Kanarni ki Awaaz

Kanarni ki Awaaz kanrani ki awaz page banana ki maqsaad kanrni qabeeeela ki haqoooq ki khilaf warzoun k khilaaf awaz buland krna.

31/10/2024

✍️ موت میرے کان میں گدگدی کرتی ہے اور کہتی ہے " اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ" اپنی زندگی گزارو میں آ رہی ہوں۔۔۔۔۔

04/10/2023

فرعون بڑا چول تھا
مگر وہ کبھی بھی اپنے استقبال کے لئیے لوگوں کو
ہنڈا 125 کا لالچ نہیں دیتا تھا🔥😁

جبری گمشدگی ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے پیڑوں کا آکسیجن استعمال کرتے ہیںاپنے دریاوں کا پانی پیتے ہیں اپنی زمیں کو ...
01/09/2023

جبری گمشدگی

ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے پیڑوں کا آکسیجن استعمال کرتے ہیں
اپنے دریاوں کا پانی پیتے ہیں
اپنی زمیں کو بچھاتے اور اپنے آسماں کو اوڑھتے ہیں

ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے نام سے پکارے جانا چاہتے ہیں
وہ نام جو ہمیں اپنے آبا و اجداد اور اپنی دھرتی سے ملا ہے
مگر وہ ہمیں باغی قرار دیتے ہیں

ہمارے بیٹوں کو سڑکوں پر سے
گندم کے دانوں کی طرح چُگ لیا جاتا ہے
وہ ہمارے لوگوں کو لاپتہ کر دیتے ہیں
جیسے جادوگر اپنی ٹوپی میں کبوتر کو غائب کر دیتا ہے
وہ ہمارے بچوں کو یوں غائب کر دیتے ہیں
جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں
وہ صرف کاغذات میں زندہ رہتے ہیں :
نام،تاریخِ پیدائش ،والد،قوم ۔۔۔۔
(یقیناً، آثارِ قدیمہ والے کئی سو سال بعد ہماری آہوں کا کوئی قبرستان ڈھونڈ نکالیں گے )

ان کے بس میں ہوتا
تو وہ سورج کو کسی ٹارچر سیل میں پھینک دیتے ،
چاند کی لاش کسی بوری سے ملتی ۔

ان کے بس میں ہوتا تو وہ زندگی کو کسی جعلی انکاونٹر میں مار دیتے

کوئی نہیں جانتا
لاپتہ بچوں کی مائیں
ایک دن میں اپنے اندر کتنی دفعہ لاپتہ ہوتی ہیں

کوئی نہیں جانتا
لاپتہ لوگوں کی روحوں کو موت کا کونسا فرشتہ پہلے
قبص کرتا ہے
کوئی نہیں جانتا
لاپتہ لوگوں اور سوالوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟

31/08/2023

جب تک عوام سامنے نہیں آئے گی پاکستان اغیار و مکار کے تسلط سے آزاد نہیں ہو سکتا

09/08/2023

آئیں آپ کو ایک چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں ،

مگر ٹھہرئیے ، کہانی شروع کرنے سے پہلے ایک ضروری بات سن لیتے ہیں تاکہ بعد میں آپ کو کہانی کے تانے بانے ملانے میں آسانی ہو ۔

کل بلاول بھٹو نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئیے مگر افسوس کہ ہم سیاسی جماعتیں انہیں اس راہ پر نہیں لا سکیں اور اب ہمیں ایک ایسا نظام چاہئیے جس میں ، مَیں اور مریم نواز کھل کر سیاست کر سکیں ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ ، ، ،

اب آئیے ، کہانی سنتے ہیں ۔

تقسیمِ ہند سے پہلے جنگلوں میں شکار کھیلنے والے ایک نواب کے ہاتھ شیر کا ایک معصوم بچہ لگا ۔ نواب صاحب احتیاط سے ٹوکری میں رکھ کر اسے گھر لے آئے کہ شیر کو گھر میں پالیں گے اور بچوں کیلئے تفریح کا سامان بھی پیدا ہو جائے گا ۔ شیر کا بچہ نواب کے گھر پرورش پانے لگا اور وافر خوراک اور بہتر نگہداشت کے سبب چند مہینوں میں ہی ایک کڑیل شیر کے روپ میں نظر آنے لگا ۔

مگر یہاں ایک مسئلہ بھی سر اٹھانے لگا ۔ جوں جوں شیر بڑا ہوتا گیا ، گھر کے افراد کے ساتھ کھیل کود کے دوران اس مانوس شیر کی حرکتیں خطرناک ہونا شروع ہو گئیں۔ اب اس کی حرکتوں اور اچھل کود کے ساتھ اس کے منہ سے غراہٹیں برآمد ہونے لگیں اور انداز سے سرکشی جھلکنے لگی ۔ روز بروز اس کی شرارتیں خطرناک سے خطرناک تر ہوتی گئی اور اب اس کی آنکھوں سے بچے جیسی معصومیت کے بجائے ایک درندے جیسی غضبناکی اور خطرے کی نشانیاں دکھائی دینے لگیں اور اس کے اس رویے کے چلتے ،گھریلو ملازمین اور دیگر افراد اس سے فاصلہ رکھنے اور کنی کترانے میں ہی عافیت سمجھ کر اس سے دور دور رہنے لگے ۔

