Ayyan Hijama Center & Herbal Therapy Deepoke

31/08/2025

راوی میرے پنجاب دا اے

پنجاب کی شناخت، محبت اور تہذیب کا امین دریا

-مگر آلودگی و بے حسی سے زوال پذیر

دریائے راوی پنجاب کی روح اور پہچان ہے۔ یہ دریا محض پانی کا بہاؤ نہیں بلکہ اس دھرتی کی تاریخ، ثقافت اور محبت کا استعارہ ہے۔ صدیوں سے اس نے کھیتوں کو سیراب کیا، بستیوں کو آباد کیا اور لوگوں کو زندگی بخشی۔

---

صوفیاء اور شاعری کا فیض

راوی کے کنارے صوفیائے کرام کی محفلیں سجی ہیں، عشاق کی داستانیں رقم ہوئیں اور فنکاروں نے خوابوں کو لفظ و رنگ دیا۔ لاہور کی تاریخ میں یہ دریا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ اور حضرت میاں میرؒ کے قریب بہتا یہ دریا روحانی فیض کا نشان ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی اسی دھرتی اور دریا کو اپنی فکر کا سرچشمہ بنایا۔

---

موجودہ صورتحال: آلودگی اور بگاڑ

افسوس کہ آج کا راوی وہ شفاف دریا نہیں رہا جو کبھی پنجاب کی شان تھا۔ کچرے کے ڈھیر، فیکٹریوں کا زہریلا پانی اور ماحولیاتی بگاڑ نے اس کے حسن کو ماند کر دیا ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنی تہذیبی وراثت کو آلودگی کے سپرد کر رہے ہیں۔

---

ہماری ذمہ داری

وقت کا تقاضا ہے کہ راوی کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جائے۔ صاف پانی کی فراہمی، کچرے کا خاتمہ، ماحولیاتی منصوبہ بندی اور عوامی شعور ہی اس کا حل ہے۔ اگر ابھی قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

---

راوی زندہ ہے تو پنجاب زندہ ہے

راوی صرف ایک دریا نہیں بلکہ پنجاب کا دل ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا امین اور تہذیب کا آئینہ ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا:

راوی میرے پنجاب دا اے،
ساہواں وچ مہکدی خوشبو اے۔

---

اداریہ نما پیغام

ادارہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ دریائے راوی کی بحالی محض ایک ماحولیاتی ضرورت نہیں بلکہ ہماری ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی بقا کا سوال ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ فوری طور پر راوی کو بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، فیکٹریوں کے زہریلے اخراج پر پابندی لگائے اور عوامی سطح پر شعور بیدار کرے۔ عوام الناس کو بھی چاہیے کہ اپنے اس اثاثے کو ذاتی مفادات پر قربان نہ کریں۔ یاد رکھیے، اگر راوی سوکھ گیا تو پنجاب کی تاریخ، تہذیب اور محبت بھی مرجھا جائے گی۔ راوی کی حفاظت، پنجاب کی حفاظت ہے۔

29/08/2025

حوا کی یہ بیٹی حیا سے کیوں تنگ ہے؟

تحریر: حکیم عبدالمنان رانا

---

✒️ تمہید

حیا عورت کی پہچان ہے۔ یہ وہ زیور ہے جو نہ خریدا جا سکتا ہے نہ چھینا جا سکتا ہے۔ لیکن آج کا سوال یہ ہے کہ حوا کی یہ بیٹی، جس کے وجود کی اصل حیا ہے، آخر اس سے تنگ کیوں نظر آ رہی ہے؟

---

🌍 مغربی تہذیب اور میڈیا کا جادو

آج کا میڈیا، فیشن انڈسٹری اور سوشل میڈیا، عورت کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ حیا کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے۔ مغربی کلچر نے آزادی کے نام پر عورت کو بے حجابی اور نمائش کی راہ دکھائی اور ہماری بیٹیاں بھی اس فریب میں آ گئیں۔

