30/11/2025
ولی عہد شہزادہ محمد سلیم نے 1599ء میں اپنے والد کے خلاف بغاوت کر دی، اکبر اعظم اس ایشو میں درست اور جہانگیر غلط تھا، دونوں میں مقابلہ ہوا، آخر میں بغاوت ہار گئی اور ریاست جیت گئی، شہزادہ سلیم جنگ کے بعد اکبر اعظم کے دربار میں پیش ہوا، بادشاہ نے تخت سے اتر کراستقبال کیا اور اسے معاف کر دیا۔
اکبر اعظم ضدی اور قانون کا انتہائی پابند تھا، شہزادے کو معافی کی توقع نہیں تھی، وہ حیران ہوا اور اس نے بادشاہ سے اس فراخ دلی کی وجہ پوچھ لی، بادشاہ نے جواب دیا "شہزادہ حضور آپ کی بغاوت آپ کا قصور نہیں تھا، یہ میری غلطی تھی" شہزادہ خاموشی سے سنتا رہا، بادشاہ بولا" میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں، مجھے اپنے اور آپ کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو بغاوت تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے تھا چنانچہ میں خود کو حالات کی خرابی کا ذمے دار سمجھتا ہوں۔
میں نے اس ذمے داری کی بھاری قیمت چکائی، میں نے ابوالفضل جیسا دوست کھو دیا، کاش کوئی مجھ سے ہندوستان کا تخت لے لے اور مجھے ابوالفضل لوٹا دے۔
تاریخ کا یہ واقعہ ٹیلنٹ مینجمنٹ اور لیڈرشپ کی ورکشاپ میں پڑھایا جاتا ہے۔
اکبر نے بغاوت کو صرف جرم نہیں سمجھا بلکہ اس کے پیچھے موجود صلاحیت اور جذبہ کو دیکھا۔
شہزادہ سلیم کی بغاوت دراصل اس کی طاقت، خود اعتمادی اور قیادت کی خواہش کا اظہار تھی۔ اکبر نے اس کو دشمنی نہیں بلکہ ایک ٹیلنٹ سگنل کے طور پر لیا۔
اکبر نے معافی دے کر یہ دکھایا کہ اصل لیڈر وہ ہے جو غلطی کے پیچھے چھپی صلاحیت کو پہچان سکے۔ اگر اکبر چاہتا تو سلیم کو سزا دے کر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا، مگر اس نے اسے معاف کر کے مستقبل کا بادشاہ بنایا۔
یہ وہی اصول ہے جو آج کے اداروں میں ٹیلنٹ مینجمنٹ میں استعمال ہوتا ہے
غلطی کرنے والے کو ختم نہ کرو، اس کی صلاحیت کو پہچانو۔
اختلاف کو دشمنی نہ سمجھو، بلکہ کری ایٹو انرجی سمجھو۔
ٹیلنٹ ڈسکوری کا مطلب ہے کہ آپ ہر اختلاف، ہر نئی سوچ، ہر غیر روایتی قدم کو مستقبل کے لیڈر یا انوویٹر کے طور پر دیکھیں۔
اکبر کی طرح، ایک لیڈر کو اپنی ضد اور قانون سے بڑھ کر انسانی ٹیلنٹ کی قدر کرنی چاہیے۔