Moral Words and Stories

Moral Words and Stories Informations by Bilal Bashir

29/07/2025

AI

میں بیٹھا اپنے فون پر کام کر رہا ہوں اور برابر پر
میرا لیپ ٹاپ بھی پڑا کام کر رہا ہے

جی بالکل میں لیپ ٹاپ پر کام نہیں کر رہا بلکہ لیپ ٹاپ خود سے کام کر رہا ہے۔۔۔ اے ائی آگے کیا سے کیا ہونے جا رہی ہے۔۔۔ اے ائی کا یہ ماڈیول جس کا بتا رہا ہوں یہ ایک ایجنٹ موڈ ہے جس میں اپ اے ائی کو کمانڈ دیتے ہیں کسی بھی کام کی اور وہ اپ کے لیپ ٹاپ کی ایکسیس لے کر بتایا گیا ٹاسک مکمل کر دیتی ہے اے ٹو زی یعنی جو کل تک کہا جاتا تھا کہ اے آئی خود سے سوچ نہیں سکتی یا خود سے کام نہیں کر سکتی اسے چلانے والا چاہیے وہ بھی ختم ہو چکا ہے مثال کے طور پہ اگر اس ایجنٹ موڈ کو میں کہوں کہ کہ میری ویب سائٹ کے اوپر ایڈ لگا دو تو یہ میرے گوگل ایڈ اکاؤنٹ کو ایکسیس کرے گا اور اس کے بعد پوری کمپین ریڈی کر کے تیار کر کے مجھ سے بجٹ پوچھ کے میرا گول پوچھ کے اس کو رن کر دے گا مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اس کو کمانڈ دے کے چلا جاؤں گا یہ خود ہی ایڈ بنا کے لگا کے کرییٹو ایڈ کر کے اس کو رن کر دے گا۔۔۔

اسی طرح سے اگر مجھے کچھ آرڈر کرنا ہے تو میں اس کو بتاؤں گا کہ مجھے فلانی چیز چاہیے تو یہ خود ہی ویب سائٹس کو کھول کے کھنگال کے پراڈکٹ ڈھونڈ کر میرا ایڈریس دے کر آرڈر پلیس کر دے گا،یعنی کہ میں صرف اس کو ایک کمانڈ دوں گا اور چلا جاؤں گا اور یہ خود ہی آرڈر کر کے کوئی بھی چیز مجھے منگوا کے گھر پہنچا دے گا یعنی کہ پوری طرح آپ کے سسٹم کو ایکسیس کر کے کوئی بھی کام جو آپ اس کو کہیں گے یہ کر دے گا۔۔۔ اپ اس کو کہیں گے کہ فلانے بندے کو میل بھیج دو تو یہ میل لکھ کر اس کے ایڈریس پر بھیج دے گا

اب اس سب میں ایک ہی پنگا سب سے بڑا اور وہ ہے آپکی پرائویسی ۔۔۔ آپکا سسٹم ایجنٹ کے کنٹرول میں چلا جاتا ہے , کام کرنے کے لیے اسے مکمل اکسیس چاہیے ہوتی یہ سب سے بڑا رسک ہے۔۔۔
جب اسے مکمل اکسیس بھی مل جائے، اور وہ خود سے سوچ بھی سکتا، کر بھی سکتا تو صحیح کرے یا غلط یہ سب اسکے ہاتھ میں دے دیا گیا۔۔!!
اسی لیے میں نے فیک میل کریٹ کر کے اس سے اکسیس دی اور چیک کیا سب اس کے علاوہ وہ ٹاسک دیے جو لمیٹڈ اکسیس کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔۔۔ ا

23/07/2025

متوازن زندگی پرسکون زندگی۔۔

درست لائف اسٹائل (Healthy Lifestyle) سے
مراد ایسا طرزِ زندگی ہے جو جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کو بہتر بناتا ہے، بیماریوں سے بچاتا ہے، اور انسان کو ایک پُرسکون، متوازن اور با مقصد زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے۔

درست لائف سٹائل کی علامات:

1. متوازن غذا:
وقت پر کھانا، پروٹین، سبزیاں، پھل، اناج، اور پانی کا مناسب استعمال۔ فاسٹ فوڈ اور کولڈ ڈرنکس سے اجتناب۔

2. مناسب نیند:
روزانہ 6 سے 8 گھنٹے کی پُرسکون نیند۔

3. ورزش اور جسمانی سرگرمی:
روزانہ کم از کم 30 منٹ چہل قدمی، یوگا، یا ہلکی پھلکی ایکسرسائز۔

4. ذہنی سکون:
اسٹریس مینجمنٹ، عبادات، مثبت سوچ، اور تعلقات میں توازن۔

5. معاشرتی تعلقات:
خاندان، دوستوں اور معاشرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا۔

6. روحانی پہلو:
اللہ سے تعلق، دعا، ذکر، اور زندگی کے مقصد پر غور۔

غلط لائف سٹائل کی علامات:

1. فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کا استعمال

2. سست طرزِ زندگی:
دن بھر بیٹھے رہنا، ورزش نہ کرنا۔

3. نیند کی بے ترتیبی:
دیر سے سونا، دیر سے اٹھنا، نیند پوری نہ ہونا۔

4. اسٹریس اور منفی سوچ:
غصہ، بے صبری، حسد، اور مایوسی۔

5. نشہ آور اشیاء کا استعمال:
سگریٹ، شیشہ، یا نشہ آور اشیاء۔

6. ٹیکنالوجی کا غلط استعمال:
بہت زیادہ موبائل، ٹی وی، سوشل میڈیا کا استعمال.

غلط لائف اسٹائل کے ممکنہ نقصانات:

1. موٹاپا اور وزن کا بڑھنا

2. بلڈ پریشر، ذیابیطس، کولیسٹرول

3. ہارٹ اٹیک اور اسٹروک

4. ڈپریشن، اینگزائٹی اور ذہنی دباؤ

5. کمزوری، تھکن، سستی اور نیند کی کمی

6. جلدی عمر رسیدگی (premature aging)

7. رشتوں میں مسائل اور تنہائی

نتیجہ:

صحیح لائف سٹائل اختیار کرنا صرف جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ ذہنی سکون اور خوشی کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ یہ انسان کو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں فلاح کے قریب کر دیتا ہے۔

07/07/2025

لیتھیم اور سوڈیم

آنے والا وقت لیتھیم اور سوڈیم جیسے عناصر کا ہے، خاص طور پر توانائی کے ذخیرے اور بیٹری ٹیکنالوجی کے میدان میں ان دونوں دھاتوں میں بہت زیادہ صلاحیت ہے کہ یہ مستقبل کے توانائی کے چیلنجز کا حل فراہم کریں۔

