
20/07/2025
بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ دلخراش واقعے پر افسوس کا اظہار کرنے والوں میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنے معاشرتی رویوں اور روایات کی وجہ سے خود تنقید کے مستحق ہیں۔ خاص طور پر پشتون معاشرے میں، جہاں غیرت اور عزت کے نام پر کئی روایات رائج ہیں، بعض اوقات منافقت نمایاں ہوتی ہے۔ اکثر پشتون اپنی ماں، بہن یا بیٹی سے متعلق ایسا کوئی بھی حوالہ برداشت نہیں کرتے کیونکہ ان کے لیے یہ غیرت کا معاملہ ہے۔ یہ 'غیرت' ان کی ثقافت اور روایات کا حصہ ہے جو ان کے خون میں شامل دکھائی دیتی ہے۔
پشتون معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کے حق میں نہیں۔ جائیداد میں انہیں حصہ دینے کا رواج بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی بہن یا بیٹی اپنا جائز حق مانگ لے تو اسے اکثر خاندانی رشتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے گو کہ کچھ پشتون اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے اور ان کے حقوق دینے کے حامی ہیں لیکن وہ بھی معاشرتی دباؤ اور 'غیرت' کے نام پر اپنی بیٹیوں پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔
اسی طرح نکاح جیسے اہم فیصلے میں لڑکی کی رائے کو عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے بہترین فیصلہ کریں گے لیکن اس عمل میں لڑکی کی خواہشات اور رائے کو شامل نہ کرنا اسے اپنی زندگی کے اہم فیصلے سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ سوچ کہ 'والدین اپنی بیٹی کے لیے برا نہیں سوچیں گے' اگرچہ خلوص پر مبنی ہوتی ہے لیکن یہ اکثر لڑکی کی انفرادی آزادی اور خودمختاری کو سلب کر لیتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہر معاشرے میں خامیاں موجود ہیں اور دیگر قوموں میں بھی ایسی کئی روایات ہو سکتی ہیں جو خواتین کے حقوق کے منافی ہوں لیکن چونکہ میں خود پشتون معاشرے سے تعلق رکھتا ہوں اور اس کے مسائل کو قریب سے دیکھ چکا ہوں اس لیے سمجھتا ہوں کہ یہ منافقت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پشتون معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تعلیم، جائیداد میں حصہ، اور فیصلہ سازی میں شرکت جیسے بنیادی حقوق نہ صرف خواتین کی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کی فلاح کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
یوں کاروکاری پاکستان کے بعض علاقوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں رائج ایک قدیم اور غیر انسانی رسم ہے جسے 'غیرت کے نام پر قت ل' سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت خاندان کی عزت یا ناموس کو داغدار کرنے کے الزام میں کسی فرد، عموماً عورت کو قت ل کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں کاروکاری کو 'کالا کالی' کہا جاتا ہے جہاں غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ رسم پنجاب کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں دیکھی جاتی ہے لیکن سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں کم شدت کی حامل ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس رسم کو 'طور طورہ' کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی غیرت کے نام پر قت ل ہوتے ہیں اور یہ رسم پشتون قبائل میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات اسے قبائلی روایات اور جرگہ نظام کے تحت جواز دیا جاتا ہے۔ جرگہ یا پنچایت نظام کاروکاری اور دیگر غیرت کے قت لوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اس پر واویلا تو کرتے ہیں لیکن اپنے گھر اور معاشرے کی خامیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر آپ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنی روایات پر نظرثانی کریں۔ منافقت سے گریز کریں اور نئی سوچ کو اپنائیں۔ آپ کی غیرت صرف اس معاملے میں نہیں جاگنی چاہیے بلکہ جس طرح آپ تعلیمی میدان میں اپنے بیٹے کا مقابلہ دوسروں کے بیٹوں کے ساتھ کرتے ہیں ، یہی مقبلوں بیٹیوں کے لئے بھی رکھیں۔
بلوچستان واقعے میں ایک مرد کو بھی مارا گیا ہے جو کہ اتنا ہی افسوسناک ہے جتنا کہ ایک خاتون کو مارنا۔ یہی روایت باقی جگہوں پر بھی رائج ہے۔ افسوسناک واقعہ ہے لیکن اس میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ آپ آج اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو کم از کم ان کی خواہشات پر مبنی زندگی گزارنے کا حق دیں تو یہ وقت کبھی نہ آئے۔
ادیب یوسفزئی