SHER ALI KHAN swat

  • Home
  • SHER ALI KHAN swat

SHER ALI KHAN swat Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from SHER ALI KHAN swat, Social Media Agency, Bagh Dehri Chowk swat, .

21/08/2025

*شجرہِ نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟*
*محکمہ مال کے ریکارڈ میں موجود قیمتی راز .......*

اگر کسی کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) اپنے ضلع کے محکمہ مال آفس میں جائیں یہ آفس اکثر ضلعی کچہریوں میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء یا 1905ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو کسی قوم سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گائوں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری گرداور چوکیدار نمبردار ذیلدار اس جرگہ میں پورے گائوں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گاؤں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔ بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں ..... اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جاکر اس بات کی تصدیق بھی کریں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کریں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔
ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کے انتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔
محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گائوں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گائوں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت ،عادات و خصائل،ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گائوں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض ،انہیں فصلوں کی کاشت کے وقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض وذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گائوں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔
جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کر کے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گائوں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گائوں کی ایک اہم دستاویز’’ فیلڈ بک‘‘ تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کر کے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گائوں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کر کے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ، کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گائوں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار اور افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کر کے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔ جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔
اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوئے۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا۔ تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا عمل کر کے اور گزشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت، کاشت کار کی تبدیلی ، رجسٹر گرداوری کی تبدیلی یا زمین کی قسم کی تبدیلی وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹر حقداران تیار ہوتا ہے اور اس کی ایک نقل ضلعی محافظ خانہ میں داخل ہوتی ہے ۔ اس دستاویز کے نئے اندراج کے لئے انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ کار موجود ہے ۔ اس کی تیاری میں جہاں حلقہ پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے ،وہاں گرداور اور حلقہ آفیسر ریونیو سو فیصد پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ضابطے کے مطابق افسران مذکور کا متعلقہ گائوں میں جا کر مالکان کی موجودگی میں اس کے اندراج کا پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست جاری کرنا ضروری ہے، جن کی درستی کا پٹواری ذمہ دار ہوتا ہے۔ آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ اب یہ غلطیوں سے مبرا ہے۔
رجسٹر حقداران زمین کے ساتھ رجسٹر گرداوری بھی تیار ہوتا ہے، جس میں چار سال کے لئے آٹھ فصلات کا اندراج کیا جاتا ہے۔ مارچ میں فصل ربیع اور اکتوبر میں فصل خریف مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ موقع پر جا کر پٹواری مالکان و کاشتکاران کی موجودگی میں فصل کاشتہ و نام مالک ،حصہ بقدر اراضی اور نام کاشتکار کا اندراج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پر ایک گوشوارہ فصلات برآمدہ تیار کر کے اس کتاب کے آخر میں درج کیا جاتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے کتنی برآمد ہوئی۔ اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھجوائی جاتی ہے ، جس سے صوبہ اور ملک کی آئندہ برآمدہ اجناس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس رجسٹر میں نہری اور بارانی علاقوں کی موقع کی مناسبت سے اقسام زمین نہری، ہیل، میرا، رکڑ ، بارانی اول ، بنجر ، کھندر وغیرہ کے علاوہ روہڑ ، بن ، سڑکیں، رستہ جات ، قبرستان ، عمارات اور مساجد وغیرہ بھی تحریر کی جاتی ہیں۔ یہ رجسٹر ریونیو کی اہم دستاویز ہے اور مطابق قانون اس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر کر کے نتائج تحریر کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ رجسٹر انتقالات میں جائیداد منتقلہ کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس میں نام مالک ، جس کے نام جائیداد منتقل ہوئی، گواہان ، نمبر کھیوٹ ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ حصہ منتقلہ ، زر ثمن ، پٹواری مفصل تحریر کرتا ہے ،گرداور جملہ کوائف تصدیق کرتا ہے اور ریونیو آفیسر (تحصیلدار) بوقت دورہ پتی داران، نمبرداران کی موجودگی میں تصدیق کر کے فیصلہ کرتا ہے ۔ پرت پٹوار پر حکم لکھتا ہے اور پرت سرکار برائے داخلہ تحصیل دفتر ہمراہ لے جاتا ہے ۔ کاغذات مال متذکرہ کے علاوہ بھی کئی دستاویزات ہوتی ہیں، جن سے جملہ ریکارڈ آپس میں مطابقت کرتاہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ جو کاغذات ہر وقت استعمال میں رہتے ہیں ان کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے ،ورنہ پٹواری کے پاس ایک’’لال کتاب‘‘بھی ہوتی ہے،جس میں گائوں کے جملہ کوائف درج ہوتےہیں جیسے اس گائوں کاکل رقبہ،مزروعہ کاشتہ،غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ،مردم شماری کا اندراج ، مال شماری جس میں مویشی ہر قسم اور تعدادی نر، مادہ ، مرغیاں ، گدھے ، گھوڑے ، بیل،گائے،بچھڑے غرض کیا کچھ نہیں ہوتا۔ جس طرح یہ محکمہ بنا اور اس کے قواعدوضوابط بنائے گئے اور متعلقہ اہلکاران و افسران کی ذمہ داریاں مقرر ہوئی تھیں، اگر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو اس سے بہتر نظام زمین کوئی نہیں۔ یہ نظام انگریز کے دور میں بہترین اور 1964-65ء تک نسبتاً بہتر چلتا رہا...

