Urdu anokhe khaniyan

Urdu anokhe khaniyan Thank you very much.

Assalamu alaikum, I am Karim Khan On this page you will get to read and listen to novels, true stories, crime stories, Islamic stories, scary stories and many more.

‏مائیکل جیکسن ایک ایسا انسان جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی ‏اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفر...
02/10/2025

‏مائیکل جیکسن ایک ایسا انسان جو نظام فطرت کو شکست دینا چاہتا تھا اسے چار چیزوں سے سخت نفرت تھی ‏اسے اپنے سیاہ رنگ سے نفرت تھی, وہ گوروں کی طرح دکھائی دینا چاہتا تھا ‏اسے گمنامی سے نفرت تھی, وہ دنیا کا مشہور ترین شخص بننا چاہتا تھا۔اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی وہ اپنے ماضی کو اپنے آپ سے کھرچ کر الگ کردینا چاہتا تھا۔‏اسے عام لوگوں کی طرح ستر اسی برس میں مر جانے سے بھی نفرت تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا ‏وہ ایک ایسا گلوکار بننا چاہتا تھا جو ایکسو پچاس سال کی عمر میں لاکھوں لوگوں کے سامنے ڈانس کرے اپنا آخری گانا گائے پچیس سال کی گرل فرینڈ کے ماتھے پر بوسہ دے اور کروڑوں مداحین کی موجودگی میں دنیا سے رخصت ہو جائے ‏مائیکل جیکسن کی آنے والی زندگی ان چار خواہشوں کی تکمیل میں بسر ہوئی۔
اس نے 1982ء میں اپنا دوسرا البم ’’تھرلر‘‘ لانچ کیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا البم تھا۔ ایک ماہ میں اس کی ساڑھے چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور یہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گیا تھا۔ مائیکل جیکسن اب دنیا کا مشہور ترین گلوکار تھا، اس نے گمنامی کو شکست دےدی تھی ‏مائیکل نے اس کے بعد اپنی سیاہ جلد کو شکست دینے کا فیصلہ کیا اور پلاسٹک سرجری شروع کرا دیی، امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت، جلد، نقوش اور حرکات و سکناتبدل گئیں ‏سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی
‏اس کے بعد ماضی کی باری آئی، مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کردیا اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے، اس نے کرائے پر گورے ماں باپ حاصل کر لئے اور تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑا لی۔ ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا۔اس نے خود کو مشہور کرنے کیلئے ایلوس پریسلے کی بیٹی لیزا میری پریسلے سے شادی کر لی۔ اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا دئیے اور اس نے مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کرا لیا۔ ڈیبی رو کے بطن سے اسکی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی ‏اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ہوگئی اس نے بڑی حد تک اپنے ماضی سے بھی جان چھڑا لی ‏لہٰذا اب اس کی آخری خواہش کی باری تھی۔ وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کیلئےدلچسپ حرکتیں کرتاتھا مثلاً وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھا وہ جراثیم وائرس اور بیماریوں کے اثرات سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ وہ لوگوں میں جانے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیتا تھا وہ مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر بارہ‏ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے تھے ‏یہ ڈاکٹر روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے، اس کی خوراک کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اس کا سٹاف اسے روزانہ ورزش بھی کراتا تھا اس نے اپنے لئے فالتو پھیپھڑوں، گردوں، آنکھوں، دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔یہ وہ ڈونر تھے، جن کے تمام اخراجات مائیکل اٹھا رہا تھا اور ان ڈونرز نے بوقت ضرورت اپنے اعضاء اسے عطیہ کر دینا تھے، چنانچہ اسے یقین تھا کہ وہ ڈیڑھ سو سال تک ضرور زندہ رہے گا ‏لیکن پھر 25 جون کی رات آئی، اسے سانس لینے میں دشواری پیش آئی، اس کےڈاکٹرز نے ملک بھر کے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پرجمع کر لیا یہ ڈاکٹرز اسے موت سے بچانے کیلئے کوشش کرتے رہے لیکن ....
مکمل ہماری ویب سائٹ پر بڑھیں شکریہ لنک کھولیں 👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/10/Michael-jecson.html

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

بیوی کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان طریقہ – صرف دس منٹ کا راز"بیوی کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان طریقہ"صرف دس منٹ کا جادو  ...
29/09/2025

بیوی کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان طریقہ – صرف دس منٹ کا راز

"بیوی کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان طریقہ"
صرف دس منٹ کا جادو بیوی کے دل کو جیتنے کا راز
اکثر شوہر یہ کہتے ہیں: “ہم اپنی بیوی کو سب کچھ دیتے ہیں — گھر، کپڑے، سہولتیں، بچوں کی ذمہ داری — پھر بھی شکایت کیوں کرتی ہے؟”
اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت کو دنیا کی آسائشوں سے زیادہ ایک چھوٹی سی چیز کی ضرورت ہوتی ہے — محبت بھرا وقت اور توجہ۔
جب عورت دن بھر گھر سنبھالتی ہے، بچوں کو وقت دیتی ہے اور اپنی ذات قربان کرتی ہے، تو اس کے دل میں صرف ایک خواہش باقی رہ جاتی ہے —
“میرا شوہر مجھے دیکھے، مجھے سنے، میرے ساتھ ہنسے۔”
یہ کمی جب پوری نہ ہو تو دل کے اندر تنہائی اور شکایات جنم لینے لگتی ہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا:
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر ہو۔”
(سنن ترمذی)
یعنی نیکی صرف نماز، روزہ اور صدقہ تک محدود نہیں۔ اپنی بیوی کو وقت دینا، اس سے محبت سے بات کرنا بھی عبادت ہے۔

تحقیق کے مطابق، جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ احساسِ قربت محسوس کرتی ہے تو ..
مکمل پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/Bivi-ka-dil.html

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

اللہ اپ کو پسند کرتا ہے پانچ نشانیاںالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہآج کی ویڈیو میں ہم بات کریں گے اللہ کے پسندیدہ بندے ک...
28/09/2025

اللہ اپ کو پسند کرتا ہے پانچ نشانیاں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج کی ویڈیو میں ہم بات کریں گے اللہ کے پسندیدہ بندے کی پانچ ایسی نشانیاں کے بارے میں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ وہ شخص اللہ کا محبوب ہے۔
یہ نشانیاں ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا موقع دیتی ہیں تاکہ ہم بھی اللہ کی رضا حاصل کر سکیں۔

ویڈیو کو آخر تک ضرور دیکھیں کیونکہ ہم ان نشانیوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں گے۔
اور اگر آپ ہمارے چینل پر نئے ہیں تو سبسکرائب کرنا نہ بھولیں تاکہ آپ کو ایسی ایمان افروز ویڈیوز سب سے پہلے مل سکیں۔

---

✨ اللہ کی محبت حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟
دنیا کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو۔
ہر مسلمان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کا محبوب بن جائے۔

جیسا کہ قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
“بے شک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو بھی پسند کرتا ہے۔”

اور احادیث میں بھی اللہ کے پسندیدہ بندے کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔
آئیے اب وہ پانچ نشانیاں دیکھتے ہیں:
----
مکمل ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں لنک کھولیں 👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/Allah-ap-ko-pasand-karta-ha.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔

27/09/2025

Aaine Ka Raaz | آئینے کا راز | Agatha Christie Stories | Suspense & Mystery | Urdu Anokhe Kahaniyan

مجھے اپنے کالج کے ایک لڑکے سے محبت ہو گئی۔ وہ بھی مجھے بے حد چاہتا تھا۔ میرے ابو کافی سخت مزاج تھے۔ جب انہیں اس بات کا ع...
24/09/2025

