Prof-Muhammad Saghir Qamar

Prof-Muhammad Saghir Qamar Inspirations and Innovations Columnist Daily "khabrain"

28/08/2025

صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ !!
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے(ایک کا)اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان کام ہی اختیار کیا جب تک کہ اس میں(کوئی)گناہ نہیں تھا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔الا یہ کہ اگر اللہ کی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک کہ اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا نہ جائے اور اگر اللہ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اس پر سب سے زیادہ غصہ فرماتے تھے اور جب بھی دو کاموں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

28/08/2025

میرے خلیق رسول!!
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ
سیدنا سعد(بن ابی وقاص)فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(اندر آنے کی)اجازت مانگی آپ کے
پاس قریش کی کچھ عورتیں بہت زیادہ سوالات کررہی تھیں اور ان کی آوازیں آپ کی آواز سے بلند تھیں۔جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ عورتیں بھاگ کر پردے میں چھپ گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تو وہ اندر داخل ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ آپ کو ہنساتا رہے۔میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں جب انھوں نے تیری آواز سنی تو بھاگ کر چھپ گئیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ آپ سے ڈریں۔پھر ان عورتوں کی طرف(جہاں وہ چھپ گئی تھیں)منہ کرکے کہا:
اے اپنی جان کی دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ؟ تو انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بہت زیادہ)سخت ہیں۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تو جس راستے پر چلتا ہے تو شیطان اسے چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا ہے۔
سیدنا سلمہ(بن الاکوع)رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسلم کی ایک جماعت کے پاس آئے جو بازارمیں تیر اندازی کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو اسماعیل، تیر پھینکو، کیونکہ تمھارے باپ(اسماعیل)تیر انداز تھے اور میں دونوں گروہوں سے بنو فلاں کے ساتھ ہوں تو انھوں نے تیر اندازی روک دی، آپ نے فرمایا: انھیں کیا ہوا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم کس طرح تیر پھینکیں جب کہ آپ بنوفلاں کے ساتھ ہیں تو آپ نے فرمایا: پھینکو اور میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
#محمدصغیرقمر

18/08/2025
16/08/2025

ڈل جھیل سری نگر

میرے وطن! پھر تیرا جنم دن آیا!!اے گلزارِ وطن! پھر وہ ساعتِ مسعود آن پہنچی کہ تیرے وجود کی سالگرہ کا چراغ جلایا جائے۔پھر ...
13/08/2025

