Haider Ali

Haider Ali 💫KHÅTMÎ NÄBÕWÂT💫

04/10/2024

Muhammad Akbar Haqqani




31/05/2024

ایک بار ضرور دیکھیں🌺
ختم نبوت پر تفصیلی گفتگوں 💞
اللہ ربّ العزت نے اس دنیا کو دارالعمل بنایا اور انسان کو اس دنیا میں ایک مختصر وقت کے لیے بھیجا۔ پھر اس کی رہنمائی اور تربیت کے لیے اپنے مقرب و منتخب بندوں، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ شروع فرمایا۔ جن کی تربیت بھی اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ انبیاء کرام علیہم السلام آتے رہے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے رہے، کوئی نبی کسی بستی کے لیے مبعوث کیا گیا توکوئی کسی قبیلے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان عالی شان میں فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ہر قوم کی طرف ڈرانے والا بھیجا گیا چنانچہ کم و بیش سوا لاکھ انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے۔ آخر میں امام الانبیاء، وجہ تخلیق کائنات، سید الاوّلین و الآخرین حضرت محمد ﷺ کو اللہ ربّ العالمین نے خاتم النبیین اور رحمت العالمین بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والے سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی ہیں۔ اب چونکہ سلسلہ نبوت ختم فرمانا تھا چنانچہ ضروری تھا کہ اللہ ربّ العزت اپنی لاریب کتاب میں صراحتاً اس امر کا اعلان فرماتے چنانچہ قرآن کریم کی ایک سو(100) سے زیادہ آیات آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرما رہی ہیں۔
خود نبی آخر الزماں ﷺ نے اس عقیدہ کی اہمیت کے پیش نظر دو سو دس (210) سے زیادہ مرتبہ احادیث مبارکہ میں مختلف عنوانات کے تحت اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ عقیدہ ختم نبوت اس امت کا وہ بنیادی اور منفرد شان کا حامل عقیدہ قرار پایا جس پر تمام دین کا دارومدار ہے۔
خاتم النبیین، سرورکائنات ﷺ کو اوّلین و آخرین کے علوم عطا کیے گئے چنانچہ آپ ﷺ نے ابلیس کے چیلوں، کائنات کے بد بخت ترین دجالوں کی نشاندہی بھی فرما دی جو آپ ﷺ کے منصب نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کر کے اپنے ازلی بد بخت ہونے کا ثبوت دیں گے۔چنانچہ مختلف عنوانات کے تحت آپ ﷺ نے ان جھوٹے مدعیانِ نبوت کو کہیں ”دجالون“ اور کہیں ”کذابون“ کہہ کر مخاطب فرمایا اور امت کو ان کے فتنہ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔
اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب نے آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی دعویٰ نبوت کیا۔ اسود عنسی ملعون کو آپﷺ کی ہدایت پر آپﷺ کے جانثار صحابی حضرت فیروز دیلمی ؓ نے جہنم واصل کیا اور مسیلمہ کذاب کے خلاف، خلیفہ بلا فصل، افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں صحابہ کرامؓ کا پہلا اجماع ہوا اور یمامہ کے میدان میں 1200صحابہ کرامؓ نے مسیلمہ کذاب کے خلاف کیے گئے جہاد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس فتنہ کی سرکوبی کی اور اس عقیدہ کی اہمیت کو امت کے سامنے واضح کیا (یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں 29غزوات اور 74 سرایا میں دو سو انہتر(269)صحابہ کرامؓ شہید ہوئے تھے۔) اور اسلامی حکومت کے سامنے ایک راہ بھی متعین فرما دی کہ جو شخص آپ ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے اس کا علاج یہی ہے کہ اسلامی حکومت اس کے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کر دے اور تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے اسی عمل کی پیروی کی۔
انہی کذابوں دجالوں کے ناپاک سلسلہ کا ایک فرد مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جس نے اپنے انگریز آقا کے کہنے پر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے اور نبی کریم ﷺ سے امت مسلمہ کا تعلق کمزور کرنے اور مسلم امہ کو انتشار میں ڈالنے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف دعوے کیے۔ کبھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا، کبھی ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، کبھی مریم بنا تو کبھی عیسیٰ، کبھی رسول ہونے کا عویٰ کیا تو کبھی خدا ہونے کا(العیاذ باللہ) لیکن ان سب باطل دعاوی کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ”میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں“۔
مرزا غلام احمد قادیانی 1839/40میں پیدا ہوا اور 1908 میں لاہور میں ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہو کر اس حالت میں کہ غلاظت سے لتھڑا ہوا تھا، مردار ہوا اور اپنی پیشگوئی کے مطابق نشانِ عبرت بنا لیکن اپنی زندگی میں اپنے انگریز آقا کے کہنے پر اتنے غلیظ عقائد، نظریات پیش کر گیا کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس کی کفریات و مغلظات پڑھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کوئی شخص درجہئ انسانیت سے اتنا بھی گر سکتا ہے؟ اس شخص نے نہ عام مسلمانوں کو معاف کیا نہ اکابرین امت کو،اس کی شقاوت قلبی اور دریدہ دہنی سے نہ اولیاء کرام ؒ بچ پائے نہ تابعین و تبع تابعینؒ، نہ صحابہ کرامؓ نہ انبیائے کرام ؑ بلکہ اس نے رحمت کائنات نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کا لحاظ رکھا نہ خالق اکبر جل جلالہ کی بارگاہ کے تقدس کا۔ اس کے قلم نے ہر مقدس و مبارک وجود پر نشتر آزمائی کی اور گمراہیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔
یہ کورس اس لیے ترتیب دیا گیا ہے کہ آپ قادیانی کفریہ عقائد سے آگاہ ہوں اور خود بھی ایمان کے ان ڈاکوؤں سے بچیں وار دوسرے مسلمانوں کے ایمان کو بچانے کا ذریعہ بنیں۔
آپ کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ چند بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھ کر ان کے پس منظر میں قادیانیت کا مطالعہ کیجیے۔
عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے امیر اوّل امیر شریعت حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ صاحب نبوت کا مقام سمجھاتے ہوئے فرمایا کرتے کہ(۱) کسی نبی نے دنیا میں کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی بلکہ اللہ ربّ العزت نے ان کی تعلیم و تربیت خود ہی فرمائی لیکن مسیلمہ پنجاب مرزا غلام قادیانی نے کئی استادوں کی شاگردی کا اعتراف کیا،(۲) نبی کا نام مفرد لفظ پر مشتمل ہوتا ہے مثلاً آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، یوسفؑ وغیرہ جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ اس کا الہامی نام مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔(۳) ہر نبی اپنی قوم، قبیلہ کا خوبصورت اور طاقتور ترین آدمی ہوتا ہے جبکہ مرزا قادیانی دجال اپنی بھینگی آنکھ کے ساتھ اپنی ان گنت بیماریوں کی فہرست گنواتا نظر آتا ہے۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر مرزا کے غلیظ و کفریہ عقائد کو پڑھیے اور دیکھیے کہ شیطان کا یہ چیلا کس طرح اپنے دجل و فریب، ہرزہ سرائی، عیاری و مکاری میں اپنے گرو سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے مختصر حالات اور بلند بانگ دعوے
سوال:مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی کے مختصر حالات تحریر کریں۔
جواب:
نام و نسب:
مرزا غلام احمد قادیانی خود اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے۔
٭”میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کانام عطا محمد اور میرے پردادا صاحب کا نام گل محمد تھا، اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے۔“
(کتاب البریہ حاشیہ ص ۴۳۱، روحانی خزائن ص ۲۶۱، ج ۳۱)
تاریخ و مقام پیدائش:
مرزا غلام احمد قادیانی کا آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور پنجاب ہے اور تاریخ پیدائش کے سلسلہ میں اس نے یہ وضاحت کی ہے۔
٭”میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترہویں برس میں تھا۔“
(کتاب البریہ ص ۶۴۱، روحانی خزائن ص۷۷۱، جلد ۳۱)
ابتدائی تعلیم:
مرزا غلام احمد قادیانی نے قادیان میں ہی رہ کر متعدد اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، جس کی قدرے تفصیل خود اس کی زبانی ملاحظہ ہو۔
٭”بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر (استاذ کا احترام ملاحظہ ہو) رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہٰی تھا، اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی، اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا، مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے، وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا، ان کا نام گل علی شاہ تھا، ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا، اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہان تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف سے اس قدر توجہ تھی گویا کہ میں دنیا میں نہ تھا۔“
(کتاب البریہ بر حاشیہ ص ۸۴۱ تا ۰۵۱، روحانی خزائن ص ۹۷۱ تا ۱۸۱، جلد ۳۱ برحاشیہ)
جوانی کی رنگ رلیاں اور ملازمت:
مرزا غلام احمد قادیانی نے جب کچھ شعور حاصل کیا اور جوانی میں قدم رکھا تو نادان دوستوں اور احباب کی بدولت آوارہ گردی میں مبتلا ہوگیا۔ اس کا کچھ اندازہ حسب ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ مرزا کا اپنا بیٹا بشیر احمد لکھتا ہے۔
٭ ”بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیجھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں۔ اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔“(سیرت المہدی حصہ اوّل ص ۳۴، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد صاحب قادیانی)
٭”مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین او ردہریہ طبع لوگ تھے۔“(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۴۱۱)
حکومت برطانیہ کا منظور نظر:
سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران مرزا غلام احمد قادیانی نے یورپین مشنریوں اور بعض انگریز افسروں سے پینگیں بڑھانی شروع کیں اور مذہبی بحث کی آڑ میں عیسائی پادریوں سے طویل خفیہ ملاقاتیں کیں اور انہیں اپنی حمایت و تعاون کا پورا یقین دلایا چنانچہ سیرت مسیح موعود ص ۵۱ (ربوہ) میں برطانوی انٹیلی جنس سیالکوٹ کے انچارج مسٹر ریورنڈ بٹلر کی مرزا سے ملاقات کا ذکر موجود ہے۔ یہ 1868ء کی بات ہے۔ اس کے چند دن بعد ہی مرزا غلام احمد قادیانی نے سیالکوٹ کچہری کی ملازمت ترک کر کے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا۔ (مرزا صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں 1864ء سے 1868ء)تک چار سال ملازم رہے۔(سیرت المہدی حصہ اوّل ص ۴۵۱ تا ۸۵۱ ملحضا)
صداقت اسلام کے نعرہ سے اسلام کی بیخ کنی (جڑیں کاٹنے) کا آغاز:
قادیان پہنچ کر پہلے تو مسلمانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے عیسائیوں، ہندوؤں اور آریوں سے کچھ نامکمل مناظرے کئے، اس کے بعد 1880ء سے (براہین احمدیہ) نامی کتاب لکھنی شروع کی، جس میں اکثر مضامین عام مسلمانوں کے عقائد کے مطابق تھے۔ لیکن ساتھ ہی اس میں مرزا نے اپنے بعض الہامات داخل کردیئے اور طرفہ یہ کہ صداقت اسلام کے دعویٰ پر لکھی جانے والی اس کتاب میں انگریزوں کی مکمل اطاعت او ر جہاد کی حرمت کا اعلان شدومد کے ساتھ کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے 1880ء سے 1884ء تک براہین احمدیہ کے ۴ حصے لکھے جب کہ پانچواں حصہ 1905ء میں شائع کیا۔
دعاوی مرزا:
مرزا غلام احمد قادیانی 1880ء تک صرف اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔1882ء میں مجدد ہونے کا،1891ء میں مسیح موعود کا،1898ء میں مہدی ہونے کا اور 1899ء میں ظلی بروزی نبوت کا اور 1901ء میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔
بیت اللہ ہونے کا دعویٰ:
٭”خدا نے اپنے الہام میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے۔“
(اربعین ۴ ص ۳۰۱، در روحانی خزائن ج ۷۱، ص ۵۴۴)
1884 ء رسالت کا دعویٰ:
٭ الہام: ”انی فضلتک علی العالمین قل ارسلت الیکم جمیعا“ (میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضلیت دی کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔)
(تذکرہ ص ۹۲۱، مکتوب حضرت مسیح موعود مورخہ 30 /دسمبر 1884ء، اربعین ۲ ص ۷، روحانی خزائن ج ۷۱، ص ۳۵۳)
1886ء توحید تفرید کا دعویٰ:
٭ الہام: ”تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید و تفرید تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔“
(تذکرہ ص ۱۴۱،۴۸۳، براہین احمدیہ ص ۹۸۴، درروحانی خزائن ج ۱، ص ۱۸۵ حاشیہ در حاشیہ اربعین نمبر ۳ ص ۱۷، در روحانی خزائن جلد ۷۱ حاشیہ ص ۳۱۴)
1891ء مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ:
الہام ……”جعلناک المسیح ابن مریم“ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہہ دے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔
(تذکرہ ص ۵۸۱، ازالہ اوہام ص ۴۳۶، درروحانی خزائن ص ۲۴۴، جلد ۳)
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلا، ص ۰۲ در روحانی خزائن ص ۰۴۲ ج ۸۱)
1894ء مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ:
٭”بشرنی و قال ان المسیح الموعود الذی یرقبونہ و المھدی العسود الذی ینتظرونہ ھو انت“
ترجمہ: ”خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی معسود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تو ہے۔(تذکرہ ص ۷۵۲، اتمام الحجۃ ص ۳ درروحانی خزائن ج ۸، ص ۵۷۲)
1898ء امام زمان ہونے کا دعویٰ:
٭ ”سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام زماں میں ہوں۔“
(ضرورت الامام ص ۴۲، درروحانی خزائن ج ۳۱ ص ۵۹۴)
1900ء تا 1908ء ظلی نبی ہونے کا دعویٰ:
٭ ”جب کہ میں برووی طورپر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔“ (ایک غلطی کا ازالہ ص ۸، درروحانی خزائن ج ۸۱، ص ۲۱۲)
نبوت و رسالت کا دعویٰ:
٭ ”انا انزلناہ قریباٌ من القادیان الخ“ ”ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا ہے۔“
(براہین احمدیہ حاشیہ نمبر ۳ ص ۸۹۴، در روحانی خزائن ج ۱، ص ۳۹۵، الحکم ج ۴ شمارہ نمبر ۰۳ مورخہ ۴۲ اگست ۰۰۹۱ء بحوالہ تذکرہ ص ۷۶۳ مطبوعہ ربوہ)
٭”سچا خدا وہی خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا“
(دافع البلا ص ۱۱، درروحانی خزائن،ج ۸۱، ص ۱۳۲)
٭ ”میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی“ (ایک غلطی کا ازالہ ص ۷، درروحانی خزائن ۸۱، ص ۱۱۲)
لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر
اس جیسا کوئی نہیں۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
عقیدہ توحید اور قادیانی
ہمارے دین کی بنیاد یقین پر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے ”الیقین الایمان کلہ“ یقین ہی ایمان کی روح ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان و یقین کا نام عقیدہ توحید ہے۔ اس عقیدہ کو سارے اسلامی عقائد میں بنیادی، اساسی اور غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی تمام جہانون کی مخلوقات اور انسانوں کا حقیقی خالق و مالک ہے۔ ہم دن میں پانچ مرتبہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات خاص کا اعلان اور تجدید کرتے ہیں۔ کیونکہ وہی ہمارا ازلی و ابدی مالک ہے۔ جب انسان دل کی گہرائیوں سے اللہ کے وجود کا اقرار اور زبان سے اعلان کرے تو پھر اس کی الوہیت کا تقاضا ہے کہ اسی کی محبت تمام قسم کی محبتوں پر غالب رہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس میں کوئی شریک نہیں اسی طرح اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا بھی کفر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر گناہ معاف فرما دیں گے لیکن شرک جیسا گناہ ناقابل معافی ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاں اور بے شمار دعویٰ جات کئے اور مغلظات تحریر کیں وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی لازوال، بے مثال اور مالک کل جہاں ”یبقی وجھہ ربک ذوالجلال و الاکرام“جیسی ذات کو بھی نہیں بخشا۔
ذات باری تعالیٰ کے متعلق قادیانی عقائد ملاحظہ کریں:
٭”قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لیے بے شمار ہاتھ پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہئ ہستی کی تمام کنارون تک پھیل رہی ہیں۔“
(توضیح المرام ص ۵، خزائن ص ۰۹ ج ۳)
٭”کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں پھر بعد اس کے یہ سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا؟ کیا زبان پرکوئی مرض لاحق ہوگئی ہے؟“
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۴۴۱، خزئن ص ۲۱۳، ج ۱۲)
٭”وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔ (تجلیات الہٰیہ ص ۴، خزائن ص ۶۹۳ ج ۰۲)
٭”سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا“
(دافع البلا ص ۱۱، خزائن نمبر ۸۱ص ۱۳۲))
٭”میں نے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں او ریقین کیا کہ وہی ہوں“
(کتاب البریہ ص ۵۸، خزائن ص ۳۰۱، ج ۳۱)
٭ ”نبی نے اپنی کتاب میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں ”خدا کی مانند“ (اربعین نمبر ۳،ص ۵۲، خزائن ص ۳۱۴، ج ۴۱)
٭ ”ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا۔ گویا آسمان سے خدا اترے گا۔“ (حقیقت الوحی ص ۵۹،خزئن ص ۸۹۔۹۹،ج۲۲)
