Faiz Muhammad

Faiz Muhammad Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Faiz Muhammad, Digital creator, Quetta.

یہ پیج اُن تمام لوگوں کے لیے ہے جو علم سے محبت رکھتے ہیں۔ یہاں آپ کو زندگی، سائنس، تاریخ، مذہب، انسانیت، کائنات اور روزمرہ کے حیرت انگیز حقائق کے بارے میں دلچسپ اور معلوماتی پوسٹس ملیں گی۔ ہمارا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ آپ کی سوچ کو جگانا ہے۔🤔🤔💕

پتہ کا آپریشنـــــــــــــــــــــــاکثر لوگ جب الٹراساؤنڈ کرواتے ہیں اور ان کے پتہ میں پتھریاں (کاڑیاں) نظر آتی ہیں تو ...
24/08/2025

پتہ کا آپریشن
ـــــــــــــــــــــــ

اکثر لوگ جب الٹراساؤنڈ کرواتے ہیں اور ان کے پتہ میں پتھریاں (کاڑیاں) نظر آتی ہیں تو ڈاکٹر فوراً آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں۔ اگر کبھی کبھار درد بھی ہونے لگے تو پھر یہ مشورہ اور بھی سخت ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو بھی یہ پتہ ایک فالتو چیز لگتی ہے، اس لیے فوراً اسے نکلوانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

حالانکہ پتہ جسم کے لیے ایک نہایت ضروری عضو ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا مائع یعنی بائل بناتا ہے، جو چکنائی والی غذا ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس کے علاوہ وٹامن A، D، E اور K جیسے کئی چرب حل پذیر وٹامنز کی جسم میں جذب ہونے کے لیے بھی بائل ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بغیر یہ وٹامنز مکمل طور پر ہضم نہیں ہوتے۔

جب پتہ نکال دیا جائے تو چکنائی کو ہضم کرنے میں مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں اور جسم کمزور ہو سکتا ہے۔ اگر آپ چکنائی والی غذا کھاتے رہیں تو ساری عمر معدے اور ہاضمے کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور چکنائی فائدے کی بجائے نقصان دے گی۔

اگر پتھریاں صرف پتہ کی تھیلی میں ہوں اور وہ نالی (duct) تک نہ پہنچی ہوں تو چاہے پتہ پتھریوں سے بھرا ہو، عام طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
جب کبھی کبھار درد ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پتھری جسم کی حرکت کے ساتھ اپنی جگہ بدلتی ہے اور نالی کے منہ پر آ کر اٹک جاتی ہے۔ اس وقت آپ کو فوراً رک جانا چاہیے یا دائیں کروٹ پر لیٹ جانا چاہیے — اس سے درد کم یا ختم ہو سکتا ہے۔ اگر درد زیادہ ہو تو درد کم کرنے والی دوا لی جا سکتی ہے۔

الٹراساؤنڈ ہمیشہ صرف سیدھا لیٹ کر نہ کروائیں بلکہ دائیں کروٹ پر لیٹ کر بھی کروائیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ پتھریاں حرکت کرتی ہیں یا نہیں۔ بعض اوقات کھڑے ہو کر کیا گیا الٹراساؤنڈ بھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے، کیونکہ اگر پتھری نالی میں مستقل طور پر نہ ہو تو وہ حرکت کرے گی۔

اگر ضرورت ہو تو فالو اپ کرتے رہیں۔ اگر پتھری اپنی جگہ نہ چھوڑے یا نالی میں آ کر پھنس جائے یا نیچے CBD (common bile duct) میں چلی جائے تو یرقان (پیلیا ہو سکتا ہے — ایسے حالات میں پھر آپریشن ضروری ہو جاتا ہے۔

اس عورت کو تاریخ کی سب سے بڑی قا-ت-لہ قرار دیا جاتا ہے۔اس کا طریقہ واردات آپ کو پریشان کردے گا۔یہ سچے واقعات کا سلسلہ بر...
23/08/2025

اس عورت کو تاریخ کی سب سے بڑی قا-ت-لہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس کا طریقہ واردات آپ کو پریشان کردے گا۔
یہ سچے واقعات کا سلسلہ برطانیہ میں ہوتا رہا ہے۔

اس خوفناک عورت یعنی ایملیا کی پیدائش 1837ء کو برطانیہ میں ہوئی تھی۔

وہ اک غریب فیملی میں پیدا ہوئی تھی۔
شروع میں بطور نرس کام کرتی رہی ۔
مگر پھر مارکیٹ میں ایک کام کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہونے لگی۔
عموما جب کوئی دو محبت کرنے والے حدیں پار کرتے اور بچہ ہوجاتا تھا۔
تواس ڈر سے کہ کہیں لوگ بری باتیں یا طعنے نہ دیں۔
یا پھر جو والدین اپنی جائز اولاد کو بھی مشکلات کی وجہ سے نہیں پال سکتے تھے۔
تاں کہ بچوں کی پرورش کے لیے خود کو نہ تھکانا پڑے۔

