Bazm e Saibaan

Bazm e Saibaan Voice of Heart �

حسین یادیں..رمضان المبارک کی یہ رات اور میں اکیلا بیٹھا گاؤں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں کا ہر پتھر، ہر درخت،...
19/03/2025

حسین یادیں..

رمضان المبارک کی یہ رات اور میں اکیلا بیٹھا گاؤں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں کا ہر پتھر، ہر درخت، ہر گلی، ہر موڑ میری آنکھوں کے سامنے کسی کہانی کی طرح چل رہا ہے... یہ وہی گاؤں ہے جہاں کی چوپڑی ہوئی روٹی، خالص دودھ، اور مکھن سے لبریز نوالے کبھی زبان پر ایسے ذائقے چھوڑ جاتے تھے جو شہر کی رنگینیوں میں بھی کبھی نہیں ملتے۔ تب ہر ایک لقمہ، ہر ایک گھونٹ میں سکون کا ایک دریا بہتا تھا، ایک سادگی، ایک خلوص تھا جو ہر ذائقے میں گھلا ہوا تھا۔ وہ کزنز کے ساتھ بے فکری کی گپ شپ، وہ بے مطلب کی نوک جھونک، وہ شامیں جب ہم سب مل کر اکٹھے بیٹھتے اور رات گئے تک ہنسی کا شور گونجتا تھا۔ آج دل چاہتا ہے کہ وقت کا پہیہ وہیں رک جائے، وہیں جم جائے جہاں ہم سب کے چہرے مسکراہٹوں سے دمکتے تھے۔ مگر یہ وقت! یہ بے رحم وقت... کبھی تھم کر بھی کیوں نہیں دیکھتا؟ اب جب اس گاؤں میں آیا ہوں، تو سب کچھ ویسا ہی ہے، مگر پھر بھی کچھ تو بدل گیا ہے۔ وہ محبت جو ہر چہرے سے چھلکتی تھی، وہ جو ہر ملنے والے کے ماتھے پر خلوص کی طرح لکھی ہوتی تھی، اب کہیں گم سی لگتی ہے... کچھ چہرے اس دنیا کی بھیڑ میں کھو گئے، کچھ اپنوں کی چاہتوں سے بیگانہ ہوگئے.. دل چاہتا ہے کہ وہ سب لمحے، وہ سب لوگ واپس مل جائیں، لیکن یادیں ہیں کہ بے قابو سمندر کی طرح بار بار دل کے ساحل سے ٹکرا کر لوٹ جاتی ہیں... کبھی کبھی یہ یادیں کسی شہہ میں ڈوبی پن سی چبھتی ہیں، کبھی زہر میں بجھی تلوار بن کر دل کو کاٹتی ہیں۔ وقت کا یہ کرب کیوں اتنا بے حس ہے؟ کیوں یہ پلٹ کر نہیں دیکھتا؟ کیوں ہمیں ان یادوں کے خمار میں ہی تڑپاتا رہتا ہے؟ شاید یہی زندگی کی حقیقت ہے کچھ لمحے جو گزر کر بھی نہیں گزرتے، کچھ یادیں جو بچھڑ کر بھی نہیں بچھڑتیں....

میں ہوں، دل ہے، تنہائی ہے...
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا......

بےنیاز لوگ..جن کے پاس متبادل موجود ہوں، انہیں نہ کسی کے روٹھنے کی پرواہ ہوتی ہے، نہ کسی کے ٹوٹنے کا درد، اور نہ ہی کسی ک...
17/03/2025

بےنیاز لوگ..

جن کے پاس متبادل موجود ہوں، انہیں نہ کسی کے روٹھنے کی پرواہ ہوتی ہے، نہ کسی کے ٹوٹنے کا درد، اور نہ ہی کسی کے بچھڑ جانے کا غم۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، جیسے درخت سے گرتے پتے کو ہوا کی پرواہ نہ ہو، جیسے جلتے چراغ کی لو کو اندھیرے کی کوئی فکر نہ ہو۔
آپ چاہے کتنی ہی شدت سے چاہیں، کتنی ہی خلوص سے نبھائیں، مگر ان کے پاس ہمیشہ کوئی اور ہوتا ہے.. کوئی اور جو آپ کی جگہ لے سکتا ہے، جو آپ کی غیر موجودگی کو بھر سکتا ہے۔ وہ آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے بےنیاز ہوتے ہیں، جیسے کسی دریا کو ایک قطرے کی کمی کا غم نہ ہو، جیسے صحرا کو ایک ذرہ خاک کی پرواہ نہ ہو....
آپ تڑپتے ہیں، سسکتے ہیں، یہ سوچ کر کہ آپ کی کمی انہیں محسوس ہوگی، مگر انہیں تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلا کیسے پُر کرنے ہیں۔ وہ پہلے ہی اگلی شطرنج کی چال سوچ کر بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے آپ کوئی مہرہ ہوں جسے کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے۔
اور آپ؟ آپ اپنی ہر سانس میں ان کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں، اپنی ہر دعا میں ان کا نام دہراتے ہیں، اپنی ہر خوشی میں ان کا سایہ تلاش کرتے ہیں..
بدلے میں مگر وہ؟ وہ آپ کو ایک بےنام کہانی کی طرح چھوڑ دیتے ہیں، جیسے پرانے اخبار کو کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے، جیسے بجھتے دیے کی آخری لو سے کسی کو سروکار نہیں ہوتا۔ آپ اپنی تکلیف میں تڑپتے رہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ شاید انہیں کبھی احساس ہو، شاید وہ پلٹ کر دیکھیں، شاید انہیں احساس ہو کہ آپ نے کس حد تک انہیں چاہا تھا۔ مگر وہ کبھی پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ کیونکہ انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ انہیں آپ کی جگہ لینے کے لیے کوئی اور مل چکا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس ہمیشہ متبادل ہوتا ہے....

اور آپ؟ آپ ٹوٹ کر بھی کسی کی جگہ نہیں لے پاتے، کیونکہ محبت کرنے والے متبادل نہیں رکھتے۔ وہ ایک بار کسی کو دل میں بسا لیں تو پھر وہ جگہ ہمیشہ ویسی ہی خالی رہتی ہے، جیسے خزاں میں بچھڑے ہوئے پتوں کی جگہ کبھی نہیں بھرتی، جیسے بادلوں کے بچھڑنے سے آسمان میں پیدا ہونے والا خلا کبھی پورا نہیں ہوتا۔ بس یہی فرق ہوتا ہے بےنیاز لوگوں اور چاہنے والوں میں۔ چاہنے والے ٹوٹ جاتے ہیں، مگر بدل نہیں پاتے۔ اور بےنیاز لوگ بدل جاتے ہیں، مگر ٹوٹتے نہیں...

