Zafar Iqbal Chheena

Zafar Iqbal Chheena Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Zafar Iqbal Chheena, Digital creator, Leiah, punjab.

02/07/2025

**کسی کو کافر قرار دینا: ایک دینی و اخلاقی جائزہ**

قرآن مجید کی آیت نمبر 93 سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
**"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"**
ترجمہ: "جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے، اور اللہ نے اس کے لیے عظیم عذاب تیار کیا ہے۔"

یہ آیت ایک سنگین گناہ کی سنگینی کو واضح کرتی ہے، لیکن اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے ایمان اور اس کے انجام کا فیصلہ کرنا انسان کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو کافر کہیں تو اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
شاعر نے کیا خوب کہا:
*مجھے کافر کہو گے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا؟*
*میرا بھی وہی خدا نکلا، تمہارا پھر کیا ہوگا؟*

ہمارے اسلاف دوسروں پر تکفیری فتووں سے گریز کرتے تھے۔ وہ اسلام کی معنوی تعلیمات، دعوتی انداز، اور کھلے دل سے دوسرے اہل علم کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ ان کا یہ مثبت اور خیر خواہانہ رویہ ان کی شخصیت کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے اہل علم جو اپنی غلطیوں کی اصلاح پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ان کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ آج کے دور میں، استاد محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک ایسا دینی بیانیہ دیا ہے، جو تکفیری سوچ، غیر ضروری فتووں، اور بالجبر نظریات کے خلاف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنت و جہنم کے فیصلے، کسی کے ایمان کو تولنا، یا اس کی نیت کو جانچنا ہمارا کام نہیں۔ ان کا یہ علمی کام آنے والی نسلوں کے لیے ایک گراں قدر حوالہ ہوگا، جو تکفیر کی غلط فہمی کو قرآنی دلائل سے منضبط طریقے سے رد کرتا ہے۔

دین ہمیں کسی کو کافر، مشرک، یا مرتد قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، جنہوں نے حق کو اس وضاحت سے پیش کیا کہ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہ رہے۔ شاعر نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
*جب کلمہ گو بھی کفر کی زد میں ہو؟*
*کافر کو کس غرض سے مسلمان کرے کوئی؟*

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وہ ذاتیات پر بات نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ذاتیات پر بات کرنے سے تعصب، بدگمانی، یا غیر ضروری تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اگر ذاتیات پر بات کرنی ہو تو اسے احترام، دلیل، اور دین کے اصولوں کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، وہ اکثر جذبات یا تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ قرآن و سنت کے معیار پر پرکھیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لیے ایک ہی رول ماڈل ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ آپ سے ہمیں جو دین ملا، وہ مکمل اور حتمی ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کی گنجائش نہیں۔ اصل چیز وہ نظریات ہیں جو شخصیات اختیار کرتی ہیں، اور انہیں قرآن و سنت کے معیار پر پرکھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک درست ہیں۔

ہر شخص کا نقطہ نظر اس کے پس منظر، ذہنی استعداد، یا کسی گروہ سے وابستگی سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر عملی، جذباتی، یا پسند و ناپسند کی باتیں ہوتی ہیں۔ دین کے فہم کو سمجھنے اور اسے اپنے لفظوں میں بیان کرنے کا طریقہ ہر شخص کے ماحول، علمی پس منظر، اور ذہنی اپروچ پر منحصر ہوتا ہے۔ ہمارا اصل کام بطور امت دعوت اور تبلیغ ہے۔ مختلف مناہج دین سے متعلق ہیں، لیکن لوگ اپنی ذہنی استعداد یا جذباتی وابستگی کی وجہ سے ان میں سے کسی ایک سے جڑ جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو روایتی سوچ سے نکل کر نئے طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔

دین ایک اصولی زندگی کا تعارف ہے، جو اللہ کی طرف سے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عملی نمونے کے طور پر پیش کیا۔ باقی شخصیات میں خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں اور خامیاں بھی۔ اگر ہم کسی کو معیار بنائیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ معیار سے ہٹ کر ہو، تو ہم حدود سے تجاوز کر جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہم اس کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنے لگتے ہیں، جو غلط ہے۔

بعض لوگ بزرگوں کے احترام میں مبالغہ کرتے ہیں اور ان کی غلط باتوں کی ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے صرف انہی کا دینی فہم حق ہے۔ بزرگوں کی بات غلط بھی ہو سکتی ہے، اور ان کے علم و مرتبے کا احترام کرتے ہوئے ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔ جہاں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ضروری ہے، وہاں ان کے فہم کو قرآن و سنت کے معیار پر پرکھنا بھی لازمی ہے۔ جو شخص خوف خدا رکھتا ہے، وہ اپنی غلطی کو فوراً تسلیم کرتا ہے، توبہ کرتا ہے، اور لمبی چوڑی تاویلیں نہیں کرتا۔ یہی عظمت اور شرف کا اعلیٰ رویہ ہے۔

کسی بزرگ یا عالم سے منسوب غلط باتوں کو پرکھنے کے لیے ان کی مجموعی زندگی اور خدمات کو دیکھنا چاہیے۔ کیا وہ اپنی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے تھے؟ ان کے پیروکاروں نے عملی زندگی میں کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ سب دیکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے نقطہ نظر اور غلطیوں کو سمجھا جا سکے۔ ہمیں اہل علم سے حسن ظن رکھنا چاہیے اور اپنی اصلاح پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اخلاقی طور پر کسی کی نجی زندگی میں جھانکنا منع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، یا بعد کے اہل علم کی نجی زندگی روایات کے سہارے کردار کشی کرنا نہ دین کی خدمت ہے اور نہ ہی اپنے ایمان کے لیے مفید۔

**ظفر اقبال چھینہ**

https://youtu.be/6K_6UZ0GFNQ?feature=shared

30/06/2025

**صراطِ مستقیم صرف قرآنِ عظیم ہے، آئیں ایک مردِ مومن کے درس سے فیض یاب ہوں**

> **وَسَارِعُوٓا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا ٱلسَّمَـٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ**
> *’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (آل عمران: 133)*

