
01/06/2025
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ قصائی کام ختم کر کے پہلے سے طے شدہ اُجرت لیتے ہیں اور ساتھ ہی گوشت کا بھی مطالبہ کر دیتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو دیدہ دلیری یہاں تک ہوتی ہے کہ گوشت بنانے کے دوران ہی اپنی پسند کا حصہ پہلے ہی سائیڈ پر کر دیتے ہیں کہ یہ تو اپنا ہے۔
اِس بات کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ جب آپ اُجرت طے کریں تو ان کے کان سے پہلے ہی یہ بات نکال دیں کہ کام مکمل ہوتے ہی طے شدہ اُجرت فوراً ادا کر دی جائیگی مگر گوشت پر اُنکا کوئی استحقاق نہیں۔ یہ مکمل طور پر صاحب جانور کا حق ہے کہ وہ خود استعمال کرے، عزیز و اقارب کو دے اور غرباء و مساکین میں تقسیم کرے۔ قصائی انمیں سے کسی کیٹیگری میں فال نہیں کرتے۔ گوشت بنانا اُنکا پیشہ ہے جسکا معاوضہ اُنہیں ملنا چاہیئے۔ گوشت لوٹنا کسی کتاب میں نہیں لکھا۔
گوشت قیمتی ہے۔ اگر پہلے ہی بکرے کا پانچ ہزار لے لیا اور ساتھ میں دو کلو گوشت بھی لے اڑے تو سمجھیئے پانچ سے چھے ہزار اور گیئے۔ لہذا گوشت کو ایزی نہ لیا کریں اور سوچ سمجھ کر جہاں دینا ضروری ہے اسے وہاں تک پوری احتیاط سے پہنچائیں۔ یاد رکھیئے عید کے دن شاپر اُٹھا کر گلیوں میں گھومنے اور گھر گھر دستک دینے والے بچوں کی اکثریت پیشہ ور بکھاریوں اور آوارہ گردوں کی ہوتی ہے۔ گوشت کی درست تقسیم ہی قربانی کا اصل حُسن ہے۔ یہ وہ میوہ ہے جسے بہت سے سفید پوش لوگ سارا سال نہیں چکھ پاتے۔ اس دن اُن تک اس کا ذائقہ ضرور پہنچائیں اور یہی آپکی اولین ترجیح اور زمہ داری ہونی چاہیے...