزیزدوستوں میں شہیدDSPاقبال مومند ۔واصف اللہ خان داودزئی ۔اورگل محمدبیتاب قابل ذکرہیں۔
فلک نیازکورب لم یزل نےشیرین زبان لب ولہجہ عطافرمایاآپ ترنم کےبےتاج بادشاہ ہے ۔آپ نےشاعری کی ایک کتاب کانام ہے(پہ للمہ کےگلونہ )
زبان وادب کی ترقی وتریج کیلئےآپ نےگراں قدرخدمات سرانجام دیں ہے۔ ۔
یہی وجہ ہے
کہ آپ اپنےقلم کےذریعےقوم وملت کی خدمت کیلئےہروقت کمربستہ اورمصروف عمل رہتےہیں ۔

پروفائل ۔ ۔تحریر منورشاہ منور(ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک )حیات وخدماتگلستان ادب کے نامورسپوت اورپشتوزبان  وادب کے مایہ ناز شاع...
23/07/2025

پروفائل ۔ ۔تحریر منورشاہ منور
(ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک )حیات وخدمات
گلستان ادب کے نامورسپوت اورپشتوزبان وادب کے مایہ ناز شاعرادیب محقق بلندپایہ نقادڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک کاشماراُن شخصیات میں ہوتاہے جنہوں نے اپنی زبان اپنی ثقافت اوراپنے ذیس سے بے لوث محبت انتھک شبانہ روزمحنت سے گلستان ادب کو معطروتازہ رکھنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بھروئے کارلائیں ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک ضلع نوشہرہ کے معروف گاوں ڈاک اسماعیل خیل میں نامور شخصیت قدیم شاہ کے گھر آنگھن میں 24جنوری1952میپ جنم لیا۔
آپ نے دینی تعلیم امام مسجد ابتدائی تعلیم گاوں کے سکول سے حاصل کیا ۔
آپ بچپن سے حصول تعلیم کے شیدائی تھے یہی وجہ ہے کہ 1968میں مٹرک کےبعداسلامیہ کالج پشاور اورپھر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا ۔
آپ 1973میں تھرڈائر کے طالب علم تھے کہ والدین آپ کے سرپر شادی کاسہرا دیکھنا چاھتے تھے یوں آپ رشتہ اذدواج میں منسلک ہوئے ۔
1975میں بی اے (BA).اس کےبعد1977میں پشاوریونیورسٹی سےفرسٹ ڈویژن میں ایم اے(MA)پشتو اور1985میں پی ایچ ڈی (PHD)کی ڈکری حاصل کرنے میں کا میاب ہوئے ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک کی مادری زبان پشتو تھی لیکن آپ کو اردو انگلش پر مکمل عبو ر اور ملکہ حاصل تھا ۔
تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کاشمارذھین طلبأ میں ہوتا تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اورادبی میدانوں میں آپ نے اب تک تمغہ امتیاز ۔ ایم پشتو گولڈ مڈل ۔بین الاقوامی ادبی کنونشن کاایواورڈ ۔پختون رولی ایوارڈ ۔اورخاص طور پر جنوبی أیشیأ کاٹیلینٹڈ ایواورڈاپنے نام کرچکے ہیں ۔
آپ میں خداداد صلاحیتیں بدرجہ اتم موجودتھیں ۔
قدرت نے آپ کو دل ودماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔
آپ ایک بیداز مغزاور زرخیزذھن کے ملک تھے ۔
حقیقت تویہ ہے کہ آپ اپنی تعلیمی وادبی سرگرمیوں کے ساتھ ایڈورڈ کالج پشاور میں1976تا1978تک پشتو اور اسلامیات کے لیکچرار بھی رہے ہیں ۔
پشاور یونیورسٹی میں زبان وادب سے متعلقہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کےبھی استادرہ چکے ہیں ۔
سچ تویہ ہے آپ کاکمال بے مثال طریقہ تدریس تھا
آپ معمارقوم بن کر نونہالان قوم کوجس اندازسے معاشرے کامفیدشہری بنایا اس کی مثال نہیں ملتی ۔
آپ ایک نرم خو نرم طبعیت اورملنسارانسان کے پر جانے جاتے تھے ۔
کسی کیلئے دل میں نفرت کے جذبات نہیں رکتھے ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک نے 1995سے2004تک پشتواکیڈمی کے ڈائریکٹرکی حیثیت بھی نمایاں خدمات سرانجام دئیے ہیں
