Teaser

Teaser Digital Creator

13/06/2025

امریکہ میں برہنہ عورت ٹیکسی میں بیٹھی لیکن ڈراہیور پاکستانی تھا، سوال سنیں

    Rauf Klasra
12/06/2025



Rauf Klasra

12/06/2025

بجٹ میں جہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اور پنشن میں سات فیصد کا اضافہ کیا گیا وہیں آن لائن اپنی رقم نکلوالنے پر ٹیکس بڑھا دیا۔ جہاں حکومت مہنگی بجلی دے رہی ہے وہیں سولر پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ ایک عام آدمی زندگی بھر جوڑ کے آلٹو ٹائپ کوئی چھوٹی گاڑی لینا چاہے تو اس پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ ایک فیصد کاربن ڈیوٹی لگا دی ہے۔ پراپرٹی سیکٹر کو اٹھانے کے لیے ٹیکسز میں رعایت دے دی ہے اور شرح سود کم کر دی ہے تاکہ لوگ پراپرٹی میں پھر انویسٹ کریں اور ایک ہی شعبہ پھلے پھولے۔ اس ملک میں مینوفیکچرر کو سہولت نہیں دی جاتی پراپرٹی سیکٹر ساری رقم کھا جاتا ہے۔ اس کو پھر نواز دیا اور امپورٹ (را میٹریل) جو مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے ضروری ہے اس پر مزید ٹیکسز لگا دیے۔ڈھائی ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ کے لیے ہیں مگر ای کامرس پر اٹھارہ فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ یعنی ای کامرس سٹارٹ اپ لینے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور غریب کو بھیک کی جانب راغب کر رہے ہیں۔

ماہانہ تین لاکھ تیتس ہزار سے کم کمانے والوں کے لیے انکم ٹیکس سلیب کم ضرور کی ہے مگر رقم کی منتقلی اور وڈرال پر ڈائریکٹ ٹیکسز لگا دیے ہیں۔ اسی طرح ڈائیریکٹ اور ان ڈائیریکٹ ٹیکسز ہر اس شے پر عائد ہو گئے جو آج کے دور میں بنیادی ضرورت ہے۔ گاڑی، سولر پینلز، آن لائن شاپنگ۔ کیا شاندار بجٹ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ایک ہاتھ سے تھپکی دے کر دوسرے ہاتھ سے دھکا دے دیا ہے۔البتہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے واسطے نان فائلر کیٹیگری ختم کرنا اچھا فیصلہ ہے۔ اس ملک میں نان فائلر پراپرٹی، گاڑی کی خریداری اور بینک ٹرانزیکشنز کے واسطے اضافی ٹیکسز دے دیتا مگر وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ ماہانہ تین لاکھ تیتس ہزار سے زائد کمانے والوں کے لیے 27.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے مگر ترقیاتی بجٹ کے نام پر اللوں تللوں کے لیے کوئی حد نہیں ۔ اس کے واسطے ایک ہزار ارب روپے کا وافر بجٹ ہے۔ ریلوے جیسے خسارتی ادارے کے لیے ایک سو بیس ارب دے دیے لیکن تعلیم یا یونیوسٹیوں کی گرانٹ کے لیے پینسٹھ ارب ہیں۔ زراعت کا کوئی والی وارث نہیں۔ بڑا کاروباری طبقہ ایک بار پھر بجٹ کی زد سے بچ نکلا اور چھوٹا کاروباری ٹیکس لوڈ اٹھائے پھرے گا۔ تنخواہ دار طبقہ پہلے بھی معیشت کا بوجھ ڈھو رہا تھا اب بھی اسے کوئی ریلیف نہیں ملا۔پٹرول پر کاربن لیوی کی مد میں مزید سرچارج اور وفاق کو بجلی پر سرچارج بڑھانے کا اختیار دے دیا ہے۔ فیول اور بجلی مزید مہنگے ہوں گے۔

