Urdu anokhe khaniyan

Urdu anokhe khaniyan Thank you very much.

Assalamu alaikum, I am Karim Khan On this page you will get to read and listen to novels, true stories, crime stories, Islamic stories, scary stories and many more.

چرس پینے والے کا نصیبتحریر: فرزانہ خان یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سننے والوں کو حیران کر دیا۔ فقیر محمد ایک عام مزدور تھ...
06/09/2025

چرس پینے والے کا نصیب
تحریر: فرزانہ خان

یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے سننے والوں کو حیران کر دیا۔ فقیر محمد ایک عام مزدور تھا، جو اپنی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ چرس پر خرچ کرتا تھا۔ لیکن اس کی زندگی میں ایسا کون سا عمل تھا جس نے اسے اللہ کے گھر بلا لیا؟

یہ ایک سچی اور سبق آموز کہانی ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے اعمال پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب
مگر کیسے
ایسا کیا عمل تھا اس کا ؟
اسٹیج پر فقیر کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف چل دیا فقیر محمد شکل سے بھی فقیر ہی لگتا تھا غربت اس کے چہرے پہ گویا چسپاں تھی

ایک مل میں کام کرتا تھا اور تنخواہ کی چرس پی جاتا یا تھوڑا بہت گھر دے دیتا تنخواہ میں گزاراہ کہاں ہوتا بھلا تو کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا تھا
اب تو لوگ ادھار بھی نہیں دیتے تھے اسے اسکے
دو بچے اور بیوی تھی
بیوی صابر تھی جو بھی دے دیتا اسی میں گزارہ کر لیتی
وہ سٹیج کی طرف چلا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ یہ اس بار بھی انکار کردیگا یہ مل مالکان کی طرف سے ہر سال کسی ایک خوش نصیب ورکر کو حج پہ بھیجنے کی تقریب تھی جس میں پچھلے دو سال کی طرح اس سال بھی فقیر محمد کا نام ہی آیا تھا پچھلے دو سال حج پہ جانے کی بجاۓ فقیر محمد نے حج کے خرچ کے پیسے لے لیے تھے اور اس سال پھر اسی کا نام نکل آیا تھا
اس چرسی کے نصیب میں بھلا اللًّہﷻ کے گھر کی زیارت کہاں ؟
یہ حاجی وحید حسن تھا جو اپنے کولیگز کو کہ رہا تھا
حاجی وحید چھ ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تھا اور اب اپنے نام کے ساتھ حاجی بھی لکھتا تھا۔
حالانکہ حاجی صاحب وہاں جاکر آنے کو دل ہی نہیں کرتا کسی کا بھی اور یہ بدقسمت جانے کی بجاۓ پیسے لےلیتا ہے
یہ شیخ ایوب تھا جو حاجی وحید سے مخاطب تھا یہ بھی عمرہ کر چکا تھا
اور شاید جتانا چاہ رہا تھا کہ میں بھی "حاجی" ہوں
فقیر محمد اسٹیج پہ پہنچ چکا تھا
مل مالک شیخ عمر نے اسے مبارک باد دی اور کہا بھئ فقیر محمد تیاری کر لو
فقیر محمد نے ایک نظر اپنے کولیگز پر ڈالی اور
آہستہ سے بولا
میں حج پر نہیں جاؤنگا
مجھے پیسے دے دیں
وہاں موجود تمام لوگوں کو شاید اسی جواب کی توقع تھی
کسی کے چہرے پر بھی حیرانگی نہیں تھی
شیخ عمر زرا سا مسکراۓ اور بولے
اس دفعہ تو ہر صورت تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا فقیر محمد ،
جناب میں کیا کرونگا حج پہ جا کے ؟
آپ مجھے پیسے دے دیں
فقیر محمد نے دھیمی سی آواز میں کہا
نہیں فقیر محمد اس بار تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا شیخ عمر بھی گویا اسے بھیجنے کا تہیہ کرچکے تھے
مگر فقیر محمد کا ایک ہی جواب تھا
جناب میں کیا کرونگا جاکر
میں گنہگار آدمی ہوں چرسی ہوں میرا کیا کام وہاں ؟
اور ویسے بھی صاحب جی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے
ٹھیک اگر تم حج پر جاؤ تو پورے سال کی تنخواہ بونس کے طور پہ دونگا
شیخ عمر نے آفر کی تو فقیر محمد کی آنکھوں میں چمک سی آگئی
کہنے لگا ٹھیک ہے صاحب میں راضی ہوں
شیخ عمر بولے دیکھو تین سال سے مسلسل تمہارا ہی نام نکل رہا ہے اور جانہیں رہے اللّٰہﷻ پاک ہر صورت تمہیں بلانا چارہا ہے
روانگی کا دن آگیا سال کی تنخواہ فقیر محمد لے چکا تھا
گھر والوں اور جو ایک دو جاننے والے تھے ان سے مل کر فقیر محمد حج پہ روانہ ہوگیا
حج کیا روضہ رسولﷺ پہ حاضری دی حج مکمل کر کےدو دن بعد فقیر محمد کی واپسی تھی مگر آنے سےایک دن پہلے ہی مکہ مکرمہ میں اس کا انتقال ہوگیا
اس کے گھر اطلاع دی گئی اور اس کی بیوی سے اجازت لیکر اس کو دنیا کے دوسرے بہترین قبرستان جنت المعلی مکہ میں دفن کردیا گیا
جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب
مگر کیسے ؟
ایسا کیا عمل تھا اس کا ؟
کچھ دن بعد مل مالک شیخ عمر فقیر محمد کی بیوی کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو اس کی بیوی سے پوچھا بہن ایس کونسا عمل تھا اس کا کہ
تین سال مسلسل اسی کا نام نکلا گیا تو دفن بھی وہیں ہوا
اس کی بیوی نے کہا صاحب جی
میں اور تو کچھ نہیں جانتی مگر ایک عمل اس کا جانتی ہوں شاید اسی کے سبب یہ رتبہ ملا ہو اسے
کہنے لگی ہمارے محلے میں ایک جوان بیوہ ہے اس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ بےچاری لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی وہ عزت دار عورت ہے اور یہ بھیڑیوں کا معاشرہ ہر جگہ
اسے لوگوں کی ہوس کی ۔۔۔۔
مکمل یہ اسلامی کہانی ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں 👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/Charas-painy-waly-ka-naseeb.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

