Zafar Iqbal Chheena

Zafar Iqbal Chheena Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Zafar Iqbal Chheena, Digital creator, Leiah, punjab.

21/08/2025

صرف اس قادر مطلق سے مانگنا ہی عبادت ہے۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ يَرْشُدُوْنَ (البقرہ،186) اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پھر چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

شخصیت پرستی اور جامد تقلید نے ہمیں اس درجے کی اندھی عقیدت میں مبتلا کر دیا ہے کہ دین کی بنیاد توحید ہونے کے باوجود ہندوستان کے بیشتر مسلمان اس میں خالص نہیں رہے۔ جگہ جگہ مزارات اور پیری مریدی کا مکروہ کھیل اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایک انسان کا مذہبی لبادے میں غیر خدا سے مانگنا، ایسی کون سی مشکل پیش آ گئی کہ مرے ہوئے بزرگوں سے مانگنا شروع کر دیا؟ کون سی مشکل ہے جو خدا حل نہیں کر سکتا؟ لوگوں نے مخلوق سے مانگنا شروع کر دیا۔ پھر مزارات پر ذاتی حیثیت میں مانگنا بھی گناہ عظیم ہے۔ لیکن مزارات پر حاضری، رقص، شاعری، اور خدا کے گھر میں منبر پر بیٹھ کر مولوی یا پیر کا مزار کے آداب اور دعائیں سکھانا گناہ کی شناعت کو اور بڑھاتا ہے۔ آپ نے تو باقاعدہ نظم و اشعار اور تحریک کی صورت میں خدا کے گھر سے براہ راست انسانوں سے مانگنا شروع کر دیا اور دوسروں کو بھی غیر خدا سے مانگنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ جاہل شعرا اور ترنم سے لہک کر پڑھنے والے قوال کیا دین سکھائیں گے؟ نتیجتاً دین کا وہی حشر ہو گا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ نیک لوگوں نے اللہ کی عبادت اور اس کی رحمت کو متوجہ کرنے کا درس دیا۔ ایک زندہ انسان دوسرے انسان کے اتنا قریب نہیں جتنا خدا قریب ہے، پھر ایک مرا ہوا بزرگ تو اپنے گھر والوں کی حاجات بھی پوری نہیں کر سکتا۔ یہ شرم کی بات ہے کہ مذہبی طبقات کس طرح منظم طور پر شرک پھیلا رہے ہیں۔ خود کو بظاہر مسلمان کہنے والے کس ڈھٹائی سے مرے ہوئے بزرگوں سے مانگ رہے ہیں۔

بزرگوں کی اپنی بخشش ابھی ہونی ہے، میدان حشر برپا ہونا ہے۔ کربلا والے، بغداد والے، اجمیر والے خواجہ غریب نواز، یا لاہور والے علی ہجویری نے کہیں لکھا کہ میرے وسیلے سے مانگو، میں مرنے کے بعد دور و نزدیک سب کی دعائیں سن کر خدا کے حضور پہنچاؤں گا، یا میری قبر کو خدا کے عرش کے سایے میں زندہ دربان کی حیثیت حاصل ہے؟ کیا کوئی مسلمان بزرگ ایسی جرات کر سکتا ہے؟ کون سی اتھارٹی ہے جس پر خدا نے انہیں معمور کیا؟ دین فطرت میں خالص عبادت کے مقابلے میں ان ملاوٹوں کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ یہ شرک کا وبال جہنم میں ہمیشہ رہنے کا سبب بنے گا۔ شرک کا شبہ ہو تو وہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ایک مسلمان کو سب سے زیادہ شرک سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ قرآن اسے ظلم عظیم اور ناقابل معافی گناہ قرار دیتا ہے۔ بدبختوں نے خدا کے شریک بنا لیے۔ جن بزرگوں کی تعلیمات کو آپ ایمان کا ذریعہ سمجھتے ہیں، کیا انہوں نے سورہ اخلاص کی تشریح نہیں کی؟ توحید کا مطلب اس سے زیادہ سادہ کیا ہو سکتا ہے؟ خدا نے اپنے کلام میں بار بار اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک کافر جو پہلے دن مسلمان ہو، اگر اس سے قرآن کا ترجمہ پڑھوایا جائے تو وہ پہلے ہی دن سمجھ لے گا کہ خدا ہر آیت میں زندہ و جاوید ہونے کی دعوت دے رہا ہے اور مخلوق کی بطلان واضح کر رہا ہے۔ اگر آپ کے بزرگوں نے غیر خدا سے مانگنا سکھایا، تو یہ آپ کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی تاویلیں ہیں جو سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص کے سراسر خلاف ہیں اور اب خالص شرک کے زمرے میں آتی ہیں۔

زندہ جاوید خدا کو چھوڑ کر، دین حنیف اور فطرت سلیم پر مبنی خدا کی عبادت کرنے والے اس درجے پستی میں گر جائیں گے کہ ایسی تاویلیں گھڑیں گے جیسے بت پرست کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ جب سمندر میں کشتی پھنس جاتی تھی تو براہ راست اسی آسمان والے خدا کو پکارتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چھوٹے موٹے معبود بچا نہیں سکتے۔ جن کو آپ خدا کے سوا پکارتے ہیں، وہ آپ کی مشکلات میں اضافہ ہی کر رہے ہیں۔ قرآن کے مفہوم کے مطابق عام لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، لیکن ان سے یہ بھی سوال ہوگا کہ آپ نے لوگوں کو ہماری عبادت کا کہا۔ عبادت کی ہر شکل پروردگار کے ساتھ خاص ہے۔ دعا و پکار مافوق الاسباب پروردگار سے کرنی چاہیے، جو تمام مخلوق کا خالق، مالک، اور رازق ہے۔ اسی کے پاس اپنی مخلوقات کا مکمل علم ہے، وہ انسانوں کی پکار سے واقف ہے، اسی کے پاس خزانے ہیں، وہی سب کو بیک وقت سن اور دے سکتا ہے۔ جو خود کھانے پینے کے محتاج ہوں، زندگی کے مسائل اور موت کی تلخ وادی سے گزر چکے ہوں، انہیں مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنا شرک ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔

خدا کے در سے پھر یہ لوگ کیا مانگتے ہوں گے؟ جن کو خدا کے سوا پکارتے ہیں، انہیں کس نے پیدا کیا؟ ان کی پیدائش سے پہلے لوگ کس کو پکارتے تھے؟ وہ بزرگ مرنے کے بعد دعاؤں سے غافل ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ قیامت کے دن وہ اس شرک سے انکار کریں گے کہ ہم نے نہیں کہا تھا کہ زندہ جاوید پروردگار کو چھوڑ کر ہم سے دعائیں مانگو۔ پیغمبروں کا متفقہ نقطہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے۔ ہم اب بھی مخلوقات میں پھنسے ہیں۔ غیر خدا سے مانگنے والے خدا کی کتاب سے، جو ہدایت کا خزانہ اور نجات کا پیمانہ ہے، کس قدر غفلت اور بے حرمتی برت رہے ہیں۔ اگر خدا کے بعد کسی سے مانگنا جائز ہوتا تو پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کے علاوہ کون ہو سکتا تھا؟ لیکن آپ نے بھی جا بجا منع فرمایا اور اپنی زندگی کے معمول سے سکھایا کہ براہ راست خدا سے مانگو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر لمحے اور ہر موقع پر "اے اللہ، اے رب، اے رحمان و رحیم" کہہ کر خدا کی صفات کے ساتھ اس کی پناہ مانگتے، اس کی حمد و ثنا کرتے، اور براہ راست اس سے دعا کرتے تھے۔ یہی دعا کا اعلیٰ طریقہ ہے جو اللہ نے سورہ فاتحہ میں سکھایا کہ خدا کی صفات اور تسبیح سے آغاز کرو۔ نماز جیسے عظیم عمل میں خدا سے محبت کے تقاضے نبھاؤ۔ لاکھوں لوگ نسل در نسل دن میں پانچ بار اسے پڑھتے ہیں، پھر بھی خدائے ذوالجلال سے براہ راست مانگنا نہیں سیکھتے۔

ہندوستان میں جنہوں نے یہ شرکیہ گند پھیلایا، وہ مورتیوں کی پوجا کی طرح مانگتے ہیں۔ ہم نے بھی ویسا ہی مانگنا شروع کر دیا۔ سکھ دھرم والے بھی شاید مزار پر ماتھا ٹیکنے میں تردد کریں، لیکن ہم نے مردوں کی قبروں کو اپنی جبینوں اور سجدوں کے لیے مخصوص کر دیا، حالانکہ یہ سر خدا کے حضور جھکنا چاہیے تھا۔ ایسی تعظیم، محبت، اور شرمناک مانگنا صرف خدائے بزرگ و برتر کا حق تھا۔ نماز میں ہم خدا سے براہ راست مانگتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ سورہ فاتحہ میں خدا سے مانگتے ہیں، لیکن باہر نکلتے ہی خواجہ سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ بزرگ مسلمان تھے تو ان کا جنازہ بھی مسلمانوں نے پڑھا ہوگا۔ جنازے میں دعا کی کہ "اے اللہ اسے بخش دے"، لیکن جیسے ہی ماربل کی قبر بنی یا کمرہ بنایا، وہ ہماری بخشش کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ ایسی دعائیں، منت نذرانے، صدقات و خیرات، اور عبادت کے زمرے میں آنے والے اعمال اگر مزارات پر انجام دیے جائیں، اس سے کچھ نہ کریں بہتر ہے۔

ظفر اقبال چھینہ

14/08/2025

یوم آزادی مبارک ، پاکستان ذندہ باد

جب سے نخلِ عمر پر خزاں کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں، ہماری دھرتی پر کچھ لوگ ہزیان بکتے، نفرت لکھتے اور عجیب حرکات کرتے نظر آتے ہیں، وہ خود کو کوستے ہیں، اپنے والدین کو برا بھلا اور اپنی پیدائش کو ہر برائی کی جڑ قرار دیتے ہیں، جس گھر میں رہتے ہیں اسے گالیاں دیتے ہیں، اور اپنے کھانےکو بھی شاید غلیظ کہتے ہیں۔ یقیناً وہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے قوم، وطن اور اسکے اداروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ ہمیں اپنے آشیانے سے غیر مشروط وفاداری نبھانی کون سکھائے گا۔ اپنے وطن کا احترام، محبت اور حفاظت کیا ہم سب کی ذمہ داری نہیں ہے۔

قوم کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے پورا سال پڑا ہے، مگر آج یومِ آزادی خدا کے حضور شکر کی بجاآوری اور جشن منانے کا دن ہے۔


> تو ہے دلوں کی روشنی، تو ہے سحر کا بانکپن
> تیری گلی گلی کی خیر، اے مرے دل ربا وطن

ہر فرد کے نظریاتی، انسانی اور دینی حقوق و فرائض اہم ہیں۔ ملکی قوانین سب کی عزت و تقدس کے احترام کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ کوئی بھی اپنے حقوق کی آڑ میں وطن کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائے۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر بےانصاف اور خائن ہیں۔ خوف خدا رکھنے والوں کے رویے کیا ایسے ہوتے ہیں۔ ہمارا زوال ہمہ گیر معاشرتی ہے۔ سماجی بد اخلاقی پر تلا ہوا معاشرہ کو برائی صرف دوسروں میں نظر آتی ہے۔

یہ کہنا کہ ہم نے اس وطن کو کیا دیا، محض جذباتی بات ہے۔ اس وطن کی کوکھ سے ہم سب نے جنم لیا ہے۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کو اعلیٰ اخلاق پر استوار کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ مثالی زندگی کی تلاش میں ملے ہوئے کی بے قدری اور توہین کرنا نادانی ہے۔ ملکی ترقی کا خواب ہم سب کی دلی خواہش ہے۔ ہر شعبے میں بہتری سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ اگر اس خطے کے باسی ہر انسان کے حقوق کا لحاظ کریں اور اجتماعی نظم بلا تفریق انصاف فراہم کرے، تو ہم انسانیت کے لیے اعلیٰ مثال بن سکتے ہیں۔

> ہر ایک شاخ پر برق پتوں کا رقص ہے
> فضائے صحنِ چمن، تجھ پر رحم آتا ہے

> قدم قدم پر یہاں ضمیر بکتے ہیں
> مرے عظیم وطن، تجھ پر رحم آتا ہے

بے شک، کچھ سالوں سے اس وطن پر ایک آسیب سا چھایا ہوا ہے۔ ہر شخص دوسرے گروہ کو غلط اور دشمن ثابت کرنے پر مصر ہے۔ ہر طبقہ مخالف نظریات کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہے۔ ہر کوئی اپنی سوچ کو برتر سمجھتا ہے۔ اگر کسی طبقے کو لگتا ہے کہ اس کے نظریات سے قوم کی بہتری ممکن ہے، تو وہ اپنا پیغام مثبت اور پرامن طریقے سے پیش کرے۔ لیکن زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا یا ان کی زندگیوں میں مداخلت کرنا نہ انسانی رویہ ہے اور نہ ہی کسی دین و دھرم میں اس کی اجازت ہے۔