ہر لفظ کو سینے میں اتار لو تو بنے بات،
طاقوں میں سجانے کے لیے یہ قرآن نہیں۔

ڈاکٹر ساجد حمید صاحب ایک عظیم عالمِ دین ہیں۔ ان کا حکیمانہ اندازِ تکلم، کشادہ اخلاقی ظرف، اور علم و استدلال مجھے بے حد متاثر کرتا ہے۔ ان کی یوٹیوب پر موجود تمام ویڈیوز اعلیٰ علمی تحقیقات پر مبنی ہیں۔ ان کے درسِ قرآن میں آیات کے باہمی ربط سے استنباط، الفاظ و جملوں کے استعمال کا موقع و محل، اور سیاق و سباق کے تناظر میں کلام کو مجموعی ترازو میں تولنے کا انداز اس قدر شاندار ہے کہ کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ صفاتِ الٰہیہ اور احکامات کا باہمی تعلق ان کے درس میں خدائی معرفت سے لبریز ہوتا ہے۔ ان کے درسِ قرآن سے اللہ پر پختہ یقین نصیب ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے اس صاف و شفاف درس میں انسان نورانی سمندر میں غوطہ زن ہو کر معنوی حیات پا لیتا ہے۔

> ملے گی منزلِ مقصود، یہ ایمان رکھتے ہیں،
> ہم اپنی رہنمائی کے لیے قرآن رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ساجد حمید صاحب کی قرآنِ حکیم میں بیان کردہ صفاتِ الٰہیہ پر 29 مختصر ویڈیوز علمی شاہکار ہیں۔ ان ویڈیوز میں پروردگارِ عالم کا تعارف اس کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کائنات کی پیدائش، اس کی وسعت، اور انسانی زندگی کے مقاصد کو سمجھ لیتا ہے۔ ساتھ ہی، دین کی حکمت اور اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ یہ صفاتی تعارف دل و دماغ کو روشن کر دیتا ہے اور انسان خدا کی محبت میں ڈوب جاتا ہے۔

اسی طرح، ان کی الحاد پر سیریز علم سے بھرپور ہے۔ عصرِ حاضر کے اعتراضات پر ان کی گفتگو خورشید کی طرح چمکتی ہے۔ ان کی تحقیق کا ذوق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خاص علم و حلم انہیں ممتاز بناتا ہے۔ وہ علم کی بنیاد رکھنے والے، شاگردوں کو استاد بنانے والے، اور تقویٰ کے معیار پر زندگی گزارنے والے ایک مخلص داعی ہیں۔ اصحابِ رسول میں سے جو سب سے آگے تھے، قرآن انہیں *سابقون الاولون* کہتا ہے۔ غامدی صاحب کے شاگردوں میں ڈاکٹر ساجد حمید صاحب کی یہی حیثیت ہے۔

انسان علم میں پہلوں کے کندھوں پر کھڑا ہو کر مستقبل کو واضح طور پر سمجھ لیتا ہے۔ کئی بار شاگرد علم میں اپنے استاد سے آگے نکل جاتا ہے۔ ہمارے دور میں ڈاکٹر ساجد حمید صاحب، استادِ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگردوں میں سرِفہرست ہیں۔ ان کی گفتگو انتہائی سلیس اور عام فہم ہوتی ہے۔ میں خود کئی معاملات غامدی صاحب سے نہ سمجھ سکا، لیکن ڈاکٹر ساجد حمید صاحب نے انہیں سادہ اور واضح انداز میں سمجھا دیا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ غامدی صاحب سے بڑھ گئے ہیں، بلکہ یہ بدلتے دور کے زمینی حقائق اور نئی نسل کی سوچ کے مطابق بات کو زیادہ واضح کرنے کا نتیجہ ہے۔ غامدی صاحب کی تعلیمات اور فہم کا یہ اثر ہے کہ ان کے شاگرد اختلافِ رائے میں بھی احترام اور توازن برقرار رکھتے ہیں۔ اپنوں سے اختلاف میں بھی ایک لطف ہے، کیونکہ ہمارا مقصد ہدایت کا پیغام عام کرنا ہے۔

ڈاکٹر ساجد حمید صاحب کے درسِ قرآن کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے، جس میں معاشرے کے مذہبی مسائل کو متوازن انداز میں حل کیا جاتا ہے۔ وہ معاشرے کی سماجی ساخت کو عالمگیریت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، دینی و اخلاقی شعور کو فروغ دیتے ہیں۔ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت عقلی استدلال پر زور دیتی ہے، لیکن ہمارے ہاں مکالمے کا ماحول کمزور، مذاکرات کی آمادگی ناپید، اور تنقیدی تحقیق کا درست جائزہ لینے کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا درسِ قرآن معاشرے کے افراد کو اخلاق و کردار کی اہمیت اجاگر کرتا ہے اور سماج کی تشکیل میں بنیادی اقدار کو مضبوط کرتا ہے۔

ہر پیر کو درسِ قرآن ان کے آفیشل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پر براہِ راست نشر ہوتا ہے۔ آپ شامل ہو کر کمنٹس سیکشن میں سوالات پوچھ سکتے ہیں، جن کے جوابات درس کے آخر میں دیے جاتے ہیں۔

**مدرس:** ڈاکٹر ساجد حمید
**وقت:** شام 5:30 سے 7:00 بجے تک
Join Whatsapp Community:
https://chat.whatsapp.com/Es8u0f7PgkIDljOafV7pQ7

YouTube Channel:
https://youtube.com//

page:
https://www.facebook.com/almawridofficial

**ظفر اقبال چھینہ**

28/06/2025

**مولائے کائنات صرف اللہ تعالیٰ ہے**

اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق، مالک اور مولا ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں:

> **وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ**
> *(سورۃ الانفال، 40)*
> "اور اگر وہ منہ موڑ لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا مولا ہے، وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔"

> **ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ**
> *(سورۃ محمد، 11)*
> "یہ اس لیے کہ اللہ ایمان والوں کا مولا ہے، جبکہ کافروں کا کوئی مولا نہیں۔"

> **قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ**
> *(سورۃ التوبہ، 51)*
> "کہہ دو کہ ہمیں وہی کچھ پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مولا ہے، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔"

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ مولائے کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ صفت صرف اسی کے لیے مختص ہے۔ نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور نہ ہی ان کی اولاد نے کبھی دعویٰ کیا کہ انہیں "مولائے کائنات" کہا جائے یا انہیں وسیلہ بنایا جائے۔ یہ عقیدہ بعض لوگوں کی اندھی عقیدت کا نتیجہ ہے، جو دین کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے اور امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے بھی کائنات موجود تھی، اور ان کے وصال کے بعد بھی اللہ تعالیٰ ہی اسے چلا رہا ہے۔ ان کی اولاد بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکی، لیکن کائنات اسی طرح قائم ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

