خدا اور میں

خدا اور میں تاریخ اسلام پر لکھے گئے قصے اور واقعات پڑھنے کے لئے انگوٹھے کے نشان پے کلک کر کے پیج کو فالو کر لیں
(595)

30/11/2025

ولی عہد شہزادہ محمد سلیم نے 1599ء میں اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی، اکبر اعظم اس ایشو میں درست اور جہانگیر غلط تھا، دونوں میں مقابلہ ہوا، آخر میں بغاوت ہار گئی اور ریاست جیت گئی، شہزادہ سلیم جنگ کے بعد اکبر اعظم کے دربار میں پیش ہوا، بادشاہ نے تخت سے اتر کراستقبال کیا اور اسے معاف کر دیا۔
اکبر اعظم ضدی اور قانون کا انتہائی پابند تھا، شہزادے کو معافی کی توقع نہیں تھی، وہ حیران ہوا اور اس نے بادشاہ سے اس فراخ دلی کی وجہ پوچھ لی، بادشاہ نے جواب دیا "شہزادہ حضور آپ کی بغاوت آپ کا قصور نہیں تھا، یہ میری غلطی تھی" شہزادہ خاموشی سے سنتا رہا، بادشاہ بولا" میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں، مجھے اپنے اور آپ کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو بغاوت تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے تھا چنانچہ میں خود کو حالات کی خرابی کا ذمے دار سمجھتا ہوں۔
میں نے اس ذمے داری کی بھاری قیمت چکائی، میں نے ابوالفضل جیسا دوست کھو دیا، کاش کوئی مجھ سے ہندوستان کا تخت لے لے اور مجھے ابوالفضل لوٹا دے۔

تاریخ کا یہ واقعہ ٹیلنٹ مینجمنٹ اور لیڈرشپ کی ورکشاپ میں پڑھایا جاتا ہے۔

اکبر نے بغاوت کو صرف جرم نہیں سمجھا بلکہ اس کے پیچھے موجود صلاحیت اور جذبہ کو دیکھا۔

شہزادہ سلیم کی بغاوت دراصل اس کی طاقت، خود اعتمادی اور قیادت کی خواہش کا اظہار تھی۔ اکبر نے اس کو دشمنی نہیں بلکہ ایک ٹیلنٹ سگنل کے طور پر لیا۔

اکبر نے معافی دے کر یہ دکھایا کہ اصل لیڈر وہ ہے جو غلطی کے پیچھے چھپی صلاحیت کو پہچان سکے۔ اگر اکبر چاہتا تو سلیم کو سزا دے کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا، مگر اس نے اسے معاف کر کے مستقبل کا بادشاہ بنایا۔

یہ وہی اصول ہے جو آج کے اداروں میں ٹیلنٹ مینجمنٹ میں استعمال ہوتا ہے

غلطی کرنے والے کو ختم نہ کرو، اس کی صلاحیت کو پہچانو۔

اختلاف کو دشمنی نہ سمجھو، بلکہ کری ایٹو انرجی سمجھو۔

ٹیلنٹ ڈسکوری کا مطلب ہے کہ آپ ہر اختلاف، ہر نئی سوچ، ہر غیر روایتی قدم کو مستقبل کے لیڈر یا انوویٹر کے طور پر دیکھیں۔

اکبر کی طرح، ایک لیڈر کو اپنی ضد اور قانون سے بڑھ کر انسانی ٹیلنٹ کی قدر کرنی چاہیے۔

28/11/2025

❤ صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَــيَّدِنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهِ وَاَصْــحَابِهِ وَبَـارِكْ وَسَــلِّمْ ❤
💐الصلوٰۃُ والسلامُ علیکَ یا سیدی یا رسول اللہﷺ️♥
💐الصلوٰۃُ والسلامُ علیکَ یا سیدی یا حبیب اللہﷺ️♥
💐اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنْﷺ♥
💐الصلٰوۃ والسلام علیک یا خاتم النبیینﷺ♥

Surah falaq tafseer
23/11/2025

Surah falaq tafseer

🕋 In this video, we reveal the powerful and emotional story behind Surah Falaq — one of the greatest protection Surahs of the Holy Qur’an.This Surah was rev...

