Live With Sabookh Syed

  • Home
  • Live With Sabookh Syed

Live With Sabookh Syed I am a journalist and work as freelance worldwide. Please like and share

This page is about my Reports, TV Show, My opinion and Analysis, features stories, inside Information and interesting news.

MaturityMaturity is when you stop asking people why they don’t call or text you anymore.You just notice the change and a...
12/03/2025

Maturity

Maturity is when you stop asking people why they don’t call or text you anymore.
You just notice the change and accept it, no drama, no fights.
You just walk away with a smile.

پختگی اور شعور یہ ہے کہ آپ لوگوں سے یہ پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اب آپ کو کال یا پیغام کیوں نہیں کرتے۔
آپ بس تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں اور اسے قبول کر لیتے ہیں، بغیر کسی بحث، بغیر کسی شکایت کے۔
آپ خاموشی سے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

23/02/2025
06/01/2025
27/12/2024

ہر زمانے کے اہلِ فکر ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of creation) کیا ہے- معلوم تاریخ کےمطابق، تقریباً 5 ہزار سال سے انسان اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- مگر اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اول تک اِس کا کوئی متفق علیہ جواب انسان دریافت نہ کرسکا-
مشہور برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1946) نے اپنی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھاہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی تھی:
It seems that man has strayed in a world that was not made for him.
اِس موضوع پر سوچنے والے لوگوں نے عام طورپر مایوسی کی باتیں کی ہیں - ایک روسی مصنف نے لکھا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز حسین (beautiful) ہے، صرف ایک چیز ہے جو حسین نہیں، اور وہ انسان ہے-
ڈاکٹر الکسس کیرل نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے- اِس موضوع کی پیچیدگیوں کی بناپر انھوں نے اِس کا نام انسانِ نامعلوم (Man the Unknown)رکھ دیا ہے- برطانی مصنف ایڈورڈ گبن نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ جرائم کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے-
فرانس کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے انسان کی ہستی پر غور کیا- اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں (I think, therefore, I exist)- ڈیکارٹ کے اِس قول سے صرف انسان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ انسان کے وجود کا مقصد (purpose of existence) کیا ہے-
مشہور یونانی فلسفی ارسطو (وفات: 322 ق م) نے اِس مسئلے پر غور کیا- انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ — صرف قانونی نظام یہ کرسکتاہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے وحشیانہ سلوک سے بچائے:
The legal system alone saves people from their own savagery.
ارسطو کو معلمِ اول کہاجاتا ہے- چناں چہ یہی سوچ بعد کی تاریخ میں رائج ہوگئی- ارسطو کی سوچ کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو اعلی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، لیکن یہ اوصاف ابتدائی طورپر بالقوہ حالت میں ہوتے ہیں - اِس بالقوہ کو بالفعل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک موافق سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) موجود ہو- اُس وقت کا یونانی بادشاہ سکندر اعظم (وفات: 323 ق م) ارسطو کا شاگرد تھا- ارسطو نے چاہا کہ بادشاہ کے تعاون سے وہ یونان میں مطلوب سیاسی اور سماجی نظام بنا سکے، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا- چناں چہ ارسطو مایوسی(despair) کی حالت میں صرف 62 سال کی عمر میں مرگیا-
ارسطو کے نزدیک انسانی فلاح صرف صالح اجتماعی نظام کے ذریعے ممکن ہوسکتی تھی- ارسطو نے اپنے اس تصور کو فلسفہ کی زبان میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس نے اپنے اِس تصور کو فلاسفائز (philosophise)کیا- اِس کے ایک عرصہ بعد جرمنی میں کارل مارکس(وفات: 1883) کا دور آیا- کارل مارکس نے اِس تصور کو اقتصادی اصطلاحوں میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ مارکس نے اِس تصور کو سیکولر ائز (secularise)کیا- مگر کارل مارکس، عالمی کمیونسٹ پارٹی اور اِس تصور پر بننے والی سوویت ریاست (USSR) سب کی سب، اپنے اجتماعی نشانے کے حصول میں مکمل طورپر ناکام ہوگئے-
اِس کے بعد یہ فکری منہج مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا- عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966) اور برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی(وفات: 1979) پیدا ہوئے- اِن لوگوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر اِس فکری منہج کو اسلام میں داخل کردیا- انھوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر بیان کی- انھوں نے اسلامی زندگی کے لیے اس کے مطابق، سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے قیام کو ضروری قرار دیا — ارسطو نے اِس تصور (concept) کا فلسفیانہ ایڈیشن تیار کیا تھا- کارل مارکس نے اِس تصور کا سیکولر ایڈیشن بنایا اور سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی نے اِس تصور کا اسلامی ایڈیشن تیار کردیا-
تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے ڈھائی ہزار سال کے دوران یہ نظریہ کبھی بھی واقعہ نہ بن سکا- کبھی کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ مصلح کے بیان کردہ نشانے کے مطابق، کوئی اجتماعی نظام یاکوئی سماجی نظام قائم ہوا- تاریخ بتاتی ہے کہ اِس نظریے کے تمام علم بردار آخر کار مایوسی کی حالت میں مرے، وہ دنیا کواپنے تصور کے مطابق، مطلوب نظام نہ دے سکے-
اِس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ اِس قسم کے تمام نام نہاد مصلحین کا انجام یہ ہوا کہ وہ تعمیر کے نام پر اٹھے اور دنیا کو عملاً تخریب کا تحفہ دے کر چلے گئے- ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے ساری دنیا کے خلاف جنگ چھیڑ دی- کارل مارکس کے ماننے والوں نے اپنا مفروضہ نظام قائم کرنے کے نام پر روس میں 25 ملین انسانوں کو ہلاک کردیا- سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی کی تحریک کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں اپنے مطلوب نظام کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد (armed struggle) شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا-
اجتماعی اصلاح کی اِن تحریکوں کا یہ منفی انجام کیوں ہوا- اِس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی نظام کا تعلق براہِ راست سیاسی اقتدار سے ہے- جب بھی آپ کسی ملک میں اپنی پسند کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے اٹھیں گے تو وہاں لازماً اُن لوگوں سے آپ کا ٹکراؤپیش آئے گا جو بروقت سیاسی اقتدار پر قابض ہیں - اِس طرح اجتماعی نظام کا نظریہ اول دن سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتاہے-
سیاسی ٹکراؤ کوئی سادہ بات نہیں - سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ عین اپنے نتیجے کے طور پر انسان کو دو طبقوں میں تقسیم کردیتاہے- اسلام کے پولٹکل مفسرین کے الفاظ میں، ایک، ’’طاغوت‘‘ اور دوسرے، مخالفِ طاغوت- مخالفِ طاغوت گروہ اپنی تحریک کو پہلے قائم شدہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے طورپر شروع کرتا ہے-آغاز میں یہ کام بظاہر پُرامن طورپر شروع ہوتا ہے، لیکن جب پُرامن ذریعہ ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد دھیرے دھیرے قائم شدہ حکومت کے خلاف تشدد شروع ہوجاتا ہے، پھر جب تشدد سے بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے بعد آخری چارۂ کار کے طورپر خود کش بم باری شروع کردی جاتی ہے- اجتماعی انقلاب کا نتیجہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر صرف اجتماعی ہلاکت بن کر رہ جاتا ہے-اِس معاملے میں تباہ کن ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی انقلاب کا نظریہ اپنے آپ میں ایک غیرفطری نظریہ ہے- وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں کوئی ایسا نظریہ کبھی مثبت نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہو-
خالق کا نقشۂ تخلیق
خالق کا نقشہ تخلیق(creation plan) کیا ہے- اس کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ صرف قرآن ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے انسان کو جس نقشے کے مطابق، پیدا کیا ہے، وہ کسی مفروضہ اجتماعی نظام پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر انفرادی اصلاح کے تصور پر مبنی ہے- خالق نے دنیا میں اپنی اسکیم کو برروئے کار لانے کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے- اِن تمام پیغمبروں کا نشانۂ دعوت ہمیشہ فرد (individual) ہوا کرتا تھا، نہ کہ کسی قسم کا سوشیو پولٹکل سسٹم (socio-political system) خالق کا اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، اصل کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ دنیا میں اجتماعی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جائے- خالق کا نشانہ فرد سازی ہے، مجتمع سازی نہیں، کیوں کہ تخلیقی نقشے کے مطابق، مجتمع سازی آئڈیل معنوں میں ممکن ہی نہیں - آئڈیل نظام یا آئڈیل سماج صرف جنت میں قائم ہوسکتا ہے- موجودہ دنیا کی حیثیت انتخابی میدان (selection ground) کی ہے- خالق کی منشا یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اعلی افراد چنے جائیں جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے مستحق ہوں -اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی سورہ البقرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیتوں کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں ۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں ۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے نام بتائو‘‘۔ (2:30-31)
اللہ تعالی نے جب انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ زمین کو اِس آزاد مخلوق کے چارج میں دے دے، اُس وقت فرشتوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا کہ آزادی پاکر انسان زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا- فرشتوں کا یہ شبہہ بے بنیاد نہ تھا- خود قرآن کے بیان سے ثابت ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا- ساتویں صدی کے ربع او ل میں جب قرآن اترا تو اللہ تعالی نے اس میں یہ آیت شامل فرمائی: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے-
