Moneymagnetonline

Moneymagnetonline Welcome to our page dedicated to helping you unlock the potential for online earnings in Pakistan!

Discover various opportunities, tips, and strategies to earn money online from the comfort of your home.

21/05/2024

https://www.cpagrip.com/signup.php?ref=2108497
What is CPAGrip?

CPAGrip is a performance-based affiliate marketing network that allows affiliates to monetize their traffic through various offers and campaigns. Affiliates can promote these offers and earn a commission when a specific action is completed by a visitor, such as signing up for a newsletter, filling out a form, or making a purchase.

CPAGrip offers a wide range of campaigns in various niches, including gaming, health, finance, and more. Affiliates can choose from different types of offers, including CPA (Cost Per Action), CPL (Cost Per Lead), and CPI (Cost Per Install), among others.

Affiliates can access a dashboard to track their earnings, view real-time statistics, and optimize their campaigns for better results. CPAGrip provides support and resources to help affiliates maximize their earnings and succeed in affiliate marketing.
get yourself registered online today
https://www.cpagrip.com/signup.php?ref=2108497

21/05/2024

"Welcome to our page dedicated to helping you unlock the potential for online earnings in Pakistan! Discover various opportunities, tips, and strategies to earn money online from the comfort of your home. Whether you're looking to freelance, start an online business, or explore passive income streams, we've got you covered. Join us to learn, connect with like-minded individuals, and embark on your journey to financial freedom. Let's navigate the world of online earnings together and pave the way for a brighter future. "

18/05/2024

وفات سے 3 روز قبل جبکہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
ام المومنین
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے،

ارشاد فرمایا

کہ
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"

تمام ازواج مطہرات
جمع ہو گئیں۔
تو
حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے
دریافت فرمایا:
کیا

تم سب
مجھے اجازت دیتی ہو
کہ
بیماری کے دن
میں
عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"

سب نے کہا
اے اللہ کے رسول
آپ کو اجازت ہے۔

پھر
اٹھنا چاہا
لیکن اٹھہ نہ پائے
تو
حضرت علی ابن ابی طالب
اور
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے
اور
نبی علیہ الصلوة والسلام کو
سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔

اس وقت
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو
گھبرا کر
ایک دوسرے سے پوچھنے لگے

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟

چنانچہ
صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور
مسجد نبوی میں
ایک رش لگ گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا
پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ
میں نے اپنی زندگی میں
کسی کا
اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور
فرماتی ہیں:

"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور
اسی کو
چہرہ اقدس پر پھیرتی

کیونکہ
نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ
میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ
محترم اور پاکیزہ تھا۔"

مزید
فرماتی ہیں
کہ حبیب خدا
علیہ الصلوات والتسلیم
سے
بس یہی
ورد سنائی دے رہا تھا
کہ
"لا إله إلا الله،
بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"

اسی اثناء میں
مسجد کے اندر
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔

نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
یہ
کیسی آوازیں ہیں؟

عرض کیا گیا
کہ
اے اللہ کے رسول!
یہ
لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔

ارشاد فرمایا کہ
مجھے ان کے پاس لے چلو۔
پھر
اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن
اٹھہ نہ سکے
تو
آپ علیہ الصلوة و السلام پر
7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے،
تب
کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا
تو
سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔

یہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا
آخری خطبہ تھا
اور
آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔

فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید
تمہیں
میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"

ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں،
تم سے
میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے،

اللہ کی قسم گویا کہ
میں یہیں سے
اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،

اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر
تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر
دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے،
کہ
تم اس (کے معاملے) میں
ایک دوسرے سے
مقابلے میں لگ جاؤ گے

جیسا کہ
تم سے پہلے
(پچھلی امتوں) والے لگ گئے،
اور
یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے گی
جیسا کہ
انہیں ہلاک کر دیا۔"

پھر
مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
نماز کے معاملے میں
اللہ سے ڈرو،
اللہ سےڈرو۔
نماز کے معاملے میں
اللہ سے ڈرو،

(یعنی عہد کرو
کہ نماز کی پابندی کرو گے،
اور
یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)

پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔!
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،

میں تمہیں
عورتوں سے
نیک سلوک کی
وصیت کرتا ہوں۔"

مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔!
ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا
کہ
دنیا کو چن لے
یا اسے چن لے
جو
اللہ کے پاس ہے،
تو
اس نے اسے پسند کیا جو
اللہ کے پاس ہے"

اس جملے سے
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد
کوئی نہ سمجھا حالانکہ
انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ
وہ
تنہا شخص تھے
جو
اس جملے کو سمجھے اور
زارو قطار رونے لگے
اور
بلند آواز سے
گریہ کرتے ہوئے
اٹھہ کھڑے ہوئے
اور
نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔

"ہمارے باپ دادا
آپ پر قربان،
ہماری
مائیں آپ پر قربان،
ہمارے بچے آپ پر قربان،
ہمارے مال و دولت
آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں
اور
یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے
کہ
انہوں نے
نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کر دی؟

اس پر
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع
ان الفاظ میں فرمایا:

"اے لوگو۔۔۔!
ابوبکر کو چھوڑ دو
کہ
تم میں سے ایسا کوئی نہیں
کہ جس نے
ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو
اور
ہم نے
اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو،
سوائے ابوبکر کے،
کہ
اس کا بدلہ
میں نہیں دے سکا۔
اس کا بدلہ
میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔

مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں،

سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ
جو کبھی بند نہ ہوگا۔"

آخر میں
اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے
آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،
تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔

اور
آخری بات
جو ممبر سے اترنے سے پہلے
امت کو
مخاطب کر کے
ارشاد فرمائی
وہ
یہ کہ:"اے لوگو۔۔۔!
قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو
میرا سلام پہنچا دینا۔"

پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو
دوبارہ سہارے سے
اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔

اسی اثناء میں
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے
اور
ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
مسواک کو دیکھنے لگے لیکن
شدت مرض کی وجہ سے
طلب نہ کر پائے۔

چنانچہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں
اور
انہوں نے
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے
دہن مبارک میں رکھ دی،

لیکن
حضور صلی اللہ علیہ و سلم
اسے استعمال نہ کر پائے
تو
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے
مسواک لے کر
اپنے منہ سے نرم کی اور
پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی
تاکہ دہن مبارک
اس سے تر رہے۔

فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو
نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے
پیٹ میں گئی
وہ
میرا لعاب تھا،
اور
یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا
کہ
اس نے وصال سے قبل میرا
اور
نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"

اُم المؤمنين
حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں
اور
آتے ہی رو پڑیں
کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ
نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا
کہ
جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم
انکے ماتھے پر
بوسہ دیتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
اے فاطمہ! "
قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے
ان کے کان میں
کوئی بات کہی
تو
حضرت فاطمہ
اور
زیادہ رونے لگیں،

انہیں اس طرح روتا دیکھ کر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
پھر فرمایا
اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں
کوئی بات ارشاد فرمائی
تو
وہ خوش ہونے لگیں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد
میں نے
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا
کہ
وہ کیا بات تھی
جس پر روئیں
اور
پھر خوشی کا اظہار کیا تھا؟

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں
کہ
پہلی بار
(جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔

جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب
انہوں نے
مجھے بے تحاشا روتے دیکھا تو
فرمانے لگے: "فاطمہ!
میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے
تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر
میں خوش ہوگئی۔۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
سب کو
گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ!
میرے قریب آجاؤ۔۔۔"

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی
اور
ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے
وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔

(میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء
اور
صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)

صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں
سمجھ گئی
کہ
انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"

جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله!
ملَکُ الموت
دروازے پر کھڑے
شرف باریابی چاہتے ہیں۔
آپ سے پہلے
انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"

آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"

ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے،
اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله!
مجھے اللہ نے
آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجا ہے
کہ
آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں
یا
الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"

فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے،
مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"

ملَکُ الموت
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے
سرہانے کھڑے ہوئے
اور
کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف
جو
غضبناک نہیں۔۔۔!"