"ایک گلاب – جب گلاب کا پھول قاتل بھی بن جائے""A Rose – When the Bloom Turns Deadlyتحریر: فرزانہ خان مسٹر ڈی سلوا نے اپنی...
05/09/2025

"ایک گلاب – جب گلاب کا پھول قاتل بھی بن جائے"
"A Rose – When the Bloom Turns Deadly

تحریر: فرزانہ خان

مسٹر ڈی سلوا نے اپنی بیوی کے کھردرے ہاتھوں سے چائے کی
پیالی لے لی، اور اسے سامنے کی میز پر رکھنے کے بعد صبح کا اخبار اپنے چہرے کے سامنے تان لیا اور سوچنے لگے کہ بیوی کو قتل کرنے کے لیے آسان سی ترکیب کیا ہو سکتی ہے۔ اب اس سلسلے میں خاصی عجلت کی ضرورت تھی۔ وہ خود بھی اُس کی حرکتوں سے پریشان تھے اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ اُن کی محبوبہ لالی بھی خاصے بے صبرے پن کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔

"تم بھولے تو نہیں... آج شام کو ہم اپنی شادی کی دوسری سالگرہ منا رہے ہیں" — انہیں اپنی بیوی کی آواز سنائی دی، جو میز کے دوسری جانب بیٹھی ناشتے میں منہمک تھی۔

"نہیں، نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے" — انہوں نے جلدی سے جواب دیا — "اور میں تمہیں ایک اچھا سا تحفہ دینے کے لیے بھی سوچ رہا ہوں۔"

اُن کی بیوی اطمینان سے چائے پیتی رہی۔ کچھ دیر بعد اس نے یونہی کہا:
"شاید تم نے نہ دیکھا ہو، ہماری بالکونی کے بالکل نیچے گلاب کا ایک پودا ہوٹل کے لان میں لگا ہوا ہے۔"

"اچھا؟" انہوں نے سرسری طور پر حیرت کا اظہار کیا۔

"میں نے کل شام کو دیکھا تھا اُس میں ایک کلی کھلی ہوئی تھی۔ آج شام تک وہ کھل جائے گی۔ میرا ارادہ ہے شام کو تقریب کے موقع پر میں وہی گلاب اپنے جوڑے میں لگاؤں گی۔"

یہی وہ لمحہ تھا جب بالکل ہی اچانک ان کے ذہن میں ترکیب ابھری۔ ترکیب بالکل سیدھی سی تھی۔ وہ کئی ہفتے سے اس ساحلی ہوٹل میں چھٹیاں منانے کے لیے مقیم تھے۔ ان کا کمرہ ہوٹل کی پانچویں منزل پر تھا اور جس پودے کے بارے میں مسز ڈی سلوا بتا رہی تھیں، وہ نیچے لان میں دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا، اُن کی بالکونی کے بالکل نیچے۔ انہوں نے سوچا شام کو انہیں صرف اتنا کرنا ہوگا کہ بیوی کو پھول دکھانے کے بہانے بالکونی تک لے جائیں، پھر جب وہ جھکے تو انہیں صرف ایک دھکا دینا ہوگا... اور بس۔ ترکیب بالکل سیدھی سی تھی۔ لوگ ہر وقت بالکونی کی سمت نہیں دیکھا کرتے اور وہ ایک محبت کرنے والے شوہر تھے۔

ٹھیک ہے کہ بیوی کی ساری دولت انہیں ہی ملتی اور اس کے باعث ان پر شبہ کیا جا سکتا تھا، لیکن جب تک کوئی ثبوت نہ ملے وہ مطمئن تھے۔ اور ثبوت؟ اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ انہیں یوں لگا جیسے سب کچھ ہو ہی گیا ہو۔ اُنہوں نے تصور میں خود کو کہتے سنا:
"دیکھیے نا، ہماری بالکونی کے بالکل نیچے ایک گلاب لگا ہوا ہے... وہ یقینا اُسے دیکھنے جھکی ہوگی۔"

وہ اندر ہی اندر خوش ہو گئے۔ اب وہ لمحہ آگیا تھا کہ انہیں اس بدصورت لیکن خاصی مالدار عورت سے نجات ملنے والی تھی۔ وہ پچھلے دو سال سے ایسے ہی کسی چکر میں تھے۔ اسی لیے انہوں نے شادی بھی کی تھی۔ وہ دو سال سے بڑی صبر کے ساتھ وقت گزار رہے تھے۔ اُدھر بے چاری لالی گندے کوارٹروں میں رہ رہ کر تنگ آگئی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اسے حتی المقدور رقم فراہم کرتے رہتے تھے، لیکن مسز ڈی سلوا انہیں جیب خرچ دینے میں خاصی کنجوس تھیں اور وہ بے چارے مجبور تھے۔ بہرحال اب وقت آ چکا تھا۔

"دیکھو، میں ذرا ہوٹل مے فیر جا رہی ہوں رقص کا سبق لینے" — انہیں اپنی بیوی کی آواز پھر سنائی دی — "ممکن ہے کہ میں کھانے کے وقت پر بھی نہ آسکوں۔"

وہ اندر ہی اندر خوش ہو گئے۔ گویا پورا دن ان کا تھا۔ انہوں نے ازراہِ مذاق کہا:
"میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ رقص کا چکر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔" وہ ذرا رکے، پھر اخبار کے پیچھے سے جھانک کر بولے: "کہیں اُس لڑکے پیری نے تمہیں اپنے چکر میں تو نہیں لے لیا جو وہاں رقص کرنے آتا ہے؟"

"تم ہمیشہ بھونڈا مذاق کرتے ہو" — مسز ڈی سلوا نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "تمہیں تو خود بہت اچھا رقص آتا ہے، تم کیوں نہیں چلتے؟"

"ارے، اب میں کیا ناچوں گا؟" وہ مسکرائے۔ "میں اب ایک شادی شدہ آدمی ہوں۔"

"وہ کتنے اچھے دن تھے..." یکایک مسز ڈی سلوا نے کہا — "جب تم مجھے اُس پارٹی میں ملے تھے۔ ہم نے ایک ساتھ رقص کیا تھا، اور پھر میں نے تمہیں سونے کا ایک قلم تحفتاً پیش کیا تھا۔"