بدقسمتی سے، بعض مسلمانوں میں قرآن مجید سے براہ راست رہنمائی لینے کا رجحان کم ہو گیا ہے۔ اگر ہم قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ایسی غلط فہمیوں میں نہ پڑیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "مولائے کائنات" کہیں۔ بعض علماء اور فرقہ پرست لوگ متشابہات یا غیر مستند روایات کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ قرآن سے براہ راست استفادہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، کیونکہ اس سے ان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ وہ پیچیدہ تاویلات اور غیر معتبر تاریخی روایات کے ذریعے لوگوں کو دین کی اصل سے دور کرتے ہیں۔

اگر ہم جھوٹی روایات اور غیر معتبر کتابوں پر یقین کرنے کے لیے عقل استعمال کر سکتے ہیں تو اسی عقل کو قرآن مجید سمجھنے کے لیے کیوں نہیں استعمال کرتے؟ بعض مولویوں نے یہ خوف پھیلایا ہے کہ قرآن کو براہ راست سمجھنے سے گمراہی ہوگی۔ اگر یہی بات کوئی غیر مسلم کہے کہ "قرآن سے رہنمائی نہ لو، ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے" تو ہم اسے کفر سمجھیں گے۔ لیکن افسوس کہ بعض پیری و ملائیت اسی طرح لوگوں کو قرآن سے دور کر رہی ہے۔

بعض گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "مولائے کائنات" کہہ کر اپنی فرقہ وارانہ انا کو تقویت دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس محبت کو دوسروں پر زبردستی تھوپنا یا "علی مدد" جیسے نعرے لگوانا دین کا کوئی حکم نہیں۔ قرآن خود فرماتا ہے:

> **لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ**
> *(سورۃ البقرہ، 256)*
> "دین میں کوئی جبر نہیں۔"

نیک ہستیوں کے لیے دعا کرنا ہمارا فرض ہے، لیکن انہیں ایسی صفات سے منسوب کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، درست نہیں۔ آخرت میں تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ قرآن فرماتا ہے:

> **وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ**
> *(سورۃ یونس، 28)*
> "اور جس دن ہم سب کو جمع کریں گے، پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ کھڑے رہو، تو ہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے، اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔"

> **فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ**
> *(سورۃ یونس، 29)*
> "اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے کہ ہمیں تمہاری عبادت کی خبر نہ تھی۔"

> **هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ**
> *(سورۃ یونس، 30)*
> "وہاں ہر نفس اپنے کیے ہوئے اعمال کو جانچ لے گا، اور سب اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے، جو ان کا حقیقی مولا ہے، اور جو کچھ وہ جھوٹ گھڑتے تھے، وہ سب غائب ہو جائے گا۔"

ہمارا ایمان اور عمل قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے۔ کسی شخصیت یا خاندان سے نسبت ہمیں نجات نہیں دلا سکتی جب تک ہم اپنے نفس کی پاکیزگی اور حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید سے براہ راست ہدایت لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

**ظفر اقبال چھینہ**

22/06/2025

**علم، اخلاق اور امتِ مسلمہ: جاوید احمد غامدی کی قرآنی فکر کا عروج**

صحیح رویہ ایک مردِ مومن علم کی کھلی کتاب اور اخلاق و حکمت کا نمونہ ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر پڑھے لکھے افراد کی اکثریت بھی بداخلاقی پر کیوں اتر آتی ہے؟ دوسرے کے موقف کو توجہ سے سننے میں تحمل اور برداشت کی کمی کیوں ہے؟ اختلافِ رائے پر گالم گلوچ اور بدتہذیبی کا مظاہرہ آج اپنے عروج پر ہے۔ ان منفی رویوں کی بنیادی وجوہات میں انسانیت کا احترام نہ کرنا، اخلاقی اقدار کی تربیت کا فقدان اور اختلافِ رائے کے آداب سے ناواقفیت شامل ہیں۔

علم اور اخلاق میں برتری کیا ہوتی ہے؟ زندگی کے تمام دائرے، سماج کی سب پرتیں، فلسفہ اخلاق، مذہبیات عالم، سیاست اقوام، معاشی خودکفالت، معاشرتی اقدار، تاریخِ انسانی اور عالمی منظرنامے سے بہت کچھ سیکھانے والے عظیم محقق و استاد محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو ایک بار بلا تعصب پڑھا اور سنا جائے۔ آخر دینِ اسلام کے حوالے سے ان کی مجموعی فکر کیا ہے؟ دین ہم سے اصل میں کیا تقاضا کرتا ہے؟ اسلام اور خدا کو ماننے والوں کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے اس بے لوث مفسر کو اتنا حق تو دیا جائے کہ ان کا شعوری مقدمہ سمجھا جائے۔ وہ فلسفہ اخلاق کی باریکیوں کو جس احسن اور منطقی انداز سے بیان کرتے ہیں، وہ قابلِ تحسین ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں کے لئے ان کی فکر حسد کا باعث بنتی ہے، جبکہ کچھ اپنے بے سند جذباتی بیانیہ کو ہوا دیتے ہیں۔

پچھلے ڈھائی سو سال سے امتِ مسلمہ فکری انتشار کا شکار ہے۔ غامدی صاحب نے "اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ" کے عنوان سے قرآن و سنت کی روشنی میں دس نکات کی شکل میں ایک جامع حل پیش کیا ہے۔ یہ فکر اب عرب، افریقہ اور دنیا بھر کے اہلِ علم میں گونج رہی ہے۔ یہ بیانیہ فرد، سماج اور ریاست کے احکامات کی درست تفہیم کراتا ہے اور امتِ مسلمہ کے ہر طبقے، قوم اور ملک کو ایک واضح نصب العین دیتا ہے۔ اس بیانیہ کو پڑھے اور سمجھے بغیر تنقید کرنے والوں کی بات سن کر ہنسی آتی ہے۔ ان کی تنقید اکثر کردار کشی، سنی سنائی جذباتی باتوں اور تعصب پر مبنی ہوتی ہے۔ امتِ مسلمہ کے درد رکھنے والے پڑھے لکھے احباب سے گزارش ہے کہ وہ اس سیاسی نقطہ نظر اور ریاست کے حوالے سے غامدی صاحب کی فکر کے دس نکات کا اجمالی خاکہ ضرور دیکھیں۔ اس فکر میں دورِ حاضر کے چیلنجز کے لیے واضح لائحہ عمل دیا گیا ہے۔ جن طبقات کو اس قرآنی فکر سے ہزیمت کا سامنا ہے، وہ اسے بدنام کرنے کے لیے رات دن کوشاں ہیں۔