اس خطے میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جو زبان بولتا ہے، وہ خوبصورت ہے۔ وطن کے تمام علاقے پیارے ہیں،ساری انسانیت سے بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب،زبان اور علاقہ محبت دین کا تقاضا ہے۔ سب انسانوں کی بھلائی امن و اتشی کے ساتھ رہنے میں ہے۔ مشرق مغرب میں بسنے والے سب ہمارے انسانی بھائی ہیں۔ دنیا بھر کی قومیں، قبائل اور برادریاں ہم سے بہتر سلوک کی توقع رکھتی ہیں۔ ہمارے وطن میں اللہ نے انسانی آبادیوں اور قدرتی وسائل کی فراوانی عطا کی ہے۔ بس ہمیں اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونا ہے۔

ہمارے اربابِ حل و عقد اور ہر شعبے کے ذمہ داران کو اعلیٰ سوچ کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ یہ وطن اب بھی روشن سحر کا منتظر ہے۔ سیاسی قیادت میں کچھ راہنما خلوصِ نیت سے بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ قوم، ملت اور انسانیت کے دشمنوں کو اللہ تباہ کرے۔ سکون تو خدمتِ خلق اور دوسروں کے لیے جینے میں ہے۔ اللہ ہمیں سب کو ہدایت عطا فرمائے۔

> وطن کی مٹی ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
> مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا

**ظفر اقبال چھینہ**

07/08/2025

*کہیں امت مسلمہ کی تشخیص میں غلطی تو نہیں ہوئی؟*

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، مسلمانوں کے بڑے مفکرین نے اسلام کو ایک نظام اور سیاسی بالادستی کے طور پر پیش کرنے کے لیے لٹریچر ترتیب دیا۔ انہوں نے دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ کام کیا، اور ان کا اخلاص اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن امت کے لیے غلبہ دین کی جدوجہد کو بیان کرتے ہوئے حدود سے تجاوز ہؤا۔ انہوں نے یہ صورت بنائی کہ اسلامی ریاست کے بغیر دین کے تمام احکامات بے معنی ہیں۔ دین کے احکام کو اس طرح پیش کیا کہ اسلام بغیر ریاست کے زندہ نہیں رہ سکتا، اور انتہائی سزاؤں کا نفاذ پہلے دن سے ضروری ہے۔ یہ سب طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک، اسلام کا اصل مطالبہ دنیا میں مسلمانوں کی حاکمیت اور سزاؤں کا نفاذ ہے۔ اسلامی حکومت کوئی بھی قانون بنا کر سختی کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق، دین انسانیت کے لیے اسی لیے قابل قبول ہے کہ مسلمان سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کی بالادستی کے لیے جدوجہد کریں۔ ان کا خیال ہے کہ دین کے تمام احکام نظام کی تبدیلی کے ذیل میں آتے ہیں۔

دوسری طرف، استاد گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر میں دین کا اصل مقدمہ آخرت سے متعلق ہے۔ وہ دین کے بنیادی پیغام کو واضح کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اپنے حالات کے مطابق نظام بنانا، سیاسی امن و سکون اور ترقی کے مواقع پیدا کرنا، سائنسی ایجادات سے وسائل کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنا، مختلف شعبوں میں جدید رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری لانا، اور لوگوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات مہیا کرنا، یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی عقل پر چھوڑے ہیں۔

آج کے جدید دور کے قواعد و قوانین پر مذہب کا لیبل لگا کر اور دین کو مسخ کر کے، اگر ہم سائنسی ثبوتوں اور عالمی نظاموں کی جگہ اسلام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے، تو ہم دین کے اکثر مقاصد کو غلط رنگ میں پیش کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی بنکاری، اسلامی سوشلزم، اسلامی ایجادات، حتیٰ کہ اسلامی بم جیسی اصطلاحات سے آپ سب واقف ہیں۔

غلبہ دین اور غلبہ اسلام کی جدوجہد کرنے والے مخلص احباب کے سامنے چند سوالات پیش کرتا ہوں:

1. اگر اسلامی حکومت قائم ہو جاتی ہے، لیکن وہ اہداف و ثمرات عوام کے لیے چند سالوں تک ظاہر نہ ہوں، تو کیا اس سے عام لوگ اسلام سے متنفر نہیں ہوں گے؟
2. جب مسلمانوں کا ہزار سالہ دور تھا، کیا اس وقت مسلم معاشرہ دین پر عمل کرتے ہوئے من حیث المجموعہ دین کی سرفرازی کے لیے جدوجہد کرتا رہا؟
3. آج بین الاقوامی سطح پر اقتدار حاصل کرنے کے پیرامیٹرز کیا ہیں، جب کہ ہم ہر سطح پر معاہدات میں جکڑے ہوئے ہیں، اور ملکی سرحدوں کا تحفظ و تقدس موجود ہے؟
4. کیا موجودہ مسلم معاشرے عالمی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا ماضی قریب میں انہوں نے مشترکہ طور پر مسلمانوں کے لیے کوئی سنجیدہ حل پیش کیا؟
5. ایران، افغانستان اور سعودی عرب کی مذہبی قیادت نے قومی نظام بنائے، کیا دیگر مسلم ممالک ان سے متاثر ہو کر ایسی تبدیلی کے خواہش مند ہیں؟ کیا لبرل مسلم ممالک ان سے بہتر کارکردگی نہیں دکھا رہے؟
6. تاریخ کی روشنی میں، جب کسی قوم پر زوال آتا ہے، تو دوسری قوم اس کی جگہ لے لیتی ہے، اور اس کی ترقی مثالی ہوتی ہے۔ کیا کوئی غیر مسلم خطہ اسلام کے قریب آ سکتا ہے؟
7. کیا آج سائنسی علوم کے بغیر کسی قوم کا اقتدار اور ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟
8. کیا خدا کے تکوینی نظام میں کوئی تیسری قوت اہل نہیں ہو سکتی، جس طرح ترک قوم نے اسلام کی خدمت کی؟
9. امت مسلمہ کی تقریباً اسی فیصد آبادی سیاسی جدوجہد کو نہ دینی فریضہ سمجھتی ہے، نہ اسے کرتی ہے، اور نہ اس کی جستجو رکھتی ہے۔ لیکن وہ انفرادی اور کسی حد تک اجتماعی زندگی میں اخلاقیات، عبادات اور معاملات میں بہتری کی کوشش کرتی ہے۔ ایسی صورت میں ان کے لیے آپ کا اجتہادی حکم کیا ہے؟
10. ہمارا زوال ہمہ گیر سماجی زوال ہے، اور ہم ہر سطح پر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔

اس تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی فکری قیادت نے زوال کے اسباب کی جو تشخیص کی، وہ درست نہ تھی۔ اگر یہ درست ہوتی، تو دو تین سو سال کی جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں ہم اپنا کھویا ہوا عروج حاصل کر لیتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا زوال کسی ایک شعبے کا نہیں، بلکہ ہمہ گیر معاشرتی زوال ہے، جو بدستور جاری ہے۔ سیاسی اور علمی زوال اس کا ایک عملی اظہار تھا، جو سب کو نظر آیا، لیکن یہ اصل مرض کی تشخیص نہیں۔ ہم فکری طور پر انتشار کا شکار ہیں۔ ہم مغربی علوم اور نظاموں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، لیکن انہیں دشمن بھی سمجھتے ہیں۔ سیاسی تعبیر دین نے نہ صرف دعوت کے کام کو نقصان پہنچایا، بلکہ مسلم معاشروں میں تشدد پسندی کو بھی جنم دیا۔ اصل مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ہم اپنی ذات، خاندان اور ماحول میں تعمیر و تربیت کیوں نہیں کرتے؟ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے کھیت میں ہری بھری فصل لگانا چاہتا ہے، لیکن اپنی زمین پر فصل اگانے کو تیار نہیں۔ اپنے ماحول کو نظر انداز کر کے ملک و ملت کے معاملات پر فکر مند رہنا اور بغیر نتائج دیکھے تجزیے کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔
**ظفر اقبال چھینہ**

04/08/2025

**فرد کی اصلاح معاشرے کی بنیاد ہے**

> اِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (الفرقان، 70)
> مگر جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک عمل کیے، تو اللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

جب بھی مسلم معاشروں کی زبوں حالی کا تذکرہ ہوتا ہے، لوگوں کی توجہ فوراً ریاست اور نظام کی تبدیلی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ کیا معاشرے کے سماجی اداروں—جیسے تعلیمی نظام، علمی مراکز، رفاہی ادارے، مساجد اور مدارس—کو باہم مربوط کر کے، انسانی حقوق کو ذمہ داری کے طور پر اپناتے ہوئے بہتری نہیں لائی جا سکتی؟ کیا خلافت کا قیام، یعنی ایک خلیفہ کا پوری دنیا پر حکمرانی، ہی واحد دینی فریضہ ہے؟ موجودہ دور میں سیاسی تبدیلی کے لیے اجتماعی دانش ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام دے سکتی ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا اور انقلاب یا امام مہدی کے ظہور کا انتظار کرنا ہمیں بحیثیت معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتا۔

ہم فرد کے کردار کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں؟ فرد کی اصلاح ایک قابل عمل اور نتیجہ خیز ہدف ہے، لیکن اسے ہم بے کار سعی سمجھتے ہیں۔ معاشرے کی مضبوط بنیاد فرد کی تربیت سے شروع ہوتی ہے۔ فرد کے سماجی رویوں، اخلاقیات اور کردار میں پختگی لانا نظام کی تبدیلی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

احیائے اسلام اور امت کی بحالی کی باتیں اپنی جگہ بڑی پراثر ہیں، لیکن گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ سے ہم نے کیا سبق سیکھا؟ کیا ہم جدید دنیا میں ترقی کی رفتار اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں؟ نظام کو چلانے کی مہارت پیدا کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ اسلام کا سیاسی غلبہ پوری دنیا میں دوبارہ قائم ہونا ہر مسلمان کی خواہش ہے، لیکن کیا اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ موجودہ امت، جو ہر لحاظ سے پسماندہ اور اپنے کردار میں زوال کا شکار ہے، دوبارہ اقتدار اور عالمی قوت حاصل کرے؟ بعض اوقات ایسی سوچ کو فروغ دیا گیا کہ اگر عرب نہ اٹھیں تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ ممکن نہیں۔ کیا کوئی دوسرا خطہ یا قوم بین الاقوامی سطح پر تبدیلی نہیں لا سکتی؟ اللہ تعالیٰ ماضی میں بھی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو اقتدار عطا کرتا رہا ہے۔ اس کی حکمت اپنی جگہ ہے، اور ہمیں وہی تشریحی امور ماننے ہیں جو ہمیں دیے گئے ہیں۔

زندگی کی تعمیر نو کے لیے مثبت سوچ، مکالمے کی فضا اور ایک جوابی بیانیے کی ضرورت ہے۔ سطحی اور جذباتی باتیں تنازعات تو پیدا کر سکتی ہیں، لیکن ان سے مسلمان باعزت مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہمارا موقف سچا بھی ہو، تب بھی ہم دوسروں سے تحمل کے ساتھ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہمیں پہلے اپنے مسلمان بھائیوں سے سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے۔ جو شخص دوسروں کے موقف کو فتووں یا الزامات کے ذریعے رد کرتا ہے، وہ دراصل اسلام کے لیے مخلص نہیں، بلکہ اپنی دکانداری چمکا رہا ہوتا ہے۔

اسلام کے پیغامِ رشد و ہدایت سے متعلق کوئی بھی منصوبہ—خواہ وہ فرد، جماعت یا طبقہ پیش کرے—اسے کھلے دل سے تنقید سننے اور دوسروں کو شریکِ منزل سمجھ کر ساتھ چلنے کی آمادگی دکھانی چاہیے۔ جب تک شرح صدر نہ ہو، کوئی دلائل سے مطمئن نہیں ہوگا۔ مخالف نظریات کو جانے بغیر دوسروں پر الزام تراشی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ہمارا موقف ہی غلط ہو۔ اکثر لوگ اپنا فکری سفر بیان کرتے ہیں کہ ان کی سوچ وقت کے ساتھ تبدیل ہوئی۔ ہمارے گروہی خواب، خواہش پرست دینی نفسیات، مثالیت پسندی کا خود ساختہ رجحان، دنیاوی حقیقتوں سے لاتعلقی، فکری ابہام اور بلا سوچے نتائج کی توقع نے ہمیں ذہنی غلام بنا دیا ہے۔ کسی ایک طریقے کو دین کا واحد تقاضا اور کامیابی کا حتمی راستہ سمجھنا خود فریبی ہے۔

یہ موضوع ایک ویڈیو سیریز سے متعلق ہے جس کا عنوان "ریاست: ایک جوابی بیانیہ" ہے۔ یہ افکار موجودہ دور میں امت مسلمہ کے لیے درست رہنمائی اور صحیح امنگ پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ بیانیہ ہر قسم کے فکری انتشار کا جواب ہے۔ استاد محترم جاوید احمد غامدی نے اسے تحریری صورت میں بھی پیش کیا ہے۔ اگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ قرآن اس تصور کو کیسے بیان کرتا ہے، تو وہ "قانون اتمام حجت" کی تفصیلی سیریز کو بغور سنے۔

