
26/09/2025
ذاتی نااہلی کو حکومتی نااہلی قرار دینا: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ
یہ بڑی ناانصافی ہے کہ کسی فرد کی ذاتی نااہلی کو حکومتی نااہلی بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ادارہ جاتی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ صوبائی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے تنگی ہسپتال سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے، جہاں کئی من گھڑت کہانیاں اور خودساختہ قصے گھڑے گئے۔ ایسے تاثر کو فروغ دیا گیا کہ گویا سابقہ ایم ایس ایک مسیحا تھے اور باقی تمام لوگ ناکارہ۔
سوشل میڈیا پر سابقہ ایم ایس کا ایک soft image بنانے کی منظم کوشش کی گئی اور سارا ملبہ ڈی ایچ او کے کندھوں پر ڈالنے کی سعی کی گئی، جو سراسر زیادتی ہے۔ اپنی ذاتی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے حکومت پر الزامات لگانا اور خاص طور پر ایم پی اے کے ساتھ مل کر ڈی ایچ او کی کردار کشی کرنا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں۔
ادارے صرف تصویروں سے نہیں چلتے، بلکہ کارکردگی سے چلتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم کے واقعے سے قبل سوشل میڈیا پر ہیرو بننے والے کو یہ جان لینا چاہئے کہ اداروں کو استحکام بخشنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ محض دکھاوے کی سیاست کی۔
حقائق یہ ہیں کہ سابقہ ایم ایس کے دور میں کئی ایسے اقدامات سامنے آئے جو ادارے کے زوال کا باعث بنے:
الٹراساؤنڈ اسپیشلسٹ کا تبادلہ ذاتی مفاد میں کیا گیا، جس کی پوسٹ تاحال خالی ہے۔
اینستھیزیا اسپیشلسٹ کے تبادلے پر خود ایم ایس نے عوام کو “مبارک باد” دی۔
دو کارڈیالوجسٹس کو ذاتی انا کی بنیاد پر اس قدر تنگ کیا گیا کہ انہوں نے اپنا تبادلہ کروایا۔
لیڈی ڈاکٹروں کی تعداد 8 سے گھٹ کر صرف 3 رہ گئی، جبکہ کئی نے ہراسانی کے کیسز بھی دائر کئے۔
موجودہ ایم ایس کے ساتھ ذاتی چپقلش کی بنا پر راتوں رات غیر ضروری تبادلے کئے گئے۔
اکاؤنٹس کے دو کونٹرز پر اہل افراد کی بجائے نائب قاصد تعینات کئے گئے، جس میں پوشیدہ وجوہات کا اندازہ ہر ایک لگا سکتا ہے۔
زکوة کی ادویات کے لیے نوشہرہ کے مخصوص وینڈر سے غیر شفاف طریقے سے خریداری کی گئی۔
لاکھوں روپے کے پراجیکٹس (شجر کاری، ٹریکٹر اور لوہار کا کام) بغیر شفاف احتساب کے کرائے گئے۔
بڑے اسپیشلسٹس کو سائیڈ لائن جبکہ پسندیدہ افراد کو من پسند جگہوں پر تعینات کیا جاتا رہا۔
سرجیکل، میڈیکل اور چلڈرن اسپیشلسٹ کی سینکشن پوسٹس آج تک خالی ہیں، صرف خطوط لکھے گئے عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
سابقہ مافیا کے مقابلے میں ایک نیا “مافیا” کھڑا کیا گیا جو آج بھی سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔
مزید یہ کہ سابقہ ایم ایس کے سیاستدانوں (ایم این اے، ایم پی اے، تحصیل ناظم) کے ساتھ تعلقات نہایت مضبوط تھے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو میڈل بھی دیے گئے، لیکن ان تعلقات کو ادارے کی بہتری میں کیوں نہ بدلا گیا، یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایم ایس کو ڈی ڈی او بنے ہوئے 9 ماہ ہوئے تھے۔ اگر واقعی اصلاحات کا جذبہ ہوتا تو تنخواہیں بند کی جا سکتی تھیں، غیر حاضر عملے کو واپس بلایا جا سکتا تھا، مگر یہ سب کچھ نہیں کیا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے: مقصد ادارے کی بہتری نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور انا کی تسکین تھا۔
نتیجہ
ادارے تب مضبوط بنتے ہیں جب ان میں میرٹ، شفافیت اور خدمتِ خلق کو ترجیح دی جائے، نہ کہ ذاتی تعلقات، مفادات اور دکھاوے کو۔ کسی ایک فرد کی ناکامی کو حکومت کی ناکامی بنا کر پیش کرنا نہ صرف حقیقت سے انحراف ہے بلکہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف بھی ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں اور سوشل میڈیا پر بیانیے تراشنے کی بجائے عملی میدان میں کارکردگی دکھائی جائے۔