"ہاں..." انہوں نے ایک لمبی سانس لے کر مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کیا۔

بیوی کے رخصت ہونے کے بعد وہ تھوڑی دیر بیٹھے کچھ سوچتے رہے، پھر بازار کی سمت نکل گئے۔ شام کو وہ اپنی شادی کی دوسری سالگرہ منانے والے تھے اور اس مقصد کے لیے انہیں ایک تحفہ خریدنا تھا۔ انہوں نے کافی چکر لگانے کے بعد ہیرے کا ایک کلپ خرید لیا۔ اس کی قیمت خاصی تھی، لیکن انہوں نے سوچا: بعد میں یہ کلپ لالی کو دے دوں گا، بہرحال میرے کام آئے گا۔

اس کا ایک مقصد اور بھی تھا۔ جو شوہر بیوی کو سالگرہ پر ہیرے کا کلپ تحفے میں دے سکتا ہے، اس پر قتل کا شبہ کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہیرے کا یہ کلپ بہت ضروری تھا۔ وہ اسے اپنی بیوی کو پیش کرنے والے تھے، آخر اسی میں تو اُسے گلاب کا پھول بھی ٹانکنا تھا؟

اس لمحے مسز ڈی سلوا ہوٹل مے فیر میں نوجوان رقاص پیری کی بانہوں میں لیٹی ہوئی ڈانس کر رہی تھیں۔

"پیری، تم کتنا اچھا ناچتے ہو" — اُس نے پیری کے بازو کی مچھلیاں ٹٹولتے ہوئے کہا۔

"اور تم بھی تو اچھا ناچتی ہو" — نوجوان نے اس کی کمر کے گرد اپنا بازو اور سخت کر دیا، پھر بولا: "کل تم ناراض ہو گئی تھیں شاید... میں نے تمہارا تحفہ واپس کر دیا تھا نا۔ دیکھو نا، میں نہیں چاہتا کہ ہماری محبت کے درمیان دولت کا معاملہ آئے۔"

"تم واقعی بڑے خراب ہو" — وہ ادا سے بولی — "کسی کا دل نہیں رکھتے۔ میں نے تو کتنی محبت سے وہ سونے کی گھڑی تمہیں دی تھی۔"
اس مکمل سٹوری کا ترجمہ ہماری ویب سائٹ پر بڑھیں یہ لنک کھولیں یہ کہانی پڑھنے کے بعد اپ کو اخر میں ایک اور کہانی بھی ملے گی وہ بھی ضرور پڑھنا اس سے بھی بہتر ہے،👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/Ek-Gulab.html

وہ پاگل ہو گئیتحریر: فرزانہ خان آج وہ ایک مقامی ہسپتال میں چل بسی ہے۔ وہ میری بیوی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی رفاقت م...
04/09/2025

وہ پاگل ہو گئی
تحریر: فرزانہ خان

آج وہ ایک مقامی ہسپتال میں چل بسی ہے۔ وہ میری بیوی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی رفاقت میں دس سال کا عرصہ بڑے خوشگوار طریقے سے گزارا تھا۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میری پیاری اور وفا شعار بیوی ایک روز پاگل پن کی حالت میں مجھے اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔ وہ ایک پڑھی لکھی اور باشعور خاتون تھی جس کی پورا خاندان تعریف کرتا تھا۔ شادی کے بعد ابتدا میں جب اوپر تلے ہماری تین بیٹیاں ہو گئی تھیں تو وہ کچھ پریشان سی ہو گئی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ اگر بیٹا نہ ہوا تو شاید میں دوسری شادی کرلوں گا مگر میں نے اُسے یقین دلا دیا تھا کہ میں زندگی بھر اسی کا ہو کر رہوں گا۔

سچ کہتا ہوں میں کہ میری بیوی روزینہ آج جبکہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے اب بھی اس کی یادیں میری زندگی کا سہارا ہیں۔ میں ابھی ایسا بوڑھا بھی نہیں ہوا کہ دوسری شادی نہ کر سکوں۔ میری تین معصوم بچیاں ہیں جن کے سر پر اب ماں کا سایہ نہیں رہا۔ مجھے عزیز رشتہ دار اور دوست اکثر مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ میں اپنی خاطر نہیں تو کم از کم بیٹیوں کی خاطر ہی دوسری شادی کر لوں مگر میں اس کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔

میں یہ کہہ رہا تھا کہ میری بیوی پاگل پن کی حالت میں آج ایک مقامی ہسپتال میں چل بسی ہے۔ روزینہ جیسی باشعور پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی عورت پاگل کیوں ہوئی یہ ایک درد بھری داستان ہے جس کا خود میں بھی ایک کردار ہوں۔

میری یا میری بیوی روزینہ کی بربادی کی داستان کا آغاز اس روز ہوا جب تین بیٹیوں کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد کافی منتوں اور مرادوں کے بعد اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا۔ یہ بیٹا اس لئے بھی ہماری آنکھوں کا تارا تھا کہ وہ پورے

خاندان کا واحد وارث تھا۔ میرے بڑے اور چھوٹے سبھی بھائی شادی شدہ تھے مگر ان میں سے کسی کے ہاں ابھی تک کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ بعض عالموں نے اس طرف اشارہ دیا تھا کہ ہمارے خاندان کے خلاف ہمارے کسی دشمن نے ایسا عمل کروا رکھا ہے کہ اس خاندان میں بیٹا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں اور میری بیوی روزینہ اگر چہ پڑھے لکھے اور روشن خیال تھے مگر اس قسم کی باتوں نے ذہنی طور پر بہت پریشان کر رکھا تھا۔ ہم میں سمجھ رہے تھے کہ اولاد نرینہ ہماری قسمت میں ہی نہیں ہے لیکن ان حالات میں جب اللہ تعالیٰ نے طارق کے روپ میں ہمیں ایک گول مٹول سامنا دیا تو نہ صرف ہماری بلکہ پورے خاندان کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ وه خاندان جہاں پچھلے کئی سالوں سے بیٹیاں ہی بیٹیاں پیدا ہو رہی تھیں وہاں بیٹے کی آمد کی خبر نے پورے خاندان کو خوشیوں سے نہال کر دیا۔