**ظفر اقبال چھینہ**

03/08/2025

**زندگی کا مقصد**

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں ایک ممتاز مقام عطا کیا ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ دینِ رحمت انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کیا اہداف دیتا ہے؟ سادہ الفاظ میں، دین ہم سے کیا مانگتا ہے؟ دینِ فطرت کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ مقصد حیات کیا ہے؟

اسلام انسان کو آخرت کی زندگی کا تصور دیتا ہے، لیکن اس دنیا میں انسان کو امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اسے دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ اس تیاری کے مراحل قرآن نے واضح کر دیے ہیں، جو انسان کی بنیادی ضروریات، حیوانی تقاضوں، عقلی، اخلاقی اور جمالیاتی خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ گھریلو زندگی سے لے کر اجتماعی نظام تک، انسان کو انسان بن کر زندگی گزارنے اور عدل و توازن کے ساتھ جینے کی تلقین کی گئی ہے۔ دین پر عمل کرنے والا، خواہ وہ کسی خطے، قوم، نسل، طبقے، غریب یا خوشحال معاشرے سے ہو، اپنی آخرت سنوار سکتا ہے۔

قرآن کہتا ہے: **"قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى"** (سورۂ اعلیٰ: 14) یعنی "بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوگیا۔" دین کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہے۔ انبیاء اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوئے، اور سارا دین اسی غایت تک پہنچنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ (میزان، صفحہ 80)

استاد محترم جاوید احمد غامدی کے فکری نظام میں انسان کو سب سے پہلے اپنی فکر ہوتی ہے۔ وہ دین کو اپنے متعلق کرتا ہے اور زندگی میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ آخرت کی جواب دہی کے حوالے سے وہ انتہائی محتاط ہوجاتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ درجنوں دینی جماعتوں میں شامل ہونے کے بعد، اکثر کا ہدف دوسروں پر تنقید، کسی خاص نظریے اور عصبیت کا دفاع یا ترویج ہوتا ہے۔ دوسری جماعتوں کے نظریات کو مشکوک اور گمراہ کن سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات دوسرے فرقوں کو زبردستی ختم کرنا اولین مقصد بن جاتا ہے۔ یہود و نصارٰی کو ازلی دشمن سمجھا جاتا ہے، جبکہ اپنے مسلمان بھائیوں کو مشرکینِ مکہ سے بھی بڑا مشرک قرار دیا جاتا ہے۔ خود ساختہ فتووں کے ذریعے لوگوں کو گستاخِ رسول یا غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اکثر مذہبی ذہنیت ردِ عمل میں قومی اور عالمی سطح پر دشمنانہ بیانیہ یا اہداف رکھتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ساری دنیا اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں، اور پاکستان، جو اسلام کا قلعہ ہے، اس کے خلاف عالمی سازشیں ہو رہی ہیں۔

قرآن کا سادہ مطالعہ انسان کو اپنی اصلاح کی فکر دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسروں کی بہتری سے لاتعلق ہو جائے۔ وہ ایک متوازن مقام پر کھڑا ہو کر زندگی کی جائز حقیقتوں کو سمجھتا ہے اور دین کے مقرر کردہ معیارات کو فوقیت دیتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی تزکیے کو ہر حال میں بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ایک منٹ پچپن سیکنڈ کے کلپ میں استاد جاوید احمد غامدی نے ہزاروں کتابوں اور دینی جماعتوں کی جدوجہد اور مسلم اسکالرز کے سیاسی نظریات سے نجات دلا دی ہے۔ ان کا جواب ہر دور میں اسلام کے مقدمے کو سربلند رکھتا ہے۔ اس میں نہ صوفیانہ جیسی دنیا سے لاتعلقی ہے کہ دنیا سے کنارہ کشی کر لی جائے، اور نا ہی وہ احساسِ تفاخر کہ ہم ہی دنیا پر حکومت کے لیے آئے ہیں۔ صرف غلبہ اسلام کی جدوجہد کو ہی ایمان کی واحد کسوٹی سمجھنا درست نہیں۔ قرآن کے مطابق یہ انبیاء کی ذمہ داری تھی، جبکہ عام امت پر بھی دین کی دعوت کی ذمہ داری ہی ہے۔

**ظفر اقبال چھینہ**

31/07/2025

محترم غامدی صاحب ۔۔۔ ایک رپورٹنگ

محترم غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے بطور قاری اور سامع ربط تقریباً مستقل رہتا ہے۔ محترم غامدی صاحب عمر کے اس حصے میں جس محنت اور دردمندی سے اپنا کام کر رہے ہیں اس پر آدمی حیران بھی ہوتا ہے اور دل سے دعا بھی نکلتی ہے۔ ان کا تحریری اور تقریری کام اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ منظم طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں بہت وسعت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے ہر کام میں جو مہارت اور ہنرمندی (professionalism) نظر آتی ہے وہ بھی ازحد قابل ستائش ہے۔ ان کے کام کا ایک اور اہم پہلو اِس کی جمالیات اور سلیقہ مندی ہے۔ ہر کام نہایت مرتب اور سلیقے سے سامنے آتا ہے اور اس کام میں جز اعتنائی (attention to detail) سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سحر آوری میں کس قدر خونِ جگر گھلا ہو گا۔ یہ صرف پیسوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہمارے اہلِ تصوف سے زیادہ کس کے پاس پیسہ ہو گا؟ وہ بیچارے محترم غامدی صاحب کے رد میں (ابھی تک) ایک فقرہ بھی بہم نہیں کر سکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس مساوات میں دماغ کے رول پر کسی کی توجہ نہیں گئی۔

ابھی میں نے وسعت کا ذکر کیا ہے۔ میں اس سے یہ مراد لے رہا ہوں کہ دینِ اسلام اور انسانی زندگی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا پہلو ایسا نہیں ہے جس پر محترم غامدی صاحب نے کلام نہ فرمایا ہو۔ اس وسعت کی وجہ سے ان کے کام کی اثراندازی میں بھی بےپناہ اضافہ ہوا ہے اور ان کے بالمقابل مکاتب فکر کی فصیلیں نہ صرف گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں بلکہ ڈھیتی ہوئی سنائی بھی دیتی ہیں، اور میں ملبے تلے دبے لوگوں کی چیخوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ محترم غامدی صاحب کی شخصیت اور فکر میں دبستانِ تجدد نہ صرف اپنے عروج اور قبولیت کی منزل مراد حاصل کر چکا ہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب مذہب کا مستقبل بھی شاید یہی ہے۔