**پہلا طبقہ** دیسی ملحدین کا ہے، جو اسلام کے پورے ڈسکورس کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن غامدی صاحب کے قرآنی بیانیہ نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اس فکر کو نہ صرف پاکستان بلکہ سمندر پار پاکستانیوں کی اکثریت نے دل و جان سے قبول کیا ہے۔

**دوسرا طبقہ** دین کی سیاسی تعبیر کرنے والوں کا ہے، جو ہر لڑائی کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ جہادی تنظیموں اور تحریکات کو جذباتی نعروں سے ہوا دیتے ہیں۔ ہر جنگ میں کچھ رہنماؤں کو ہیرو اور محروم قوموں کی بہادری کے قصوں کو زبان زدِ عام کیا جاتا ہے۔ قوموں کی لڑائیاں، جو دراصل انا، وسائل، جغرافیائی تنازعات یا علاقائی حالات پر مبنی ہوتی ہیں، انہیں سب مسلمانوں پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواب دیکھے جاتے ہیں، حالانکہ ہر ملک و قوم کی داخلی صورتحال ناانصافی، جبر اور مظلوم عوام کے حقوق سے محرومی سے بھری ہوتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی رپورٹس اور جذباتی تجزیوں سے حیرانی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں غامدی صاحب کا قرآنی اصولِ جنگ و امن انہیں عجیب لگتا ہے، کیونکہ اس سے ان کے چندوں پر چلنے والے منصوبوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہ طبقہ بغیر عمل کی دعاؤں اور میڈیا پر دانشورانہ جہاد تک محدود رہتا ہے۔

**تیسرا طبقہ** اہلِ تصوف کا ہے۔ اگرچہ ان کی اکثریت اپنے اشغال میں مصروف رہتی ہے، لیکن ان کے کچھ چاہنے والے ناسمجھی میں غامدی صاحب کی فکر پر غیر ضروری تنقید کرتے ہیں۔ اسلام میں پیر مریدی کی بجائے استاد اور شاگرد کا رشتہ ہی مستند ہے۔ باقی عجم کے گورکھ دھندوں سے دین کو نقصان پہنچا ہے۔ والدین اور اساتذہ ہی صحیح راہنمائی کرتے ہیں۔ مزارات کی ناخلف اولادوں، جاہل عاملین اور بغیر محنت کے زندگی گزارنے والوں نے دین کو گمراہی کا ذریعہ بنایا۔ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے سچا طالب علم بننا پڑتا ہے۔ جو کتاب اللہ کی راہ دیکھ لے، اسے ڈھونگی پیروں کی کرامات اور جعلی کہانیاں اچھی نہیں لگتیں۔ اللہ نے اپنا تعارف قرآن میں کروایا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت تک کا معجزہ قرآنِ کریم ہے۔ اگر ہماری قرآن سے نسبت نہ ہو، تو دین ہماری خواہشات کا نام بن جاتا ہے۔ غامدی صاحب نے تصوف کی بے اعتدالیوں اور متوازی اقوال پر مبنی غلطیوں کو واضح کیا ہے۔ وہ ان صوفیاء کو سراہتے ہیں جنہوں نے اخلاص اور سچائی سے زندگی گزاری۔ لیکن ہندوستان و پاکستان میں جاہل لوگ تصوف، عشق اور کرامت کی اصطلاحات سے سادہ لوگوں کو مرعوب کرتے ہیں۔ ظاہری اخلاص کی ایکٹنگ سے پیسہ بٹورنے والے دنیا داری میں غرق ہیں۔ اگرچہ بعض اہلِ علم نے اخلاص سے تصوف کو اپنایا، لیکن ان کی زندگیوں میں توازن کا فقدان رہا۔ نتیجتاً، امت قرآن و سنت سے دور ہوئی، اور پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو ناکافی سمجھ کر شخصیات کو مراجع قرار دیا گیا۔ تقلید اور تقدیس نے امت کو غاروں کے دور میں دھکیل دیا، جہاں ہر جدید ایجاد کو بے راہ روی اور قیامت کی نشانی سمجھا گیا۔ دنیا کو مردار اور کافروں کی جنت کہہ کر اس کی ترقی سے دستبردار ہو گئے۔

غامدی صاحب کا پروگرام "اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ" سن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہوئے۔ علم کو حکمت سے بیان کرنا، تمام شریعتوں کے اسرار کو مدنظر رکھ کر اور اسلام کے اصل مآخذ سے استدلال کرتے ہوئے انہوں نے حال و مستقبل کا مربوط بیانیہ پیش کیا ہے۔ اس سیریز سے آپ امتِ مسلمہ کی موجودہ ذہنی حالت اور چیلنجز کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ زرخیز دماغ اور عظیم مفکر ہیں۔ میری نظر میں انہیں محقق العصر، امام وقت اور فقیہہ ملت اسلامیہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

**ظفر اقبال چھینہ**

https://youtu.be/6pA4YsrP39c?feature=shared

18/06/2025

*محنت کے بغیر ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا*

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّـٰهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّـرًا نِّـعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّـٰى يُغَيِّـرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِـمْ ۙ وَاَنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْـعٌ عَلِيْـمٌ (الانفال،53) اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ ہرگز اس نعمت کو نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو دی تھی جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدلیں، اور اس لیے کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

