10/09/2025
حضرت دیوان سید غلام دستگیر قادری اپنے جدامجد اعلیحضرت سید کمال قادری کیتھلی گیلانی کے دوسرے بیٹے حضرت سید شاہ موسیٰ ابو المکارم گیلانی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ جد امجد مغلیہ عہد حکومت میں بغداد سے کیتھل شریف صوبہ ہریانہ انڈیا میں تشریف لائے۔دیوان حضرت سید غلام دستگیر گیلانی کی ولادت 13جنوری 1922ء میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی مذہبی و روحانی تعلیم اپنے والد محترم حضرت سید جمن شاہ گیلانی سے حاصل کی اور آپ انہی کی بیعت تھے۔ اس کے علاوہ حضرت سید علی احمد شاہ گیلانی آف ڈی جی خان اور حضرت کرمانوالے سرکارآف اوکاڑہ نے بھی آپکی روحانی، مذہبی اور عملی منازل کو آسان کرنے میں مدد دی۔ شروع ہی سے آپ عاجزی ، انکساری ، عبادات الٰہی اور معرفت کی طرف راغب تھے۔ اسی لئے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ریاضت عبادت، چلوں، مجاہدوں ، دربارات پر حاضری اور اپنی ذات کی نفی میں گزرا۔ آپ نے تقریباً 12سال تک اپنے آپ کو لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر جنگل بیابانوں میں وجودِ باری تعالیٰ کی تلا ش میں گزراے۔ سخت اور کھٹن چلوں اور عبادات کے ذریعے اپنے نفس کی نفی کی اور روحانیت اور فیوض کی ارفع و اعلیٰ منازل طے کرتے ہوئے روحانیت کے بلند مقام پر پہنچے ۔ عبادت الٰہی کیلئے آپ نے پاک و ہند کے مختلف علاقوں کا سفرکیا اور اپنی زندگی وقف کردی۔ یہ وہی دور تھا جب تحریک پاکستان بام عروج پر تھی اور پاکستان کے حصول کا مطالبہ زور پکڑ تاجارہا تھا ۔ آپ ظاہری و باطنی عبادت کے علاوہ تحریک پاکستان کے لئے بھی اپنے حلقہ احباب و مریدین کے ذریعے بھر پور جدوجہد میں مصروف رہے ۔ اسی لئے آپ کی دوستی و تعلق حضرت سید محمود علی شاہ بخاری سے گہرا ہوتا گیا اور جب بھی دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر اور دربارحضرت مولانا سیدبدر الدین اسحٰق پر حاضری دیتے تو حضرت سید محمود علی شاہ بخاری کے گھر ڈھکی پاکپتن شریف تشریف لاتے اور کئی علمی اور روحانی مباحثوں کے ذریعے لوگوں میں روحانیت کے چراغ روشن کرتے۔
حضرت سید غلام دستگیر گیلانی دریائے ستلج کے کنارے آباد کئی شہروں و علاقوں خاص طور پرپاکپتن ، وہاڑی ، بہاولنگر، بہاولپور وغیرہ پر خصوصی عبادات اور ذکر الٰہی کے ذریعے اپنی چلہ گاہوں میں تبدیل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی طرح چاولی مشائخ دربار حضرت حاجی شیر ( بورے والا ) پر چلہ معکوس بھی کاٹا۔ آپ نے بلوغت کے بعد سے لیکر وفات تک کبھی نماز تہجد نہ چھوڑی۔ رمضان المبارک کے علاوہ آپ کثرت سے روزے رکھتے اور ہر اسلامی ماہ کی 15,14,13تاریخوں کے روزے باقاعدگی سے رکھتے۔ دریشوں اور اولیاء کرام کی پیروی میں طرح کم کھانا اور کم سونا آپ کی زندگی کا شیوا تھا۔عاجزی اور انکساری کا مادہ آپ میں بادرجہ اتم موجود تھا ۔ اور یہی چیز ذاتِ باری تعالیٰ کو پسند آئی اور آپ کے مریدین کا حلقہ و سیع ہوتا چلا گیا۔ آپکی دعا اکسیر اعظم کا درجہ رکھی تھی۔ اولیاء کرام کے درباروں پر حاضری خصوصی طور پر باقاعدگی سے دیتے اور آپ کے مریدین و اصحاب اور عشفین مختلف جگہوں اور مراکز پر فیوض و برکات حاصل کرتے۔ حضرت سید غلام دستگیر گیلانی جوانی میں انتہائی پر کشش شکل و صورت کے مالک تھے۔ لیکن اس کے باوجود جوانی کا پیشتر حصہ مجذوبی اور مجاہدوں میں بسر ہوا۔ آپ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے اور آپ کی کئی کرامات ضرب ِ المثل ہیں۔ 26جنوری2012 بمطابق 2ربیع الاول 1434ھ کو آپ خالق حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کے وصال کی خبر سنتے ہی لوگ درود شریف کا ورد کرتے قبولہ شریف کی طرف آنا شروع ہوگئے ۔نمازجنازہ اور تدفین میں مخلوق باری تعالیٰ رکنے کا نام نہ لے رہی تھی اور اگلے روزبعد نماز جمعۃ المبارک بمطابق 3ربیع الاول کو بہت بڑی تعداد میں افراد نے آپ کی اس اجتماع میں شرکت کی۔آپ کا عرس مبارک ہر سال 2اور 3ربیع الاول کو قبولہ شریف(ضلع پاکپتن شریف) میں آپکے سجادہ نشین وفرزندسیدمحمد سلمان محسن گیلانی کے زیر صدارت انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