21/06/2023
"میری کلورین"
وہ منچلی کیمسٹ لڑکی اس قدر شرمیلی بھی نہیں تھی جتنا شرمیلا پن آج ہمارے ایک دوسرے کے اتنا قریب بیٹھے ہونے کی وجہ اس کے چہرے پر تھا۔اس نے شرم کے مارے میری آنکھوں سے آنکھیں ملائے بغیر ایک ہاتھ سے میرے ہاتھ کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بیگ میں سے پنسل نکالنے لگ گئی۔ میں اس کے چہرے کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ وہ میرے ہاتھ پر پنسل سے کچھ لکھنے میں مگن تھی اور میں اس کی ہلکی بھوری آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔اس کے سامنے والے بالوں کی ایک لٹ جسے اس نے پچھلے ہی دنوں پارلر سے بنوایا تھا اور جس کو وہ ہمیشہ آگے کی طرف باقی بالوں سے آزاد رکھتی تھی وہ بار بار اس کی آنکھوں کے آگے آجاتی اور مجھے اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے روک رہی تھی۔ گویا میں نے اس وقت خود کو شدت کا پیاسا محسوس کیا جس کے سامنے سمندر تھا لیکن اس تک رسائی کے راستے میں اس کے بالوں کی ایک لٹ تھی۔
میں خاموشی کو توڑتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا؛
" جان ! تم میری کلورین ہو"
میرے ہاتھ پر نیلی پنسل سے بنائے گئے بینزین رنگ میں سرخ پنسل سے تیسرے ڈبل بانڈ کی لائن لگا دینے کے بعد شرارتا بولی؛
"جی جناب عالی تمہیں اس کلورین کا شکرگزار ہونا چاہیے جس نے تم الکلی میٹل فیملی کے فرد، سوڈیم کا الیکٹران ایک دل کے طور پر اپنے پاس سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔"
اس جواب پر ہم دونوں زوردار قہقہ لگایا۔ اس قہقہے کی آواز کو کم کرنے کےلیے اس کے نرم وملائم دودھیا رنگ کے ہاتھ میرے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامنے لگے۔
پیار بھری باتوں ، قہقہوں اور لمس سے بھرپور یہ آدھ گھنٹے کا دورانیہ کسی زیادہ اٹامک نمبر والے ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ کی ہاف لائف سے بھی زیادہ تیزی سے گزرگیا۔
وہ بیگ اٹھا کر گھر جانے کیلئے بضد ہوئی۔ میں اس کی جلدبازی کی عادت سے آشنا ہونے کہ وجہ اس سے وصل کا دورانیہ بڑھانے کی ضد نہیں کی۔
اس نے بیگ اور اس پر رکھا اپنا میرون کلر کا سٹالر اٹھایا اور میں نے اس پر رکھی دو سوئیاں (pins)۔ جب وہ اپنے چہرے پر سٹالر اوڑھ چکی تو میں نے دونوں طرف کانوں کے اوپر اس کی بتائی گئی جگہ پر وہی پنز لگاکر اس کا نقاب مکمل کروایا۔ گویا ایک چاند سے چہرے کو اپنی آنکھوں میں اتار لینے کے بعد اس پر نقاب اوڑھ کر اس کو ہمیشہ کیلئے خود کی نظروں تک محدود کردیا۔ اس وقت میں نے خود کو اس بادشاہ کی طرح محسوس کیا جو اپنی ساری سلطنت کا خزانہ کسی ایک کمرے میں ڈال کر اس کی کو تالا لگادے تاکہ اس خزانے تک صرف اسی کی رسائی ہو۔۔۔
فرحان فیصل