17/3/2025 Monday
16 Ramazan Mubarak 1446 Hijri
5:20am

#اردوادب #بزمسائبان #پوسٹ

15/03/2025

📚 سلسلہ: آؤ مطالعہ کریں 📚
👈 پیشکش بزمِ سائبان 🍀

✅ ناول: اے شب تاریک گزر
✍️ صدف ریحان گیلانی
👈 ( قسط نمبر: 1️⃣ )

کھڑکیاں دروازے بند کرلینے سے اگر زندگی کے ہارے ہوئے لمحوں کا آسیب اپنی ہیبت ناکی سمیت کہیں فنا ہوجاتا تو پھر بھلا دنیا میں دکھ ہی کیا رہ جاتا مگر مصیبت تو یہی ہے کہ چاہے خود کو کسی اونچی فصیلوں والے قلعے میں بھی محصور کرلو۔ یہ آسیب وہاں پر بھی پھڑپھڑاتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔
بہتیرا جھٹکو، نظریں چراؤ، منہ پھیرلو۔
لیکن یہ کم بخت کچھ یوں اپنے خونی پنجوں میں دبو چتا ہے کہ پور پور نیلی پڑجاتی ہے۔ ساری آہیں،کراہیں پن کر سینے میں سر پٹخنے لگتی ہیں۔ مارے نالے حلق میں گھٹ گھٹ جاتے ہیں۔ روح صحراؤں کے سفر پر نکل پڑتی ہے۔
کہنے کوتو وہ دو گھنٹوں سے کمرہ بند ہوئے سورہی تھی لیکن کیا وہ واقعی سورہی تھی؟
آہ… نیند !! جس کی وہ کبھی بے حد رسیا تھی۔ خوب سوتی مزے سے جی بھر کر بے فکری کے جھولوں میں نہ صرف اپنے بستر پر بلکہ وہ تو کہیں بھی پڑ کر سوجاتی ہیں۔ نیند تو آنکھ بندکرنے کی محتاج ہوتی یوں آکر پلکوں پر بسیرا کرتی کہ پھر کوئی سر پر آکر ڈھول پیٹتا رہے اس کی بلا سے۔ ہک ہاہ۔ کیادن تھے وہ بھی جب زندگی پورے رنگوں کے ساتھ اس کے اندر جیتی لیتی تھی اور … اب تو جیسے دمے کے جھٹکے لگتے تھے سانس بھی کھینچ کھینچ کر لینا پڑتا تھا۔
آخر ہمارے ہاتھ کی لکیریں ویسی ہی کیوں نہیں رہتیں جیسی ہم چاہتے ہیں۔ صاف ستھری سیدھی سڑک کے جیسی جس پر خوابوں کی رتھ دوڑتی چلی جائے۔ بغیر رکے، بنا جھٹکا کھائے، کوئی اسپیڈ بریکر نہ روکے، کوئی اشارہ نہ ٹوکے، ہر راستہ ہوا کے پروں کے ساتھ ساتھ طے ہوتا چلا جائے۔ مگر… اوف یہ سب خواب، خیال، تصورانہی ہاتھوں کی الجھی، گنجلک لکیروں میں گم ہوگیا تھاجی تو چاہتا تھا اپنی ہی ہتھیلیوں کو کھرچ ڈالے، لیکن کیاہوتا پھر؟…
آخر چاہا ہی تھا کیا اس تقدیر سے؟
صرف ایک خواب؟
فقط اک آرزو؟
اک تمنا…
اک خواہش…جو یو ں لاحاصل قرار دی گئی کہ بدلے میں آنکھیں ہی بے خواب کردی گئیں۔ ابھی تو تتلیوں، پھولوں کے رنگ آنچل میں سمیٹنا چاہے تھے کہ جانے کہاں سے کانٹے اگ آئے۔

