Knowledge World

  • Home
  • Knowledge World

Knowledge World A page where you can share and learn about various topics, such as science, technology, history, culture, arts, and more.

You can also interact with other knowledge seekers and experts, and join online events and quizzes.

05/07/2025
05/06/2025
ساتویں صدی کے عریبیاء میں ۔۔۔مسلمانوں کے ایک خلیفہ گزرے ہیں ، خلیفہ عمر ۔۔۔ بن عبدالعزیزؒ ۔کہتے ہیں کہ اگر سیاسی حالات ن...
12/03/2025

ساتویں صدی کے عریبیاء میں ۔۔۔
مسلمانوں کے ایک خلیفہ گزرے ہیں ، خلیفہ عمر ۔۔۔ بن عبدالعزیزؒ ۔
کہتے ہیں کہ اگر سیاسی حالات نے آپ کو خلیفہ نہ بنا دیا ہوتا تو آپ ۔۔۔
اپنے دور کے بڑے اماموں میں سے ایک ۔۔۔ امام ہوتے ۔
اسماء الرجال پر لکھی بارہویں صدی کی ایک قدیم کتاب ۔۔۔ ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک تابعی مجاہد بن جبیرؒ ۔۔۔
عمرؒ کو علم سکھانے کی خاطر ان کے پاس گئے لیکن تھوڑے ہی دن بعد ۔۔۔
الٹا وہی عمر بن عبدالعزیزؒ سے تعلیم حاصل کرنے لگ گئے تھے (تذکرۃ الحفاظ ج ۱ ص ۱۰۶)
عمرؒ کا یہ مختصر سا تعارف آپ کو دینے کا مقصد یہ تھا ۔۔۔
کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ وہ ایک قابل اعتبار ۔۔۔ اور سچے انسان تھے اور جو واقعہ آج رات ۔۔۔ میں آپ کو سنانے والا ہوں وہ ۔۔۔
درأصل انہی کے ساتھ پیش آیا ہوا ایک واقعہ ہے اور عمرؒ کا یہ واقعہ ۔۔۔ میری پسندیدہ کتاب ۔۔۔
اسّی جلدوں پر مبنی ایک بہت بڑی کتاب تاریخ الدّمشق میں بھی لکھا ہوا ہے اور ۔۔۔ مسند فردوس کے اندر بھی موجود ہے ۔
یہ بات عمرؒ کے خلیفہ بننے سے پہلے کی ہے کہ ایک دن ۔۔۔
عمرؒ اپنے دور کے ایک بہت بڑے تابعی عروہ بن زبیرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ عروہ !
کل رات میں نے ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے !
میں اپنے گھر کی چھت پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ۔۔۔
باہر سے زور دار چیخوں اور چنگھاڑوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو میں جلدی سے اٹھا ۔۔۔
اور جب جھانک کر دیکھا تو جگہ جگہ سے عجیب و غریب مخلوقات اور شیاطین مجھے آسمان سے اترتے دکھائی دینے لگے ۔
اور لمحوں کے اندر اندر میرے گھر کے پیچھے موجود ۔۔۔ ایک ویران جگہ میں اکٹھے ہو گئے یہاں تک ۔۔۔
کہ میں نے ایک بہت بڑے شیطان کو دیکھا کہ جو شدید غصّے میں تھا اور اسی غصے کے عالم میں وہ چلایا ۔۔۔
کہ زبیر کے بیٹے عروہ کو میرے پاس کون لائے گا ؟
تو بھیانک سی نظر آنے والی ایک جماعت نے کہا کہ ہم لائیں گے ۔۔۔
اور تیزی کے ساتھ تمہاری تلاش میں وہ وہاں سے تمہارے گھر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے ۔
لیکن چند ہی لمحوں میں ۔۔۔ وہ واپس آ گئے اور بولے کہ عروہ ہمیں کہیں بھی نہیں ملا ۔
تو وہ بڑا شیطان پہلے سے بھی زیادہ بلند آواز میں چیخا اور دوبارہ بولا کہ زبیر کے بیٹے عروہ کو میرے پاس کون لائے گا ؟