آپ نے کئی فاضلانہ مقالے بھی تحریرکیں ہیں جو اردو انگیریزی کے بیشمار اخبارات وسالوں میں شائع ہوئے ۔
آپ بڑے دراندیش ۔معاملہ شناس اور نام ونمود سے بیزارانسان تھے قابل ستائش بات تو یہ ہے کہ آپ پشتوزبان کے واحدسکالر ہیں جن کوریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پوسٹ ڈاکٹرل سٹڈیزکیلئے فل برائٹ سکالرشپ سے نوازاگیا ۔
سال 2007میں امریکہ کی مشہوریونیورسٹی آف پنسلوانیا فلاڈلفیا میں کامیابی کیساتھ روہالوجی ۔ پشتونوں ان کی ثقافت تاریخ اور زبان و ادب سے متعلق تحقیقی مقالہ تحریرکیا آپ نے قیام امریکہ کے دوران مختلف ریاستوں اورشہروں میں لیکچر دیئے جن میں قابل ذکرنیویارک ۔واشکٹن ڈی سی ۔ اونیانٹار ۔اوہاہو ۔ جوزے ۔ شکاگو ۔ لا س اینجلنس ۔اسان ۔ فرانسکو وغیرہ شامل ہیں
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک نے ہرجگہ ہرفورم پراپنی تہذیب اپنی ثقافت کواجاگرکیاہے ۔
قابل تحسین بات تو یہ ہے کہ آپ نے ہرجگہ اپنی خداداد صلاحیتیوں کالوہامنوایا ہے ۔
آپ نے پشتو زبان وادب کی ترقی وترویج کیلئے کوئی نہیں چھوڑی ۔کئی ادبی جرگوں کی داغ بیل ڈالی ۔ جن سے نوجوان نسل میں اپنی ماں بولی زبان سے محبت کاجذبہ بیدارہوا ۔
آپ پشتو زبان کے بے بدل شاعر اورنقادتھے ۔
شاعری میں ولی تخلص رکتھے ۔ آپ کو اگر غزل کاشاعر کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا یہی وجہ ہے ۔کہ آپ کو بابائے غزل امیرحمزہ خان شنواری غنی خان اور قلندرمومند سے قربت کاشرف بھی حاصل رہا اس لئے آپ اکثر نجی محفلوں میں ان ذکر بڑے احترام اورفخرکے ساتھ کرتے تھے ۔
ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک ایک ماہرنشانہ باز فٹ بال کے بہترین کھلاڑی اورجہاندیدہ شخصیت کے مالک تھے
عالمگیر شہرت کے حامل راج ولی شاہ نے بارہ کے کتب سینکڑوں کتابوں پر دبیاچے اوربین الاقوامی شہرت کے حامل رسالوں میں 80کے قریب تحقیقی مقالے چھپ چکے ہیں آپ کی تخلقیات میں
د پشتو ادبی تحریکونہ ۔ زیست روزگار فقیرجمیل بیگ ۔مناقب فقیر۔ دپشتوژبہ لغت ۔ درحمان بابا پہ شعر ۔ ہیرآف ٹیچ پشاور ۔توری چہ رنڑا کوی ۔روھی متلونہ ۔روہالوجی ۔درنگ او نور شاعر غنی خان ۔جبکہ ان گنت کتب پر مقدمہ اور تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں ۔
صاف ستھرے خیالات کھلے ذہن کے راج ولی شاہ خٹک یاروں کے یار اور دوستوں کے دوست تھے ۔ ادبی محفلوں میں ہرایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے آپ میں محبت وپیار کاجذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہواتھا ۔
قول وفعل میں تضادنہیں رکتھے ۔آپ نے دورنگی سے پاک زندگی گزاری ۔
آپ نے قابل فخرغزلیں لکھیں
جن میں پختون کلچراورپختون تہذیب وتمدن کاعکس نمایاں ہے ۔
ادبی سرگرمیوں کیلئے آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔
پشتوزبان و ادب کے عظیم شاعر خوبصورت لفظوں کے جادوگر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک عیدالفطر کے چھوتے روزاپنے بیٹوں کے ہمراہ سوات امن مشاعرکیلئے گئے تھے ۔ واپسی پرملاکنڈٹاپ کے پہاڑوں میں دل کا دورہ پڑا جوجان لیوا ثابت ہوا راج ولی شاہ 63سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر خالق خقیقی سے جاملے ۔
ہزاروں شاگردوں اور چاھنے والوں کوداغ مفارقت دئیےگئے ۔
آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں آشکبارآنکھوں سامنے سپرد خاک کر دیا گیا ۔
تحریر ۔ منورشاہ منور
03139502131