زمین ریکارڑ سے بہترین شجرہ نسب کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔

1.
2.
3.
4.

15/08/2025

کل کے انگریزی اخبار دی نیوز میں معروف ماہر معاشیات۔۔۔ڈاکٹر فرخ سلیم کا ایک چشم کشا مضمون چھپا ہے۔۔۔۔
جس کا پڑھنا ہر باشعور پاکستانی کیلئے ضروری ہے۔۔۔۔
اپنے قارئین کیلئے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

ٹیکس پر مبنی حکومتی انتشار —

پاکستان کی حکومت بجلی خریدنے اور بیچنے کے کاروبار میں مصروف ہے۔ اب تک اس کاروبار میں اسے 2.4 کھرب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان کی حکومت گندم کے خرید و فروخت کے کاروبار میں بھی شامل ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (PASSCO) کو اب تک 900 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان کی حکومت ہوائی جہاز کے ٹکٹ بیچنے کے کاروبار میں بھی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں پی آئی اے کو 830 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔

پاکستان کی حکومت اسٹیل کی پیداوار اور فروخت کے کاروبار میں بھی رہی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز (PSM) کو اب تک 600 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے (واضح رہے کہ اسٹیل ملز 2015 سے بند ہے)۔ حکومت پاکستان قدرتی گیس کی پیداوار اور ترسیل کے کاروبار میں بھی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (SNGPL) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC) کو 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ حکومت پاکستان بندرگاہوں اور شپنگ کے نظام کو بھی سنبھالتی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (PNSC) کو 150 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے۔

پاکستان کی حکومت ڈاک اور لاجسٹکس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں پاکستان پوسٹ کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان کی حکومت کپاس کی خرید و فروخت کے کاروبار میں بھی رہی ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) کو اندازاً 200 ارب روپے کا خسارہ ہو چکا ہے۔

حکومت پاکستان کھاد کی تیاری اور فروخت کے کاروبار میں بھی ہے۔ نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن کو 150 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان نشریاتی ادارے بھی چلا رہی ہے۔ گزشتہ 25 سالوں میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو مجموعی طور پر 80 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔

حکومت پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور ملک بھر میں ایسی ہی دیگر اداروں کو 200 ارب روپے سے زائد کے نقصانات ہوئے ہیں۔

اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی واحد توجہ ٹیکس وصولی پر مرکوز ہے۔ ریکارڈ کے مطابق، 2008 میں پاکستانی عوام نے 1783 ارب روپے بطور ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرائے تھے۔ اب حیران کن طور پر اس سال پاکستانی عوام 17,815 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کریں گے — یعنی 899 فیصد اضافہ۔ واہ!