مجھے اپنے کالج کے ایک لڑکے سے محبت ہو گئی۔ وہ بھی مجھے بے حد چاہتا تھا۔ میرے ابو کافی سخت مزاج تھے۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے میرا کالج جانا بند کرا دیا۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ جاتی کہ میرے والد اُس لڑکے سے روز ملنے جاتے اور دونوں بڑی خوشی سے گلے ملتے، مگر پھر بھی میری شادی اُس سے نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ایک دن جب حقیقت سامنے آئی تو میرے ہوش اُڑ گئے۔ یہ کہانی دراصل حقیقت پر مبنی ہے اور اس کا تعلق میرے والد کی اپنی زندگی سے ہے، جسے میں انہی کی زبانی بیان کر رہی ہوں۔

کہانی کچھ یوں ہے: ہم تین بہنیں تھیں اور گاؤں میں رہتے تھے۔ میں سب سے بڑی تھی۔ میرے ابو معمولی ملازم تھے اور ان کی تنخواہ بہت کم تھی، اس لیے گزارا بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ اس کے باوجود ان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ جاؤں، حالانکہ ہمارے خاندان میں تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور بیٹیوں کی پڑھائی کا تو بالکل رواج نہ تھا۔

ابو مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے:
"بیٹی، جب تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہو تو اپنے اسی مقصد پر نظر رکھنا۔ کسی اور خیال کو دل میں جگہ مت دینا۔"

میں نے بھی ان کی نصیحت پر عمل کیا اور پڑھائی کے سوا کسی طرف دھیان نہ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے اعلیٰ پوزیشن کے ساتھ میٹرک پاس کر لیا۔ یہ میرے والدین کی دعا ہی تھی کہ مجھے اول پوزیشن کا اعزاز ملا۔

اب میرا حق بنتا تھا کہ میں کالج میں داخلہ لوں۔ میرے والد بھی یہی چاہتے تھے لیکن ڈرتے تھے، کیونکہ وہ تین بیٹیوں کے باپ تھے۔ خاندان والے ہر وقت ان کے کان بھرنے لگے رہتے کہ "زمانہ خراب ہے۔"

آخر کار ابو نے ایک شرط پر مجھے کالج میں داخلے کی اجازت دی۔ ان کی شرط یہ تھی:
"تم سہیلیوں کے چکروں میں نہیں پڑو گی، نہ ان کی باتوں میں آؤ گی۔ زمانہ خراب ہے۔ اپنے قدم سیدھے راستے پر رکھنا، ورنہ جو لڑکیاں اس بات کا خیال نہیں رکھتیں وہ اپنی زندگی برباد کر لیتی ہیں۔"

میں ان کی ہر بات غور سے سنتی اور دل میں عہد کر لیتی کہ صرف پڑھائی سے غرض رکھوں گی اور کسی جمیل وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑوں گی۔

میری والدہ بھی سیدھی سادی خاتون تھیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں:
"دیکھو بیٹی، لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور پھر ان کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ پیار محبت کے کھیل سب کھوکھلے ہوتے ہیں۔"

میں سوچتی تھی کہ اگر محبت کے یہ کھیل جھوٹے ہوتے ہیں تو پھر لوگ یہ جھوٹے کھیل کھیل کر آخر پاتے کیا ہیں؟ مگر خیر، ان سب باتوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میرا مقصد صرف تعلیم حاصل کرنا تھا۔

میری دونوں چھوٹی بہنیں بھی سکول جاتی تھیں لیکن ان کا سکول محلے میں ہی تھا۔ اس لیے امی انہیں خود لے جاتی اور واپس لے آتی تھیں۔ لیکن مجھے اکیلے ہی کالج جانا پڑتا تھا، کیونکہ ابو صبح سویرے دفتر چلے جاتے تھے اور گاؤں کی کوئی اور لڑکی کالج نہیں جاتی تھی۔

کالج گھر سے کچھ دور، نزدیکی قصبے میں تھا۔ مجھے روز پیدل ہی جانا پڑتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امی اکثر پریشان رہتیں اور راہ چلتے مجھے دیکھ کر کہتیں:
"کاش! ہمارا کوئی بیٹا ہوتا تو آج وہ تجھے کالج چھوڑنے جاتا اور مجھے ہر دم تیری فکر سے نجات مل جاتی۔"

میں امی کو سمجھاتی:
"امی، کچھ نہیں ہوگا۔ آپ بلاوجہ پریشان نہ ہوں۔"

ایک سال گزر گیا اور میں نے گیارہویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کر لی۔ انہی دنوں کالج میں ایک نوجوان کلرک کی بھرتی ہوئی۔ وہ شکل و صورت میں بھی اچھا تھا اور بات چیت بھی نہایت شائستگی سے کرتا تھا۔ جلد ہی اس نے کالج کے سب لوگوں کے دل جیت لیے۔ لڑکیاں تو اس کے دیدار کے بہانے اس کے آفس کے چکر لگانے لگیں، مگر وہ کسی سے بھی غیر ضروری بات نہ کرتا، صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔

مجھے کالج سے ماہانہ وظیفہ (میریٹ اسکالرشپ) ملتا تھا، اور اسی سلسلے میں اکثر مجھے اُس کلرک کے پاس جانا پڑتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت ادب سے بات کرتا۔ رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ جب میں اس سے بات کرتی تو وہ کچھ گھبرا سا جاتا۔ اس کا یہی کھویا کھویا انداز مجھے اچھا لگنے لگا۔

وقت گزرتا گیا اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے بیچ کوئی ایسا رشتہ ہے جس میں ایک عجیب کشش ہے۔ ایسا تاثر تھا جس کو نہ میں سمجھ سکی اور نہ کوئی نام دے سکی۔ لیکن اس کی موجودگی مجھے ایک سکون دیتی تھی۔

اب جب بھی میں اُس کلرک کی آنکھوں میں دیکھتی تو ابو کی نصیحت یاد آ جاتی، جو میرے ذہن پر ایک تازیانے کی طرح لگتی تھی۔ میں فوراً خود کو سمجھاتی:
"بیٹی! محبت کے کھیل جھوٹے ہوتے ہیں۔ ان باتوں میں مت آنا۔ لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو بیوقوف بنا کر ان کی زندگی برباد کر دیتے ہیں۔ اگر کبھی تیرا دل کسی کو اچھا سمجھے تو مجھے ضرور بتا دینا۔"

امی کی یہ نصیحت مجھے بار بار یاد آتی اور اسی لیے میں محبت جیسے لفظ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ایک دن یہ بات میں نے اپنی سہیلی سے کہہ دی۔ وہ ہنس کر بولی:
یہ مکمل اسکور ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں 👇
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/College-ki-muhabbat.html
۔
۔
۔
۔
۔

۔

شوہر نے کہا مجھے تم پسند نہیں… اور طلاق دے دیتحریر ؛ فرزانہ خان اس نے بولا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ وہ دروازے کے پیچھے ب...
23/09/2025

شوہر نے کہا مجھے تم پسند نہیں… اور طلاق دے دی

تحریر ؛ فرزانہ خان

اس نے بولا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ وہ دروازے کے پیچھے بیٹھی تھی، دونوں بچے اس کے بازوؤں میں دبکے ہوئے تھے۔ شوہر نے ایک جملہ کہا: ’’مجھے تم پسند نہیں ہو‘‘ اور طلاق دے دی۔ یہ جملہ اس کے لیے موت کا اعلان تھا، سانس چل رہی تھی مگر زندگی دفن ہو گئی۔
یہ ہماری ایک جاننے والی خاتون کی کہانی ہے۔

ایک چند ماہ کا اور ایک دو سال کا بچہ، اکلوتی بہن، ڈھائی مرلے کا مکان، تین بھائی اور ان کی بیویاں۔ اسے اور اس کے بچوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں دھکیل دیا گیا۔ وہاں نہ روشنی تھی، نہ سکون—صرف طعنوں اور محرومیوں کا شور تھا۔

المیہ یہ ہے کے شوہر کو دو بچے پیدا کرنے کے بعد یاد آیا کہ خاتون خوبصورت نہیں، اور مزید یہ کہ اس بات پر طلاق؟ خدا کی پناہ!