یہاں یہ سوال ہے کہ جب بطور واقعہ وہی ہوا جس کا شبہہ فرشتوں نے ظاہر کیا تھا، تو پھر اللہ نے اولادِ آدم کو کیوں پیدا کیا اور کیوں اُن کو زمین پر بسنے کا موقع دیا-
جیسا کہ معلوم ہے، آدم کی پیدائش سے لے کر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول تک جب کہ قرآن نازل ہوا، ہر قوم اور ہر بستی میں مسلسل طورپر اللہ کی طرف سے نذیر (بتانے والے) آتے رہے، اس کے باوجود آدم کی بعد کی نسلوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی اکثریت مفسد ثابت ہوئی، حتی کہ پوری تاریخ فساد سے بھری ہوئی تاریخ بن گئی- ایسی حالت میں یہ سوال ہےکہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا- اِس سوال کا جواب قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے-
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آدم کو اُن کی اولاد کے نام (أسماء) بتائے- یہاں علمِ اسماء سے مراد علمِ مسمَّیات ہے- یہاں اسم سے مراد افراد کے نام (names)نہیں، بلکہ یہاں اسم سے مراد مُسمّیٰ (named) ہے، یعنی نام سے موسوم افراد-دوسری بات یہ کہ اُس وقت آدم کے سامنے اللہ نے اُن کی اولاد کے جن لوگوں کو پیش کیا، وہ پوری ذریتِ آدم یا پورا مجموعۂ انسانی نہ تھا- کیوں کہ اگر تمام پیدا ہونے والے انسان اُن کے سامنے پیش کیے جاتے تو فرشتوں کا شبہہ رفع نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ اِس قسم کے مظاہرے سے فرشتوں کے شبہہ کی تصدیق ہوجاتی- کیوں کہ خود قرآن کی تصدیق کے مطابق، پیدا ہونے والے انسانوں کی عظیم اکثریت عملاً مفسدثابت ہوئی-
اِس پہلو پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نےاُس وقت پوری اولادِ آدم کو نہیں بلکہ صرف اولادِ آدم کے منتخب افراد کو پیش کیا تھا- یہ منتخب افراد وہی تھے جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر نبی اور صدیق اور شہید اور صالح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے (4:69)- یہ مظاہرہ اللہ تعالی نے صرف فرشتوں کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ بالواسطہ طورپر اُس کا مخاطب وہ انسان بھی تھے جو اللہ کے مقصد تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہوں -
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی سورہ الملک کی ایک آیت سے معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)- اِس آیت سے اور قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق سے اللہ تعالی کا مقصود احسن العمل افراد ہیں، پورے مجموعۂ انسانی میں عدل اور فلاح کا نظام قائم کرنا منصوبہ الہی کا نشانہ نہیں –
اِس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے جس نقشے کے تحت انسان کو پیدا کیا، اس میں ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا- کیوں کہ اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی تھی- ہر انسان کے لیے کامل معنوں میں آزادانہ انتخاب (freedom of choice) کا موقع کھلا ہوا تھا- ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات تھی کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں اور اِس طرح اکثر لوگ عملاً مفسد بن جائیں -اِس بنا پر اللہ تعالی نے ایک قابلِ عمل نشانے کا انتخاب کیا، یعنی اپنے منصوبہ تخلیق کو مبنی بر فرد کے اصول پر قائم کرنا، نہ کہ مبنی بر مجموعہ کے اصول پر-
اللہ تعالی کے مقرر کردہ نقشہ تخلیق کے مطابق، اب جو ہورہاہے، وہ یہ کہ زمین پر کامل معنوں میں آزادی کا ماحول ہے- لوگ ایک کے بعد ایک پیدا ہورہے ہیں - اُن میں سے کوئی فرد اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کوئی غلط استعمال- عین اُسی وقت ایک غیبی نظام کے تحت فرشتے ہرایک کا پورا ریکارڈ تیار کررہے ہیں - یہ ریکارڈ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوگا- اُس وقت جو ہوگا، اس کو قرآن میں پیشگی طورپر مختلف الفاظ میں بیان کردیا گیاہے- مثلاً کہاگیا ہے: فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (42:7) یعنی ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں-
تخلیق کے اِس تصور کے مطابق، آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری نسلِ انسانی سے صالح افراد چنے جائیں گے، یعنی وہ لوگ جنھوں نے یہ ثبوت دیا تھا کہ آزادی کے باوجود انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کیا- آزادی کے باوجود وہ کامل معنوں میں با اصول زندگی کے پابند رہے، آزادی کے باوجود انھوں نے اپنے آپ کو پوری طرح بے راہ روی سے بچایا- اِس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جنت کے آئڈیل معاشرے میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں - آخرت میں پوری تاریخ بشری کے اِن منتخب افراد کو جنت کے معیاری معاشرے میں بسادیا جائے گا، اور بقیہ لوگ جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے، اُن کو دوسرے انسانوں سے الگ کرکے کائناتی کوڑا خانہ (universal litterbin) میں ڈال دیا جائےگا، جس کا دوسرا نام جہنم ہے-