سامنے قیمتی مشروب سے بھرا پیالہ رکھا ہو اور پیاس لگی ہوپانی کی۔ تو پھر وہ پیالہ نظروں میں جچتا نہیں۔ جی ہی نہیں کرتا اسے ہونٹوں تک لے جانے کو… پانی … پانی… روم روم سے آواز آتی ہے۔
بڑھتی تشنگی جان کو جھلسانے لگتی ہے روح تڑک کر نڈھال پڑجاتی ہے۔ وہ بھی خار خار ہوگئی تھی۔ زخم تازہ تھے سوداد بھی اسی قدر تھا اور پھر اپنے ایسے زخم پرانے ہو بھی جائیں تو ان پر کھرنڈ آتا ہی کہاں ہے وہ تو ہمیشہ اسی طرح رہتے ہیں۔ پانی پر جمی کاٹی کی طرح۔ ذرا سا چھولو تو پر درد وہی اذیت رسانی۔ جو رگ رگ کو کاٹتی چلی جائے۔ کنپٹیوں سے ہوکر بہتا مائع آج پھر تکیہ بھگورہا تھا۔ اندھیرے کمرے میں یک لخت روشنی کی کرن سی پھوٹنے لگی سائڈ ٹیبل پر رکھا سیل فون تھر تھرارہا تھا۔
دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں رگڑتے ذرا سا سراٹھا کر چمکتی اسکرین پر نظر ڈالی ”عروج کالنگ” اوہنوں۔ اس نے کوفت سے سرپھر تکیے پر ڈالا۔ وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس وقت پھر عروج؟ حلق تک میں کرواہٹ گل گئی تھی۔
بندکمرے میں دم گھٹنے لگا تھا اس نے بڑھ کر کھڑکیاں کھول دیں۔
اک اور شام غم ڈھل رہی تھی اک اور شب تاریک کو صدا دے کر افق کی لالی اور اس کی آنکھوں کی سرخی میں کوئی خاص فرقا نہ دکھتا تھا۔ عارض نرگس سے ہورہے تھے۔ طبیعت پر عجب کسل مندی سی چھائی تھی۔ جو کھلے پٹ سے اندر آتی تازہ ہوا سے بھی دور نہ ہوئی اور شاید دور ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ جب خزاں اندر بہت دور تک اپنا خیمہ گاڑلے تو پھر باہر کے سب موسم بے اثر ہوجاتے ہیں۔
کتنی دیر وہ چوکھٹ پر ہتھیلیاں ٹکائے سورج کو گگن کے پار اترتے دیکھتی رہی۔ فون وقفے وقفے سے تھرتھراتا رہا اس کی صرف اک نظر عنایت کو جو وہ ہر گز بخشنے پر تیار نہ تھی۔ واش روم جاکر جلتی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے کتنے ہی چھینٹے مارے لیکن لگتا تھا کہیں چنگاری سی اب بھی دبی ہے۔ دوپٹے کے پلوسے چہرہ تھپتھپاتی لاؤنج میں چلی آئی۔
خیر نال اٹھ گئی دھی رانی ۔ میں تمہارے ہی پاس آرہی تھی۔ چائے لے آؤں پتر۔ اسے دیکھتے ہی صفیہ بوا کچن سے نکلیں۔
ہاں بوا چائے لے آئیں اور ہاں میرے سر میں بہت درد ہے۔ ساتھ کوئی پین کلر بھی لادیں پلیز۔
اور وہ نہ بھی بتاتی تب بھی انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ بے رونق ستا ہوا چہرہ، سوجی آنکھیں، جو صاف چغلی کھا رہی تھیں۔ بے اختیار ان کا ہاتھ اس کے ماتھے پر ٹکا۔
سر میں درد کیوں ہے پتر۔ خیرتے ہے ناں اور یہ روز روز سر میں درد کیوں ہونے لگاہے پتر۔ پھر تمہارا بنا مشورے گولیاں پھنکنا اور تو ٹھیک نہیں ہے بچے۔ دیکھو تو یہ رنگ کیساپیلا پھٹک ہورہا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھاؤ۔
ڈاکٹر… اف سینیسے اک ہوک سی اٹھی۔ جوروگ جو نک بن کر اس کی روح کو چمٹ گئے تھے ان کا علاج اب کسی ڈاکٹر کے پاس تھا کیا؟ اگر کہو تو سر میں تیل ڈال دوں لگتا ہے کئی دن سے کنگھا ہی نہیں کیا۔
دیکھو تو کیا حشر ہورہا ہے۔ ان کی انگلیاں اس کے الجھے بالوں میں پھنس گئی تھیں۔ اچھا آپ تیل بھی لگادیجئے گا کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی تو جائیں چائے اور پین کلر لے آئیں پلیز… زرتاشہ نے صوفے کی بیک سے سرٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ بوا کچن کی جانب مڑگئیں۔
ارے بھئی تم خود ادھرہو۔ فون کہاں ہے تمہارا۔ عروج کب سے کال کررہی ہے تمہیں حد ہوتی ہے لاپروائی کی۔ یہ لو عروج ڈارلنگ بات کرلو اس سے۔
نفیسہ اچانک جانے کدھر سے نکلیں تھیں اور قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھتی یا منع کرپاتی انہوں نے اپنا قیمتی سیل فون اس کے کان سے چپکا دیا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق اب کیا ہوسکتا تھا علاوہ بات کرنے کے۔
خواہ مخواہ کی خوش اخلاقی بگھارنا اس کے نزدیک ہمیشہ سے منافقت کے زمرے میں آتا تھا اور غضب یہ کہ اب اسی منافقت کے سہارے سفر زیست طے کرنا ہوگا۔کبھی بہت زعم سے ہم کئی باتوں پر کاندھے اچکاکر ”آئی ڈونٹ کیئر” کہہ دیتے ہیں اور پھر یوں ہوتا ہے کہوہی باتیں کسی وقت پلٹ کر منہ چڑانے لگتی ہیں تب ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے سوائے خود سے ہی نظریں چرانے کے۔ عروج سدا کی باتونی، ہنوز،کتنی خوش باش رہتی ہے ناں وہ اور اسے تو ہنستے لوگوں سے جیسے چڑ سی ہونے لگی تھی دو چار باتوں پر ہوں ہاں کرکے اس نے فون واپس ماں کی جانب بڑھایا جو بغور اس کے انداز دیکھ رہی تھیں۔ ان کی لاڈلی سے اس نے ٹھیک سے بات نہیں کی تھی سو اس جرم کی پاداش میں کلاس بھی لگ سکتی تھی اور فی الوقت کسی بھی طرح کی نصیحت سننے کا موڈ نہ تھا فوری کھسکنے کا سوچا مگر بھلا ہو بوا کا جو چائے لے آئیں تھیں مطلوبہ لوازم سمیت…
یہ کیا ہے ؟ نفیسہ کی نظر ٹرے میں رکھی دوا پر تھی۔
بیٹی کے سر میں درد ہے۔ میں نے تو کہا اسے مت کھایا کرو الٹی پلٹی دوائیں۔ کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھالو۔ دیکھو تو حالت کیا ہوگئی ہے اس کی۔ بوا فکر مند ہورہی تھیں۔ انہوں نے بھی اس کا چہرہ جانچا۔
ہاں تو درد تو ہوگا ناں جب سارا سارا دن کمرے میں بند رہوگی۔ پتہ نہیں کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔ سب مینرز بھولنے لگی ہو کتنا کہا اسے اپنا خیال رکھا کرو۔ فریش رہا کرو۔ آخر ٹینشن کیا ہے۔ تمہیں تو اب کسی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں۔ کیا سوچتی ہوگی عروج ارے اسے کس لئے اگنور کررہی ہو۔ کیوں بات نہیں کرنا چاہتی اس سے پتہ ہے ناں کون ہے وہ۔ اس سے ایک نہیں دو دو رشتے ہیں تمہارے اور دونوں ہی توجہ اور عزت کے متقاضی ۔ کیا سوچتی ہوگی وہ بچی۔ تم لوگوں نے ہر مقام پر مجھے بس تنگ کرنے کی قسم کھائی ہے اور ایک وہ جلاد ہے کم بخت ۔ اس کا علیحدہ نخرہ ہے۔ وہ بھی بات نہیں کرتا اس سے فون تک نہیں اٹھاتااس کا اور اس کی وجہ سے کتنی اپ سیٹ رہتی ہے بے چاری۔ اب اگر تم بھی یوں ایٹی ٹیوڈ دکھاؤ گی تو سمجھ لو کہ یہ تمہارے ہی حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ ارے تمہیں تو چاہیے کہ تم اس کے ساتھ نہیں بولو دوستی بڑھاؤ اسے ابھی سے اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش کروگی تو کل کو…
پلیز مام لیو اٹ۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ جی نہیں چاہا بات کرنے کو پھر کبھی کرلونگی ابھی چھوڑ دیں یہ قصہ حلق میں اترا گھونٹ کونین گھلا ہوگیا تھا کپ ٹیبل پر پٹخ دیا۔
ہاں تو کیوں ٹھیک نہیں ہے طبیعت ؟ کیا ہوگیا ہے؟
”ہر وقت منہ پھلائے پھرتی رہتی ہو۔ جب گونگے کا گڑ کھائے رہوگی تو یہی ہوگا۔ شکل دیکھی ہے آئینے میں اپنی۔ برسوں کی بیمار لگ رہی ہو حلیہ دیکھو ذرا اپنا کتنے روز ہوگئے ڈریس چینج نہیں کیا تم نے؟ کتنی بار میں نے کہا پارلر سے ہو آؤ۔ حالت سدھار لو اپنی مگر تم نے تو جیسے کوئی بھی بات نہ ماننے کا تہیہ کررکھا ہے۔” اور اس نے بے اختیار سراٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔
اب بھی یہ الزام؟؟ ان کے کہنے پر اس نے چپ چاپ اپنی پوری زندگی داؤ پر لگادی پھر بھی وہ خوش نہیں تھیں۔ اک کندچھری تھی جو عین شہ رگ کے اوپر رکھی گئی تھی۔ کرب کے مارے پلکیں بیچ لیں۔
ستا ڈالا ہے تم دونوں نے تو مجھے۔ ایک وہ ہے جسے رتی بھر میرا احساس نہیں اتنا لاڈ پیار کیا اس دل کے لئے دیا تھاکہ میرے ہی مقابلے پر اتر آوؑ۔ میرے ہی فیصلوں کو رد کرنے کی جرات کرو۔ حد ہوگئی اور تمہیں تو میرا کہا اپنا بھی خیال نہیں ہے۔ ایسا کیا ہوگیا ہے آخر اس چپ کی وجہ جان سکتی ہوں میں کیا ثابت کرنا چاہتی ہو اس رویے سے۔ میں نے کوئی ظلم کردیا ہے تمہارے اوپر؟
کیا بات ہے؟ کیوں ڈانٹ رہی ہو میری گڑیا کو؟ وہ عادتاً نان اسٹاپ شروع ہوچکی تھیں کسی کی پراہ کئے بغیر۔ غیاث ہمدانی ابھی آفس سے لوٹے تھے سیدھا وہی چلے آئے۔
ارے میری ایسی قسمت کہاں کہ میں انہیں ڈانٹ سکوں۔ یہ تو آپ کی شہہ ہے جو انہوں نے میری زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں مسز علیم کی بیٹی کی مہندی ہے آج اور میں نے چار روز پہلے سے بتارکھا ہے۔ لیکن ذرا صورت دیکھیں اس کی یہ ہے کہیں لے جانے کے لائق۔ میں نے شرمندہ ہونا ہے وہاں۔ اس کا پورا سسرال انوائیٹڈ ہوگا وہ سب کیا دیکھیں گے۔ دنیا تو پل میں رائی کا پہاڑ کھڑا کرتی ہے۔ اسے تو کسی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں رہا۔ اس کی بدمزاجی کی کیا کیا وضاحتیں دونگی میں لوگوں کو۔ آج عروج کا فون آیا تھا۔ اب وہ پوری تفصیل بیان کررہی تھیں اور غیاث ہمدانی کی نظر بیٹی کے جھکے چہرے اور لرزتی پلکوں پر تھی۔
اچھا سب باتیں چھوڑ و تم جاؤ میرے لئے اچھی سی چائے بنواؤ اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی بہت بھوک لگی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور اسے بازو کے گھیرے میں لے لیا گویا اپنی شفقت بھری پناہ میں اور یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا۔ جب کہیں نفیسہ بیگم اپنی جلالی طبیعت کی دھوپ سے بچوں کو گرمانا شروع کرتیں وہیں وہ ان کے لئے گھنی چھایا بن جاتے۔ ماں کی عتاب بھری سختیوں سے وہی تو بچاتے آئے تھے انہیںَ بلا کے نرم مزاج غیاث ہمدانی جب کسی اور کے ساتھ تلخی نہیں برت سکتے تھے تو پھر اپنی اولاد کے معاملے میں تو وہ بالکل ہی موم کا دل رکھتے تھے خصوصاً اس سے تو انہیں بے پناہ محبت تھی اکثر گھرانوں میں باپ کی سخت گیری کے آگے ماں بچوں کے لئے ڈھال بن جاتی ہے جبکہ یہاں معاملہ یکسر الٹ تھا بچپن سے ہی وہ ماں سے زیادہ ان کے قریب رہی تھی۔ ماں کا شعلہ مزاج اسے ہمیشہ ان سے دور اور خائف رکھتا تھا۔
اور اب تو وہ ان سے بالکل ہی خفا ہوگئی تھی مگر اظہار کی جرات نہ تھی۔
اب بھی وہی ہمیشہ کی طرح جی چاہ رہا تھا باپ کے سینے میں منہ چھپا کر ایک بار تو خوب سارا رولے تاکہ اندر جمع ہوتی کثافت کچھ تو بہہ جائے گوکہ اسے یہ بھی علم تھا۔ جو پھول نوچ کر تپتی ریت پر پھینک دیئے جائیں وہ پھر سے خوشبو نہیں دیتے۔
ہاں بیٹا اب بتاؤ کیا بات ہے؟ کیوں تنگ کررہی ہو اپنی ماں کو؟ طریقے سے نفیسہ بیگم کو وہاں سے ہٹانے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
میں کیوں تنگ کرونگی ماما کو وہ تو میں یونہی… تیزی سے پلکیں جھپکا جھپکا کر آنسو اندر اتارتی وہ انہیں بالکل وہی چھوٹی سی گڑیا لگی جب وہ ماں کے غصے سے بچنے کو ان کے دامن میں پناہڈھونڈا کرتی تھی وہ سہمی، گھبرائی ہوئی ذرتاشہ اب اتنی بڑی ہوگئی تھی کہ اسے اپنے آپ کو سنبھالنا بھی آگیا تھا۔
اور اچھا اس کا مطلب آپ نہیں آپ کی مام آپ کو تنگ کررہی ہیں۔ ناٹ گڈ۔ انہوں نے جیسے کچھ سمجھتے سرہلایا۔