٭”ایک دفعہ تمثیلی طور پر مجھے خدا تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیش گوئیاں لکھیں۔ جن کا یہ مطلب تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں۔ تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لیے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تامل کے سرخی کے قلم سے اس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا۔ جیسا کہجب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پر جھاڑ دیتے ہیں۔ اور دستخط کر دیئے اور میرے پر اس وقت نہایت رقت کا عالم تھا۔ اس خیال سے کہ کس قدر خدا تعالیٰ کا میرے پر فضل و کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلا توقف اللہ تعالیٰ نے اس پر دستخط کر دیئے اور اسی وقت میری آنکھ کھل گئی اور اس وقت میاں عبداللہ سنوری مسجد کے حجرہ میں میرے پیر دبار ہا تھا کہ اس کے روبرو غیب سے سرخی کے قطرے میرے کُرتے اور اس کی ٹوپی پربھی گرے اور عجب بات یہ ہے کہ اس سرخی کے قطرے گرنے اور قلم جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا“ (حقیقت الوحی ص ۵۵۲، خزائن ص ۷۶۲، ج ۲۲)
مندرجہ بالا عبارات پڑھنے کے بعد کوئی مسلمان اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ ایسا شخص یا اس کے ماننے والے مسلمان تو کیا شریف انسان کہلانے کے بھی مستحق ہیں؟……کیا اسی کا نام احمدیت ہے؟
……فیصلہ آپ نے کرنا ہے!!!
قادیانیوں سے خود بچیں، مسلمانوں کو بچائیں، اپنے علاقوں اور محلوں پر نظر رکھیں۔ کسی مسلمان کو اس انداز سے گمراہ کرنے کی تو کوشش نہیں کی جارہی؟احمدیت کے روپ میں اسلام دشمنی سے ہوشیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
قارئین! قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ دینی غیرت کا اوّلین تقاضا ہے۔
------------------
ورفعنا لک ذکرک
اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کردیا
محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ اور قادیانی
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوت، جناب محمد مصطفی کو رحمۃ اللعالمین، شفیع المذنبین، سید المرسلین،خاتم النبین بنایا۔ سرکار دو عالم ﷺ تمام انبیاء کے سردار اور سرتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ایسا عالمگیر دین عطا فرمایا جسے تمام ادیان پر غالب کر دیا۔ محبوب ﷺ کو قیامت تک کے انسانوں کا رہبر اور ہادی بنا دیا۔ کہنے والوں نے بہت کچھ کہا، لکھنے والوں نے بہت کچھ رقم کیا لیکن وجہ تخلیق کائنات کی بات آخر یہیں پر ختم ہوئی:
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
چوہدری افضل حق نے کیا خوب کہا ہے کہ:
”اعتراف عظمت کے لیے بھی باعظمت ہونا ضروری ہے۔“
جناب رسال مآب ﷺ کی سیرت اور کردار کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ اپنے دشمن کی نظر میں بھی باعظمت ہی تھے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے مخالفین آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کے معترف تھے۔ معاندین، کردار پر رشک کرتے تھے۔ حسن وہ ہوتا ہے جس کا سوکن کو بھی اعتراف ہو۔ خون کے پیاسے اور جان کے دشمن ایمان نہ لانے کے باوجود، صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ ﷺ کی شرم و حیا، عصمت و عفت اور پاک دامنی کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ جناب رسالت مآب ﷺ خلق عظیم کا پیکر اور اعلیٰ کردار کا نمونہ تھے۔ آپ ﷺ نے گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیں، پتھر برسانے والوں کے لیے ہدایت مانگی، دشمن کو معاف کرنا آپ ﷺ کا وصف خاص تھا۔ غیروں پر عنایت، مخالف پر کرم آپ ﷺ کی فطرت کا خاصا تھا۔ تاریخ ”آمنہ“ کے در یتیم کو انسانیت کا سب سے بڑا محسن قرار دیتی ہے۔ غیر مسلم دانشوروں نے انسانیت کا وقار بلند کرنے والے عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ لیکن اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف دعویٰ نبوت ہی نہیں کیا بلکہ جناب رسالت مآب ﷺ کے منصب نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت بھی کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی ایسی تمام تحریریں اس کی پراگندہ، کافرانہ اور مرتدانہ ذہنیت کا ثبوت ہیں۔
قادیانیت کے جال میں پھنسنے والے اور قادیانیت سے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے حضرات ان تمام حوالہ جات کو پڑھیں اور خدارا اپنی آخرت اور عاقبت کو درست کریں اور سوچیں کہ کیا کسی مذہب کا بانی اتنی غلیظ ذہنیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور کیا ان تحریرات کے بعد بھی مرزا غلام احمد قادیانی سے لے کر مرزا طاہر تک کا دعویٰ اسلام درست ہے؟
مسیلمہ پنجاب، کذاب لعین مرزا غلام احمد قادیانی کے مزید باطل عقائد مختلف عنوانات کے تحت ملاحظہ فرمائیے

قادیانی عقائد ملاحظہ ہوں
٭”میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت ”وآخرین منھم لما یلحقوا بھم۔“ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس سال پہلے ”براہین احمدیہ“ میں میرا نام”محمد“ اور ”احمد“رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔“ (ایک غلطی کا ازالہ ص ۰۱، خزائن ص ۲۱۲ ج ۸۱)
٭”میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں، میں محمد ﷺ ہوں۔“
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۵۸،خزائن ص ۲۵ ج ۲۲)
٭”اس (نبی کریم ﷺ) کے لیے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا۔ اب کیا تو انکار کرے گا۔“ (اعجاز احمدی ص ۱۷، خزائن ص ۳۸۱ج ۹۱)
٭”مگر تم خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا ہے۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں (مرزا) ہوں۔“ (اربعین نمبر ۴ ص ۴۱، خزائن ص ۵۴۴۔۶۴۴ ج۷۱)
٭ ”اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم ﷺ کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریمﷺکے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا۔ یہان تک کہ میرا (مرزا) وجود اس (آنحضرت ﷺ)کا وجود ہوگیا۔ پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا ار یہی معنی ”آخرین منھم“کے لفظ کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں جو شخص مجھ میں اور مصطفی میں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور انہیں پہچانا ہے۔“ (خطبہ الہٰیہ ص۱۷، خزائن ص ۸۵۲۔۹۵۲،ج۶۱)