ذريعه: الرساله، جون 2014

Maulana Wahiduddin Khan

12/12/2024

‏ایلویٹس کون ہیں۔۔۔؟ شام کے خفیہ اور پرسرار فرقہ کی تاریخ و حقائق!!

‏شام کے سابق صدر بشار الاسد اور اس کے خاندان کے بارے میں تو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ ان کا تعلق نصیری یا Alawite فرقے یا مذہب سے ہے۔
‏مگر یہ فرقہ/مذہب ہے کیا۔۔۔؟
‏ان کے عقائد و نظریات اور عبادات کیا ہیں؟
‏اور اس فرقے کی تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟

‏اس سے پہلے ہم بہت سے کم معروف مذاہب و مسالک جیسے ایزیدی ( عراق) ، دروز ( شام) ، اباضیہ ( اومان) ، سامری ( فلسطین) اور شوگینڈو ( جاپان) پر تفصیلاً بات کر چکے۔۔ تو آج بات کرتے ہیں علوی یا ایلویٹ فرقہ کے متعلق۔

‏ایلویٹ فرقے کے بارے میں دنیا میں دو آراء پائی جاتی ہیں :
‏اول - کہ یہ ایک الگ مذہب ہے۔
‏دوم - کہ یہ اسلام کا ہی ایک دوردراز فرقہ ہے۔
‏۔۔۔
‏ایلویٹس۔۔۔ جغرافیہ و تعداد :
‏دنیا میں ایلویٹس کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے۔
‏جن میں 20 لاکھ کے قریب شام 🇸🇾 میں آباد ہیں جہاں ان کی بڑی تعداد لتاکیہ اور طرطوس میں آباد ہے۔
‏دیگر ایلویٹس ترکی 🇹🇷 , لبنان 🇱🇧, اسرائیل 🇮🇱 جرمنی 🇩🇪 , آرجنٹینا 🇦🇷 اور آسٹریلیاء 🇦🇺 میں آباد ہیں۔
‏۔۔۔۔
‏تاریخ :
‏ایلویٹس کی بنیاد 9ویں صدی میں پڑی۔
‏ایلویٹ فرقہ کا
‏بانی " محمد بن نصیر " تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہیں نصیری بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ محمد بن نصیر دسویں اور گیارہویں شیعہ اماموں علی نقی اور حسن عسکری کا شاگرد تھا۔