تو اس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک نظر آنے والی کسی مخلوق نے کہا کہ ہم لائیں گے ۔
لیکن چند ہی لمحوں بعد وہ بھی واپس آ گئے اور بولے کہ عروہ کے گرد شدید حفاظت کھڑی ہے ۔
ہم اس پر قابو نہیں پا سکے ۔۔۔ اور اے عروہ پھر وہ بڑا شیطان اتنے زور سے چیخا ! ۔۔۔
کہ مجھے لگا کہ جیسے زمین پھٹ گئی ہو ۔
اور پھر وہ بولا کہ زبیر کے بیٹے عروہ کو میرے پاس کون لائے گا ؟
تو اس مرتبہ سب سے بھیانک نظر آنے والی جماعت بولی کہ ہم لائیں گے ۔
اور بجلی کی سی تیزی سے وہ تمہاری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے لیکن انہیں واپس آنے میں ۔۔۔
پہلے دو کی نسبت زیادہ دیر لگی مگر وہ بھی یہی بولے کہ عروہ کے گرد ۔۔۔
عظیم ترین فرشتے موجود ہیں ، ہم ان سے لڑائی ۔۔۔ نہیں کر سکے ۔
تو اس پر وہ شیطان انتہائی بھیانک ۔۔۔ اور خوفناک آواز میں چلایا ۔
اور تیزی کے ساتھ بھاگتا ہوا ۔۔۔ ایک جانب چلا گیا جبکہ باقی تمام مخلوقات بھی ۔۔۔
چیختے چلاتے اس کے پیچھے بھاگ گئیں ۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ خاموش ہو گئے اور انہوں نے محسوس کیا ۔۔۔
کہ عروہ بن زبیرؓ بھی دم بخود ان کی طرف دیکھے چلے جا رہے ہیں یہاں تک ۔۔۔
کہ کافی دیر خاموشی کے بعد عروہؓ بولے کہ عمر !
مجھے میرے والد (زبیر بن عوامؓ) نے ایک بات بتائی تھی کہ عروہ ! ۔۔۔ میں نے اللہ کے نبی ﷺ سے ایک دعا سیکھی تھی ۔
آپؐ نے فرمایا تھا کہ جو بھی شخص اس دعا کو رات اور دن کی شروعات میں پڑھ لے گا اللہ ۔۔۔
اسے ہر قسم کے شیطان سے اپنی حفاظت میں لے لے گا ۔
اور میں نے ہمیشہ کی طرح کل رات بھی ۔۔۔ یہی دعا پڑھی تھی ۔
پھر عروہؓ نے عمرؒ کو وہ دعا سکھائی بھی کہ جو یہ تھی ۔۔۔
عربی متن : بِسْمِ اللّٰہِ ذِی الشَّانِ عَظِیْمِ الْبُرھَانِ شَدِیْدِ السُّلْطَانِ مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ أعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ ۔ آمین
اردو ترجمہ : شان والے اللہ کے نام سے کہ جو عظیم البرھان ہے ، طاقتور بادشاہی والا ہے ، وہی ہوتا ہے کہ جو وہ چاہتا ہے ، میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ آمین
اور یہاں پہنچ کر یہ واقعہ ۔۔۔ مکمل ہوتا ہے ۔
یہ پوسٹ پڑھنے میں آپ کو شاید ۔۔۔ پانچ منٹ لگے ہوں گے لیکن اس رات جو مناظر ۔۔۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے دیکھے وہ مناظر ۔۔۔ صرف چند لمحوں کے اندر اندر ہوئے تھے ۔
بڑے بڑے اور بھیانک شیاطین کا آسمان سے اترنا ، چیختے چلاتے ، بجلی کی سی تیزی کے ساتھ عروہؓ کو تلاش کرنا اور پھر ناکام ہو کر ۔۔۔
چیختے چلاتے اپنی دنیا کے اندر ۔۔۔ واپس لوٹ جانا صرف ۔۔۔
اللہ کی قدیم بادشاہی ۔۔۔ اور اس کی حفاظت کی برکت سے ۔
اور یہاں پہنچ کر الاؤ کے گرد ہماری آج کی یہ محفل ۔۔۔
مکمل ہوتی ہے ۔
اس میں شامل ہونے کے لیے آپ کا ۔۔۔ بہت شکریہ ۔
فرقان قریشی

*پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے تیز چلتا ہے؟*(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)  آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق وقت مطلق نہی...
28/12/2024

*پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے تیز چلتا ہے؟*

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق وقت مطلق نہیں بلکہ یہ اضافی انداز میں فریم آف ریفرینس کے لحاظ سے سست یا تیز ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان کے کس شہر میں وقت سب سے زیادہ تیز چلتا ہے؟

آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے دو حصے ہیں جنہیں سادہ انداز میں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

1. نظریہ عمومی اضافیت کے مطابق زیادہ مضبوط کشش ثقل کے نزدیک وقت آہستہ گزرتا ہے یعنی کسی جگہ پر کشش ثقل جتنی زیادہ ہوگی وہاں پر وقت اتنا ہی سست گزرے گا۔

2. نظریہ خصوصی اضافیت کی رو سے روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے پر وقت سست گزرتا ہے یعنی کسی جسم کی رفتار جتنی زیادہ تیز ہوگی اس کے لیے وقت اتنی ہی سست رفتار سے چلے گا۔

اب ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا تجزیہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں وقت کہاں سب سے زیادہ تیزی سے گزرتا ہے؟۔

1. سطح سمندر سے بلندی
Gravitational Time Dilation:

آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کمزور کشش ثقل والے مقامات پر وقت زیادہ تیز گزرتا ہے اور طاقتور کشش ثقل والے مقامات پر نسبتاً سست ہوتا ہے۔ گویا جب ہم سطح سمندر سے بلند مقامات پر جاتے ہیں تو وہاں کشش ثقل کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وقت زیادہ تیز گزرتا ہے۔

لہذا، وہ شہر جو سطح سمندر سے زیادہ بلند ہیں، وہاں وقت زیادہ تیز گزرے گا یا کہا جا سکتا ہے کہ وہاں لوگوں کی گھڑیاں زیادہ تیز چلیں گی۔

2. زمین کی گردشی رفتار کا فرق
Time Dilation due to Relative Velocity:

زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہے اور زمین کی گردشی رفتار خط استوا پر یا اس کے نزدیکی مقامات پر سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے خط استوا سے دور جاتے جائیں، زمین کی گردشی رفتار بھی کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ اب چونکہ نظریہ اضافیت کے تحت ہم جانتے ہیں کہ تیز رفتار پر وقت سست ہو جاتا ہے، چنانچہ خط استوا کے قریبی علاقوں میں وقت اضافی طور پر سست چلتا ہے جبکہ خط استوا سے دور زمین کی محوری رفتار کم ہونے کی بنیاد پر وقت بھی نسبتاً تیز چلتا ہے۔

واضح رہے کہ گردشی رفتار کا یہ فرق سطح سمندر سے بلندی کے فرق کی نسبت کم موثر ہے لیکن ہم یہاں دونوں عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کریں گے۔

چنانچہ پاکستان کے مختلف شہروں کی سطح سمندر سے بلندی کو دیکھتے ہوئے وقت کی رفتار وہاں سب سے زیادہ تیز ہوگی جہاں سطح سمندر سے بلندی سب سے زیادہ ہوگی۔

اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقہ جات میں وقت کی رفتار باقی پاکستان کی نسبت سے تیز ہوگی۔