سیدہ عائشہ
رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا،
اور
سر مبارک
میرے سینے پر
بھاری ہونے لگا،
میں
سمجھ گئی
کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔

مجھے اور تو
کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں
اپنے حجرے سے نکلی اور
مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔

"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!
رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"

مسجد آہوں
اور
نالوں سے گونجنے لگی۔
ادھر
علی کرم الله وجہہ
جہاں کھڑے تھے
وہیں بیٹھ گئے
پھر
ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔

ادھر
عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ
معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔

اور
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ
تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار!
جو کسی نے کہا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں،
میں
ایسے شخص کی
گردن اڑا دوں گا۔۔۔!

میرے آقا تو
الله تعالی سے
ملاقات کرنے گئے ہیں
جیسے
موسی علیہ السلام
اپنے رب سے
ملاقات کوگئے تھے،

وہ لوٹ آئیں گے،
بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔!
اب جو
وفات کی خبر اڑائے گا، میں
اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"

اس موقع پر
سب سے زیادہ ضبط، برداشت
اور صبر کرنے والی شخصیت
سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔
آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے،
رحمت دوعالَم
صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر
سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔

کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه

(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔!
ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!
ہائے میرا محبوب۔۔۔!
ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر
آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر
بوسہ دیا
اور کہا:"یا رسول الله!
آپ پاکیزہ جئے
اور
پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے
اور خطبہ دیا:
"جو
شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی
عبادت کرتا ہے سن رکھے

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور
جو الله کی عبادت کرتا ہے
وہ جان لے
کہ الله تعالی شانہ کی ذات
ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"

سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔

عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر
میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں
اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ
نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"

پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."

(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ
اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے،
ہائے میرے پیارے بابا جان،
کہ
جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے،
ہائے میرے پیارے بابا جان،
کہ
ہم جبریل کو
ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔

میں نے آج تک
اس سے اچّھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔

اسلۓ
آپ سے گزارش ہے
کہ
آپ اسے پورا سکون
و اطمینان کے ساتھ پڑھۓ۔
ان شاء اللہ,
آپکا ایمان تازہ ہو جاۓ گا۔“

ثواب کی نیت سے
شیئر کریں
اور
صدقہ جاریہ میں
شامل ہو جائیں -!!!'

ایک عربی پوسٹ کا ترجمہہم کیوں قبر کی نعمتوں  کے بارے  میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سےبہترین دن ہوگا...
12/05/2024

ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ
ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سےبہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اور بیمثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنےبچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپ نے صحابہ سے فرمایا "بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے"

کیوں ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں ہو رہی ہیں، کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہم کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے گا، ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔

ہم یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبر میں مومن صالح سے منکر نکیر کے سوال جواب ہو جائیں تو ہمارا رب کہے گا "میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اس کوجنت کے کپڑے پہناؤ اور جنت کی طرف سےاس کے لئےدروازہ کھول دو اور اس کو عزت کے ساتھ رکھو۔ پھروہ اپنامقام جنت میں دیکھےگا تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا :پروردگار قیامت برپا کر تاکہ میں اطمینان کے ساتھ جنت چلا جاؤں۔ (رواہ احمد ، ابوداود)

ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارا عمل صالح ہم سےالگ نہ ہوگا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہوگا۔
جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو اس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے جا چکے ہیں، ان کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے، خیر مقدم کریں گے۔ اس ملاقات کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ "یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی جب تم دنیامیں اپنےکسی عزیز سے طویل جدائی کے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا اس کو آرام کرنے دو یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔ (صحیح الترغیب لالبانی)

موت دنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔ صالحین کی موت درحقیقت ان کے لئے راحت ہے۔اس لئے ہمیں دعاء سکھائی گئی ہے ۔۔
*اللھم اجعل الموت راحة لنا من كل الشر*..
(اے اللہ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے)۔

ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہےاور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔
ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سےآزاد ہو جاتی ہےاور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔
ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سےجدائی، غم اور اندوہ کےطور پر پیش کرتے ہیں، کیوں نہیں ہم یہ سوچھتے کہ یہ اپنے آباواجداد، احباب اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔
قبرسانپ کامنہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائگا اور سانپ اس کو چباتا رہے گا بلکہ وہ تو حسین جنت اور حسیناوں کا عروس ہے جو ہمارے انتظار میں ہیں۔
اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو ۔
ہم مسلمان ہیں، اسلئے ہم اللہ کی رحمت سے دور نہیں پھینک دئے گئے ہیں۔
اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا ہے۔ اللہ نےہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کےکون سے ہیں اور ہم دنیا میں آزاد ہیں جو چاہے کریں۔
*اللھم اجعل خیر اعمالنا خواتیمھا وخیر اعما رنا او اخرھا وخیرا یامنا یوم ان نلقاک*
(اے اللہ ہمارے اعمال کا خاتمہ بالخیر کریں، ہماری آخری عمر کو بہترین بنا دیں اور سب سے بہترین دن وہ جس دن آپ سے ملاقات ہوگی۔ آمین ثم آمین

07/05/2024

بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے مینٹی ننس کے پونے 6 ارب روپے صارفین پر ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔

So finally swat is coming under the tax net with no security, safety, food, shelter and education from the state
29/04/2024

So finally swat is coming under the tax net with no security, safety, food, shelter and education from the state

کالام روڈ میں لینڈ سلائیڈینگ روڈ تاحال بند اپنے مدد اپ کے تحت عوام مصروف اور بارش لگاتار جاری
13/04/2024

کالام روڈ میں لینڈ سلائیڈینگ روڈ تاحال بند اپنے مدد اپ کے تحت عوام مصروف اور بارش لگاتار جاری

17/03/2024

‏قریباً 5 ماہ پہلے میرے چچا پیٹ میں ایک معمولی زخم کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر کو کچھ شک ہوا اور کوئ خاص ٹسٹ تجویز کیا کچھ دن بعد ٹسٹ کا نتیجہ آیا تو گھر میں سب کے اوسان خطا ہو گئے۔ جی ہاں چچا جان کو کینسر جیسے موذی مرض لاحق ہو گیا تھا وہ بھی تیسرے درجے کا۔ بہرحال علاج کیلئے ہم شوکت خانم پشاور گئے، ٹسٹ کا رزلٹ دیکھ کر وہاں کے ڈاکٹروں نے علاج سے معذرت کر لی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ہماری پالیسی ہے کہ کینسر کے اس سٹیج میں ہم 40 سال سے کم عمر مریض کو داخلہ دیتے ہیں وگرنہ نہیں۔ ہم بھی کچھ کہے بنا وہاں سے نکل آئے کیونکہ چچا جان کی عمر ساٹھ کی دہائی کراس کر چکی تھی اور خیر سے لائف ٹائم شناختی کارڈ بھی بنا چکے ہیں۔ خیر گھر پر تو نہیں بیٹھ سکتے تھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔پشاور میں کینسر کے سرکاری ہسپتال ارنم سے علاج شروع ہوا۔ اس دن یہ عقدہ بھی کھلا کہ گورنمنٹ واقعی ماں کے مانند ہوتی ہے بچہ کتنا ہی بگڑ جائے ماں قبول ہی کرتی ہے یہاں بھی مریض اور مرض کتنا ہی بگڑ جائے نہ نہیں ہوتی ۔ سو ہمیں بھی داخلہ مل گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