انہوں نے غیر قانونی طور پہ Baby Farmers سے رابطہ شروع کردیا۔
یہ وہ لوگ جو بچوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

ایمیلی کو یہ بہت اچھا موقع نظر آئے۔

اس نے اخبار میں اشتہار دیا:
"میں اور میرا شوہر بغیر اولاد کے رہ رہے ہیں۔
ہماری خواہش ہے کہ بچے کو پالیں۔
ہم آپ کے بچے کو اپنے گھر میں رکھیں گے۔
اور اس کا پورا خیال کریں گے۔"

نوجوان جوڑیوں کو یہ خیال پسند آیا۔
وہ ایملی کو کچھ رقم بھی دے دیتے تھے۔
اور بچہ بھی حوالہ کردیتے۔

یہ سلسلہ چلتا رہا۔
لوگ مسلسل اپنے بچوں کو حوالے کر کے اپنی دنیا میں کھو جاتے تھے۔
کئی والدین یا تو بہت دور رہتے تھے۔
یا پھر شرمندگی کی وجہ سے دوبارہ پتہ نہیں کرتے تھے۔

دوسری طرف پیسے لے کر ایملی درج ذیل کام کرتی تھی:
★بچے کو O***m syurp یعنی تیز دوا سے بے ہوش کرتی۔
★پھر سانس بند کرکے ما ر دیتی تھی۔
★کبھی جلدی میں ہوتو بچے کو کسی کپڑے یا فیتے سے گلا گھونٹ دیتی۔
★لاش کو تھیلے میں بند کر کے ندی نالے یا کبھی قریبی دریا میں پھینک آتی تھی۔

واپس گھر آکر بڑے پیار سے ایک خط لکھتی تھی:
"آپ کا بچہ بالکل سکون میں ہے۔"

والدین یہ خط پڑھ کر خوش ہوتے تھے۔
مگر حقیقت میں ان کا پھول جیسا بچہ بغیر کھلے ہی مرجھا جاتا تھا۔

یہ سلسلہ اتنا زیادہ ہوا کہ بعد کی تفتیش بتاتی ہے۔
ایمیلی نے کم ازکم 400 سے زائد نوزائیدہ بچے مارے۔

کہتے ہیں کہ آپ جتنی احتیاط بھی کرلیں۔
اک نہ اک دن آپ کا راز کھلنا ہی ہوتا ہے۔

ایک دن اک ملاح کشتی میں سوار پانی میں جارہا تھا۔

اسے اک بیگ ملا جو پانی کی سطح پہ تیر رہا تھا۔

اس نے بیگ کھولا تو اک خوفناک منظر اس کا منتظر تھا۔
کہتے ہیں کہ بچے کو اس زور سے باندھا گیا تھا۔
بیگ کھولتے ہی گردن کا اوپر والا حصہ الگ ہوگیا۔

اور باقی دھڑ جیسے فٹبال سے جدا ہوا ہو ایسا بن گیا تھا۔

ملاح نے جلدی سے کشتی کنارے پہ لائی اور فورا مقامی پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس نے اس بیگ کی تلاشی لی تو وہاں اک کاغذ دھندلا سا پڑا ہوا تھا۔

جس پہ ایمیلی کے گھر کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔

ریڈنگ کی پولیس نے ندی نالوں کی تلاشی شروع کی۔
تو انکشافات حیران کن حد تک سامنے آتے رہے۔
کئی جگہ پہ ڈیڈ باڈی پتھروں یا جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی تھیں۔
اور یہ تعداد درجنوں میں تھی۔

پولیس کے پاس صرف ایڈریس تھا مگر ثبوت اتنا بھی مضبوط نہیں تھا۔
چناں چہ انہوں نے ایک ٹریپ سجایا۔

انہوں نے دور سے چھپ کر اپنی اک آفیسر کو بھیجا۔
دروازہ پہ ایمیلی سے ملاقات ہوئی۔
ایمیلی نے بتایا کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔
وہ خوشی سے ان کے بچے کو ایڈاپٹ کرلے گی۔
یوں اس کی تنہائی بھی دور ہوجائے گی۔

