Prof-Muhammad Saghir Qamar

Prof-Muhammad Saghir Qamar Inspirations and Innovations Columnist Daily "khabrain"

24/09/2025

دو طرح کی چیزیں دیکھنے میں چھوٹی نظر آتی ہیں ایک دور سے دوسری غرور سے۔

24/09/2025

اگر کوئی تمھیں صرف ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے تو پریشان مت ہونا بلکہ فخر کرنا کہ اس کو اندھیرے میں روشنی کی ضرورت ہے اور وہ تم ہو۔

24/09/2025

بہترین آنکھ وہ ہے جو حقیقت کا سامنا کرے۔

19/09/2025

ویٹو… انسانیت کے ضمیر پر مہر!

سلامتی کونسل کے بلند ایوانوں میں ایک بار پھر وہی سناٹا چھایا رہا،چودہ ووٹ انسانیت کے حق میں بلند ہوئے،
اور ایک ہاتھ، سفارتی تکبر اور طاقت کے غرور میں لپٹا،
سب پر بھاری پڑ گیا۔
یہ چھٹی بار ہے کہ امریکہ نے غزہ کی خون میں نہائی مٹی کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔
وہ قرارداد جس میں نہ کسی نئی سرحد کا مطالبہ تھا،
نہ کسی فریق کی فتح کا اعلان ۔صرف یہ التجا تھی کہ بچوں کی سانسیں محفوظ رہیں، ماؤں کی گود اجڑنے سے بچ جائے،اور ملبے میں سسکتی زندگی کو ایک لمحۂ امن مل سکے۔
مگر واشنگٹن کی ہٹ دھرمی نے ایک بار پھر ثابت کیاکہ طاقت کے ایوانوں میں انسانی جان کی قیمت سفارتی منطق کے برابر بھی نہیں۔
امریکی نائب مندوب مورگن اورتگس نے نہایت سرد لہجے میں کہا:
“یہ قرارداد ح م اس کی مذمت نہیں کرتی اور اسرائ یل کے دفاع کے حق کو تسلیم نہیں کرتی۔”
گویا ایک قطرہ پانی دینے سے پہلے بھی
مظلوم کی مزاحمت کو جھٹلانے کی شرط لازمی ہے!
یہ وہی سوچ ہے جس نے انصاف کے ترازو کو
سیاسی فائدے کے حساب کتاب میں جکڑ رکھا ہے۔یہ ہٹ دھرمی صرف ایک ریاستی پالیسی نہیں،یہ ایک ایسے عالمی نظام کی علامت ہےجہاں طاقت ور کے الفاظ قانون، اور کمزور کے آنسو محض اعداد و شمار بن جاتے ہیں۔
امریکاکی یہ ضدکہ امن کی ہر کوشش اسرائیل کی مرضی کے تابع ہو،نہ صرف سلامتی کونسل کی ساکھ کو مجروح کر رہی ہے
بلکہ دنیا بھر کے ضمیر کو بھی زخمی کر رہی ہے۔
کیا یہ انصاف ہے کہ امن کی دہلیز پر بھی ،طاقت کی زبان میں لکھا ہوا اجازت نامہ درکار ہوگا؟
پاکستان کے سفیر عاصم احمد نے بجا طور پر اسے
سلامتی کونسل کا ’’سیاہ لمحہ‘‘ کہا۔
غزہ کے تباہ حال اسپتال، پیاسے بچے اور بھوک سے بلکتے قافلے
دنیا کے اس سیاہ فیصلے کے خاموش گواہ ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب واشنگٹن کی ایک جنبشِ قلم نےانسانی ہمدردی کے سارے اصول روند ڈالے۔یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، پوری انسانیت کا ہے۔
کیا ہم ایک ایسے نظامِ عالم میں جیتے رہیں گے
جہاں ایک ملک کی ہٹ دھرمی
چودہ ممالک کی اجتماعی آواز کو خاموش کر دے؟
جہاں انصاف کی ہر کوشش ایک ویٹو کے نیچے دم توڑ دے؟
جہاں معصوم خون کے بہاؤ کو روکنے کے لیے بھی
ظالم کی تعریف ضروری ہو؟
تاریخ کے دفتر میں یہ دن
امریکہ کی طاقت نہیں، بلکہ اُس کے اخلاقی زوال کا اعلان ہے۔
یہ ویٹو نہیں،
یہ انسانیت کے ضمیر پر لگنے والی مُہر ہے۔
اور آنے والی نسلیں جب اس عہد کی روداد پڑھیں گی تو سوال کریں گی:
کیا واقعی امن کے کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے
پہلے ایک سپر پاور کی ہٹ دھرمی کے سامنے سجدہ کرنا ضروری تھا؟

