Bulland Awaaz بلند آواز

Bulland Awaaz  بلند آواز news

د روښان صيب د کتاب د رڼاکور او د نورالامين يوسفزي صيب د افسانو د کلياتو دا قيصې دا افسانې کتابونو د مخ کتنې دستوره له اړ...
08/09/2025

د روښان صيب د کتاب د رڼاکور او د نورالامين يوسفزي صيب د افسانو د کلياتو دا قيصې دا افسانې کتابونو د مخ کتنې دستوره له اړخه ماڼکۍ ادبي حجره صوابۍ

08/09/2025

خيبر پښتونخوا حکومت کی جانب سے سرکاری تعليمی اداروں کی نجکاری کے خلاف زیده بازار میں اولسی جرگه زيده و تمام سياسی قاعدين کا بروز جمعرات 5 بجے بهرپور احتجاج کا اعلان
احتجاج کی تيارياں زور و شور سے جاری

د پښتو ادب لمن کښې د صوابۍ منفرد اعزازد نامتو لپکوال او پښتو خاکې بابا ښاغلي ګل محمد بېتاب  د خاکو کتاب" د اباسين په غاړ...
08/09/2025

د پښتو ادب لمن کښې د صوابۍ منفرد اعزاز
د نامتو لپکوال او پښتو خاکې بابا ښاغلي ګل محمد بېتاب د خاکو کتاب" د اباسين په غاړه" چاپ شو ۔
دې کتاب کښې ليکلې شوې 17 خاکې د صوابۍ په مختلفو سترو علمي،۔ ادبي، سياسي او سماجي شخصياتو مشتمل دي
محترم بېتاب صاحب ته مبارکي ۔

08/09/2025

Abruzzo , italia 🇮🇹 Beautiful view

صوابی تورڈھیر سینئر صحافی بابو لاجبر خان اور معروف کاروباری شخصیت نیاز میر خان کے درمیان لین دین کی وجہ سے ایک لمبے عرصے...
08/09/2025

صوابی
تورڈھیر سینئر صحافی بابو لاجبر خان اور معروف کاروباری شخصیت نیاز میر خان کے درمیان لین دین کی وجہ سے ایک لمبے عرصے سے تنازع چلا آ رہا تھا جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ناراضگی اور مسائل سنگین ہوتے گئے جو کہ آج جرگہ مشران ظہور خان ، صحافی ایوب خان ، ملک افتخار خان، ممتاز خان، عنایت خان، اختر منیر اور ظاہر خان کی کوششوں سے تمام لین کے معملات کلیر کرنے کے بعد دونوں
فریقین میں راضی نامہ ہوگیا

چار صوبے، چار زنجیریں یا ایک مضبوط وفاق؟تحریر: خالد داؤد خانپاکستان آج بھی نوآبادیاتی دور کے بڑے صوبائی ڈھانچے میں جکڑا ...
08/09/2025

چار صوبے، چار زنجیریں یا ایک مضبوط وفاق؟

تحریر: خالد داؤد خان

پاکستان آج بھی نوآبادیاتی دور کے بڑے صوبائی ڈھانچے میں جکڑا ہوا ہے، جہاں چار اکائیاں وسائل اور سیاست پر قابض ہیں۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ ڈویژنز کو صوبوں میں بدل کر عوام کو براہِ راست بااختیار بنایا جائے؟

قیامِ پاکستان کے وقت ہمیں متحدہ ہندوستان سے پانچ صوبے ملے تھے۔ محض پچیس برس بعد مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا اور یوں ملک چار صوبوں تک محدود رہ گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ صوبے محض انتظامی اکائیاں نہیں رہے بلکہ باقاعدہ قومیتوں میں ڈھل گئے ہیں۔ ان کے سیاسی نعروں نے وفاق کو مضبوط کرنے کے بجائے اکثر کمزور کیا ہے اور “پنجاب کارڈ، سندھی کارڈ، بلوچ کارڈ اور پختون کارڈ” کے سائے میں قومی پالیسی تشکیل پاتی رہی ہے۔

یہ ڈھانچہ دراصل نوآبادیاتی وراثت ہے۔ برطانوی حکمرانوں نے بڑے صوبے اپنی سہولت کے لیے قائم رکھے کیونکہ ان کا مقصد عوامی خدمت نہیں بلکہ کنٹرول تھا۔ آزادی کے بعد ضرورت تھی کہ ہم اس ماڈل کو بدل کر عوامی خدمت کو بنیاد بناتے، مگر ہم نے الٹا ون یونٹ کا تجربہ کیا، جس نے مشرقی پاکستان میں بداعتمادی کو جنم دیا اور بالآخر علیحدگی کی راہ ہموار کی۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بھی اختیارات عوام تک منتقل نہیں ہوئے بلکہ چار صوبے پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئے۔

دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بھارت کو تقسیم میں 12 صوبے ملے تھے، آج وہاں 28 ریاستیں اور 8 یونین ٹیریٹریز ہیں۔ ترکی کے 81 صوبے ہیں اور بڑے شہروں کو بھی الگ شہری حکومتوں کا درجہ حاصل ہے۔ افغانستان، جو آبادی میں ہمارے صوبہ خیبرپختونخواہ جتنا ہے، 34 صوبوں میں تقسیم ہے۔ چھوٹی اکائیوں کی یہی کثرت وہاں مسلسل جنگوں اور بحرانوں کے باوجود علیحدگی پسندی کو پنپنے نہیں دیتی۔

پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ بڑے صوبے وسائل پر قابض ہیں اور ترقی کے ثمرات نچلی سطح تک نہیں پہنچتے۔ وفاقی گرانٹس صوبائی اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرکوز رہتی ہیں جبکہ عام آدمی کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ یہ تاثر مضبوط ہوچکا ہے کہ صوبے ملک کے ماتحت نہیں بلکہ خود وفاق کو اپنی شرائط پر چلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ڈھانچے کو کیسے بدلا جائے؟ ہمارے ہاں پہلے ہی 37 ڈویژنز موجود ہیں۔ اگر ان ڈویژنز کو مختصر کابینہ اور محدود انتظامیہ کے ساتھ صوبائی درجہ دے دیا جائے تو وسائل زیادہ منصفانہ تقسیم ہوں گے اور عوام براہِ راست بااختیار بن سکیں گے۔ چھوٹے صوبے نہ صرف سروس ڈیلیوری بہتر کریں گے بلکہ لسانی سیاست کے ہتھیار بھی غیر مؤثر ہوجائیں گے۔

دنیا کے کئی ملکوں نے ثابت کیا ہے کہ جب اختیارات اور وسائل عوام کے قریب منتقل کیے جاتے ہیں تو تعلیم، صحت، مقامی سڑکوں اور شہری خدمات میں حقیقی بہتری آتی ہے۔ پاکستان کے لیے بھی یہی ماڈل زیادہ موزوں ہے۔ مسئلہ نئے جھنڈے بنانے یا شناختی سیاست چمکانے کا نہیں، بلکہ عوام کو وہ سہولتیں فراہم کرنے کا ہے جو ایک جدید ریاست کی پہچان ہیں۔

اگر پاکستان نے اپنے انتظامی ڈھانچے کو عوامی خدمت کی بنیاد پر ازسرِنو نہ ڈھالا تو ہم ہمیشہ چار صوبوں کی بلیک میلنگ میں الجھے رہیں گے؛ لیکن اگر ہم نے بروقت درست فیصلے کیے تو یہی سرزمین ایک مضبوط، منصف اور جدید وفاق کی مثال بن سکتی ہے۔

07/09/2025

*صوابی:
تھانہ ٹوپی پولیس کی کارروائی، ٹک ٹاک پر اسلحہ کی نمائش کرنے والا ملزم گرفتار*

ڈی ایس پی سرکل ٹوپی حسین خان کی قیادت میں ایس ایچ او تھانہ ٹوپی نعیم خان نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر اسلحہ کی نمائش کرنے والے ملزمان کا سراغ لگایا اور ملزم تیمور ساکن ٹوپی کو پستول سمیت گرفتار کر لیا۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔

*ڈی پی او صوابی کی واضح ہدایات کے مطابق ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی اور قانون شکنی پر مبنی ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔

07/09/2025

ٹک ٹاکروں خبردار ڈی پی او صوابی آپ سب کو دیکھ رہا ہے
مشرہ DPO صیب درتہ گوری دہ فاریو نہ🥱
یارہ خو پختونخوا پولیس بس زندہ باد دا ٹول ٹک ٹاکران با وس پخپلہ لاری تا رازی😘

07/09/2025

خوبصورت بال، نیا اعتماد
اب ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے پشاور یا اسلام آباد جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
کیونکہ بدلون لیزر سینٹر
لے آیا ہے آپ کے شہر صوابی تورڈیر میں
جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ بہترین اور معیاری ہیئر ٹرانسپلانٹ سروس۔

• بالوں کی قدرتی خوبصورتی واپس پائیں
• شخصیت میں نیا نکھار لائیں
• پروفیشنل اور ماہر ٹیم کی دیکھ بھال کے ساتھ

اب آپ کے خواب حقیقت میں بدلیں گے، وہ بھی آپ کے اپنے شہر صوابی تورڈھیر میں۔
اعتماد کے ساتھ نیا لُک پائیں، اور اپنی شخصیت میں نکھار لائیں

07/09/2025

Address

Swabi
Swabi
23340

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 12:00
Saturday 10:00 - 15:00

Telephone

+923339013759

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bulland Awaaz بلند آواز posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Bulland Awaaz بلند آواز:

Share