03/08/2025
تعلیم سے محروم مستقبل: کلی پانیزئی کا بند پرائمری اسکول ایک نظرانداز شدہ حقیقت
رپورٹ: احوال پشین
بلوچستان جیسے تعلیمی پسماندگی کے شکار صوبے میں جہاں ہر بچے کے لیے تعلیم تک رسائی پہلے ہی ایک چیلنج ہے، وہاں پشین کے نواحی علاقے کلی پانیزئی کا بند سرکاری اسکول ایک افسوسناک مثال بن چکا ہے۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول کلی پانیزئی، جو کہ یونین کونسل نالی اچکزئی میں واقع ہے، ضلع پشین کے ضلعی ہیڈکوارٹر سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے، یہ اسکول پندرہ سال قبل اس وقت کے سیاسی نمائندگی کے نتیجے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی سابقہ حکومت کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت اسے علاقے کے لیے ایک بڑی کامیابی سمجھا گیا کیونکہ کلی پانیزئی، جہاں 50 سے زائد گھرانے آباد ہیں اور کل آبادی تقریباً 700 نفوس پر مشتمل ہے، وہاں اسکول کی عدم موجودگی بچوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ اسکول چند عرصہ فعال رہا، بچوں کے لیے خوشی کا باعث رہا اور والدین میں اُمید پیدا ہوئی کہ ان کے بچے بھی علم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں گے۔ مگر یہ خوشی دیرپا نہ رہی۔ کچھ عرصے بعد نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر یہ اسکول بند کر دیا گیا۔ آج، اسکول کی عمارت خاموش کھڑی ہے، نہ اس کے دروازے کھلتے ہیں، نہ گھنٹی بجتی ہے، اور نہ ہی کسی بچے کی ہنسی سنائی دیتی ہے۔
اس اسکول کی بندش کا سب سے بڑا اثر ان معصوم بچوں پر پڑا جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہو گئے۔ درجنوں بچے روز اسکول کے بند دروازوں کو دیکھتے ہیں اور والدین بے بسی سے یہ منظر دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے ہیں۔
ملک میں ہر سطح پر تعلیمی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ہر سال تعلیم کے بجٹ میں اضافہ، اسکولوں کی بہتری، اساتذہ کی تربیت، اور سہولیات فراہم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن کلی پانیزئی کا بند اسکول ان تمام دعووں پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک اسکول جو بنیادی تعلیم فراہم کر سکتا تھا، وہ بند ہو کر تعلیمی نظام کی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔
اہل علاقہ اور تعلیم دوست حلقے حکومتِ بلوچستان، محکمہ تعلیم، اور ضلعی انتظامیہ سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ:
بند اسکول کو فوری طور پر بحال کیا جائے
تدریسی عملے کی تعیناتی کی جائے
بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے
اسکول کی نگرانی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
کلی پانیزئی کا گورنمنٹ پرائمری اسکول محض ایک بند عمارت نہیں، بلکہ یہ علاقے کے سینکڑوں بچوں کے خواب، والدین کی اُمید، اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داریوں کی ایک واضح جھلک ہے۔ اگر اس اسکول کو دوبارہ فعال نہ کیا گیا تو صرف ایک عمارت بند نہیں رہے گی بلکہ ایک پوری نسل علم سے دور کر دی جائے گی۔
بلوچستان جیسے حساس علاقے میں، تعلیم کی طرف ایک قدم پیچھے جانا، ترقی کی سمت دس قدم پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، اور ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس حق کو ہر حال میں یقینی بنائے۔