انسان کو اس دنیا میں جو نعمتیں میسر ہیں، ان کے استعمال کا حساب ضرور لیا جائے گا۔ ان میں سب سے بڑی نعمت عقل و شعور ہے۔ عقل و شعور کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے، اپنے وجدان اور بصیرت سے زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش میں تصورِ خدا اور تصورِ آخرت سے بڑھ کر کوئی سوچ نہیں ہو سکتی۔ ان تصورات کے بغیر زندگی کا کوئی مقصد یا معنیٰ سمجھ نہیں آتا۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات فطرت سے ہم آہنگ، سادہ اور واضح انداز میں انسان کی فلاح و نجات کا واحد راستہ دکھاتی ہیں۔ لوگوں کے رویوں اور دنیا کی چکاچوند میں الجھ کر، اپنی خواہشات کی پیروی میں اصلاح سے غافل رہنا اور مذہب کے بنیادی سوالات کی طرف توجہ نہ دینا، سچائی کو جاننے کی معقول کوشش، جستجو یا قدم اٹھائے بغیر زندگی گزارنا بہت بڑا نقصان ہے۔

معاشرے کے وہ شاطر طبقات جو اپنی عقل کا بھرپور استعمال یا ہتھکنڈوں سے لوگوں کو اپنا غلام بناتے ہیں اور ان کے ارمانوں، اموال، تقدیس اور عقیدت کا استحصال کرتے ہیں، ان کی چالوں کو سمجھنے کے لیے غیر معمولی عقل و شعور درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری قوم اپنی جہالت کی وجہ سے پستی کے گہرے گڑھوں میں گرتی جا رہی ہے۔ اعلیٰ شعور کی پہلی نشانی حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ جب ہم بحیثیت قوم اپنی کارکردگی کا جائزہ ہی نہیں لیتے، تو ہمارا اندھا اعتماد اور جمود زدہ ذہنیت ہمیں کبھی ترقی کی شاہراہ یا انسانیت کے اعلیٰ مقامات تک نہیں پہنچا سکتی۔ ہمیں گہرے اور وسیع مطالعے، کھلے مشاہدے، آزاد فکر اور شخصی آزادی کے ساتھ حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ حقیقت پسندانہ سوچ خودغرضی نہیں ہوتی، نہ ہی یہ دوسروں پر بلا جواز تنقید کرتی ہے اور نہ ہی ہر وقت دوسروں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتی ہے۔ ہم دوسروں سے لامحدود توقعات رکھنے کے بجائے خود اس معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

ہماری دلی خواہشات محض آرزوئیں ہیں، جبکہ زندگی کا مقصد اور نصب العین آخرت میں واضح ہوگا۔ محنت کرنے والا انسان، خواہ وہ کسی خطے، قوم یا مذہب سے ہو، مسلم ہو یا غیر مسلم، محنت کے ثمرات سب کے جسم و روح پر یکساں اثر انداز ہوتے ہیں۔ یقیناً کامل کامیابی آخرت میں نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک جیسے جذبات رکھے ہیں۔ عقل، جسمانی ڈھانچہ، سکون و بے چینی سب ایک جیسے ہیں۔ حقیقی مومن خدا اور آخرت کے تصورات میں بلند ہوتا ہے۔ خدا کی اس دنیا میں سنن سب کے لیے یکساں ہیں۔ جو محنت کرے گا، وہ صلہ پائے گا۔ دکھ و سکھ سب کے لیے ایک جیسے ہیں۔ فضیلت تقویٰ کی ہے، جو آخرت کے اعتبار سے ہے۔ مسلمانوں کی یہ غلط فہمی کہ صرف مسلم ہونے سے ہر حال میں فتح و نصرت ملے گی، درست نہیں۔ دنیا میں خدا کی سنتوں سے مراد وہ اصول ہیں جن پر کائنات چلتی ہے۔ یہ فطرت کے قوانین، اخلاقی اصول اور روحانی قوانین پر مشتمل ہیں۔ ان پر عمل کر کے انسان دنیا و آخرت میں کامیابی پا سکتا ہے۔

ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اچھا ہو یا برا۔ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ مشکلات میں صبر و استقامت سے کامیابی ملتی ہے۔ محنت کرنے والوں کو اللہ کامیابی عطا فرماتا ہے۔ انصاف کرنا، ظلم سے بچنا، اللہ کو ایک ماننا، اس کی عبادت کرنا، اچھے اخلاق اپنانا، برے اخلاق سے بچنا، نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور اللہ پر بھروسہ رکھنا، ان سب سے انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے۔

محنت کرنے والوں کو اللہ کامیابی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے محنت سے اپنے معاشروں کو جنت بنا لیا ہے۔ یہ کہنا کہ ترقی کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے، درست نہیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مسلم ممالک ترقی نہیں کر رہے۔ سوشلزم یا دیگر نظریات بھی ناکام ہوئے ہیں۔ ترقی کا تعلق نہ علاقے سے ہے، نہ زبان سے، نہ رنگ سے۔ سادہ سی بات ہے کہ جن قوموں نے محنت کو اپنایا، انہوں نے ترقی کی۔ وہ ممالک کرپٹ ہیں جہاں محنت کا کلچر نہیں۔ صرف وہی ممالک ترقی کر رہے ہیں جہاں محنت عام ہے۔

نبی کریم ﷺ نے جنت میں محنتی کو اپنا ہمسایہ قرار دیا۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی جدوجہد اور محنت سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ جیسا صبر و استقلال انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔ 63 سال کی عمر میں آپ ﷺ نے ایسی کامیابیاں حاصل کیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ ان کامیابیوں میں نصرتِ الٰہی، روحانی اسباب اور فرشتوں کی مدد کے ساتھ آپ ﷺ کی انتھک محنت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں محنتی لوگ کم ہیں۔ اچھی اور بری قسمت کے بہانوں سے ہم نے بہت سی برائیاں پال رکھی ہیں۔ چھوٹے سے معاملے پر بدقسمتی کا رونا روتے ہیں اور اللہ سے شکوہ کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم محنت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ کامیاب قوم کے لیے محنت ناگزیر ہے، خواہ مالی حیثیت ہو، عسکری صلاحیت ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ۔ حالیہ بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور مفت اسکیموں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہے۔ یہ رقم میگا پراجیکٹس پر لگائی جانی چاہیے تاکہ قوم طویل مدتی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ اگر ہم نے صحیح سمت نہ پکڑی اور محنت کو نہ اپنایا، تو اگلے تیس سال میں یہ بڑھتی ہوئی آبادی ہمیں دبا لے گی۔ ہم اس شور، بے ڈھنگی چال اور ناکارہ آبادی کا بوجھ نہ اٹھا سکیں گے۔ قوموں کی تاریخ بدلنے والا کلچر درست پلاننگ اور محنت سے بنتا ہے۔