بھائی کی بیویاں روز طعنے دیتیں: ’’یہ ہماری بجلی کھا رہی ہیں‘‘، ’’یہ ہمارے برتن توڑ رہی ہیں‘‘۔ وہ چپ رہتی، بچوں کو سینے سے لگاتی اور مسکرا کر کہتی: ’’میں ہوں نا‘‘۔ حالانکہ اندر سے وہ اتنی بار ٹوٹ چکی تھی کہ اگر چیختی تو دیواریں بھی لرز جاتیں۔

کچھ ماہ کھانا بھی ملتا رہا، پھر بھابیوں کے اعتراضات پر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم۔ بچے پالنے کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑی۔ لیکن مزدوریوں سے بچے پالنا مشکل ہوتے ہیں، لہذا ماں اور بچے کسمپرسی کی حالت میں جیتے رہے۔

رات کو جب بچے سو جاتے تو وہ چپکے سے کونے میں جا کر روتی۔ اس کے آنسو اتنے تھے کہ اگر الفاظ بنتے تو پوری کتاب ہو جاتی۔ مگر یہ کتاب وہ صرف اپنے رب کو سناتی تھی، کیونکہ انسانوں کے پاس اس کے لیے وقت نہیں تھا۔

اس خاتون نے پوری کی پوری زندگی اپنے بچوں کیلئے وقف کر دی، اور شوہر نے فرار حاصل کیا۔
اللہ رب العزت کے رحم و کرم سے تیرہ سال پہلے یہ بچے مجھے ملے اور میں نے بچوں کی کچھ راہنمائی کی اور بچوں نے شناختی کارڈ کی عمر سے پہلے پہلے ہی کچھ کمانا شروع کر دیا، وقت گزرتا گیا اور آمدن بڑھتی گئی۔

اب اس خاتون کے بچے بڑے ہوکر لاکھوں میں کمانے لگے تو باپ کو زندگی میں پہلی بار خیال آیا کے اسے اپنے بچوں سے بات کرنی چاہئے۔

(یہ مکمل کہانیاں ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں لنک کھولیں شکریہ)👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/Shohar-Ne-Kaha-Mujhe-Tum-Pasand-Nahi.html

شوہر آنکھوں سے اندھا، بیوی عاشق کی دیوانیمیں دنیا کی اُن بدقسمت لڑکیوں میں سے ایک تھی جن کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر...
22/09/2025

شوہر آنکھوں سے اندھا، بیوی عاشق کی دیوانی

میں دنیا کی اُن بدقسمت لڑکیوں میں سے ایک تھی جن کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور جو اپنی ممانی کے رحم و کرم پر تھی۔ ماموں بھی خاص مہربان نہیں تھے، البتہ کبھی کبھار خیال رکھ لیتے تھے اور اپنی بیٹیوں کو مجھ سے زیادہ محبت دیتے تھے۔ ماموں کی زندگی زیادہ نہ تھی، اس لیے وہ بھی قضاۓ الہی سے چل بسے۔

ماموں کے دنیا سے جانے کے بعد ممانی نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا۔ پہلے بھی وہ زیادہ مہربان نہیں تھیں، لیکن جو تھوڑا بہت لحاظ وہ ماموں کا کر لیا کرتی تھیں وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر انہوں نے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، گھر کی ملازمہ کو نکال دیا اور تمام گھر کی ذمہ داری میرے سر ڈال دی۔ حالانکہ میری عمر اس وقت صرف اٹھارہ سال تھی۔ مرتے کیا نہ کرتے — میں بے سہارا لڑکی جیسی بن گئی۔ ممانی نے جو کہا، میں نے ویسا ہی کیا۔

ممانی کا پینتیس سالہ بیٹا مجھ پر فریفتہ ہو گیا۔ ممانی اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتیں کہ جس لڑکی سے وہ بچپن سے نفرت کرتی رہی ہوں وہی ان کی بہو بن جائے۔ اپنے شاندار بیٹے کے لیے ممانی نے کتنے سپنے سجائے ہوئے تھے — وہ اپنے بیٹے کے لیے کوئی ڈاکٹر بہو لانا چاہتی تھیں، کسی اُونچے خاندان سے۔ اور میں تو غریب لڑکی تھی، جس کے والدین نہیں تھے اور جسے جہیز کے نام پر کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ ایک واحد خوبی جو میرے پاس تھی وہ میرا حسن تھا۔ میں انتہائی حسین تھی — اتنی حسین کہ جب آئینے میں خود کو دیکھتی تو حیران ہو جاتی کہ کیا واقعی یہ میں ہوں؟ یہ میری صورت، یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں، یہ میرے ہونٹ ہیں۔ میں اپنا چہرہ چھو کر اپنے حسن کو دیکھتی رہتی۔

مگر میرا حسن کچن اور گھر کی نظر ہو گیا۔ ممانی کا بیٹا مجید میرے حسن کا دیوانہ بن گیا۔ اس نے ممانی سے کہا کہ وہ صرف مجھ سے ہی شادی کرے گا۔ دو سال تک ممانی کا سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا گیا کہ میں نے ان کے بیٹے کو بھانسا (پیار کر لیا) ہے۔ میں ہر وقت ڈری ہوئی رہتی، دعا کرتی کہ جلدی میری شادی ہو جائے تاکہ میں اس عذاب سے نکلو۔ میں ہرگز ممانی کے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، کیونکہ ممانی کے بیٹے سے شادی کرنے کا مطلب تھا ایک بار پھر وہی جہنم جیسی زندگی جو میں بالکل بھی نہیں چاہتی تھی۔ میں اس گھر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتی تھی اور واپس نہیں آنا چاہتی تھی۔

اسی دوران میرے لیے ایک رشتہ آیا۔ ممانی نے فوراً ہاں کر دی۔ چیک، منگنی، پھر بیاہ ہو گیا۔ ان لوگوں نے جہیز کے نام پر ایک روپیہ بھی نہیں لیا؛ میرے کپڑے بھی انھوں نے بنوا کر دیے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ مجھے اتنا اچھا سسرال ملا جس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں تھی۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات میری ساری خوشی ہوا ہو گئی جب مجھے میرے شوہر کے متعلق ایک ایسی حقیقت کا علم ہوا جسے سن کر میرا سر پکڑ کر رہ گیا۔ میں دلہن کے روپ میں سجی سنوری بیٹھی تھی اور شوہر ولید کا انتظار کر رہی تھی۔ ولید اندر داخل ہوئے، میرا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئے، مگر مجھے کسی انہونی کا احساس ہوا۔

انہوں نے پوچھا کہ میں دیکھنے میں کیسی ہوں۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا اور کہا: "خود گھونگٹ اُٹھا کر دیکھ لیں میں کیسی ہوں۔" وہ ہنس پڑے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ کیوں ہنس رہے ہیں اور کیوں میرا گھونگٹ اُٹھا کر نہیں دیکھ رہے۔ میں نے خود گھونگٹ اٹھا کر اُن کی طرف دیکھا — وہ سامنے دیکھ رہے تھے، میری طرف دیکھ ہی نہیں رہے تھے۔ میرا دل ڈوب گیا۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ کیا آپ اس شادی سے خوش نہیں ہیں؟" وہ پھر ہنسنے لگے۔ مجھے ان کے رویے میں کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔

میں سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ اس طرح کیوں ہنس رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں، یا اُن کی شادی زبردستی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے تھے؟" وہ دوبارہ ہنسے۔ اب میرا دماغ خراب ہونے لگا۔ یہ کیا طرزِ گفتگو تھا؟ اگر میں انہیں پسند نہ بھی آتی تو کم از کم سچ بتاتے۔ میرا دل کسی گہری کھائی میں گر گیا۔ میری کوشش تھی کہ وہ ایک بار میرا چہرہ دیکھ لیں تو یقیناً اُس لڑکی کو بھول جائیں گے جس سے وہ محبت کرتے تھے، یا پھر کوئی بھی بات دیکھنے کے بعد سب بھول جائیں گے، کیونکہ میں بہت خوبصورت تھی۔ مگر وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھ رہے تھے اور میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں سمجھتے تھے۔

