16/09/2025
پاسنگ مارکس میں کمی: طلبہ کے لیے آسانی یا معیارِ تعلیم میں کمی؟
یہ فیصلہ کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے پاسنگ مارکس کا معیار 60 فیصد سے کم کرکے 50 فیصد کر دیا ہے، بظاہر ایک مثبت قدم بھی ہے اور اس کے منفی پہلو بھی موجود ہیں۔ مثبت اس لیے ہے کہ یہ فیصلہ طلبہ کے حق میں ہے، اور ظاہر ہے کہ طلبہ اس پر خوش ہیں کیونکہ ان کے لیے کامیابی حاصل کرنا اب نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ اب اگر کوئی طالب علم پورے سمسٹر میں زیادہ محنت نہ بھی کرے اور آخر میں تھوڑا بہت پڑھ لے تو اس کے لیے امتحان پاس کرنا ممکن ہو جائے گا۔ خاص طور پر نجی کالجز میں یہ صورتحال زیادہ نظر آتی ہے، جہاں اکثر طلبہ کو 28 یا 29 انٹرنل مارکس دے دیے جاتے ہیں، اور جو طلبہ انتظامیہ کے قریب ہوتے ہیں ان کے لیے یہ اور بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
لیکن اس فیصلے کا منفی پہلو بھی ہے۔ سرکاری نرسنگ کالجز میں انٹرنل مارکس ہمیشہ طلبہ کی مڈ ٹرم اور مجموعی کارکردگی پر دیے جاتے ہیں، جبکہ نجی اداروں میں اکثر طلبہ کلاسز میں باقاعدگی سے شریک بھی نہیں ہوتے، اور آخر میں محض انتظامیہ سے تعلقات یا مالی ذرائع استعمال کر کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ نجی کالجز اپنی شہرت اور رزلٹ خراب کرنے کے بجائے طلبہ کو زیادہ نمبر دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں اصل مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس پالیسی سے محنتی اور سنجیدہ طلبہ کا فرق ان طلبہ سے مٹ جائے گا جو محض نمبروں کے زور پر پاس ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایک "کمپیٹنٹ نرس" اور ایک "ٹک ٹاک نرس" میں کوئی نمایاں فرق باقی نہیں رہے گا۔ پہلے جو طلبہ تھوڑی بہت سنجیدگی سے پڑھائی کرتے تھے، اب ان کی محنت بھی نظرانداز ہو جائے گی.
یہ فیصلہ وقتی طور پر طلبہ کو خوش ضرور کرتا ہے، لیکن طویل المدت بنیادوں پر یہ معیار تعلیم اور نرسنگ کے پیشے کی سنجیدگی کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔
Khyber Medical University, Peshawar, Khyber Pakhtunkhwa