لیتھیم آئن بیٹریاں اس وقت سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ریچارج ایبل بیٹریاں ہیں، الیکٹرک گاڑیاں، موبائل فونز، لیپ ٹاپس، سولر سسٹمز، سب میں۔
یہ ہلکی۔طاقتور اور دیر پا بیٹریز فراہم کرتی ہیں۔
لیکن لیتھیم محدود مقدار میں دستیاب ہے
یہ خاص علاقوں جیسے جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، چین وغیرہ میں ہی زیادہ پایا جاتا ہے
اس کے ساتھ ماحولیاتی خطرات اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

سوڈیم، ابھرتا ہوا متبادل
سوڈیم زمین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے نمک میں بھی ہوتا ہے اور سستا ہے۔
سوڈیم آئن بیٹریاں اب تحقیق اور تجارتی سطح پر تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔
فوائد: کم قیمت، آسانی سے دستیاب، ٹھنڈے ماحول میں بہتر کام کرتی ہیں۔
گو کہ توانائی کی کثافت Energy Density ابھی لیتھیم جتنی نہیں لیکن مستقبل میں اس مسلے کا بھی حل نکل آئے گا۔

پاکستان کے لیے ایک بڑا موقع۔
نظریاتی طور پر پاکستان میں موجود پہاڑی نمک سے حاصل شدہ سوڈیم کو سوڈیم آئن بیٹریوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کے لیے کچھ سائنسی، صنعتی اور تکنیکی مراحل ضروری ہیں جنہیں سمجھنا بہت اہم ہے۔
پہاڑی نمک سے سوڈیم کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں کھیوڑہ جیسے علاقوں میں پہاڑی نمک کی بہت بڑی مقدار موجود ہے، جس کا کیمیائی فارمولا عام طور پر NaCl سوڈیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔
1. سوڈیم کلورائیڈ NaCl سے سوڈیم دھات Naحاصل کرنے کے لیے الیکٹرولائسز کا عمل استعمال کیا جاتا ہے۔
2. یہ صنعتی سطح پر کیا جاتا ہے اور کافی توانائی خرچ ہوتی ہے۔
3. حاصل شدہ سوڈیم کو بیٹری کے لیے بطور کیتهوڈ یا اینوڈ مٹیریل استعمال کیا جاتا ہے یہ مخصوص فارمولیشنز پر منحصر ہے۔
پاکستان کی صلاحیت اور چیلنجز مواقع
پاکستان کے پاس دنیا کے بڑے نمک ذخائر ہیں
خام مال کی مقامی دستیابی سے لاگت کم ہو سکتی ہے
سوڈیم آئن بیٹریز کی بڑھتی ہوئی عالمی طلب خاص کر چین، بھارت، افریقہ جیسے ممالک میں
درآمدی بیٹری پر انحصار کم کرنے کا موقع
چیلنجز:
پاکستان میں بیٹری مینوفیکچرنگ انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے
الیکٹرولائسز پلانٹس اور ریفائننگ ٹیکنالوجی موجود نہیں
تحقیق و ترقی R&D کی کمی
ماہرین، انجینئرز، اور صنعتی سرمایہ کاری درکار ہے

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
1. جامعات اور ریسرچ ادارے (مثلاً NUST, PIEAS, PCSIR کو سوڈیم آئن بیٹری پر تحقیق کرنی چاہیے
2. حکومت کو Public-Private Partnerships کے تحت پائلٹ پروجیکٹس شروع کرنے چاہئیں
3. پاکستان کو غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی بات چیت کی جا سکتی ہے
4. کھیوڑہ اور دیگر نمک علاقوں میں ویلیو ایڈیشن پلانٹس لگانے کی حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے
پاکستان کا دوست ملک چین سوڈیم آئن بیٹری ٹیکنالوجی میں دنیا میں سب سے آگے ہے
چینی کمپنی کیٹل نے 2023 میں اپنی پہلی تجارتی Sodium-ion battery متعارف کرائی
اس سوڈیم آئن ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی ایک اور چینی کمپنی حنا بھی ہے۔
لیتھیم کا دور ابھی مکمل ختم نہیں ہو رہا، خاص طور پر جہاں زیادہ توانائی کثافت درکار ہو۔
لیکن سوڈیم مستقبل میں سستا، محفوظ، اور وسیع پیمانے پر قابلِ استعمال متبادل بن سکتا ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں بجلی ذخیرہ کرنی ہو جیسے سولر گرڈز یا سستی الیکٹرک گاڑیاں۔
لہٰذا آنے والا وقت لیتھیم اور سوڈیم دونوں کا ہے۔
مگر سوڈیم کا کردار ابھرتا ہوا ہے جو کئی توانائی چیلنجز میں انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔

آپ سب نے اس پر بہت فلمیں دیکھ رکھی ہونگی پر آج ہم آپ کو تمام فلموں کا حقیقی مجموعہ پڑھاتے ہیں۔ہندوستان(برصغیر) ایک وسیع ...
02/05/2025

آپ سب نے اس پر بہت فلمیں دیکھ رکھی ہونگی پر آج ہم آپ کو تمام فلموں کا حقیقی مجموعہ پڑھاتے ہیں۔

ہندوستان(برصغیر) ایک وسیع ملک تھا۔ اتنا بڑا کہ اسے براعظم کہا جاتا رہا۔
اس کا ساحل پانچ ہزار میل تھا ۔ خشکی کی سرحد کوئی چھ ہزار میل ہوں گی۔ شمال میں ہمالیہ پندرہ سو میل تک پھیلا ہوا تھا۔
بند ہیاچل نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ہندوستان اپنی زرخیزی کی وجہ سے غیر قوموں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا۔ صدیوں تک جنوبی قوموں کا تمدن شمالی ہندوستان کو متاثر کرتا رہا۔
حملہ آور قوموں کی نسلیں آج بھی بندھیا چل کے اس پار شمالی ہندوستان کی نسبت بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف قوموں کے
یہاں آنے سے ہندوستان میں مختلف تمدنوں کا ایک مجموعہ تیار ہو گیا۔ ہر تمدن ہندوستان کو متاثر کرنے کے بعد خود کسی دوسرے تمدن سے متاثر ہوتا رہا۔
نوحجری عہد میں ہندوستان میں دو قومیں بستی تھیں جس کی یاد گار آج تک نیل گری کی پہاڑیوں میں باقی ہے۔ اس کے بعد کول اور بھیل اقوام نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا۔
صدیوں بعد دراوڑوں نے ان قوموں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ کول دراوڑ کے قد چھوٹے رنگ کالے پیلے اور ناک چپٹی تھی۔ دراوڑ ابتدا میں شمالی ہندوستان میں آباد ہوئے لیکن آریاؤں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دراوڑ کولوں اور بھیلوں سے کر چکے تھے۔