تحریرمنورشاہ منور(عنایت اللہ ضیاءکی ادبی خدمات)پشتوزبان وادب کےنامورشاعرادیب ۔افسانہ نگار اور ریڈیوپاکستان کاجاناپہچانان...
22/07/2025

تحریرمنورشاہ منور
(عنایت اللہ ضیاءکی ادبی خدمات)
پشتوزبان وادب کےنامورشاعرادیب ۔افسانہ نگار اور ریڈیوپاکستان کاجاناپہچانانام عنایت اللہ ضیاءکسی تعارف کےمحتاج نہیں ۔جوگلستان ادب کی ابیاری میں بہت اہم کردار ادا کررہےہیں ۔عنایت اللہ ضیاءکاتعلق چغرمٹی اصحاب باباکےایک ممتازگھرانےالکوزئی افغان سے ہے آپ 5اپریل 1956کوپیداہوئے۔ آپ کے والدمحترم کااسم گرامی خان بہادرخان تھا۔جوسابق سٹیشن ڈائریکٹرریڈیوپاکستان پشاورمحبوب علی خان کےبڑےبھائی تھے۔عنایت اللہ ضیاءکی مادری زبان پشتوہے۔مگرآپ کواردو انگریزی پربھی مکمل عبورحاصل ہے۔آپ نےمٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول متھراسےحاصل کی ۔گریجویشن گورنمنٹ کالج پشاورجبکہ ایم اےپشتوکی ڈگری پشاوریونیورسٹی سےحاصل کرنےمیں کامیاب ہوئے۔ضیاءکوبچپن ولڑکپن سےشعروشاعری سےقلبی لگاوہے۔ آپ دل کی اتہاگہراہیوں سےسوچتےہیں اورسپردقلم کرتےہیں ۔آپ ریڈیوپاکستان پشاورمیں 1982کوبھرتی ہوئے۔اورڈپٹی کنٹرولرکےعہدےتک جاپہنچے۔عنایت اللہ ضیاءایک شاعرادیب کےعلاوہ ایک بہترین افسانہ نگاربھی ہیں۔آپ ادبی ذوق کوزندہ رکھنےکیئے ادبی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیتےہیں ۔آپ نےبہت خوبصورت افسانےتحریرکیےہیں جوبہت مقبول ہوئے۔آپ کےایک افسانوں کی کتاب کانام ۔زماافسانے۔جوقابل دیدلائق مطالعہ کتاب ہے۔یہ کتاب تین حصوں پرمشتمل ہے ۔پہلاحصہ مازیگری سوری۔دوسراحصہ۔ٹالونہ ۔جبکہ تیسراحصہ لیونےپہ شیش محل کے شامل ہیں ۔قابل رشک بات تویہ ہے کہ زماافسانےکتاب اس لئےاہم ہےکہ یہ افسانوں کےکلیات کےطورپرسمجھی جاتی ہے۔اس کےعلاوہ آپ کےشائع کردہ کتابوں میں دہ سحرزیری ۔منظوم کلام غزلےمزلے۔منظوم ریخمین ریخمین ۔جم جامونہ منظوم کلام ہے ۔آپ کےافسانوں میں اپنےمعاشرےکیلئےایک پیغام ہے ۔آپ بہت حساس ذہین کےمالک ہیں جودیکھتےمحسوس کرتےہیں فورا سپردقلم کرلیتےہیں ۔ضیاءکواپنی مٹی سےقلبی لگاوہےیہی وجہ ہےکہ کافی حدتک معاشرےکی فلاح اورترقی کیلئےکوششیں کرتےہیں ۔آپ میں انسانیت سے محبت کاجزبہ کوٹ کوٹ کربھراہواہے ۔سچ تویہ ہے کہ آپ نے پشتوادبی بورڈکیلئے ہمیشہ اپنی توانائیاں صرف کی ہے رسالہ تاترہ کےمدیربھی رہے آپ نےپشتوزبان اورادب کیلئے بیش بہاہ کارنامےسرانجام دیئے اورہمیشہ زبان وادب کی ترقی کمربستہ رہتےہیں ضیاءکےدوبیٹےاورچاربیٹاں ہیں بڑابیٹاوسیم اللہ اورچھوٹاامراللہ خان ہےجوزیورتعلیم سےآراستہ ہے حقیقت یہ ہےکہ عنایت اللہ ضیاءایک پرکشش شخصیت کےمالک ہیں قول اورفعل میں تضادنہیں رکھتے صفائی پسندہیں اورصاف ستھری عادات کوپسندکرتےہیں ۔جوبات دل میں وہی بات زبان پرلاتےہے ۔اسی وجہ سےآپ کومعاشرےمیں ایک ممتازمقام حاصل ہے۔ آپ کی زندگی سےہمیں یہ پیغام ملتاہےکہ زندہ قومیں اپنی زبان کی ترقی کیلئے ہروقت کوشاں رہتی ہیں ۔