Surah Al Lahab Mukml Tafseer or tarjma zaror CHK kijia .
21/11/2025

Surah Al Lahab Mukml Tafseer or tarjma zaror CHK kijia .

GSurah Lahab Behind The Story in Urdu & Hindi | Abu Lahab and Umm Jameel Real Story | Surah Masad Tafseer | Islamic Story ...

21/11/2025

🌸

*جادو کا عجیب واقعہ*

ابنِ جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ مذکور ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دُومۃُ الجندل کی ایک عورت حضور ﷺ کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانے بعد آپ کی تلاش میں آئی، اور جب آپ کے انتقال کی خبر ملی تو بے چین ہو کر رونے پیٹنے لگی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟
اس نے کہا:

"مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر کہیں نامعلوم جگہ چلا گیا۔ میں نے ایک بڑھیا سے یہ سب ذکر کیا تو اس نے کہا: جو میں کہوں وہ کرو، خودبخود تیرے پاس آجائے گا۔
میں تیار ہوگئی۔ رات کے وقت وہ بڑھیا دو کتے لے کر میرے پاس آئی۔ ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں ہم دونوں بابِل پہنچ گئیں۔
میں نے دیکھا کہ دو شخص اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس عورت نے مجھ سے کہا: ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں۔"

میں نے ان سے کہا۔
انہوں نے کہا:

"سُن! ہم تو آزمائش میں ہیں، تو جادو نہ سیکھ—اس کا سیکھنا کفر ہے۔"

میں نے کہا: "میں تو سیکھوں گی۔"

انہوں نے کہا:
"اچھا، پھر جاؤ اس تنور میں پیشاب کر کے آؤ۔"

میں گئی، ارادہ کیا، لیکن کچھ دہشت طاری ہوگئی۔ میں واپس آگئی اور کہا:
"میں فارغ ہو آئی ہوں۔"

انہوں نے پوچھا: "کیا دیکھا؟"
میں نے کہا: "کچھ نہیں۔"

انہوں نے کہا:

"تو غلط کہتی ہے۔ ابھی تو کچھ نہیں بگڑا، تیرا ایمان ثابت ہے۔ اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر۔"

میں نے کہا: "مجھے تو جادو سیکھنا ہی ہے۔"

انہوں نے پھر کہا:

"جا اور تنور میں پیشاب کر آ۔"

میں پھر گئی، لیکن اس مرتبہ بھی دل نہ مانا اور واپس آگئی۔
پھر اسی طرح سوال و جواب ہوئے۔

تیسری مرتبہ میں پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی۔
میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار، منہ پر نقاب ڈالے، نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا۔
میں واپس چلی آئی اور ان سے ذکر کیا۔

انہوں نے کہا:

"ہاں، اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے۔ وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ سے نکل گیا۔ اب چلی جا۔"

میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا:
"انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا!"

اس نے کہا:

"بس تجھے سب کچھ آگیا۔ اب تو جو کہے گی ہو جائے گا۔"

میں نے آزمائش کے لیے ایک دانۂ گیہوں کا لیا۔ اسے زمین پر ڈال کر کہا:
"اگ جا!"
وہ فوراً اگ آیا۔

میں نے کہا:
"تجھ میں بال پیدا ہو جائیں!"
چنانچہ ہو گئے۔

میں نے کہا:
"سوکھ جا!"
وہ بال سوکھ گئے۔

میں نے کہا:
"الگ الگ دانہ ہو جا!"
وہ بھی ہو گیا۔

پھر میں نے کہا:
"سوکھ جا!"
تو سوکھ گیا۔

میں نے کہا:
"آٹا بن جا!"
تو آٹا بن گیا۔

میں نے کہا:
"روٹی پک جا!"
تو روٹی پک گئی۔

یہ سب دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہونے کا صدمہ ہوا۔
اے امیرالمؤمنین! قسم اللہ کی، نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا اور نہ کسی پر کیا۔
میں یونہی روتی پیٹتی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے آگئی تھی کہ حضور ﷺ سے کہوں، لیکن افسوس! بدقسمتی سے آپ کو بھی نہ پایا۔
اب میں کیا کروں؟"