آریاؤں نے دراوڑوں کو شمالی ہندوستان سے نکال دیا۔ وہ جنوبی ہندوستان میں چلے گئے۔ آج جنوبی ہندوستان میں دراوڑوں کی اکثریت ہے۔ ان کی زبانیں ہندی آریائی زبانوں سے مختلف ہیں۔ شمالی ہندوستان میں دراوڑ شہری تمدن کے مدارج تک پہنچ چکے تھے۔
ان کا تمدن سومیری تمدن سے ملتا جلتا تھا۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی کھدائیوں نے ان کے تمدن کی عظمت کو ہمارے سامنے دکھا دیا ہے۔
ان شہروں کا تمدن صدیوں کی آغوش میں پلا ہوگا۔ مصر ، عراق اور ایران کی تہذیبوں کے پہلو بہ پہلو دراوڑی تہذیب بھی اپنی قدامت اور عظمت کی داستان کھنڈرات کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔
موہنجوداڑو اور ہڑپہ آریاؤں کے آنے سے صدیوں پہلے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ سندھ اور پنجاب کا تمدن مصر اور عراق کے ہم عصر تمدن سے کسی طرح پیچھے نہیں تھا۔ ان شہروں کے لوگ سوتی کپڑا بننا جانتے تھے۔ گھروں میں غسل خانے تھے۔ شہریوں کے مکان بہت بلند اور صاف ہوتے تھے۔ ان کا مذہب مصریوں اور سومیریوں سے ملتا جلتا تھا۔
آریا تقریبا 1500 قبل از مسیح یعنی حضرت عیس علیہ السلام سے 1500 سال پہلے شمالی ہند کی راہ سے ہندوستان میں داخل ہوئے۔
سوم رس پینے والے جو ایک قسم کی شراب تھی جس کے پینے سے آنکھیں چمکدار ہو جاتی تھیں۔ آریا وسط ایشیا سے ہندوستان میں پیدل ننگے پاوں چل کر آئے۔ گورا رنگ ساتواں ناک دراز قد جو وسط ایشیا سے ہندوستان کی زرخیزی دیکھ کر وارد ہوئے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے والے اور گھوڑی کا دودھ پینے والے آریا جفا کش دلیر اور بہادر قوم تھے۔
قدیم ہند( برصغیر)کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریا اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبور کیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔
آریاؤں کی آمد کے ساتھ ساتھ یا ان سے پہلے شمالی مشرقی ہندوستان برما بنگال آسام کے درّوں سے منگولی قومیں بھی ہندوستان میں داخل ہوتی رہیں۔

آریا شمال مغربی ہندوستان کی راہ سے داخل ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں وہ صدیوں تک دراوڑوں سے لڑنے کے بعد پنجاب پر قابض ہوئے۔ پنجاب سے وہ گنگا کی وادی میں پہنچے۔ جہاں آریاؤں کی سیاست اور تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔
مگدھ میں ایک عظیم الشان آریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ مگدھ کی سلطنت کے زمانہ میں گوتم بدھ کا ظہور ہوا۔ گوتم بدھ ہمالیائی ریاست کپل وستو میں پیدا ہوئے ۔بدھ نے اپنے زمانہ کی تمام مجلسی برائیوں کے خلاف بغاوت کی۔ اس کا مذہب عوام کی زبان میں صرف عوام کے لئے تھا۔
گوتم بدھ کی تعلیمات میں سے ایک بات میٹرک 1965 کی تاریخ میں لکھی ایک بات یاد ہے۔

🌹دنیا دکھوں کا گھر ہے ۔ دکھ خواہشات سے پیدا ہوتے ہیں🌹

ایران کے بادشاہ سارا نے سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سکندر نے بھی 336 قبل از مسیح میں ہندوستان کا رخ کیا۔ پورس نے اس کا مقابلہ کیا۔ سکندر دلی چھوڑ کر یونانی فوجیں جہلم اور بیاس کے کناروں سے واپس ہوئیں۔
پاٹلی پترا فتح کرنے کی ہوس لے کر سکندر کو واپس جانا پڑا۔
یونانی تہذیب نے شمالی ہندوستان کو متاثر کیا۔ سکندر کے جانے کے بعد پنجاب سے چندر گپت موریا اُٹھا۔
اس کے وزیر چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ نظم و نسق حکومت پر غالباً پہلی کتاب ہے۔
موریا خاندان کے شہنشاہ اشوک کا عہد حکومت رفاہ عامہ کے کاموں سے بھرا پڑا ہے۔
موریا سلطنت کی تباہی کے بعد پانچ سو سال تک ہندوستان میں کوئی مرکزی حکومت دکھائی نہیں دیتی۔

اس زمانہ میں ساکا او یوچی قوموں نے ہندوستان پر دھاوا بولا۔
ساکا قوم کا سب سے مشہور بادشاہ کنشک تھا۔ اسی زمانہ میں بدھ مت اور برہمن مت میں کشمکش ہوئی۔
پُران بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔

چوتھی صدی عیسوی میں گپت سلطنت قائم ہوئی۔ اب پاٹلی پترا کی جگہ اجین کو ہندوستان کی مرکزیت حاصل ہوئی۔ یہ زمانہ برہمن مت کے انتہائی عروج کا زمانہ ہے۔
بکر ما جیت اسی خاندان کا ایک حکمران تھا۔ گپت خاندان کے عہد حکومت میں ہندوستانی علوم و فنون اور صنعت و حرفت نے خوب ترقی کی۔

ہندوستان اور روم میں تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے جاوا اور سماٹرا میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔
گپت خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان پھر بیرونی حملہ آوروں کا شکار ہوا۔
اب کے سفید ہن قوم نے شمالی ہندوستان کو تخت و تاراج کیا ٹیکسلا کو تباہ برباد کیا یہ مہاراجہ اشوک کی سلطنت تھی۔ آج بھی کھنڈرات موجود ہیں۔

جاٹ اور گوجر اسی قوم کے مشہور قبائل تھے۔ مہر گل ہن قوم کا مشہور بادشاہ تھا۔ وہ ہاتھیوں کو پہاڑوں سے گرا کر ان کے مرنے کا تماشا کرتا اور خوش ہوتا۔

ساتویں صدی میں ہرش وردھن نے ہندوستان کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نظم و نسق کو ہیون سانگ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہرش وردھن اگرچہ بدھ مت کا پیرو کار تھا لیکن اس کے عہد میں شمالی ہندوستان میں برہمن مت نے زور پکڑ لیا تھا۔