ایک دن نواب صاحب بیگم صاحبہ کے ساتھ لان میں ٹینس کھیل رہے تھے کہ اچانک پھسل کر گرے اور ان کی کہنی چھل گئی اور ہلکاسا خون رسنے لگا ۔

نواب صاحب کرسی پر آ بیٹھے اور ریلکس کرنے لگے کہ اس دوران شیر ان کے پاس آیا اور لاڈ کرنے اور حسب معمول ان کے ہاتھ پاؤں چاٹنے لگا ۔ نواب صاحب محبت سے شیر کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور شیر کی کے پیار کو انجوائے کرتے رہے ۔ اچانک شیر کی زبان نواب صاحب کی زخمی کہنی پر گئی اور شیر نے خون کا ذائقہ چکھ لیا ۔ نواب صاحب نے محسوس کیا کہ زخم پر شیر کی زبان تیزی سے چلنے لگی اور اس کی رگڑ سے ان کی کہنی جلنے لگی ۔ نواب صاحب نے شیر کو الگ کرنے اور اٹھنے کی کوشش کی تو شیر کی غراہٹیں بلند ہونے لگیں اور اس نے اپنی ٹانگیں رکھ کر نواب صاحب کو زمین پر گرا لیا اور اپنی سخت اور کھردری زبان سے ان کی کہنی کو چھیلنا شروع کر دیا ۔

تب نواب صاحب کو حالات کی سنگینی اور خطرے کی شدت کا احساس ہوا ۔ بحرحال شکاری تھے اور مضبوط اعصاب کے مالک بھی ۔ انہوں نے صبر اور برادشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملازم کو زور زور سے پکارا اور فوراً اپنی رائفل لانے کا کہا ۔

ملازم جلدی میں گن کے کر آیا تو ںواب صاحب نے دوسرے ہاتھ سے شیر کی کنپٹی پر گن رکھ کر فائر کیا اور شیر گر کر ہلاک ہوگیا ۔ تب تک شیر نواب صاحب کا بازار ادھیڑ چکا تھا اور اگر وقت پر ملازم گن لے کر نہ آتا تو نواب صاحب پرلوک سدھار چکے ہوتے ۔

اب واپس بلاول کے بیان کو پڑھئیے ، پھر کہانی کو دیکھئیے ، پھر بلاول کے بیان کو پڑھئیے ، ، ، ،

بلاول صاحب ، نہ تو آپ کے پاس مضبوط اعصاب ہیں اور نہ ہی عوامی حمایت کی بندوق ، بلاول صاحب ، شیر سے کھیلنے کے شوق میں آپ یہ بھول گئے کہ آپ کی کہنی کرپشن کی رگڑ سے چھل چکی ہے اور اس میں سے عوام کا پیسہ خون کی شکل میں رِس رہا ہے ۔ آپ یہ بھی بھول گئے کہ شیر جب طاقتور ہوجاتا ہے تو پھر خون اس کی بھی مرغوب غذا ہے !

زرا نہیں پورا سوچ لے۔۔
03/08/2023

زرا نہیں پورا سوچ لے۔۔

02/08/2023

کمزور پر طاقت ور حاوی ہے۔(گوادر یونیورسٹی لاہور میں)

میں رنگ نسل اور ذات پات کا تعہصب تو پھیلانا نہیں چاہتا ہوں ہاں مگر اتنا سا ضرور لکھوں گا اور اپنے رائے کو اپنے حلقہ احباب کے گوش گزار کر دو اور اپنے حلقہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے مسلے کو بھی اجاگر کرونگا تاکہ ہر طبقے کا لوگ اس اور اس جیسے مسلے کو سمجھ سکے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے ہمارے حلقہ کے آر ڈی 298 کا نام تبدیل کر کے میرمحمد کھوسہ کے نام سے منسوب کیا گیا جس کے شہادت بھی آر ڈی 298 کے حدود میں نہیں ہوا علاقہ اور حدود کے حساب سے اسکا کسی کنرانی برادری کے نام سے منسوب ہونا چاہے تھا۔مزید اضافہ کرتا چلوں گوادر میں بن نے والی ائیر پورٹ کا نام بھی کسی رانا کے نام سے منسوب کیا گیا جو کے بلوچ اور بلوچ ہیرو۔ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے اور اب گوادر کیلئے چین کی تعان سے بن نے والا یونیورسٹی لاہور میں بن نے جارہا جو کے بلوچ اور بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بلکل ناانصافی ہے۔یہ یونیورسٹی لاہور کے بجائے بلوچستان کے گرین بیلٹ نصیر آباد بیلٹ میں بن نا چاہئے تھا۔

Address

Quetta Balochistan
Quetta

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kanarni ki Awaaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kanarni ki Awaaz:

Share

Category