اتنا کہہ کر وہ چپ ہوگئی۔
سب کو اس پر ترس آنے لگا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حیران تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں۔

آخر بعض صحابہ نے کہا:
"اب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ تم اس فعل کو ترک کرو، توبہ و استغفار کرو، اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو۔"
(تفسیر ابنِ کثیر، جلد اوّل، ص ۱۶۳)

*ری ایکٹ کیا کریں*
🌼♥️🌹🤲🌸
*ری ایکٹ علامت ہے۔۔۔۔احساس* *کی۔۔۔شعور کی۔۔۔۔جذبے کی۔۔۔اخلاق کی۔۔۔۔حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔قدردانی کی۔۔۔شکریہ کی۔۔۔۔باہمی تعلق کی۔۔وفاداری کی۔۔۔۔۔۔اس کو معمولی مت سمجھیں سلامت رہیں*

*بارك الله بكم جميعا*

21/11/2025

ہرن_اور_اللہ_تعالیﷻ_کی_قدرت
ہرن کی کمر پہ جو پسینہ آتا ہے وہ اسکی ناف میں جمع ہوتا ہے اور جب دوڑتی ہے تو جو گرد اوڑتی ہے وہ پسینے پہ جم جاتی ہے اور وہ کستوری بن جاتی ہے یہ خاصیت ایک خاص قسم کی نسل ہے ہرن اس میں پائی جاتی ہے اور یہ خاصیت ہرن کو تب ملی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ہرن سمیت تمام جانوروں کو کہا کہ آو اللہﷻ کے نبی کی زیارت کرتے ہیں ان سب جانوروں مین ہرن گئی تھی زیارت کرنے کو تو آدم علیہ السلام نے ہرن کی پشت پہ ہاتھ پھیرا تھا تب سے ہرن کا پسینہ اسکی ناف میں جمع ہوتا ہے اور اس پہ گرد پڑتی ہے تو کستوری بن جاتی ہے
کستوری، دنیا کی مہنگی ترین خوشبو ہے اور کستوری کی جائے تولید ہرن کی ناف ہے ، جس ہرن کی ناف میں یہ کستوری بنتی ہے وہ خود اس خوشبو کو سونگھ کر مسحور ہو جاتا ہے اور شنید ہے کہ بعد از طعام ہرن اپنا تمام وقت اس کستوری کو کھوجنے میں صحرا میں بھٹکتا رہتا ہے ، مگر اس چیز سے لا علم رہتا ہے کہ وہ خوشبو اس کی اپنی ناف میں سے آ رہی ہے

ہرن کی لا علمی پر آپ یقینا ہنسیں یہ آپ کا حق ہے مگر خدا نے ایسا کام صرف ہرن کیساتھ ہی نہیں کر رکھا ، بلکہ گھوڑا وہ طاقت ہے جو طاقت کو ناپنے کا بھی معیار ہے ، یہ موٹر اتنے ہارس پاور کی ہے یہ تو سن رکھا ہو گا آپ نے مگر روایت ہے کہ بروز قیامت گھوڑے کو پتہ چلے گا کہ اس کے پاس کتنی طاقت تھی

آپ گھوڑے پر بھی ہنسنے میں حق بجانب ہیں مگر ایسا کام صرف گھوڑے کیساتھ بھی نہیں آپ کیساتھ بھی ہے اور میرے ساتھ بھی ،

کیونکہ حدیث سرور دو عالم ﷺ ہے جس نے اپنے آپ کو پا لیا ، اس نے اپنے رب کو پا لیا ، مگر خود تک
کی رسائی اور معرفت نہ مجھے ہے اور نہ آپ کو ۔

16/11/2025

بہت عرصہ پہلے میرے علاقے میں ایک انتہائی ماڈرن قسم کی بیوہ عورت وہاں آ کر رہنے لگی اس کے دو بچے بھی تھے - ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے - اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں -
اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے - لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے - یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی -
اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے - گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں - لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں - ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے -
اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں ، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہونگے - ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہوگئی ہے -
میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا ، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی - کوئی کام نہیں کرتی تھی - اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا - بچوں کو بھی کئی بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی -
ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی ، لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی - تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی ، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی - جو بندے اس کے ہاں آتے تھے - انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا -
بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا - اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا - اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی - جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا ، تاکہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو - اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چبھے دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا ، جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا - تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا ، جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا -
ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاک دامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا ، تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی -
میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے - ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں ، کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہوجاتا ہے ، کمزور ہوجاتا ہے ، مر جاتا ہے -
الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے ۔ آمین ۔