محترم غامدی صاحب کی فکر کو دبستانِ شبلی کہنے میں مجھے انشراح صدر نہیں ہے۔ اس دبستان کی فکر کا اصل تغذیہ آقائے سرسید سے آتا ہے۔ اور آقائے سرسید کے عہد میں ان کے مقابل جو لوگ تھے وہ سب اجل گرفتہ تھے اور پھر ہم نے دیکھا کہ ان کو اجل نے آ لیا۔ آج کل ان کی تکفین چل رہی ہے اور شاید اگلا مرحلہ وہی ہو گا جو تکفین کو لازم ہے۔ اگر برصغیر کے بڑے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ عصر حاضر میں تجدد نے مذہب کو آخری سہارا دیا ہے، اور مذہب کی باقی تعبیرات ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہوتی چلی گئی ہیں۔

بہت سے اہلِ علم محترم غامدی صاحب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ گھبرائے ہوئے لوگ ہیں اور ان میں غصہ بھی بہت زیادہ ہے، اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا کہ گرفت کہاں سے اور کیسے کرنی ہے۔ محترم غامدی صاحب پر تنقیدات سے، جہاں تک میں دیکھ پایا ہوں، اس امر کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ناقدین کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اصل وجہ اختلاف کیا ہے۔ جس طریقے پر محترم غامدی صاحب کی فکر اور ان کی تعبیرات کا سامنا کیا جا رہا ہے وہ کچھ بھی مفید نہیں ہے۔ ان کے ناقدین متجدد ہیں اور نہ روایت پرست، کیونکہ محترم غامدی صاحب کی تعبیرات کو اسلاف مخالف ثابت کر دینا کوئی دلیل نہیں ہے۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اعتراضات، اختلاف اور مخالفت کی وجہ شاید معاشرے میں محترم غامدی صاحب کی عمومی پذیرائی ہے۔ اس مناقشے کی حیثیت ایک turf war سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی اور مذہب کو صرف نام کی حد تک استعمال کیا جاتا ہے۔

قارئین کرام بخوبی واقف ہیں کہ میں فکرِ غامدی کا مقر و حامی نہیں ہوں۔ لیکن مسلم روحِ تہذیب پر دعوے کی جو جنگ اس وقت چل رہی ہے اور اس کا جو نقشہ مجھے نظر آتا ہے وہی عرض کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترم غامدی صاحب کے مخالفین کے پاس غصے اور دشنام کا ذخیرہ وافر ہے، کیسہ بھی بھرا ہوا ہے لیکن کوچۂ روایت میں مندی بہت ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جس great debate کا آغاز ہوا تھا اس میں روایت پسند طبقہ مسلسل ہزیمت میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روایت کے علمی اور علمیاتی وسائل ان کی رسائی سے باہر ہیں اور زمانہ بھی ان کا دستگیر نہیں۔ مزید یہ کہ ان کے کلبۂ احزاں میں قدیم و جدید کسی تصورِ عقل کا کوئی گزر بھی نہیں۔ پھر جدید تاریخ نے جو مسلسل نتائج ظاہر کیے ہیں وہ متجددین کے حق میں ہیں۔

گزارش ہے کہ مذہبی تجدد میں کوئی روایتی یا جدید علمیاتی اور ہرمینیاتی اصول کارفرما نہیں ہوتا، اور اس کے علمیاتی اور ہرمینیاتی اصول عقلی ہیں اور نہ مذہبی۔ مذہبی تجدد علمیاتی طور پر عقل کی نئی اور ناقابل دفاع تشکیل سے پیدا ہوتا ہے جس میں بنیادی مقصد مذہب اور ہم عصر دنیا میں تطبیق ہے۔ اگر فقہ کی فروعات میں کارفرما اصولِ تطبیق کو پورے دین پر پھیلا دیا جائے تو نتیجہ تجدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اصلاً مذہبی تجدد اور اس کے مخالف مکاتبِ فکر کے مابین مناقشے کی جڑیں ہماری تہذیب کے بہت ہی گہرے علمی بحران میں پیوست ہیں۔ ”مذہب کی درست تعبیر کیا ہے؟“ کے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ ”علم کیا ہے؟“ اور ”ہرمینیات کیا ہے؟“ ہرمینیاتی مسئلہ چونکہ زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے، اس لیے میں ایک علمیاتی مسئلہ سامنے رکھتا ہوں جس سے صورت حال کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکے گی۔

امام عالی مقام ابوحامد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ”تہافت“ میں ایسے لوگوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے جو عالم کو قدیم مانتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ اور مراکش کے مسلمان فلسفی محترم طہ عبدالرحمٰن دونوں نے امام عالی مقام کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسے رد کیا ہے۔ دلیل ایک ہی ہے کہ ایمان منطق کا کوئی قضیہ نہیں ہے اس لیے منطقی موقف کے ان حاملین کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ میں امام عالی مقام کے موقف کو درست اور دوسرے موقف کو غلط سمجھتا ہوں۔ یہ دلیل تو درست ہے کہ ایمان منطق کا کوئی قضیہ نہیں ہے، لیکن ان کی دلیل صرف ٹیکنیکل ہے، اور حقیقی سوال کو اڈریس نہیں کرتی۔ اصل بات یہ ہے کہ عالم کا قدیم ہونا یا نہ ہونا ایک علمی موقف ہے۔ اور سوال یہ تھا کہ کیا کوئی علمی موقف کفر ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس پر امام عالی مقام کا موقف یہ تھا کہ کچھ علمی مواقف کفر بھی ہو سکتے ہیں، جبکہ مولانا مودودیؒ اور محترم طہ عبدالرحمن کی رائے اس کے برخلاف ہے۔ مثلاً یہ ایک جدید اور سیکولر علمی موقف ہے کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جب اس موقف کا ذکر علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ کے سامنے کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ جو آدمی یہ موقف رکھے وہ کافر ہے۔ بعینہٖ صورت حال عالم کے قدیم ہونے کے موقف کی ہے۔ جدید عہد میں بیسیوں علمی مواقف ہیں جو اسی طرح کے ہیں اور ہمارے اہل علم ان مواقف کے وجودی اور مذہبی مضمرات سے باخبر نہیں ہیں۔

اس میں نکتہ یہ ہے کہ عقلی علم/ منطقی موقف حقائق کا محاط نہیں ہو سکتا۔ عالم کی حقیقت کا علم خبر سے ہے نظر سے نہیں ہے، اور عالم کے قدیم ہونے کا موقف حقائق میں سے ہے، اور اس کو علمی یا منطقی کہہ کر اختیار کرنا خبر کی عین ضد ہے۔ اپنی پرانی بات کو دہراتے ہوئے عرض کروں گا کہ علم کی بحث میں علمیاتی اور وجودی موقف میں فرق کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جدید علوم میں اولیات (axioms) کے طور پر اختیار کردہ وجودی مواقف یا عقلی حاصلات کے طور پر قائم کردہ وجودی مواقف بالعموم نظر کی آڑ میں خبر کی براہ راست ضد ہوتے ہیں اور ان کو اختیار کر کے کوئی آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اب تو ہمارے حالات یہ ہیں ہمیں ربا پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا ہے، اور اس طرح کے علمی مواقف میں بھلا کسے دلچسپی ہو سکتی ہے؟

مذہبی تجدد کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اصحابِ تجدد کو اپنی بات سمجھ آئے نہ آئے، ان کے مخاطبین کو خوب سمجھ آتی ہے۔ مذہبی تجدد اپنے مواقف کو common sense سے موافق رکھتا ہے، ایک ایسی کامن سینس جس کی پوری تشکیل ہم عصر ثقافتی مؤثرات کے تحت مکمل ہوتی ہے۔ ہماری علمی روایت میں کسی عقلی دلیل کا کوئی گزر نہیں کیونکہ اب فہم ہی سب سے بڑی علمی قدر بن چکی ہے، اور فہم بھی وہ جو ذہن کی بجائے حس کی شرائط پر ڈھلی ہو۔ محترم غامدی صاحب کے تجدد اور دینی تعبیرات کے مسائل کو صرف اسی وقت قابل فہم بنایا جا سکتا ہے جب ان کے اصول و مبادی کو کسی ثقہ علمیاتی اور ہرمینیاتی تناظر میں زیربحث لانے کے وسائل پیدا کیے جائیں جس کا امکان ان کا ناقدین کے ہاں ابھی نظر نہیں آتا۔

واللہ اعلم بالصواب۔@

نوٹ۔
قابل صد احترام محمد دین جوہر صاحب کی اس معنی خیز تحریر پر ہم ان کا بےحد شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ جیسے صاحب علم افراد نے استاد مکرم کے علم و دانش اور حد درجے محنت طلب کام دیکھ کر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تحسین سے بھرپور لاجواب تحریر پیش کی ہے۔ میرا جیسا دین کا ایک ادنی طالب علم بھی محسوس کرتا ہے، کہ آپ جیسا بڑا عالی دماغ، استاد گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کے فکری کام کو گہرائی سے سمجھ کر لکھ رہا ہے، اس کا صاف مطلب استاد کے کام کی حیثیت اور اہمیت غیر معمولی صورت حال اختیار کر گئی ، یہ فکر وحی کی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے۔ اس قرآنی فکر کے دلائل کسی سے مستعار نہیں، یہ عہد کا سب سے بڑا تجدیدِ دین اسلام امت مسلمہ کو انشاءاللہ فکری گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہو گا۔ روایتی فکر سے کئی گنا زیادہ معاشرے پر اب مثبت اثرات پڑنے والے ہیں۔ ہم تو پر امید ہیں اب ہر دن استاد کی فکر کا ہے، اہل علم لوگوں میں پزیرائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ استاد کے اخلاص اور مثبت کردار سے اب مکالمہ کی فضا پیدا ہو گئ۔ اگر کہیں اس فکر میں نقص و جھول موجود ہے، لوگ ضرور اس پر نقد کریں، تاکہ دین اجلا اور واضح سب تک پہنچے، لوگ اب زیادہ دیر اندھیروں میں اور تضادات میں نہیں جئیں گے۔
ظفر اقبال چھینہ

27/07/2025

میرا شہزادہ، میرا 🌙 چاند
میرا حافظ محمد عمیر!

چار سال کے تعلیمی وقفے کے بعد ایک عام اسکول، گھریلو دیسی ماحول، والدین اور بہن بھائیوں کی خصوصی توجہ کے بغیر نویں جماعت میں سائنس مضامین میں 389 نمبر حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ انشاءاللہ میرے بیٹے کا ہر کل آج سے بہتر ہوگا۔

آج میٹرک کے نتائج پر ایک بار پھر بےحد خوشی ہوئی ہے۔ میری آنکھیں نم ہیں، اور میرا دل اپنے بیٹے کی محبت سے پہلے سے زیادہ سرشار ہے۔ میرا یہ بیٹا ان شاء اللہ میرا نام روشن کرے گا۔ میرا بیٹا ذہین اور سادہ طبیعت کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بچے میں صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ کاش ہمارے حکمران تعلیمی اداروں کی بہتری کی طرف تھوڑی سی توجہ دیں تو کوئی قوم ہمارے بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ میں تعلیمی نظام میں نمبروں اور مقابلوں سے زیادہ بچوں کی شخصی تربیت اور علم دوستی کے رویوں کی حوصلہ افزائی پر یقین رکھتا ہوں۔ نئی نسل نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرے بلکہ دینی اور اخلاقی اقدار میں بھی بلند مرتبہ ہو۔

اولاد کی کامیابی والدین کی عمر بڑھاتی ہے۔ ویسے فخر کا احساس زیادہ مناسب نہیں، لیکن اولاد کی کامیابیوں پر کچھ حد تک جائز بھی ہے۔

محمد عمیر! کل کی بات لگتی ہے جب میں تمہیں ڈانٹ کر اسکول چھوڑ آیا تھا۔ پہلے دنوں میں کسی دن اسکول جانے کے لیے تمہیں ہلکا سا ڈرانے کے لئے مارا تھا، اور اس پر میرا دل کئی دن زخمی رہا، اور اکیلے میں میں رویا بھی تھا، کیونکہ میں تم سے سچے دل سے محبت کرتا ہوں۔ تمہاری تعلیم کے حوالے سے کبھی کوئی شکایت نہیں آئی۔

میں اپنی نالائقی سمجھتا ہوں کہ اپنے بچوں کی
پرورش، تربیت، اور مناسب ماحول فراہم کرنے میں کہیں نہ کہیں کمزور رہا۔ اگر اعلیٰ تعلیمی ادارے اور اخلاقیات سے مزین اساتذہ میسر آجائیں تو شخصیت میں نکھار آجاتا ہے۔ میں اسپیشلی عمیر کے ایک استاد کا بےحد شکریہ ادا کرتا ہوں، جناب ملک خلیل الرحمٰن اعوان صاحب جیسے ماہر تعلیم کی بےلوث راہنمائی اور توجہ نے بڑا مثبت رول ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل میں مزید ترقی عطاء فرمائے آمین۔ میرے چاند، زندگی ابھی بہت کھلی پڑی ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے علم کے میدان میں ایک الگ دنیا بنا لو۔ میں اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کے ساتھ تمہارے ساتھ ہوں۔