میری ہوش کے ستائیس اٹھائیس سالوں میں ہر حکومت نے بجٹ کے بعد یہی کہا کہ اس بار قوم کو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑے گا اگلے سال حالات بہتر ہونے لگیں گے۔ یہ کڑو گھونٹ ایلیٹ نے کبھی خود نہیں بھرا۔ اس ملک میں صرف دو طبقے ہیں جو سکون سے جی رہے ہیں اور فکر سے آزاد ہیں۔ ایک خطِ غربت سے نیچے بستا طبقہ یا لیبر کلاس جس کی امیدیں ٹوٹ چکیں اور اس کا کُل زور اسی پر ہے کہ کسی طرح وہ آج کا دن دو وقت کی روٹی کھا کر گزار لے۔محنت مشقت کرے ، بھیک مانگے یا جگاڑ لگائے مگر رات کو وہ چین سے لمبی تان کے سو جاتا ہے۔ دوسرا طبقہ امیر یا ایلیٹ یا بزنس کلاس ہے۔ وہ کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ٹیکسز کا بوجھ صارف نے ڈھونا ہوتا ہے۔ دولت مزید دولت کو جمع کرتی ہے۔

یہ تو لوئر مڈل یا اپر مڈل کلاس ہوتی ہے جو متاثر ہوتی ہے۔ یہی تنخواہ دار یا چھوٹا کاروباری طبقہ ہوتا ہے۔ اس نے کمانا ہے، جوڑنا ہے، گھر بنانے کی خواہش اور ایک فیملی کار کے لیے ساری عمر مشقت کرتا ہے۔اس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی تگ و دو میں عمر گزار دینا ہوتی ہے۔یہ لوئر مڈل سے اپر مڈل میں جانا چاہتا ہے اور اپر مڈل کلاس کی تگ و دو امیر بننے کی ہوتی ہے۔وہ اپنا شمار آسودہ طبقے میں کرانا چاہتے ہیں۔ پچیس کروڑ کے اس ملک میں ساڑھے نو سے دس کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ باقی سب لوئر اپر مڈل کلاس ہے۔ اور ان سے اوپر امیر طبقہ جو شاید اس آبادی کا دو فیصد یا چند لاکھ کی تعداد میں ہے۔ یہ جو چودہ کروڑ مڈل کلاس ہے یہی بجٹ کی مار سہتی ہے۔ اس میں آپ بھی ہیں، میں بھی ہوں۔ فرد کی معاشی ترقی نہیں ہو گی تو ملکی معیشت کی کیسے ہو گی اگر عوام سے نچوڑ کر خزانہ بھرنا ہے تو عوام کیونکر اس نظام کو پسند کرے گی۔اسی سبب ہر شخص ملک سے ہجرت کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جس کے سینگ سماتے ہیں وہ چلا جاتا ہے۔

صحت ، تعلیم، انصاف، چھت، خوراک۔ ان پانچ بنیادی انسانی ضروریات کو معیار بنا لیں تو معلوم ہوگا کہ نوے فیصد سے زائد شہریوں کو اس نام نہاد منصوبہ بندی سے کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجتاً جس پر آج بجٹ کے نام پر تجزیاتی مغز ماری کی جارہی ہے اس میں نہ عزت محفوظ ہے نہ جان کی امان ہے اور نہ مستقبل کی ضمانت۔ کہنے کو آج کا کل بجٹ 17.6 کھرب روپوں کا بجٹ ہے (جس میں 6.2 کھرب خسارہ یا قرض کی اقساط کے مد میں ہے) لیکن شہری کی فلاح پر یہ ریاست گن کر بارہ روپے مہینہ خرچ کرتی ہے۔ ہاں ! حکمرانوں کی حفاظت، عیش اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں و مراعات کے لیے وسائل اندھا دھند ہیں۔

کوئی حد نہیں، کوئی قدغن نہیں، ان پر نہ بجلی کا بل اثر کرتا ہے اور نہ سبزیوں اور دالوں کے بھاؤ۔ ان کی غذا مرغن ہے۔ صحت ایسی بھرپور کہ جیسے اکھاڑے سے نکلا ہوا پہلوان۔ بجٹ تو ایک کھیل ہے۔ اصل میں یہ فیصلہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کیا جاچکا تھا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ اس اذیت میں مبتلا رکھنا ہے کہ ان کو ایک نوالے کی فراہمی بھی من و سلویٰ لگے۔ اتنے زخمی ہوں کہ طبیعت پوچھنے پر بھی ساری زندگی شکرگزاری میں تعریف کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم سب اس بدحالی کا شکار ہوتے جس نے ہماری کمزور ترین امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے؟