ابھی میرے بیٹے طارق نے پاؤں پر چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ میری بیوی پھر امید سے ہو گئی۔ اگر چہ ہم اتنی جلدی مزید بچہ نہیں چاہتے تھے مگر قدرت کی مرضی میں کوئی دخل بھی تو نہیں دے سکتا۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ ہم آنے والے کو روکنے کی غیر فطری کوشش کریں مگر پھر نہ جانے کیا سوچ کر ہم اپنے اس ارادے سے باز رہے۔

میرا بیٹا طارق ابھی ڈیڑھ برس کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جب اللہ تعالی نے مجھے ایک اور بیٹا عطا کر دیا لیکن اسے گود میں لیتے ہی میری اور میری بیوی کی ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ وہ پیدائشی طور پر معذور تھا۔ معذور سے مراد یہ ہے کہ اس کی ذہنی اور جسمانی حالت نارمل نہ تھی۔ دوسرے بیٹے کی پیدائش پر میری بیوی بڑی خوش ہوئی تھی کہ چلو اللہ تعالی نے چاند سورج کی جوڑی ملادی ہے مگر اس کی معذوری دیکھ کر ہمارے دل کے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔ اپاھچ بیٹا دے کر قدرت نے ہمیں کس جرم کی سزا دی تھی۔ یہ میں جانتا تھا اور نہ میری بیوی۔

بہر حال یہ ایک ایسا دائمی روگ تھا کہ جس نے ہمارے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لی ہمارے گھر کا سکون برباد کر دیا۔ اس درد کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو

خود ایسے ناگزیر حالات کا شکار رہے ہوں۔ ہمارا یہ معذور بیٹا زاہد بچپن ہی سے بہت صحت مند مگر تشدد پسند تھا۔ بعض اوقات وہ ایسی عجیب و غریب حرکتیں کرتا کہ ہم دونوں لرز کر رہ جاتے تھے۔ ہم تو جیسے تیسے گزارا کر لیتے مگر ہمارے اس معذور بیٹے کا سلوک ہمارے بڑے بیٹے طارق اور دوسری بہنوں کے ساتھ ایک طرح سے نا قابل برداشت تھا۔ خاص طور پر اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر تو ہمارا معذور بیٹا زاہد آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ طارق کو بھنبھوڑ کر رکھ دے۔ ضرورت سے زیادہ خوراک نے اسے بہت قریہ کر دیا تھا۔ ہر ایک گھنٹے کے بعد دودھ مانگتا اور نہ ملنے پر چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیتا۔

میری بیوی روزینہ جو اس کی ماں تھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنے اور اس کی حرکتیں برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور اس نے باقاعدہ کھانا شروع کیا تو ایک اور عذاب گلے پڑ گیا۔ زاہد بارہ بارہ کیلے ایک ہی وقت میں کھا لیتا۔ کھیر کا پورا ڈونگا خالی کر دیتا۔ نہ جانے کیسا دوزخ تھا جو بھرنے میں ہی نہیں آتا تھا۔ ف*ج میں کوئی بھی چیز سلامت نہیں رہتی تھی۔ حد سے زیادہ خوراک نے اسے بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور بنا دیا تھا۔ جبکہ ہمارا بڑا بیٹا طارق اس کے سامنے کمزور اور سہمی ہوئی بکری دکھائی دیتا تھا۔ اس معذور بیٹے زاہد نے مجھے اور میری بیوی کو اپنے گرد ایسا الجھایا ہوا تھا کہ ہم اپنے بڑے معصوم اور پیارے سے بیٹے طارق پر پوری توجہ ہی نہیں دے سکتے تھے۔ وہ بیچارہ تو اپنی جان کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ کسی ان دیکھے خدشے اور خوف کے تحت ہر وقت میرا اور میری بیوی کا دل جکڑا رہتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ سوتے ہوئے میری بیوی اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی اور اپنے بڑے بیٹے طارق کو ٹٹولنے لگتی۔ اسے وہم سالگ گیا تھا کہ جیسے اس گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ میں اسے اکثر حوصلہ بھی دلاتا رہتا تھا کہ سب معاملہ رفتہ رفتہ ٹھیک ہو جائے گا مگر وہ ایک ماں تھی اس لئے اولاد کے معاملے میں وہ مجھ سے زیادہ

حساس تھی۔ طارق جب چار سال کا ہوا تو اسے نرسری میں داخل کروا دیا گیا۔ اب کم از کم

اتنا ہوا کہ وہ دو پہر بارہ بجے تک اپنے معذور بھائی زاہد کی دست برد سے محفوظ رہتا مگر جب وہ پتلا دبلا اور کمزور سالڑ کا واپس گھر آتا تو میری بیوی کو پھر یہی فکر دامن گیر ہونے لگتی کہ کہیں زاہد اپنے بڑے بھائی کو کوئی نقصان نہ پہنچادے۔

وقت گزرتا رہا۔ طارق کے صبر اور زاہد کی تشدد پسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہر روز جب میں دفتر سے آتا تو مجھے زاہد کے بارے میں کئی کئی باتیں معلوم ہوتیں۔ تشدد اور بے رحمی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میری بیوی کے بقول وہ صرف طارق کو اذیت دینے میں تامل نہیں کرتا تھا بلکہ بعض اوقات تو اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال لیتا تھا مگر میری بیوی ماں ہونے کے ناطے سے اس معذور کو سمجھانے یا ڈانٹنے سے بالکل قاصر تھی۔ کئی بار زاہد نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ طارق کو بھی بری طرح سے زخمی کیا۔ ایک دفعہ مالی باغ میں کام کر رہا تھا۔ جمعے کا دن تھا میں بھی باغ کے ایک گوشے میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ مالی کام میں مشغول تھا۔ رمبا اس کے پاس دھرا تھا۔ زاہد نہ جانے کیسے ماں کی نظر سے بچ کر یہاں باغ میں پہنچ گیا تھا۔ طارق نے اچک کر رمبا اٹھایا اور مالی کے سر پر دے مارا۔ غریب آدمی چشم زدن میں لہو لہان ہو گیا۔ ایسے واقعات نے مجھے اور روزینہ کو بہت دل گرفتہ کر دیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم نے زندگی میں کوئی بہت بڑا جرم کیا ہے۔ قدرت نے جس کی سزا زاہد بیٹے کی صورت میں ہمیں دی تھی۔