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو ٹیکس کے ذریعے نچوڑنے پر اتنی مریضانہ حد تک کیوں تلی ہوئی ہے؟ واضح رہے کہ 2008 میں حکومت کے اخراجات 2,000 ارب روپے تھے۔ اب حیران کن طور پر اس سال حکومت پاکستان 19,000 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی فضول خرچی کی دوڑ ہے جو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آخر یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے؟

پاکستانی عوام نے حکومت کو حکمرانی کے لیے منتخب کیا تھا — لیکن حکومت پاکستان ایک خسارے کا دیو ہیکل گڑھا بن چکی ہے، جو بجلی سے لے کر ایئرلائنز، اسٹیل سے لے کر کپاس تک، ہر شعبے میں کھربوں کا نقصان کر رہی ہے۔ حکومت ان مالیاتی زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑنے میں لگی ہے — 2008 میں 1,783 ارب سے بڑھا کر آج 17,815 ارب روپے تک لے آئی ہے۔ جبکہ اخراجات 19,000 ارب روپے کی سطح کو چھو رہے ہیں، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے: یہ حکمرانی نہیں، بلکہ ایک پاگل پن پر مبنی، ٹیکس سے چلنے والا انتشار ہے — اور اس کا سارا بوجھ پاکستانی عوام کے کندھوں پر ہے۔

An official application letter has been sent by principal of TMC(Timergara Medical College) to PMDC for inspection and o...
14/08/2025

An official application letter has been sent by principal of TMC(Timergara Medical College) to PMDC for inspection and opening of TMC for session 2025-26

10/08/2025
10/08/2025

ملاکنڈ ڈویژن میں خواتین یونیورسٹی وقت کی ضرورت
**اپیل نامہ:**
**عمائدین ملاکنڈ اور طلباءٔ ملاکنڈ یونیورسٹی کے نام**
ملاکنڈ یونیورسٹی کے تمام نوجوان طلباء سے التماس ہے کہ آپ جیسے **قابل احترام نوجوانوں** کے لیے دیگر تعلیمی اداروں میں داخلہ کے مواقع دستیاب ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنا داخلہ کسی دوسری یونیورسٹی میں منتقل کرنے کی عاجزانہ سفارش کی جاتی ہے، تاکہ ملاکنڈ یونیورسٹی کو خصوصاً تمہاری بہنوں کے لیے مختص کیا جا سکے۔ اس اقدام سے یہ ادارہ خود بخود خواتین کی یونیورسٹی میں تبدیل ہو جائے گا، جس سے **صنفی تعلیمی ضروریات** کے حوالے سے یہ مسئلہ مستقل حل ہو سکے گا۔

ساتھ ہی، **شرینگل یونیورسٹی** میں موجود تمام **طالبات** کو ملاکنڈ یونیورسٹی منتقل کر دیا جائے، جبکہ شرینگل یونیورسٹی کو **خصوصاً طلباء (مرد) کے لیے وقف** کر دیا جائے۔ اس منصوبے سے دونوں اداروں میں **تعلیمی توازن** قائم ہو گا اور **صنفی بنیاد پر تعلیمی سہولیات** تک رسائی یقینی بنے گی۔ اور ایسا کرنے سے حکومت پر کوئی مالی بوجھ نہیں آئے گا اور یوں یہ ایک انتظامی مسلہ ہے جو انتظامی حکمتِ عملی سے بخوبی حل ہو جائے گا ۔

**امید ہے کہ عمائدین اور طلباء اس تجویز پر سنجیدگی سے غور فرما کر تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں تعاون کریں گے۔**

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز سوات میں سیشن 2025 کے لئے داخلے جاری ہیں۔
07/08/2025

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز سوات
میں سیشن 2025 کے لئے داخلے جاری ہیں۔

07/08/2025
07/08/2025

وہ بادشاہ جسے قربت عوام نہ ہو
پتا کرو وہ کسی اور کا غلام نہ ہو

06/08/2025
یونیورسٹی آف شانگلہ میں بہت ہی اچھے مضامین میں داخلے جاری ہیں
06/08/2025

یونیورسٹی آف شانگلہ میں بہت ہی اچھے مضامین میں داخلے جاری ہیں

Address

Bagh Dehri Chowk Swat

Telephone

+923469473044

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when SHER ALI KHAN swat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to SHER ALI KHAN swat:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share