بجٹ اس مفصل واردات کا حصہ ہے جو اس ملک پر قابض طبقے ہر سال ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر سیاسی و عسکری اشرافیہ میں کسی کو کاروبار ، ریاست اور قوم کے حالات کو بدلنے میں کوئی حقیقی دلچسپی ہوتی تو وہ یقیناً اسی استطاعت اور کامیاب منصوبہ بندی کا سہارا لیتے جس کے ذریعے انہوں نے ذاتی معاشی معاملات کو ایسے سنبھالا ہے کہ ہر طرف سے فائدہ کے سوا کچھ نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ نہ کوئی سہارا ہے نہ کوئی تنگی، جن تمام سالوں میں (بجٹ کے باوجود یا شاید بجٹ کی وجہ سے) پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے ماس غائب ہو گیا اسی دوران بجٹ بنانے والے اور بجٹ کھانے والے فربہ اندام ہو گئے۔ ملک کی معیشت ڈوب گئی، ان کی دولت کے انبار آسمان کو چھونے لگے۔

حکومتی آفس میں وزیر بے تدبیر اور بے بس نظر آئے مگر اپنی صنعتوں اور ملوں میں ان سے کائیاں اور ماہر کاروباری دکھائی نہ دیا۔ ڈی ایچ ایز تو پھلتے پھولتے رہے مگر دفاع کا سارا بوجھ خزانے پر ہی رہا۔یہ کیا ماجرہ ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنے میں ناکام افراد ذاتی دولت اکھٹا کرنے میں اتنے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ بنیادی بات یہی ہے جو میں نے پہلے آپ کے لئے تحریر کر دی ہے۔ بجٹ قبضہ گروپ کا وہ ہتھیار ہے جو وہ ہر سال استعمال کرکے آپ کو اپنی خودساختہ مجبوریوں کے واویلے سے متاثر کرتے ہیں اور پھر تمام دن اپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کے اہتمام کرنے پر مامور ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو تبدیلی لانا ہوتی تو آج غریب کی اولاد جھگیوں میں مٹی پھانکنے کے بجائے دبئی اور لندن میں ارب پتیوں کے ساتھ ان کی اولادوں کی طرح مکمل آسائش میں نہ پل بڑھ رہے ہوتے ؟۔

پھر بھی امید رکھنی چاہئیے کہ جیسے کاروباری مواقعے اور خالص برق رفتار منافعے پاکستان کی سول و عسکری ایلیٹ کو میسر ہو جاتے ہیں ایک دن ہمیں بھی یہ رعایتیں مل جائیں گی۔ میری دعا ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے چوبیس کروڑ پچانوے لاکھ لوگ کم از کم سو برس زندہ رہیں۔ آمین۔
سید مہدی بخاری
Syed Mehdi Bukhari

‏دنیا کی حقیقی ہیروئنز ! فجر کے وقت اٹھ کر گھر کی ذمہ داریاں نبھانے والی حقیقی زندگی کی ہیروئنز، نماز روزہ تلاوت معمول ک...
14/10/2024

‏دنیا کی حقیقی ہیروئنز !
فجر کے وقت اٹھ کر گھر کی ذمہ داریاں نبھانے والی حقیقی زندگی کی ہیروئنز، نماز روزہ تلاوت معمول کے ساتھ کرنے والیوں کے لیے، ناشتہ تیار کرنے سے لے کے بچوں کو اسکول کی تیاری کیساتھ ساتھ اپنے باپ بھائی شوہر سب کی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھانے والی، گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر تمام چھوٹے بڑے معاملات کو دیکھنے والی ، بچوں کا انتظار کرنا، تمام افراد کو کھانا کھلانا، برتن صاف کرنے اور پھر سبق بھی پڑھنا اور اسائنمنٹس بھی تیار کرنا،

ان خواتین ماہرین اقتصادیات کے بارے میں جو بجٹ خسارے کے باوجود جب بڑے ممالک قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں مینج کرتی ہیں
ان نرسوں کے بارے میں جو تھرمامیٹر سے بیمار بچے کا درجہ حرارت ناپتی ہیں، ، بیماری کی تشخیص کرتی ہیں، بچے کو ماتھے پر بوسہ دیتی ہیں ، علاج کرتی ہیں اور بالآخر وہ بچہ صحت یاب ہو جاتا ہے

یہ تحریر ان معزز خواتین کے بارے میں ہے جو رات کو سونے کے لیے جاتی ہیں اور تھکاوٹ سے بےحال ہوتی ہیں مگر وہ شکایت نہیں کرتیں
ان کے بارے میں جو انسٹاگرام پر پوسٹ کے لیے کھانا نہیں بناتیں ،
فیس بک پر دکھاوے کے لیے کپڑے نہیں خریدتیں،
ان کے کھردرے ہاتھوں کے بارے میں، کیونکہ موئسچرائزرز اور کریموں کی قیمتیں شائد ان کے بچوں کے اسکولوں کی ٹیوشن فیس سے زیادہ ہے۔

دنیا کی ان حقیقی ہیروئنز کے بارے میں جو لانڈری ٹوکریوں کو روزانہ خالی کرتیں کیونکہ وہ صرف بچوں کے صاف کپڑے پہننے سے ہی مطمئن ہیں ۔
ہر طرف بکھرے ہوئے کھلونوں کو سنبھالنے کے بارے میں کیوں کہ وہ بچوں کا بچپن چھین نہیں سکتیں!

دنیا کی ان حقیقی ہیروئنز کے بارے میں جو لوگوں کے لیے تعطیلات پر سفر نہیں کرتیں
ان کے بارے میں جو اپنی سالگرہ بھول جاتیں
ان لوگوں کے بارے میں جو فیشن میگزین نہیں پڑھتی!
ان لوگوں کے بارے میں جو بیوٹی سیلون اور خواتین کی ورکشاپس کا راستہ نہیں جانتی!

یہ لکھا جا رہا ہے فرشتوں کے بارے میں،
جو واقعی فرشتے ہیں

میں جانتی ہوں کہ یہ مضمون نہ تو ان کے کمر کے درد کو ٹھیک کرے گا، نہ آواز کی کھردری کو ختم کرے گا نہ ہاتھوں میں کھردرا پن دور کرے گا اور میں جانتی ہوں کہ آپ میں سے اکثر کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہے اور یہ کہ آپ میں سے اکثریت کو اس تحریر کا معلوم بھی نہیں ہو گا
لیکن میں نے آپ کے شکریہ کے اعتراف میں ، اور آپ کی کوشش، صبر اور جدوجہد کی یاد دہانی کے طور پر آپ کے بارے میں لکھا۔
تم دنیا کی حقیقی ہیروئنز ہو، جو کبھی شکست نہیں کھا سکتی۔۔
کیونکہ
تم وہ واحد فوج ہو جو ہمیشہ فتحیاب ہی رہے تو دنیا چلتی رہے گی !

آپ سب کو سلام !!