جاری ہے

#ناول #اردوناول

یہ آخری لوگ...وقت ایک بہتے دریا کی طرح ہے، جو ہر لمحہ کچھ نہ کچھ بہا لے جاتا ہے۔ اب وہ وقت آ پہنچا ہے جب پچھلی صدی کے آخ...
15/03/2025

یہ آخری لوگ...

وقت ایک بہتے دریا کی طرح ہے، جو ہر لمحہ کچھ نہ کچھ بہا لے جاتا ہے۔ اب وہ وقت آ پہنچا ہے جب پچھلی صدی کے آخری لوگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں، اور نئی صدی کی پہلی پیڑھی اپنے قدم جما چکی ہے۔ وہ لوگ، جو ایک دور کی آخری نشانی ہیں، اب دھیرے دھیرے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں، جیسے شام ڈھلنے کے بعد آسمان سے پرندے لوٹ جائیں، جیسے خزاں کے آخری پتّے درختوں سے بچھڑ کر زمین کی آغوش میں جا سوئیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں وہ زمانہ یاد دلاتے ہیں جب رشتے محض ناموں کے محتاج نہیں تھے، بلکہ دلوں میں بستے تھے۔ جب خط لکھے جاتے تھے، اور ان کے جواب کا انتظار کسی عید سے کم نہ ہوتا تھا۔ جب بات کرنے کے لیے آواز نہیں، بلکہ آنکھیں کافی ہوتی تھیں۔ جب چھتوں پر بیٹھ کر چاندنی راتیں گزاری جاتی تھیں اور دل کی باتیں دبے لفظوں میں کہی اور سنی جاتی تھیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بلیک اینڈ وائٹ آنکھوں سے رنگین دنیا کو آتے دیکھا۔ جنہوں نے سادہ کپڑوں میں عزت دیکھی، کم وسائل میں برکت دیکھی، اور محدود زندگی میں بےحد خوشیاں تلاش کیں۔ جن کے ہاتھ میں ہانڈی چمچ نہیں، مگر زندگی کے ذائقے تھے۔ جو جانتے تھے کہ خالص اور ملاوٹ شدہ چیزوں کا فرق صرف دودھ اور شہد میں نہیں، بلکہ رشتوں، جذبات، اور وعدوں میں بھی ہوتا ہے۔

یہ آخری نسل ہے جو جانتی تھی کہ خوشی کیسے بانٹی جاتی ہے اور غم میں کیسے شریک ہوا جاتا ہے۔ جب کسی محلے میں موت ہوتی تھی، تو پورا محلہ سوگوار ہوتا تھا۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا، تو گلیاں مسکراہٹوں سے بھر جاتی تھیں۔ جہاں کسی کا دُکھ صرف اس کا نہیں، بلکہ پورے علاقے کا دُکھ ہوا کرتا تھا۔

ہم لاکھ جدیدیت کے قصیدے پڑھیں، مگر سچ یہ ہے کہ یہی وہ آخری نسل ہے جس نے دو زمانوں کا فاصلہ ماپا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے ہاتھ میں رکھ کر ہمیں دکھا سکتے ہیں کہ دنیا کیسی تھی، اور پھر ہمیں آئینہ دکھا کر بتا سکتے ہیں کہ ہم نے اس دنیا کے ساتھ کیا کیا۔ یہ وہ آخری لوگ ہیں جو ہمیں بتا سکتے ہیں کہ محبت کیسے بے غرض ہوتی ہے، عزت کیسے کمائی جاتی ہے، اور سکون کیسے میسر آتا ہے۔

ہمیں شاید اندازہ بھی نہیں کہ ہم کتنی قیمتی متاع کھونے جا رہے ہیں۔ یہ نسل کسی قدیم درخت کی آخری ٹہنیوں کی مانند ہے، جو بس کچھ ہی لمحوں میں ٹوٹ کر گرنے والی ہے۔ یہ جا رہے ہیں… یہ آخری لوگ ہیں… اور ہم؟ ہم وہ بدنصیب ہیں جو شاید کبھی بھی یہ نہ جان سکیں کہ ہم نے کیا کھو دیا!

