
19/03/2025
حسین یادیں..
رمضان المبارک کی یہ رات اور میں اکیلا بیٹھا گاؤں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں کا ہر پتھر، ہر درخت، ہر گلی، ہر موڑ میری آنکھوں کے سامنے کسی کہانی کی طرح چل رہا ہے... یہ وہی گاؤں ہے جہاں کی چوپڑی ہوئی روٹی، خالص دودھ، اور مکھن سے لبریز نوالے کبھی زبان پر ایسے ذائقے چھوڑ جاتے تھے جو شہر کی رنگینیوں میں بھی کبھی نہیں ملتے۔ تب ہر ایک لقمہ، ہر ایک گھونٹ میں سکون کا ایک دریا بہتا تھا، ایک سادگی، ایک خلوص تھا جو ہر ذائقے میں گھلا ہوا تھا۔ وہ کزنز کے ساتھ بے فکری کی گپ شپ، وہ بے مطلب کی نوک جھونک، وہ شامیں جب ہم سب مل کر اکٹھے بیٹھتے اور رات گئے تک ہنسی کا شور گونجتا تھا۔ آج دل چاہتا ہے کہ وقت کا پہیہ وہیں رک جائے، وہیں جم جائے جہاں ہم سب کے چہرے مسکراہٹوں سے دمکتے تھے۔ مگر یہ وقت! یہ بے رحم وقت... کبھی تھم کر بھی کیوں نہیں دیکھتا؟ اب جب اس گاؤں میں آیا ہوں، تو سب کچھ ویسا ہی ہے، مگر پھر بھی کچھ تو بدل گیا ہے۔ وہ محبت جو ہر چہرے سے چھلکتی تھی، وہ جو ہر ملنے والے کے ماتھے پر خلوص کی طرح لکھی ہوتی تھی، اب کہیں گم سی لگتی ہے... کچھ چہرے اس دنیا کی بھیڑ میں کھو گئے، کچھ اپنوں کی چاہتوں سے بیگانہ ہوگئے.. دل چاہتا ہے کہ وہ سب لمحے، وہ سب لوگ واپس مل جائیں، لیکن یادیں ہیں کہ بے قابو سمندر کی طرح بار بار دل کے ساحل سے ٹکرا کر لوٹ جاتی ہیں... کبھی کبھی یہ یادیں کسی شہہ میں ڈوبی پن سی چبھتی ہیں، کبھی زہر میں بجھی تلوار بن کر دل کو کاٹتی ہیں۔ وقت کا یہ کرب کیوں اتنا بے حس ہے؟ کیوں یہ پلٹ کر نہیں دیکھتا؟ کیوں ہمیں ان یادوں کے خمار میں ہی تڑپاتا رہتا ہے؟ شاید یہی زندگی کی حقیقت ہے کچھ لمحے جو گزر کر بھی نہیں گزرتے، کچھ یادیں جو بچھڑ کر بھی نہیں بچھڑتیں....
میں ہوں، دل ہے، تنہائی ہے...
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا......