01/09/2023
:
ایک انقلابی کی یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی انسان کے ساتھ ہونے والے جبر کو محسوس کرے
تین اقوال ہیں اول ایک انقلابی کی یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی انسان کے ساتھ ہونے والے جبر کو محسوس کرے۔ دوئم جو چیز اہم ہے وہ ہے انقلاب اس کے مقابلے میں ہماری ذات ہمارا وجود بے معنی ہے۔ سوئم انقلابی جدوجہد میں فتح ہوتی ہے یا موت مقدر بنتی ہے۔ یہ تینوں اقوال ہیں عظیم انقلابی رہنما چی گویرا کے جس کا پورا نام ارنسٹوچی گویرا تھا۔ جس نے 14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے قدیم شہر روساریو میں ایک ایسے خاندان میں جنم لیا بھوک، افلاس، تنگدستی گویا اس خاندان کا مقدر تھی۔
چی گویرا وقت سے ذرا قبل ہی پیدا ہوگیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ پیدا ہوتے ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ چار برس کی عمر تک اس کے بازو و ٹانگیں سرکنڈوں کی مانند پتلے تھے مگر چی گویرا کا باپ اسے ایک صحت مند و توانا جوان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے چی گویرا کا باپ اسے خوب خوب ورزش کرواتا گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں ڈالے رکھتا اس سے چی گویرا کے ہاتھ پاؤں تو مضبوط ہوگئے مگر وہ دمے کا مریض بن گیا۔ چی گویرا کا تعلیمی سلسلہ بھی تاخیر سے شروع ہوا۔ چی گویرا کا باپ اسے انجینئر بنانا چاہتا تھا۔ مگر اس نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب چی گویرا تعلیمی میدان میں ایک ذہین لڑکا ثابت ہوا تھا تو دوسری جانب اسے صحرا نوردی کا بھی بے حد شوق تھا اس کا باپ کھلے ذہن کا انسان تھا۔ یوں بھی چی گویرا پانچ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
اس لیے اس کی ہر خواہش کا احترام کیا جاتا جب کہ چی گویرا کی ماں بھی ایک ترقی پسند و مارکسزم سے متاثر خاتون تھیں لیکن اس نے اپنے نظریات اپنے بچوں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ ذکر ہو رہا تھا۔ چی گویرا کی صحرا نوردی و تعلیم کا ، تو حصول تعلیم کا معاملہ ہو یا دیس دیس گھومنے کا یہ دونوں مراحل چی گویرا نے اپنی قوت بازو سے طے کیے اور ہر قسم کی محنت کی۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران ہی وہ ایک قوم پرست تنظیم سیویکولو شیزیو مونٹیگاڈو سے منسلک ہوگیا جس کا نعرہ تھا بحث نہیں عمل۔1947 کو چی گویرا نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن دیس دیس گھومنے کا اپنا شوق جاری رکھا۔
اسی شوق کی تکمیل کے دوران چی گویرا پر طبقاتی ظلم جبر و استبداد کی ح