لگ بھگ 600 عیسوی ہرش وردھن کی موت کے بعد ہندوستان کی مرکزیت ختم ہو گئی۔

اسلام اس وقت عرب کے صحراؤں میں پھل پھول رہا تھا۔
712 عیسوی میں محمد بن قاسم دیبل کے راستے غالبا کراچی کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا۔

راجہ داہر کو شکست دی اور ملتان تک پہنچا۔ لیکن کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی لیکن سندھ کے لوگوں پر کافی اثر چھوڑا۔
سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کی مورتیاں بنا لیں۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔

اسکے بعد افغان اور غزنی سے محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے۔
اسکے بعد محمد غوری نے لاہور کے راجہ جے پال کو شکست دے کر نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے ایک غلام قطب الدین ایبک کو اس کا سربراہ بنایا۔

یہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو خاندان غلاماں کے نام سے مشہور ہوئی۔

التمش۔ رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین بلبن ۔مشہور بادشاہ ہوئے۔
التمش اور رضیہ سلطانہ کو خلجیوں نے فتح کیا۔ علاؤالدین خلیجی مشہور بادشاہ تھا۔ خلجیوں کو خاندان تغلق نے فتح کیا جونا خان محمد بن تغلق اور فیروز شاہ تغلق مشہور بادشاہ تھے۔

جونا خان محمد بن تغلق کے زمانے میں مشہور سیاح ابن بطوطہ ہندوستان آیا۔ اور بہت معلومات اپنے سفر نامے میں لکھیں۔

فیروز تغلق اور غیاث الدین تغلو مشہور بادشاہ ہوئے۔
محمود شاہ تغلق کمزور بادشاہ تھا۔
امیر تیمور کے حملے نے تغلق خاندان کے وقت کو خاک میں ملا دیا۔

دہلی کو تیمور لنگ نے تہس نہس کیا۔
اور دہلی میں خون کی ندیاں بہادیں۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے۔ امیر تیمور نے کوئی مستقل حکومت نہیں بنائی لوٹ مار کر کے چلا گیا۔

اور خضر خان نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی۔ سید خاندان کی کمزوری دیکھ کر بہلول لودھی نے دلی پر قبضہ کیا اور لودھی خاندان کی بنیاد ڈالی۔

سکندر لودھی اس خاندان کا مشہور بادشاہ تھا۔ سکندر لودھی نے آگرہ شہر آباد کیا اور آگرہ کو دارلحکومت بنایا۔ سکندر لودھی کے بعد ایک کمزور حکمران ابراہیم لودھی بادشاہ بنا۔ جس کو بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

بابر وسط ایشیا کی ریاست فرغانہ کے امیر عمر شیخ مرزا کا بیٹا تھا۔ والد کی وفات کے وقت بابر کی عمر بارہ سال تھی۔
بھائیوں اور چچا کی مخالفت کی وجہ سے فرغانہ کو چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ پتھریلے پہاڑوں پر ننگے پاوں چلتے ہوئے اس کے پاوں اتنے سخت ہو گئے کہ کانٹا چبھتے کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔

جنگلوں میں گھومتے ہوئے اس نے مختلف قبائل جمع کرکے بارہ ہزار فوج اکٹھی کی اور کابل پر قبضہ کیا۔
ہندوستان کی زرخیزی اور دولت دیکھ کر اس نے بارہ ہزار فوج سے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔
1526 عیسوی میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔

رانا سانگا کو شکست دی اور اپنی سلطنت کو مظبوط کیا۔ بابر اتنا جفاکش تھا کہ دو آدمیوں کو اٹھا کر قلعے کی دیوار پر دوڑ لگاتا تھا۔

بابر بڑا مردم شناس تھا۔ ایک دفعہ بابر نے تمام حکومتی امراء کو دعوت دی۔ دعوت میں شیرشاہ سوری بھی امراء میں شامل تھا۔
شیرشاہ سوری نے بابر کے سامنے پڑا گوشت کا ٹکڑا اپنا خنجر نکال کر کاٹ کر کھانے لگا۔ دعوت ختم ہونے پر بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کو تنبیہ کی کہ اس شخص شیرشاہ سوری سے بچ کر رہنا۔
پھر ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ جب شیر شاہ سوری کے جانشین کمزور ہوئے تو ایرانی بادشاہ کی مدد سے دوبارہ سوری حکمران پر حملہ کیا اور اسکو شکست دے کر بادشاہ بنا۔
لیکن پانچ سال کے بعد طبعی موت مرگیا۔

ہمایوں کے بیٹے اکبر کی عمر بارہ سال تھی۔ اس کے استاد بیرم خان نے جلال الدین اکبر کے نام سے اکبر کو تخت پر بٹھایا اور خود اس کا سرپرست بن گیا۔

اکبر نے پچاس سال حکومت کی
دین الہی کے نام سے ایک نیا دین جاری کیا۔ ہندو عورتوں سے شادی کی جہانگیر ایک ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہوا۔
اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا۔
تزک جہانگیری میں زنجیر عدل کا ذکر ملتا ہے۔
اسکے بعد شاہ جہاں بادشاہ بنا۔

شاہ جہاں کو عمارتیں بنانے کا شوق تھا اس کو انجینیر بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ تاج محل۔ شالیمار باغ اور ٹھٹھہ کی مسجد شاہ جہاں قابل ذکر ہیں۔
شاہ جہان بیمار ہوا تو اس نے بڑے بیٹے داعا شکوہ کو ولی عہد بنایا۔

اورنگزیب عالمگیر دکن میں مرہٹوں سے لڑ رہا تھا۔
اس کو پتہ چلا تو تخت نشیمی کی جنگ چھڑی۔ جس میں اورنگزیب فتح یاب ہوا۔
شاہجہاں کو قید کرکے بھائیوں کو شکست دی اور تخت پر بیٹھ گیا۔

اس نے بھی پچاس سال حکومت کی لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگزیب عالمگیر نے بنائی۔

اس کی وفات کے بعد جانشین کمزور ہوتے گئے تیمور اور مغل خون میں ملاوٹ کی وجہ سے سست ہوگئے۔

جس نی محمد شاہ رنگیلا جیسے بادشاہ پیدا کیے۔ نادر شاہ نے بھی دلی پر حملہ کیا خوب دولت لوٹی۔

مشہور کوہ نور ہیرا اور تخت طاؤس بھی ساتھ لے گیا۔

ہندوستان جس کی دولت کے سرمائے سکندر کے زمانے سے یورپ جا رہے تھے۔

واسکوڈے گاما ایک عرب ملاح کی مدد سے راس امید جنوبی افریقہ کا چکر کاٹتا ہوا ہندوستان (برصغیر) کے ساحلی مقام کالی کٹ پر پہنچا۔

