02/07/2025
**کسی کو کافر قرار دینا: ایک دینی و اخلاقی جائزہ**
قرآن مجید کی آیت نمبر 93 سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
**"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"**
ترجمہ: "جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے، اور اللہ نے اس کے لیے عظیم عذاب تیار کیا ہے۔"
یہ آیت ایک سنگین گناہ کی سنگینی کو واضح کرتی ہے، لیکن اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے ایمان اور اس کے انجام کا فیصلہ کرنا انسان کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی کو کافر کہیں تو اس سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
شاعر نے کیا خوب کہا:
*مجھے کافر کہو گے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا؟*
*میرا بھی وہی خدا نکلا، تمہارا پھر کیا ہوگا؟*
ہمارے اسلاف دوسروں پر تکفیری فتووں سے گریز کرتے تھے۔ وہ اسلام کی معنوی تعلیمات، دعوتی انداز، اور کھلے دل سے دوسرے اہل علم کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ ان کا یہ مثبت اور خیر خواہانہ رویہ ان کی شخصیت کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے اہل علم جو اپنی غلطیوں کی اصلاح پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ان کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ آج کے دور میں، استاد محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک ایسا دینی بیانیہ دیا ہے، جو تکفیری سوچ، غیر ضروری فتووں، اور بالجبر نظریات کے خلاف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنت و جہنم کے فیصلے، کسی کے ایمان کو تولنا، یا اس کی نیت کو جانچنا ہمارا کام نہیں۔ ان کا یہ علمی کام آنے والی نسلوں کے لیے ایک گراں قدر حوالہ ہوگا، جو تکفیر کی غلط فہمی کو قرآنی دلائل سے منضبط طریقے سے رد کرتا ہے۔
دین ہمیں کسی کو کافر، مشرک، یا مرتد قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، جنہوں نے حق کو اس وضاحت سے پیش کیا کہ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہ رہے۔ شاعر نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
*جب کلمہ گو بھی کفر کی زد میں ہو؟*
*کافر کو کس غرض سے مسلمان کرے کوئی؟*
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وہ ذاتیات پر بات نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ذاتیات پر بات کرنے سے تعصب، بدگمانی، یا غیر ضروری تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اگر ذاتیات پر بات کرنی ہو تو اسے احترام، دلیل، اور دین کے اصولوں کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، وہ اکثر جذبات یا تعصب کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ قرآن و سنت کے معیار پر پرکھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لیے ایک ہی رول ماڈل ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ آپ سے ہمیں جو دین ملا، وہ مکمل اور حتمی ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کی گنجائش نہیں۔ اصل چیز وہ نظریات ہیں جو شخصیات اختیار کرتی ہیں، اور انہیں قرآن و سنت کے معیار پر پرکھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک درست ہیں۔
ہر شخص کا نقطہ نظر اس کے پس منظر، ذہنی استعداد، یا کسی گروہ سے وابستگی سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر عملی، جذباتی، یا پسند و ناپسند کی باتیں ہوتی ہیں۔ دین کے فہم کو سمجھنے اور اسے اپنے لفظوں میں بیان کرنے کا طریقہ ہر شخص کے ماحول، علمی پس منظر، اور ذہنی اپروچ پر منحصر ہوتا ہے۔ ہمارا اصل کام بطور امت دعوت اور تبلیغ ہے۔ مختلف مناہج دین سے متعلق ہیں، لیکن لوگ اپنی ذہنی استعداد یا جذباتی وابستگی کی وجہ سے ان میں سے کسی ایک سے جڑ جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو روایتی سوچ سے نکل کر نئے طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔
دین ایک اصولی زندگی کا تعارف ہے، جو اللہ کی طرف سے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عملی نمونے کے طور پر پیش کیا۔ باقی شخصیات میں خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں اور خامیاں بھی۔ اگر ہم کسی کو معیار بنائیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ معیار سے ہٹ کر ہو، تو ہم حدود سے تجاوز کر جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہم اس کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنے لگتے ہیں، جو غلط ہے۔
بعض لوگ بزرگوں کے احترام میں مبالغہ کرتے ہیں اور ان کی غلط باتوں کی ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے صرف انہی کا دینی فہم حق ہے۔ بزرگوں کی بات غلط بھی ہو سکتی ہے، اور ان کے علم و مرتبے کا احترام کرتے ہوئے ہم اختلاف کر سکتے ہیں۔ جہاں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ضروری ہے، وہاں ان کے فہم کو قرآن و سنت کے معیار پر پرکھنا بھی لازمی ہے۔ جو شخص خوف خدا رکھتا ہے، وہ اپنی غلطی کو فوراً تسلیم کرتا ہے، توبہ کرتا ہے، اور لمبی چوڑی تاویلیں نہیں کرتا۔ یہی عظمت اور شرف کا اعلیٰ رویہ ہے۔
کسی بزرگ یا عالم سے منسوب غلط باتوں کو پرکھنے کے لیے ان کی مجموعی زندگی اور خدمات کو دیکھنا چاہیے۔ کیا وہ اپنی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے تھے؟ ان کے پیروکاروں نے عملی زندگی میں کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ سب دیکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے نقطہ نظر اور غلطیوں کو سمجھا جا سکے۔ ہمیں اہل علم سے حسن ظن رکھنا چاہیے اور اپنی اصلاح پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اخلاقی طور پر کسی کی نجی زندگی میں جھانکنا منع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، یا بعد کے اہل علم کی نجی زندگی روایات کے سہارے کردار کشی کرنا نہ دین کی خدمت ہے اور نہ ہی اپنے ایمان کے لیے مفید۔
**ظفر اقبال چھینہ**
https://youtu.be/6K_6UZ0GFNQ?feature=shared