زندگی تیزی سے گزر رہی ہے۔ قوم کو سمجھنا چاہیے کہ درست پلاننگ اور محنت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ہماری قیادت کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ محنت ہی اصل زندگی اور کامیابی ہے۔ طاقت، دولت، عزت اور لذتیں خوددار قوم ہی اٹھا سکتی ہے۔ اصل خوشی اور قومی جذبہ تب ہوگا جب ہم قرضوں سے آزاد ہوں گے۔ اخلاقی بلندی کا سفر خودداری سے ہوتا ہے۔ جن قوموں کی سوچ اور صلاحیتیں بلندی کی طرف جاتی ہیں، وہی خوشحال اور حکمرانی کے لائق ہیں۔ امن ہو یا جنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری قوم کو اعلیٰ مقام دلا سکتی ہے۔ جنگی ذہنیت اور قوموں کو مٹانے کے خواب فرسودہ ہیں۔ ملت اسلامیہ کو سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہیے۔ کامیابی مختلف عوامل پر منحصر ہے، لیکن محنت، لگن، ذہانت اور مواقع کا درست استعمال اس کی کلید ہے۔ کامیابی کا بہترین تصور قرآن کریم کا دستور ہے۔ پرامن قوموں کا عدل و انصاف، خوشحالی اور بھائی چارہ دنیا میں مقام بناتا ہے۔

**ظفر اقبال چھینہ**

10/06/2025

**دینِ اسلام کی حقانیت کا عظیم داعی: جاوید احمد غامدی**

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّّاحِدَةًۚ فَبَعَثَ اللّـٰهُ النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَۖ وَاَنْزَلَ مَعَهُـمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّـذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُـمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَـهُـمْ ۖ فَهَدَى اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ ؕ وَاللّـٰهُ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (البقرہ،213) سب لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے، اور ان کے ساتھ سچی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس میں اختلاف کرتے تھے، اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہیں لوگوں نے جنھیں وہ (کتاب) دی گئی تھی اس کے بعد کہ ا ن کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر اللہ نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔

لوگ اکثر جاوید احمد غامدی صاحب پر تنقید کرتے ہیں، لیکن ان میں کچھ کا اسلوب ہمیشہ انسان دوست، مہذب، اور عالمانہ ہوتا ہے۔ ان کی تنقید پڑھنے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اکثر ناقدین سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق آگے پھیلاتے ہیں۔ بغیر استدلال سمجھے، بات کو اس کے درست سیاق و سباق میں پیش نہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ میں ملحدین اور دیگر ناقدین کے سامنے چند گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔ شاید میں غامدی صاحب کے مکمل نقطہ نظر کو الفاظ میں سمیٹ نہ پاؤں، لیکن ان سے ہماری محبت، جو دینِ اسلام کی وجہ سے ہے، مجھے ان کے پیغام کو سادہ الفاظ میں بیان کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔

غامدی صاحب کی زندگی کا واحد مقصد قرآن مجید کی حقانیت اور اس کے واضح فہم کو اپنے مسلمان بھائیوں تک پہنچانا ہے۔ وہ ہر وقت الحاد یا دیگر نظریات کو موضوعِ بحث نہیں بناتے، جیسا کہ بعض متعصب ناقدین یا ملحدین کا رویہ ہوتا ہے، جن کے لیے مذہب کو ہر وقت تنقید کا نشانہ بنانا گویا زندگی کا واحد مقصد بن جاتا ہے۔ غامدی صاحب انسانیت کے بنیادی اختلافات اور آزادانہ اقدار کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ لامذہبیت کے حقِ اختلاف کو مانتے ہیں، لیکن ملحدین کے دعووں کو سرے سے درست نہیں سمجھتے۔ ان کا زیادہ زور اپنے مسلمان بھائیوں کو دین کی صحیح تفہیم دینے پر ہے، نہ کہ کسی طبقے کو بحث میں شکست دے کر فاتحانہ انداز اپنانے پر۔

وقت گزرنے کے ساتھ، مسلمانوں نے دین میں کچھ ایسی باتیں شامل کر لی ہیں جو اس کی اصل سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں؛ ہر علم، جیسے کہ فلسفہ یا عمرانی علوم، میں ایسی اضافی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں۔ کچھ لٹریچر ایسی غلط فہمیوں سے بھرا ہوتا ہے جو اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اسی طرح، بعض اسلام پسند ذرائع کے لٹریچر یا تاریخی روایات کو خود دین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حتیٰ کہ قبل از اسلام، دینِ ابراہیمی سے منسلک کچھ فرقوں کی کتابوں کو بھی اسلام کے کھاتے میں شامل کر لیا گیا، جنہیں "اسرائیلیات" کہا جاتا ہے۔ غامدی صاحب ان سب سے ہٹ کر صرف قرآن مجید کا درست پیغام پہنچاتے ہیں۔ ان کا عجز و انکساری، اخلاص، اور اللہ کے لیے لبریز جذبہ انہیں ایک عظیم داعیِ حق اور معلمِ قرآن بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عزت و عظمت میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین۔

غامدی صاحب نے جدید سائنس اور اس کے محققین کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ وہ عمومی گفتگو میں ہر بات پر حوالہ جات پیش نہیں کرتے، بلکہ سیاق و سباق اور مجموعی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ سائنس کی عقل و دانش کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کی حدود سے بھی آگاہ ہیں۔ سائنس کی آخری آرام گاہ، جیسے کہ بگ بینگ تھیوری یا بے جان مادے میں کارفرما قدرت کے قوانین، اس کائنات کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کوئی بھی علم اپنی حدود سے ماورا نہیں جا سکتا۔ انسان اس کائنات میں خدا نہیں بن سکتا، نہ ہی اس پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔

انسان بعض معاملات میں بے بس ہو جاتا ہے۔ یہ بے بسی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کائنات اور زندگی کے حتمی حل کی تلاش کرے۔ ہر سوچنے والا انسان جب کائنات کے ابتدا و انتہا کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، تو وہ مختلف تخمینوں پر اتر آتا ہے۔ کائنات کی حتمی فلسفیانہ حقیقت بیان کرنا اس کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ اس عجز اور بے چارگی کی حالت میں وہ خود کو ایک عظیم تر قوت کے سامنے بے دست و پا پاتا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ایک سائنسدان اسے مادہ کہتا ہے، فلسفی اسے عقلِ کل مانتا ہے، اور مذہبی اسے خدا کا نام دیتا ہے۔ بہرحال، انسان اس کائنات کے سامنے اپنی بے بسی ضرور محسوس کرتا ہے۔