*ری ایکٹ کیا کریں*
🌸🌹♥️🌼🤲
*ری ایکٹ علامت ہے۔۔۔۔احساس* *کی۔۔۔شعور کی۔۔۔۔جذبے کی۔۔۔اخلاق کی۔۔۔۔حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔قدردانی کی۔۔۔شکریہ کی۔۔۔۔باہمی تعلق کی۔۔وفاداری کی۔۔۔۔۔۔اس کو معمولی مت سمجھیں سلامت رہیں*

*بارك الله بكم جميعا*

15/11/2025

🌹

*فانی دنیا کی مثال __!!*

ایک جنگل میں بندروں کا ایک غول رہتا تھا اس جنگل میں چونکہ بہت زیادہ تعداد میں پھل وغیرہ اُگتے تھے اس لیے وہ سب بندر بہت اطمینان اور خوشی سے رہتے تھے۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ایک سائنسدان اپنی بیٹی کے ساتھ اسی جنگل میں ریسرچ کے لیے آیا۔ خیمہ نصب کرنے کے بعد سائنسدان تو پودوں کے سیمپل اکھٹے کرنے نکل کھڑا ہوا مگر وہ لڑکی اس خیمہ کی تزین و آرائش کے لیے پیچھے رہ گئی۔ اس نے پہلے زمین پر ایک پرانا قالین بچھایا۔ پر اس قالین پر بستر لگائے۔ خیمے کی درمیانی ٹیک سے برقی لالٹین لٹکائی اور اس کے عین نیچے ایک چھوٹی سی میز اور اس پر سجاوٹی سیبوں سے بھرا ایک پیالہ رکھ دیا۔ وہ سیب دیکھنے میں بہت تازہ، خوبصورت اور بڑے لگ رہے تھے۔

تمام بندر درختوں پر بیٹھے ان مصنوعی سیبوں کو لالچ سے دیکھ رہے تھے۔ لڑکی خیمہ کے سامنے کی جگہ صاف کرنے کے لیے ذرا باہر نکلی تو ایک بندر نے تیزی سے جھپٹا مارا اور ایک مصنوعی سیب اٹھا لیا اور عین اسی وقت لڑکی کی نظر بھی اس پر پڑ گئی۔ لڑکی نے فوراً بندوق اٹھا کر نشانہ لیا اور فائر داغ دیا۔ مگر تمام بندر اتنی دیر میں وہاں سے بھاگ گئے تھے۔

کافی دیر تک بھاگنے کے بعد تعاقب نہ ہونے کا یقین ہونے پر تمام بندر رک گئے۔ چورب ندر نے ہاتھ بلند کرکے سب کو سیب دکھایا۔ سب بندر حیرت سے اس بندر کو دیکھنے لگے اور اس کو خوش قسمت گرداننے لگے کہ اسے ایسا اچھا سیب مل گیا۔ اور کوشش کرنے لگے کہ ایک بار اس مصنوعی سیب کو ہاتھ لگا کر دیکھ سکیں۔

چور بندر نے سب کو جھڑکا اور یہ مصنوعی سیب لے کر ایک درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور سیب کو کھانے کے لیے اسے منہ میں لے کر دبایا۔ مگریہ مصنوعی سیب سخت پلاسٹ کا بنا ہوا تھا جسے چبانے سے بندر کے دانتوں میں درد ہونے لگا۔ بندر نے دو تین بار اور کوشش کی مگر ہر بار اسے درد ہونے لگتا۔