14/09/2025

تاریخ کے دہانے پر کھڑا عرب !!
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب و اسلامی ممالک کے سربراہان کی ہنگامی میٹنگ سوموار کو ہونے جا رہی ہے۔ یہ اجلاس محض سفارتی روایت کا تسلسل نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا وہ موڑ ہے جہاں عرب دنیا اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان فیصلہ کن انتخاب کے سامنے کھڑی ہے۔اسرائیلی حملے نے نہ صرف قطر کی سالمیت کو چیلنج کیا ہے بلکہ پورے خطے کے سینے پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ عرب و اسلامی دنیا اب بھی صرف مذمتی قراردادوں پر اکتفا کرے گی یا عملی اقدامات کی طرف بڑھنے کی ہمت پیدا کرے گی؟گزشتہ نصف صدی کی تاریخ شاہد ہے کہ عرب سربراہی اجلاسوں نے زیادہ تر بیانات اور تقریروں سے آگے بڑھنے کی جرأت کبھی نہیں کی۔ عوام کی آنکھوں میں چمکتی امیدیں اکثر کاغذی قراردادوں کی نذر ہو گئیں۔ مگر دوحہ کانفرنس ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے خلیجی ریاستوں کا مستقبل کا تعین ہوگا۔ اگر یہ اجلاس بھی محض رسمی مذمت تک محدود رہا تو اس کا مطلب ہوگا کہ عرب دنیا نے ایک اور موقع گنوا دیا۔قطر میں اجلاس ہوناعلامتی بھی ہے اور عملی بھی۔ قطر فلسطین کے معاملے پر ہمیشہ دوٹوک رہا ہے۔ اب چونکہ براہِ راست اس کی خودمختاری کو نشانہ بنایا گیا ہے، لہٰذا یہ اجلاس محض فلسطینی کاز کا نہیں بلکہ قطر کے دفاع اور وقار کا بھی سوال ہے۔ یہی پہلو اس کانفرنس کو غیر معمولی بنا دیتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ حتیٰ کہ وہ ممالک بھی جو حالیہ برسوں میں اسرائیل کے قریب سمجھے جاتے تھے، انہوں نے بھی قطر پر حملے کی مذمت کی۔ ممکن ہے کہ عربوں کے اندر کی ہمت اور غیرت شعلہ بن جائے اور کیایہ شعلے پالیسی میں ڈھل سکیں گے یا محض جذبات کی حد تک رہیں گے؟ممکنہ آپشنز سب کے سامنے ہیں۔اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پر نظرِ ثانی، اقتصادی دباؤ، عالمی اداروں میں مشترکہ موقف، اور سب سے بڑھ کر عوامی سطح پر یہ باور کرانا کہ اسرائیل اب صرف غزہ یا قطر کا دشمن نہیں بلکہ پوری امت کے لیے خطرہ ہے۔ مگر کیا عرب قیادت اس مرحلے پر واقعی متحد ہو سکے گی؟یہ اجلاس بلاشبہ ایک تاریخی موقع ہے۔ اگر عرب ممالک اسے ضائع کر دیتے ہیں تو آنے والی نسلیں بھی یہی سوال دہراتی رہیں گی کہ "وہ لمحہ آیا تھا، مگر قیادت سوئی رہی۔" اور اگر انہوں نے ایک متفقہ اور عملی لائحہ عمل اپنایا تو یہی دن تاریخ میں عرب اتحاد کی نئی ابتدا کے طور پر درج ہوگا۔دنیا کی نظریں دوحہ پر ہیں۔ فیصلہ اب عرب قیادت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ تاریخ بناتی ہے یا تاریخ کا ایک اور بوجھ اپنے کاندھوں پر لاد لیتی ہے۔

09/09/2025
05/09/2025

"بِالنَّبِيِّ الهادي سِرْنا، فَكانَ نُورُهُ دَليلَ الكَرامَةِ وَالسَّعادَةِ."
ہم نبیِ ہادی ﷺ کے ساتھ چلے، اور ان کا نور ہماری عزت و سعادت کا رہنما بن گیا۔