یہ کام تو پہلے ہی غیرقانونی تھا۔
چناں چہ مضبوط ثبوت بننےپہ:
★ایمیلی کو گرفتار کیا گیا۔
★گھر سے ثبوت اکٹھے ہوئے۔
★عدالت میں کیس چلا۔

تفتیش کے بعد پتہ چلا۔
جھوٹ سے بچے رکھنے کے نام پہ ایمیلی نے 400 بچوں کی جان لی تھی۔
اخبارات اس کے خوفناک کارناموں سے بھرگے۔

اور لوگوں کو یقین نہیں آیا کہ کوئی ایسے کیسے کرسکتا ہے۔

آج تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اسے Baby Butcher کے نام یاد رکھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بوڑھی ایمیلیا کے ساتھ اس کا داما بھی شامل تھا۔

مگر قا-تلہ نے جیل جاتے ہی پاگل بننے کا بہانہ بنایا۔
اور جب تفتیش کا دائرہ مزید تنگ ہوا۔
تو اس نے داما د کو بچاتے ہوئے کہا:
"یہ سب ق-ت-ل میں نے خود کیے ہیں۔"

وہ آخری دن تک پاگل بننے کی اداکاری کرتی رہی۔
شاید کسی طرح جان چھوٹ جائے۔

مگر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا:

"یہ سفاک عورت پاگل بننے کی اداکاری کر رہی ہے۔"

چناں چہ دس جون 1896ء لندن میں اسے پھانسی دی تھی۔

ایلیما جیسی سیریل کلر کے کیس نے برطانیہ کو ہلا کررکھ دیا تھا۔
اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اک سال بعد ہی ایک نیا قانون بنا۔
یعنی 1897ء کو Infant Life Protection Act پاس ہوا۔

جس کے مطابق:

"جن کی تحویل میں 7 سال سے کم عمر بچے ہیں۔
تو اس کے مرنے کی اطلاع 48 گھنٹوں کے اندر لازمی کرنی ہے۔"

بچہ گود لینے کے قوانین کو بھی مزید سخت کیا گیا۔

شکریہ
بلال مختار
آسٹریلیا


مغربی اونی اڑنے والی گلہری: ایک نسل جو 100 سال کیلئے غائب ہوگئی تھیمغربی اونی اڑنے والی گلہری (𝙒𝙚𝙨𝙩𝙚𝙧𝙣 𝙒𝙤𝙤𝙡𝙡𝙮 𝙁𝙡𝙮𝙞𝙣𝙜 𝙨𝙦𝙪...
04/08/2025

مغربی اونی اڑنے والی گلہری: ایک نسل جو 100 سال کیلئے غائب ہوگئی تھی
مغربی اونی اڑنے والی گلہری
(𝙒𝙚𝙨𝙩𝙚𝙧𝙣 𝙒𝙤𝙤𝙡𝙡𝙮 𝙁𝙡𝙮𝙞𝙣𝙜 𝙨𝙦𝙪𝙞𝙧𝙧𝙚𝙡/𝙀𝙪𝙥𝙚𝙩𝙖𝙪𝙧𝙪𝙨 𝙘𝙞𝙣𝙚𝙧𝙚𝙪𝙨) جانوروں کی بادشاہی میں سب سے زیادہ پُراسرار اور دلچسپ مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اپنی خفیہ نوعیت اور قابل ذکر موافقت کے لیے مشہور، اس گلہری کی تاریخ اسرار، دوبارہ دریافت اور تحفظ کے چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے۔

پہلی بار 1888 میں اولڈ فیلڈ تھامس (Oldfield Thomas) نے ہمالیہ میں جمع کردہ محدود نمونوں کی بنیاد پر بیان کیا تھا۔ اس کی ابتدائی دریافت کے بعد، یہ نسل بنیادی طور پر ایک صدی سے زائد عرصے تک سائنسی ریکارڈ سے "غائب" ہو گئی۔ بہت سے لوگوں کا خیال نے اسے دیکھنے کی کمی یا نئے نمونوں کی کمی کی وجہ سے معدوم قرار دے دیا ہے۔ 1994 میں، اونی اڑنے والی گلہری کو شمالی پاکستان کے دور دراز پہاڑوں میں کام کرنے والے ماہر حیاتیات ڈاکٹر پیٹر زہلر (Dr. Peter Zahler) نے شاندار طریقے سے دوبارہ دریافت کیا۔ اس واقعہ نے عالمی دلچسپی کو جنم دیا، کیونکہ اس نے بظاہر کھوئی ہوئی نسل کو دوبارہ سائنسی روشنی میں لایا۔