ہندوستان کے لوگوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی کے پیش نظر اس نو وارد کا استقبال کیا۔
کالی کٹ کے راجہ زیمورن کو کیا خبر تھی کہ بدو کے افسانوی اُشتر کی طرح پرتگیز بھی اسے خیمہ سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں۔

پرتگیزوں نے کالی کٹ میں ایک فیکٹری قائم کی۔ تین سال بعد کالی کٹ کے سینہ پر ایک پرتگیزی قلعہ نظر آیا۔ تھوڑی مدت بعد پرتگیزی عَلم گوا کی دیواروں پر لہرایا۔
کالی کٹ کے لزبنی مہمانوں نے زیمورن کے شاہی محلات کو نذر آتش کرنے سے گریز نہ کیا۔
میزبان کی خدمت میں مہمان کا ہدیہ تشکر! پرتگیزی آخر اس ملک کے ساحل پر پہنچ گئے۔

1492 عیسوی میں کولمبس اپنے بحری جہاز میں ہندوستان ڈھونڈتا ہوا غلطی سے ہندوستان کی جگہ کسی نئے براعظم جا پہنچا اور وہ نیا براعظم امریکہ کہ شکل میں دریافت ہوگیا۔

یہ بھی صرف ہمارے اس برصفیر کی مہربانی سے دریافت ہوا خیر جو اللّه کی رضا۔

اسٹریلیا کا جزیرا بھی ایک جہاز ڈان جیمز کک نے دنیا کے گرد سمندری چکر پورا کرتے ہوئے ڈھونڈ نکالا۔

انگریز بھی تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے۔

مغل بادشاہ جہانگیر کو کچھ تحفے تحائف دیے اور ہاتھ پاؤ جوڑ کر تجارت کی اجازت مانگی۔
اجازت ملنے کے کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں قائم کی۔

اور بڑھتے بڑھتے اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغلیہ سلطنت کو کھوکھلی کرنا شروع کر دیا۔

بالآخر 1858 کی جنگ آزادی میں مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگوں بھیج دیا۔

اور وہاں ہی وہ فوت ہو گئے۔
اور انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔

الحمدلله ہمیں 14اگست 1947 کو آزادی ملی۔🇵🇰

تاریخ میں بہت سے حملہ آور آتے رہے اور کچھ نا کچھ ساتھ لاتے رہے۔ اور بہت کچھ لے کر جاتے رہے۔

آج سے تین ہزار سال پہلے جو لوگ موجود تھے اب ان کی نسلوں میں بہت ملاوٹ ہو گئی ہے۔
جو بھی آیا اپنا نشان چھوڑ گیا۔ خالص کوئی نہیں بچا۔

اسی طرح راجپوت بھی خالص نہیں رہے۔ سارے حملہ آور اپنا حصہ ڈالتے رہے۔
مغل بھی خالص نہیں رہے۔
بابر چنگیز اور تیمور کا مکسچر تھا۔ اسکے بعد اکبر اعظم نے ہندووں سے شادی کی تو جہانگیر تو مکسچر ہی تھا۔
آگے والے اسے بھی زیادہ مکسچر ہوتے رہے۔

انگریزوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
اور اینگلو انڈین کے نام سے نئی قوم وجود میں آئی۔
آج کے بر صغیر میں دیکھیں تو شمال مغرب کے لوگ گورے چٹے اور ساتواں ناک والے ہیں۔
شائد ہی کوئی پٹھان کالے رنگ کا ہو جو کراس نسل ہے۔ جوں جوں آپ جنوب کی طرف جائیں تو لوگ سانولی رنگت کے نظر آئیں گے۔
گورے چٹے بھی ہیں۔ اور جنوبی ہندوستان میں کالے اور چپٹی ناک والے زیادہ ںظر آئیں گے۔
شائد ہی کوئی گوڑا اور گندمی ہو۔
جو کراس نسل سے ہو گا۔
بنگال میں زیادہ تر لوگ کالے چپٹی ناک والے ہونگے۔
لیکن کچھ خوبصورت اور گندمی رنگت والے بھی نظر آئیں گے۔
فلمسٹار شبنم اس کی ایک مثال ہے۔

کراچی میں بھی کچھ لوگ حبشی نسل کے گھنگریالے بالوں والے ملیں گے جن کو مکرانی کہتے ہیں۔
یوں برصغیر میں تمام حملہ آوروں اور باہر سے آنے والوں نے اپنا اثر ڈالا۔

حملہ آور درہ خیبر کے ذریعے آتے رہے۔ آریا آئے۔ سکندر آیا منگول آئے۔ افغان۔ لودھی سوری۔ مغل جس راستے سے گزرتے گئے اپنا بیج بوتے گئے۔

کون خالص ہے؟۔ جو آدمی جرمنی سے شادی کرے اور بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہے ؟
اگر کوئی ناروے یا انگلینڈ سے شادی کرے۔ بچے پیدا کرے۔ کیا وہ خالص ہیں۔؟۔ نہیں مکس ہیں۔

صدیاں گزر گئیں۔
اسلام تو چودہ سو سال پہلے آیا تھا۔

لیکن 3000 سال پہلے آریا آئے اور سکندر بھی اسلام سے پہلے آیا بلکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے پہلے بھی کافی حملہ آور آئے۔
اس وقت نکاح کا کوئی concept نہیں تھا۔ سب رل مل گئے۔ گڈ مڈ ہو گیا۔

ہمارے آباؤ اجداد کوئی سعودی عرب سے نہیں آئے تھے۔
اسلام تو آیا 610 عیسوی میں۔ اور ہمارے پاس دو تین سو سال بعد آیا اسے پہلے لوگ یا بدھ ازم یا ہندو ازم مانتے تھے۔ ابھی بھی ٹیکسلا ۔سوات۔ افغانستان میں مہاتما بدھ کی مورتیاں اور کھنڈرات موجود ہیں۔ ہم ہندوں سے مسلمان ہوئے ہیں۔

مغل بادشاہ تاج محل قلعے بنواتے۔ اور دال روٹی پکتی۔
اسی روٹی پر گزارا ہوتا۔ فوج میں جو سپاہی لڑتے وہ بھی روٹی دال کی خاطر۔ تنخواہ کا کوئی concept نہیں تھا۔ اور نہ ہی اتوار کی چھٹی۔

یہ انگریز دور میں ملازمین کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی اور ہفتے میں ملازمین کو ایک اتوار کی چھٹی ہوتی۔

آپ کبھی ملاقات کریں کسی سو سالہ شخص سے جو اپنے حواس میں بھی ہو اور اس کی یاداشت بھی اچھی ہو
کہ پہلے انگریزوں کے دور میں بھی کما کر کھاتے تھے اور آزادی کے بعد بھی کما کر کھاتے ہیں۔ اور بزرگوں سے بھی یہی سنا ہے۔

