05/06/2025
نبوی وصیتیں! میدان عرفات سے امت کے نام
(خطبہ حجتہ الوداع کے تمام نکات کی حکمت و اہمیت - سلسلہ وار)
ذوالحجہ کی ان مقدس ساعتوں میں ہم ایک ایسے لمحے کو یاد کرتے ہیں جو تاریخِ انسانیت کا نقطۂ عروج ہے۔ حج کا میدانِ عرفات، 9 ذوالحجہ، 10 ہجری، جب رسول اللہ ﷺ نے لاکھوں صحابہ کے جمِ غفیر میں اپنے نبوی مشن کا آخری اور جامع اعلان فرمایا۔ یہ وہ موقع تھا جب نہ صرف اسلام کا پیغام مکمل کیا گیا بلکہ ایک عالمگیر منشورِ انسانیت بھی امت کے سپرد کیا گیا۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے جو کلمات ادا کیے، وہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
یہ ایک پیغامِ حیات تھا، زندگی کو سراپا بندگی، عدل، محبت، مساوات اور انسانی حرمت سے جوڑنے والا پیغام۔ ہم ان ہی الفاظِ نبوت کے ہر نکتے پر روزانہ ایک تفصیلی اور بصیرت افروز تحریر پیش کریں گے تاکہ ہم سب نہ صرف ان سنہرے اصولوں کو یاد رکھیں بلکہ ان پر عمل کے لیے بھی دل سے آمادہ ہوں۔
یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے:
میدان عرفات کی خاموش فضاؤں میں گونجنے والا جملہ "اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا" یہ جملہ کوئی عمومی جملہ یا عام وصیت نہ تھی۔ یہ ایک امانت کی حوالگی تھی۔ جیسے ایک چراغ جلایا جا چکا ہو، اب اسے ہر سمت روشنی پھیلانے کے لیے ہاتھوں ہاتھ دینا تھا۔
اس لمحے نبی کریم ﷺ نے امت کو صرف دین سیکھنے والا نہیں، دین بانٹنے والا بنا دیا۔ یہ پیغام اب صرف ان حاجیوں کا نہیں رہا جو وہاں موجود تھے، بلکہ قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کی ذمہ داری بن گیا۔
آپ ﷺ جانتے تھے کہ اب دین مکمل ہو چکا ہے، اب اس کا تحفظ اور اس کی ترسیل امت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات ہم سب کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی جدائی کی خبر خود دی۔ اس میں رقت بھی ہے، حقیقت بھی، اور عظیم حکمت بھی۔
پیغام دیا گیا کہ جو کچھ سنو، سمجھو، اسے روک کر نہ رکھو، اسے آگے پہنچاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے علم سے کوئی اور محروم رہ جائے۔
یہ اعلان اس امت کو ذمہ دار اور شعور سے بھرپور بنانے کے لیے تھا۔
نبی ﷺ کا وجود اب ہمیشہ کے لیے ہمارے درمیان نہیں ہوگا، لیکن ان کی تعلیم، ان کا پیغام، ان کی سنت ہمارے دلوں میں زندہ رہنی چاہیے۔
یہی حکمت ہے جو قرآن دہراتا ہے: نصیحت کرتے رہو، یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔ سورۃ الذاریات: 55)
اور نبی ﷺ نے فرمایا: میری طرف سے بات پہنچاؤ، اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔ بخاری
یہ بات ہم سب کے لیے ہے۔
اب غور یہ کرنا ہے کہ ہم سننے والوں کی فہرست میں تو آ چکے، کیا پہنچانے والوں کی صف میں بھی شامل ہیں یا نہیں؟
Copy
تحریر؛
محمد عثمان حیدری