تحریر۔
منورشاہ منور03139502131

اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا پشاورپشاور18جولائی 2025خیبر پختونخواکے ممتاز کالم نگاروں اور قلمکاروں کی نما...
18/07/2025

اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا پشاور
پشاور18جولائی 2025

خیبر پختونخواکے ممتاز کالم نگاروں اور قلمکاروں کی نمائندہ تنظیم اباسین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن کا اہم مشاورتی اجلاس تنظیم کے صدر ضیاء الحق سرحدی کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اورجملہ ارکان نے بھر پور شرکت کی۔ اجلاس میں ایکوا کو مزید فعال اور متحرک بنانے کیلئے اہم فیصلے کئے گئے۔ شرکائے اجلاس کو بتایا گیا کہ الحمدللہ ایکوا ایک رجسٹرڈ اور فعال ایسوسی ایشن ہے جس کا جلد باضابطہ بینک اکاونٹ کھولا جائے گا تاہم ایسوسی ایشن تا حال اپنی مدد آپ کی بنیادوں پر اپنی علمی و قلمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اس لئے تنظیم کا ہر رکن مقررہ ماہانہ چندہ کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ اجلاس میں ان ارکان ایسوسی ایشن کو آخری اور حتمی طور پر پیغام دیا گیا جو عرصہ دراز سے نہ تو ماہانہ چندہ ادا کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اخبار میں ان کے مستقل کالم شائع ہوتے ہیں ،وہ ایکوا کے اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ چندہ جمع کرائیں اور باقاعدگی سے اخبارات میں کالم لکھیں بصورت دیگر انہیں ایسوسی ایشن کی رکنیت سے خارج کر دیا جائے گا۔ شرکا سے التماس کیا گیا کہ وہ اتحاد و اتفاق کا دامن مضبوطی سے تھام کر مشاورت اور معاونت کے عمل کو یقینی بنائیں اور اپنی مخلصانہ، پر امن اورپراثر علمی وقلمی سرگرمیاں زور و شور سے جاری رکھیں، اجلاس میں موجودہ ارکان نے باقاعدہ ماہانہ چندہ جمع کرایا۔ تنظیم کے صدر ضیاء الحق سرحدی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ کالم نگار کسی بھی معاشرہ میں بصیرت افروز آنکھوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اپنے تجزیات وتبصرہ جات کی صورت قوم کی بہتر رہنمائی فرماتے ہیں۔ ہم آج ایک مرتبہ پھر اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم ایک پر امن معاشرہ کے قیام اور اداروں کی تطہیر و اصلاح کیلئے اپنا کلیدی کر دار ادا کریں گے۔ احسن طریقہ سے اعلی حکومتی کارکردگی کی پذیرائی اور معاشرتی ناہمواریوں کی نشاندہی پورے سچ کے ساتھ کرتے رہیں گے انہوں نے صوبائی حکومت کی طرف سے تنظیم کے کالم نگاروں کو ایکریڈیشن کا رڈز کے اجرا اور مستقبل میں میڈیا کالونی میں آسان اقساط پر پلاٹ مہیا کرنے کے مستحسن فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ دراصل کالم نگار بھی بحر صحافت ہی کے شناور ہوتے ہیں جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پھر اپنے تبصروں اور کالموں کے ذریعے قوم کی بہتر رہنمائی کرتے ہیں۔اجلاس میں ایکوا کے سینئر نائب صدر،ممتاز صحافی، کالم نگار، شاعر نیئر سرحدی، سیکرٹری فنانس وسیم شاہد، ڈاکٹر عالمگیر آفریدی، صاجزادہ طلحہ سعید ایڈ ووکیٹ ،سید منورشاہ منور اور عبد الاول خان نے اپنی اہم اور موثر تجاویز پیش کیں جو یقینا ابا سین کالم رائٹرز ایسوسی ایشن کی فعالیت اور تعمیر و ترقی میں اہم ترین اور کار آمد ثابت ہوں گی۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ ہر کالم نگار قومی وعلاقائی اخبارات میں ہرہفتہ اپنا ایک کالم ضرور شائع کرائے گا۔ایکوا کا ایک نمائندہ وفد جلد گورنر اور وزیر اعلی خیبرپختونخوا سے ملاقات کر کے خیبرپختونخوا میں امن سمیت دیگر معاملات اور عوام کو در پیش مسائل سے ان اعلی شخصیات کو آگاہ کرے گا تاکہ ایکوا کا قلمی جہاد جاری رہ سکے۔
جاری کردہ
سیکرٹری اطلاعات
ایکوا پشاور