---

🏫 تعلیم و تربیت میں خلا

گھروں میں دینی تربیت کمزور ہو چکی ہے۔ والدین دنیاوی کامیابی کے خواب تو دکھاتے ہیں مگر بیٹیوں کو یہ نہیں سکھاتے کہ ایمان اور عزت کی جڑ حیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نئی نسل اسے ’’پرانی سوچ‘‘ قرار دے کر رد کر رہی ہے۔

---

👗 فیشن پرستی اور دکھاوا

برانڈڈ لباس، جدید میک اپ اور مغربی انداز کو بیٹیوں نے اپنی کامیابی کا معیار بنا لیا ہے۔ حیا کو قدامت اور پردے کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے۔ یہی سوچ انہیں عزت کے بجائے نمائش کی راہوں پر ڈال رہی ہے۔

---

📖 حیا کی حقیقت

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"الحیاء شعبة من الإيمان"
یعنی ’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔
یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے، نہ کہ کوئی رکاوٹ۔ دراصل حیا عورت کا حصار ہے جو اسے غیر نگاہوں اور برے ارادوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

---

⚠️ نتائج

جب عورت حیا چھوڑ دیتی ہے تو معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوتا ہے۔ خاندان ٹوٹتے ہیں، اخلاقیات کمزور پڑتی ہیں اور نسلیں برباد ہو جاتی ہیں۔ آج عورت کو ’’شو پیس‘‘ بنایا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے بعض عورتیں خود اس پر خوش ہیں۔

---

✅ راستۂ اصلاح

والدین، اساتذہ اور علماء پر لازم ہے کہ وہ بیٹیوں کو یہ سمجھائیں کہ حیا کمزوری نہیں، طاقت ہے۔ اصل آزادی اپنی عفت اور وقار کی حفاظت میں ہے، نہ کہ مغربی فیشن کی اندھی تقلید میں۔

---

🕊️ اختتامیہ

حوا کی بیٹی کو یہ ماننا ہوگا کہ اس کی سب سے بڑی خوبصورتی اور سب سے بڑا ہتھیار حیا ہے۔ اگر وہ اس سے تنگ آ گئی تو روشنیوں میں بھی اندھیروں کا شکار رہے گی۔ لیکن اگر وہ حیا کو سینے سے لگائے رکھے گی تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور باعزت رہے گی۔

27/08/2025

📰 🌊 “سیلاب: قدرت کی پکار یا انسان کی خطا؟”

✍️ حکیم عبدالمنان رانا

---

تباہ کن بارشیں اور سیلاب

پاکستان ان دنوں شدید بارشوں اور خوفناک سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں بستیاں اجڑ رہی ہیں، کھیت کھلیان بہہ رہے ہیں، تو کہیں انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر، بچے، عورتیں اور بزرگ مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ایسے حالات میں ایک بڑا سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے: یہ سب کچھ آخر کیوں؟ کیا یہ محض قدرتی آفت ہے یا پھر ہمارے گناہوں کا نتیجہ؟

---

قرآن و سنت کی روشنی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ” (الشورى: 30)
ترجمہ: تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کیے کا بدلہ ہے، اور وہ بہت سے گناہوں کو معاف بھی کر دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا:
“جب لوگ کھلم کھلا گناہ کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی آفات مسلط کر دیتا ہے جو پہلے ان میں نہ تھیں۔” (ابن ماجہ)

یہ نصوص ہمیں واضح پیغام دیتی ہیں کہ آفات و مصیبتیں کبھی گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور کبھی اللہ کی طرف سے آزمائش۔

---

ہماری کوتاہیاں

جنگلات کی بے دریغ کٹائی

دریاؤں اور نالوں پر قبضے

کرپشن اور ناقص منصوبہ بندی

نکاسی آب کے نظام کی تباہی
یہ سب عوامل آفات کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ یوں ہم خود اپنے ہاتھوں سے حالات کو بدتر بنا لیتے ہیں۔

---

آزمائش کا پہلو

بسا اوقات یہ حالات اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوتے ہیں تاکہ ہم صبر و رجوع اختیار کریں۔ یہ لمحہ ہمیں اپنی اصلاح، توبہ اور اللہ کی طرف جھکنے کی دعوت دیتا ہے۔