وہ دن چور بندرنے اسی اونچی شاخ پر بھوکے رہ کر گزارا۔ اگلے دن وہ نیچے اتر آیا۔ دوسرے تمام بندر اسے احترام سے دیکھنے لگے کیونکہ اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں وہ مصنوعی سیب موجود تھا۔ دوسرے بندروں سے ملنے والا احترام دیکھ کر اس بندر نے اس سیب پر اپنی پکڑ اور مضبوط کر دی۔ اب دوسرے بندر پھلوں کی تلاش میں نکل گئے اور تیزی سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتے ہوئے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگے۔

چور بندر کے ایک ہاتھ میں چونکہ مصنوعی سیب تھا اس لیے وہ درختوں پر نہیں چڑھ سکا۔ مگر وہ سیب بھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے وہ سارا دن بھوکا پیاسا رہا اور یہی سلسلہ اگے کچھ دنوں تک چلتا رہتا۔ دوسرے بندر اس کے ہاتھ میں مصنوعی سیب ہونے کی وجہ سے عزت کرتے مگر اسے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیتے۔

بھوک سے بے حال وہ بندر اتنا نڈھال ہوچکا تھا کہ اس کو اپنا آخری وقت نظر آ رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس سیب کو کھانے کی کوشش کی مگر اس بار میں نتیجہ مختلف نہ تھا۔ اس کے دانت اس مرتبہ بھی درد کر رہے تھے۔ چور بندر کو اپنی آنکھوں کے سامنے درختوں سے لٹکے ہوئے پھل نظر آ رہے تھے مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان درختوں پر چڑھ سکتا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ جان نکلتے ہی اس کی گرفت مصنوعی سیب پر ڈھیلی ہوگئی اور وہ مصنوعی سیب اس کے ہاتھ سے نکل کر لڑھک گیا۔

شام کو باقی بندر آئےانہوں نے مرے ہوئے بندر کی لاش پر کچھ آنسو بہائے افسوس کیا اور اس کی لاش کو پتوں سےڈھانپ دیا۔ ابھی وہ اتنا کر ہی رہے تھے کہ ایک دوسرے بندر کو وہی مصنوعی سیب ملا۔ اور اس نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو وہ سیب دکھانا شروع کر دیا

سبق:- دنیا کی مثال بھی اس پلاسٹک کے سیب کی طرح ہے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ جب کہ اس کو دیکھنے والے اس سے متاثر ہورہے ہوتے ہیں اور دنیا کو ہاتھ میں رکھنے کا دعوی دار بلا آخر خالی ہاتھ لا حاصل اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ جھوٹا دکھاوا انسان کو پہلے تھکا دیتا ہے پھر مار ڈالتا ھے۔

*ری ایکٹ کیا کریں*

♥️🤲🌸🌼🌹
*ری ایکٹ علامت ہے۔۔۔۔احساس* *کی۔۔۔شعور کی۔۔۔۔جذبے کی۔۔۔اخلاق کی۔۔۔۔حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔قدردانی کی۔۔۔شکریہ کی۔۔۔۔باہمی تعلق کی۔۔وفاداری کی۔۔۔۔۔۔اس کو معمولی مت سمجھیں سلامت رہیں*

*بارك الله بكم جميعا*

14/11/2025

*فیض والی روح*

مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

*روح روح کی معلم ہوتی ہے عالم ارواح سے جو آشنا ہوتی ہے وہی پہچانتی ہے اک دوسرے کی روح کو محبت اور عشق میں
مگر ہر روحوں کو نہیں پہچانتی
جس روح کا عالم ارواح میں قربت اور تعلق نصیب ہوا بس وہی روحوں کا تعلق اس دنیا میں رہتا ہے*

روح کا زماں اور ضمن اور مکاں سے تعلق نہیں ہوتا پاکستان میں ہو اک روح اور دوسری بخارا میں فیض والی روح(مرشد) کا فیض دوسری روح تک پہنچتا رہتا ہے
فیض والی روح(مرشد) کی نگاہوں میں وہ رہتا ہے اور من کی دنیا میں بس جاتا ہے
بس یہی تعلق ہوتا ہے روح سے روح کا

بے شک معلم ہوتی ہیں روحیں فیض دیتی ہیں روح کو اور جو فیض ہوتا ہے وہ قلب سے قلب میں ہوتا ہے اور قلب سے دماغ میں پہنچتا ہے دماغ سے زبان پہ آتا ہے