اس کی کھال موٹی، اونی، اور سرمئی بھوری ہے، جو اس کی اونچائی پر رہنے والے ٹھنڈے آب و ہوا کے مطابق ہے۔ اس کے پاس ایک اچھی طرح سے تیار شدہ پیٹجیم (patagium) (جلد کی ایک جھلی) ہے جو اسے ایک درخت سے دوسرے درخت تک اڑنے میں مدد دیتی ہے، حالانکہ یہ درخت پر چڑھنے سے زیادہ چٹانوں پر چلتا ہے۔ یہ رات کا اور درخت پر رہنے والا جانور ہیں، یہ غاروں اور پتھریلی چٹانوں میں رہنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی اڑنے والی گلہریوں میں سے ایک ہے، جس کے جسم کی لمبائی تقریباً 60 سینٹی میٹر (24 انچ) اور ایک جھاڑی دار دم بھی ہے جو جسم کے جتنی لمبی ہوتی ہے۔

اونی اڑنے والی گلہری ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے کے دور دراز اور ناہموار اونچائی والے علاقوں میں پائی جاتی ہے، بنیادی طور پر گلگت بلتستان میں، بشمول وادی استور، چترال، اور شمالی پاکستان میں وادی نیلم میں۔ بھارت کے کچھ حصوں اور افغانستان میں انتہائی نایاب ہے اور شادوناز ہی دیکھی گئی ہے۔
یہ عام طور پر 2,400 سے 3,800 میٹر (8,000 سے 12,500 فٹ) کی اونچائی پر بکھرے ہوئے درختوں کے ساتھ کھڑی پتھریلی خطوں میں پائے جاتے ہیں۔

یہ بنیادی طور پر مخروطی درختوں کی سوئیاں کھاتے ہیں، خاص طور پر دیودار اور سپروس کی اور کبھی کبھار پتھریلی چٹانوں پر پائی جانے والی کائی اور لا یکن کھاتے ہیں۔

زیادہ تر اڑنے والی گلہریوں کے برعکس، یہ درختوں کے علاوہ اکثر چٹانی رہائش گاہوں میں بھی پائی جاتی ہے، یہ نہ صرف درختوں کے درمیان بلکہ پتھریلی چتانوں کے درمیان بھی اڑان کرسکتا ہے۔

اس کے بریڈنگ کے رویے کے بارے میں بہت کم معلوم ہے، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے سخت ماحول کی وجہ سے اس کی تولیدی شرح کم ہے۔

مخروطی جنگلات کی کٹائی اور انسانی تجاوزات نے اس کے قدرتی مسکن کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔ مقامی لوگ بعض اوقات اونی اڑنے والی گلہری کو اس کی کھال اور گوشت کے لیے شکار کرتے ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بدلتے ہوئے موسمی انداز اس کے اونچائی والے ماحولیاتی نظام کے نازک توازن کو متاثر کر رہے ہیں، جس کی وجہ یہ خطرے سے دو چار ہے۔

یہ ایک انتہائی خطرے سے دوچار انواع ہے، اس کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی آبادی انتہائی چھوٹی اور بکھری ہوئی ہے۔

مقامی لوگوں میں، اونی اڑنے والی گلہری کو اکثر تجسس کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے لوک داستانوں سے جوڑا جاتا ہے۔ اس کی پراسرار فطرت نے اسے پہاڑی علاقوں میں افسانوں کی مخلوق بنا دیا ہے۔

اونی اڑنے والی گلہری دور دراز اور ناقابل رسائی علاقوں میں پوشیدہ حیاتیاتی تنوع کی علامت کے طور پر کھڑی ہے۔ اس کی دوبارہ دریافت یہاں تک کہ انتہائی دور دراز رہائش گاہوں کے تحفظ کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، کیونکہ یہ اکثر ایسی انواع کو پناہ دیتے ہیں جنہیں ابھی تک پوری طرح سے سمجھنا باقی ہے۔

اونی اڑنے والی گلہری صرف ایک جانور نہیں ہے۔ یہ مشکلات کے خلاف بقا کی، اسرار اور دوبارہ دریافت کی کہانی ہے، اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں تحفظ کی اہم ضرورت ہے۔ اس کی کہانی سے امید پیدا ہوتی ہے کہ نایاب ترین مخلوق کو بھی کوشش اور آگاہی کے ساتھ ڈھونڈا اور بچایا جا سکتا ہے۔
Khan Rashid

(محمد حارث جٹ)

𓆈 𓆣 𓃦جنگلی جانوروں کی کھوج 𓃦𓆗𓆉

جب سائنس قرآن کی تفسیر کرنے لگےمعمول کے مطابق ٹک ٹاک دیکھ رہا تھاایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ڈاکٹر  یہ بات کر رہے تھےکہ ا...
03/08/2025