ایک روز زاہد کتابوں کی الماری کا ہینڈل پکڑ کر لٹک گیا۔ الماری کے نیچے دب جانے سے اس کی کہنی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ہم نے کیسے اس صورت حال کا مقابلہ کیا اور اس کا کس طرح سے علاج کروایا یہ ایک الگ داستان ہے۔ زاہد کی وجہ سے گھر کی حالت بہت ابتر تھی۔ کوئی چیز بھی اپنی اصلی حالت میں نہ رہی۔ ٹوٹ پھوٹ کا یہ عالم تھا کہ الامان الحفیظ۔ عقل کام نہیں کرتی تھی کہ کیا کریں۔ کئی دفعہ عزیز و اقارب نے سمجھایا کہ زاہد کو دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیں۔ میں تو اس پر آمادہ بھی ہو گیا تھا مگر میری بیوی ایسی کوئی تجویز سننے کو بھی تیار نہ تھی۔ حالانکہ ہر وقت کی توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ سے بھر پور وارداتوں کی وجہ سے اس کا دل بہت کمزور پڑ چکا تھا۔ آخر ہر روز کی کل کل سے تنگ آکر ایک روز میں نے اور

میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ زاہد کو کمرے میں بند کر کے رکھا کریں مگر اس میں یہ قباحت تھی کہ کمرے میں بند ہونے کے بعد وہ اتنا شور مچاتا کہ جان منہ کو آجاتی۔ ہم اس کو تالے میں بند رکھتے تھے لیکن وہ ہر وقت دروازہ پیٹتا رہتا۔ اس دن رات کی بے سکونی نے رفتہ رفتہ میری بیوی کی صحت کو متاثر کرنا شروع کر دیا اور ہائی بلڈ پریشر کی شکایت میں مبتلا ہو گئی۔

اس صورت حال سے تنگ آکر آخر ایک روز ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ زاہد کو ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے۔ پورے خاندان کو برباد کرنے سے بہتر ہے کہ اسے اس کے مقدر کے سپرد کر دیا جائے۔ میری بیوی بھی میرے مجبور کرنے پر بادل نخواستہ رضامند ہو گئی۔

ایک روز جب میں دفتر گیا ہوا تھا۔۔۔
مکمل کہانی ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں لنک کھولیں 👇
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/Wo-pagal-hogai.html


#اردوکہانی #اردوناول #افسانہ #اردوادب #اردولٹریچر

میرا نام امتیاز ہے… لیکن اصل میں یہ میرا نام نہیں ہے۔ اصل نام میں یہاں نہیں بتاؤں گا اور نہ ہی اپنے گاؤں کا نام بتاؤں گا...
03/09/2025

میرا نام امتیاز ہے… لیکن اصل میں یہ میرا نام نہیں ہے۔ اصل نام میں یہاں نہیں بتاؤں گا اور نہ ہی اپنے گاؤں کا نام بتاؤں گا، کیونکہ جو واقعہ میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ ایسا واقعہ ہے کہ اگر لوگوں تک پہنچ گیا تو مجھے پریشانی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بس یہ سمجھ لیں کہ میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہوں، جہاں کی زندگی آج بھی بڑی سادہ اور دیہاتی ہے۔ کھیتوں کی خوشبو، مٹی کی مہک اور دور دور تک پھیلی ہریالی… بس یہی ہمارا گاؤں ہے۔

ہمارے گاؤں میں ہندو لوگ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں، دن رات زمین میں پسینہ بہاتے ہیں، اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ بڑے محنتی لوگ ہیں، اور جتنے سیدھے دل کے لوگ میں نے دیکھے ہیں، ان میں یہ سب سے آگے ہیں۔ ہم مسلمان بھی ان کی عزت کرتے ہیں اور وہ بھی ہمیں بھائی سمجھتے ہیں۔ ایک طرح کا سکون اور بھائی چارہ ہے ہمارے علاقے میں، جیسے پرانی کہانیوں میں سننے کو ملتا ہے۔

اسی گاؤں میں میرا ایک دوست ہے، راجیش۔ وہ ہماری ہی عمر کا لڑکا ہے۔ بچپن سے ساتھ ہیں، اسکول میں بھی ساتھ پڑھتے تھے، کھیل کود میں بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ خاص طور پر کرکٹ کا تو اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ ہم اکثر شام کو کھیتوں کے پاس بنے خالی میدان میں کھیلا کرتے تھے۔ کبھی میں بولنگ کرتا، کبھی وہ بیٹنگ… اور کبھی کبھار تو گاؤں کے بڑے لڑکے بھی آجاتے اور میچ پورا گاؤں دیکھتا تھا۔

راجیش نے یہ کہانی مجھے خود سنائی تھی، لیکن اس نے یہ کبھی نہیں چاہا تھا کہ میں یہ کسی اور کو بتاؤں۔ وہ بس یونہی باتوں باتوں میں ایک دن دل ہلکا کرنے لگا اور میں نے خاموشی سے ساری باتیں سن کر اپنے دل میں محفوظ کر لیں۔ آج جب میں آپ کو یہ سب سنانے بیٹھا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا خوف بھی ہے اور ایک بوجھ بھی۔ کیونکہ یہ سب کچھ سو فیصد سچ ہے۔

راجیش کا ایک بڑا بھائی بھی ہے… ہم اسے وِجے کہتے ہیں۔ وِجے ہم سب سے تھوڑا بڑا ہے، لیکن بہت ہی خوش اخلاق اور نرم مزاج آدمی ہے۔ جب بھی ملتا ہے، مسکرا کر بات کرتا ہے اور ہمارے ساتھ کبھی کبھار کرکٹ کھیلنے بھی آجاتا تھا۔ کچھ سال پہلے وِجے کی شادی ہوئی تھی۔ ان کے ہاں ایک روایت ہے کہ وہ شادی گاؤں کے اندر یا رشتے داروں میں نہیں کرتے، ہمیشہ کسی دوسرے علاقے میں رشتہ تلاش کرتے ہیں۔ یہی رسم ہے ان کی برادری میں، اور میں نے اس بارے میں زیادہ کبھی سوال نہیں کیا۔