اور یہ روح پھر معلم ہو کر انسان کے لیے نافع ہوتی ہے وہ بولتا ہے تو دوسری روح کا کلام ہوتا ہےجس نے اس پر فیض کیا ہوا تھا
جہاں یہ روح جاتی ہے یا پہنچتی ہے یا قدم رنجا ہوتا ہے فیض والا بندہ یا بندی وہاں خیر ہی خیر ہوتی ہے

11/11/2025

*حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ*

وہ جب یمن سے مکہ مکرمہ پہنچے اور یہاں آ کر بنو اسد سے حلیفانہ تعلق قائم کیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں وہ اعزاز و اکرام ملنے والا ہے جو ان کو بعد کی زندگی میں حاصل ہوا...

جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے بھی وہ سعادت حاصل کر لی اور مدینہ منورہ میں منذر بن محمد رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے ... پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارگی قائم فرمائی تو ان کی مواخات حضرت زبیر بن خالد رضی اللہ عنہ سے ہوئی .....

انہوں نے دین کی خاطر مکہ مکرمہ چھوڑا، گھر بار چھوڑا اور یہاں مدینہ منورہ میں صرف اور صرف دین سے تعلق جوڑا ... پھر حق و باطل کے معرکے شروع ہوئے تو ان میں شریک ہوتے رہے اور اپنی شہسواری کی مہارت و شہرت کو کام میں لاتے رہے اور تیراندازی میں کمال کا مظاہرہ کرتے رہے ... غزوہ بدر، احد اور خندق، غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تمام غزوات میں شامل رہے اور سفر و حضر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کا شرف لوٹتے رہے ......

البتہ فتح مکہ سے پہلے ان کی طرف سے ایک بات پیش آئی جس سے یہ خود بھی پریشان ہوئے اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی سخت پریشانی ہوئی ..... واقعہ یہ پیش آیا کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح حدیبیہ کی صورت میں ایک معاہدہ طے ہو چکا تھا مگر قریش نے جلد ہی اپنے معاہدے سے روگردانی کی اور معاہدے کی خلاف ورزی کی ... پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس خلاف ورزی پر متوجہ کرنا چاہا تو قریش کے چند جذباتی لوگوں نے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس پر انہیں بعد میں پچھتاوا بھی ہوا۔ اس معاہدے کے ختم ہو جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا ارادہ فرمایا مگر اس کے لئے اعلانِ عام سے کام نہ لیا... حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تیاری کا حکم فرمایا اور کچھ حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کا علم بھی ہو گیا۔ انہی افراد میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ بھی تھے..

حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو اس بات کی کوئی فکر نہ تھی کہ قریش پر حملہ ہوا تو ان کا انجام کیا ہوگا؟ مگر انہیں مکہ میں موجود اپنے گھر کے افراد کی فکر ضرور لاحق تھی اور ان کا خیال تھا کہ مکہ میں جن مہاجرین کے عزیز و اقارب اور گھر کے افراد ہیں، ان کی حفاظت کے لئے ان کی برادری بھی موجود ہے۔ مگر میری تو کوئی برادری نہیں جو میرے گھر والوں کی حفاظت کر سکے ... کیوں نہ قریش پر ایک ایسا احسان کر دوں جس سے میرا فائدہ یقینی ہو جائے اور مسلمانوں کا کوئی نقصان بھی نہ ہو......

انہوں نے اس خیال کو اس طرح عملی جامہ پہنایا کہ اس وقت ایک عورت سارہ نامی جو مغنیہ (گانے والی) تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنی ضرورت بیان کی اور یہ بھی کہا کہ واقعہ بدر کے بعد لوگوں نے میری طرف توجہ نہ دی .... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مطلب کو اس کو کچھ دینے کی ترغیب دی جس پر انہوں نے کپڑے، سواری اور دوسری چیزیں دیں .......

جب یہ واپس مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس کو ایک خط دیا اور راستہ میں کسی کو نہ دکھانے کا وعدہ لیا اور عوض کے طور پر دس دینار دیئے ......