ایک بزرگ جو میرے ساتھ چائے پر بیٹھے بہت ضعیف العمر نے مجھے یہ بھی بتایا میں نے اپنے بچپن میں وہ دور بھی دیکھا ہے جب قیام پاکستان کے بعد انگریز گلے میں چائے کے تھرماس لٹکائے سڑکوں پارکوں میں عوام کو مفت چائے بروک بانڈ پلایا کرتے تھے۔ میں بولا کس قدر دور اندیشی کی سازش رچی گئی اس چائے کے ساتھ بھی۔
بہرحال اس کے جواب میں نے بہت احتراما" عرض کیا
تبھی آپ کو آج تک مفت میں چائے پینے کی عادت ہے۔
Copied

28/04/2025

شاہراہ قراقرم — دنیا کا آٹھواں عجوبہ

شاہراہ قراقرم، دنیا کی بلند ترین پکی سڑک، حسن ابدال سے شروع ہو کر ہزارہ، کوہستان، گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی خنجراب پاس تک پہنچتی ہے، جہاں سے یہ چین کے شہر کاشغر سے جا ملتی ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر 1966 میں شروع ہوئی اور 1978 میں مکمل ہوئی۔ کل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے، جس میں سے 887 کلومیٹر پاکستان اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔

یہ شاہراہ محض ایک راستہ نہیں بلکہ انسانی عزم اور دوستی کی عظیم مثال ہے۔ سنگلاخ پہاڑوں کو چیر کر، شدید برف باری اور خطرناک لینڈ سلائیڈنگ کے باوجود اسے تعمیر کیا گیا۔ 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ اور 30 ملین مکعب میٹر چٹانوں کو کاٹ کر یہ شاہکار تخلیق ہوا۔ اس عظیم منصوبے میں 810 پاکستانی اور 82 چینی کارکن اپنی جانیں قربان کر گئے۔

سفر کا آغاز ہزارہ کی سرسبز وادیوں سے ہوتا ہے، جہاں دریائے سندھ تھاکوٹ سے آپ کا ہمسفر بنتا ہے۔ کوہستان کی بلند آبشاریں، چلاس کے سنگلاخ پہاڑ، نانگا پربت کی دیوہیکل چوٹی اور جگلوٹ میں دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں (ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم) کا سنگم دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے۔

گلگت سے نگر اور ہنزہ تک سفر کرتے ہوئے راکاپوشی، التر اور پسو کونز جیسی شاندار چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ عطاآباد جھیل اپنی نیلگوں وسعت سے دل موہ لیتی ہے۔ آخر میں، خنجراب پاس کی 4,693 میٹر بلندی پر پہنچ کر یہ شاہراہ اپنے عروج پر پہنچتی ہے — جہاں برفانی چیتے، مارخور اور مارموٹ جیسے نایاب جانور بستے ہیں۔

شاہراہ قراقرم صرف ایک سڑک نہیں، یہ قدرتی حسن، تاریخ، قربانی اور دوستی کا حسین امتزاج ہے — بلاشبہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔

پاکستان زندہ باد!

Interesting مچھر کی ساخت بے حد دلچسپ اور حیران کن ہے۔ جب مچھر کو الیکٹران مائیکروسکوپ کے نیچے رکھا گیا، تو معلوم ہوا کہ ...
14/04/2025

Interesting
مچھر کی ساخت بے حد دلچسپ اور حیران کن ہے۔ جب مچھر کو الیکٹران مائیکروسکوپ کے نیچے رکھا گیا، تو معلوم ہوا کہ اس کے سر پر سو آنکھیں ہیں، منہ میں 48 دانت ہیں، اور اس کے سینے پر ایک ہموار ڈھانچہ موجود ہے جس میں ایک مرکزی دل ہے اور ہر پر کے لیے بھی ایک دل موجود ہے۔ ہر دل میں ایک ایٹریئم، ایک وینٹریکل، اور دو ڈایافرام ہیں۔ مچھر کے پاس ایک ایسا آلہ ہے جو جدید ترین ہوائی جہازوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اس کے پاس ایک تھرمل ریسیور ہے جو حرارت کے ذریعے چیزوں کو دیکھتا ہے، اور اس کی حساسیت ایک ہزارویں درجہ حرارت تک ہے۔ مچھر کے پاس خون کا تجزیہ کرنے والا آلہ، بے ہوشی کرنے والا آلہ، اور خون کو مائع میں تبدیل کرنے والا آلہ بھی ہے۔ اس کے پاس چھ چاقو ہیں، جن میں سے چار مربع شکل کا زخم بناتے ہیں، اور دو زخم کو ایک خاص شکل میں سیل کرتے ہیں تاکہ خون جمع کیا جا سکے۔ اس کی ٹانگوں پر پنجے اور بھنویں بھی موجود ہیں جو اسے مختلف کاموں میں مدد دیتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ مچھر کی تخلیق کتنی پیچیدہ ہے۔

بلال بشیر

شوگر کیوں ہوتی ہے؟"لسی کی جگہ پیپسی نے لے لی دودھ کی جگہ چینی سے بھرپور جوس کا ڈبہ آ گیا جسے مایئں فیڈر میں ڈال کر بھی ش...
02/04/2025

شوگر کیوں ہوتی ہے؟
"لسی کی جگہ پیپسی نے لے لی
دودھ کی جگہ چینی سے بھرپور جوس کا ڈبہ آ گیا جسے مایئں فیڈر میں ڈال کر بھی شیر خواروں کو دینے لگی ہیں

باسی روٹی کے مکھن لگے رول یعنی گھگھو کی جگہ چکن رول آ گیا ہے

تازے ٹماٹر اور مرچ کی چٹنی کی جگہ کیمکل سے محفوظ کی گئی کیچپ اور چلی ساس آ گئی ہے

سلاد پر لیموں کی جگہ سنتھٹک سرکہ آ گیا ہے

میووں کشمش سے بھرپور پنجیریوں السی کی پنیوں تل کے لڈووں کی جگہ کیک پیسٹریوں اور میدے کے کیک رسوں نے لے لی ہے

جب سے وائی بادی یورک ایسڈ بن گیا اور اجوایئن سونڈھ ادرک کی جگہ زائلورک گولی آ گئی ہے

چکی کے آٹے کی جگہ میدہ نما تھیلی کے آٹے نے لے لی کیونکہ چکی کے آٹے کی روٹی مزیدار نہیں لگتی اور پراٹھے مزے کے نہیں بنتے