16/3/2025 Sunday
15 Ramazan Mubarak 1446 Hijri
12:12am

14/03/2025

📚 سلسلہ آؤ مطالعہ کریں 📚
🌿پیشکش: بزمِ سائبان 🌿

✅ صبر بے ثمر
✅ افسانہ
✍️ سحرش مصطفیٰ

حیدرآباد سے کراچی تک دو گھنٹے کا سفر اذیت ناک تھا ۔ سارے راستے موبائل کان سے لگائے میں امی کو تسلیاں دیتی رہی، لیکن حالات کی تفصیلات جان کر میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ سارے راستے میں اپنے اعصاب کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بے سود۔ ماضی جیسے مجسم ہوکر میرے سامنے آرہا تھا ۔ آپی سے متعلق ساری غلطیاں اور کوتاہیاں، سب کچھ بار بار میرے سامنے گھوم رہا تھا۔ بالآخر میں آپی کے گھر میں داخل ہوئی، وہ مجھے سامنے ہی مل گئیں پہلے کی طرح بالکل گم صم سی۔
میں حیرت کے عالم میں آگے بڑھی اور سامنے کھڑی آپی کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔ مرکزِ نگاہ چہرہ تھا نہ ہی نقوش، بلکہ ان کی آنکھیں تھیں ۔ میں بہ غور اُن کی بڑی بڑی بادامی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔ ایسی نایاب آنکھیں جو کبھی روشنی سے جگمگاتی تھیں، پھر ان میں الجھن اتری اور ایک دور آیا جب ان پر اداسی کی حکمرانی رہی۔ پھر ایک وقت وہ تھا جب ان آنکھوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا، وہ جھک گئیں تھیں اور انہوں نے دنیا کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔ میں سمجھی کہ وہ بردباری کی انتہا تھی، لیکن وہ بردباری نہیں، بربادی تھی۔ وہ آنکھیں اپنے اندر کی وحشت کو چھپانے کے لیے جھکائی گئی تھیں۔بکھرے ہوئے بال اور وحشت برساتی آنکھیں ساری کہانی سنا رہی تھیں کہ کوئی الزام جھوٹا نہیں تھا، جھوٹا تھا تو بس میرا یقین۔ برسوں کا یقین اور بھروسا، میں جس صبر کا راگ الاپتے ہوئے آپی کے لیے دعا کرتی تھی، وہ کڑوا نکلا تھا۔