پاکستان کے مشہور شمالی پہاڑی مقامات میں سے اسکردو شہر میں وقت کی رفتار سب سے زیادہ تیز ہوگی کیونکہ اس کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 2,500 میٹر (8,200 فٹ) ہے جو پاکستان کے نامی گرامی شہروں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہنزہ بھی ایک اہم امیدوار ہے جہاں بلندی سکردو سے تھوڑی ہی کم یعنی تقریباً 2400 میٹر (7800 فٹ) ہے۔ ان کے علاوہ چیدہ چیدہ شہروں میں مری تقریباً 2,291 میٹر (7,514 فٹ) کی بلندی کے ساتھ، چترال تقریباً 1,500 میٹر (4,920 فٹ) کے ساتھ اور ایبٹ آباد تقریباً 1,260 میٹر (4,134 فٹ) کی بلندی کے ساتھ اہم نام ہیں۔ سطح سمندر سے کافی بلند ہونے کی وجہ سے ان مقامات پر وقت سب سے زیادہ تیز چلے گا جبکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے ان کا فاصلہ بہت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے گردشی رفتار کا فرق نظر انداز کیا جا سکتا۔

تاہم ابھی تک ہم نے پاکستان کے بڑے شہروں کی بات نہیں کی لہٰذا اب پاکستان کے صوبائی دارالحکومتوں کی بھی بات کر لیتے ہیں۔

کراچی کی بلندی سطح سمندر سے صرف 10 سے 30 میٹر تک ہے جو اسے پاکستان میں زمین کے مرکز سے قریب ترین شہر بنا دیتی ہے۔ لہٰذا نظریہ اضافیت کے مطابق، کراچی میں کشش ثقل زیادہ ہونے کی وجہ سے وقت سست گزرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کراچی پاکستان کے انتہائی جنوب میں واقع ہونے کی وجہ سے خط استوا کے قریب بھی ہے جس کی وجہ سے وہاں زمین کی محوری گردش زیادہ تیز ہوگی اور اس بنیاد پر بھی وقت سست گزرے گا۔ اسی طرح پشاور جو کراچی سے زیادہ بلندی پر ہے، وہاں وقت تیز گزرے گا جبکہ پشاور چونکہ خط استوا سے دور ہے، اس لئے وہاں گردشی رفتار کے نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے بھی وقت نسبتاً تیز گرے گا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ پشاور میں وقت سب سے تیز گزرے گا، ابھی اور بھی شہر باقی ہیں۔ لاہور کی بات کریں تو لاہور کی سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلہ کراچی اور پشاور کے درمیان درمیان ہے، اس لئے لاہور میں اضافی اثرات درمیانے درجے کے ہوں گے اور یوں وقت کراچی سے تیز لیکن پشاور کی نسبتاً آہستہ گزرے گا۔ اب آتے ہیں کوئٹہ کی طرف جو صوبائی دارالحکومتوں میں سب سے زیادہ بلندی پر ہے اور اس بلندی کے باعث وہاں وقت سب سے زیادہ تیز چلے گا جبکہ خط استوا سے نسبتاً دور ہونے کے سبب گردشی رفتار نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے بھی وہاں وقت تیز گزرے گا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومتوں میں کوئٹہ میں وقت سب سے زیادہ تیزی سے چلتا ہے اور کراچی میں سب سے سست گزرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں سے کراچی میں گھڑیاں سب سے سست جبکہ کوئٹہ میں گھڑیاں سب سے زیادہ تیز چلتی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک تیسرا نکتہ زمین کی غیر مساوی گولائی اور خط استوا پر تھوڑا سا باہر کی جانب نکلے ہونے کی وجہ سے زمین کے مرکز سے فاصلے کا فرق ہے یعنی خط استوا زمین کے مرکز سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہوتا ہے اور جیسے جیسے قطبین کی جانب جاتے جائیں، یہ فاصلہ کم ہوتا جاتا ہے۔ لیکن یہ فرق بہت ہی معمولی ہے یعنی زمین کے استوائی رداس اور قطبی رداس میں صرف 22 کلومیٹرز کا ہی فرق ہے اور پھر پاکستان کی حدود کے اندر یہ فرق اتنا کم ہے کہ یہ وقت کی رفتار پر کوئی قابل قدر اثر نہیں ڈال سکتا اور اسی لئے ہم یہاں اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ زیادہ قابل ذکر وجوہات سطح سمندر سے بلندی اور زمین کی اضافی گردشی رفتار کا فرق ہی سمجھی جائیں گی۔