راجیش نے بتایا تھا کہ بھابھی بہت ہی خوبصورت تھیں… نام ان کا سُنیلا تھا۔ گورا رنگ، بڑی بڑی آنکھیں، لمبے بال، اور باتوں میں اتنی نرمی کہ ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ شادی کے بعد جب وہ ہمارے گاؤں آئیں تو سب نے ان کا خوب استقبال کیا۔ راجیش کی ماں تو ان سے اتنا پیار کرتی تھی کہ جیسے اپنی بیٹی کو گھر لے آئی ہو۔ سُنیلا بھی نہایت ملنسار لڑکی تھی۔ وہ سب سے ہنس کر ملتی، بات چیت کرتی اور کبھی کبھی ہمارے محلے کی عورتوں کے ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرنے نکل جاتی، صرف اس لیے کہ سب لوگ یہ نہ کہیں کہ نئی بہو آرام پسند ہے۔

گاؤں کی زندگی سیدھی سادی ہوتی ہے، اور سُنیلا نے بھی جلد ہی سب کو اپنا بنا لیا تھا۔ اکثر شام کو وہ اپنے شوہر وِجے سے کہتی کہ مجھے میکے لے چلو، اور وِجے بھی بڑے پیار سے اسے وہاں چھوڑ آتا یا ساتھ لے آتا۔ ایسے ہی کئی مہینے ہنسی خوشی گزر گئے۔ میں جب بھی راجیش کے گھر جاتا، تو دیکھتا کہ پورا گھر ہنسی خوشی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کبھی چولہے پر چائے کی خوشبو آ رہی ہوتی، کبھی ہنسی مذاق چل رہا ہوتا، اور کبھی سب لوگ مل کر بیٹھ کر باتوں میں مگن رہتے ۔

لیکن ایک بات تھی… جو ان کے دل میں چھپی ہوئی تھی۔ شادی کے کئی مہینے گزرنے کے باوجود بھی اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ سُنیلا کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ اس کے گود میں ایک بچہ ہو، اور وِجے کی ماں بھی اس کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ شروع میں سب نے زیادہ پرواہ نہیں کی، لیکن وقت گزرتا گیا اور پریشانی بڑھتی گئی۔ وِجے اور اس کے گھر والے جگہ جگہ علاج کے لیے گئے، تعویذ کروائے، ڈاکٹروں سے مشورے لیے، لیکن کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔

اس مسئلے کی وجہ سے کبھی کبھار گھر میں چھوٹے موٹے جھگڑے بھی ہو جاتے تھے۔ کبھی وِجے چپ رہتا، تو کبھی سُنیلا اکیلی بیٹھی آنسو بہا رہی ہوتی۔ لیکن پھر بھی دونوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کم نہیں ہوئی تھی۔ وِجے ہمیشہ کہتا، "وقت کا کھیل ہے… بھگوان چاہے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

راجیش کہتا تھا کہ ان دنوں بھی ان کے گھر میں خوشحالی کی کوئی کمی نہیں تھی۔ کھیت خوب چل رہے تھے، فصلیں وقت پر کٹتی تھیں، اور پیسوں کی کبھی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن سُنیلا کی آنکھوں میں جو اداسی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی، وہ ہر کسی کو دکھائی دینے لگی تھی…
☠️

اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا، یہ میرا اصل نام نہیں ہے۔ اصل نام نہیں بتا سکتا کیونکہ جو کچھ میں سنانے جا رہا ہوں، وہ ایسا معاملہ ہے کہ اگر کسی نے پہچان لیا تو میرے لیے مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا، جہاں کی ہوا میں اب بھی مٹی کی خوشبو بسی ہوئی ہے، جہاں کھیتوں میں صبح سورج نکلنے سے پہلے ہل چلنے لگتے ہیں اور جہاں شام کو درختوں کے پیچھے ڈوبتا سورج گاؤں کو سنہری روشنی میں نہلا دیتا ہے۔

جیسے میں نے پہلے بتایا، میرے دوست راجیش کا گھر بھی ہمارے گاؤں میں ہی ہے۔ ان کا خاندان کھیتی باڑی کرتا ہے اور زمیندار قسم کے لوگ ہیں، جن کی زمینیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا۔ برسات کا موسم آیا تو اتنی بارشیں ہوئیں کہ کھیتوں میں لگی زیادہ تر فصلیں خراب ہو گئیں۔ کئی دنوں تک بارش برستی رہی، کھیتوں میں پانی کھڑا ہو گیا، اور جو فصل کٹائی کے قریب تھی، وہ گل کر ختم ہو گئی۔ راجیش اکثر پریشان حال کھیتوں کے کنارے کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ وہ کہتا، "امتیاز بھائی، اس سال تو بس نقصان ہی نقصان ہوا… محنت بھی گئی اور فصل بھی۔"

راجیش نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے سوچا کہ اب کچھ اور کرنا چاہیے، تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ اس نے بازار کے قریب کھاد اور دوائیوں کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی، جو فصلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ شروع میں تو کام ٹھیک چلا، لیکن کچھ عرصے بعد مندی آ گئی، قرض بڑھنے لگے اور وہ دکان زیادہ نہ چل سکی۔ ادھر اس کا دوسرا بھائی، وِجے، یعنی وہی جس کی شادی ہوئی تھی، اس نے محلے کے بیچوں بیچ ایک بڑی سی جنرل اسٹور جیسی دکان کھول لی تھی۔ وِجے کی محنت رنگ لائی اور وہ دکان چل نکلی۔ آج بھی وہ دکان چل رہی ہے، اور میں جب بھی جاتا ہوں تو اکثر دور سے دیکھ لیتا ہوں کہ وِجے دکان کے باہر بیٹھا گاہکوں سے بات کر رہا ہوتا ہے۔

لیکن سچ کہوں تو اب میں ان کے گھر جانا چھوڑ چکا ہوں۔ اب میں بڑا ہو گیا ہوں، ایک نوجوان بن گیا ہوں، اور مجھے لگتا ہے کہ اب وہاں بار بار جانا ٹھیک نہیں۔ لیکن ایک وقت تھا جب میں ان کے گھر اکثر جایا کرتا تھا۔ راجیش اور میں کھیلا کرتے، گپ شپ لگاتے، اور کبھی کبھی ان کی بھابھی… جی ہاں، سُنیلا… ہمیں چائے یا لسی پلا دیا کرتی تھیں۔

مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد ہے۔ بڑی حسین عورت تھی، اتنی خوبصورت کہ گاؤں کی لڑکیاں بھی اس جیسی بننے کی کوشش کرتی تھیں۔ لیکن بات صرف خوبصورتی کی نہیں تھی، سُنیلا کے دل میں ایک عجب کشادگی تھی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ خاص محبت سے پیش آتی تھی۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتا، وہ مسکرا کر کہتی، "السلام علیکم، امتیاز!"