ابیہا آپی ہم سب کے لیے مثال تھیں۔ ایک ایسی مثال جو بے مثال تھی۔ خاندان کے سارے صاحبِ اولاد اپنی بیٹیوں کو مختلف مواقع پر آپی کی مثال دیتے ۔وہ قابلِ تقلید تھیں۔ ان کا صبر ، ان کا سلیقہ اور ان کی عادات و مزاج میں پائی جانے والی بردباری اور سنجیدگی، سب لاجواب تھا۔ سب سے بڑھ کر ان کی زبان جس نے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ ان کے منہ سے کبھی اُف تک نہیں سنا تھا۔ ان کی ساری زندگی مختلف امتحانات سے لبریز تھی۔
ان کا سب سے پہلا امتحان یہ تھا کہ میٹرک کے بعد امی کی طبیعت خراب رہنے لگی اور گھرداری کا مسئلہ ہوا، تب آپی آگے آئیں اور انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی ۔ سارا دھیان ہم بہن بھائیوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال پر لگادیا ۔ یہ ان کا ہی ظرف تھا ۔
ان کا دوسرا امتحان نوجوانی میں وارد ہوا، جب بھی ان کے لیے کوئی رشتہ آتا، تو وہ چھوٹی بہن کو پسند کر جاتا، کیوں کہ سب کو سلیقہ مندی اور خوب صورتی کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی لڑکی چاہیے تھی۔ سب ایک مکمل پیکج چاہتے تھے۔ امی ابا سب کو منع کردیتے، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا جب ربیعہ باجی کے ایک کلاس فیلو کو منع کردیا گیا اور گھر میں بھونچال آگیا۔ ربیعہ آپی نے زمین آسمان ایک کردیا۔ ان کے خیال میں آپی ایک ڈائن تھیں جو اپنی باقی بہنوں کی عمر اور خوشیوں کو کھارہی تھیں۔ یہ ایک بہن کی دوسری بہن کے لیے بدگمانی کی انتہا تھی۔ اس وقت پہلی بار مجھے آپی کی آنکھوں میں نمی کے ہلکورے نظر آئے، لیکن وہ چپ ہی رہیں ۔ربیعہ آپی نے رشتے داروں کو فون کرکرکے آپی کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔ وہ ہر ایک کو مجبور کرتیں کہ وہ اماں ابا کو قائل کریں اور وہ اس سارے عمل میں کام یاب ہو بھی گئیں،کیوں کہ امی ابا کے لیے یہ بہت ہی شرمندگی کا مقام تھا کہ ان کی ایک بیٹی دوسری بیٹی کو بدنام کرے۔ لہٰذا انہوں نے ہاں کردی اور پھر ربیعہ آپی کی شادی وہیں ہوئی جہاں وہ چاہتی تھیں ۔ میں اس سارے عمل کے دوران پریشان رہی کچھ کربھی نہیں سکتی تھی ۔ آپی اس دوران بھی خاموش رہیں، لیکن ان کی روٹین ویسے کی ویسے ہی رہی، کوئی شکوہ نہ کوئی گلہ۔ وہی گھر کے کام کاج، بہن بھائیوں کی خدمت اور ماں باپ کا حکم بجا لانا۔ کبھی کبھار مجھے ان کی خاموشی سے وحشت ہونے لگتی۔ میرے دل میں خیال آتا کہ کوئی انسان اتنی پکی چپ کیسے لگا سکتا ہے۔ میں انہیں اپنے لیے آواز بلند کرنے پر اکساتی لیکن انہوں نے کبھی میری باتوں کو سیریس ہی نہیںلیا۔ امی ابا اب مکمل طور پر آپی پر انحصار کرتے تھے۔ ان کا ہر کام آپی کے ذمے تھا ۔ اس کے علاوہ کچن بھی آپی ہی چلاتی تھیں ۔ سب بہن بھائیوں کی پسند ناپسند کی لسٹ ان کے پاس رہتی اور وہ سب کی خدمت میں جتی رہتیں۔ سب لوگ انہیں صابر قرار دیتے اور میں ان کی بے رنگ زندگی کو دیکھتے ہوئے اس صبر کے معنی تلاش کرتی رہتی، جو ان کی زندگی کو کھائے جارہا تھا۔ یہ کیسا صبر تھا؟
ان کی کوئی سہیلی تھی اور نہ کوئی ہم راز۔ انہیں میک اپ کا شوق تھا اور نہ ہی محفل کی جان بننے کا۔ البتہ ایک تبدیلی ضرور آئی تھی۔ وہ چپ تو پہلے بھی رہتی تھیں، لیکن اب گم صم بھی رہنے لگیں۔ انہوں نے محفل میں اٹھنا بیٹھناچھوڑ دیا تھا۔ نہ کسی کے گھر جاتیں اور نہ ہی مہمانوں کے آنے پر ان سے گھلتی ملتی تھیں۔ ان کا وجود تھا کہ بکھرتا ہی جارہا تھا۔ ایک عجیب بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ ان کے بارے میں کوئی ایک بار سے زیادہ بار پوچھتا بھی نہیں تھا۔
کسی رشتے دار کے گھر جانے پر وہ سب کو اس وقت یاد آتی تھیں جب کوئی کام کرنا ہوتا۔ ”ابیہا ہوتی تو ہاتھ بٹا دیتی۔” اور بس ان کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ لوگ ان کے سلیقے اور طریقے کی تعریف کرتے اور پھر بڑے آرام سے انہیں بدقسمت قرار دے دیتے۔ ایک ایسی لڑکی جس کی وقت پر شادی نہ ہوسکے، وہ ہمارے معاشرے میں بدقسمت کہلاتی ہے۔ دنیا والے ہر انسان کے اندر کچھ خاص تلاش کرتے اور اس کے بعد اس کی پوزیشن ظاہر کرتے ہیں کہ کس کو کتنی عزت دینی چاہیے اور کون کتنے احترام کا مستحق ہے۔ ایک ایسی عورت جس کے پاس نہ تو کوئی ڈگری ہو اور نہ ہی کوئی خاص ملکوتی حسن، اس کی اوقات شوہر کی حیثیت کے مطابق طے کی جاتی ہے اور آپی تو ابھی تک اس شوہر یا سسرال نامی شے سے منسلک نہیں ہو پائی تھیں۔ تو طے یہ پایا کہ خاندان والوں کے لیے وہ ایک غیر ضروری وجود بن چکی ہیں۔ سب چھوڑیں، میری اپنی دوسری دو بہنیں ان سے دور رہتی تھیں۔
”یہ جو بڑی عمر کی غیرشادی شدہ لڑکیاں ہوتی ہیں نا، یہ کسی دوسرے کا گھر بستے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں ۔” ربیعہ آپی سرگوشی کرتیں۔ مجھے ربیعہ آپی کی ایسی باتیں سن کر بہت افسوس ہوتا تھا۔ وہ پہلے صابرکہلائیں، پھر بدقسمت اور اب نفسیاتی مریضہ۔ کیا کوئی صبر کرنے والا بدقسمت اور نفسیاتی مریض ہوسکتا ہے؟ مجھے لوگوں کی زبانوں اور سوچ پر اعتراض ہوتا، لیکن آپی کو کسی بات پر اعتراض نہیں تھا ۔ میں ہمیشہ سچے دل سے ان کے لیے اس صبر کے پھل کی دعا کرتی۔
وہ اب پینتیس کے پیٹے میں تھیںاور میں میڈیکل میں ایڈمیشن کی تیاری کررہی تھی۔ میری دو بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ ابھی بھائیوں کی شادیاں نہیں ہوئی تھیں البتہ نسبت طے ہوچکی تھی۔ امی اب آپی کی وجہ سے بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔ انہیں گھر کے کاموں کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ امی کو خدشہ تھا کہ شادی کے بعد آنے والی بھابی انہیں برداشت کرے گی یا نہیں۔ ان کا یہ شک بالکل ٹھیک نکلا۔ جب امی ابا بڑے بھائی کی تاریخ لینے گئے توانہوں نے یہ کہہ کر نیا پینڈورا باکس کھول دیا کہ آپی کی موجودگی میں وہ اپنی بیٹی اس گھر میں نہیں بیاہیں گے۔ انہیں اپنی بیٹی کے لیے الگ گھر چاہیے۔ تب امی ابانے آپی کے لیے ایک رشتہ ڈھونڈا۔
خالد بھائی ایک سرکاری محکمے میں اچھی پوسٹ پر تھے اورپہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد اکیلے رہتے تھے۔ ان کی دو بیٹیاں جو کہ اپنی دادی کے پاس رہتی تھیں وہ کبھی کبھار ان کے پاس رہنے آتی تھیں ۔ آپی دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک تھیںلیکن خالد بھائی مجھے ان کے لیے مناسب نہیں لگے۔ جب یہی بات میںنے آپی سے کہی اور ساتھ ہی انہیں انکار کرنے کا مشورہ بھی دیا، تو وہ اپنی مخصوص خاموشی سے میری بات سنتی رہیں اور پھر قہقہے لگاکر ہنسنے لگیں، تو میں ڈر گئی۔ پھر وہ نارمل ہوگئیں اور میرا گال تھپکتے ہوئے بولیں:
”میرے بارے میں اتنا مت سوچا کرو گڑیا، تمہارے سوچنے سے میری قسمت نہیں بدل سکتی۔”اور انہوں نے ہاں کردی۔ میں پھر حیران رہ گئی کہ صبر کی وہ کون سی معراج تھی جس پر وہ فائز ہونا چاہتی تھیں۔ میرا یقین اور پختہ ہوگیا کہ میری بہن کو اس صبر کا ثمر ضرور ملے گا۔ وہ میرے لیے ایک مثالی شخصیتبنتی جارہی تھیں۔
ان کی شادی ہوگئی اور میرا یڈمیشن حیدرآباد کے میڈیکل کالج میں ہوگیا ۔ یوں میرے اور ان جھمیلوں کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہوگیا۔ میرے خالد بھائی کے بارے میں ممکنہ خدشات صرف وہم ہی رہے۔ وہ بہت مناسب آدمی تھے۔ شادی کے بعد بھی آپی کی چپ تو نہ ٹوٹی، لیکن ان کی زندگی بہتر ہوگئی۔ دو بچے بھی ہوگئے اور مجھے لگا جیسے اُنہیں ان کی ریاضتوں کا صلہ مل گیا، وہ میری خام خیالی تھی۔ میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہاؤس جاب کررہی تھی جب ایک دن امی کی کال آئی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ آپی کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا ۔ یہ خبر سُن کر میرا وجود سن ہوگیا۔ میں نے بے یقینی سے امی کی بات سنی جو مجھے فوری طور پر گھر پہنچنے کی ہدایت کررہی تھیں۔
٭…٭…٭