جب سائنس قرآن کی تفسیر کرنے لگے

معمول کے مطابق ٹک ٹاک دیکھ رہا تھا
ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں ڈاکٹر یہ بات کر رہے تھے
کہ انسان کے جسم کے اندر سب سے زیادہ جینیاتی مشابہت رکھنے والا جانور دراصل خنزیر ہے

میں نے ویڈیو کو نظرانداز کر دیا
لیکن وہ بات ذہن کے اندر کہیں بیٹھ گئی

دو دن بعد
جب میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا
تو سورۃ المائدہ کی ایک آیت پر دل ٹھہر گیا

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّۭ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ ٱللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ ٱللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ ٱلْقِرَدَةَ وَٱلْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ ٱلطَّاغُوتَ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ شَرٌّۭ مَّكَانًۭا وَأَضَلُّ عَن سَوَآءِ ٱلسَّبِيلِ
سورۃ المائدہ آیت ٦٠

ترجمہ
کہہ دیجئے کیا میں تمہیں اُن لوگوں سے بھی بدتر انجام کے بارے میں بتاؤں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ ناراض ہوا اور اُن میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی یہ لوگ بدترین مقام والے اور راہِ راست سے سب سے زیادہ بھٹکنے والے ہیں

میں صرف عذاب کے تصور پر نہیں رکا
بلکہ سوچ میں پڑ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے بندر اور خنزیر کا ذکر ہی کیوں چُنا

سائنس ہمیں بتاتی ہے
کہ انسانی جسم جن جانوروں کو سب سے بہتر قبول کرتا ہے
ان میں سب سے نمایاں خنزیر ہے
اس کے دل کا صمام ہو
گردہ ہو
یا جلد
انسانی جسم اسے آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور رد نہیں کرتا

تحقیق یہاں تک کہتی ہے
کہ خنزیر کے گوشت کے بافتی ریشے انسان کے گوشت کے سب سے زیادہ مشابہ ہیں
اور بعض سنگدل مجرموں نے جنہوں نے آدم خوری جیسے گناہ کیے
یہ گواہی دی کہ انسانی گوشت کا ذائقہ خنزیر کے گوشت سے بہت ملتا جلتا ہے
العیاذ باللّٰہ

اب سوال یہ ہے
کہ جب اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل فرمایا
تو انہیں بندر اور خنزیر ہی کیوں بنایا گیا

سورۃ الأعراف میں اس کی مزید وضاحت آتی ہے
جہاں اصحاب السبت کے گناہ پر فرمایا گیا

فَلَمَّا عَتَوْا۟ عَن مَّا نُهُوا۟ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا۟ قِرَدَةً خَـٰسِـِٔينَ
سورۃ الأعراف آیت ١٦٦

ترجمہ
پھر جب وہ ان باتوں سے باز نہ آئے جن سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ہو جاؤ ذلیل بندر

جب ہم جدید حیاتیاتی تحقیق پر نگاہ ڈالتے ہیں
تو معلوم ہوتا ہے کہ چمپانزی کا ڈی این اے انسان سے اٹھانوے اعشاریہ پانچ فیصد مشابہت رکھتا ہے

یعنی یہ مشابہت صرف شکل میں نہیں بلکہ مکمل جینیاتی سطح پر موجود ہے
سائنس اسے ارتقاء کہتی ہے
لیکن قرآن اسے مسخ قرار دیتا ہے

تو کیا مسخ صرف چہرے اور جسم کی شکل کا ہوا تھا
یا اندرونی ساخت بھی بدل دی گئی تھی
کیا یہی وجہ ہے کہ آج بندر اور خنزیر ہمارے جسمانی نظام سے اتنی مماثلت رکھتے ہیں

پھر ایک اور آیت پر دل رکا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ ۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍۢ وَلَا عَادٍۢ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ
سورۃ البقرۃ آیت ١٧٣

ترجمہ
اللہ نے تم پر صرف مردار خون خنزیر کا گوشت اور وہ چیزیں حرام کی ہیں جن پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرنے والا ہو نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے

یہاں غور سے دیکھنے پر سمجھ آتا ہے
کہ اللہ نے صرف خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے
اس کی چربی اس کی کھال اس کے اعضاء کا ذکر نہیں
تو حرمت کھانے میں ہے
استعمال یا طب میں نہیں

یہ سوچ میرے دل میں ٹھہر گئی
کیا وہ قومیں جنہیں اللہ نے مسخ کیا
ان کی خِلقت اس حد تک تبدیل ہو گئی
کہ آج ہم انہی کے جینیاتی نظام کو اپنی بیماریوں کے علاج میں استعمال کر رہے ہیں