میرے وطن!
پھر تیرا جنم دن آیا!!
اے گلزارِ وطن! پھر وہ ساعتِ مسعود آن پہنچی کہ تیرے وجود کی سالگرہ کا چراغ جلایا جائے۔
پھر سے دستِ دعا آسمان کی طرف بلند ہوئے، پھر سے ہجرت کے وہ لہو رنگ لمحات یاد آئے، اور پھر سے تیرے مقصدِ وجود کی روحانی حقیقت نگاہوں کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
یاد آتا ہے جب اس نیلے آسمان کے سائےتلے قافلے رواں دواں تھے، اور ان قافلوں کی گرد میں کہیں میرا اپنا مسکن، میرے خواب اور ارمان بھی ساتھ سفر کر رہے تھے۔
میری ماں، اپنے دو ننھے بچوں کے ہاتھ تھامے، اپنے بھرے پُرے آشیانے، سبزہ زار کھیت اور باغات کو الوداع کہہ کر، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہجرت کے سفر پر نکلی تھی۔
کبھی ماں سے دریافت کرتا ہوں: "کیا غربت نے یہ سفر کرایا تھا؟"
وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلاتی ہیں — "بیٹا! کھانے پہننے میں بادشاہی تھی، اپنے مکانات، زمینیں اور باغات سب موجود تھے، مگر جب قائدؒ نے پکارا کہ آؤ! ایک ایسا دیس بسائیں جو ہمارا اپنا ہو ، تو سب کچھ چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔"
خواب جو اقبالؒ نے دیکھا، اور جس کی تعبیر قائدؒ نے عمل کے سنگھاسن پر سجا دی۔
مگر اس ہجرت میں بھی ہندو کی نفرت کا زہر کم نہ ہوا ۔قافلوں پر حملے ہوئے، اور اپنے وطن کے خواب دیکھنے والی بے شمار آنکھیں سفر ہی میں بند ہو گئیں۔یہ دو چار کی کہانی نہیں، لاکھوں کے خون اور آنسو کا تذکرہ ہے۔
اے سبز ہلالی پرچم کے پاسبان!
وہ کان، جو چاندنی راتوں میں اذان کی صدا سننے کے متمنی تھے، سنسان بیابانوں میں کاٹ ڈالے گئے۔
آج، اٹھہتر برس بعد، کتنے ہیں جو سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان آگ و خون کےکتنے دریا عبور کر کے وجود میں آیا تھا۔
یہ سچ ہے کہ آج چند نادان، نسلِ نو کے اذہان میں وطن سے بیزاری کے بیج بوتے ہیں، وہ اپنے ماں باپ کی قربانیوں سے ناواقف ہیں۔
اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ خوشی سے مودی کے قدموں میں جا بیٹھتے، مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی آغوش میں پہلے سے بیٹھے غدار کس انجام کو پہنچے۔
مانا کہ وقت کے بادل گھنے ہیں، طوفان کی موجیں ساحل کو کاٹ رہی ہیں، مگر میں جانتا ہوں کہ اے وطن!
تو وہ کشتی ہے جس کے بادبان دعا کے دھاگوں سے بندھے ہیں، اور جس کا لنگر اللہ کے وعدۂ حق میں گاڑا ہوا ہے۔
تیری خاک میرے لیے محض مٹی نہیں ، یہ وہ مصحفِ جاوداں ہے جس کے ہر ذرے پر شہیدانِ وفا کا خون آیات کی صورت ثبت ہے۔
تیری ندیاں وضو کا وہ پاک پانی ہیں جن سے ہم نے عہد کیا ہے کہ دشمن کی میلی نگاہ بھی ان پر نہ پڑنے دیں گے۔
تیرا آسمان وہ محراب ہے جس کے سائے تلے ہم نے شکر کے سجدے ادا کیے۔
وقت دشوار ہے، حالات ناسازگار ہیں، مگر تیرے بغیر ہم بے جڑ درخت ہیں، ادھورے مصرعے ہیں، قافلے سے کٹے ہوئے مسافر ہیں۔بے گور وکفن لاشیں ہیں،کوئی اور جگہ نہیں ،ٹھکانہ نہیں۔تجھ بن اے میرے وطن!!
تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
عزم میرا قوی، میرے ارادے ہیں غیور
میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
اے میرے پیارے وطن
ریاستِ طیبہ کے بعد ہمارے لیے تیرا وجود ہی ماں کی آغوش جیسا ہے۔
تیرے پہاڑ ہمیں احد کے شہید سپاہیوں کی صفیں یاد دلاتے ہیں، تیرے ریگزار بدر کی گرم ریت کی مانند غیرت بھڑکاتے ہیں، اور تیرے دریا کربلا کے پیاسے شہیدوں کی داستان سناتے ہیں۔
یاد ہے، جب 14 اگست کی سحر نے تیرے ماتھے پر آزادی کا تاج رکھا تھا؟
یاد ہے، جب تو نے اپنے شہید بیٹوں کو زمین میں نہیں، دل میں دفن کیا تھا؟
یاد ہے، جب ہر سپاہی کی نگاہ میں اقبالؒ کا شاہین اڑان بھرتا تھا، اور ہر ماں کا دل خدیجہؓ کی سخاوت اور فاطمہؓ کے صبر سے منور تھا؟
اے وطن!
میں جانتا ہوں کہ تیرے دشمن تیری پرواز سے جلتے ہیں، تیری مسکان سے کڑھتے ہیں، اور تیرے طوفان سے لرزتے ہیں۔
مانا کہ تیرے کچھ بیٹے ناخلف ہیں، مانا کہ تیرے آنگن میں کرپشن، ناانصافی اور جبر کا سایہ ہے، مگر یہ محض وقت کا امتحان ہے ،اس میں نہ ہمارے اسلاف کا قصور ہے، نہ اُن رہنماؤں کا جنہوں نے آزادی کا خواب دیکھا۔
وہ ظالم جاتے جاتے اپنے غلام اور جاگیردار یہاں چھوڑ گئے، مگر قومیں اسی طرح کی آزمائشوں سے کندن بنتی ہیں۔
شیطان بددلی پھیلاتا ہے، اس کے چیلے اسے پروان چڑھاتے ہیں، مگر ہم نے طے کیا ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں کا راستہ روکیں گے۔
ہم کہیں نہیں جائیں گے، تیرے دشمن جائیں گے۔ تیری گود ماں جیسی ہے اور اپنی ماں کی آغوش میں سکھ ہے۔۔۔ جو اس ماں کو گالی دیتے ہیں ان کی ولدیت مشکوک ہے۔ وقت آگیا ہے،
یقین بڑھ چکاہے کہ تیری فضاؤں میں تکبیریں گونجتی رہیں گی،
دشمن کے دل دھلتے رہیں گے،
تیرا پرچم آسمان کو چھوتا اور چاند کو شرماتا رہے گا،
اور تیری مٹی پر صرف بہار کی فصلیں اگیں گی، کفن نہیں۔
اے پاکستان!
تو زندہ رہے گا، سلامت رہے
جب تک سورج مغرب سے نہیں نکلتا،
جب تک دریا بہتے ہیں،
جب تک مائیں بیٹوں کو نعرۂ تکبیر کے ساتھ روانہ کرتی ہیں۔
جب تک صور اصرافیل نہیں پکارتی۔۔۔۔ تو سلامت رہے !!
, , , ,