اس خط میں حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے ایسی بات لکھی جو ان کے زعم میں مسلمانوں کو نقصان تو نہ پہنچا سکتی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش ہونے کا خطرہ ضرور تھا اور اللہ تعالیٰ کو یہ راز فاش ہونا منظور نہ تھا... حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آ کر صورتِ حال بیان کردی جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو روانہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ مقام روضہ خارج میں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس حاطب کا خط ہوگا جو انہوں نے مشرکینِ مکہ کے نام لکھا ہے، وہ لے آؤ .....

جب یہ حضرات اس مقام پر پہنچے تو وہ عورت ملی لیکن شاید وہ خط مشرکین کو دے کر انعام حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے قسم کھائی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے سامان کی تلاشی لی مگر نہ مل سکا ... انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کبھی غلط نہیں کہہ سکتے، لہذا بہتر ہوگا کہ تم ہمیں خط دے دو ورنہ ہم تمہاری تلاشی لینے پر مجبور ہوں گے ... اور تلوار نکال لی ..... اس پر اُس عورت نے اپنے بالوں کے اندر سے وہ خط نکال کر دیا جو انہوں نے لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا .....

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں جلدبازی سے کام نہ لیجئے، پھر انہوں نے مذکورہ عذر بیان کیا اور اپنے ایمان پر ذرا تردّد نہ ہونے کو بیان کیا ....

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت ہو تو اس منافق کی گردن اُڑا دوں ... حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمر! تجھے کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے نظرِ رحمت سے اہلِ بدر کو فرما دیا ہے کہ جو چاہے کرو، بلا شبہ میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے۔" اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آنسو بھر آئے ..... اور اللہ تعالیٰ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ایمان کی گواہی اس آیت میں دی جس کا مفہوم ہے کہ ”اے ایمان والو! میرے اور تمہارے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ ...“

پھر ان کا خط کھولا گیا تو واقعی اس کا مضمون ایسا تھا کہ اس سے ان کی باتوں کی صداقت ظاہر ہو رہی تھی .....

اللہ تعالیٰ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے اندر بات سمجھانے، موقع محل کو سمجھنے اور اپنے مخاطب کو تسلی بخش جواب دینے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی اور انتظامی امور کو بخوبی سمجھتے تھے، پھر نڈر اور سفر سے نہ گھبرانے والے تھے۔ شاید انہی خصوصیات کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا سفیر بنا کر اپنے خط کے ساتھ شاہِ مصر مقوقس کے پاس بھیجا جہاں انہوں نے اپنی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور مقوقس کے سوالات کا مثبت جواب دیا .... حاضرین کے سامنے حکیمانہ اور مؤثر تقریر فرمائی جس کا مقوقس پر اچھا اثر ہوا۔ انہوں نے جہاں حضرت حاطب کو اعزاز و اکرام بخشا، وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام خط اور ہدایا بھی ارسال کیے ......

حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی اس کامیابی کی بنا پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مرتبہ ان کو مصر ہی کی طرف سفیر بنا کر روانہ فرمایا تھا جو کامیاب رہا .....

غرض یہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ، جن کی کنیت ابو عبداللہ یا ابو محمد تھی، مناسب جسم، خوبصورت چہرے، کھردری انگلیوں اور کسی قدر چھوٹے قد کے مالک تھے ..... سیرت کے اعتبار سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق، صاف گو، حکمت سے پُر، غزوات کے حاضر باش اور ہجرت و بیعتِ رضوان کی سعادت حاصل کرنے والے تھے .....
(۳۱۳ روشن ستارے)

♥️🤲🌸🌹🌼

10/11/2025

*موت ایک پُل ہے جو یار کو یار سے ملاتی ہے*
کتبِ تفسیر میں جہاں اس آیت کی شانِ نزول بیان کی گئی ہے،پ وہاں یہ واقعہ مرقوم ہے کہ ایک یہودی مسلمان ہوا۔ اتفاق سے کچھ عرصہ کے بعد اس کی بینائی جاتی رہی، پھر اس کا زبردست مالی نقصان ہو گیا، ساتھ ہی اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بھی مر گیا۔
اس نے سوچا کہ یہ سب اسلام کی نحوست کے باعث ہوا ہے۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا:
“جو بیعتِ اسلام میں نے آپ کے ہاتھ پر کی ہے، مجھے اس سے آزاد کر دیجئے۔”