٭ ”یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کرسکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ سکتا ہے۔“
(قول مرزا محمود، مندرجہ اخبار الفضل قادیان نمبر ۵ ج نمبر ۰۱، ۷۱ جولائی ۲۲۹۱ء)
٭ ”(آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب) عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے۔ حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔“ (اخبار الفضل قادیان، ۲۲ فروری ۴۲۹۱ء)
اے مسلمان! اگر تجھے قبر کی تاریک کوٹھڑی میں رحمت کائنات ﷺ کی پہچان چاہئے، حشر کی ہولناک و خوفناک نفسا نفسی کی گھڑیوں میں شافع محشر محمد مصطفی ﷺ کی شفاعت کی ضرورت ہے، اگر ساقی کوثر ﷺ کے ہاتھوں جام کوثر پی کر حشر میں پیاس بجھانے کی تمنا ہے۔ چادر رحمت کا سائبان اور رحمت کے جھنڈے لواء الحمد کے نیچے سایہ حاصل کرنے کی آرزو اور جستجو ہے تو پھر ایک ہی راہ ہے کہ قادیانیوں سے ہر قسم کے تعلقات کو ختم کرنے کا صدق دل سے آج ہی فیصلہ کرکے آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دے۔
ختم نبوت کے تحفظ کے کام کو سنبھال، نبی ﷺ کے دشمنوں کو پہچان، آنحضرت سے سچی محبت اور وفاداری کا ثبوت دے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
قادیانیوں سے بائیکاٹ دینی غیرت کا اوّلین تقاضا ہے
-----------

اولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین
وہی لوگ جن پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انعامات فرمائے انبیائے کرام میں سے
انبیائے کرام علیہم السلام اللہ کے وہ برگزیدہ بندے ہیں جن کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا۔ ان کی براہ راست تعلیم و تربیت فرمائی۔ بچپن سے لیکر لحد تک ان کی حفاظت فرمائی۔ ان کو معصوم عن الخطا قرار دیا۔ ان برگزیدہ ہستیوں کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور یہ سلسلہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم ہوا۔ ہر نبی صادق نے اپنے سے پہلے نبی علیہ السلام کی تصدیق کی ان کی تعلیمات کو حق قرار دیا۔ قرآن کریم میں ان انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق اور ان کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام کی حقانیت کی دلیل یہ بتائی گئی کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ مسلمان کے لیے جس طرح نبی کریم ﷺ کا احترام ضروری ہے اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر پیغمبر پر ایمان لانا اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے اور جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔
البتہ چونکہ حضور اکرم ﷺ دین کامل اور شریعت کامل لے کر تشریف لائے اس لیے باقی تمام کتب اور شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور ان پر عمل کرنے کا حکم ختم ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود نہ ان انبیاء کرام علیہم السلام کے معمولی احترام میں کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کتب کے بارے میں تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے بلکہ نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ کے ذریعہ مسلمانوں کو انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان درجہ بندی کرنے کی ممانعت فرمائی ہے تاکہ ان کی تحقیر کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔ یہ تو انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد کیا ہیں؟ اور کس کس انداز میں ان انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین مرزا غلام احمد قادیانی نے کی ہے؟ اس کی تحریرات میں آپ خود ملاحظہ فرمائیں اور سوچیں کہ کیا کوئی شخص انسانیت سے اتنا بھی گر سکتا ہے؟ ان برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں اتنے گرے ہوئے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے؟ اس کے باوجود اسلام اور خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ اور مسیح موعود اور نبی (جھوٹا) ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ حالانکہ وہ مندرجہ ذیل تحریر میں خود ان انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو موجب غضب قرار دیا چکا ہے۔
٭ ”اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے اور سب پر ایما ن لانا فرض ہے۔ کسی نبی کی اشارہ سے بھی تحقیر سخت معصیت اور موجب نزول غضب الہٰی ہے۔“
(چشمہ معرفت ص ۰۹۳، خزائن ص ۰۹۳ ج ۳۲۱ از مرزا قادیانی)
مندرجہ الا تحریر کی روشنی میں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریریں ملاحظہ فرمائین اور اس تحریر کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں فیصلہ کریں؟
٭ ”میں اس بات کا خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہاد میں غلطی نہیں کی۔“ (تتمہ حقیقت الوحی ۵۳۱، خزائن ص ۳۷۵ج ۲۲ از مرزا قادیانی)

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(درثمین ص ۳۲ از مرزا غلام قادیانی)
٭ ”خدا میرے لیے اس کثرت سے نشان دکھلا رہا ہے کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔“
(تتمہ حقیقت الوحی ۷۳۱، خزائن ص ۵۷۵ ج ۲۲ از مرزا قادیانی)
٭ ”اور یہ جو فرمایا کہ ”واتخذو امن مقام ابراھیم مصلیٰ“ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنی کہ یہ ابراہیم (مرزا غلام احمد قادیانی) جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس طرز پر بجا لاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ“
(اربعین نمبر ۳،ص ۸۳، خزائن ج ۷۱، ص۰۲۴۔۱۲۴ از مرزا غلام قادیانی)