12/08/2025

مسجد کی جگہ ؟
فتویٰ۔۔۔دوسال پرانا
مسجدِ شرعی کے قیام کے لیے جگہ کا وقف ہونا ضروری ہے، تاکہ مسجد تعمیر ہو جانے کے بعد کسی کو ذاتی تصرف کا حق حاصل نہ ہو۔اور اگر کسی کی مملوکہ زمین پر مسجد تعمیر کی جا رہی ہو، تو مالکِ زمین سے صریح اجازت لینا ضروری ہے۔ اگر مالکِ زمین مسجد بنانے کی اجازت نہ دے تو شرعاً وہاں مسجد بنانا درست نہیں ہے۔
· جو زمینیں ملکیتِ عامہ کی نوعیت رکھتی ہوں، یعنی کسی کی انفرادی ملکیت میں یا کسی خاص مقصد کے لیے وقف شدہ نہ ہوں، نیز وہ عوامی مفاد کی جگہ نہ ہوں، مثلا: شارعِ عام، فُٹ پاتھ، چوراہا، پارک، ہسپتال وغیرہ، وہاں اگر علاقے کے مسلمان دینی ضرورت کے تحت مسجد تعمیر کر لیں تو یہ درست ہے، اور اسے بھی شرعی مسجد کا درجہ حاصل ہوگا اور وہ تمام احکام اس پر جاری ہوں گے جو ایک مسجد پر ہوتے ہیں۔
عوامی مفاد کی جگہوں پر متعقلہ ادارے کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے شرعاً اُس جگہ کی حیثیت مُصلّٰی (عبادت گاہ) کی ہوتی ہے، اُس پر مسجد شرعی کے احکام جاری نہیں ہوتے۔
اگر حکومت نے اپنی کسی اسکیم میں کوئی جگہ مسجد کے لیے مختص کر رکھی ہے، تو بھی مسجد تعمیر کرنے کے لے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔
اگر کسی سرکاری جگہ پر حکومت کی اجازت کے بغیر عرصۂ دراز سے نماز باجماعت کا سلسلہ جاری ہو، اور سرکاری افسران نے اُس پر اعتراض نہ کیا ہو، تو اُس کے باوجود قانونی طور پر حکومتی اجازت ملنے تک وہ مسجد شرعی نہیں بنے گی، یعنی افسران کی رضامندی یا خاموشی کو سرکاری اجازت شمار نہیں کیا جا سکتا۔
جس جگہ پر قانون کے مطابق کوئی بھی عمارت بنانا، ناجائز ہو، وہاں مسجد بنانا بھی ناجائز ہے۔
سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین بدستور حکومت کی ملکیت رہتی ہے، اور حکومت کو اس میں تصرف کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔
· اگر کسی کی مملوکہ زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیر کرلی جائے تو وہاں نماز پڑھنے سے فرض تو ساقط ہوجائے گا، لیکن اللہ کے ہاں اس کے اجر وثواب کی امید نہیں کی جاسکتی۔

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر:
80288
تاریخ اجراء:
2023-05-29

