
11/07/2025
کرنل سینڈرز — KFC والے بابا کی پوری جدوجہد**
کرنل سینڈرز کا اصل نام **ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرز** تھا۔
وہ 1890 میں امریکہ کے ایک غریب علاقے **انڈیانا** میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بہت محنتی مگر غریب آدمی تھا۔ جب سینڈرز صرف **5 سال کا تھا** تب اس کے والد کی موت ہوگئی۔ ماں پر تین بچوں کا بوجھ آگیا۔
سینڈرز کی ماں سلائی کرتی تھی، لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی تاکہ بچوں کو روٹی مل سکے۔ ہارلینڈ نے بھی بچپن سے اپنی ماں کی مدد کی۔ 7 سال کی عمر میں اس نے گھر کا سارا کھانا پکانا سیکھ لیا — بہن بھائیوں کو سنبھالنا، ماں کا خیال رکھنا، یہی زندگی تھی۔
ہارلینڈ پڑھائی میں اچھا نہیں تھا — غربت نے اسے سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ صرف **ساتویں کلاس** تک پڑھ سکا۔ پیسے پورے کرنے کے لیے کہیں مزدوری، کہیں کھیتوں میں کام۔ بچپن سے بڑا ہونے تک اس نے بے شمار چھوٹے موٹے کام کیے — ریلوے لائن پر مزدوری، کھیتوں میں کام، دکانوں میں سیلز مین، بیمہ ایجنٹ، انجن میکینک — مگر کہیں ٹک نہ سکا۔ ہر نوکری زیادہ دن نہ چلتی۔
16 سال کی عمر میں اس نے اپنی عمر چھپا کر جھوٹ بول کر فوج میں بھرتی ہونے کی کوشش کی۔ فوج میں جانے کا مقصد پیسے کمانا اور ماں کو سپورٹ کرنا تھا۔ فوج میں گیا بھی — لیکن وہاں بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔ جلد ہی واپس آنا پڑا۔
ہارلینڈ کی شادی ہوئی، بچے ہوئے۔ لیکن کام کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی بھی بگڑتی گئی۔ نوکریاں بار بار بدلنے سے معاشی حالات بہتر نہ ہوئے۔ بیوی بھی اس سے خوش نہ تھی۔ کچھ عرصے بعد بیوی بچوں کو لے کر چلی گئی۔ سینڈرز بالکل ٹوٹ گیا — تنہا اور خالی ہاتھ۔
کچھ عرصے بعد اس نے ایک چھوٹا سا **گیس اسٹیشن** کرائے پر لیا۔ وہاں گاڑیوں کو پٹرول بھی دیتا اور مسافروں کو اپنی ہاتھ کی بنی ہوئی **فرائیڈ چکن** بھی کھلاتا۔ سینڈرز کی چکن اتنی مزے کی تھی کہ آہستہ آہستہ لوگ صرف چکن کھانے آنے لگے۔ اس نے ایک چھوٹا سا ڈائننگ روم بنا لیا۔ لوگ دور دور سے آتے، اس کے پاس پیسے آنے لگے — لگنے لگا کہ اب زندگی بن جائے گی۔
کامیابی کا یہ خواب زیادہ دن نہ چل سکا۔ حکومت نے سڑک کا راستہ بدل دیا، اور اس کا ریستوران سنسان ہوگیا۔ گاہک آنا بند ہو گئے۔ ساری کمائی، خواب — سب کچھ ڈوب گیا۔*
اب سینڈرز 65 سال کا بوڑھا آدمی تھا۔ ہاتھ میں تھوڑے سے پیسے اور حکومت کی طرف سے ملنے والی **سوشل سیکیورٹی کی معمولی پنشن** — بس یہی تھا۔ عام لوگ اس عمر میں **ریٹائر** ہو جاتے ہیں۔ لیکن سینڈرز نے س
*"مجھے اپنی چکن کی ترکیب پر اعتبار ہے، کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے
اس نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر امریکہ بھر کے ہوٹلوں، ڈھابوں، ریسٹورنٹس میں جانا شروع کیا۔
ہر جگہ جا کر کہتا: *"میری ترکیب لو، اپنی دکان پر میری چکن بنا کر بیچو، مجھے تھوڑا حصہ دے دو۔"*
لوگ ہنستے، انکار کرتے۔ اس نے **1009** ہوٹلوں سے انکار سنا — ایک بوڑھے آدمی کی ترکیب کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا تھا۔
لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ ہر انکار کے بعد اگلا دروازہ کھٹکھٹایا۔
آخرکار ایک ریسٹورنٹ مالک کو ترکیب پسند آگئی۔ وہاں سے KFC (Kentucky Fried Chicken) کا پہلا فرنچائز کھلا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی ترکیب مشہور ہوتی گئی۔ لوگ اس بوڑھے بابا کی چکن کھانے لائن میں لگنے لگے۔ کچھ ہی سالوں میں KFC کی فرنچائزز پورے امریکہ میں کھلنے لگیں۔
80 سال کی عمر تک سینڈرز KFC کو دنیا کی سب سے بڑی فرائیڈ چکن چین بنا چکا تھا۔ اس نے اپنی کمپنی کروڑوں ڈالر میں بیچ دی — اور باقی زندگی عزت، سکون اور خوشی سے گزاری۔ آج KFC کی ہزاروں شاخیں دنیا بھر میں چل رہی ہیں — اور ہر باکس پر **Colonel Sanders** کی مسکراتی تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ **ناکامی کبھی آخری نہیں ہوتی۔زندگی میں جتنے بھی دروازے بند ہوں، جو بندہ چلتا رہے، اس کے لیے آخرکار کوئی دروازہ ضرور کھلتا ہے۔ عمر، ناکامی، غربت کچھ بھی خواب دیکھنے اور پورا کرنے سے نہیں روک سکتا
Naeem bhaoo