31/08/2025

سب کچھ مرا سیلاب لے گیا،
میرے نامکمل خواب لے گیا
خواب جو
تیز لہروں میں تحلیل ہوگئے۔
میری برسوں کی تشنگی،
آب لے گیا
دہلیز، جہاں چراغِ اُمید
اپنی لو کو آسمان پرے
جگمگاتی آنکھوں کو زخم دے گیا
مہتاب لے گیا آفتاب لے گیا
میرے آنگن ، جہاں قہقہوں کی بارش
خوشبوؤں کے گجرے پروتی تھی ماں،
اب فقط سناٹاہے واں
میری ماں لے گیا، میر اباپ لے گیا
میں نے سوچا
کیا خواب ازل ہی سے
ادھورے مقدر میں لکھے گئے؟
کیا سیلاب فقط مکان ڈھاگیا،
یا دلوں کے موسم ؟
اندھیروں کے افق پر
ایک کرن نے انگڑائی لی۔
پانی کی تہہ سے
امید کا ایک چھوٹا سا جزیرہ سر اُٹھانے لگا۔
اور دل نے پکارا
خواب فنا ہوتے نہیں،
وہ تو بیج کی مانند
وقت کی مٹی میں چھپ کر۔
جب تقدیر کی بادنسیم ،
خواب نئی شاخوں پر
گل و ریحاں کی صورت کھلنے لگے
میری امیدوں کے پھر در کھلنے لگے
سیلا ب لے گیا،سبھی کچھ
مگر ایک خواب دے گیا
دلِ بے تاب دے گیا

30/08/2025

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں سوت کات رہی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ اپنے نعلین مبارک مرمت فرما رہے تھے۔ اچانک آپ ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہنے لگا اور اس سے نور پھوٹنے لگا۔ میں اس (حسین) منظر سے نہال و بے خود ہوگئی، رسول اللہ ﷺ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مبہوت سی ہوگئی ہو؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپک رہا ہے اور پسینے سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر (عرب کا مشہور شاعر) ابو کبیر ہذَلی اِس وقت آپ کو دیکھ لیتا تو وہ جان جاتا (اور اقرار کر لیتا) کہ اس کے شعر کی اصل مصداق آپ ہی کی ذاتِ اکمل و احسن ہے۔ آپ ﷺ نے استفسار فرمایا: اے عائشہ! ابوکبیر ہذَلی کیا کہتا ہے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:

’جب تو اس کے چہرے کے (منوّر) نقوش دیکھے تو (تجھے محسوس ہوگا) گویا عارضِ تاباں ہے جو چمک رہا ہے‘۔

نازی جرمنی سے غزہ تک محمد صغیر قمر 30-08-2025جب ہم ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں پر ہونے والے ظلم ''ہولوکاسٹ'' کی تفصیل پڑھتے ہ...
30/08/2025

