03/11/2025
آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے، جب گاڑیاں سڑکوں پر ایک خواب ہوا کرتی تھیں، ہمارے پیج منیجر صاحب ایک نہایت ہی اہم مشن پر نکلے
ڈوگی ناڑا سے پچاس کلومیٹر دور مکئی پسوانے ڈھلی چل پڑے
ڈھلی میں ان کے دیرینہ دوست کرم دین کا ٹھیہ تھا، جو ایک جندر (پن چکی) چلاتا تھا۔ منیجر صاحب نے پچاس کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا، مکئی دی، اور کرم دین کے ساتھ بچپن کے قصے سنائے۔ مکئی پسنے کے بعد، کرم دین نے آٹے کی ایک من (40 کلوگرام) کی بوری منیجر صاحب کے کاندھے پر رکھ دی۔
"اوئے منیجر! مکھن جیسا آٹا پیسا ہے، روٹی مروڑ کر کھانا، یاد کرو گے!" کرم دین نے زور سے آواز دی۔
منیجر صاحب نے بوجھ سہارتے ہوئے اور نسوار تھوکتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا: "کرم دینا! اگر یہ پیٹھ سیدھی بچی تو تجھے مکئی کی روٹی کڑی مکھن کے ساتھ ضرور کھلاؤں گا!"
سورج پوری طرح ڈوب چکا تھا۔ چلتے چلتے، راستے میں عشا کی نماز کا وقت ہو گیا۔ ایک چھوٹے سے
کچے گھر میں نماز ادا کی اور جاننے والے کے گھر رات کا کھانا کھایا۔ اس کے بعد، وہ ایک گھنے جنگل کے راستے پر چل دیے۔ اندھیرا اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا اور بوری کا وزن ہر قدم پر دوگنا ہوتا جا رہا تھا۔
اچانک، ان کے بالکل سامنے، راستے کے بیچوں بیچ، ہوا میں ایک لہر اٹھی اور ایک بھیانک بلا بوڑھی عورت کے روپ میں نمودار ہو گئی! اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح جل رہی تھیں۔
بلا (کھڑکھڑاتی آواز میں): "واہ! کیا خوشبو ہے! تروتازہ، ڈرا ہوا کلیجہ! لا! میں تیرا کلیجہ چبانا چاہتی ہوں۔"
منیجر صاحب خوف سے ٹھٹک گئے۔ ان کے ذہن میں سارا حساب کتاب الٹ پلٹ ہو گیا، مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے! منیجر صاحب نے فوراً مزاح سے کام لیا، خوف کو دباتے ہوئے، بوری زمین پر پٹخ دی اور ہاتھ جوڑ لیے۔
منیجر صاحب (ہانپتے ہوئے): "او میری خالہ بے شک میرا کلیجہ چبانا لیکن ایک سوال کا جواب دے اگر دے دیا تو پھر میرا کلیجہ کھا لینا
جلدی بولو کیا سوال ہے بلا چیخی
منیجر صاحب مکاری سے مسکرائے اور کہا ماسی یہ چالیس کلو مکئی میں نے کرم دین سے پچاس روپے کی خریدی ہے تم مجھے یہ بتاؤ کہ آج سے پچاس سال بعد ڈالر کے حساب سے ایک پاؤ مکئی کے آٹے کی قیمت کیا ہو گی ؟
بلا جو صرف خون اور گوشت کی بھوکی تھی
معاشی الجھن کے اس فلسفے کو سن کر چکرا گئی۔ اس کا خوفناک ذہن اس نئی قسم کی انسانی معاشی مکاری کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
بلا (غصے سے دہاڑی): "تُو بڑا چالاک ہے، انسان! آج میں تجھے چھوڑتی ہوں، مگر اگلی بار صرف کلیجہ مانگوں گی، حساب نہیں!"
بلا نے غصے سے چیخ ماری اور تاریکی کے بادل کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ منیجر صاحب کو فتح تو ہو گئی تھی، مگر وہ خوف سے آدھے رہ چکے تھے۔ ان کا جسم پسینے میں شرابور تھا اور دل کی دھڑکن ایک من آٹے کے وزن سے کہیں زیادہ تیز تھی۔
منیجر صاحب نے فوراً آٹے کی بوری دوبارہ کاندھے پر ڈالی اور بجلی کی طرح دوڑنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دور جا کر ان کی نظر ایک فوجی ٹرک پر پڑی۔ انہوں نے زور سے ہاتھ ہلایا اور خوش قسمتی سے فوجی ٹرک والوں نے انہیں لفٹ دے دی۔ ٹرک میں بیٹھ کر، سپاہیوں کی گپ شپ اور ٹرک کی لائٹوں کی روشنی میں منیجر صاحب کو سکون ملا۔فوجیوں نے انہیں ہاڑی گہل بازار سے نکل
قریب باؤلی کے پاس اتارا۔ منیجر صاحب نے باؤلی کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا۔ وہ صبح فجر کی اذان کے وقت، مکئی کے آٹے کی بوری لے کر اپنے گاؤں ڈوگی ناڑا پہنچے، اور اس رات کے خوف اور مزاح کی داستان ہمیشہ کے لیے یادگار بن گئی۔
اس دن سے، ہمارے پیج منیجر صاحب ہمیشہ کہتے ہیں کہ "جب پیٹ میں بھوک ہو اور کاندھے پر مکئی کا آٹا، تو بڑی سے بڑی بلا بھی گھبرا کر راستہ چھوڑ دیتی ہے، بشرطیکہ تم مکاری نہ چھوڑو!"