٭ ”پس اب کیا یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی نہیں کہ جہان ہم ”لا نفرق بین احمد من رسلہ“ میں داؤد اور سلیمان، زکریا اور یحییٰ علیہم السلام کو شامل کرتے ہیں وہاں مسیح موعود جیسے عظیم الشان نبی کو چھوڑ دیا جاوے۔
(کلمۃ الفضل ص ۷۱۱، مولفہ مرزا بشیر احمد مندرجہ ریویو آف ریلیجنز قادیان مارچ، اپریل ۵۱۹۱ء)
٭ ”خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں، میں شیث ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحٰق ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں یعقوب ہوں، میں یوسف ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں“ (حقیقت الوحی حاشیہ ص ۳۷، خزئن ص ۶۷ ج ۲۲ از مرزا غلام احمد قادیانی)
قارئین کرام! مندرجہ بالا خالصتاً کفریہ نظریات قادیانی جماعت کے خبث باطن کا مظہر ہیں۔ قادیانیوں سے بچنا اور تمام مسلمانوں کو ان سے بچانا ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔
آئیے ہم سب مل کر ”قادیانی کفر خالص“ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں!!!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بل رفعہ اللہ الیہ
بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام او رقادیانی
نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اللہ تعالیٰ نے صاحب کتاب اور صاحب شریعت پیغمبر کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپ ؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنی آیت اور نشانی قرار دیا۔ آپؑ کی پیدائش معجزہ کے طور پر ہوئی کہ بغیر باپ کے آپ ؑ اس دنیا میں تشریف لائے۔ پیدا ہوتے ہی جب لوگوں کی طعن آمیز نگاہیں آپ پر پڑیں تو آپ والدہ کی گود میں بے ساختہ پکار اٹھے۔
”میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی۔ اس نے مجھے نبی بنایا اور مجھے برکت والا بنایا۔ میں جہاں کہیں بھی ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں اس نے مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گار بنایا اور اس نے مجھے سرکش اور بد بخت نہیں بنایا اور مجھ پر سلام ہے جس روز پیدا اور جس روو مروں گا اور جس روز میں زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا“
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیسری آسمانی کتاب انجیل عطا فرمائی۔ یہود قوم آپؑ کی مخالف ہوگئی۔ آپؑ کے دور کے دوسرے پیغمبر حضرت یحییٰ علیہ السلام کو آروں کے ذریعہ چیر کر شہید کردیاگیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکا کر قتل کرنے کی سازش کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قیامت تک زندہ رکھنا تھا اور قیامت سے قبل دنیا میں آپ ؑ کی تشریف آوری کو قیامت کی علامت قرار دینا تھا۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا اور قرآن میں واضح کر دیا کہ ہم نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹے دعویٰ نبوت سے پہلے تو اپنے آپ کو مسیح موعود اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اپنی ذات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے بڑا اور بہتر ثابت کرنے کے لیے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اتنے توہین آمیز فقرے استعمال کئے کہ شیطان بھی شرما گیا۔ صرف نبی کریم ﷺ کے پیروکار ہی نہیں بلکہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے بھی اس قسم کے توہین آمیز جملے کسی پیغمبر کے بارے میں صادر ہونا ممکن نہیں۔ یہ تو کسی مرتد اور زندیق کی زبان ہی سے ادا ہوسکتے ہیں۔ مسیحی برادری جو آج قادیانیوں کی سرپرستی کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے ذرا مرزا غلام احمد قادیانی کی ان تحریرات اور عقائد کو ملاحظہ کرے کہ وہ اس کی حمایت کر کے عیسیٰ علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کر رہی ہے یا ناراضگی؟ نام نہاد احمدیت (قادیانیت) کے جال میں پھنسنے والے اور نرم گوشہ رکھنے والے مسلمان بھی ذرا مرزا غلام قادیانی کی ان تحریرات کا مطالعہ کر کے فیصلہ کریں کہ کیا ایسا شخص مسلمان ہوسکتا ہے؟
٭ ”آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو گالیاں دینے اور بد زبانی کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے۔ مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔“
(حاشیہ انجام آتھم ص ۵، خزائن ص ۹۸۲ ج ۱۱ از مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) نے پہاری تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے، یہودیوں کی کتاب ”طالمود“ سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا میری تعلیم ہے۔“ (حاشیہ انجام آتھم ص ۶، خزائن ص ۰۹۲ ج ۱۱ از مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتین تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر شاید یہ بھی خدائی کے لیے ایک شرط ہوگی آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتاکہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔“
(ضمیمہ انجام آتھم ص ۷، خزائن ص ۱۹۲ ج ۱۱، از مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے“
(کشتی نوح حاشیہ ۳۷، خزائن ص ۱۷ ج ۹۱، از مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔“
(دافع البلا، ص ۳۱، خزائن ص ۳۳۲ ج ۸۱، مرزا غلام احمد قادیانی)
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلا، ص ۰۲، خزائن ص ۰۴۲ ج ۸۱، از مرزا غلام احمد قادیانی)
اے مسلمانو! سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایسے جلیل القدر، عظیم المرتب، نبی کے بارے میں قادیانی ہفوات آپ نے مطالعہ کیں۔ اس عبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کی زبان و قلم پر شیطان رقص کررہا ہیاور یہ بدنصیب و بدزبان اس کے کہنے پر ایک جلیل القدر نبی کی توہین کا مرتکب ہورہا ہے۔ ایسے شیطان صفت انسان کے ماننے والوں سے ہمارے تعلقات؟ کیا یہ ایمانی غیرت کے منافی نہیں؟!!!