نازی جرمنی سے غزہ تک
محمد صغیر قمر
30-08-2025
جب ہم ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں پر ہونے والے ظلم ''ہولوکاسٹ'' کی تفصیل پڑھتے ہیں، اور پھر غزہ کے بکھرے ملبوں، اجڑی بستیوں اور لکنت زدہ چیخوں کو سنتے ہیں، تو سوال اٹھتا ہے،کیا ہم واقعی تاریخ سے کچھ سیکھتے ہیں، یا صرف اقتباسات محفوظ کرتے ہیں؟ ہٹلر اگر ظالم تھا تو اس نے ہولو کاسٹ کر کے اپنا نام تاریخ کے کوڑیدان میں پھینک دیا۔ہٹلر نے اگر کسی کو سبق سکھایا تو اس بات کا جواز بنتا ہے کہ وہ ''مظلوم'' ظالم بن کر ایک دوسری قوم پر ٹوٹ پڑے؟۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انصاف اندھے غصّے کا نام نہیں، روشن فیصلوں کی جرات ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہولوکاسٹ محض قتلِ عام نہیں تھا، یہ ریاستی سطح پر منظم، قانون، اداروں اور پروپیگنڈے کے سہارے چلایا گیا ایک منصوبہ تھا جس کا ہدف یہودیوں کا نسلی صفایا تھا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 1933 سے 1945 کے درمیان نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے تقریباً چھ ملین یہودی مرد، عورتیں اور بچے قتل کیے۔ یہودیوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں غیر یہودی بھی نشانہ بنے۔ یہودی اس نسل کُشی کا مرکزی ہدف تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ یہ صرف ہندسوں کی کہانی نہیں؛ یہ گیس چیمبرز، جبری کیمپوں اور لاشوں کی قطاروں کی کہانی ہے۔ آشوٹز جیسے کیمپوں میں زائیکلون بی گیس سے اجتماعی قتل ایک معمول کاکام تھا۔ ایسا اندھا میکانزم جس میں یہودمحض ’’نمبر‘‘ شمار کیے جاتے۔ یہ بھی تاریخ بتاتی ہے کہ یہود کے شر سے یورپ تنگ آچکا تھا اور انہیں شر کا ’’مسئلہ‘‘ سمجھ کر ختم کرنے کا منصوبہ بنایاگیاتھا۔ہٹلر نے اپنی کتاب Mein Kampf میں یہودیوں کو جرمنی کی تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا۔ اس کے نزدیک جرمن قوم ایک ’’اعلیٰ نسل‘‘ تھی اور یہودی ’’زہر‘‘ تھے جو جرمن معاشرے کو کھا رہے تھے۔ اسی نفرت کو بنیاد بنا کر نازی نظریہ پروان چڑھا۔اپنی کتاب میں ہٹلر نے لکھا ہے کہ یہودی جھوٹے اور فریب کار ہیں۔وہ سرمایہ داری اور سود کے ذریعے جرمنی کی معیشت پر قابض رہنا چاہتے تھے۔یہودی میڈیا اور پریس پر قابض ہو کر عوامی رائے کو گمراہ کرتے تھے۔یہودی مذہب اور اخلاقیات کو بگاڑنے میں پیش پیش تھے۔ ہٹلر کا کہنا تھا کہ ’’آریائی نسل‘‘ (A***n Race) دنیا کی اعلیٰ ترین نسل ہے اور باقی اقوام، خصوصاً یہودی، اس کے مقابلے میں کمتر سازشی اور بے ہودہ ہیں۔ قدیم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہودی مختلف ادوار میں فلسطین میں بسے رہے، مگر یہ مدت مختصر اور محدود تھی۔حضر ت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ کے دور (تقریباً 1000 قبل مسیح) میں بنی اسرائیل کی ایک متحدہ بادشاہت تھی، لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔بعد میں رومیوں نے 70 عیسوی میں یروشلم کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں منتشرکر دیا۔اس کے بعد تقریباً دوہزارسال تک یہودی دنیا کے مختلف ممالک (یورپ، مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ وغیرہ) میں اقلیت کے طور پر دھکے کھاتے رہے۔پہلی جنگِ عظیم (1914–1918) کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کمزور ہوئی اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔1917 میں برطانیہ نے معاہدہ بالفورکے ذریعے اعلان کیا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ''قومی وطن'' قائم کیا جائے گا۔اس کے بعد یورپ اور دنیا بھر سے یہودی فلسطین میں ہجرت کر کے آباد ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم (1 939–1945) کے بعد یورپ میں ہولوکاسٹ کو بنیاد بنا کر عالمی طاقتوں نے یہودی ریاست کے قیام کو ضروری قرار دیا۔14 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ اگلے روز عرب ممالک (مصر، شام، اردن، لبنان، عراق) نے اسرائیل پر حملہ کیا، مگر اسرائیل نے جنگ جیت لی اور فلسطین کا بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے لیا۔یہاں سے فلسطین کی آزادی کی جنگ شروع ہوئی اوربڑی طاقتوں کی سرپرستی میں یہودی یورپ سے مظلوم بن کرفلسطین پر قابض ہوتے چلے گئے۔یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتوں نے ہٹلر کی سوچ سے غیر اعلانیہ اتفاق کر لیا۔ اتنے بڑے یورپ میں چند ہزار شر پسند یہود کو بسانامشکل یا ناممکن نہیں تھا۔پوری دنیا جان چکی تھی کہ یہ مخلوق جہاں بھی جائے گی اپنے شر اور بے ہودگی کو ساتھ لے جائے گی۔چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ سرائیل اپنا ناجائز قبضہ باقی رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو مبینہ طور پر اس کے ساتھ ہٹلر نے کیا تھا۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے بین الاقوامی قانون کی زبان میں محاصرہ، اجتماعی سزا، اور شہری آبادی کے غیر متناسب جانی و مالی نقصانات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے؛ عالمی ادارے بارہا فوری انسانی رسائی اور جنگی قوانین کی پابندی پر زور دے رہے ہیں۔ نازی پروپیگنڈا یہودیوں کو ’’جرثومہ‘‘ بنا کر پیش کرتا تھا،آج بھی غزہ کے بارے میں ایسی زبان بولی جارہی ہے جو غزہ کی پوری آبادی کو ’’خطرہ‘‘ قرار دیتی ہے۔ ایسی زبان جب انسان کو غیر انسان بنائے، تو بندوق جائز سمجھی جاتی ہے۔کل یہودی ’’گھیٹوز‘‘ میں دھکیلے گئے،آج غزہ کی آبادی بڑے پیمانے پر اندرونی بے گھری اور مسلسل انخلاء کے احکامات کے چکر میں ہے۔ نازی ازم نے قانون، عدالت، پولیس اور ریل گاڑیوں تک کو نسل کُشی پر لگا دیاتھا،آج جنگی قوانین کی تشریحات اور ’’سکیورٹی‘‘ کے بیانیے کے ساتھ بمباری، محاصرہ اور رسد کی بندش کو معمول بنایا جاتا ہے۔ہولوکاسٹ میں گیس چیمبرز، جبری کیمپ اور قتل کی صنعتی لائنیں تھیں،آج غزہ میں ایک شدید عسکری تنازع، محاصرہ، اور شہری تباہی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے جنوری 2024 اور بعد ازاں احکامات میں کہا کہ غزہ میں نسل کُشی کے خطرے سے بچائوکے لیے فوری اقدامات لازم ہیں۔اس عدالت نے مقدمے کے حتمی فیصلے کے بغیر بھی حفاظتی اقدامات (provisional measures) جاری کیے، جو اس صورتِ حال کی سنگینی اور ممکنہ قانونی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسرائیل کے اقدامات کو ہولوکاسٹ کا بدلہ کہنا ایک سطحی جواز ہے۔اس کے باوجودیہ جان لینا چاہیے کہ اسرائیل ایک نوآبادیاتی پروجیکٹ ہے، جسے برطانیہ اور امریکہ نے مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کے لیے بنایا۔یہ منصوبہ تکمیل کو نہیں پہنچے گاکیوں کہ یہ دنیا اب بدل چکی ہے اورظالم کی پہچان مشکل نہیں رہی۔
#محمدصغیرقمر