تجھے سورج کہوں یا چندا
تجھے دیپ کہوں یا تارا
میرا نام کرے گا روشن
جگ میں میرا راج دلارا

ہر والدین اپنے بچوں کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں، بلکہ ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی کی ہر سیڑھی پر ان سے آگے نکلیں۔


اسکولوں اور مدارس کے نظام اور اس کی خامیوں پر
اہل علم لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے بھی چند تحریریں لکھی ہیں۔ حفظ کی روایت ہماری اسلامی تہذیب کا حصہ ہے، لیکن بعض احادیث جن کی صحت پر محققین کو اعتراضات ہیں، جیسے کہ حافظ اتنے لوگوں کی بخشش کا باعث بنے گا، سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ خود کتاب و سنت پر عمل کرنے والا ہے؟ کیا وہ دین کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے؟ دین کا انسان سے مطالبہ کیا ہے؟ کامیابی کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے۔ جو قرآن کریم کو سمجھ کر اس کے احکام اور پاکیزگی کے تقاضوں کو پورا کرے، وہی آخرت میں کامیاب ہوگا۔ ایمان اور عمل صالح ہی نجات اور انسان کی فلاح کی ضمانت ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے:۔

*إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ* (سورہ العصر: 3)
یعنی، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق کی تلقین کی، اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔

والدین کو ثواب اسی صورت میں ملے گا جب انہوں نے اچھی تربیت کی ہو۔ اگر بچے نیکی کرتے ہیں اور والدین کی نیت و کوشش اس میں شامل ہے، تو یقیناً
پروردگار سے ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔

مجھے خوشی ہے کہ میرے بیٹے نے میٹرک میں 929 نمبر حاصل کیے۔ لیکن ہمارا تعلیمی نظام زیادہ تر یادداشت پر مبنی ہے۔ امتحانات کے دنوں میں رٹا لگا کر پاس ہوجائیں، اور بعد میں سب کچھ بھول جائیں۔ نصاب زندگی کا حصہ نہیں بنتا، شعور پیدا نہیں ہوتا، اور بچوں میں تنقیدی، تعمیری، یا تحقیقی صلاحیتیں بھی کم نظر آتی ہیں۔ ہم خود میٹرک کے بعد کسی ایک موضوع پر چند منٹ بول نہیں سکتے تھے۔ یہ تعلیمی نظام تخلیقی صلاحیتوں کو دبا دیتا ہے۔ رٹا کلچر غالب ہے۔ جس طالب علم کی یادداشت تیز اور ذاتی محنت زیادہ ہو، وہ اچھے نمبر لے سکتا ہے، لیکن اچھے نمبر کوئی حتمی معیار نہیں۔ اس نمبروں کی دوڑ میں کئی بچوں کو ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا جاتا ہے، اور وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنے ضمیر کو ملامت کرتے ہیں کہ وہ نالائق ہیں۔

میں اپنے بیٹے کی تعلیمی کامیابی سے خوش ہوں، لیکن اس تعلیمی نظام پر افسوس بھی ہے۔ میرے بیٹے نے پانچویں جماعت کے بعد، جب کرونا کی وجہ سے تعلیم رکی، اور حفظ کی منزلیں بھول گیا، چار سال کے وقفے کے بعد براہ راست نویں جماعت میں داخلہ لیا۔ اس کی ضد تھی کہ وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ ہی میٹرک کرے گا۔ اگر کوئی بچہ اس رٹا سسٹم میں کامیاب ہو سکتا ہے، تو وہ کلاسز چھوڑ کر، باقاعدہ اسکول کے بغیر، گھر بیٹھ کر بھی ماسٹرز تک تعلیم مکمل کر سکتا ہے۔ اس سے تربیتی نظام، اساتذہ کا کردار، اداروں کا نظم، اور نصاب کی کمزوریاں واضح ہوتی ہیں۔ اگر ایک سال کا نصاب ادھورا رہ جائے، تو وہ کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے جب تک اسے دوبارہ مکمل نہ کیا جائے۔

میرا بیٹا حافظ محمد عمیر ابھی تک موٹر سائیکل نہیں چلاتا، نہ اسے سکھایا گیا، نہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل دینا حادثاتی موت کا باعث بن سکتا ہے، اور اس میں والدین بھی ذمہ دار ہوتے ہیں کہ انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی۔ حفظ کی کلاس کے لیے میں صبح خود اسے لے جاتا تھا، عصر کے وقت واپس لاتا تھا، اور پھر گراؤنڈ میں چھوڑ دیتا جہاں وہ والی بال کھیلتا تھا۔ حفظ کے اساتذہ کو واضح کہا تھا کہ میرے لاڈلے بچے کو یا کسی اور کے بچے کو مارنا نہیں ہے۔ پھر بھی ایک دو بار اسے مار پڑی، جس کا اس نے اس وقت تو ذکر نہیں کیا، لیکن اس کے زخم اب بھی میرے دل پر ہیں۔ نجانے کیوں حفاظ استاذہ کے مزاج میں مارنا شامل ہوتا ہے۔ اصل میں مالی دباؤ، چیک اینڈ بیلنس کی کمی، اور اخلاقی تربیت کا فقدان ہے۔ کب تک استاذہ تھوڑی تنخواہ پر جنت کے خوبصورت تصورات کے سہارے زندگی کی ضروریات سے منہ موڑ کر سالہا سال گزارے جائیں گے؟

حافظ محمد عمیر کی آج تک کوئی شکایت نہیں آئی، نہ وہ فضول دوستوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ پانچویں جماعت تک گرمیوں کی چھٹیوں کا کام چھٹیوں سے پہلے مکمل کر لیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسے سیکھنے کی بہت لگن ہے۔ اب وہ فرسٹ ایئر میں ہے اور ساتھ ہی کمپیوٹر کے لیکچرز سنتا رہتا ہے، یوٹیوب کا خوب استعمال کرتا ہے۔ میں نے گھر میں کوئی مثالی ماحول تو نہیں بنایا، لیکن اس کی صلاحیتیں، ذوق، اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں نے شاید مجھے سکون دیا ہے۔ وہ میری توقعات سے بڑھ کر تعلیمی میدان میں ترقی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کے بچوں کو باشعور بنائے۔

**ظفر اقبال چھینہ**

Address

Leiah
Punjab

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zafar Iqbal Chheena posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share