رضی اللہ عنھم ورضواعنہ
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قادیانی
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ میں کس کی شان بلند ہے؟ (بعض علماء نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو پانچواں خلیفہ راشد بھی تسلیم کیا ہے) حضرت شیخ نے جواب میں فرمایا:
”حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس گھوڑے پر سوار ہوکر میدان جنگ میں گئے۔ اس گھوڑے کی نکیل پر لگنے والی گردکے ذروں کی شان یہ ہے کہ ہزاروں عمر بن عبدالعزیز ؒ مل کر بھی ان ذروں کی شان کو نہیں پہنچ سکتے۔“
ہر وہ شخص جس نے چاہے ایک مرتبہ امام الانبیاء ﷺ کا رخ انور دیکھا اور آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لے آیا۔ اسے صحابی ؓ ہونے کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اب کل روئے زمین کے قطب، غوث اور ابدال مل کر بھی اس صحابیؓ کی عظمت کو نہیں پہنچ سکتے۔ جس طرح سرکار دو عالم ﷺ کے بعد قیامت تک نبی کوئی نہیں۔ اسی طرح اب قیامت تک صحابی بھی کوئی نہیں۔ حضور اقدس ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے بے پناہ استقامت، بے مثال استقلال اور ایثار و قربانی کے ایسے یادگار مظاہرے کئے۔ جنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ صحابہ رسول ﷺ کی معراج عظمت، اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس خدائی سند سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ:
”اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے“
رحمت دوعالم ﷺ پر ایمان لانے والے۔ آپ ﷺ کے دین کی سربلندی کے لیے مالی و جانی طور پر قربانیاں دینے والے نفوس قدسیہ کتنے خوش نصیب تھے۔ جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی امامت میں نمازیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے خدا کا کلام سنا۔ جنہوں نے آپﷺ کے معجزات دیکھے۔ جنہیں سفر میں، حضر میں، سرتاج دوعالم ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ انہی فداکاروں کو، انہی جانثاروں کو، جناب رسالت مآب ﷺ نے مختلف بشارتیں سنائیں۔
سید الکونین ﷺ نے صحابہ ؓ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
”میرے صحابہؓ آسماد ہدایت کے ستارے ہیں۔ ان میں جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔“
صحابہ کرامؓ ان خوش نصیب لوگوں کا گروہ تھا۔ جنہوں نے دولت دین براہ راست محبوب خداﷺ سے حاصل کی تھی۔
حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا!
”جو، اس سے محبت رکھتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے رکھتا ہے۔ جو، ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے رکھتا ہے“
گویا جناب رسالت مآب ﷺ نے معیار بتا دیا کہ ان صحابہ کرام ؓ سے محبت میری محبت کی علامت ہے اور ان سے بغض اور عداوت میری دشمنی اور عداوت کی علامت ہے۔ معلوم ہوا کہ محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ محبوب جن سے محبت کرتا ہو ان سے محبت کی جائے۔ مرزا غلام قادیانی نے حضور سرور کائنات محبوب خداﷺ کے پاکیزہ خو، صحابہ کرام ؓ کو بھی نہیں بخشا۔ مرزا غلام قادیانی کی صحابہ کرام ؓ سے بغض و عداوت بلا شبہ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات سے بغض و عداوت کے باعث ہے۔
حضرات صحابہ کرام ؓ کے بارہ میں قادیانی کفریات ملاحظہ ہوں!
٭ ”بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہیں تھا۔“
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص ۵۸۲ ج۵، خزائن ص ۵۸۲ج ۲۱)
٭ ”جیسا کہ ابو ہریرہ ؓ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔“
(اعجاز احمدی ص ۸۱، خزائن ص ۷۲۱ ج ۹۱، از مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکرؓ کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکرؓکیا۔ وہ بعض انبیاء سے بہتر ہے۔“
(مجموعہ اشتہارات ص ۸۷۲ ج ۳)
٭ ”ابو بکر و عمر کیا تھے۔ وہ تو حضرت غلام احمد (قادیانی) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے۔“ (ماہنامہ المہدی بابت جنوری، فروری ۵۱۹۱ء، ۲،۳، ص ۷۵ احمدیہ انجمن،لاہور)
٭ ”جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہئے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردی متاع کی طرح پھینک دے۔“
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص ۰۱۴ ج ۵، خزائن ص ۰۱۴ ج ۱۲، مرزا غلام احمد قادیانی)
٭ ”خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت صاحب (مرزا) آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام درپیش ہے۔ دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔ مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں مولوی نور الدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں اور دوسرے دن صبح مبارکہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا ہے؟ مبارکہ بیگم نے یہ خواب سنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا”یہ خواب اپنی اماں کو نہ سنانا“ مبارکہ بیگم کہتی ہیں کہ اس وقت میں نہیں سمجھتی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے“