میں تو اسی سوچ کے ساتھ آئی تھی کہ اپنے شوہر اور سسرال کی اتنی خدمت کروں گی کہ مجھے واپس ممانی کے پاس جانا نہ پڑے۔ اچانک ولید نے کہا: "کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ میں دیکھ نہیں سکتا؟" مجھے لگا وہ مذاق کر رہے ہیں۔ میں حیران ہو کر بولی: "یہ مزاق کا وقت نہیں، مجھے اس طرح کا مذاق پسند نہیں۔" میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کا احترام کرتی ہوں، آپ کی آنکھوں کی نورِ سلامت رہے، آپ کی محبت میرے لیے عبادت کی مانند ہے۔ میں نے فرمانبردار اور وفادار بیوی بن کر ان سے کہا۔

ولید پھر بولے: "ناذنین، یہ دنیا بہت بےوفا ہے۔ اگر کسی میں کوئی خوبی ہو تو دنیا اُس سے محبت کرتی ہے، مگر اگر کسی میں کمی ہو تو یہ دنیا بےوفا ہو جاتی ہے۔ میں تمہیں بتا دوں کہ میں تمہاری محبت کے لائق نہیں ہوں، کیونکہ میں اندھا ہوں۔" انہوں نے کہا کہ سب نے کہا ہے کہ تم بہت حسین ہو، مگر افسوس کہ میں تمہارے حسن کو دیکھ نہیں سکتا۔ ولید یہ سب کہہ رہے تھے، اور مجھے ابتدا میں احساس نہ ہوا کہ یہ مذاق نہیں بلکہ سچائی ہے۔ جب مجھے حقیقت کا علم ہوا تو میری دنیا ایک پل میں گِر گئی۔

میں پھٹی آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی۔ میرے سپنوں کا محل زمین بوس ہو گیا۔ میں کیا سوچ کر یہاں آئی تھی؟ وہ انسان تو دیکھ ہی نہیں سکتا — اور جو نہیں دیکھ سکتا وہ میرا سہارا کیسے بن سکتا ہے؟ اسے تو خود چلنے کے لیے سہارے کی ضرورت تھی۔ میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا تھا — یہ دھوکہ میری ممانی اور میرے سسرال والوں نے کیا تھا۔ میں غصے سے بھڑک اٹھی: "کیا آپ لوگوں کو شرم نہیں آئی؟ غریب، مسکین، یتیم لڑکی کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرتے ہیں!" میں نے غصے سے کہا۔

ولید بولے کہ تمہاری ممانی کو معلوم تھا کہ میں دیکھ نہیں سکتا، انہوں نے تمہیں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم راضی ہو۔ مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا: "میں راضی ہوں؟ کیا میں کسی ایسے انسان سے شادی پر راضی ہو سکتی تھی جو دیکھ ہی نہیں سکتا؟" میں تو اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آئی تھی۔ اب میرے پاس واپس جانے کا راستہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس جہنم میں دوبارہ نہیں جاؤں گی — اب میں کہاں جاؤں؟ میں زور زور سے رونے لگی۔ پتہ نہیں وہ خاموشی سے اپنے بستر پر سو گئے۔ ولید نے مجھ سے مزید کوئی بات نہیں کی، وہ جلدی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ میں حیران و پریشان جاگتی رہی۔ رات کے کسی پہر میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگی تو ولید سو رہے تھے۔ جاگنے کی آواز پر وہ بھی جاگ گئے، پھر انہوں نے سہارا تلاش کیا، مگر میں اتنی غصے میں تھی کہ میں نے انہیں سہارا دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

وہ کمرا ان کا تھا۔ اندازے کے مطابق وہ واش روم چلے گئے، پھر تھوڑی دیر بعد باہر نکلے۔ میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے مجھے پکارا: "ناذنین، کیا تم یہاں ہو؟" میں کمرے میں موجود تھی مگر میں نے جواب نہ دیا۔ میرا دل ٹوٹ چکا تھا۔ میں بیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس پر یہ ظلم ہوا تھا — میری حالت کا اندازہ دوسرے شاید نہ کر سکیں، جو تکلیف ہے وہ جوتا پہننے والا ہی جانتا ہے۔ میری تکلیف صرف مجھے معلوم تھی۔ دن ایسے ہی گزرنے لگے۔ میرا سسرال میں دل نہ لگا — وہ شخص جس کے سہارے میں آئی تھی وہ کسی کام کا نہ تھا۔

میری ساس نے کہا کہ تمہاری ممانی کو ہم نے ہر حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ تم راضی ہو۔ انہوں نے کہا کہ تم انسانی ہمدردی کی خاطر ولید سے شادی کرنا چاہتی ہو اور تم وارث دو گی۔ یہ سن کر مجھے احساس ہوا کہ میرے سسرال والوں کا کوئی قصور نہیں تھا — انھوں نے میری ممانی کو اندھیرے میں نہیں رکھا، بلکہ میری ممانی نے مجھے اندھیرے میں رکھا۔ تو پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ نے اپنے اندھے بیٹے کی شادی میرے ساتھ کروائی؟ میں نے غصے سے اپنی ساس کو کہا۔ انہوں نے جواب دیا تو مجھے بھی غصہ آیا۔

میں ایسی پتھر دل اور بے حس لڑکی ہرگز نہیں تھی، لیکن حالات اور واقعات نے مجھے پتھر دل بنا دیا تھا۔ پہلے ممانی کے رویے نے مجھے سخت کر دیا، اور شادی کے بعد ملنے والی اس دھوکے نے مجھے بے حس بنا دیا تھا۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کی مجھے کوئی پرورش نہیں رہی تھی — میرے جذبات چکنا چور ہو گئے تھے۔ میں ٹوٹ چکی تھی اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ پھر بھی میں نے بہت کوشش کی دل لگانے کی مگر دل نہیں لگا۔ میں چاہتی تھی کہ میرے حسن کی قدر کی جائے، میری تعریف کی جائے اور مجھے میرا حق ملے۔ مگر میں ہر وقت روتی رہتی۔ ولید بند کمرے میں میری سسکیاں سنتے اور مجھے چپ کروانے کی کوشش کرتے، مگر مجھے ان کا وجود ہی اپنے سامنے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ میری شخصیت منفی ہو گئی تھی۔

اسی دوران ولید نے کہا کہ وہ شہر سے کہیں دور جا رہے ہیں اور واپسی میں دیر ہو سکتی ہے، وہ ڈرائیور کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ میں کوئی کام نہیں کر رہی تھی کیونکہ مجھے بہت غصہ تھا؛ سارا کام نوکرانی کرتی تھی۔ یہاں ہر سہولت تھی مگر میرے دل کی خوشی نہیں تھی۔

ادھی رات کو پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھلی، میں کچن میں آئی پانی پینے کے لیے، کہ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ میں چیخ نہ سکوں۔ پھر کسی نے کہا: "تم بہت خوبصورت ہو، میں نے جب سے تمہارے حسن کو دیکھا ہے تب سے تمہارا دیوانہ ہوں۔"
(یہ مکمل ہسٹری ہماری ویب سائٹ پر پڑے شکریہ لنک کھولیں)
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/Shohar-ankhon-se-andha.html

جب دو ادمیوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس مبارک کو چوری کرنے کی کوشش کی۔۔: "سلطان نورالدین زنگیؒ – محافظِ روضہ رسول ...
22/09/2025

جب دو ادمیوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس مبارک کو چوری کرنے کی کوشش کی۔۔

: "سلطان نورالدین زنگیؒ – محافظِ روضہ رسول ﷺ"