تحریر ۔منورشاہ منوراصحاب بابازیتون بانو کی حیات وادبی خدمات زیتون بانوکاشمار ان باصلاحیت اورباہمت خواتین میں ہوتاہےجنہوں...
15/07/2025

تحریر ۔منورشاہ منوراصحاب بابا
زیتون بانو کی حیات وادبی خدمات
زیتون بانوکاشمار ان باصلاحیت اورباہمت خواتین میں ہوتاہےجنہوں نےپشتون معاشرےمیں اپنےلئےایک خاص مقام اورپہچان بنایاہے ۔زیتون بانوتپہ خلیل کےمشہورگاوں سفیدڈھیری میں 18جون1938کوپیداہوئیں ۔
آپ کےوالدمحترم کانام پیرسلطان محمود اور داد کااسم گرامی سیدعبدالقدوس تھا۔جن کاادبی تخلص تندرتھا۔جوپشتوزبان وادب کےمشہورادیب اورمایہ نازشاعرتھے۔ زیتون بانوبچپن سےانتہائی ذہین تھیں ۔آپ نےابتدائی تعلیم اسلامیہ کالجیٹ سکول سےحاصل کی ۔جبکہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنےکیلئےآپ نےالزبتھ گرلزہائی سکول پشاورکاانتخاب کیا۔
وہاں سے1955میں آپ نےمیٹرک کاامتحان پاس کیا۔آپ نےمزیدتعلیم حاصل کرنےکیلئےگورنمنٹ فرنٹئیرکالج کارخ کیا۔آپ نےوہاں داخلہ لےلیا۔والدین اُسےایف ایس سی (F S C)کروانےکےبعدمیڈیکل کالج بھیجنےکےخواہشمندتھے ۔لیکن بدقسمتی سے آپ مسلسل علیل رہنےکی وجہ سےریگورتعلیمی سفرجاری نہ رکھ سکیں ۔ یہ سچ ہےکہ آپ بڑی باہمت تھیں بلندحوصلوں کی بدولت پرائیویٹ سطح پر1958میں ایف اے(FA)اور1963میں بی اے(BA)کےعلوم پردسترس حاصل کی آپ نےایم اے(MA) پشتواورایم اے (MA)اردوکی اسنادبھی حاصل کیں ۔
زیتون بانوکو1968میں ریڈیوپاکستان پشاورمیں ملازمت کاموقعہ مل گیا اورآپ پروگرام پروڈیوسربن گئیں ۔یہاں پرآپ کےاحساسات میں نکھارپیداہوا۔آپ پشتوپروگرام جن کانام تھا
(دہ خوئندوپروگرام )نشرکرتی رہیں ۔کچھ عرصہ بعدآپ نےریڈیوکواپنااستعفیٰ پیش کیا اوردرس وتدریس کےشعبےسےمنسلک ہوگئیں ۔اورکانونٹ سکول پشاورمیں اپنی خدمات دینےلگیں ۔یہاں پرآپ نےقوم کی بچیوں ک ذہنی نشوونمامیں بہت اہم کرداراداکیا۔ اس کے بعدپھرآپ نےپشاورپبلک سکول اینڈکالج میں اپنی خدادادصلاحیتوں کالوہامنوایا۔ قدرت نےآپ کوبہترین حافظہ سےنوازاہے۔
یہی وجہ یے کہ آپ نےپشتوافسانہ کےمیدان میں بہت بڑانام کمایاہے ۔قابل رشک بات تویہ ہے کہ آپ نےپشتوافسانوں کااردوترجمہ بھی ہوچکاہے۔
زیتون بانوپشتوزبان وادب کی قابل فخرشاعرہ قابل دادناول نگار اوربہترین ڈرامہ رائٹرہیں ۔سچ بات تویہ ہےکہ آپ نےریڈیوپاکستان پشاورکیلئےبہت فیچرکئی نصیحت آموزڈرامے لکھےہیں جوریڈیوپاکستان سےنشرہوتےہیں ۔حقیقت تویہ ہے کہ زیتون بانونےمظلوم اوربےبس عوام کی منظرکشی بہت اچھےاندازمیں کی ہے۔آپ نےاپنےافسانوں اورشاعری میں معاشرےکی خوبیوں اوربرائیوں کاواضح الفاظوں میں ذکرکیاہے۔آپ کی بہترین تصانیف پراباسین ارٹس کونسل اور رائٹرگلڈکےعلاوہ دیگرادبی اداروں نےآپ کوایوارڈزسےنوازا۔
ذیتون بانوکوشاعری میں مخصوص مقام اورپہچان حاصل ہے۔زیتون بانو ممتازشاعرادیب تاج سعیدصاصب کی شریک حیات ہے جومقامی اخبارمیں کالم نگارتھے ۔جنہوں نےادبی حلقوں میں قابل قدرمقام بنایاتھا۔جوہردلعزیزشخصیت تھے۔ادب تاج سعیدکااؤڑھنابچھونا اورمعاش کاوسیلہ تھا۔
زیتون بانو اورتاج سعیدنے(موسم بہار)1983میں شہرپشاورمیں ایک فمیلی مگزین (جریدہ)جاری کیاتھا۔
تاج سعیدکا2004میں انتقال ہواہے۔
زیتون بانونےادب کی گرانقدرخدمات جاری رکھیں آپ کی کتابوں کی تعدادسترہ (17)تک پہنچ گئی زیتون بانونےاگرایک طرف پشتوادب میں اپنا لوہامبوایاہے تودوسری طرف اردوادب میں بھی اپناایک مقام بنایاہے ۔آپ کی شائع شدہ کتابوں میں سلگی سوغات ۔دوست اورمنجیلہ شعری مجموعےشامل ہیں ۔اس کےعلاوہ افسانوں مجموعہ میں مات بنگڑی ۔زوندی غمونہ ۔خوبونہ ۔نیزہ وڑی ۔زماڈائری۔اردوافسانوں میں شیشم کاپتہ ۔موسموں کی بازگشت اردوناول میں برگ آروز۔جبکہ اردوافسانوں میں برگ سایہ۔قابل ذکرہے۔
پشتوڈراموں کامجموعہ کچکول۔خوشحال شناسی ۔اور رحمان شناسی قابل مطالعہ کتابیں ہیں۔
14دسمبر2021کوعلم وادب کی روشن شمع بجھ گئی
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
خواتین لکھاریوں کی سرخیل زېتون بانو المعروف موربی بی کی نماز جنازه بروزبدھ صبح 10 بجے اسٹوڈنٹ اکیڈمی اسکول، عاشق اباد ، یوسف کارخانه اسٹاپ، بالمقابل خیبر گرائمر اسکول ورسک روڈ پشاور میں ادا کی گئی ۔
آپ کی زندگی سےہمیں یہ پیغام ملتاہے کہ مسلسل ہمت اورکوشش ہی انسان کوکامیابی سےہمکنارکرسکتی ہے۔