اب باجرے کی مسی روٹی کوئی لسی کے ساتھ نہیں کھاتا

اب گھروں میں سب سے اہم اور مشکل سوال یہی ہے کہ آج کیا پکایئں جسے سب ناک بھوں چڑھاے بغیر کھا لیں

اب کسان اپنا گنا فیکٹری کو بیچ کر یا گڑ بنا کر سیل کرنے کے بعد خود شہر سے چینی خریدنے آتا ہے ۔

کبھی کبھار سپیشل ڈش کے طور پر پکنے والے چاول اب روزانہ کے ناشتے کا حصہ بن چکے ہیں،

اب فروٹ سے زیادہ ڈبے کا فروٹ جوس پیا جاتا ہے ۔

اب بچوں کو لنچ میں روٹی کی بجاے ،
نوڈلز اور جام بریڈ اور سینڈوچ دینا عام ہو گیا ہے۔

اب کوئی مشقت والا کام کر کے تھکن سے چور ہونے پر گرم دودھ میں انڈے پھینٹ کر نہیں پیتا بلکہ چاے کے ساتھ بروفن کی گولی کھائی جاتی ہے۔

ماوں کے پلو سے لپٹ لپٹ کر بھوک لگنے کی دہایئاں دینے والے بچوں کو اب مایئں زبردستی کھانا کھلاتی ہیں ۔۔

پہلے دوائی کھانا مشکل لگتا تھا اب ہزار روپے والی گولی خریدنا بھی مشکل نہیں لگتا بلکہ ہزار قدم چلنا زیادہ مشکل لگتا ہے۔"۔

برازیل کے قلب میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں تہذیب اچانک رک جاتی ہے اور قدرت نے اپنی لامتناہی بادشاہی تخلیق کر لی۔ ہم ماناؤس(M...
17/03/2025

برازیل کے قلب میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں تہذیب اچانک رک جاتی ہے اور قدرت نے اپنی لامتناہی بادشاہی تخلیق کر لی۔ ہم ماناؤس(Manaus) شہر اور ایمیزون کے بہت بڑے برساتی جنگل کے درمیان تقریباً غیر حقیقی سرحد کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو آپ کو یقیناَ حیران کر دیتی ہے۔ ایک طرف ایک جدید شہر، شور سے بھرا، عمارتیں اور شہری زندگی۔ دوسری طرف ایک گھنا سبز سمندر جو افق کو نگلتا ہے اور بھولے بسرے وقت کی خاموشی کا سانس لیتا ہے۔

اوپر سے دیکھا جائے تو، دونوں جہانوں کے درمیان سرحد ایک سکیل کے ساتھ کھینچی ہوئی نظر آتی ہے:
اسفالٹ اور کنکریٹ جو کہ ایک خاص جگہ سے، ہزاروں کلومیٹر تک پھیلے ہوئے گھنے پودوں سے پہلے مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں۔
ماناؤس، جسے ایمیزون کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے، جنگل سے پہلے آخری پڑاؤ ہے۔
یہ شہر دن رات دھڑکتا ہے، لیکن صرف چند قدم کے فاصلے پر قدرت کی مطلق بادشاہی شروع ہو جاتی ہے، جہاں وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے ، ہوا میں اتنی زیادہ نمی اور ماحول میں خاموشی ، رب تعالیٰ کی قدرت کا عجیب منظر پیش کرتی ہے ۔

اتنا مضبوط کنٹراسٹ کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ماناؤس (Manaus)میں، جہاں فلک بوس عمارتیں آسمان کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، وہاں صرف چند منٹوں کے فاصلے پر، ہزاروں سالوں سے خاموش کھڑے بڑے امیزونین درخت ہر دم اپنے خالق حقیقی کی شان بیان کر رہے ہیں۔۔

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم

ٹبہ  ،  ٹویا  ۔  اک  برابرگڈیا ،  بویا  ۔  اک  برابرراتیں اکھ  تے بدل  برسےرویا ، چویا ۔ اک  برابرقسمےسُن کے نیندر اڈ گئ...
09/03/2025

ٹبہ ، ٹویا ۔ اک برابر
گڈیا ، بویا ۔ اک برابر

راتیں اکھ تے بدل برسے
رویا ، چویا ۔ اک برابر

قسمےسُن کے نیندر اڈ گئی
سُتا ، مویا ۔ اک برابر

ماڑے گھر نوں بوھا کادھا؟
کھلا ، ڈھویا ۔۔ اک برابر

سورج ٹُردا نال برابر
دن کیوں لگن سال برابر

وِتھ تے سجنا وِتھ ہوندی اے
بھاونویں ہووے وال برابر

اکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا، پیلا، لال برابر

جُلی منجی بھین نوں دے کے
ونڈ لئے ویراں مال برابر

اُتوں اُتوں پردے پاون
وچوں سب دا حال برابر

✨🥀🍂

07/02/2025

دنیا میں ر-یپ کرائم کی شرح میں بھیانک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
چنانچہ " ٹو دی پوائنٹ " ہمیں خود کو اور اپنی بہنوں، بیٹیوں اور سب خواتین کو کسی بھی ہنگامی صورتحال یا ناخوشگوار واقعہ سے نبٹنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
اس کی کچھ تکنیکیں اور کچھ وسائل آپ کے سامنے پیش خدمت ہیں۔