یاد رہے کہ وقت کی رفتار کا یہ فرق انتہائی معمولی یا کم یعنی صرف مائیکروویو سیکنڈز تک ہی ہوتا ہے اور اسے روزمرہ زندگی میں محسوس نہیں کیا جا سکتا اور اس فرق کو جانچنے کے لئے عام گھڑیاں مناسب نہیں بلکہ ایٹمی گھڑیوں کی ضرورت ہوگی لیکن نظریہ اضافیت کے مطابق یہ فرق ایک کائناتی حقیقت ہے جسے باقاعدہ طور پر تجربات سے ثابت بھی کیا جا چکا ہے۔

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206...
07/12/2024

انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206 ہڈیوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں، جو تمام ٹخنوں کے نیچے پیک ہیں۔ ہڈیوں کی یہ کثافت پیچیدہ حرکات کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہمیں درستگی کے ساتھ چلنے، دوڑنے، چھلانگ لگانے اور توازن برقرار رکھنے دیتی ہیں۔ اس پیچیدہ جال کے بغیر، روزمرہ کی سرگرمیاں بہت زیادہ مشکل اور کم مستحکم ہوں گی۔ پاؤں میں ہڈیوں کی یہ گھنی ترتیب صدمے کو جذب کرنے اور وزن کو تقسیم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ہر ہڈی، جوڑوں، لیگامینٹس، اور ٹینڈنز کے ساتھ مل کر، جسم کی حرکات کو سہارا دینے کے لئے ہم آہنگی سے کام کرتی ہے۔ یہ ڈیزائن پاؤں کو ایک اسپرنگ کی طرح کام کرنے دیتا ہے، ہر قدم کے ساتھ توانائی کو ذخیرہ اور جاری کرتا ہے۔ اس طرح کی ساختی پیچیدگی ہمیں دونوں پھرتی اور برداشت کے ساتھ حرکت کرنے کی یقین دہانی کراتی ہے، چاہے ہم دوڑ رہے ہوں یا بس گلی میں چل رہے ہوں۔ لہذا، اگلی بار جب آپ قدم اٹھائیں، یاد رکھیں کہ آپ ایک نفیس انجینئرنگ شاہکار پر کھڑے ہیں جو آپ کے توقع سے زیادہ ہڈیوں کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔"

انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206...
04/12/2024

انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206 ہڈیوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں، جو تمام ٹخنوں کے نیچے پیک ہیں۔ ہڈیوں کی یہ کثافت پیچیدہ حرکات کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہمیں درستگی کے ساتھ چلنے، دوڑنے، چھلانگ لگانے اور توازن برقرار رکھنے دیتی ہیں۔ اس پیچیدہ جال کے بغیر، روزمرہ کی سرگرمیاں بہت زیادہ مشکل اور کم مستحکم ہوں گی۔ پاؤں میں ہڈیوں کی یہ گھنی ترتیب صدمے کو جذب کرنے اور وزن کو تقسیم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ہر ہڈی، جوڑوں، لیگامینٹس، اور ٹینڈنز کے ساتھ مل کر، جسم کی حرکات کو سہارا دینے کے لئے ہم آہنگی سے کام کرتی ہے۔ یہ ڈیزائن پاؤں کو ایک اسپرنگ کی طرح کام کرنے دیتا ہے، ہر قدم کے ساتھ توانائی کو ذخیرہ اور جاری کرتا ہے۔ اس طرح کی ساختی پیچیدگی ہمیں دونوں پھرتی اور برداشت کے ساتھ حرکت کرنے کی یقین دہانی کراتی ہے، چاہے ہم دوڑ رہے ہوں یا بس گلی میں چل رہے ہوں۔ لہذا، اگلی بار جب آپ قدم اٹھائیں، یاد رکھیں کہ آپ ایک نفیس انجینئرنگ شاہکار پر کھڑے ہیں جو آپ کے توقع سے زیادہ ہڈیوں کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔

ایمیزون کا جنگل دنیا کے 9 ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ حصہ برازیل میں ہے۔ اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلو م...
29/11/2024

ایمیزون کا جنگل دنیا کے 9 ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ حصہ برازیل میں ہے۔ اس کا کل رقبہ 55 لاکھ مربع کلو میٹر ہے، جبکہ پاکستان کا رقبہ تقریباً 7 لاکھ 95 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ "ایمیزون" ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب "لڑاکو عورت" ہے۔ دنیا کی 20 فیصد آکسیجن ایمیزون کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔

ایمیزون میں دنیا کے 40 فیصد جانور، چرند، پرند اور کیڑے پائے جاتے ہیں۔ یہاں 400 سے زیادہ جنگلی قبائل آباد ہیں، جن کی کل آبادی کا اندازہ 45 لاکھ ہے۔ یہ لوگ آج بھی قدیم جنگلی طرزِ زندگی گزار رہے ہیں۔

ایمیزون کے کچھ علاقے اتنے گھنے ہیں کہ وہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی، اور دن میں بھی رات کا منظر ہوتا ہے۔ یہاں خطرناک اور زہریلے کیڑے بھی پائے جاتے ہیں، جو انسان کو کاٹ لیں تو چند منٹ میں اس کی موت ہو سکتی ہے۔ ایمیزون کا دریا پانی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے اور اس کی لمبائی 7 ہزار کلو میٹر ہے۔ اس دریا میں 30 ہزار سے زیادہ قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔

ایمیزون کے جنگلات میں 60 فیصد جاندار ایسے ہیں جن کے نام ابھی تک نہیں رکھے گئے۔ یہاں کی مکڑیاں اتنی بڑی اور مضبوط ہیں کہ پرندوں کو بھی پکڑ سکتی ہیں۔ اس جنگل میں پھلوں کی 30 ہزار اقسام موجود ہیں۔

اب تک ماہرین اور مہم جو اس جنگل کے صرف 10 فیصد حصے تک ہی پہنچ سکے ہیں۔ ایمیزون کی ہزاروں سال پرانی کہانیاں ہیں اور یہ قدرت کے کئی راز اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ اگر آپ ایمیزون کے گھنے جنگل میں ہوں اور وہاں طوفانی بارش شروع ہو تو تقریباً 12 منٹ تک بارش کا پانی آپ تک نہیں پہنچے گا۔

سنوگم ٹری، تسمانیہ اور کوئنز لینڈ 🌳💙❤️💚🧡💜 یوکلپٹس پاوسی فلورا (برف کی گم) رنگ برنگی پٹیاں اس حقیقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہ...
28/11/2024

سنوگم ٹری، تسمانیہ اور کوئنز لینڈ 🌳💙❤️💚🧡💜 یوکلپٹس پاوسی فلورا (برف کی گم) رنگ برنگی پٹیاں اس حقیقت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ درخت ایک ساتھ نہیں گرتا۔ آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ، مختلف پرتیں گر جاتی ہیں، جبکہ دیگر بے نقاب علاقوں میں عمر بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ عمل ایک شاندار بصری بناتا ہے، جس میں اندردخش یوکلپٹس نظر آتا ہے۔

عمر خیام کا مزار:عمر خیام (1048ء-1131ء) ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور وہ ایک عظیم شاعر، فلسفی، ریاضی دان، اور م...
27/11/2024

عمر خیام کا مزار:
عمر خیام (1048ء-1131ء) ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے اور وہ ایک عظیم شاعر، فلسفی، ریاضی دان، اور ماہر فلکیات تھے۔ ان کا پورا نام غیاث الدین ابو الفتح عمر بن ابراہیم خیام نیشاپوری تھا۔ ان کی زندگی اور کام نہ صرف ان کے زمانے میں بلکہ آج تک علم و ادب کے مختلف شعبوں میں مشعلِ راہ ہیں۔

