16/04/2025
ادب سکھانا ایک عظیم عمل ہے، مگر جب ادب کے نام پر غلامی سکھائی جائے،
جب احترام کے پردے میں ظلم کو چھپایا جائے،
اور جب عمر کو عقل پر فوقیت دی جائے،
تو وہاں سوال اٹھانا فرض بن جاتا ہے۔
ہم سے کہا گیا، چپ رہو، تم چھوٹے ہو، تمہیں کیا پتا
مگر جو سچ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جو درد ہم نے اپنے دل میں محسوس کیا،
اسے نظرانداز کرنا کون سا ادب ہے؟
ادب تو وہ ہے جو انسان کو حق گو بنائے،
ادب تو وہ ہے جو بڑوں کو بھی جوابدہ بنائے اگر وہ غلطی کریں۔
ہمیں سکھایا گیا کہ مشران ہمیشہ درست ہوتے ہیں،
مگر کیا عمر سچ اور جھوٹ کی پہچان کی واحد دلیل ہے؟
اگر کوئی نوجوان اصلاح کی بات کرے، نیا نظریہ لائے،
تو وہ گستاخ کیوں کہلاتا ہے؟
کیا اس کے جذبات، اس کی سوچ، اس کی فکری گہرائی کی کوئی وقعت نہیں؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ادب کو جھوٹ بولنے کا ہنر بنا دیا ہے،
ہم نے ادب کے نام پر سچ کو دفن کر دیا ہے،
اور صرف اس لیے کہ سچ کہنے والا عمر میں چھوٹا تھا۔
اب وقت ہے کہ ہم ادب کے مفہوم کو دوبارہ پرکھیں،
ادب وہی ہے جو سچ کا ساتھ دے، ظلم کے سامنے کھڑا ہو،
بےآوازوں کو آواز دے، اور چھوٹوں کو صرف عمر نہیں بلکہ عقل، شعور اور کردار کی بنیاد پر بھی عزت دے۔
ادب کو دیوار نہ بننے دیں جو نسلوں کو جدا کر دے،
بلکہ پل بنائیں، جو شعور کو، سچ کو اور محبت کو ایک ساتھ باندھے۔
تبھی ایک بہتر، باشعور اور باادب معاشرہ جنم لے گ
جہاں ہر سچ بولنے والے کو گالی نہیں، بلکہ گلے لگایا جائے گا۔