حضور ﷺ نے فرمایا:
"اِنَّ الْاِسْلَامَ لَا يُقَالُ"
(اسلام کی بیعت واپس نہیں لی جا سکتی۔)

وہ کہنے لگا: “مجھے تو آپ کے اس دین سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ اس میں کوئی خوبی نظر آئی۔ میں اندھا ہو گیا، مال برباد ہوا، بیٹا تھا وہ مر گیا۔”
حضور ﷺ نے فرمایا:
"اے یہودی! اسلام انسان کو گلاتا اور صاف کرتا ہے، جس طرح آگ لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو صاف کرتی ہے۔"
(ابن مردویہ)
انَّ الْاِسْلَامَ يَسْبُكُ الرَّجُلَ كَمَا تَسْبُكُ النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ۔

انسان کو چاہیے کہ اسلام کو حق سمجھ کر قبول کرے، پھر اس راہ کے کانٹوں کو دیکھ کر گھبرائے نہیں، بلکہ انہیں پھولوں سے زیادہ عزیز جانے، کیونکہ یہ منزلِ محبوب کے کانٹے ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ اسے دینِ حق کو سربلند کرنے کے لیے اپنی دولت خرچ کرنے کی توفیق دے، تو اسے اپنی سعادت اور بلندیِ نصیب جانے۔
اور اگر پرچمِ اسلام کو اونچا، بہت اونچا لہرانے کے لیے جان دینے کا موقع ملے، تو مسکراتا ہوا، خوشی سے اُچھلتا ہوا حضرت خُبَیبؓ کی طرح تختۂ دار کی طرف بڑھے — کیونکہ موت اس کے لیے ہلاکت و فنا کا پیغام نہیں، بلکہ حیاتِ جاوید کی نوید اور وصالِ حبیب کا پیغام لے کر آئی ہے۔

الموتُ جِسرٌ يُوصِلُ الحبيبَ إلى الحبيب
“موت ایک پُل ہے جو یار کو یار سے ملاتی ہے۔”

پس اگر یہ نظریہ ہو تو پھر حق کو دل سے قبول کرے، ورنہ حق کا دامن پکڑ کر نہ اپنے آپ کو رسوا کرے اور نہ حق کو بدنام کرے۔

(ضیاء القرآن، ج ۳، ص ۲۰۲–۲۰۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*حضرت لقمان علیہ السلام کی ذہانت*

حضرت لقمان علیہ السلام ایک شخص کے غلام تھے۔ ایک مرتبہ وہ شخص اپنے ساتھ شطرنج کی بازی اس شرط پر کھیل رہا تھا کہ جو ہارے گا، اسے قریب بہتی ہوئی نہر کا سارا پانی پینا پڑے گا۔
حضرت لقمان علیہ السلام کا آقا وہ بازی ہار گیا۔ دوست نے کہا: “اب شرط پوری کرو۔”
آقا نے کہا: “مجھے ایک دن کی مہلت دو۔”

چنانچہ اس نے سارا واقعہ حضرت لقمان علیہ السلام کو سنایا۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے فرمایا:
“آپ کا دوست آپ سے یہ شرط نہیں منوا سکتا۔ آپ اس کے پاس جائیں اور پوچھیں کہ نہر کے دونوں کناروں کے درمیان کا پانی پیوں یا شہر کی لمبائی تک کا؟ وہ یقیناً کہے گا کہ دونوں کناروں کے درمیان کا پانی پیو۔
پھر آپ اس سے کہیے کہ: ‘اچھا، تم لمبائی سے پانی کا بہاؤ دونوں طرف سے روکے رکھو، تاکہ میں درمیان کا پانی پی لوں۔’”

یہ اس کی طاقت سے باہر ہوگا کہ وہ دونوں طرف کا بہاؤ روک سکے۔
یوں وہ اپنا عجز ظاہر کرے گا، اور آپ اس پر ذمہ داری ڈال کر اپنی شرط سے بری ہو جائیں گے۔
چنانچہ لقمان علیہ السلام کے مالک نے اسی تدبیر پر عمل کیا اور کامیاب ہوا۔

(کتاب الأذکیاء — علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ)

Address

Sahiwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when خدا اور میں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share