25/10/2025
جنگ بندی کے باوجود پاک افغان بارڈر 14 روز بھی بند باب دوستی پر تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے کے باعث پھلوں کے 400 ٹرک سپین بولدک میں کھڑے ہیں، جن میں موجود انار، ٹماٹر اور انگور خراب ہوچکا ہے۔ پیدل آمد و رفت بھی بند صرف مہاجرین واپس جا نے کا سلسلہ جاری انہی وجوہات، خدشات کی بنیاد پر کبھی کبھار ہم پیج سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان سے اصلاحات یا حقوق کی جدوجہد ایک الگ چیز ہے، لیکن جذباتی بنیادوں پر مکمل علیحدگی کی سوچ زمینی حقائق، عوامی مفاد اور بین الاقوامی سیاست کے برعکس ہے۔ سمجھداری، حکمت، اور اتحاد ہی مسائل کا حل ہے سوشل میڈیا پر جد وجہد ،پوسٹ سے اذادی کوئی پکا ہوا پھل نہیں کہ اپ کو پلیٹ میں رکھ کر جیسے ہی پاکستان پیچھے ہٹے فورا بھارت پیش کرے کہ یہ لو پورے کا پورا کشمیر مجھے تو صرف پاکستان کی پہل کرنے کا انتظار تھا
نہ بندرگاہ ہے، نہ بین الاقوامی ائیرپورٹ، نہ خود کفیل معیشت
موجودہ آزاد کشمیر کے تمام زمینی، فضائی اور معاشی راستے پاکستان سے جڑے ہیں۔ اگر پاکستان سے رابطہ ختم ہو جائے تو علاقے کی دنیا سے رسائی مکمل ختم ہو جائے گی
مشرق کی طرف بھارت قابض ہے جو کسی قسم کی گزرگاہ کی اجازت نہیں دے گا بلکہ پہلے سے ہی سخت فوجی تسلط رکھتا ہے سرینگر اور دیگر شہروں کے بیرون ملک دوست جب بذریعہ بھارتی ائیرپورٹ چھٹی جاتے ہیں تو بولتے ہیں اگلی فلائٹ کے انتظار میں ہم سخت ضرورت کے باوجود بھی کمرہ نہیں لیتے کیونکہ ایک دن کمرہ لینے کے لیے بھی طرح طرح کی بطور کشمیری قانونی تقاضے پورے کرنا پڑتے ہیں
پہلگام واقعے کے بعد کشمیریوں میں شدید اضطراب کی کیفیت پائی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے شوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے شئیر کرنا تو دور کی بات دیکھنا بھی غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنے لوکل نمبر سے پاکستانی دوست احباب سے ایپ ڈیٹ لیتے کہ کیا صورتحال ہے
ایسے حالات میں پاکستان سے نفرت یا خودمختاری کی بنیاد پر علیحدگی کا نعرہ جذباتی ہو سکتا ہے، لیکن عملی طور پر نہایت پیچیدہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