1- سیلف ڈیفنس تربیت :
آگ لگنے پر کنواں کھودنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
چنانچہ لڑکیوں اور خواتین کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کسی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے لے لیے ان کے پاس پراپر تربیت موجود ہو۔
ویمن سیلف ڈیفنس کے لیے مختلف ادارے باقاعدہ کلاسز کا انعقاد کرتے ہیں۔
اس کی عدم دستیابی کی صورت میں یوٹیوب ٹیوٹوریلز یا پھر سیلف ڈیفنس ویب سائٹس سے مدد لی جا سکتی ہے۔
۔۔۔
2- ہتھیار :
یاد رہے کہ کسی حملے کی صورت میں 5 لاکھ کا آئی-فون آپ کی کوئی مدد نہ کر پائے گا لیکن 50 ہزار کا پسٹل آپ کو بچا سکتا ہے۔
بشرطیکہ آپ کے پاس اسے چلانے کی تربیت، اس کا لائسنس موجود ہو، نشانہ پکا ہو اور آپ تربیت کے زریعے اپنے ریفلکسز کو اتنا شارپ کر لیں کہ کسی ہنگامی صورتحال میں چند سیکنڈ کے اندر اندر پسٹل کو نکال کر ریڈی اور پھر فائر کر سکیں۔
ایسی صورت حال میں جھجھک انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔۔۔ Shoot to K*ll کا اصول اپنانا چاہیے۔
۔۔۔۔
3- ٹیزر :
لیکن ہر کوئی شخص نہ تو پسٹل خرید اور رکھ سکتا ہے اور نہ اس کی تربیت لے سکتا ہے۔ چنانچہ دوسرا حل ہے ٹیزر۔ یعنی بجلی کا زوردار جھٹکا مارنے والی ڈیوائس جو کئی سائز اور کئی شکل میں دستیاب ہوتی ہے۔
ہمیشہ ہائی وولٹیج کے ٹیزر کا انتخاب کرنا چاہیے۔ لیکن سائز اتنا ہو کہ باآسانی بیگ یا پرس میں سما جائے۔
تاہم ٹیزر کے استعمال کی پیشگی ہی پریکٹس کر لینی چاہیے تاکہ ہنگامی حالت میں غلطی سے خود کو ہی نہ شاک لگنے کا باعث بن جائے۔
یاد رہے ٹیزر کا جھٹکا مخالف شخص کو کچھ وقت کے لیے بیہوش، مفلوج یا غیر متحرک کر سکتا ہے۔
اتنی دیر میں یا تو جان بچا کر بھاگنے کا وقت مل جائے گا ۔
جب بھی تنہا ہوں یا ٹیکسی وغیرہ میں اکیلے سفر کررہی ہوں تو ٹیزر ہمہ وقت آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔
ایک ہلکی نوعیت کا ٹیزر انگوٹھی کی شکل کا بھی ہوتا ہے جسے انگلی میں پہنا جاسکتا ہے۔ اور مٹھی بند کرنے سے وہ آن ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔
4- پروجیکٹائل گن:
ٹیزر کا ایک ایشو یہ ہے کہ اس کا استعمال تبھی ممکن ہے کہ جب مخالف بالکل قریب ہو اور ہم اسے ٹیزر کے ساتھ چھو سکیں۔
اس کا حل پروجیکٹائل گن ہے۔
یہ گن چند میٹر کے فاصلے پر مخالف پر چارج شدہ پروجیکٹائلز فائر کر سکتی ہے۔
جس سے اسے اتنا ہی زور کا جھٹکا لگے گا کہ جتنا ٹیزر سے۔
۔۔۔۔
5- پرسنل الارم :
یہ ڈیوائس ایک کی-چین کی شکل کی ہے اور اس کا بٹن دبانے پر بہت اونچی آواز میں مسلسل ایک الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے۔
جس سے آس پاس کے لوگوں کو ہنگامی صورتحال کا سگنل پہنچ سکتا ہے تاکہ وہ مدد کے لیے آ سکیں۔
۔۔۔۔
6- بٹان :
یہ ایک چند انچ کی آہنی چھڑی ہے جسے جھٹکا دینے پر یہ کھل کر بڑی ہو جاتی ہے۔ سر پر لگائی گئی اس کی ایک ضرب مخالف کو زخمی یا بیہوش کر سکتی ہے۔
یہ باآسانی بیگ یا پرس میں سما جاتی ہے۔
بٹان کی ایک دوسری قسم تلوار نما بھی ہوتی ہے جسے بڑا کرنے پر اس کا دوسرا سرا انتہائی تیز دھار ہوتا ہے جسے مخالف کے وجود میں اتار کر اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
بٹان کو انسان کے علاوہ کتے یا سانپ کے حملے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔
7- پیپر سپرے :
یہ ایک کیمیکل سپرے بوتل ہے۔ جسے ہنگامی صورتحال میں مخالف پر سپرے کر کے اس کو شدید جلن اور تکلیف میں مبتلا کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ مواد اس کی آنکھوں میں پڑ جائے تو شدید تکلیف کے ساتھ کچھ وقت کے لیے دیکھنے سے قاصر ہو سکتا ہے ۔
یہ سپرے انسان کے علاوہ ریچھ اور دیگر کچھ جنگلی جانوروں کے حملے کی صورت میں بھی موثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔
8- براس نیکل :
یہ ایک آہنی پنجہ ہے جسے ہاتھ میں پہنا جاسکتا ہے اور اس کے دندانے تیز دھار ہوتے ہیں ۔ اس کی مدد سے ایک نپا تلا وار دشمن کو زخمی کر سکتا ہے تاہم اس کے استعمال کے لیے انسان کی پریکٹس اچھی ہونی چاہیے۔ اور مخالف کو زخمی کرنے کے لیے اچھی خاصی زوردار ضرب کی ضرورت ہوگی۔
یہ دندانے دار ہتھیار انگوٹھی کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔
۔۔۔
9- ٹیکٹیکل پین :
یہ ایک مضبوط آہنی پین ہے۔ جسے عام پین کی طرح لکھائی کی جاسکتی ہے تاہم یہ کافی سخت ہوتا ہے اور اس کے عقبی حصے کو خاص طور ہر ایسا ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ اس کے وار سے مخالف کو شدید زخمی کیا جاسکے۔ اسے کبھی بھی کہیں بھی رکھا اور باآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔
10- چھپے ہوئے چاقو :
مخفی چاقو ان گنت مختلف ڈیزائنز میں دستیاب ہیں۔ شکل میں عام چیزوں کی مانند جیسے پین، لپ اسٹک یا کنگھی لیکن کھولنے پر ان کے اندر موجود مخفی چاقو نمایاں ہو جاتا ہے جس کی مدد سے مخالف پر وار کر کے اسے زخمی کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔
11- حفاظتی موبائل ایپس :
بہت سی ایسی سیٹفی ایپس موجود ہیں جو خواتین کو بہت سے سیفٹی فیچرز فراہم کرتی ہیں۔
مثلاً۔ ہنگامی حالت میں ایک بٹن دبانے پر تمام نزدیکی پولیس اسٹیشنز اور ایمرجنسی سینٹرز کو مدد کی استدعا چلے جانا۔
ہمہ وقت فیملی اور دوستوں کو لوکیشن شیئر ہوتے رہنا۔
بیک وقت کئی لوگوں کو ایمرجنسی کے میسجز چلے جانا۔
جود بخود ویڈیو ریکارڈنگ اور بہت کچھ۔
ان ایپس میں
1. bSafe (iOS, Android)
2. Life360 (iOS, Android)
3. Revolar (iOS, Android)
4. Watch Over Me (iOS, Android)
5. Guardly (iOS, Android)
6. SHERO (iOS, Android)
7. Women Safety (iOS, Android)
8. Hollaback! (iOS, Android)
9. SafetyPIN (iOS, Android)
10. Noonlight (iOS, Android)
اور دیگر شامل ہیں۔
۔۔۔۔
خدا ایسی آفات سے آپ سب کی حفاظت فرمائے۔

Address

Satellite Town
Sargodha
40100

Telephone

+923216034128

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Moral Words and Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Moral Words and Stories:

Share