(سیرت المہدی ص ۷۳، از مرزا بشیر احمد ایم اے)
قارئین کرام! حضرات صحابہ کرام ؓ کو حق تعالیٰ نے معیار حق قرار دیا۔ اس سے انحراف کرنے والا قرآنی تعلیمات کا منکر ہے۔ قادیانی کذاب کو دیکھئے کہ وہ صحابہ کرامؓ پر سب و شتم کی کس طرح بچھاڑ کررہا ہے۔ کیا قادیانیوں سے تعلقات رکھ کر ہم غضب الہٰی کو دعوت تو نہیں دے رہے۔ یہ ہم سب کے لیے سوالیہ نشان ہے؟
-------------
ویطھر کم تطھیرا
اور اللہ تعالیٰ تمہیں (اہل بیت) خوب پاک و صاف فرمائیں گے۔

اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور قادیانی
امام الانبیاء ﷺ کے گھر والوں کو اہل بیت کہا جاتا ہے۔ سید الکونین ﷺ کی اولاد کو امت میں عقیدت و احترام کا خاص مقام حاصل ہے۔ جناب رسالت مآب ﷺ کے بیٹے بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ حکمت ایزدی کے تحت آپﷺ کو اولاد نرینہ کی بجائے خاتم الانبیاء کا اعزاز بخشا گیا۔ رحمت دوعالم ﷺ کا نسب پاک آپﷺ کی پاکیزہ بیٹیوں کی وساطت سے آگے بڑھایا گیا۔ اہل بیت ؓ سے محبت جزو ایمان ہے۔ سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور جو ان سے محبت کریں ان سے بھی محبت فرمائیں۔“
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے لیے جب آیات قرآنی نازل ہوئیں، تو سرور دو عالم ﷺ، حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کو لے کر میدان میں نکلے اور فرمایا ”یہ میرے اہل بیت ہیں ”حضرت عائشہؓ راوی ہیں کہ ایک روز جناب رسالت مآب ﷺ گھر کے صحن میں کملی اوڑھے ہوئے تھے کہ حضرت حسن باہر سے تشریف لائے۔آپ ﷺ نے انہیں اپنی کملی میں لے لیا۔ اسی طرح حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کو بھی اپنی چادر میں لے لیا۔ جب حضرت حسین ؓ آئے تو انہیں بھی کملی مبارک میں لے لیا پھر فرمایا:
”پروردگار عالم! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ میرے مددگار ہیں۔ انہیں نجاست سے اسی طرح پاک رکھیو جس طرح رکھنے کا حق ہوتا ہے۔“
سرتاج الانبیاء ﷺ نے ازواج مطہرات کو امت کی مائیں قرار دیا۔ حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا: ”میں علم کا شہر ہوں علی ؓ اس کا دروازہ ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق فرمایا: ”یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے“ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”یہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں“
ایک مرتبہ جناب رسالت مآب ﷺ مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ دونوں شہزادے حسن ؓ اور حسین ؓ مسجد میں داخل ہوئے۔ معصوم اور چھوٹے تھے کبھی گرتے کبھی اٹھتے۔
رحمت دو عالم ﷺ نے دیکھا تو خطبہ روک دیا۔ دونوں نواسوں کو اٹھایا، چوما اور پیار کیا۔ سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ حضرت حسینؓ کا جسم اور حضرت حسنؓ کی شکل جناب رسالت مآب ﷺ سے مشابہت رکھتی تھی۔ سرکار دوعالم ﷺ اہل بیتؓ میں بالخصوص حضرت حسین ؓ سے بہت پیار کرتے تھے۔ سیرت میں ہے کہ آقائے نامدار ﷺ حضرت حسین ؓ کو چوما کرتے تھے اور سونگھا کرتے تھے۔ چومنا اولاد کی محبت کی فطری تقاضا تھا اور آپﷺ سونگھتے اس لیے تھے کہ جسم حسین ؓ سے جنت کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، نے میدان کربلا میں دین کی بقاء، اسلام کی سربلندی کے لیے جرأت و شجاعت، صبر و استقامت کا ایسا فقید المثال مظاہرہ کیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
ستم شعار تو دنیا سے مٹ گئے لیکن جبین دہر پہ یاد امام باقی ہے
مرزا غلام احمد قادیانی نے اہل بیت کی پاک طینت ہستیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر یک خبث باطن کا ثبوت دیا ہے۔ خاص طور پر حضرت علیؓ، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن ؓ کی شان میں ایسی گستاخیاں کی ہیں کہ الحفیظ، الامان۔ امت کے تمام علماء کرام نے ہر دور میں حضرت فاطمہؓ اور حضرت حسن ؓو حضرت حسینؓکو خراج عقیدت پیش کیا اور جس بدزبان نے ان کے بارے میں زبان درازی کی۔ امت نے ان کی زبانوں کو لگادی اور ایسے فرد کو مسلمان تسلیم نہیں کیا۔ دیکھئے نام نہاد احمدیت کا بانی، جھوٹا مدعی نبوت، خود ساختہ مسیح موعود، ان پاکدامن، پاکباز، جنت کی بشارت پانے والے، اہل بیت اطہارؓ خاص طور پر حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓکے بارے میں کیا زبان درازی کرتا ہے اور کس طرح امت کی ان برگزیدہ ہستیوں کی شخصیات کو داغدار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پڑھئے اور نعوذ باللہ پڑھتے رہئے۔ کانوں کو ہاتھ لگائیے اور ایسے شخص سے بے زاری کا اعلان کیجئے۔ کیا ایسے بدطینت شخص کو زیب دیتا ہے کہ وہ اسلام کا دعویٰ کرے یا نام نہاد احمدیت کو اسلام کا ایک فرقہ قرار دے۔ ہرگز نہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کا ہر فرقہ، ہر مسلک، ہر جماعت ان تمام خرافات سے براًت کا اظہار کرتی ہے۔ مرزا مسرور فیصلہ کرے کہ کیا یہی وہ اسلام ہے جس کا اظہار آپ اپنی قادیانی جماعت کی طرف س

Address

Shangla

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Haider Ali posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share