اسلام کے گلشن کا یہ درخشندہ ستارہ شاد و آباد رہے۔ اللہ تعالیٰ غامدی صاحب کی محنتوں سے مغربی اقوام کو دوبارہ اسلام کی روشنی سے منور کرے، اور ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ اسلام کا آفاقی پیغام ہی دنیا کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ قرآن کریم کی صحیح دعوت اس صدی میں باطل نظریات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم معلم کی کاوشوں سے قرآنی پیغام کی حقانیت کو پوری دنیا میں غالب کرے۔ آمین۔

**ظفر اقبال چھینہ**

07/06/2025

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں

ہم نے دل کے زخموں کا علاج تو ڈھونڈ لیا،
مگر گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے۔

دھیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، اور میری اس بیٹی کی خوشی دیدنی ہے۔ میں عموماً تحریر کے ساتھ ویڈیو کلپ لگاتا ہوں۔ عید کے اس موقع پر میری اس بیٹی کی خوشی اور موج میلہ دیکھ کر آپ سب بھی ان خوشیوں سے لطف اندوز ہوں۔

سب احباب کو عید الاضحی کی مبارکباد!

عید کے دن کوئی اپنا ناراض، گلہ شکوہ بھلا کر ملاقات کرتا ہے۔ اس کا محبت بھرا راضی نامہ اور خیال رکھنا عید کی خوشیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اب ایسا کردار رہ کر بھی، اے میری جاں، کہیں نہیں ملتا۔ ایسا رشتہ دار یا دوست جو صاف لفظوں میں آپ کو اچھا نہ سمجھے، مگر آپ آگے بڑھ کر اسے گلے لگائیں۔ یہ آپ کی اخلاقی فتح ہے۔ ٹوٹے رشتوں کو جوڑنا اور بے لوث محبت کا اظہار آپ کے قد میں اضافہ ہی کرتا ہے۔

کسی کا میٹھا لہجہ کچھ دیر کے لیے مسحور کرتا ہے،
اور کسی کا تلخ لہجہ کچھ دیر کے لیے ذہنی سکون برباد کرتا ہے، مگر یہ کسی کو جانچنے کا معیار نہیں۔
دوست ہو یا رشتہ دار، خدا کا خوف رکھنے والے ہوں۔ تو پھر اپنی خوش بختی پر خوشی منائیں۔ ایسے دوست کے ساتھ زندگی بھر کا سفر آسانی سے طے ہو جائے، جو دوسروں کا دل بھی جیتے، پوری حکمت اور دیانت کے ساتھ۔ مثبت سوچ، محبت کے جذبات، دوسروں کے ساتھ معاملات میں انصاف اور عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی ایسے مواقع پر قربانی جیسے اعمال صالحہ کا اعادہ، عید کی حقیقی منشا ہے۔

تمہارے ساتھ ہیں سبھی موسم،
تم نے چاہا تو ہم ہرے رہیں گے۔ 💞

**ظفر اقبال چھینہ**

06/06/2025

**عید پر اجتماعی زندگی کا بے لاگ جائزہ**
ظفر اقبال چھینہ

عید الاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جو خوشی، قربانی، اور رشتوں کی محبت کا پیغام لاتی ہے۔ یہ دن ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اطاعت، ایثار، اور شکر گزاری کا درس دیتا ہے۔ مساجد میں اجتماعی عبادت، نئے کپڑوں کی رونق، بچوں کی عیدی کی خوشی، اور مل بانٹ کر کھانے کی روایت عید کو خاص بناتی ہے۔ لیکن آج کے دور میں عید کی یہ خوشیاں کہیں پس پشت جا رہی ہیں، اور ہمیں اپنی اجتماعی زندگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عید سے پہلے جن خاندانوں کے بچوں یا پیاروں پر کسی قسم کا ظلم ہوا، جن کے عزیز بچھڑ گئے، یا بے گناہ افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کے دلوں پر ماتم کا عمیق اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، معصوم بچوں اور ان کے ورثاء کی زندگی غموں سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد فرمائے اور ظالموں کو اس دنیا میں عبرتناک سزا دے کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔ ہمیں اپنی عافیت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ہر منفی سوچ سے اس کی پناہ مانگنی چاہیے۔

ریں آہ و فغاں پھوڑیں پھپھولے اس طرح دل کے
ارادہ ہے کہ روئیں عید کے دن بھی گلے مل کے

خوشیاں اپنوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں، لیکن جن کے پیارے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، جن کے جگر کے ٹکڑوں کو ان سے چھین لیا گیا، ان کے دلوں کا عالم سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ غموں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس دنیا میں عدل و انصاف کا فقدان خوف کو بڑھا رہا ہے۔ زندگی کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، ضروریات کی تکمیل اور ان گنت خواہشات نے انسان کو الجھا دیا ہے۔ بچپن کی عید کی وہ سادہ اور معصومانہ خوشیاں اب مفقود ہو چکی ہیں، اور وہ راحت آج کہیں نظر نہیں آتی۔

ہماری تہذیب مغرب پرستی کی یلغار میں بہہ گئی ہے۔ میڈیا پر نہ صرف خدا کے وجود کا انکار کیا جا رہا ہے، بلکہ اس کی بھرپور حمایت بھی کی جا رہی ہے۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تہذیب خوفِ خدا، سادگی، اور رشتوں کے احترام پر قائم تھی، لیکن آج ہم مال و دولت اور ہوس کی دوڑ میں مبتلا ہیں۔ معاشرے میں مالی حیثیت اور رشتوں میں اسٹیٹس کو فوقیت دی جاتی ہے، جبکہ انسانی قدروں سے دوری اختیار کر لی گئی ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم ٹوٹ رہا ہے۔ سب روپے پیسے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں، لیکن دل دور ہو گئے ہیں۔ سہولیات بڑھنے کے باوجود کسی کی دوری یا کمی اب دل کو متاثر نہیں کرتی۔ مل بیٹھنے کی وہ پرانی کشش ختم ہو گئی ہے، کیونکہ وہ سادگی پر مبنی روایات اب باقی نہیں رہیں۔ میڈیا، ٹیلی ویژن، اور فون نے لوگوں کو مصروف کر دیا ہے، اور جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، اس میں رشتوں کی بے وفائی اور نئے تعلقات کی طرف رغبت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

نئے رشتے دوسرے خاندانوں سے بن رہے ہیں، جس سے کئی نئے خاندان وجود میں آ رہے ہیں، لیکن سب کے ساتھ وفا نبھانے کا جذبہ ختم ہو گیا ہے۔ آبادی کے اضافے سے علاقے گنجان ہو گئے ہیں، مسائل بڑھ رہے ہیں، اور لوگ نفسا نفسی کے ماحول میں ڈھل رہے ہیں۔ معاش کی تگ و دو میں نہ تو ہمیں اپنے اخلاق سنوارنے کا وقت مل رہا ہے اور نہ ہی رشتوں میں محبت اور وفا نبھانے کی توفیق ہو رہی ہے۔

يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ (المائدہ، 15) اے اہل کتاب! تحقیق تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو بہت سی چیزیں تم پر ظاہر کرتا ہے جنہیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔

قرآن کریم ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور اس سے بڑھ کر احسان کا درس دیتا ہے۔ والدین سے لے کر ہر رشتے کے ساتھ بھلائی کی تلقین کی گئی ہے، لیکن ہم میں سے اکثر ان حقوق کی ادائیگی کا شعور نہیں رکھتے۔ اچھے کردار کو نہ تو سراہا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی قدر کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے نظریات ہم پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اگر ہم قرآن کریم کی تعلیمات سے دور ہیں، تو خوفِ خدا کیسے پیدا ہو گا؟ خوفِ خدا کے بغیر انسان حقوق سے دستبردار ہوتا ہے، ظلم کرتا ہے، اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔

ہماری تہذیب، کلچر مٹ گئ اور قوم یکجا نہیں ہو سکی۔ نہ مذہبی قیادت اور نہ ہی سیاسی قیادت نے لوگوں کو اعلیٰ مقصد کے لیے تیار کرنے کی کوئی تربیت دی۔ ایک زمانے میں خانقاہیں لوگوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ تھیں۔ خدا سے محبت کرنے والے کتنے عظیم لوگ ہوا کرتے تھے! خدا کا سچا تعارف قرآن حکیم میں ہے، لیکن جو شخص قرآن کو نہ سمجھے، نہ سیکھے، وہ عمل کیسے کرے گا؟ اس کی زندگی میں وہ توازن پیدا نہیں ہو سکتا جو خالقِ حقیقی چاہتا ہے۔ رشتوں کی دوری کی ایک بڑی وجہ دین کی اصل تعلیمات سے ہماری دوری ہے۔ ہم دوسروں پر سب کچھ نافذ کرنا چاہتے ہیں، لیکن خود علم و عمل کا نمونہ بن کر دکھانا نہیں چاہتے، کیونکہ ہم اپنے بڑوں اور ماحول سے یہی سیکھ رہے ہیں۔ معاشرے میں اس کی عزت ہے جس کے پاس مال، دولت، یا عہدہ ہے۔

مخلوقِ خدا سے بے لوث محبت، انسانیت کی خیر خواہی، اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کی عزت و وقعت اب معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ رشوت خور افسر، ناجائز منافع خور سرمایہ دار، اور کرپٹ سیاست دان کی عزت ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ برے کردار والوں کے ساتھ جتھہ ہو تو لوگ ان کی عزت کرتے ہیں۔ یہ معاشرے کی مجموعی خرابیاں ہیں جو ہم نے قبول کر لی ہیں۔ ہم نہ اپنی تہذیب کے وارث ہیں، نہ اسلام کی اصل تعلیمات سے واقف ہیں، اور نہ ہی قرآنی فکر کو اپنایا ہے۔ اپنی قوم کی خامیوں کی نشاندہی ایک اہم موضوع ہے، جس پر گھنٹوں بولا اور لکھا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ہزاروں پہلو ہیں۔ عید کا تہوار اجتماعی عبادت اور مل کر خوشیاں سمیٹنے کا موقع ہے۔ ہم ایمان کے ساتھ مالک الملک کا شکر ادا کریں، دینِ اسلام کی عظیم نعمت سے مستفید ہوں، اور اس کے بہترین نمونے دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ دنیا ہمیں امن، سلامتی، اور خیر خواہی کا پیغامبر سمجھے۔ مل بانٹ کر کھانا اور دوسروں کے درد کو محسوس کرنا ہی اسلام ہے، لیکن یہ دینی فریضہ اب ایک بے روح رسم بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے دل پتھر سے بھی سخت ہو گئے ہیں، اور انسانیت ہم میں دم توڑ چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر خیر کی کوئی خبر نظر نہیں آتی۔

اے اللہ! تو ہی ہر درد مند کی آس ہے۔ زخموں پر مرہم رکھنا، صبر جمیل عطا فرمانا، تیرے سوا کون کر سکتا ہے؟ خوشیوں کے وقت غمزدہ خاندانوں کے زخم پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ لفظوں سے ان کے غم کہاں بھر سکتے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ قوم کے لیے بہتر سوچیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، امن و امان کے قیام کے لیے سب تعاون کریں، بچوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، اور نئی نسل کی امنگوں کو بچانا ہم سب پر فرض ہے۔

ہمیں خود پر اعتماد کرنا چاہیے۔ دوسروں کو دوش دینا معقول رؤیہ نہیں، اور دوسروں سے توقعات نہ رکھنے میں ہی کامیابی ہے۔ عید کے اس پرمسرت موقع پر اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے قریبی عزیزوں اور غریبوں کو قربانی کا حصہ پہنچائیں۔ رشتوں کا خیال رکھنے کا یہی بہترین موقع ہے۔ اس مبارک دن پر اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھالیں۔ آپؐ کی ذات رحمت و محبت کا کامل نمونہ ہے، اور آپؐ کی سنت میں فلاحِ انسانیت مضمر ہے۔ زندگی اعلیٰ اخلاق کے سوا کچھ نہیں۔ خدا کی مخلوق سے محبت عام کریں۔ میری طرف سے آپ سب کو عید مبارک!

Address

Leiah
Punjab

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zafar Iqbal Chheena posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share