21/08/2025
صرف اس قادر مطلق سے مانگنا ہی عبادت ہے۔
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ يَرْشُدُوْنَ (البقرہ،186) اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پھر چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
شخصیت پرستی اور جامد تقلید نے ہمیں اس درجے کی اندھی عقیدت میں مبتلا کر دیا ہے کہ دین کی بنیاد توحید ہونے کے باوجود ہندوستان کے بیشتر مسلمان اس میں خالص نہیں رہے۔ جگہ جگہ مزارات اور پیری مریدی کا مکروہ کھیل اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایک انسان کا مذہبی لبادے میں غیر خدا سے مانگنا، ایسی کون سی مشکل پیش آ گئی کہ مرے ہوئے بزرگوں سے مانگنا شروع کر دیا؟ کون سی مشکل ہے جو خدا حل نہیں کر سکتا؟ لوگوں نے مخلوق سے مانگنا شروع کر دیا۔ پھر مزارات پر ذاتی حیثیت میں مانگنا بھی گناہ عظیم ہے۔ لیکن مزارات پر حاضری، رقص، شاعری، اور خدا کے گھر میں منبر پر بیٹھ کر مولوی یا پیر کا مزار کے آداب اور دعائیں سکھانا گناہ کی شناعت کو اور بڑھاتا ہے۔ آپ نے تو باقاعدہ نظم و اشعار اور تحریک کی صورت میں خدا کے گھر سے براہ راست انسانوں سے مانگنا شروع کر دیا اور دوسروں کو بھی غیر خدا سے مانگنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ جاہل شعرا اور ترنم سے لہک کر پڑھنے والے قوال کیا دین سکھائیں گے؟ نتیجتاً دین کا وہی حشر ہو گا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ نیک لوگوں نے اللہ کی عبادت اور اس کی رحمت کو متوجہ کرنے کا درس دیا۔ ایک زندہ انسان دوسرے انسان کے اتنا قریب نہیں جتنا خدا قریب ہے، پھر ایک مرا ہوا بزرگ تو اپنے گھر والوں کی حاجات بھی پوری نہیں کر سکتا۔ یہ شرم کی بات ہے کہ مذہبی طبقات کس طرح منظم طور پر شرک پھیلا رہے ہیں۔ خود کو بظاہر مسلمان کہنے والے کس ڈھٹائی سے مرے ہوئے بزرگوں سے مانگ رہے ہیں۔
بزرگوں کی اپنی بخشش ابھی ہونی ہے، میدان حشر برپا ہونا ہے۔ کربلا والے، بغداد والے، اجمیر والے خواجہ غریب نواز، یا لاہور والے علی ہجویری نے کہیں لکھا کہ میرے وسیلے سے مانگو، میں مرنے کے بعد دور و نزدیک سب کی دعائیں سن کر خدا کے حضور پہنچاؤں گا، یا میری قبر کو خدا کے عرش کے سایے میں زندہ دربان کی حیثیت حاصل ہے؟ کیا کوئی مسلمان بزرگ ایسی جرات کر سکتا ہے؟ کون سی اتھارٹی ہے جس پر خدا نے انہیں معمور کیا؟ دین فطرت میں خالص عبادت کے مقابلے میں ان ملاوٹوں کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ یہ شرک کا وبال جہنم میں ہمیشہ رہنے کا سبب بنے گا۔ شرک کا شبہ ہو تو وہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ایک مسلمان کو سب سے زیادہ شرک سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ قرآن اسے ظلم عظیم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیتا ہے۔ بدبختوں نے خدا کے شریک بنا لیے۔ جن بزرگوں کی تعلیمات کو آپ ایمان کا ذریعہ سمجھتے ہیں، کیا انہوں نے سورہ اخلاص کی تشریح نہیں کی؟ توحید کا مطلب اس سے زیادہ سادہ کیا ہو سکتا ہے؟ خدا نے اپنے کلام میں بار بار اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک کافر جو پہلے دن مسلمان ہو، اگر اس سے قرآن کا ترجمہ پڑھوایا جائے تو وہ پہلے ہی دن سمجھ لے گا کہ خدا ہر آیت میں زندہ و جاوید ہونے کی دعوت دے رہا ہے اور مخلوق کی بطلان واضح کر رہا ہے۔ اگر آپ کے بزرگوں نے غیر خدا سے مانگنا سکھایا، تو یہ آپ کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی تاویلیں ہیں جو سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے سراسر خلاف ہیں اور اب خالص شرک کے زمرے میں آتی ہیں۔