28/08/2025

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ !!
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے(ایک کا)اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کام ہی اختیار کیا جب تک کہ اس میں(کوئی)گناہ نہیں تھا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔الا یہ کہ اگر اللہ کی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک کہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا نہ جائے اور اگر اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اس پر سب سے زیادہ غصہ فرماتے تھے اور جب بھی دو کاموں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

28/08/2025

میرے خلیق رسول!!
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ
سیدنا سعد(بن ابی وقاص)فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(اندر آنے کی)اجازت مانگی آپ کے
پاس قریش کی کچھ عورتیں بہت زیادہ سوالات کررہی تھیں اور ان کی آوازیں آپ کی آواز سے بلند تھیں۔جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ عورتیں بھاگ کر پردے میں چھپ گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تو وہ اندر داخل ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ آپ کو ہنساتا رہے۔میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں جب انھوں نے تیری آواز سنی تو بھاگ کر چھپ گئیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ آپ سے ڈریں۔پھر ان عورتوں کی طرف(جہاں وہ چھپ گئی تھیں)منہ کرکے کہا:
اے اپنی جان کی دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ؟ تو انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بہت زیادہ)سخت ہیں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تو جس راستے پر چلتا ہے تو شیطان اسے چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا ہے۔
سیدنا سلمہ(بن الاکوع)رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسلم کی ایک جماعت کے پاس آئے جو بازارمیں تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو اسماعیل، تیر پھینکو، کیونکہ تمھارے باپ(اسماعیل)تیر انداز تھے اور میں دونوں گروہوں سے بنو فلاں کے ساتھ ہوں تو انھوں نے تیر اندازی روک دی، آپ نے فرمایا: انھیں کیا ہوا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم کس طرح تیر پھینکیں جب کہ آپ بنوفلاں کے ساتھ ہیں تو آپ نے فرمایا: پھینکو اور میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
#محمدصغیرقمر

Address

Rawalpindi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Prof-Muhammad Saghir Qamar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Prof-Muhammad Saghir Qamar:

Share

Category