اسلامی تاریخ کے صفحات میں ایک ایسا نام سنہری حروف سے لکھا گیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ نام ہے سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کا۔

اگر آپ کے ذہن میں فوراً نورالدین زنگی نہ آ رہا ہو، تو میں آپ کو ایک اور نام یاد دلا دوں… صلاح الدین ایوبی۔ جی ہاں! وہی عظیم مجاہد جسے مسلمان دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی۔ مگر یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی کے ہی کمانڈر تھے اور ان کی رہنمائی میں صلیبی جنگوں میں شامل ہوئے تھے۔

ولادت اور حکومت

سلطان نورالدین زنگی 5 فروری 1118ء کو پیدا ہوئے۔ وہ زنگی سلطنت کے بانی عمادالدین زنگی کے صاحبزادے تھے۔
1146ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد نورالدین نے حکومت سنبھالی اور پھر اگلے 28 برس تک اسلام کے پرچم کو سربلند رکھا۔

ابتدا میں دارالحکومت حلب تھا، لیکن بعد میں دمشق کو مرکز بنایا۔ انہوں نے چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کی تاکہ قبلۂ اول بیت المقدس کی آزادی کی راہ ہموار ہو سکے۔

صلیبی جنگوں میں کردار

نورالدین زنگی نے صلیبیوں کی ریاستوں پر حملے کیے، ان کے کئی قلعے فتح کیے اور انطاکیہ و ایڈیسا جیسے علاقوں میں عیسائیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا۔
دوسری صلیبی جنگ میں دمشق کا دفاع ان ہی کی قیادت میں ہوا اور یہی وہ فتوحات تھیں جنہوں نے بعد میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں تیسری صلیبی جنگ میں بیت المقدس کی آزادی کی بنیاد رکھی۔

مصر کی فاطمی حکومت کا خاتمہ

اس دور میں مصر کی فاطمی حکومت کمزور ہو چکی تھی۔ صلیبی مصر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے تاکہ فلسطین تک اپنا راستہ بنا سکیں۔
نورالدین نے بروقت قدم اٹھایا اور 564ھ میں مصر پر قبضہ کر کے فاطمی خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ اقدام مسلمانوں کے لیے بڑی کامیابی ثابت ہوا۔

---

✨ روضہ رسول ﷺ کی حفاظت کا ایمان افروز واقعہ

نورالدین زنگیؒ کو ایک ایسا شرف بھی حاصل ہوا جو دنیا کے چند ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ یہ واقعہ تقریباً تمام کتب تاریخ میں مذکور ہے۔

ایک رات انہوں نے خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"نورالدین! مدینے کا سفر کرو، میری قبر میں پانی آ رہا ہے اور کچھ لوگ میری جسدِ مبارک تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
(یہ مکمل اسلامی کہانیاں ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں لنک کھولیں شکریہ۔۔)👇
https://nestofnovels.blogspot.com/2025/09/nooruddin-zangi-roz-e-rasool.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

آوارہ شوہر اور مظلوم بیوی یہ میری زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔ میں شہر میں رہنے والی تھی اور میری شادی گاؤں میں ہوئی۔ میں بہ...
21/09/2025

آوارہ شوہر اور مظلوم بیوی

یہ میری زندگی کی حقیقی کہانی ہے۔ میں شہر میں رہنے والی تھی اور میری شادی گاؤں میں ہوئی۔ میں بہت خوش تھی کیونکہ میرا شوہر مجھے بے پناہ چاہتا تھا۔ ایک روز جب میں کپڑے سلائی کر رہی تھی تو گاؤں کی ایک عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی، “کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟” میری اصرار پر اس نے بات بتائی۔ میرے تو خوشی کے پر پھڑپھڑا گئے تھے مگر جو بات اس نے بتائی، اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے اور میں اسے اس خاتون کی زندگی کی زبان سے سنا رہی ہوں۔ کہانی شروع کرتے ہیں۔ بیس سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی۔ میرا شوہر میرا خیال رکھتا تھا اور مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ وہ گاؤں کے رہنے والے تھے جبکہ میں شہر کی پرورش پائی ہوئی لڑکی تھی۔ اس کے باوجود وہ میری قدر کرتا تھا — میں پڑھی لکھی اور شہری ہونے کے باوجود اس کے ساتھ گاؤں کا طرزِ زندگی اختیار کر رہی تھی۔

ان دنوں ہمارے گاؤں میں نہ بجلی تھی اور نہ صاف پانی۔ ٹی وی اور پنکھے تو دور کی بات ہیں؛ ٹھنڈا پانی پینے کو بھی میسر نہیں تھا۔ شادی سے پہلے میں اپنے ماموں کے گھر شہر میں رہتی تھی جہاں ہر سہولت تھی۔ وہاں سے آنا میرے لیے ایک بڑا فرق تھا۔ میرے شوہر نے آٹھویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا اور وہ گاؤں کے اسکول گئے تھے۔ اس لحاظ سے خاندان کے مطابق میں اپنے شوہر سے زیادہ تعلیم یافتہ تھی، مگر اصل بات تو پیار اور محبت کی ہوتی ہے۔ اگر انسان کو سچی محبت مل جائے تو وہ دیہات میں بھی خوش رہ سکتا ہے اور ویرانے میں بھی اپنی جنت آباد کر سکتا ہے۔ میں نے بھی اپنے شوہر کی محبت کی بدولت اس ویرانے میں اپنی جنت آباد کر رکھی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ شوہر کے ہوتے مجھے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری زمین تھوڑی سی تھی مگر ہم محنت سے کام کرتے تھے۔ اگر فصل اچھی ہو جاتی تو سال بھر کا گزارہ ہو جاتا۔ شہر جیسی سہولتیں تو نہیں تھیں، خاص طور پر جب کوئی بیمار ہوتا تو پریشانی بڑھ جاتی۔ بعض اوقات تو مریض شہر کے اسپتال پہنچنے سے پہلے راستے میں دم توڑ دیتا تھا۔ اس کے باوجود میں دیہات میں خوش تھی — یہاں سکون تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مجھے اپنے شوہر کی محبت حاصل تھی۔ زندگی میں سکون کے سوا میں نے کبھی کسی چیز کی خواہش نہیں کی۔

میرے شوہر میرا بہت خیال رکھتے تھے، چاہے وہ ٹریکٹر چلا رہے ہوں یا دودھ کے کام میں مصروف ہوں — ان کا دھیان ہمیشہ میری طرف رہتا تھا۔ وہ خوش اخلاق اور مزاحیہ انسان تھے۔ گھر آ کر لطیفے سناتے اور مجھے ہنساتے رہتے۔ ایک دن جب وہ ٹریکٹر لے کر کھیتوں میں گئے اور کام ختم کر کے اپنے ڈیرے پر بیٹھ گئے، میں کسی کام سے باہر نکلی تو دیکھا کہ دو عورتیں ہماری زمین سے مٹی اٹھا رہی تھیں۔ جب میں ان کے قریب گئی تو ایک نے دوسری سے کہا، “دیکھو یہ زمین والی ہے، یہیں سے مٹی لے لو۔” دوسری عورت نے اکڑ کر میری طرف دیکھا اور کہا، “میں تو یہی مٹی لے جاوں گی۔” اس نے پھر ٹوکری اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔

اس کی بات سن کر میرے کان لال ہو گئے۔ مٹی لینے سے میں نے انکار کیوں کرنا تھا؟ مگر جب اس نے اکڑ کر بات کی تو مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے غصے میں پکار کر کہا، “یہاں سے ایک ذرا بھی مٹی نہیں لے جا سکتی — ٹوکری واپس کرو!” اس پر وہ بولی، “نہیں، میں الٹوں گی نہیں، دیکھتی ہوں تو کیا کرتی ہو!” یوں ہم دونوں میں تلخ کلامی شروع ہوگئی۔ دوسری عورت بیچ بچاؤ کر رہی تھی کہ، “بی بی، ہم تو نور بنانے کے لیے مٹی لے رہے ہیں، آخر بات کو بڑا کیوں کر دیتی ہو؟ ایک ٹوکری مٹی سے کیا ہوتا ہے؟” مگر میری ناراضگی بڑھ گئی۔