زندہ جاوید خدا کو چھوڑ کر، دین حنیف اور فطرت سلیم پر مبنی خدا کی عبادت کرنے والے اس درجے پستی میں گر جائیں گے کہ ایسی تاویلیں گھڑیں گے جیسے بت پرست کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ جب سمندر میں کشتی پھنس جاتی تھی تو براہ راست اسی آسمان والے خدا کو پکارتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چھوٹے موٹے معبود بچا نہیں سکتے۔ جن کو آپ خدا کے سوا پکارتے ہیں، وہ آپ کی مشکلات میں اضافہ ہی کر رہے ہیں۔ قرآن کے مفہوم کے مطابق عام لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، لیکن ان سے یہ بھی سوال ہوگا کہ آپ نے لوگوں کو ہماری عبادت کا کہا۔ عبادت کی ہر شکل پروردگار کے ساتھ خاص ہے۔ دعا و پکار مافوق الاسباب پروردگار سے کرنی چاہیے، جو تمام مخلوق کا خالق، مالک، اور رازق ہے۔ اسی کے پاس اپنی مخلوقات کا مکمل علم ہے، وہ انسانوں کی پکار سے واقف ہے، اسی کے پاس خزانے ہیں، وہی سب کو بیک وقت سن اور دے سکتا ہے۔ جو خود کھانے پینے کے محتاج ہوں، زندگی کے مسائل اور موت کی تلخ وادی سے گزر چکے ہوں، انہیں مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنا شرک ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
خدا کے در سے پھر یہ لوگ کیا مانگتے ہوں گے؟ جن کو خدا کے سوا پکارتے ہیں، انہیں کس نے پیدا کیا؟ ان کی پیدائش سے پہلے لوگ کس کو پکارتے تھے؟ وہ بزرگ مرنے کے بعد دعاؤں سے غافل ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ قیامت کے دن وہ اس شرک سے انکار کریں گے کہ ہم نے نہیں کہا تھا کہ زندہ جاوید پروردگار کو چھوڑ کر ہم سے دعائیں مانگو۔ پیغمبروں کا متفقہ نقطہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔ ہم اب بھی مخلوقات میں پھنسے ہیں۔ غیر خدا سے مانگنے والے خدا کی کتاب سے، جو ہدایت کا خزانہ اور نجات کا پیمانہ ہے، کس قدر غفلت اور بے حرمتی برت رہے ہیں۔ اگر خدا کے بعد کسی سے مانگنا جائز ہوتا تو پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کے علاوہ کون ہو سکتا تھا؟ لیکن آپ نے بھی جا بجا منع فرمایا اور اپنی زندگی کے معمول سے سکھایا کہ براہ راست خدا سے مانگو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر لمحے اور ہر موقع پر "اے اللہ، اے رب، اے رحمان و رحیم" کہہ کر خدا کی صفات کے ساتھ اس کی پناہ مانگتے، اس کی حمد و ثنا کرتے، اور براہ راست اس سے دعا کرتے تھے۔ یہی دعا کا اعلیٰ طریقہ ہے جو اللہ نے سورہ فاتحہ میں سکھایا کہ خدا کی صفات اور تسبیح سے آغاز کرو۔ نماز جیسے عظیم عمل میں خدا سے محبت کے تقاضے نبھاؤ۔ لاکھوں لوگ نسل در نسل دن میں پانچ بار اسے پڑھتے ہیں، پھر بھی خدائے ذوالجلال سے براہ راست مانگنا نہیں سیکھتے۔
ہندوستان میں جنہوں نے یہ شرکیہ گند پھیلایا، وہ مورتیوں کی پوجا کی طرح مانگتے ہیں۔ ہم نے بھی ویسا ہی مانگنا شروع کر دیا۔ سکھ دھرم والے بھی شاید مزار پر ماتھا ٹیکنے میں تردد کریں، لیکن ہم نے مردوں کی قبروں کو اپنی جبینوں اور سجدوں کے لیے مخصوص کر دیا، حالانکہ یہ سر خدا کے حضور جھکنا چاہیے تھا۔ ایسی تعظیم، محبت، اور شرمناک مانگنا صرف خدائے بزرگ و برتر کا حق تھا۔ نماز میں ہم خدا سے براہ راست مانگتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں خدا سے مانگتے ہیں، لیکن باہر نکلتے ہی خواجہ سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ بزرگ مسلمان تھے تو ان کا جنازہ بھی مسلمانوں نے پڑھا ہوگا۔ جنازے میں دعا کی کہ "اے اللہ اسے بخش دے"، لیکن جیسے ہی ماربل کی قبر بنی یا کمرہ بنایا، وہ ہماری بخشش کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ ایسی دعائیں، منت نذرانے، صدقات و خیرات، اور عبادت کے زمرے میں آنے والے اعمال اگر مزارات پر انجام دیے جائیں، اس سے کچھ نہ کریں بہتر ہے۔
ظفر اقبال چھینہ