وہ میری بہن تھیں، میرے دل کے قریب تھیں، لیکن مجھے ایسا لگا کہ میں ان کے قریب نہیں تھی، اسی لیے تو ان کی محرومیوں اور اذیتوں کو کبھی سمجھ نہیں پائی ۔وہ مجھ سے نظریں نہیں چرارہی تھیں اور اس کا مطلب تھا کہ وہ اپنے کیے پر بالکل بھی شرمندہ نہیں تھیں ۔
انہوں نے اپنی مرحومہ نند کی بیٹی کو بری طرح زدوکوب کیا تھا ۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کو بری طرح مارا پیٹا گیا ہے۔ اب بھی کسی کو آپی پر یقین نہیں آرہا تھا جس عورت کی ساری زندگی صبر سے عبارت تھی وہ، کانٹے دار زہریلی جھاڑیاں کیسے اپنے وجود کے اندر اُگا سکتی ہے ؟ میرے بہنوئی اس بچی کے سرپرست کی حیثیت سے مقدمہ ختم کروا کر آپی کو گھر لے آئے تھے۔ ویسے بھی ابھی باقاعدہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تھی۔ ان کے ایک پڑوسی نے تھانے میں درخواست دی تھی کہ ا ن کے پڑوس میں ایک کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ اس بچی کو ملازمہ سمجھے تھے۔ ایک این جی او نے بھی اس کیس کو بہت اچھالا تھا، لیکن غنیمت یہ کہ خبر پریس تک نہیں گئی۔ آپی ابھی چند منٹ قبل تھانے سے آئی تھیںاور خالدبھائی انہیں گھر ڈراپ کرکے واپس تھانے چلے گئے تھے۔ وہ سرکاری آفیسر تھے اور اتنی زیادہ بدنامی کے باعث اس کے تباہ کن اثرات کو کچھ دے دلا کر کم کرنا لازمی تھا ۔میری نظریں ہنوز آپی کے چہرے پر تھیں۔
”یہ آپ نے کیا کردیا آپی؟’ ‘میں نے انہیں تاسف بھرے لہجے میں شرم دلانے کی کوشش کی تھی، اگرچہ یہ سب کچھ بے کار تھا۔
”میںنے تو کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ میں نے تو بہت کچھ ہونے سے بچایاہے۔”میں ان کی بات سن کر دنگ رہ گئی کیوں کہ وہ اپنا جرم ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔ ان کی وحشت زدہ متحیر آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔
تمہیں بھی یہی لگتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کیا ؟ ایسا ہرگز نہیںہے۔
”دیکھو! اگر میں اس لڑکی کو اوقات میں نہ رکھتی تو میری اولاد کو بھی صبر کی اسی بھٹی میں جلنا پڑتا جس میں جھلستے ہوئے میں نے اپنی عمر ، وقت اور خوشیاں سب کچھ برباد کردیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اپنی اولاد کو صبر نہیں کرنے دوں گی۔ میں اس لڑکی کو اس کی اوقات میں رکھوں گی اور اپنی اولاد کواس کی ماں کی طرح سسکنے نہیں دوں گی۔ ”
”آپ نے بہت غلط کیا ۔”وہ جیسے میری بات پر کان دھرے بغیر رک رک کر بولے جارہی تھیں۔
” خالدکی آنکھیں، ان کی باتیں، سب بدل گئی تھیں اس چڑیل کے آجانے سے ۔ وہ میرے بچوں کی ہر چیز میں اسے حصے دار بنارہے تھے ۔ میں شکوہ کرتی تو کہتے، صبر کرو بس! یہ میری حد تھی۔ تمہیں یاد ہے نا، میںتمہاری وہی بہن ہوں جس نے ساری عمر صبر کیا، ہر برے وقت میں، میں نے صبر کیا۔ عنایہ اورصبر کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔” ان کا لہجہ بھینچا ہوا اور آواز رندھی ہوئی تھی۔یہ سن کر میں نے وہ سب کہنے کے لیے منہ کھولا جو میرے لیے کہنا اور ان کے لیے سننا واقعی تکلیف دہ تھا ۔
”صبر ؟ برا وقت ؟ آپی آپ پر کبھی برا وقت آیا ہی نہیں بلکہ آپ اپنے اوپر برا وقت خود لے کر آئی تھیں۔ آپی وہ صبر نہیں تھا، صبر کبھی ہمارے اندر وحشتوں اور دراڑوں کو جنم نہیں دیتا بلکہ سکون اور اخلاص پیدا کرتا ہے۔ وہ صرف اور صرف برداشت تھی۔ آپی آپ ساری عمر صبر کی آڑ میں سب کچھ برداشت کرتی رہیں، بغض پالتی رہیں۔ آپ کو اپنے لیے آواز اٹھانی چاہیے تھی، آپ اپنے لیے آواز اٹھا سکتی تھیں۔ جب اس گھر میں آپ کے بہن بھائیوں کی سنی جارہی تھی تو آپ کی بھی سنی جاسکتی تھی، لیکن آپ گونگی بن گئیں۔ آپ نے اپنی کم زوری چھپالی مگر آپی، جہاں ہماری برداشت کی حد ختم ہوجائے وہاں پر ہمیں اپنے لیے آواز اٹھانی چاہیے اپنے لیے آواز اٹھانا کوئی جرم نہیں۔”
وہ اب بھی چپ تھیں۔
”ایک بات بتاؤں آپی، یہ جو مشکل وقت میں کیا گیا صبر ہے نا، یہ اچھے وقتوں میں شکر میں تبدیل ہوتا ہے اور نہ خوف اور عدم تحفظ میں۔ آپ اگر اپنے اس اچھے وقت میں شکر میں مبتلا نہیں ہوسکیں، تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے کبھی صبر کیا ہی نہیں۔” ایک آنسو ان کی پلکوں کی باڑ سے لڑھک کر گالوں تک آگیا۔میرا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا اور الفاظ کہیں گم ہوگئے۔
میں کچھ اور کہتے کہتے رک گئی۔
مجھے اچانک ہی اس کہانی میں اپنا کردار سمجھ آنا شروع ہوگیا۔ اپنے ماں باپ کی بے پروائی ، بہن بھائیوں کی خودغرضی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ میں انہیں ایسے ہی وحشت زدہ چھوڑ کر واپس چلی آئی۔آخر ہم سب نے انہیں فرشتہ کیوں سمجھا؟ کیوں ہر ایک اتنا خودغرض ہوگیا کہ انہیں انسان تک نہ سمجھا۔ سب نے اُنہیں استعمال کی ایک چیز سمجھا۔ وہ ساری عمر اپنی برداشت سے زیادہ بوجھ اٹھاتی رہیں، خود اذیتی کا شکار ہوتے ہوتے ان کی یہ حالت ہوگئی اور ہم سارے گھر والے ان کا تماشا دیکھتے رہے۔ کوئی ان کی مدد کو آگے نہ آیا۔
ہم سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ کسی ایک انسان کی اچھائی اور خلوص کا اتنا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اس کی پہچان ہی کہیں کھو جاتی ہے۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھاتی رہیں اور ہم سب ان کی اس کم زوری کافائدہ اٹھاتے رہے اور اب، جب یہ بات خاندان میں پھیلے گی، تو کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔
اب میں یہ سوچ رہی ہوں کہ میں کیا کروں ؟ اس قدرمصیبت کی اس گھڑی میں، میں اپنی بہن کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ صبر کی دعا بھی نہیں ۔

٭…٭…٭

...محبت.....محبت صرف ساتھ نبھانے کا نام نہیں، کبھی کبھی محبت چھوڑ دینے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ یہ ساتھ چلنے کی ضد نہیں، بل...
14/03/2025

...محبت.....