تحریر منورشاہ منور(ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک )حیات وخدماتگلستان ادب کے نامورسپوت اورپشتوزبان  وادب کے مایہ ناز شاعرادیب محقق ...
14/07/2025

تحریر منورشاہ منور
(ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک )حیات وخدمات
گلستان ادب کے نامورسپوت اورپشتوزبان وادب کے مایہ ناز شاعرادیب محقق بلندپایہ نقادڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک کاشماراُن شخصیات میں ہوتاہے جنہوں نے اپنی زبان اپنی ثقافت اوراپنے ذیس سے بے لوث محبت انتھک شبانہ روزمحنت سے گلستان ادب کو معطروتازہ رکھنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بھروئے کارلائیں ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک ضلع نوشہرہ کے معروف گاوں ڈاک اسماعیل خیل میں نامور شخصیت قدیم شاہ کے گھر آنگھن میں 24جنوری1952میپ جنم لیا۔
آپ نے دینی تعلیم امام مسجد ابتدائی تعلیم گاوں کے سکول سے حاصل کیا ۔
آپ بچپن سے حصول تعلیم کے شیدائی تھے یہی وجہ ہے کہ 1968میں مٹرک کےبعداسلامیہ کالج پشاور اورپھر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا ۔
آپ 1973میں تھرڈائر کے طالب علم تھے کہ والدین آپ کے سرپر شادی کاسہرا دیکھنا چاھتے تھے یوں آپ رشتہ اذدواج میں منسلک ہوئے ۔
1975میں بی اے (BA).اس کےبعد1977میں پشاوریونیورسٹی سےفرسٹ ڈویژن میں ایم اے(MA)پشتو اور1985میں پی ایچ ڈی (PHD)کی ڈکری حاصل کرنے میں کا میاب ہوئے ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک کی مادری زبان پشتو تھی لیکن آپ کو اردو انگلش پر مکمل عبو ر اور ملکہ حاصل تھا ۔
تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کاشمارذھین طلبأ میں ہوتا تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اورادبی میدانوں میں آپ نے اب تک تمغہ امتیاز ۔ ایم پشتو گولڈ مڈل ۔بین الاقوامی ادبی کنونشن کاایواورڈ ۔پختون رولی ایوارڈ ۔اورخاص طور پر جنوبی أیشیأ کاٹیلینٹڈ ایواورڈاپنے نام کرچکے ہیں ۔
آپ میں خداداد صلاحیتیں بدرجہ اتم موجودتھیں ۔
قدرت نے آپ کو دل ودماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔
آپ ایک بیداز مغزاور زرخیزذھن کے ملک تھے ۔
حقیقت تویہ ہے کہ آپ اپنی تعلیمی وادبی سرگرمیوں کے ساتھ ایڈورڈ کالج پشاور میں1976تا1978تک پشتو اور اسلامیات کے لیکچرار بھی رہے ہیں ۔
پشاور یونیورسٹی میں زبان وادب سے متعلقہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کےبھی استادرہ چکے ہیں ۔
سچ تویہ ہے آپ کاکمال بے مثال طریقہ تدریس تھا
آپ معمارقوم بن کر نونہالان قوم کوجس اندازسے معاشرے کامفیدشہری بنایا اس کی مثال نہیں ملتی ۔
آپ ایک نرم خو نرم طبعیت اورملنسارانسان کے پر جانے جاتے تھے ۔
کسی کیلئے دل میں نفرت کے جذبات نہیں رکتھے ۔
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک نے 1995سے2004تک پشتواکیڈمی کے ڈائریکٹرکی حیثیت بھی نمایاں خدمات سرانجام دئیے ہیں
آپ نے کئی فاضلانہ مقالے بھی تحریرکیں ہیں جو اردو انگیریزی کے بیشمار اخبارات وسالوں میں شائع ہوئے ۔
آپ بڑے دراندیش ۔معاملہ شناس اور نام ونمود سے بیزارانسان تھے قابل ستائش بات تو یہ ہے کہ آپ پشتوزبان کے واحدسکالر ہیں جن کوریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پوسٹ ڈاکٹرل سٹڈیزکیلئے فل برائٹ سکالرشپ سے نوازاگیا ۔
سال 2007میں امریکہ کی مشہوریونیورسٹی آف پنسلوانیا فلاڈلفیا میں کامیابی کیساتھ روہالوجی ۔ پشتونوں ان کی ثقافت تاریخ اور زبان و ادب سے متعلق تحقیقی مقالہ تحریرکیا آپ نے قیام امریکہ کے دوران مختلف ریاستوں اورشہروں میں لیکچر دیئے جن میں قابل ذکرنیویارک ۔واشکٹن ڈی سی ۔ اونیانٹار ۔اوہاہو ۔ جوزے ۔ شکاگو ۔ لا س اینجلنس ۔اسان ۔ فرانسکو وغیرہ شامل ہیں
ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک نے ہرجگہ ہرفورم پراپنی تہذیب اپنی ثقافت کواجاگرکیاہے ۔
قابل تحسین بات تو یہ ہے کہ آپ نے ہرجگہ اپنی خداداد صلاحیتیوں کالوہامنوایا ہے ۔
آپ نے پشتو زبان وادب کی ترقی وترویج کیلئے کوئی نہیں چھوڑی ۔کئی ادبی جرگوں کی داغ بیل ڈالی ۔ جن سے نوجوان نسل میں اپنی ماں بولی زبان سے محبت کاجذبہ بیدارہوا ۔
آپ پشتو زبان کے بے بدل شاعر اورنقادتھے ۔
شاعری میں ولی تخلص رکتھے ۔ آپ کو اگر غزل کاشاعر کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا یہی وجہ ہے ۔کہ آپ کو بابائے غزل امیرحمزہ خان شنواری غنی خان اور قلندرمومند سے قربت کاشرف بھی حاصل رہا اس لئے آپ اکثر نجی محفلوں میں ان ذکر بڑے احترام اورفخرکے ساتھ کرتے تھے ۔
ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک ایک ماہرنشانہ باز فٹ بال کے بہترین کھلاڑی اورجہاندیدہ شخصیت کے مالک تھے
عالمگیر شہرت کے حامل راج ولی شاہ نے بارہ کے کتب سینکڑوں کتابوں پر دبیاچے اوربین الاقوامی شہرت کے حامل رسالوں میں 80کے قریب تحقیقی مقالے چھپ چکے ہیں آپ کی تخلقیات میں
د پشتو ادبی تحریکونہ ۔ زیست روزگار فقیرجمیل بیگ ۔مناقب فقیر۔ دپشتوژبہ لغت ۔ درحمان بابا پہ شعر ۔ ہیرآف ٹیچ پشاور ۔توری چہ رنڑا کوی ۔روھی متلونہ ۔روہالوجی ۔درنگ او نور شاعر غنی خان ۔جبکہ ان گنت کتب پر مقدمہ اور تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں ۔
صاف ستھرے خیالات کھلے ذہن کے راج ولی شاہ خٹک یاروں کے یار اور دوستوں کے دوست تھے ۔ ادبی محفلوں میں ہرایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے آپ میں محبت وپیار کاجذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہواتھا ۔
قول وفعل میں تضادنہیں رکتھے ۔آپ نے دورنگی سے پاک زندگی گزاری ۔
آپ نے قابل فخرغزلیں لکھیں
جن میں پختون کلچراورپختون تہذیب وتمدن کاعکس نمایاں ہے ۔
ادبی سرگرمیوں کیلئے آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔
پشتوزبان و ادب کے عظیم شاعر خوبصورت لفظوں کے جادوگر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک عیدالفطر کے چھوتے روزاپنے بیٹوں کے ہمراہ سوات امن مشاعرکیلئے گئے تھے ۔ واپسی پرملاکنڈٹاپ کے پہاڑوں میں دل کا دورہ پڑا جوجان لیوا ثابت ہوا راج ولی شاہ 63سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر خالق خقیقی سے جاملے ۔
ہزاروں شاگردوں اور چاھنے والوں کوداغ مفارقت دئیےگئے ۔
آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں آشکبارآنکھوں سامنے سپرد خاک کر دیا گیا ۔
تحریر ۔ منورشاہ منور
03139502131

