31/08/2025
جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف صف بندی کا آغاز
امجد میر
راولاکوٹ:
جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف سیاسی اور مقتدر حلقوں کی منظم صف بندی شروع ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنی بقا کے لیے خطرہ تصور کر رہی ہیں، جبکہ مقتدر حلقے بھی اسے ختم کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سیاسی جماعتیں نسبتاً زیادہ اطاعت گزار ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا بیانیہ عوامی حلقوں میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان بھی اس کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں آئندہ سال عام انتخابات متوقع ہیں اور موجودہ حالات میں عوامی ایکشن کمیٹی تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے، جو سیاسی قیادت اور مقتدرہ دونوں کے لیے ناقابلِ قبول دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی نے باقاعدہ طور پر اپنے ان اراکین کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں جو عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (نون) بھی آنے والے دنوں میں اپنے اراکین کو اس حوالے سے سختی سے پابند بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ قوم پرست جماعتیں، جو ماضی میں عوامی ایکشن کمیٹی کا اہم حصہ رہی ہیں، جیل بھرو تحریک کے بعد باہمی اختلافات کا شکار ہو چکی ہیں اور اب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ایسے میں مقتدر حلقے اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے بڑے مطالبات مقتدرہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں:
1. مہاجرین کی 12 نان کسٹم نشستوں کا خاتمہ – اس مطالبے کی مخالفت تمام بڑی سیاسی جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کر رہی ہیں۔
2. اشرافیہ اور اراکین اسمبلی کی مراعات کا خاتمہ – اس معاملے پر بھی سیاسی جماعتیں مراعات برقرار رکھنے کی حامی ہیں اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مؤقف کی حمایت پر تیار نہیں۔
صحافتی حلقوں میں بھی صورتحال بدل رہی ہے۔ زیادہ تر صحافی جو ماضی قریب تک عوامی ایکشن کمیٹی کے حامی دکھائی دیتے تھے، اب اس کے خلاف بیانیہ بنانے میں سرگرم ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس تبدیلی کی بنیادی وجہ عوامی رائے کو کمیٹی کے خلاف ہموار کرنا ہے تاکہ سیاسی اور مقتدرہ مقاصد کو تقویت دی جا سکے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آئندہ انتخابات میں عوامی ایکشن کمیٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کے لیے سیاسی و مقتدرہ اتحاد مزید سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہو گا۔