🔹ریاضی:
عمر خیام نے الجبرا میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مکعب معادلات (Cubic Equations) کو حل کرنے کے لیے ایک نظام وضع کیا جو اس وقت انقلابی تھا۔ ان کے کام نے جدید ریاضی کے لیے بنیاد فراہم کی۔

🔹فلکیات:
خیام نے شمسی کیلنڈر کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا اور جلالی کیلنڈر تشکیل دیا، جو اپنی درستگی کی وجہ سے آج بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہ کیلنڈر موجودہ گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست سمجھا جاتا ہے۔

🔹 فلسفہ:
وہ فلسفے میں بھی گہری بصیرت رکھتے تھے۔ خیام نے انسان کی زندگی، تقدیر، اور کائنات کے موضوعات پر غور کیا اور اپنے خیالات کو شاعری کے ذریعے بیان کیا۔

🔹 شاعری:
ان کی شاعری، خاص طور پر رباعیاتِ خیام، دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ان رباعیات میں زندگی، محبت، وقت، اور فنا جیسے موضوعات پر عمیق خیالات ملتے ہیں۔ ان کے اشعار کو انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا، اور ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کے انگریزی ترجمے نے ان کو مغرب میں بھی مقبول بنا دیا۔

🔹مقبرہ:
عمر خیام کا مزار نیشاپور، ایران میں واقع ہے اور یہ نہایت خوبصورت اور پرکشش ہے۔ یہ مزار 20ویں صدی میں تعمیر کیا گیا اور اس کا طرزِ تعمیر ان کی شاعری اور فلسفے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ جگہ علم و ادب سے محبت رکھنے والوں کے لیے زیارت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

جاپان کے جنوبی علاقے میازاکی پریفیکچر میں جاپانی دیودار کے درختوں کے گروپ دائرے کی شکل میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ یہ منفرد ن...
25/11/2024

جاپان کے جنوبی علاقے میازاکی پریفیکچر میں جاپانی دیودار کے درختوں کے گروپ دائرے کی شکل میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ یہ منفرد نمونہ دراصل 1973 میں شروع کیے گئے ایک منصوبے کا نتیجہ ہے، جو جنگلات کی نشوونما اور درختوں کی جگہ کے بارے میں تھا۔ اس علاقے کو "تجرباتی جنگلات" قرار دیا گیا، جہاں ایک تجربہ یہ تھا کہ درختوں کو 10 ڈگری کے فرق کے ساتھ دائرے کی شکل میں لگایا جائے تاکہ 10 گول دائرے بن سکیں۔

45 سال بعد، یہ درخت ایک منفرد اُبھری ہوئی شکل میں بڑھ چکے ہیں، جس سے ایک خوبصورت نمونہ بنا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ درختوں کے درمیان فاصلے کا ان کی نشوونما پر اثر پڑتا ہے۔

فن لینڈ کے پنزیو کنکریٹ کے میدان میں انسان کے بنائے ہوئے ایک پہاڑ پر 11,000 درخت لگائے گئے، جس میں دنیا بھر سے 11,000 اف...
24/11/2024

فن لینڈ کے پنزیو کنکریٹ کے میدان میں انسان کے بنائے ہوئے ایک پہاڑ پر 11,000 درخت لگائے گئے، جس میں دنیا بھر سے 11,000 افراد نے حصہ لیا۔
یہ پہاڑ 420 میٹر لمبا، 270 میٹر چوڑا، 38 میٹر بلند اور بیضوی شکل کا ہے۔
اس شاندار منصوبے کو مکمل ہونے میں 14 سال لگے اور اب یہ 400 سال کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔

مزید معلومات کیلئے پیج کو لائیک اور شئیر کجیئے ۔شکریہ

Address


Telephone

+923456283354

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Knowledge World posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Knowledge World:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share