12/10/2024

ہمارے دور میں پانچ سال کا بچہ سکول داخل کروایا جاتا تھا اور یہی اس کی سیکھنے کی سب سے بہترین عمر ہوتی تھی ۔ چار یا ساڑھے تین سال کے بچے کو سکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا ۔ پھر زمانہ پلٹا ، ہر محلے اور گلی میں پرائیویٹ سکول کھلنا شروع ہوگئے ۔ جہاں تعلیم کے ابتدائی مدارج کو پلے گروپ ، پری نرسری ، کے جی یا پریپ کا نام دے دیا گیا ۔ اب گھر بیٹھی ماوں کو تین سال کی عمر میں بچوں سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا ، جیسے ہی بچہ بولنا شروع کرتا ان کو لگتا سکول داخل کرانے کا وقت شروع ہوچکا ہے ۔نجی سکولوں کو اور کیا چاہیے تھا ، وہ اڑھائی سال کا بچہ داخل کرنے پر بھی تیار ہوگئے اور دھڑا دھڑ ایڈمیشن ہونے لگے ۔
وہ بچہ جسے ماں کی نرم آغوش چاہیے تھی ، کھیلنے اور جی بھر کے سونے کی عمر میں سکول یونیفارم پہن کر پلا سٹک اور لکڑی کی کرسیوں پر نیند سے جھولتا رہتا ۔ جس بچے نے ابھی پیشاب پر کنٹرول نہیں سیکھا وہ صبح سات سے دو بجے تک ایک ایسی بھیڑ میں بھیج دیا گیا جہاں آنے کا مقصد اسے خود نہیں معلوم نہیں۔ گیٹ پر چیختے چلاتے اور بلکتے بچے گارڈ کے حوالے کرکے ماں باپ فخر سے گھر کو چل دیتے ۔
پچھلے پانچ سال کے سروے کے مطابق نجی سکولوں میں سوا دو لاکھ ایسے بچے داخل ہوئے جن کی عمریں بمشکل تین برس ہیں ۔ جو رکشوں ، ویگنوں ، موٹر سائیکلوں پر دھکے کھاتے سکول پہنچتے ہیں اور سارا دن روتے دھوتے اور اونگھتے گھر واپس چلے جاتے ہیں ۔
2015 میں ایک معروف ادارے میں مجھے پری جونئیر سیکشن کا ہیڈ بنایا گیا ۔ جو بچے دوسرے سکول سے پلے گروپ اور نرسری پاس کرکے آتے وہ ہنوز صفر تھے ۔ دو سال خوار ہونے کے باوجود نصف بچوں کو الفاظ کی شناخت یا حروف کو جوڑنا نہیں آتا تھا، ان بچوں میں علم کا شوق بھی کم تھا، ان کی طبیعت میں سکول سے بیزاری بھی عیاں ہوتی تھی ، ان کے چہرے تھکے ہوئے اور آنکھوں کے نیچے حلقے ہوتے تھے ۔ یہ ایک آدھ بچے کی بات نہیں ، میں پوری پوری کلاس کا مشاہدہ کرتی تھی اور ہر بچے کو سامنے بٹھا کر انٹرویو کرتی تھی ۔
اس کے برعکس ہر وہ بچہ جو پانچ سال کی عمر میں سکول داخل ہوا تھا اس کے اندر سکول سے واضح محبت ، سیکھنے کے عمل میں تیزی اور صحت زیادہ بہتر تھی، اس قد کاٹھ اور اعتماد ان بچوں سے بہتر تھا جو تین سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کرنے پہنچے تھے ۔ بات یہ نہیں کہ نجی سکول محنت نہیں کرتے ، اصل میں بچہ اتنا کم عمر ہے کہ اس میں اتنا کچھ جذب کرنے اور چھ گھنٹے بیٹھنے کی سکت و صلاحیت ہی نہیں نتیجہ صفر نکلتا ہے ۔
اگرچہ ٹیچر ہونے کی وجہ سے میرے بچوں کی سکول فیس نصف تھی لیکن میرے دونوں بچوں نے پانچ سال کی عمر میں داخلہ لیا اور وہ پلے گروپ اور نرسری کا بنیادی سلیبس گھر میں ہی پڑھتے رہے یہی وجہ ہے وہ آج اپنی اپنی جماعتوں میں نمایاں پوزیشنز پر ہیں اور پبھلے دس سال سے ان کو کسی مضمون میں ٹیوشن کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔
اگر کوئی مجبوری نہیں ہے تو پانچ سال سے پہلے بچوں کو ہر گز ، ہر گز سکول داخل مت کروائیں ، بنیادی حروف کی پہچان اور ریڈنگ گھر میں کروائیں ، پیار سے گود میں بٹھا کر ان کو پینسل پکڑنے کا طریقہ سکھائیں ۔ نجی سکول سال بھر میں ان کو اتنا نہیں سکھا پاتے جتنا ماں ایک مہینے میں سکھا سکتی ہے۔
بطور استاد اگر میں ماوں کو مشورہ دوں تو خدا کے لیے بچے کے ابتدائی پانچ چھ سالوں میں ہوم سکولنگ کی طرف آئیں۔ نہ صرف اضافی خرچے کی بچت ہوگی بلکہ مستبقل میں ایک صحت مند اور ذہین ترین بچہ آپ کی نسل میں پروان چڑھے گا ۔
یہ شمعیں چھوٹی چھوٹی سی
کل ممکن ہے___ خورشید بنیں

