
26/05/2025
بلوچستان میں پرنٹ میڈیا کے خلاف حکومتی اقدامات نئی بدامنی کا پیش خیمہ؟
تحریر سید انور شاہ
صوبے میں سب سے پہلے اخبار فروشوں کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے فنڈ ز کا اجراء بند کردیا گیا ، جس پر وہ ردعمل سامنے نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں پرنٹ میڈیا جو ہدف بنایا گیا جو عدم ادائیگوں کی وجہ سے شدید بحران کا شکار تھا ،اس دوران ایک اور مبینہ حملہ جاری ہے، جس کی وجہ حکومت کا وہ فیصلہ ہے جس میں بغیر کسی آئینی و قانونی یا منظوری کے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ حکومتی اشتہارات اب پرنٹ میڈیا میں شائع کرنے کے بجائے صرف بیپرا (BEPRA) کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پالیسی کی کوئی قانونی بنیاد یا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی تاحال سامنے نہیں آیا، جس سے اس فیصلے کی سنجیدگی اور شفافیت پر مزید سوالات اٹھتے ہیں۔اس غیر اعلانیہ فیصلے کے خلاف بلوچستان بھر میں پرنٹ میڈیا اور اخباری صنعت سراپا احتجاج ہے۔ نہ صرف اخباری مالکان بلکہ صحافتی اداروں کی نمائندہ تنظیمیں بھی میدان میں آ چکی ہیں، یہ احتجاج اب اسلام آباد تک پھیل چکا ہے۔ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں مالی دبا وکا شکار ادارے "ڈاون سائزنگ" کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں، اور ایک بڑے قومی میڈیا گروپ نے تو ایک ہی جھٹکے میں اپنے 80 سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ صوبے میں بے روزگاری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ،جس پر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (BUJ) نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے میڈیا ورکرز کا "معاشی قتل" قرار دیا ہے۔ بی یو جے کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف انسانی حقوق، بلکہ آئین و قانون، اور صحافتی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ITNE کی واضح ہدایات کے باوجود جن میں ملازمین کو ویج ایوارڈ کے تحت مستقل ملازمتیں دینے کا حکم دیا گیا تھا، اس گروپ نے انہیں برطرف کر کے نہ صرف قانون کو للکارا ہے بلکہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کو بھی پامال کیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی سطح پر اس معاملے پر خاموشی، اور بیپرا جیسے پلیٹ فارم کے ذریعے اشتہارات کی تقسیم کی پالیسی، ایک نئے بحران کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں جہاں پہلے ہی بیروزگاری، محرومی اور بداعتمادی کے احساسات پائے جاتے ہیں، ایسے فیصلے بدامنی اور ادارہ جاتی کمزوری کو مزید ہوا دے سکتے ہیں۔یہ صرف اشتہارات کا مسئلہ نہیں بلکہ صحافت کی بقا، میڈیا کی آزادی اور کارکنوں کے معاشی تحفظ کا سوال ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کی، اور میڈیا اداروں کی مالی بحالی کے لیے واضح پالیسی نہ اپنائی، تو خطرہ ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف اخبارات بند ہوں گے بلکہ بے روزگاری اور احتجاج کی ایک نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے، جو سیاسی و سماجی طور پر خطرناک ہوگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام پرنٹ میڈیا ادارے، صحافتی تنظیمیں، اور میڈیا ورکرز ایک صفحے پر آ کر حکومت کے خلاف اجتماعی جدوجہد کا آغاز کریں۔ بی یو جے نے جس ہمت اور جرات سے اس مسئلے کو اٹھایا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دیگر تمام ادارے بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، تاکہ نہ صرف صحافت کو بچایا جا سکے بلکہ بلوچستان میں جمہوری اظہار اور آئینی حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔حکومت کو خبردار کیا جاتا ہے کہ بیپرا کی آڑ میں اخبارات کا گلا گھونٹنے کی یہ پالیسی نہ صرف مسترد کی جاتی ہے بلکہ اگر اس پر فوری طور پر نظرثانی نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ ایسی بدامنی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جس کی ذمہ داری مکمل طور پر ریاستی پالیسی سازوں پر عائد ہوگی۔
#نیوزپیپر #بلوچستان