
01/07/2025
ایک خاتون کے شوہر کے حالات بہت تنگ ہو گئے۔
غربت نے گھر اجاڑ دیا۔ وہ مجبور ہو کر ایک مالدار شخص کے دروازے پر جا پہنچی۔
دروازہ کھٹکھٹایا،
ایک خادم باہر آیا اور پوچھا:
“تمہیں کیا چاہیے؟”
خاتون نے کہا:
“میں تمہارے آقا سے ملنا چاہتی ہوں۔”
خادم نے پوچھا:
“تم کون ہو؟”
اس نے جواب دیا:
“بس اسے جا کر کہہ دو کہ اُس کی بہن آئی ہے۔”
خادم حیران رہ گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے آقا کی کوئی بہن نہیں۔
پھر بھی، وہ اندر گیا اور کہا:
“دروازے پر ایک عورت ہے، دعویٰ کرتی ہے کہ وہ آپ کی بہن ہے۔”
مالدار شخص نے کہا:
“اسے اندر لے آؤ۔”
خاتون اندر آئی،
وہ شخص مسکرا کر، کشادہ چہرے کے ساتھ ملا، اور بولا:
“میرے کس بھائی کی بیٹی ہو، اے اللہ کی بندی؟”
خاتون نے کہا:
“آدم کی بیٹی ہوں… آپ کی وہی بہن ہوں۔”
یہ سن کر اس نیک دل انسان نے دل میں کہا:
“یہ عورت تو بالکل تنہا ہے… واللہ! میں ہی پہلا شخص بنوں گا جو اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا۔”
پھر خاتون نے نہایت مؤثر اور درد بھری آواز میں کہا:
“اے بھائی!
شاید آپ جیسے خوشحال کو نہ معلوم ہو کہ غربت کی تلخی کتنی سخت ہوتی ہے۔
اسی تلخی کی وجہ سے میں اور میرے شوہر طلاق کے دہانے تک جا پہنچے۔
تو کیا آپ کے پاس یومِ تَلاق (قیامت کے دن) کے لیے کچھ ہے؟
یاد رکھیں!
جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ فنا ہو جائے گا، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی ہے۔”
مالدار شخص نے کہا:
“پھر سے کہو۔”
خاتون نے پھر وہی بات دہرائی۔
اس نے کہا:
“دوبارہ کہو۔”
اس نے تیسری بار دہرایا۔
پھر کہا:
“چوتھی بار بھی کہو۔”
اس پر عورت نے کہا:
“لگتا ہے آپ نے میری بات سمجھی نہیں۔
اور بار بار کہنا میرے لیے باعثِ ذلت ہے۔
میں کسی کے سامنے ذلیل ہونا نہیں جانتی۔
تب وہ شخص رو پڑا، اور کہنے لگا:
“خدا کی قسم!
مجھے تمہاری باتوں کا حسن بہت پسند آیا۔
اگر تم اسے ہزار بار بھی دہراتیں، تو میں ہر بار کے بدلے تمہیں ہزار درہم دیتا!”
پھر وہ اپنے خادموں سے مخاطب ہوا:
“اسے دس اونٹنیاں دے دو، دس اونٹنیوں کے جوڑے، جتنی چاہے بکریاں دے دو، اور جو رقم وہ مانگے اس سے بھی بڑھ کر دے دو…
یہ سب یومِ تَلاق (قیامت) کے دن کے لیے۔
*📌پیغامِ حکایت:*
جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ فنا ہو جائے گا، اور جو اللہ کے پاس ہے، وہی باقی رہے گا۔
اللہ کے بندو! فقیروں اور محتاجوں کو مت بھولو…
کیونکہ اللہ بے نیاز ہے… اور ہم سب اُس کے محتاج ہیں،
غور کرو آپ نے قیامت کے دن کے لیے کیا رکھا۔۔۔؟