
20/07/2025
شہزادہ الولید بن خالد بن طلال: دو دہائیوں پر محیط کوما اور والد کی امید
رپورٹ از: رفعت وانی | صحافی / انسانی حقوق کارکن
19 جولائی 2025
سعودی عرب کے نوجوان شہزادہ الولید بن خالد بن طلال، جنہیں دنیا “سویا ہوا شہزادہ” کے نام سے جانتی ہے، بیس سال سے زائد عرصے تک کومہ میں رہنے کے بعد زندگی کی جنگ ہار گئے۔ یہ کہانی محض ایک حادثے کی نہیں بلکہ والد کی بے مثال محبت اور امید کی بھی ہے جو بیٹے کے لیے ہر سانس تک قائم رہی۔
شہزادہ الولید کی پیدائش اپریل 1989 میں ہوئی۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے اس خوبصورت نوجوان نے اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کا رخ کیا، جہاں وہ ایک عسکری کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی تھی مگر 2005 میں ایک اندوہناک حادثہ پیش آیا۔ لندن میں ڈرائیونگ کے دوران ان کی گاڑی کو خوفناک حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں ان کے دماغ کو شدید چوٹ پہنچی اور وہ کومہ میں چلے گئے۔
حادثے کے بعد انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا اور طویل علاج کے بعد سعودی عرب لایا گیا، جہاں انہیں ریاض کے کنگ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں رکھا گیا۔ ڈاکٹروں نے لائف سپورٹ ہٹانے کا مشورہ دیا مگر والد شہزادہ خالد بن طلال نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ “زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہم امید اور دعا کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔” اس کے بعد دو دہائیوں تک جدید ترین طبی سہولیات، وینٹی لیٹر، ٹیوب کے ذریعے خوراک اور مستقل نرسنگ کے ذریعے ان کی زندگی قائم رکھی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مواقع پر یہ خبر آئی کہ شہزادہ الولید نے انگلی ہلائی یا سر موڑا، لیکن ڈاکٹروں کے مطابق یہ مکمل شعور میں واپسی نہیں تھی۔ ان کے والد نے ہر موقع پر امید کا دامن تھامے رکھا، اور دنیا بھر سے ماہر ڈاکٹروں کو بلوا کر علاج کی ہر ممکن کوشش کی۔
گزشتہ سال ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شہزادہ بیدار ہو گئے ہیں، مگر بعد میں یہ خبر جھوٹی ثابت ہوئی۔ اس ویڈیو میں موجود شخص سعودی ریلی ڈرائیور یزید الراجحی تھے، جنہیں حادثے کے بعد صحت یابی ہوئی تھی۔ شہزادہ الولید کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، اور وہ اب بھی کوما میں تھے۔
19 جولائی 2025 کو سعودی شاہی خاندان نے اعلان کیا کہ شہزادہ الولید اللہ کے حضور جا پہنچے۔ ان کی نمازِ جنازہ 20 جولائی کو ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کی گئی۔
یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جس کے خواب ادھورے رہ گئے، مگر والد کی محبت اور امید کی مثال ہمیشہ قائم رہے گی۔ دو دہائیوں تک موت اور زندگی کے درمیان جھولتے رہنے کے بعد آج وہ خالق حقیقی سے جا ملے، مگر ان کی یاد اور والد کی بے مثال قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