سبحان اللہ
ایسا لگتا ہے جیسے جیسے سائنس آگے بڑھ رہی ہے
ویسے ویسے قرآن کے الفاظ اور زیادہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں

سَنُرِيهِمْ ءَايَـٰتِنَا فِى ٱلْءَافَاقِ وَفِىٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ
سورۃ فصلت آیت ٥٣

ترجمہ
ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے دنیا کے کناروں میں بھی اور ان کے اپنے نفسوں میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہ قرآن ہی حق ہے اور کیا تیرے رب کا یہ جاننا کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے

ہم سچائی سے منہ موڑ سکتے ہیں
مگر اللہ کی نشانیاں ہم سے منہ نہیں موڑتیں
اور شاید آنے والا وقت ان آیات کو اور زیادہ عیاں کر دے گا

مائیریٹیل کوربین ایک غیر معمولی جسم کی حامل امریکی خاتون تھیں جنہیں 1868 میں پیدا ہوئے۔ ان کا جسم بہت عجیب و غریب تھا، ک...
01/08/2025

مائیریٹیل کوربین ایک غیر معمولی جسم کی حامل امریکی خاتون تھیں جنہیں 1868 میں پیدا ہوئے۔ ان کا جسم بہت عجیب و غریب تھا، کیونکہ ان کے پاس نہ صرف دو ٹانگوں کے دو سیٹ تھے، بلکہ دو مکمل pelvic regions بھی تھے، یعنی ان کے پاس دو رحم (uterus)، دو vaginas اور دو تولیدی نظام (reproductive systems) تھے۔ اس عجیب و غریب جسم کے باوجود جیمز کلنٹن نامی شخص نے ان سے شادی کی اور ان کی شادی شدہ زندگی خوشگوار گزری۔

یہ حیرت انگیز بات تھی کہ Myrtle Corbin نے نہ صرف اپنی زندگی میں خوشی کا سامنا کیا بلکہ خدا نے انہیں پانچ بچوں سے بھی نوازا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کے کچھ بچے دائیں رحم سے پیدا ہوئے جبکہ کچھ بائیں رحم سے، یہ سب کچھ ڈاکٹروں کے مطابق تھا۔

ڈاکٹروں نے ان کا خاص طور پر مطالعہ کیا کیونکہ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے "double uterus" ہونے کے باوجود بچوں کو جنم دیا، اور ان کے بچے صحت مند بھی تھے۔ مائیریٹیل کوربین کے بارے میں یہ معلومات نہ صرف طبی دنیا کے لیے ایک انقلابی دریافت تھیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی تھا کہ جسم کی غیر معمولی حالتوں کے باوجود ایک خاتون کی زندگی معمول کے مطابق اور خوشگوار ہو سکتی ہے۔

جب ایرانی شہر نیشا پور کے لوگ صبح سویرے اٹھے تو انہوں نے اپنے شہر کو ترک گھڑ سوار تیر اندازوں کے گھیرے میں پایا اس وقت ہ...
27/07/2025

جب ایرانی شہر نیشا پور کے لوگ صبح سویرے اٹھے تو انہوں نے اپنے شہر کو ترک گھڑ سوار تیر اندازوں کے گھیرے میں پایا اس وقت ہر بندے کی زبان پر دو آدمیوں کا نام تھا جن کو عقاب اور باز کہا جاتا تھا یہ دو جنگجو کمانڈر طغرل اور چغری تھے

یہ سن 1038ء تھا جب عظیم سلجوق کمانڈر طغرل بے نیشا پور میں داخل ہوا تو اس کی کمر پر کمان اور ساتھ تین تیر لٹکے ہوئے تھے تو اس وقت اس کے شہر کے حاکم ہونے اور Oghuz Turkish Tribes کا لیڈر ہونے کا اعلان کیا گیا اسی کی نسل نے پھر عظیم سلجوقی سلطنت قائم کی جسے تاریخ دان ایشیا میں مسلمانوں کی آخری طاقتور سلطنت قرار دیتے ہیں ۔

انسان کھانے والے لوگ!  افریقی ملک کانگو کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں "ازانڈے" نامی ایک قبیلہ موجود ہے، جس کے لوگ زی...
26/07/2025

انسان کھانے والے لوگ!
افریقی ملک کانگو کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں "ازانڈے" نامی ایک قبیلہ موجود ہے، جس کے لوگ زیادہ تر وحشی طرزِ زندگی گزارتے تھے اور *انسانوں کا گوشت کھاتے تھے*۔