پروفائل ۔تحریرمنورشاہ منور(سیدممتازعلی شاہ حیات وخدمات)فنکارکسی بھی معاشرےکااثاثہ ہوتےہیں۔جومحنت شاقہ کےذریعےاپنی صلاحیت...
12/07/2025

پروفائل ۔
تحریرمنورشاہ منور
(سیدممتازعلی شاہ حیات وخدمات)
فنکارکسی بھی معاشرےکااثاثہ ہوتےہیں۔جومحنت شاقہ کےذریعےاپنی صلاحیتوں کےجوھردکھاتےہیں ۔جس کی وجہ سےعوام بھی ان کےمداح ہوتےہیں ۔ایسےہردلعزیزفنکاروں میں ایک منفردنام سیدممتازعلی شاہ کابھی ہےجوایک قابل رشک فنکارکےساتھ اچھےشاعربھی تھے۔جنہوں نےپی ٹی وی اور ریڈیوپاکستان پرادکاری کےجوہردکھائےجس کےاعتراف میں حکومت پاکستان نےانہیں صدارتی ایوارڈ سےبھی نوازاگیاتھا۔اپنی خدادادصلاحیتوں کےبل بوتےپرآپ نےمعاشرےمیں ایک نمایاں مقام اورنام حاصل کیاتھا۔سیدممتازعلی شاہ پشاورنواحی علاقہ سفیدڈھیری (سپینہ وہ ڑئی )میں 11مارچ 1933کوسیدحسین شاہ کےآنگن میں آنکھ کھولی۔آپ اھل سادات خاندان کےچشم وچراغ تھے۔آپ کےوالدمحترم سیدحسین شاہ برطانوی حکومت میں سرکاری ملازم تھے۔آپ کی ماں بولی زبان پشتوتھی جبکہ اردوبھی روانی کےساتھ بول اورلکھ سکتے۔آپ اپنےگاوں میں پیراورباچاجی کےنام سےبھی شہرت رکھتے۔
خوبصورت انداز اورآوازشیرین زبان لب ولہجہ کےنرم خو فنکارممتازعلی شاہ نےابتدائی تعلم اپنےگاوں سےحاصل کی جبکہ دینی علوم مقامی مسجدامام صاحب سےحاصل کی۔
آپ ایک کھرےانسان ہونےکےناطےہرجگہ پسندکیاجاتے۔آپ نےریڈیوکےسینکڑوں ڈراموں میں حصہ لیاہےاورصداکاری کےجوھردکھائے۔جن میں قابل ذکرڈرامے۔آسمان ۔منجاری ۔(پنجاری)خکلہ ۔اورچغہ ۔شامل ہیں۔
جوبہت مقبول ڈرامےتھے۔اس کےعلاوہ پی ٹی وی ۔خیبرٹیلی ٹی وی کےلاتعدادڈراموں مں خوبصورت کرداراداکئےہیں ۔آپ نےسب سےپہلےڈرامےمیں جوکام کیااس میں صرف دوالفاظ تھے۔جس کامنظریہ تھاکہ لوگ حجرےمیں بیٹھےہوئےتھےایک آدمی نےکہا""ھلکہ چلم روڑا""جس پرممتازعلی شاہ نےچلم اٹھاکےسامنےرکھ دی اورکہا;;داچلم ::شاہ صاحب کایہ پی ٹی وی پرپہلہ جملہ تھاپھردیکھتےہی دیکھتےکئی ڈراموں میں اپنےفن کےجوھراورصلاحیتیں دکھائیں۔آپ نےاکثرڈراموں میں مرکزی کرداربھی زبردست اندازمیں نبھایاہے۔
جب 1965کی جنگ چھڑگئی توممتازعلی شاہ نےریڈیوپاکستان پشاورکےمختلف پروگراموں میں حصہ لیاجن کاکوئی معاوضہ نہیں لیا۔ان پروگراموں کی اہمیت اورافادیت کےپیش نظرتاشقندمیں بھارت اورپاکستان کےدرمیان معاہدہ ہون ہونےتک یہ پروگرام براہ راست براڈکاسٹ ہوتےرہے۔ان پروگراموں کاایک آئٹم تھا۔دہ وخت آواز:یعنی وقت کی آواز ۔مذکورہ پروگرام آپ تن تنہاہررات کرتےرہے۔یہ پروگرام دوتین مہینےتسلسل سےنشرہوتارہا۔ حقیقت تویہ ہےکہ آپ جوبھی کرداراداکرتےتھےنیچرل اندازمیں اداکرتےتھےآپ ایک نیچرل فنکارتھے۔جس کی وجہ سےعوام بھی آپ کےگروریدہ ہوتے۔آپ کےجن ڈراموں نےشہرت پائی ہے ان میں قابل ذکر۔ناموس ۔انگار۔اورانتظار۔شامل ہیں جبکہ اس کےعلاوہ اوربھی کئی ڈارمےمقبول ہوچکےہیں آپ عاجزی اور انکساری سےلبریزشخصیت کےمالک تھے یہی وجہ ہے کہ آپ اپنےمداحواں سےبڑی خلوص اورپیارومحبت سےملتے تھے قابل فخربات تویہ ہےکہ سیدممتازعلی شاہ خیبرپختونخواکےواحدفنکارتھےجوگزشتہ 70سالوں سےزیادہ عرصہ ٹی وی ڈراموں میں کام کرچکےہیں ۔جوایک ریکارڈہے اس کےباوجودآپ میں تکبروغرورکاکوئی مادہ نہیں تھا۔شاہ صاحب نےاکثرپشتوڈراموں سیدسرداربادشاہ کےساتھ کام کیاہے جن کافرضی نام سلیم تھا۔شاہ صاحب نےاپنی تہزیب اوراپنی ثقافت کوہرفورم پراجاگرکیاہے۔جہاں آپ کوشوبزکی دنیاسےمحبت تھی وہاں مذہب سےبھی رعبت رکھتےتھے۔صوم وصلوۃ کےپابندممتازعلی شاہ نےدومرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور دونوں مرتبہ حج اکبرنصیب ہواہے۔۔
رقم الحروف نےکئی مرتبہ آپ سے ملاقات کاشرف حاصل کیا۔
سچ تویہ ہےکہ یہ زندگی بھی ایک سٹیج ڈرامہ سے کم نہیں جہاں انسان مختلف کرداروں میں ادکاری کرتاہے۔پیداہوتاہے۔جوان ہوجاتاہے۔اورپھرفوت ہوکرزندگی کااختتام ہوتاہے۔خیبرپختونخوا کےنامورفنکاراورصداکارممتازعلی شاہ اپنی زندگی کی 91بہاریں دیکھنےکےبعد ایک جان لیوامرض کےساتھ لڑتےلڑتےزندگی جنگ ہارگئےآپ کےنمازہ جنازہ میں کثیرتعدادمیں عوام نےشرکت کی آپ کواپنے آبائی قبرستان میں 01.06.2024 بروزہفتہ سپردخاک کردیاگیا۔

شمس الزمان شمس – ایک زندہ جاوید شاعراگر آپ شمس الزمان شمس کے نام سے واقف نہیں تو صرف ان کے دو اشعار سن لیجیے، شاید یہ ال...
02/07/2025

شمس الزمان شمس – ایک زندہ جاوید شاعر

اگر آپ شمس الزمان شمس کے نام سے واقف نہیں تو صرف ان کے دو اشعار سن لیجیے، شاید یہ الفاظ آپ کے دل کے کسی کونے کو چھو جائیں:

> تہ چے پہ بام باندے والاړه وې، تہ چہ تہ کتل
خلق زما پہ ننداره وو، چے ما تہ تا کتل
او
> ھسے پہ خوله وایم چے خہ تیریگی، بغیر لہ تہ وختونہ نہ تیرگی
چے تہ ہم د مینے قدر نہ کڑے، د شمس پہ زړہ باندے بہ سہ تیرگی

پشتو زبان کے ادب میں ایک ایسا نام، جو اپنی منفرد آواز، جذباتی گہرائی اور سادگی سے مزین شاعری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.