---

ہماری ذمہ داریاں

✅ توبہ و استغفار: گناہوں سے سچی توبہ کریں۔
✅ عملی اصلاح: قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاریں۔
✅ ماحول کی حفاظت: پانی، زمین اور جنگلات کا خیال رکھیں۔
✅ فلاحی جذبہ: متاثرہ افراد کی مدد کریں۔
✅ منصوبہ بندی: حکومت اور ادارے سنجیدہ حکمتِ عملی اختیار کریں۔

---

اختتامی کلمات

یہ سیلاب بیک وقت آزمائش بھی ہے اور ہمارے اعمال کا نتیجہ بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھنجھوڑ کر یاد دلا رہا ہے کہ زمین پر ہم سنوارنے والے بنیں، بگاڑنے والے نہیں۔ اگر ہم اجتماعی توبہ، صبر اور عملی اصلاح اختیار کر لیں تو یہی آفت ہمارے لیے مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

27/08/2025

رحم کر مالکا تو روک لے سیلاباں نوں
اسی تیرے بندے ہاں تو موڑ دے عذاباں نوں
😰😭😰

26/08/2025

🖊️ طوفانی بارشیں اور سیلابی صورتحال — اللہ تعالیٰ سے رجوع کی ضرورت

ضلع سیالکوٹ اور گردونواح ان دنوں طوفانی بارشوں اور سیلابی کیفیت سے دوچار ہیں۔ نشیبی علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں، گھروں اور دکانوں میں پانی داخل ہو گیا ہے، اور شہری خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہ صورتِ حال ہمیں ایک اہم حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان اپنی ترقی اور طاقت پر کتنا ہی ناز کرے، قدرت کی ایک جھلک پوری بساط کو تہ و بالا کر دیتی ہے۔

ایسے حالات میں سب سے پہلی ضرورت تدابیر اور احتیاط کی ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر اصل ضرورت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہے۔ قرآن کریم میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ آزمائش کے اوقات میں بندے اپنے رب کو پکاریں، استغفار کریں اور اس کی رحمت کے طلبگار ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے بارش اور آفات کے مواقع پر دعاؤں اور صدقات کو مصیبتوں سے نجات کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

آج جب ہمارا خطہ بارشوں اور سیلاب سے دوچار ہے تو یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اجتماعی توبہ کریں، اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق سنوارنے کی کوشش کریں اور صدقہ و خیرات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو ٹالنے کی کوشش کریں۔

یہ وقت صرف انتظامیہ یا ریسکیو اداروں کے امتحان کا نہیں بلکہ ہم سب کے ایمان اور عمل کا بھی امتحان ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نہ صرف احتیاطی تدابیر اختیار کریں بلکہ اپنے رب کے سامنے جھک کر یہ دعا کریں کہ:
“اے اللہ! یہ بارش ہمارے لیے رحمت بنا، زحمت نہیں۔ اے اللہ! ہمیں اور ہمارے شہروں کو اپنے حفظ و امان میں لے لے۔”

یقیناً اگر ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں گے تو یہ بارشیں رحمت میں بدل جائیں گی اور ہمارے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنیں گی۔

حکیم عبدالمنان رانا

26/08/2025

🖊️ سیالکوٹ میں بارش اور سیلابی صورتحال — عوام اور انتظامیہ کے لیے لمحۂ فکر

ضلع سیالکوٹ اور گردونواح گزشتہ شب سے مسلسل بارش کے نرغے میں ہیں۔ رات دس بجے سے جاری موسلا دھار بارش نے شہر کے نشیبی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ گلیاں، سڑکیں اور بازار ندی نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ نالہ ڈیک سمیت مقامی ندی نالوں میں طغیانی کے باعث دیہات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ سیالکوٹ کو بارشوں نے یوں اپنی لپیٹ میں لیا ہو۔ ہر برس برسات کے دنوں میں یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے وقتی اقدامات تو کیے جاتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر نکاسیٔ آب کے نظام کی بہتری اب بھی ایک خواب ہی نظر آتی ہے۔