محبت صرف ساتھ نبھانے کا نام نہیں، کبھی کبھی محبت چھوڑ دینے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ یہ ساتھ چلنے کی ضد نہیں، بلکہ محبوب کے لیے آسانی چاہنے کا نام ہے۔ بعض اوقات محبت میں اتنی شدت ہوتی ہے کہ وہ قربت کے بجائے جدائی میں زیادہ مہربان ہو جاتی ہے۔

یہ کتنا عجیب معاملہ ہے کہ جسے ہم سب سے زیادہ چاہتے ہیں، کبھی کبھی اُسی کو کھونا پڑتا ہے۔ لیکن کیا یہ کھونا واقعی شکست ہے؟ نہیں! محبت اگر سچی ہو، تو وہ کبھی شکست نہیں کھاتی، وہ تو بس ایک نئی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ جیسے دریا جب کسی بند سے ٹکرا کر اپنی راہ بدل لیتا ہے، تو وہ ختم نہیں ہوتا، بس کسی اور راستے سے بہنے لگتا ہے۔

بسا اوقات، اس شخص کے قریب رہنا اُس کے حق میں بہتر نہیں ہوتا۔ اسے اپنی راہوں پر آزاد چھوڑ دینا ہی اصل محبت ہوتی ہے۔ محبت قربانی کا دوسرا نام ہے، اور بعض محبتیں جدائی میں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی کسی کی خوشی کے لیے خود کو پیچھے ہٹا لینا ہی سب سے بڑی محبت ہوتی ہے۔

ایسا نہیں کہ چھوڑ دینے والے محبت نہیں کرتے، بلکہ وہ اتنی محبت کرتے ہیں کہ اپنی خواہشات کو بھی محبوب کی بھلائی پر قربان کر دیتے ہیں۔ محبت ضد نہیں، محبت ضبط ہے صاحب! محبت قید نہیں، محبت آزادی ہے جناب! محبت صرف پاس ہونے میں نہیں، محبت اس اطمینان میں ہے کہ محبوب جہاں بھی ہو، بس خوش رہے...!

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ محبت میں ضبط کر لینا آسان کام نہیں..! کسی کو کھو دینے کا درد کم نہیں کرتا۔
ہاں وہ آج بھی میری دعاؤں میں شامل ہے، آمین کی طرح... بے ساختہ، بے اختیار، ہمیشہ...!
وہ شخص آج بھی میرے دل میں کسی دھڑکن کی طرح بستا ہے، اور ہر دھڑکن اس کا نام لیتی ہے۔ اس سے بچھڑ کر بھی دل ویسے ہی تڑپتا ہے جیسے پہلے تڑپتا تھا، جیسے کہ اس جدائی نے کچھ بدلا ہی نہیں۔

اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی آج بھی کہیں دل کے کسی کونے میں ایک موہوم سی خواہش سانس لیتی ہے کہ کوئی راہ نکل آئے، کوئی کرشمہ ہو جائے، کوئی لمحہ ایسا آئے کہ سب فاصلے مٹ جائیں، سب دیواریں گر جائیں، اور ہم ایک بار پھر اسی راہ پر آملیں جہاں محبت نے پہلی بار ہمیں ملایا تھا۔ ہاہاہاہا پاگل دل کی، پاگل خواہش............

15/3/2025 Saturday
14 Ramazan Mubarak 1446 Hijri
12:10am

خواہشوں کا ہجوم اور ضبط کی زنجیر....کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل کے اندر کوئی تلاطم برپا ہے۔ ایک خواب ہے، جو پلکوں پر لر...
13/03/2025

خواہشوں کا ہجوم اور ضبط کی زنجیر....

کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل کے اندر کوئی تلاطم برپا ہے۔ ایک خواب ہے، جو پلکوں پر لرزتا رہتا ہے، ایک خواہش ہے جو دل کے دروازے پر مسلسل دستک دیتی ہے، مگر ہاتھ باندھے بیٹھے رہنا پڑتا ہے۔ سوچتے ہیں کہ ابھی نہیں، ابھی وقت نہیں آیا، ابھی حالات سازگار نہیں۔ ابھی کچھ صبر اور کرلیں، شاید کوئی سرا ہاتھ آجائے، شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔

یہ کیسا انتظار ہے جو راتوں کو بے چین رکھتا ہے، جو ہر لمحہ دل کو کسی انجانے خوف میں مبتلا رکھتا ہے؟ خواہشیں تو باغی ہوتی ہیں، یہ کب صبر مانتی ہیں! یہ تو در و دیوار سے سر ٹکرا کر راستے نکالنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مگر زندگی ہمیشہ جذبات کی بنیاد پر نہیں چلتی۔ بعض اوقات ہمیں اپنے ہی ارمانوں کو چپکے سے تھپک کر سلا دینا پڑتا ہے، اپنی خواہشوں کے گرد ضبط کی زنجیر ڈالنی پڑتی ہے۔

لیکن کیا واقعی انتظار کرنا ہی حل ہے؟ کیا زندگی ہمیشہ کسی "صحیح وقت" کی قید میں رہے گی؟ نہیں! وقت کسی کے لیے نہیں رکتا، نہ ہی کوئی لمحہ "مکمل" ہوتا ہے۔ جو کرنا ہے، وہ آج ہی کرنا ہوگا۔ جو فیصلہ لینا ہے، وہ ابھی لینا ہوگا۔ ہم جب تک دوسروں سے کسی اشارے، کسی یقین دہانی کی امید لگائے بیٹھے رہیں گے، ہماری اپنی ہمت کمزور پڑتی جائے گی۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ اس کے فیصلے ہمیں خود لینے ہوتے ہیں۔ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے خودی کو جگانا پڑتا ہے، ہاتھوں کی لکیروں کو خود تراشنا پڑتا ہے۔ اگر کسی خواہش کا راستہ بند نظر آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ دوسرا دروازہ کھلنے والا ہو، مگر اس دروازے تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھانے کی ہمت خود پیدا کرنی ہوگی۔

انتظار صرف اس وقت تک اچھا لگتا ہے جب وہ امید کا دیا جلائے رکھے، مگر جب یہ بے چینی میں بدلنے لگے تو سمجھ جائیے کہ وقت آ چکا ہے کچھ کرنے کا، کچھ بدلنے کا۔ اپنی راہ متعین کیجیے، بسم اللہ کہیے اور چل پڑیے۔ جو نصیب میں ہے، وہ آپ کو خیر کے ساتھ ملے گا، اور جو نصیب میں نہیں، دعا کی طاقت آپ کو اس کے غم سے بھی بچا لے گی۔

13/3/2025
12:10am
12 Ramazan Mubarak 1446 Hijri

Address

Shahdadpur
68030

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bazm e Saibaan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share