میرے شوہر اسی وقت قریب آ گئے۔ مجھے وہ عورت سے جھگڑتے دیکھ کر وہ بھی آگئے اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے شکایت انداز میں پوری بات بتائی۔ جمشید (میرے شوہر) بولے، “میں گھر کے اندر تھا، میں خود اس سے نمٹ لوں گا — اس نے تمہاری اجازت کے بغیر مٹی اٹھائی ہے۔” ان کی بات سن کر مجھے خوشی ہوئی اور میں نے دوبارہ اس عورت کو برا بھلا کہا اور گھر اندر آ کر چلی گئی۔ میرا موڈ بُرا ہو گیا تھا؛ سوچا تھا کہ جمشید ضرور اس مغرور عورت کو سمجھا دیں گے مگر دل کو قرار نہ آیا۔

میں دروازے سے جھانکتی رہی اور دیکھتی رہی۔ حیرت انگیز طور پر وہ عورتیں میرے شوہر سے باتیں کر رہی تھیں اور وہ خود مٹی بھری ٹوکریاں ان کے سروں پر رکھ رہے تھے۔ یہ منظر میرے لیے دوزخ کا نظارہ تھا۔ میرے دل میں آگ لگ گئی۔ سوچنے لگی کہ جو میں نے سوچا وہ غلط ثابت ہوا — وہ میرا ساتھ دینے کے بجائے ان کے ساتھ مل گیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے سارا کچھ بدل گیا۔ میں چُپ نہیں رہ سکی، غصہ جو پہلے کم آتا تھا، اس بار بے قابو ہو گیا۔ ایک لمحے کو میں نے شدید غصہ محسوس کیا کہ کاش میرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار ہوتا۔

جب جمشید کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ شرمندہ سی نظر کے ساتھ میری طرف آئے۔ عورتیں بھی مسکرا کر خوش نظر آئیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان عورتوں کے رویے میں شانِ بے نیازی بھی تھی، جیسے کسی کامیابی کا غرور۔ وہ دن ایسے گزرے کہ جمشید گھر واپس نہیں آئے اور نہ دوپہر کا کھانا کھایا — وہ اپنے ڈیرے سے قریبی زمیندار کے ڈیرے پر چلے گئے۔ میں رات بھر غصے اور فکر میں جاگتی رہی، شاید وہ جلدی لوٹ آئیں تو میں انہیں منا کر سکوں، مگر وہ دیر تک نہ آئے۔ جب وہ آخرکار رات گئے گھر آئے تو بغیر کوئی وضاحت کیے سیدھے سو گئے۔ میں نے سوچا کہ شاید جھگڑے کے ڈر سے وہ ایسا کر رہے ہوں گے اور صبح مجھے منا لیں گے۔

اگلی صبح جب میں نے انہیں دیکھا تو وہ ویسے ہی برتاؤ کر رہے تھے جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ مجھے ان کی محبت کی عادت تھی مگر آج مجھے یہ درد برداشت کرنا پڑا۔ میں نے کچھ دن ان سے ناراضگی ظاہر کی مگر انہوں نے مجھے منا نے کی کوشش نہیں کی۔ جب دل کی تکلیف بڑھ گئی تو میں خود ہی ان کو منانے لگی، مگر وہ لاپرواہ بنے رہے۔ اب میرے منانے پر بھی وہ ماننے کو تیار نہیں تھے، جیسے قصور میرا ہو نہ کہ ان کا۔

رفتہ رفتہ وہ دیر سے گھر آنا معمول بنا بیٹھے۔ اگر میں پیار سے روٹھتی یا شکوہ کرتی تو اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ باتیں مختصر اور بے رونق ہو گئیں۔ بچے ان کی گود میں بیٹھتے مگر انہیں توجہ نہیں ملتی تھی، بلکہ اکثر انہیں جھڑکتے تھے۔ ان کے بدلے ہوئے رویے نے مجھے پریشان کر دیا تھا — سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سلائی کرتی تھی۔ ایک روز، جیسا کہ روز کا معمول تھا، میں برآمدے میں بیٹھ کر کپڑے سی رہی تھی کہ دیہات کی ایک عورت پھر میرے پاس آئی۔ کچھ کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بولی، “ارے، کیا تمہیں کچھ معلوم ہے؟” میں نے کہا، “کیا مطلب؟” وہ کہنے لگی، “تمہارے گھر والا کسی اور عورت سے تعلق رکھتا ہے، دونوں کھیتوں کے کنارے، نہر کے پاس ملتے ہیں۔”

یہ سن کر میرے ہاتھ سلائی کی مشین کے ہتھّے پر جم گئے اور میں اس عورت کے منہ کو گھورنے لگی۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہیں۔
(یہ مکمل کہانی ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں شکریہ)👇
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/Awara-shohar.html
۔
۔
۔
۔
۔
۔

کم عمر بیوی اور ظالم ساس---میری شادی ایک کم عمر حسین لڑکی سے ہوئی تھی۔ میں بہت خوش تھا لیکن شادی کے دو ماہ بعد ہی کمانے ...
19/09/2025

کم عمر بیوی اور ظالم ساس
---
میری شادی ایک کم عمر حسین لڑکی سے ہوئی تھی۔ میں بہت خوش تھا لیکن شادی کے دو ماہ بعد ہی کمانے کے لیے دبئی چلا گیا۔ وہ بہت روئی اور بولی کہ مت جاؤ۔ مجھے لگا جیسے وہ خوف زدہ ہے۔ میں نے خوف کی وجہ پوچھی تو وہ گھبرا گئی۔ میرا دبئی جانا مجبوری تھا، اس لیے میں چلا گیا، لیکن وہ مجھ سے بات بھی نہ کرتی۔ چار مہینے بعد میں غصے میں واپس پاکستان آیا کہ اس کا دماغ درست کروں، مگر میرے گھر پہ تالا لگا تھا۔ میں حیران رہ گیا اور پڑوسیوں سے پوچھا کہ میری بیوی اور گھر والے کہاں گئے؟
میں ابھی پوچھ ہی رہا تھا کہ گھر کے اندر سے ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ میں نے فوراً تالا توڑا اور اندر گیا۔ منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

جو ہی جانے کے لیے واپس پلٹا تو دل میں عجیب سی بے چینی نے جکڑ لیا جیسے میں یہاں کچھ چھوڑ کر جا رہا ہوں اور مجھے نہیں جانا چاہیے۔ گھبرا کر میں نے اردگرد دیکھا، محلے والے اپنے گھروں میں واپس جا چکے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں دبئی سے واپس آیا ہوں تو سب مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے دروازے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے جانے کے دو ماہ بعد ہی یہاں تالا لگ گیا تھا، اور اس کے بعد ہم نے کبھی کسی کو اس گھر میں آتے جاتے نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں تمہاری بیوی کہاں چلی گئی۔

یہ سنتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے مگر ضبط قائم رکھا۔ دماغ میں یہی سوال چل رہا تھا کہ پتہ نہیں میری بیوی کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔ میں اپنے گھر گیا تو ماں نے بھی لاعلمی ظاہر کی اور کہا: تمہارے جانے کے بعد میں نے رمشاہ سے کہا تھا کہ میرے پاس آ کر رہ جاؤ مگر اس نے منع کردیا۔ پہلے تو میں حیران ہوئی، زور بھی دیا کہ اکیلی کیسے رہو گی مگر وہ بضد رہی۔ میں نے زبردستی نہیں کی۔ ایک دن کئی ہفتوں بعد تمہارے گھر گئی تو دیکھا کہ گھر بند ہے۔ لوگوں سے پوچھا مگر انہیں بھی کچھ خبر نہیں تھی۔