اگرچہ اب ان پر یہ عمل زبردستی بند کرایا گیا ہے، لیکن ماضی میں جب یہ لوگ کسی دوسرے قبیلے کے افراد کو پکڑ لیتے یا جنگ کے دوران زخمیوں کو قابو میں کر لیتے، تو *انہیں کھا جاتے تھے*۔ 😖😖

اس قبیلے کے لوگ *دشمن قبیلوں کی عورتوں اور بچوں کے گوشت* کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ پسند کرتے تھے۔

دنیا واقعی عجائبات کا گھر ہے! 😱😏
یا اللہ! ہمیں ایسے حالات سے محفوظ رکھ۔ 🙏😳





2005 میں، ایک سفید سر والے عقاب کو ایک ظالم شکاری نے چہرے پر گولی مار دی، جس سے اس کی چونچ کا ایک حصہ ضائع ہو گیا۔ چونچ ...
23/07/2025

2005 میں، ایک سفید سر والے عقاب کو ایک ظالم شکاری نے چہرے پر گولی مار دی، جس سے اس کی چونچ کا ایک حصہ ضائع ہو گیا۔ چونچ پرندوں کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے، کیونکہ وہ اسی کی مدد سے کھاتے، صفائی کرتے اور اپنا دفاع کرتے ہیں۔ چونچ کے بغیر، یہ عقاب کھانے کے قابل نہ رہا اور بھوک سے مرنے کے قریب تھا۔ خوش قسمتی سے، ایک غیر منافع بخش وائلڈ لائف ریسکیو تنظیم نے اسے تلاش کیا اور اپنی نگہداشت میں لے لیا۔

چونکہ چونچ اس کی بقا کے لیے ضروری تھی، اس ٹیم نے جدید اور مؤثر حل تلاش کیے۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور عقاب کے لیے ایک خصوصی *3D پرنٹڈ مصنوعی چونچ* تیار کی، جو اس کے چہرے پر جوڑی جا سکتی تھی۔

یہ انقلابی اقدام نہ صرف اسے دوبارہ کھانے کے قابل بناتا ہے بلکہ اس کی عام سرگرمیوں کو بھی بحال کرتا ہے۔ عقاب کی حیران کن بحالی نے دنیا کو متاثر کیا، اور یہ ثابت کیا کہ *سائنس اور ہمدردی* مل کر زخمی جانوروں کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔

یہ واقعہ ہمیں وائلڈ لائف کے تحفظ کی اہمیت یاد دلاتا ہے، اور یہ بھی کہ *شکاریوں کے مظالم کے باوجود، اگر ہم چاہیں تو زخمی جانوروں کو دوسرا موقع دے سکتے ہیں*۔

19/07/2025

"جدید سہولتیں، قدیم دیواروں میں!یہ ہے ترقی کا وہ منفرد سنگم، جہاں مٹی کے کمرے میں بھی ٹھنڈی ہوا کا راج ہے۔  "ہم ظاہری تب...
19/07/2025

"جدید سہولتیں، قدیم دیواروں میں!
یہ ہے ترقی کا وہ منفرد سنگم، جہاں مٹی کے کمرے میں بھی ٹھنڈی ہوا کا راج ہے۔
"ہم ظاہری تبدیلیاں نہیں، اندرونی سکون کے قائل ہیں!

زندگی کا معیار ہمیشہ چمکتے فرش، اونچی عمارتوں یا جدید فرنیچر سے نہیں جانچا جا سکتا۔ اصل سکون تو اُس جگہ میں ہوتا ہے جہاں دل کو راحت، نیند کو قرار اور سانسوں کو کشادگی ملے۔ ایک مٹی کا کمرہ، جو بظاہر سادہ اور پرانا لگتا ہے، جب اس میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا کسی اچھے AC سے آتا ہے، تو وہی کمرہ ایک محل جیسا محسوس ہوتا ہے۔

ہم اس دور میں جیتے ہیں جہاں اکثر لوگ دکھاوے کی زندگی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اصل سکون اپنی سادگی میں، خاموشی میں، اور خالص دیسی ماحول میں ملتا ہے۔ وہ مٹی کے گھر میں بیٹھ کر بھی بادشاہوں جیسا چین محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے "آرام" ایک فیلنگ ہے، چیز نہیں۔

تو ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ "ظاہر" سب کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی، ایک کچی دیوار کے پیچھے وہ راحت چھپی ہوتی ہے جو بڑے بڑے شیش محل بھی نہیں دے سکتے۔