متاثرہ شہری پریشانی کے عالم میں ہیں۔ گھروں اور دکانوں میں پانی داخل ہونے سے قیمتی سامان ضائع ہو رہا ہے۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ریسکیو ٹیمیں اپنی جگہ متحرک ہیں مگر بارش کا سلسلہ جاری رہنے کے باعث ان کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

ایسے حالات میں ضروری ہے کہ عوام خود بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ نشیبی علاقوں کے مکین فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوں، بجلی کی کھلی تاروں اور کھمبوں سے دور رہیں اور بارش کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر نکاسیٔ آب کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ سیلابی علاقوں میں مستقل حفاظتی اقدامات کرے تاکہ ہر سال شہریوں کو اسی اذیت ناک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ بارش ایک وارننگ ہے کہ اگر فوری اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں نقصان کہیں زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔

حکیم عبدالمنان رانا

24/08/2025

طبِ یونانی تاریخ کے آئینے میں
از قلم:ـ حکیم عبدالمنان رانا

طبِ یونانی دنیا کی قدیم ترین اور عظیم الشان علاجی و معالجاتی نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک طبی نظام نہیں بلکہ ایک فلسفہ، طرزِ فکر اور طرزِ حیات بھی ہے۔ انسان نے جب سے بیماری اور صحت کا شعور پایا، اس وقت سے علاج و معالجے کی جستجو بھی جاری رہی۔ طبِ یونانی اسی فکری و عملی کاوش کا تسلسل ہے، جو ہزاروں سال کے سفر کے بعد آج تک قائم ہے۔

آغاز اور ارتقا

طبِ یونانی کی جڑیں یونان کی قدیم تہذیب میں پیوست ہیں۔ اس کے بانی کے طور پر بقراط (Hippocrates) کو مانا جاتا ہے، جنہیں "بابائے طب" کہا جاتا ہے۔ بقراط نے انسانی جسم کے توازن کو "اخلاطِ اربعہ" (دم، صفرا، بلغم، سودا) کے اصول پر سمجھایا۔ ان کے نزدیک صحت کا مطلب ان اخلاط میں توازن جبکہ بیماری کا مطلب ان میں بگاڑ تھا۔

بقراط کے بعد جالینوس (Galen) نے اس علم کو مزید ترقی دی اور تفصیل کے ساتھ اعضا کی بناوٹ، فعالیات اور ادویہ کی تاثیرات کو بیان کیا۔ جالینوس کی تحقیقات صدیوں تک یورپ اور مشرق دونوں میں طبی علم کی اساس رہیں۔

اسلامی عہد میں عروج

یونان کے بعد طبِ یونانی کو اصل عروج اسلامی دورِ عروج میں ملا۔ خلفائے عباسیہ کے دور میں یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا اور مسلم اطباء نے اس علم میں نئی جہتیں پیدا کیں۔ حارث بن کلدہ، رازی، ابنِ سینا، علی بن عباس مجوسی اور ابنِ زہر جیسے نامور اطباء نے طبِ یونانی کو عملی اور نظری لحاظ سے چار چاند لگا دیے۔

ابنِ سینا کی شہرۂ آفاق کتاب "القانون فی الطب" صدیوں تک یورپ و ایشیا کی درسگاہوں میں نصاب رہی۔ اسی طرح الرازی کی "الحاوی" نے طب کے عملی پہلوؤں کو نئی روشنی بخشی۔ مسلم اطباء نے جڑی بوٹیوں، غذاؤں اور ادویہ کے استعمال کو منظم کر کے طبِ یونانی کو ایک مکمل اور جامع نظام علاج بنا دیا۔

برصغیر میں طبِ یونانی

برصغیر ہند میں طبِ یونانی مغل دور میں آیا اور تیزی سے مقبول ہوا۔ یہاں کے اطباء نے مقامی جڑی بوٹیوں اور نسخہ جات کو طبِ یونانی کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ اس سرزمین نے حکیم اجمل خان، حکیم کبیرالدین، حکیم شاہ نواز اور حکیم محمد سعید جیسے گوہر نایاب پیدا کیے جنہوں نے طبِ یونانی کو عام آدمی تک پہنچایا۔