03/08/2025

حوصلہ بلند رکھیں، فتح حق کی ہوگی: سیّد علی گیلانی
(ایک یادگارخطاب )
’’اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ایک بار پھر مجھے آپ لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
ہم سب کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ آج ہم بحیثیت ایک قوم کے، ایک انتہائی مخدوش اور صبر آزما صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بھارت ظلم و جَور کے نت نئے ہتھکنڈے اپنا کر ہماری قوم کا قافیۂ حیات تنگ کرنے اور ہمیںا پنی ہی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تُلا ہوا ہے، اور دوسری طرف عالمی برادری کے ضمیر پر کشمیر کے تعلق سے چھائی مردنی مزید گہری ہوتی جارہی ہے، اور بھارت کو کشمیر میں کچھ بھی کرگزرنے کی گویا چھوٹ سی مل گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی سیاست میں رُونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں سے اس بات کا بھی صاف عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے جس کے بارے میں کشمیری عوام کو مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ اس تعلق سے ہماری حمایت اور ہم نوائی کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ ہمدردوں کا کردار بھی شکوک و شبہات سے گھرا ہوا ہے:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے کسی قوم کو سابقہ پیش آئے تو اس کے افراد میں کسی قدر بددلی یا مایوسی پیدا ہو جانا اگرچہ ایک فطری چیز ہے لیکن میں آپ کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم الحمدللہ ،مسلمان ہیں اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بے انتہا قدرت اور رحمت پر ایمان اور یقین ہو، ان کے لیے مایوسی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔
دوسری چیز جس کی طرف مَیں آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہماری جدوجہد حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ہم کسی سے نہ تو کوئی بھیک مانگ رہے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں، بلکہ ہم صرف اپنے ان غصب شدہ حقوق کی بازیابی چاہتے ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا ہم سے وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
تیسری چیز جس کو نظرانداز کرنے یا بھولنے کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کی اس مبنی برحق و انصاف جدوجہد میں ہم نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے لاکھوں نوجوانوں، بزرگوں، اور بچوں نے اپنا خون بہاکر اور ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتیں لٹا کر، اس تحریک کی آبیاری کی ہے۔ یہ سبھی قربانیاں ہمارے لیے ایک مقدس قومی امانت ہیں اورہم سب اس کے امین اور اس کی حفاظت کے لیے ذمہ دار اور عہد کے پابند ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہداکی بیوائیں، یتیم اور ہمارے محبوسین اور ان کے اہلِ خانہ بھی ہم سب کے لیے ایک اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہرطرح سے ان کا خیال رکھنا اور ان کی دل جوئی کرتے رہنا، ہمارا ایک قومی فریضہ ہے۔
اُتار اور چڑھائو کے مراحل ہر جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی جدوجہد ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان کٹھن مراحل سے گزر کر ہی تحریکیں مزید سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ جدوجہد کا دورانیہ جب زیادہ طویل ہوجائے، تو کچھ ایسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن پر اگر بروقت توجہ نہ دی جائے، تو وہ جدوجہد کا حلیہ اور سمت دونوں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ طالع آزما اور مفاد پرست عناصر کے ایک گروہ کا ظہورہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہماری صفوں میں بھی نہ صرف پیدا ہوچکا ہے بلکہ انتہائی سرگرم بھی ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے، جو کسی بھی وقت اپنے حقیر مفادات کے لیے کسی بھی قسم کی سازباز کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔
جیساکہ مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے درپردہ کچھ سرگرمیوں کے عندیے مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام اس مسئلے کے بنیادی فریق ہیں۔ انھیں الگ تھلگ رکھ کر کیا کچھ حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے، یہ سب سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کا مقصد کشمیری عوام کے لیے حقِ خود ارادیت کا حصول ہے اور اس سے ہٹ کر کچھ اور کشمیری عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ قیامِ امن کی خواہش رکھنے والوں کو اس زمینی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس خطے میں بدامنی کی وجہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نہیں بلکہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور تسلط ہے۔ اور جب تک اس وجہ کو دُور نہیں کیا جاتا، تب تک قیامِ امن کی کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔
پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ہم سب سے بڑھ کر حامی ہیں کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر کشمیری ہی ہوتا ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ان تعلقات کی بحالی کے نام پر اگر مسئلۂ کشمیر کو سردخانے کی نذر کرنے کی بات ہو تو یہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات کو استوار کرنا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے والی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکّی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

ہرقوم اورملک کی طرح کشمیری عوام کو بھی اپنے مفادات کے بارے میں سوچنے اور ان کا تحفظ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے، اور ہمارا مفاد اس کے سوا کسی اور چیز میں نہیں ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری اپنی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اور یہ کام ہم سب کشمیریوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔
یہ تحریک جتنی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کی ہے، اتنی ہی آزادکشمیر، گلگت بلتستان، جموں، لداخ، کشتواڑ، ڈوڈہ، غرض کشمیر کے ہرحصے میں رہنے والوں کی ہے، اور اس میں سب کا یکساں تعاون بھی ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جس طرح بھارتی مظالم کے سب سے زیادہ شکار مقبوضہ وادی کے لوگ رہے، اسی طرح اس تحریک میں سب سے زیادہ حصہ بھی مقبوضہ وادی کے لوگوں کا ہی رہا ہے۔ لیکن اس صورتِ حال کا تبدیل ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے ہرحصے کے لوگ اس میں یکساں طورپر شامل ہوں اور بقدرِ استطاعت اپنا تعاون کرکے اس کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔
یاد رکھیں! جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ حوصلوں اور ہمتوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ لہٰذا، اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔ حق اور باطل کی لڑائی میں فتح آخرکار حق کی ہی ہوتی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین!‘‘ [۲۲مارچ ۲۰۲۱ء، سری نگر]