پہلی بار تو مجھے حیرت ہوئی، دل ہی دل میں سوچا کہ ایک ہندو عورت مسلمانوں کو سلام کیوں کر رہی ہے؟ پھر مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ایسے وقت میں وعلیکم السلام کہنا مناسب نہیں، لیکن نہ جانے کیوں، میں کبھی نہ کہہ پاتا۔ بس ہاتھ کے اشارے سے یا دبی آواز میں جواب دے دیتا۔ وہ ہمیشہ کہتی، "بیٹھو، کچھ کھا لو، کچھ پی لو"، لیکن میں زیادہ وقت وہاں نہیں گزارتا۔ شاید شرم آتی تھی یا پھر اس بات کا احساس کہ میں ابھی چھوٹا ہوں اور زیادہ وقت بیٹھنا مناسب نہیں۔

اب تو وقت بدل گیا ہے، میں بڑا ہو گیا ہوں، نوجوان ہو گیا ہوں۔ اس لیے اب میں ان کے گھر جانا کم کر دیا ہے، لیکن وہ دن… وہ دن کبھی بھول نہیں سکتا۔ وہ مجھے ہمیشہ بڑے پیار سے بلاتی تھی، جیسے اپنا چھوٹا بھائی ہو۔

راجیش کے گھر کی حالت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی تھی۔ برسات کے بعد زمینوں نے دوبارہ سنبھلنا شروع کیا، نئی فصلیں اچھی ہونے لگیں۔ وِجے کی دکان بھی چل رہی تھی، اور راجیش بھی اپنی چھوٹی سی دکان کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اس کی قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ کاروبار بیٹھ گیا۔ میں نے بھی نوٹ کیا تھا کہ اس کے بعد وہ کچھ غلط صحبت میں پڑ گیا، لیکن یہ ایک الگ داستان ہے، جو میں کبھی اور سناؤں گا۔

اصل کہانی تو کچھ اور ہے… اور وہ اس وقت شروع ہوئی جب ان کے گھر ایک بہت بڑا صدمہ آیا۔

راجیش کی ماں… جسے ہم سب "کاکی" کہتے تھے، اور جو سُنیلا سے بے انتہا محبت کرتی تھیں… اچانک دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھیں، لیکن کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں اچانک سب کو چھوڑ جائیں گی۔ ان کے جانے کے بعد پورے محلے میں اداسی چھا گئی۔ میں جنازے میں نہیں گیا، کیونکہ ان کے رسومات ہماری شریعت سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کے جنازوں میں کچھ عجیب و غریب رسمیں کی جاتی ہیں، جن سے میں ہمیشہ دور رہتا ہوں۔ پانچ وقت کا نمازی ہوں، اس لیے بھی ان چیزوں میں قدم نہیں رکھتا۔ بس دور سے ہاتھ ہلا کر تعزیت کر لی اور چپ چاپ گھر آ گیا۔

لیکن میں جانتا ہوں کہ سب سے زیادہ دکھ سُنیلا کو ہوا۔ وہ عورت جو ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی، سب کا خیال رکھتی تھی، سب کو خوش رکھتی تھی… اچانک خاموش ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی چمک جیسے بجھ گئی تھی۔ کاکی کا سایہ ہٹنے کے بعد وہ جیسے اکیلی رہ گئی تھی۔ میں کئی بار راجیش سے پوچھتا، "بھابھی کیسی ہیں؟" تو وہ بس سر جھکا کر کہتا، "ٹھیک ہیں… بس خاموش رہتی ہیں اب زیادہ تر۔"

کاکی کے جانے کے بعد اس گھر کی فضا بدل گئی تھی۔ وہ ہنسی خوشی جو کبھی ہر کونے میں بکھری رہتی تھی، وہ خاموشی میں بدل گئی۔ شام کے وقت جب میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ کر ان کے صحن کی طرف دیکھتا، تو وہ پہلے جیسی رونق نظر نہیں آتی تھی۔ سُنیلا کبھی کبھی اکیلی بیٹھ کر صحن کے کنارے آسمان کو تکتے رہتی، جیسے کسی کھوئی ہوئی امید کو ڈھونڈ رہی ہو…

💀

یہ تو تھا ان کی زندگی کا ایک پرسکون اور خوشیوں بھرا منظر… تھوڑا سا سوچا کہ آپ کو بتا دوں تاکہ آپ کو سمجھ آ سکے کہ اصل کہانی کہاں سے بدلی۔ اب آتا ہوں اصل واقعے کی طرف… وہ خوفناک واقعہ، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، اور جو آج بھی جب یاد آتا ہے تو رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔

کاکی، یعنی راجیش اور وِجے کی ماں، جو اس گھر کی جان تھیں، ان کے جانے کے بعد سب کچھ جیسے بدلنے لگا۔ کاکی کے ہوتے ہوئے سب کچھ ایک ترتیب میں تھا۔ گھر میں خوشی تھی، ہنسی تھی، سکون تھا… اور سب سے بڑھ کر، سُنیلا کے لیے ایک ماں جیسا سہارا تھا۔ لیکن جب کاکی دنیا سے رخصت ہوئیں، تو وہ سہارا بھی ختم ہو گیا۔

راجیش اکثر کہتا تھا، “امتیاز بھائی، کاکی ہوتیں تو یہ سب نہ ہوتا… بھابھی کو سنبھال لیتیں، ان کو حوصلہ دیتیں… لیکن اب تو وہ بالکل اکیلی رہ گئی ہیں۔”

سچ بات یہ ہے کہ کاکی کے جانے کے بعد سُنیلا کی زندگی میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ایک حساس لڑکی تھی، لیکن اس وقت اس کے دل کی کیفیت کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی دل ہی دل میں ٹوٹ رہی تھی، لیکن اب حالات اور بگڑنے لگے۔