آصفہ عنبرین قاضی
Asifa Ambreen Qazi

11/10/2024

Viraasat mein Transgender ka Haq kitna hai?
وراثت میں ٹرانس جینڈر کتنا حق ہے؟

10/10/2024

شوق اور رغبت کی نماز قائم کریں۔




10/10/2024

کیا شوہر کو ناراض کرنے والی عورت جنت میں نہیں جائے گی؟

ایک سردار جی کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو گئیتوں توں، میں میں اتنی بڑھ گئی کہ سردار جی نے ہاتھ جوڑ کر کہا "بس کر بس کر میری ...
10/10/2024

ایک سردار جی کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو گئی
توں توں، میں میں اتنی بڑھ گئی کہ سردار جی نے ہاتھ جوڑ کر کہا "بس کر بس کر میری ماں"
اب بیوی کو ماں کہہ دیا تو مذہبی معاملہ آ گیا، دونوں اپنے گرو جی کے پاس گئے، تو گرو جی نے بڑی کتابیں پھرول کے ان کو بتایا کہ اب تم دونوں کو
چالیس دن تک چار سو لوگوں کو کھانا کھلانا پڑے گا، پھر ہی تم دونوں کا میاں بیوی والا رشتہ بحال ہو سکتا ہے
بس جی ! بہت خرچہ ہوا، اور سردار جی نے گھر کی ایک ایک چیز بیچ کر چالیس دن کا چار سو لوگوں کا کھانا پورا کیا، اکتالیسویں دن دونوں میاں بیوی خالی گھر میں اکلوتی بچ جانے والی چارپائی پر بیٹھے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے، کہ سردارنی بولی
سردارا، ایہہ سب تیری وجہ نال ہوئیا۔۔۔۔!!!
سردار جی نے غصے سے اپنی گھر والی کو دیکھا اور بولا

فیر چھیڑنی پَئی ایں آپنے پیو نوں...

Moral of story: use your tongue wisely


گرمی بھی جاتے جاتے ۔۔۔عورتوں کی طرح  ۔۔۔۔دروازے میں کھڑی ہو گئی ہے ۔۔🤣
06/10/2024

گرمی بھی جاتے جاتے ۔۔۔

عورتوں کی طرح ۔۔۔۔

دروازے میں کھڑی ہو گئی ہے ۔۔🤣



ایک آدمی نے اپنے دوست کے گھر فون کیا اور فون اس کے چھوٹے بیٹے  نے اٹھایا۔آدمی نے کہا: "بیٹا، تمہارے ابو کہاں ہیں؟" بچے ن...
06/10/2024

ایک آدمی نے اپنے دوست کے گھر فون کیا
اور فون اس کے چھوٹے بیٹے نے اٹھایا۔

آدمی نے کہا: "بیٹا، تمہارے ابو کہاں ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "ابو مصروف ہیں۔"
آدمی نے کہا: "وہ کیا کر رہے ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔"

آدمی نے پوچھا: "اور تمہاری ماما کہاں ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "ماما بھی مصروف ہیں۔"
آدمی نے کہا: "ماما کیا کر رہی ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ کمرے میں ہیں اور رو رہی ہیں۔"

آدمی نے کہا: "اچھا، مجھے کوئی بڑا شخص دو جس سے میں بات کر سکوں، وہاں اور کون ہے؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "یہاں پڑوسی بھی ہیں۔"

آدمی نے کہا: "اچھا، کسی پڑوسی کو دو بات کرنے کے لیے؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ بھی مصروف ہیں۔"
آدمی نے کہا: "وہ کیا کر رہے ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ ابو، ماما اور پڑوسیوں کے ساتھ ہیں۔"

آدمی نے پوچھا: "اور کون کون ہے وہاں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "پولیس والے بھی ہیں۔"
آدمی نے کہا: "اچھا، پولیس والوں کو دو بات کرنے کے لیے؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ بھی مصروف ہیں۔"
آدمی نے کہا: "پولیس والے کیا کر رہے ہیں؟"
بچے نے آہستہ آواز میں کہا: "وہ ابو، ماما اور پڑوسیوں کے ساتھ ہیں۔"

آدمی نے گھبرا کر کہا: "بیٹا، یہ کیا ہو رہا ہے؟ آخر گھر میں کیا مسئلہ ہے؟"

بچے نے آہستہ آواز میں کہا:

"وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں، اور میں چھپا ہوا ہوں!

Address

Sargodha

Telephone

+923447493007

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Teaser posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Teaser:

Share