03/08/2025

اصحاب اولیٰ!!
جرید بن حازم بن حسن سے مروی ہے: ’’کچھ لوگ امیرالمومنین عمرؓبن الخطاب کے دروازے پر آئے۔ ان میں اصحابِ بدر بھی تھے اور شیوخ قریش بھی۔ ان لوگوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اصحابِ بدر میں سے صہیبؓ،خبابؓ، عمارؓ اور بلالؓ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی جب کہ ابوسفیانؓ، حارثؓ بن ہشام اور سہیلؓ بن عمرو کو باہر انتظار کرنا پڑا۔یہ سبھی بزرگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
اس صورتِ حال کو دیکھ کر ابوسفیانؓ نے کہا: ’’آج کے دن سے زیادہ مَیں نے اپنی بے قدری کبھی نہ دیکھی تھی۔ رؤسائے قریش باہر بیٹھے ہیں اور غلاموں کو اندر بلا لیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر سہیلؓ بن عمرو نے کہا: ’’اے سردارانِ قریش، میں نے آپ کے چہروں پر ناراضی کے آثار دیکھ لیے ہیں۔ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے آپ پر کریں۔ سارے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی اور آپ کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جلدی سے آگے بڑھے اور آپ پیچھے رہ گئے۔ آپ کو اس دروازے سے ان کا پہلے داخل ہونا ناگوار گزر رہا ہے۔
خدا کی قسم! یہ تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنے درجات کی بلندی میں آپ سے اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر آپ اس کا احساس کریں تو اپنی محرومی پر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں‘‘۔

01/08/2025

محبت کی چین بنائیے!!
اگر کبھی آپ کسی کی مدد کرتے ہیں تو اس سے صلے کی تمنا مت رکھیں۔
🌸 محبت کا ایک پیغام 🌸لکھیے!!
آپ نے مجھے مدد موقع دیا، دل سے شکریہ۔
آپ کو مجھےکچھ واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔
کبھی ایک اجنبی نے میری بھی مدد صرف اس لیے کی تھی
کہ دنیا میں نرمی، محبت اور امید باقی رہے۔
اگر آپ میرا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں،
تو براہِ کرم اپنی مہربانی کو آگے بڑھائیے۔
کسی اور کے لیے وہی روشنی بن جائیے۔
اس محبت کی زنجیر کو خود پر ختم نہ ہونے دیجیے…
💖
کسی کی مددوہ خوشبو ہے جو دینے والے کے ہاتھوں میں بھی مہک چھوڑ جاتی ہے!!

29/07/2025

دو بھیڑیے !!
چیروکی (Cherokee) قبیلے کی ایک مشہور تمثیل ہے۔
ایک دادا نےاپنے پوتے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا"میرے اندر دوبھیڑیے رہتے ہیں"
پوتے نے حیرت سے پوچھا: "دادا! دو بھیڑیے؟"
"ہاں، ایک سفید بھیڑیا ہے، جو محبت، رحم دلی، سخاوت اور خوشی کی علامت ہے۔ جب کہ دوسرا سیاہ بھیڑیا ہے، جو نفرت، غصہ، لالچ اور حسد کی علامت ہے۔"
"یہ دونوں بھیڑیے ہمارے دل و دماغ میں مسلسل لڑتے رہتے ہیں۔"
پوتا کچھ دیر سوچتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے: "دادا! ان میں سے کون سا بھیڑیا جیتتا ہے؟"
دادا مسکرایا اور کہا:
"جسے تم کھانا دیتے ہو!"
ہماری سوچ، جذبات، اور عمل پر ہمارا اختیار ہوتا ہے۔ اگر ہم منفی خیالات، نفرت اور غصے کو تقویت دیں گے تو اندر کا سیاہ بھیڑیا طاقت ور ہوتا جائے گا۔ لیکن اگر ہم محبت، خلوص اور برداشت کو اپنائیں گے تو سفید بھیڑیا غالب آ جائے گا۔
#محمدصغیرقمر

Address

Rawalpindi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Prof-Muhammad Saghir Qamar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Prof-Muhammad Saghir Qamar:

Share

Category