وِجے… یعنی اس کا شوہر… جو کبھی اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا، اب اکثر ناراض رہنے لگا تھا۔ یہ بات بھی مجھے راجیش نے ہی بتائی تھی۔ ایک دن میں نے راجیش کو گاؤں کی دکان کے پاس بیٹھے دیکھا تو اس کے چہرے سے ہی پریشانی ٹپک رہی تھی۔ میں نے پوچھا، “کیا ہوا راجیش؟ اتنا پریشان کیوں ہے؟”

اس نے گہری سانس لے کر کہا، “امتیاز بھائی… بھائی کہتے ہیں کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ بھابھی کو پتہ چل گیا ہے… وہ بہت پریشان ہیں… روتی رہتی ہیں…”

میں سن کر سکتے میں آ گیا۔ میں نے کہا، “راجیش… یہ کیا کہہ رہا ہے؟ وِجے بھابھی جیسی عورت کو چھوڑ دے گا؟”

راجیش نے سر جھکا لیا، “چھوڑنے کی بات نہیں کر رہا، لیکن وہ کہتا ہے کہ مجھے اولاد چاہیے… اور وہ… بھابھی… وہ بالکل ٹوٹ گئی ہیں اندر سے۔ کل رات وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں، راجیش، میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گی… نہیں کسی کو یہاں پر لانا چاہتی… پتہ نہیں وہ عورت آ کر کیسا سلوک کرے گی میرے ساتھ… میں آپ کے بھائی سے بہت پیار کرتی ہوں… لیکن میں کیا کر سکتی ہوں…”

یہ بات سن کر دل جیسے دہل گیا۔ میں نے راجیش سے کہا کہ اس کو سمجھاؤ، دلاسہ دو، لیکن میں جانتا تھا کہ یہ دلاسے عارضی تھے۔ کیونکہ جب ایک بار مرد کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ گھر میں اولاد نہ ہونا صرف عورت کی غلطی ہے، تو پھر کچھ بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

راجیش نے کئی بار اپنے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وِجے جیسے ضد پر آ گیا تھا۔ کہتا تھا کہ میں اپنی زندگی کے خواب پورے کرنا چاہتا ہوں، اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آ سکتی۔

گاؤں میں بھی آہستہ آہستہ یہ بات پھیلنے لگی۔ لوگ چپکے چپکے بات کرنے لگے۔ کچھ عورتیں کہتیں، “بیچاری سُنیلا… اتنی اچھی ہے، پھر بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا…” کچھ لوگ وِجے کو برا بھلا کہتے، تو کچھ کہتے کہ “مرد کا حق ہے کہ دوسری شادی کرے…”

لیکن جو بھی تھا، اصل تکلیف سُنیلا کو ہو رہی تھی۔ اس کا دل روز بروز ٹوٹ رہا تھا۔ میں اب ان کے گھر کم ہی جاتا تھا، لیکن کبھی کبھار راجیش سے بات ہو جاتی تھی تو وہ کہتا، “بھابھی اب اور بھی خاموش ہو گئی ہیں… بس اکیلی بیٹھی رہتی ہیں… کبھی کبھی رات کو میں سنتا ہوں وہ دبے دبے لہجے میں روتی ہیں…”

مجھے یاد ہے، ایک دن شام کو راجیش نے بتایا کہ سُنیلا نے روتے ہوئے اس سے کہا، “راجیش… میں نے وِجے کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی… کاکی کے جانے کے بعد میں نے یہ گھر بھی سنبھالا… سب کچھ کیا… لیکن شاید بھگوان نے میری قسمت میں یہ دکھ لکھ دیا ہے… میں جانتی ہوں وہ اب مجھے نہیں چاہتا جیسے پہلے چاہتا تھا…”

یہ سب سن کر میرا دل کٹ سا گیا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا؟ بس دعا کر سکتا تھا کہ اللہ کوئی راستہ نکال دے۔

پھر وہ دن بھی آ گیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ وِجے نے دوسری جگہ رشتہ دیکھ لیا۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ان کی برادری میں وہ اپنوں میں شادی نہیں کرتے، ہمیشہ باہر سے رشتہ طے کرتے ہیں۔ تو اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ کہیں کسی دوسرے گاؤں میں بات چلی اور چند ہفتوں میں رشتہ پکا ہو گیا۔

راجیش نے مجھے بتایا، “بھائی نے ہاں کر دی ہے… اگلے مہینے شادی طے کر دی ہے…”

یہ سن کر میرے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔ میں نے کہا، “راجیش… بھابھی کو پتہ ہے؟”

راجیش نے سر ہلایا، “ہاں… پتہ ہے… بہت روئی ہیں وہ… مجھ سے کہا کہ راجیش، میں برداشت نہیں کر سکتی… لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں… بھائی ضد پر اڑ گیا ہے…”

اب وہ دن قریب آ رہے تھے۔ گاؤں کے لوگ بھی تیاریاں دیکھ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ کوئی کہتا، “یہ وِجے نے اچھا نہیں کیا…” تو کوئی کہتا، “چلو دوسری بیوی آ جائے گی تو گھر کا چراغ جل جائے گا…”

لیکن میں جانتا تھا کہ سُنیلا کے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ میں اس وقت بڑا ہو چکا تھا، اب ان کے گھر جانا ویسے بھی مناسب نہیں لگتا تھا، لیکن کبھی کبھی راجیش سے خبر لے لیتا تھا۔ اور جب راجیش مجھے بتاتا کہ بھابھی آج بھی میرا نام پوچھتی ہیں، کہتی ہیں، “امتیاز کیسا ہے؟” تو دل میں ایک عجیب سی کسک اٹھتی تھی۔

شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی… گاؤں میں رونق لگنے لگی تھی، لیکن سُنیلا کی آنکھوں میں وہ رونق کبھی نہیں آئی۔ وہ ایک دم خاموش ہو گئی تھی، جیسے کسی نے اس کی زندگی کی ساری روشنی چھین لی ہو۔ راجیش کہتا تھا، “امتیاز بھائی… وہ اب کسی سے بات بھی نہیں کرتیں… بس چھت پر بیٹھی آسمان دیکھتی رہتی ہیں…”

اور پھر… وہ دن آ ہی گیا… شادی کا دن… جب سب کچھ بدلنے والا تھا، لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اصل کہانی تو اب شروع ہونے والی تھی…
(مکمل یہ خوفناک کہانی ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں) 👇
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/choti-bhabi-aur-saya.html

Address

Tando Allahyar

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu anokhe khaniyan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share