یہ سنتے ہی میری پریشانی بڑھ گئی۔ ماں نے تسلی دیتے ہوئے کہا: "چلو، کچھ نہیں، وہ خود ہی واپس آ جائے گی، نہ بھی آئی تو اس نے خود ہی چھوڑا ہے، تمہیں اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔" مگر میں پریشان تھا۔ نیند کی گولی کھا کر سونے کے لیے لیٹا اور کچھ دیر بعد سو گیا۔

پتہ نہیں کتنی دیر سویا رہا مگر اچانک عجیب سا خواب آیا۔ رمشاہ خواب میں تھی اور بہت رو رہی تھی۔ کہنے لگی: "جمیل! تم نے اچھا نہیں کیا۔ مجھے اندھیروں کے حوالے کر کے چلے گئے۔ یہ لوگ مجھے جانوروں کی طرح رکھتے ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے مجھے بچا لو!" یہ کہتے ہی وہ زور زور سے رونے لگی۔ میں اسے تسلی دینے کے لیے آگے بڑھا تو خواب ٹوٹ گیا۔ میں نے چیخ کر رمشاہ کو پکارا لیکن وہ خواب میں تھی، حقیقت میں نہیں۔

بکھلاہٹ میں اردگرد دیکھا تو خود کو کمرے میں پایا۔ جلدی سے اٹھ کر پانی کا گلاس پیا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہاں جاؤں۔ پھر واپس گھر آیا تو وہی پرانا تالا لگا تھا جس پر ہلکا سا زنگ بھی پڑ چکا تھا۔ میرے پاس چابی تھی، تالا کھول کر اندر گیا۔ پورا گھر ویران تھا۔ کمرے کھولے تو دیکھا کہ گند ویسے ہی بکھرا ہوا ہے۔ رمشاہ کے کپڑے اور میک اپ کا سامان ڈریسنگ ٹیبل پر ایسے پڑا تھا جیسے وہ ابھی گئی ہو۔ کچن میں گیا تو چولہے پر سالن رکھا تھا مگر بدبو آنے لگی تھی۔ گلاس اور چائے کے برتن بھی ویسے ہی پڑے تھے۔

یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پانچ منٹ کے لیے باہر گیا ہو اور پھر کبھی واپس نہ آیا ہو۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے رمشاہ کی ماں کو فون کیا۔ وہ روتے ہوئے بولیں: "ہم نے اپنی بیٹی کی شادی تم سے کی اور تم نے اس کے سارے رشتے کاٹ دیے۔" میں نے کہا: "انٹی! میں یہی بتانے والا تھا۔" مگر وہ بولی: "دو ماہ پہلے اس نے ہمیں فون کیا اور کہا کہ وہ دبئی جا رہی ہے تمہارے پاس۔ پتہ نہیں اب رابطہ ہو بھی سکے گا یا نہیں۔" میں نے پوچھا: "کیوں نہیں ہوگا رابطہ؟" تو وہ بولیں: "بیٹی کہہ رہی تھی کہ جمیل بہت غصے والے ہیں۔" یہ کہہ کر فون کاٹ دیا۔

میں حیران رہ گیا۔ میں نے تو رمشاہ کو کبھی منع نہیں کیا کہ وہ مجھ سے رابطہ نہ رکھے۔ بلکہ شروع دنوں میں اکثر میں خود پوچھتا کہ اس نے میکے فون کیا ہے یا نہیں، اگر نہ کرتی تو میں اسے فون کرنے پر زور دیتا۔ پھر وہ کہاں گئی؟ یہ سوال مجھے کھا رہا تھا۔ میں نے اور لوگوں کو فون کیے مگر سب نے لاعلمی ظاہر کی۔

میں چارپائی پر بیٹھا سوچتا رہا۔ اچانک عجیب سا احساس ہوا کہ رمشاہ یہیں کہیں ہے۔ میں نے پورا گھر دوبارہ چھان مارا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ خوشبو اور اس کی موجودگی کا احساس مجھے وہاں سے جانے نہیں دے رہا تھا۔ کچھ دیر مزید رک کر میں قریبی تھانے گیا اور گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ پولیس نے کہا کہ لڑکی کو گئے کافی وقت ہو گیا ہے۔ رپورٹ 24 گھنٹے کے اندر درج ہونی چاہیے تھی۔ اب ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں مگر یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ ملے گی۔

مایوس ہو کر باہر آیا تو ایک جگہ رش دیکھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کوئی بابا شہر میں آیا ہے جو دعائیں دیتا ہے اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ کسی نے کہا: "جب سے بی بی صاحب کو لنگر چڑھایا ہے، میری سب مشکلات ختم ہو گئیں۔" میں نے سر جھٹکا اور وہاں سے نکل آیا۔ ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ رب سے رو رو کر دعا کرتا کہ میری بیوی واپس آ جائے۔ مجھے یقین تھا کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔

میری شادی اماں نے اپنی پسند سے کرائی تھی اور مجھے اعتراض نہیں تھا۔ شادی کے فوراً بعد دبئی میں نوکری لگ گئی۔ اماں بہت خوش ہوئیں مگر رمشاہ رونے لگی۔ میں نے اسے دلاسہ دیا تو وہ بولی: "میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھے چھوڑ کر جائیں۔ آپ کے بغیر میں اکیلی رہ جاؤں گی۔" میں نے اسے تسلی دی۔ جانے کے دن قریب آئے تو میں پیکنگ میں مصروف رہا اور دھیان نہ دیا کہ وہ بہت کھوئی کھوئی سی ہے۔

ایک دن اس نے کہا: "جمیل! کیا آپ میرا حال پوچھتے رہیں گے؟" میں نے حیران ہو کر پوچھا: "کیوں؟ کیا ہوا؟" تو وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولی: "مجھے لگ رہا ہے آپ چلے جائیں گے تو کچھ بہت برا ہوگا۔" وہ ڈری ہوئی تھی اور کہنے لگی: "مجھے بچپن سے ہی سچے خواب آتے ہیں..."

یہ بات اس نے ایک دو مرتبہ مجھے پہلے بھی بتائی تھی مگر میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔ مگر اب جب وہ یہ بات کر رہی تھی تو میں نے حیرت سے پوچھا:
"کچھ دیکھا ہے تم نے خواب میں، وہ لشکر وغیرہ؟"
وہ بولی:
"یہی تو مسئلہ ہے، خواب میں جو اشارہ ہوتا ہے، میں اسے سمجھ نہیں پاتی۔ جب وہ واقعہ ہو جاتا ہے، تب سمجھ آتی ہے کہ خواب کا مطلب کیا تھا۔ بس ابھی میں نے ایسا خواب دیکھا ہے جیسے آپ کو ایئرپورٹ پر چڑھا کر میں کسی کنویں میں گر رہی ہوں، اور آپ بھی مجھے نہیں بچا سکتے۔ پھر منظر بدل جاتا ہے اور دوسرا خواب آتا ہے جیسے میں بے ہوش ہوں اور میرے ارد گرد بہت سے لوگ ہیں۔ میں سب کی باتیں سن رہی ہوں، ہر کوئی مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔"

وہ یہ سب سوچتے ہوئے کہہ رہی تھی اور میں جو اپنا بیگ بند کر رہا تھا، اچانک اس کے قریب آیا اور کہا:
"یہ کیسا خواب ہے؟ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟"

وہ نفی میں سر ہلا کر بولی:
"مجھے واقعی نہیں پتا یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ بس ایک احساس دل میں مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے کہ آپ جائیں گے تو میں تباہ ہو جاؤں گی۔ مت جائیں مجھے چھوڑ کر!"