#سکون #سادگی #دیسیزندگی #سچاخوشحال

#دیسیلائف #سادگیمیںعظمت

یہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ ہے! افریقہ میں مشرقی افریقی رفٹ لائن کے ذریعے زمین کی سطح ٹوٹ رہی ہے، جس سے ایک نیا سم...
19/07/2025

یہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ ہے! افریقہ میں مشرقی افریقی رفٹ لائن کے ذریعے زمین کی سطح ٹوٹ رہی ہے، جس سے ایک نیا سمندر جنم لے رہا ہے۔ یہ تبدیلی لاکھوں سالوں میں مکمل ہوگی، مگر اس کا آغاز ہو چکا ہے۔

2005 میں ایتھوپیا کے صحرا میں 60 کلومیٹر لمبی دراڑ کھلی تھی، جس نے زمین کی ٹیکٹونک قوتوں کو ظاہر کیا۔ یہ دراڑ ہر سال چند ملی میٹر سے سینٹی میٹر تک بڑھ رہی ہے، جو ہمارے لیے تو آہستہ ہے، مگر جیولوجیکل وقت میں یہ ایک تیز رفتار تبدیلی ہے۔

آنے والے وقتوں میں، سرخ سمندر یا بھارتی سمندر کا پانی اس دراڑ میں آ سکتا ہے، جس سے ایک نیا سمندر وجود میں آئے گا اور ایک علیحدہ برّی حصّہ جنم لے گا۔

یہ قدرتی عمل ہے جس کے ذریعے براعظم ٹوٹتے ہیں، سمندر بنتے ہیں اور زمین بدلتی ہے۔

دار چینی دنیا کے قدیم ترین اور قیمتی ترین مصالحوں میں سے ایک ہے، جو ہمیشہ سبز رہنے والے درختوں کی اندرونی چھال سے حاصل ک...
19/07/2025

دار چینی دنیا کے قدیم ترین اور قیمتی ترین مصالحوں میں سے ایک ہے، جو ہمیشہ سبز رہنے والے درختوں کی اندرونی چھال سے حاصل کی جاتی ہے، جن کا تعلق لورل (laurel) خاندان سے ہے۔ بریٹانیکا کے مطابق، اس کی سب سے قیمتی قسم سیلون دار چینی (Ceylon Cinnamon) یا Cinnamomum verum ہے، جو سری لنکا اور بھارت اور میانمار کے کچھ حصوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کی چھال کو احتیاط سے کاٹا جاتا ہے، خشک کیا جاتا ہے، اور پھر اسے دار چینی کی چھڑیوں کی شکل دی جاتی ہے یا پاؤڈر بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی گرم، میٹھی خوشبو اور ذائقے نے اسے دنیا بھر کی کچن میں ایک لازمی جز بنا دیا ہے۔

لیکن دار چینی کی کہانی صرف باورچی خانے تک محدود نہیں۔ Cylonies and Blunkel کے مطابق، ایک وقت ایسا بھی تھا جب دار چینی سونے سے زیادہ قیمتی سمجھی جاتی تھی۔ قدیم مصر میں اسے لاشوں کو محفوظ رکھنے اور *مذہبی رسومات* میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یورپ میں قرونِ وسطیٰ کے دوران یہ صرف امیروں اور حکمران طبقے کے لیے مخصوص لگژری شے تھی۔ رومن بادشاہ نیرون (Nero) نے اپنی بیوی کے جنازے پر ایک سال کی دار چینی کی سپلائی جلا دی، بطور سوگ اور شان و شوکت کے اظہار کے۔ جب مصالحہ جات کی تجارت اپنے عروج پر تھی، تو دار چینی چاندی سے پندرہ گنا مہنگی بیچی جاتی تھی، اور اس کی اصلی جائے پیدائش عرب تاجروں نے راز میں رکھی ہوئی تھی، جو من گھڑت کہانیاں گھڑ کر اپنی اجارہ داری قائم رکھتے تھے۔
صدیوں تک دار چینی کا اصل ذریعہ ایک راز رہا۔
بریٹانیکا کے مطابق، عرب تاجروں نے دعویٰ کیا کہ یہ دیو ہیکل پرندوں کے گھونسلوں* یا *دور دراز وادیوں میں موجود افسانوی مخلوقات* سے حاصل کی جاتی ہے۔ ان کہانیوں نے دار چینی کی قیمت اور پراسراریت کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ یورپی مہم جو آخرکار اس کے سراغ میں سری لنکا پہنچ گئے۔ اس کے بعد پرتگالیوں، ڈچوں اور برطانویوں نے دار چینی کی تجارت پر قابو پانے کے لیے سری لنکا پر قبضے کی کوششیں کیں، جس نے *نوآبادیاتی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

Address

Quetta

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Faiz Muhammad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share