13/08/2025
میرے وطن!
پھر تیرا جنم دن آیا!!
اے گلزارِ وطن! پھر وہ ساعتِ مسعود آن پہنچی کہ تیرے وجود کی سالگرہ کا چراغ جلایا جائے۔
پھر سے دستِ دعا آسمان کی طرف بلند ہوئے، پھر سے ہجرت کے وہ لہو رنگ لمحات یاد آئے، اور پھر سے تیرے مقصدِ وجود کی روحانی حقیقت نگاہوں کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
یاد آتا ہے جب اس نیلے آسمان کے سائےتلے قافلے رواں دواں تھے، اور ان قافلوں کی گرد میں کہیں میرا اپنا مسکن، میرے خواب اور ارمان بھی ساتھ سفر کر رہے تھے۔
میری ماں، اپنے دو ننھے بچوں کے ہاتھ تھامے، اپنے بھرے پُرے آشیانے، سبزہ زار کھیت اور باغات کو الوداع کہہ کر، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہجرت کے سفر پر نکلی تھی۔
کبھی ماں سے دریافت کرتا ہوں: "کیا غربت نے یہ سفر کرایا تھا؟"
وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی ہیں — "بیٹا! کھانے پہننے میں بادشاہی تھی، اپنے مکانات، زمینیں اور باغات سب موجود تھے، مگر جب قائدؒ نے پکارا کہ آؤ! ایک ایسا دیس بسائیں جو ہمارا اپنا ہو ، تو سب کچھ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔"
خواب جو اقبالؒ نے دیکھا، اور جس کی تعبیر قائدؒ نے عمل کے سنگھاسن پر سجا دی۔
مگر اس ہجرت میں بھی ہندو کی نفرت کا زہر کم نہ ہوا ۔قافلوں پر حملے ہوئے، اور اپنے وطن کے خواب دیکھنے والی بے شمار آنکھیں سفر ہی میں بند ہو گئیں۔یہ دو چار کی کہانی نہیں، لاکھوں کے خون اور آنسو کا تذکرہ ہے۔
اے سبز ہلالی پرچم کے پاسبان!
وہ کان، جو چاندنی راتوں میں اذان کی صدا سننے کے متمنی تھے، سنسان بیابانوں میں کاٹ ڈالے گئے۔
آج، اٹھہتر برس بعد، کتنے ہیں جو سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان آگ و خون کےکتنے دریا عبور کر کے وجود میں آیا تھا۔
یہ سچ ہے کہ آج چند نادان، نسلِ نو کے اذہان میں وطن سے بیزاری کے بیج بوتے ہیں، وہ اپنے ماں باپ کی قربانیوں سے ناواقف ہیں۔
اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ خوشی سے مودی کے قدموں میں جا بیٹھتے، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی آغوش میں پہلے سے بیٹھے غدار کس انجام کو پہنچے۔
مانا کہ وقت کے بادل گھنے ہیں، طوفان کی موجیں ساحل کو کاٹ رہی ہیں، مگر میں جانتا ہوں کہ اے وطن!
تو وہ کشتی ہے جس کے بادبان دعا کے دھاگوں سے بندھے ہیں، اور جس کا لنگر اللہ کے وعدۂ حق میں گاڑا ہوا ہے۔
تیری خاک میرے لیے محض مٹی نہیں ، یہ وہ مصحفِ جاوداں ہے جس کے ہر ذرے پر شہیدانِ وفا کا خون آیات کی صورت ثبت ہے۔
تیری ندیاں وضو کا وہ پاک پانی ہیں جن سے ہم نے عہد کیا ہے کہ دشمن کی میلی نگاہ بھی ان پر نہ پڑنے دیں گے۔
تیرا آسمان وہ محراب ہے جس کے سائے تلے ہم نے شکر کے سجدے ادا کیے۔
وقت دشوار ہے، حالات ناسازگار ہیں، مگر تیرے بغیر ہم بے جڑ درخت ہیں، ادھورے مصرعے ہیں، قافلے سے کٹے ہوئے مسافر ہیں۔بے گور وکفن لاشیں ہیں،کوئی اور جگہ نہیں ،ٹھکانہ نہیں۔تجھ بن اے میرے وطن!!
تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
عزم میرا قوی، میرے ارادے ہیں غیور
میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
اے میرے پیارے وطن
ریاستِ طیبہ کے بعد ہمارے لیے تیرا وجود ہی ماں کی آغوش جیسا ہے۔
تیرے پہاڑ ہمیں احد کے شہید سپاہیوں کی صفیں یاد دلاتے ہیں، تیرے ریگزار بدر کی گرم ریت کی مانند غیرت بھڑکاتے ہیں، اور تیرے دریا کربلا کے پیاسے شہیدوں کی داستان سناتے ہیں۔
یاد ہے، جب 14 اگست کی سحر نے تیرے ماتھے پر آزادی کا تاج رکھا تھا؟
یاد ہے، جب تو نے اپنے شہید بیٹوں کو زمین میں نہیں، دل میں دفن کیا تھا؟
یاد ہے، جب ہر سپاہی کی نگاہ میں اقبالؒ کا شاہین اڑان بھرتا تھا، اور ہر ماں کا دل خدیجہؓ کی سخاوت اور فاطمہؓ کے صبر سے منور تھا؟
اے وطن!
میں جانتا ہوں کہ تیرے دشمن تیری پرواز سے جلتے ہیں، تیری مسکان سے کڑھتے ہیں، اور تیرے طوفان سے لرزتے ہیں۔
مانا کہ تیرے کچھ بیٹے ناخلف ہیں، مانا کہ تیرے آنگن میں کرپشن، ناانصافی اور جبر کا سایہ ہے، مگر یہ محض وقت کا امتحان ہے ،اس میں نہ ہمارے اسلاف کا قصور ہے، نہ اُن رہنماؤں کا جنہوں نے آزادی کا خواب دیکھا۔
وہ ظالم جاتے جاتے اپنے غلام اور جاگیردار یہاں چھوڑ گئے، مگر قومیں اسی طرح کی آزمائشوں سے کندن بنتی ہیں۔
شیطان بددلی پھیلاتا ہے، اس کے چیلے اسے پروان چڑھاتے ہیں، مگر ہم نے طے کیا ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں کا راستہ روکیں گے۔
ہم کہیں نہیں جائیں گے، تیرے دشمن جائیں گے۔ تیری گود ماں جیسی ہے اور اپنی ماں کی آغوش میں سکھ ہے۔۔۔ جو اس ماں کو گالی دیتے ہیں ان کی ولدیت مشکوک ہے۔ وقت آگیا ہے،
یقین بڑھ چکاہے کہ تیری فضاؤں میں تکبیریں گونجتی رہیں گی،
دشمن کے دل دھلتے رہیں گے،
تیرا پرچم آسمان کو چھوتا اور چاند کو شرماتا رہے گا،
اور تیری مٹی پر صرف بہار کی فصلیں اگیں گی، کفن نہیں۔
اے پاکستان!
تو زندہ رہے گا، سلامت رہے
جب تک سورج مغرب سے نہیں نکلتا،
جب تک دریا بہتے ہیں،
جب تک مائیں بیٹوں کو نعرۂ تکبیر کے ساتھ روانہ کرتی ہیں۔
جب تک صور اصرافیل نہیں پکارتی۔۔۔۔ تو سلامت رہے !!
, , , ,