موجودہ دور میں مقام

آج کے سائنسی دور میں بھی طبِ یونانی اپنی افادیت کی بنا پر زندہ ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی حصوں میں آج بھی یہ نظام عوامی صحت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی طب و یونانی کو متبادل علاج کے طور پر باضابطہ تسلیم کیا ہے۔

طبِ یونانی کی اصل طاقت اس کا قدرتی اور فطری اصول ہے کہ انسان کی صحت توازن اور اعتدال میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طب آج بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

نتیجہ

طبِ یونانی محض ایک قدیم نظام نہیں بلکہ انسان کی صدیوں پر محیط علمی و تجرباتی کاوش ہے۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ صحت کا راز توازن، فطرت سے قربت اور احتیاط میں ہے۔ اگر ہم اس ورثے کو جدید تحقیق کے ساتھ جوڑیں تو یقیناً یہ نظام آج کے دور میں بھی انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت بن سکتا ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَیقیناً یہ اہلِ حدیث کے جید علما کی دلگیر تصویر ہے۔ اہلِ حدیث کے یہ جلیل القد...
22/08/2025

اِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

یقیناً یہ اہلِ حدیث کے جید علما کی دلگیر تصویر ہے۔
اہلِ حدیث کے یہ جلیل القدر علما کرام، جو قلیل عرصے میں ایک ایک کرکے اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے، دراصل امت کے روشن چراغ اور دین کے قلعے تھے۔ ان کی وفات سے علم و ہدایت کی فضائیں سونی ہوگئیں اور دل غم سے بھر گئے۔

علماء کرام کی وفات دراصل علم و ہدایت کے چراغوں کا بجھ جانا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ"
(بے شک اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے علم چھین لے، بلکہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعے قبض کر لے گا۔)
(بخاری و مسلم)

یہ وقت امت کے لیے ایک پیغام ہے کہ علما کی قدر کی جائے، ان کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے کو آگے بڑھایا جائے۔

اللہ رب العزت ان سب مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اور امت کو ان کے نعم البدل علما عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
اے اللہ!
ان سب مرحوم علما کرام کی مغفرت فرما،
ان کی قبروں کو جنت کا باغ بنا،
ان کے درجات کو بلند فرما،
ان کے چھوڑے ہوئے علمی و دینی ورثے کو ہمارے لیے باعثِ ہدایت بنا،
اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

اللّٰہم اجزِھم عن الإسلام والمسلمین خیر الجزاء،
اللّٰہم آنِس وحشتھم فی قبورھم،
اللّٰہم نوّر قبورھم بالقرآن،
واجعل قبورھم روضۃً من ریاض الجنۃ۔

آمین یا رب العالمین۔

22/08/2025

✨ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دے، دکھ اور غم آپ سے کوسوں دور رہیں، اور آپ کے دل کو ہمیشہ سکون اور اطمینان نصیب ہو۔ 🤲

❤️ زندگی کا اصل حسن یہ ہے کہ دل ہمیشہ رب کے قریب رہے اور زبان پر ہمیشہ "الحمدللہ" جاری رہے۔

حکیم عبدالمنان رانا

نقرس طبِ یونانی میںنقرس کو "داء الملوک" (بادشاہوں کی بیماری) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل جوڑوں میں یورک ایسڈ کے اخراج میں ...
20/08/2025

نقرس طبِ یونانی میں

نقرس کو "داء الملوک" (بادشاہوں کی بیماری) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل جوڑوں میں یورک ایسڈ کے اخراج میں کمی اور اس کے اجتماع کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

---

🔹 مزاج:

طب یونانی کے مطابق نقرس زیادہ تر سوداوی اور بلغمی مزاج کا مرض ہے، تاہم اکثر اس کی اصل جڑ سوداوی اخلاط کی زیادتی ہوتی ہے۔

---

🔹 اسباب:

1. اخلاطِ فاسدہ خصوصاً سوداوی مادہ کا جسم میں جمع ہونا۔

2. پرُ تعیش غذا (گوشت، چکنائی، دال مسور، چنے، ماش وغیرہ) کا زیادہ استعمال۔

3. تیز مصالحہ دار اور ترش غذائیں۔

4. شراب یا نشہ آور اشیاء (قدیم کتب میں ذکر ملتا ہے)۔

5. مسلسل قبض رہنا۔

6. کم جسمانی حرکت اور زیادہ آرام طلب زندگی۔

7. ذہنی دباؤ اور غصہ۔

8. موروثی رجحان (بعض خاندانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے)۔

---

🔹 علامات:

1. پاؤں کے انگوٹھے یا گھٹنے کے جوڑ میں شدید درد اور سوجن۔

2. جوڑ سرخ اور گرم محسوس ہونا۔

3. درد رات کو بڑھ جانا۔

4. ہلکی بخار کی کیفیت۔

5. جوڑوں میں سختی اور اکڑاؤ۔

6. پرانی صورت میں گٹھلیاں (Tophi) بن جانا۔

7. بعض مریضوں میں قبض، بدہضمی اور بھاری پن بھی ساتھ ہوتا ہے۔

---

🔹 احتیاطی تدابیر و پرہیز:

1. غذا میں پرہیز

گوشت (خصوصاً لال گوشت اور کلیجی وغیرہ) سے پرہیز۔

دال ماش، چنے، مسور، مٹر، پالک، شلجم، بند گوبھی، تیز مصالحہ دار کھانے سے پرہیز۔

زیادہ نمک اور ترش اشیاء سے اجتناب۔

2. مفید غذائیں

سبز پتوں والی ہلکی سبزیاں (کدو، لوکی، توری، کھیرا وغیرہ)۔

دودھ، دہی (بغیر بالائی)۔

زیادہ پانی پینا۔

جو کی روٹی یا دلیہ۔

پھلوں میں سیب، ناشپاتی، انگور اور ترش کم مقدار میں۔

3. طرزِ زندگی

قبض سے بچاؤ (ہلکی جلابی تدابیر)۔

زیادہ آرام طلبی سے اجتناب، مگر سخت مشقت بھی نہ ہو۔

روزانہ ہلکی چہل قدمی۔

ذہنی دباؤ اور غصے سے پرہیز۔

نقرس کے مکمل علاج کے لیے آپ کا انتخاب ۔
آیان حجامہ سنٹر اینڈ ہربل تھراپی
نونار روڈ دیپوکے ،
اوقات کار ،
اتوار ۔
صبح 9بجے سے رات 9 بجے تک ۔
مطب الحمید اینڈ حجامہ سنٹر
خواجہ انور چوک پل ایک سیالکوٹ
03457442488

18/08/2025

for Contact
03457442488

16/08/2025

بونیر، قیامت صغریٰ کا منظر 🌧️

بونیر کی سرزمین آج قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ بارشوں اور زمینی کٹاؤ نے ایسا منظر بنا دیا ہے کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی چھتیں، مٹی میں دھنسی زندگیاں، اور بے یارو مددگار خاندان، یہ سب کچھ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قیامت صغریٰ کا سماں ہے۔

یہ وقت ہم سب کے لیے آزمائش ہے۔ آئیے! اپنی دعاؤں میں بونیر کے متاثرین کو یاد رکھیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے سائے تلے ان مظلوموں کو سکون عطا فرمائے اور ہمیں خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار کرے۔

🤲 اے اللہ! بونیر کے باسیوں پر اپنا خاص کرم فرما۔
حکیم عبدالمنان رانا

Address

Sialkot

Opening Hours

Monday 15:00 - 22:00
Tuesday 15:00 - 22:00
Wednesday 15:00 - 22:00
Thursday 15:00 - 22:00
Friday 15:00 - 22:00
Saturday 15:00 - 22:00
Sunday 15:00 - 22:00

Telephone

+923003613055

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ayyan Hijama Center & Herbal Therapy Deepoke posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ayyan Hijama Center & Herbal Therapy Deepoke:

Share