یہ کہہ کر وہ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اس وقت رمشاہ کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیا کیونکہ مجھے صرف باہر جانے کا شوق تھا۔ میرے ابا بھی دبئی میں ہی کام کرتے تھے۔ ان کا انتقال ہو گیا تو انہی کی جگہ میں نے اپلائی کیا تھا۔ باہر جانا میرا بچپن کا خواب تھا۔ اس لیے جب رمشاہ یہ سب کہہ رہی تھی تو اسے تسلی دینے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں اپنا خواب نہیں چھوڑ سکتا تھا، بڑی مشکل سے تو موقع ملا تھا۔

میں نے کہا:
"تم پریشان مت ہو، یہ تمہارا وہم ہوگا۔"

میری بات پر وہ بولی:
"اگر کچھ ہو گیا تو؟"

میں نے نرمی سے پوچھا:
"شادی کے بعد تمہیں کوئی ایسا خواب آیا ہے جو سچ ہو گیا ہو؟ دو ماہ ہو گئے ہیں نا ہماری شادی کو؟"

اس نے نفی میں سر ہلا کر کہا:
"نہیں، شادی کے بعد تو خواب آنا ہی بند ہو گئے ہیں۔"
اس بات پر میں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا:
"پھر کیوں پریشان ہو رہی ہو رمشاہ؟ ہو سکتا ہے تمہارا ذہن پریشان ہو، اسی لیے تمہیں ایسے خواب آتے ہیں۔ اچھا گمان رکھو گی تو کچھ برا نہیں ہوگا۔ کل مجھے جانا ہے، شوہر کو ایسے پریشان کر کے بھیجو گی؟ تم مضبوط بنو، جب تک میں نہیں آتا تمہیں سب سے خود لڑنا ہے۔ سمجھ رہی ہو نا؟"

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شادی کے فوراً بعد ہی ماں نے ہمیں الگ کر دیا تھا۔ بڑے بھائی کا الگ گھر تھا اور میرا بھی، تاکہ مستقبل میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ میرے سمجھانے پر وہ خاموش ہو گئی۔

اگلے دن سب گھر والے مل کر مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے گئے۔ میں پورا راستہ رمشاہ کو دیکھتا رہا، وہ اب بھی بے چین تھی۔ رات کو جو میں نے اسے پرسکون کیا تھا اس کے چہرے پر وہ سکون نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ بار بار مجھے دیکھتی، کچھ کہنا چاہتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ مگر میں نے بڑی خوبصورتی سے اس کی ساری بے چینی کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اس وقت میں صرف باہر جانا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ باہر جا کر ہماری زندگی بدل جائے گی۔
کاش اس وقت میں رک جاتا، اپنی بیوی کے خواب کو سمجھنے کی کوشش کرتا تو آج میرے گھر میں میری بیوی موجود ہوتی۔ یا خدا! کیا کروں، کہاں جاؤں؟ تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور میں نے یہ پورا ہفتہ اذیت میں گزارا۔ وہاں پر بھی تقریباً ایک ماہ تک میری رمشاہ سے بات ہو سکی، اس کے بعد اس کا موبائل نمبر بند ہو گیا، واٹس ایپ پر بھی وہ آن لائن نہ آتی۔
میرے واپس ا

نے میں ابھی وقت تھا، مگر رمشاہ کی خاموشی دیکھ کر میں مزید برداشت نہ کر سکا اور جو پہلی فلائٹ ملی، میں واپس آ گیا۔ واپس آ کر وہی ہوا جس کا رمشاہ کو خدشہ تھا۔ اب میں اسے کہاں ڈھونڈتا؟ کہاں سے وہ کنواں لاتا؟ کہاں سے وہ لوگوں کا ہجوم ڈھونڈتا جو اس نے خواب میں دیکھا تھا؟ ہفتہ گزر گیا، وہ نہ ملی تو اماں نے مجھے تسلی دی:
"چلی گئی ہوگی کہیں، ہم کیوں بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں؟ آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی باتیں کرتی ہیں جب شوہر باہر جائے تو۔"

میں نے اماں سے پوچھا:
"رمشاہ نے آپ کو کوئی بات نہیں بتائی؟ کوئی اشارہ، کچھ بھی؟"

اماں نے سنجیدگی سے کہا:
"میاں، تم اپنی باتیں اپنی ماں سے نہیں کرتے، وہ تو پھر میری بہو تھی۔ وہ کیوں اپنی خاص باتیں مجھے بتاتی؟"

میں چپ ہو گیا۔ کچھ دن بعد مجھے پھر وہی خواب آیا، مگر اس مرتبہ خواب میں منظر مختلف تھا۔ ایک بند کمرہ تھا جہاں رمشاہ بندھی ہوئی تھی، آنکھیں بند تھیں جیسے سو رہی ہو، مگر حقیقت میں جاگ رہی تھی۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا، وہ رونے لگی اور چیخ کر بولی:
"تم ہو مجرم میرے! تم سے جڑے رشتے میرے مجرم ہیں۔ میں نے منع کیا تھا، مگر تم نہ رکے۔ تم نے مڑ کر میری خبر بھی نہ لی اور میں یہاں ہر روز مرتی ہوں۔ مجھے یہاں سے نکالو جمیل! خدا کا واسطہ ہے مجھے اس جہنم سے باہر نکالو۔ وہ دیکھو، وہ سب میری طرف آ رہے ہیں۔ مجھے ان کے سوالوں سے بچا لو۔ وہ مجھے جھنجھوڑتے ہیں، اذیت دیتے ہیں۔"

اس نے ہاتھ سے ایک جانب اشارہ کیا۔ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہاں ایک بہت بڑی دیوار گیر کھڑکی تھی جس کے باہر لوگوں کا ایک ان گنت ہجوم کھڑا رمشاہ کو پکار رہا تھا۔

وہ بار بار مجھے پکار رہی تھی:
"مجھے یہاں سے لے جاؤ! یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے!"
میں مارے حیرت کے وہاں کھڑا یہ سارا منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی لوگوں کا ہجوم بھی مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر ان سب لوگوں نے مل کر دیوار میں لگی بڑی کھڑکی کو ایک جھٹکے سے توڑ دیا اور انسانوں کا ایک بڑا ریلہ رمشاہ کی جانب بڑھا۔ وہ چیخیں مارنے لگی، رونے لگی۔ میں اسے بچانے کے لیے آگے بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ وہ اچانک لوگوں کے ہجوم میں کہیں گم ہو گئی۔

اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو آج بھی اپنے کمرے میں ہی تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
"یہ کیسے خواب آ رہے ہیں؟ کیا مجھے کوئی اشارہ مل رہا ہے جس سے میں رمشاہ کو ڈھونڈ سکوں؟ یا یہ سب میرے دماغ کی اختراع ہیں؟"
میں کمرے سے باہر آیا تو ماں صحن میں بیٹھی تہجد پڑھ رہی تھیں۔ میں ان کے قریب جا کر گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور رونے لگا۔ ماں جیسے جیسے دلاسہ دیتی رہیں، میرے رونے کی شدت بڑھتی گئی۔
"ماں، میں ہوں مجرم رمشاہ کے کھو جانے کا! وہ مجھے منع کرتی رہی، کہتی تھی مت جاؤ، مجھے چھوڑ کر جاؤ گے تو میرے ساتھ کچھ برا ہو جائے گا، مگر میں نے اس کی ایک بھی بات نہ سنی۔ اس وقت میرے سر پر صرف باہر جانے کا بھوت سوار تھا۔ میں کسی بھی حالت میں یہ سنہری موقع کھونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اب کیا کروں؟ وہاں جا کر اپنی بیوی کو ہی کھو بیٹھا ہوں!"

ماں مجھے مسلسل سمجھاتی رہیں اور میرا دھیان رمشاہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی رہیں تاکہ میں سوچ سوچ کر پاگل نہ ہو جاؤں۔

ایک دن میں گھر میں یونہی بیٹھا تھا جب ماں کی ایک سہیلی ہمارے گھر آئی۔۔۔۔۔
یہ مکمل کہانی ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں لنک کھولیں 👇
https://vuinnovator.blogspot.com/2025/09/Kam-umr-biwi.html

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

Address

Tando Allahyar

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu anokhe khaniyan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share