اب سنیں کام کی بات جب علاج کا کچھ اثر نہ ہوا تو کچھ مہربان دوستوں نے دور پہاڑوں میں مقیم ایک حکیم کا بتایا جو کینسر کے مرض میں بے حد مشہور ہے پر جگہ تھی کافی دور۔ مہینہ رمضان کا چل رہا تھا ایک دن سحری کے فورا بعد اللہ کا نام لیکر ایک دوست کو ساتھ بٹھایا اور موٹر سائیکل پر کک ماری اور جب 11 بج رہے تھے تو ہم مردان سے چل کر شانگلہ مارتونگ میں واقع حکیم صاحب کے مطب میں پہنچ گئے۔ وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہم کہ کتنے دور دور سے لوگ یہاں آئے ہیں علاج کیلئے اور اکثر نے تو رات بھی یہاں گذاری تھی کیونکہ مریضوں کے لئے دو بہترین قسم کے ہوٹل بھی اہل علاقہ نے بنائے ہیں جن میں انتہائ مناسب ریٹ پر مریضوں کو کمرے دستیاب ہوتے ہیں بہرحال ہم اپنی باری پر حکیم صاحب کے پاس گئے اور انکو مریض کے بارے میں بتایا انہوں نے ایک چھوٹی سی پڑی (الکہ پہ اردو کے ہم ورتہ پوڑے وئ کنہ ھاھا) پکڑائ اور کہا یہ سات دن کی دوائ ہے پرہیز کے ساتھ مریض کو دوائ دینی ہے اور سات دن کے بعد اگر آپ نے یا مریض نے کچھ بہتری محسوس کی تو دوبارہ آکر مزید چالیس دن کی دوا لیتے جائیے بصورت دیگر دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہم نے دریافت کیا کہ بہتری سے مطلب؟ فرمانے لگے یا تو ٹسٹ سے فرق آیا ہو گا اور یا مریض کی تکلیف وغیرہ میں کمی آئی ہو گی۔ ٹھیک ہے جی کہ کر ہم نے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے منع کیا اور فرمایا ہمارا اصول ہے پہلی بار پیسے نہیں لیتے اگر آپ کے مریض کو فائدہ ہو تو آکر پوری دوائی قیمت کے ساتھ لے جاؤ نہیں تو یہ ہماری طرف سے ہدیہ۔۔ قصہ مختصر رات وہاں مقامی ساتھیوں کے ساتھ گذار کر صبح ہم واپس آئے اور چچا جان کو دوا شروع کرائی چوتھے دن ہی چچا جان نے واضح فرق محسوس کیا جسکا مطلب تھا کہ اب ہمیں پھر حکیم صاحب کے پاس پہنچنا پڑے گا یعنی وہ شاعر والی بات ہمیں بھی پیش آئی جس میں وہ بے چارہ ایک دریا عبور کرنے کے بعد دوسرے دریا میں پھر گر جاتا ہے بہرحال ایک بار پھر ہم مارتونگ پہنچ گئے (یہ ہے تو شانگلہ میں لیکن آپ اگر مردان والی سائد سے آرہے ہیں تو پھر بونیر کا راستہ آسان رہے گا ) اور بقایا چالیس دنوں کی دوا لیکر صرف چار ہزار فیس حکیم صاحب کو پکڑائی اور چلتے بنے اب صورتحال یہ ہے کہ تین دن پہلے چچا جان کا ڈاکٹر نے دوبارہ ٹسٹ کرایا اور نتیجہ بالکل صاف۔ جی ہاں کینسر کا نام و نشان نہیں۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے موت کا وقت اٹل ہے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا لیکن میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے جاننے والوں میں سے خدا ناخواستہ کوئی اس موذی مرض میں مبتلا ہو تو اسے ضرور اس حکیم کا مشورہ دے دیں۔ کیا پتہ آپ کی وجہ سے کسی کے چند دن آرام سے گذر جائیں۔ --
-------Address ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

03463722885 یہ نمبر حکیم صاحب کے بھائ کے پاس ہوتا ہے۔ ایڈریس تو انتہائی آسان ہے ضلع شانگلہ میں مارتونگ نام کا علاقہ ہے بس آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ مارتونگ والے حکیم کے پاس جانا ہے بس آپ پہنچ جائیں گے وہ انتھائ مشہور ہیں۔

دو راستے جاتے ہیں مارتونگ کی طرف ایک سوات کی طرف سے اور دوسرا مردان کی طرف سے آسان راستہ مردان والا ہے۔ آپ مردان سے بونیر براستہ رستم چلے جائیں اور بونیر پہنچ کر کسی سے بھی مارتونگ کے راستے کا پوچھ لینا پہنچ ہی جائیں گے بغیر کسی دشواری کے۔ مردان سے پانچ یا ساڑھے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں اور ہاں مریض کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
صدقہ جاریہ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
شکریہ.copied

Address

Swat Khyber Pakhtunkhwa
Swat
19060

Telephone

0092-3028054636

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Moneymagnetonline posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Moneymagnetonline:

Share