15/10/2025
سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام
(15 اکتوبر، 2025)
"ماضی کے ڈکٹیٹرز کے ادوار میں بھی ظلم و ستم کی تاریخ رقم کی گئی مگر عاصم منیر نے ہر حد عبور کر لی ہے۔ دو سال میں پاکستان میں سویلینز کے قتل عام کے چار بڑے واقعات ہوچکے ہیں۔ جن میں پہلا 9 مئی، دوسرا 26 نومبر، تیسرا آزاد کشمیر اور چوتھا مریدکے قتلِ عام ہے۔ اپنی ہی عوام پر ایسا ظلم کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ باعث تکلیف بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں کوئی بیرونی دشمن نہیں، بلکہ اپنی ہی پولیس، رینجرز اور پیرا ملٹری فورس کے ہاتھوں اپنے ہی ہم وطنوں کو بےدردی سے شہید کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز سے ثابت ہے۔
مجھے اس بات کی بھی بہت تکلیف اور افسوس ہے کہ قتلِ عام کے جتنے بھی واقعات ہوئے نہ ہی ان پر کوئی جوڈیشل کمیشن بنا نہ ہی انکوائری ہوئی اور نہ ہی ذمہ داران کو سزا سنائی گئی۔ میں چاہتا ہوں کہ مریدکے قتلِ عام پر جوڈیشل کمیشن بنا کر آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ کیونکہ قتلِ عام کے ان واقعات میں تعداد کے حوالے سے شدید ابہام پایا جاتا ہے جیسا کہ مریدکے واقعے میں سرکاری اطلاعات کے مطابق 4 مظاہرین جان سے گئے جبکہ متاثرہ فریق کے مطابق حقیقی تعداد 400 سے 600 تک ہے۔
قتلِ عام کی جوڈیشل انکوائری میں ظلِ شاہ کے قتل میں ملوث آئی جی پنجاب عثمان انور سمیت آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی کو ضرور شاملِ تحقیقات کیا جائے کیونکہ قتلِ عام کے ان واقعات میں یہ بھی حصے دار ہیں۔
میں تاکید کرتا ہوں کہ خیبرپختونخوا میں ہمارے کارکنان اور عوام بعد از نمازِ جمعہ مریدکے قتلِ عام کیخلاف احتجاجاً نکلیں۔ یہ کسی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اس بربریت کیخلاف آواز اٹھائیں اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کریں۔ اس ظلم اور بربریت کا راستہ نہ روکا گیا تو باری باری سب اس کی زد میں آئیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی باعثِ تشویش ہے۔ دو مسلم ہمسایہ ممالک کے درمیان لڑائی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو لڑائی کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا بہتر ہے۔ جس طرح یہاں تین نسلوں سے مقیم افغان پناہ گزینوں کو دہائیوں کی مہمان نوازی کے بعد دھکے دے کر ملک بدر کیا گیا ہے، وہ بھی افسوسناک ہے۔ افغانستان ہمارا مسلم ہمسایہ ملک ہے۔ دہشتگردی سے متعلق معاملات بات چیت سے حل کیے جائیں۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ ڈکٹیٹرز کبھی بھی امن نہیں لاسکتے- کیونکہ ملٹری ڈکٹیٹرز کو Military Solution کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا- یحیٰی خان سمیت تمام ڈکٹیٹرز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں- یہ معاملات سیاستدان معاملہ فہمی سے حل کرتے ہیں۔ اگر ان سے نہیں ہوتا تو مجھے پیرول پر رہا کیا جائے تاکہ دیرپا امن کے قیام اور افغانستان سے تنازعے کے حل کے لیے میں اپنا کردار ادا کروں۔
ملکی حالات سے مایوس ہو کر پہلے ہی تیس لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ملک سے تیزی سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا انخلاء جاری ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات ملک کے اندر سے بھی سرمایہ تیزی سے باہر جا رہا ہے۔ جب تک ملک میں امن نہیں ہوگا سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔ اور سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں معاشی استحکام ممکن نہیں-
ملک میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی غیر محفوظ ہیں۔ کسی کو یہ نہیں پتہ کون کب سڑک پر مارا جائے یا اٹھا لیا جائے۔ آزادی اظہار پر شدید قدغن ہے، میڈیا کو بولنے کی آزادی نہیں، جس طرح علیمہ خان پر بےجا مقدمہ بنایا گیا ایسا کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔”