17/07/2025
تذکرۃ الاولیا میں مرقوم ہے کہ ’’حلاج کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔‘‘ ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ’’حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہو ، کہنے لگے میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زردپڑ گیا ہوگا میں نے اپنے چہرے کو سرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہوگا ۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہر ہ تو سرخ کرلیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا ۔جواب دیا کہ وضو کیلئے ۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے ۔
جب منصور کے ہاتھ، پاؤں ، بازو کاٹے جاچکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا ۔ میں تیرے دیدار کیلئے آرہا ہوں، اب جلاد نے حامد کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کئے ’’واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہوجائے۔ میں تیرے دیدار کو آرہا ہوں۔‘‘ حلاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کردیا گیا اور پھر آگ لگادی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا ۔
علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں ’’ جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہوجائے گا اور قریب ہوگا کہ پانی بغداد کو غرق کردے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہوجائے ۔ جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آگئی حتی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ بغداد غرق ہوجائے گا تو خلیفہ نے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا ۔ حاجب نے کہا ہاں امیر المومنین اس نے اسی طرح کہا تھا تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی ۔ پانی کی سطح پر وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہوگیا ۔
یہ 309ھ کی بات ہے ۔ موت سے عین پہلے منصور حلاج نے آخری بات یہ کہی ’’اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھادیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا ۔ اے اللہ میرے قاتلوں کو معاف کردے۔‘‘
واللہ اعلم
------------------------------------------------------
شہیدِ محبت حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ
858ء ایران کے شہر طور میں پیدا ہوئے
والد کپڑا بنتے تھے، جن کی وجہ سے نسبت حلّاج پڑ گئی
بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا
بچپن ہی سے آیات کے باطنی معانی تلاش کرنے کا شوق تھا
بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا
874ء
سولہ برس کی عمر میں تعلیم مکمل کر لی، جس میں صرف و نحو، قرآن اور تفسیر شامل تھےاور تستر چلے گئے جہاں سہل التستری کےحلقہٴ ارادت میں شمولیت اختیار کر لی، جن کی تعلیمات نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
876ء
اس زمانے کے تصوف کے اہم مرکز بصرے چلے گئے اور وہاں عمرو المکّی کے سلسلہٴ طریقت میں شامل ہوگئے۔
878ء
ابو ایوب الاقع کی بیٹی سے شادی کر لی ،بعد میں عمرو المکّی ان کا مخالف ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد بغداد چلے گئے جہاں ان کی مشہور صوفی بزرگ جنید بغدادی سے ملاقات ہوئی۔
897ء
دوسرا حج کرنے کے بعدبحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔جس کے دوران ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں سے واسطہ پڑا۔ ہندوستان میں انھوں نے ملتان اور منصورہ کا سفر کیا۔
بغداد واپسی پر جادو، افسوں طرازی اور جنات سے رابطے کے الزامات لگے
گلیوں بازاروں میں والہانہ انداز میں اشعار پڑھتے اور خدا سے عشق کا اظہار کرتے
خود کھانا کھانے کی بجائے اپنے سیاہ رنگ کا کتے کو کھلایا کرتے تھے، جس کو وہ اپنا نفس کہا کرتے تھے۔
اسی دوران ایک دن صوفی بزرگ شبلی کے دروازے پر دستک دی۔ جب شبلی نے پوچھا کون ہے، تو جواب میں یہ مشہور فقرہ کہا اناالحق۔
913ء
گرفتار کر لیا گیا اور نو برس تک نظر بند رکھا گیا
نظر بندی کے دوران کتاب الطواسین مکمل کی۔
آخر بارسوخ وزیر حامد العباس کی ایما پر مقدمہ چلایا گیا
قاضی ابوعمر ابن یوسف نے حکم نامہ جاری کر دیا گیا کہ تمہارا خون بہانا جائز ہے
25 مارچ 922ء
کی رات کو قید خانے میں ابنِ خفیف آکر ملے
پوچھا، عشق کیاہے؟
حلّاج نے جواب دیا، کل خود دیکھ لینا
26 مارچ 922ء
پہلے ان کو سولی دی گئ پھر ان کے ہاتھ کاٹے گئے، پھر پیرکاٹے گئے اور آخر میں سر قلم کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی لاش پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔
ﭼﮍﮬﺎ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺳﻮﻟﯽ ﭘﺮ ﺟﻮ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﺎ ﻭﮨﯽ ﺩﻟﺒﺮ--
ﺍﺭﮮ مُلّا ﺟﻨﺎﺯﮦ پڑھ، ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺪﺍ ﺟﺎﻧﮯ--