ابتدائی زندگی

شمس الزمان شمس کا تعلق ضلع کرک کے مشہور اور علمی گاؤں لتمبر سے تھا۔ وہ اپریل 1923 کو ایک معزز اور زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ملک دوران خان ضلع بھر کی ایک بااثر سیاسی اور سماجی شخصیت تھے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لتمبر میں حاصل کی اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کرک سے کیا۔ بعدازاں انہوں نے محکمہ پولیس میں بطور سپاہی خدمات کا آغاز کیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں، محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے ایس پی کے عہدے پر ریٹائر ہوئے۔ دورانِ ملازمت ملک کے مختلف شہروں میں خدمات انجام دیں۔

ادبی سفر اور شاعری

شمس الزمان شمس کو ادب اور شاعری کا ذوق ورثے میں ملا۔ ان کے والد کو اردو و فارسی اشعار یاد تھے اور چچا دینی مطالعہ رکھتے تھے، جس کا اثر ان کی شخصیت پر گہرا پڑا۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری کا آغاز کیا اور اپنی مخصوص زبان، انداز اور جذبات سے قاری کے دل میں جگہ بنا لی۔

ان کے عہد میں پشتو کے کئی بڑے نام جیسے غنی خان، حمزہ بابا، قلندر مومند اور دیگر شعراء موجود تھے، مگر شمس شمس نے اپنا الگ ادبی مقام بنایا۔

کتابیں/تصانیف

ان کی شعری تخلیقات چار مجموعوں پر مشتمل ہیں:

1. اوښکې او سلګۍ (1976)

2. د للمې ګل (1979)

3. لبِ گُل (اردو مجموعہ، 1980)

4. هغہ سپرلې، هغہ ګلونه (1982) – جس کا دیباچہ معروف ادیب پریشان خٹک نے لکھا۔

اردو شاعری میں بھی ان کا نام نمایاں ہے، حالانکہ کم لوگ اس پہلو سے واقف ہیں۔

وفات

شمس الزمان شمس نے ایک بامعنی، بھرپور اور باوقار زندگی گزاری۔ وہ 28 مئی 2005 کو 82 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

ان کے جانے کے بعد بھی ان کی شاعری دلوں میں زندہ ہے۔
Copy paste

سرزمین داودزئی بمقام چغرمٹی اصحاب باباضلع پشاورپراصحاب باباکانفرس انشاءاللہ بتاریخ 17اپریل 2025بروزجمعرات انشاءاللہ
15/04/2025

سرزمین داودزئی بمقام چغرمٹی اصحاب باباضلع پشاورپراصحاب باباکانفرس انشاءاللہ بتاریخ 17اپریل 2025بروزجمعرات انشاءاللہ

اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن  (رجسٹرڈ) خیبر پختونخوا پشاورپریس ریلیزپشاور 08جنوری 2025ئاباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایش...
09/01/2025

اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن (رجسٹرڈ) خیبر پختونخوا پشاور
پریس ریلیز

پشاور 08جنوری 2025ئ
اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن (ایکوا) کے زیر اہتمام ایسوسی ایشن کے صدر ضیاء الحق سرحدی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اجلاس میں جنرل سیکرٹری عابد اختر حسن ، فنانس سیکرٹری وسیم شاہد ، لیگل ایڈوائزر صاحبزادہ طلحہ سعید ایڈوکیٹ اورایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران منور شاہ منور اور عبدالاول ضیاء کے علاوہ دیگر اراکین نے بھی شرکت کی ۔ اجلاس میں ایکوا کی سرگرمیوں اور جملہ امور کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایسوسی ایشن کی اب تک کی کارکردگی کو بے حد سراہا گیا۔اس موقع پر صدر ضیاء الحق سرحدی نے ایکوا کی جانب سے ارباب محمد عاصم خان کو خیبر پختونخوا حکومت کے میگا پراجیکٹس کا فوکل پرسن تعینات کرنے پر مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی تعیناتی سے پشاور کے بڑے پراجیکٹس کی تکمیل میں ناصرف تیزی آئے گی بلکہ خیبرپختونخوا کے میگا پراجیکٹس کو تقویت ملے گی۔ صدر ضیاء الحق سرحدی نے اراکین کی جانب سے تجاویز و آراء کو ناصرف سراہا بلکہ کابینہ کے متفقہ فیصلہ کے مطابق ایکوا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی منظوری بھی دی گئی چونکہ اس وقت پوری دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے اور سوشل میڈیا کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایکوا ڈیجیٹل پر کام شروع کر دیا گیا ہے اس سلسلے میں بہت جلد تفصیلات منظر عام پر لائی جائیں گی اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے رائیٹرز کیلئے بھی ممبر شپ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بزرگ کالم نگار و صحافی عبدالقیوم صافی صاحب جوکہ آج کل علیل ہیں ان کی صحت یابی کیلئے خصوصی دعا کی گئی کہ اللہ پاک ان کو صحت کاملہ عطاء فرمائے جبکہ ایکوا ممبران کے کارڈز بھی تقسیم کئے گئے۔ واضح رہے کہ اباسین کالم رائیٹرز ایسوسی ایشن صوبہ خیبر پختونخوا کے ممتاز اور مایہ ناز کالم نگاروں کی نمائندہ رجسٹرڈ تنظیم ہے۔ ایکوا سے وابستہ کالم نگاروں کی تحریریں قومی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل اور عوامی الجھنوں کو سلجھانے میں ممد و معاون ثابت ہونگی۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواعلی امین گنڈا پور، وزیراعلی خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے بھی روابطہ کئے جا رہے ہیں تاکہ یہ تنظیم ناصرف حکومتی اقدامات کی آگاہی کو عوام تک پہنچائے بلکہ عوام کی رائے اور تنقید کو بھی حکومتی ایوانوں تک پہنچائے۔ایکوا ناصرف ایک تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ تنظیم حکومت و دیگراداروں کیلئے مشعل راہ ہے کیونکہ کالم نگار ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے نہایت اہم کام کررہے ہیںاور خصوصاً کالم نگار برادری امن کیلئے قلم کے ذریعے اپنا کام جاری رکھے گی کیونکہ کالم نگار صحافت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

20/11/2024

مشہورزمانہ بزرگ غلجومیاں کےبارےمولانامحمدامیرالمعروف مولانابجلی گھرصاحب کابیان

04/11/2024

Address

Garanga Bala P/O ChagharMatti Peshawar
Peshawar
25000

Telephone

+923139502131

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Da Khaora Ow Da Khalq posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Da Khaora Ow Da Khalq:

Share