‏لیکن آگے چل کر محمد بن نصیر نے خود اپنے آپ کو ہی امام قرار دے دیا ۔ جو کہ عوام الناس کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے فالورز کو لیا اور ایک الگ فرقے کی بنیاد رکھ دی۔

‏آگے چل کر اس فرقے کی ترویج ابو عبداللہ حسین الخاصبی اور سرور ابن القاسم الطبرانی نے کی، طبرانی نے لتاکیہ اور طرطوس میں بڑی تعداد میں شیعہ عوام کو ایلویٹ عقائد کی جانب راغب کیا یعنی انہیں شیعہ مسلک سے ایلویٹ فرقہ میں داخل کیا۔۔۔ اور تب سے آج تک ایلویٹس کی اکثریت شام کے انہی خطوں میں آباد ہے۔
‏۔۔۔۔
‏عقائد :
‏ایلویٹس کے عقائد و نظریات شیعہ اسلام، سنی اسلام، پیگن مذاہب اور مسیحیت کا مجموعہ ہیں۔

‏ان کے نزدیک انسان کی تخلیق کچھ یوں ہوئی کہ دنیا میں قدم رکھنے سے قبل سب انسان نور کی شکل میں خدا کا احاطہ کیے ہوئے تھے اور خدا کی حمد و ثناء کرتے تھے۔ پھر کسی نافرمانی کی وجہ سے خدا نے غضبناک ہو کر سب کو انسان کی موجودہ شکل میں ڈھال کر زمین پر بھیج دیا جہاں ان کی زندگی خدا کی جانب سے ایک سزا ہے۔

‏پھر خدا نے انسان کی شکل میں 7 مرتبہ زمین پر قدم رکھا بنی نوع انسان کو اپنا پیغام بہم پہنچانے کے لیے۔۔۔

‏پہلی مرتبہ خدا ہابیل کی شکل میں دنیا میں آیا لیکن اپنا پیغام بنی نوع انسان کو پہنچانے میں ناکام رہا۔
‏دوسری مرتبہ شیث کی شکل میں۔۔۔
‏تیسری مرتبہ یوسف کی شکل میں۔۔۔
‏چوتھی مرتبہ یوشع بن نون کی شکل میں۔۔۔
‏پانچویں مرتبہ آصف بن برخیاء کی شکل میں۔۔۔
‏چھٹی مرتبہ شمعون کی شکل میں۔۔۔
‏ہر مرتبہ خدا دنیا کو اپنی تعلیمات پہنچانے میں کامیابی نہ حاصل کر سکا۔
‏آخر کار ساتوں مرتبہ خدا علی کی شکل میں دنیا میں وارد ہوا تو کامیاب ہو گیا۔۔۔ چنانچہ قیامت تک کہ لیے علی ہی خدا قرار پایا۔
‏۔۔۔
‏معنیٰ، حجاب اور الباب کے تصورات :
‏ایلویٹس کے نزدیک ،
‏∆ خدا جب انسانی شکل میں دنیا میں آتا ہے تو اسے " معنیٰ " کہا جاتا ہے۔
‏∆ خدا اپنے آپ کو خفیہ رکھنے کے لیے اسی وقت ایک ایسی شخصیت بھی پیدا کردیتا ہے کہ جو اس سے زیادہ مشہور ہو اور لوگوں کی توجہ اس دوسری شخصیت کی طرف مبذول رہے اور خدا کی الوہیت حجاب میں رہے۔۔۔ چنانچہ اس شخص کو " حجاب " کا نام دیا جاتا ہے۔

‏ تو جیسا کہ میں نے بتایا ایلویٹس ایلویٹس کے نزدیک خدا ہابیل، شیث، یوسف، یوشع، آصف، شمعون اور علی کی شکل میں دنیا میں نازل ہوا۔ تو اسی وقت خدا نے خود کو پوشیدہ رکھنے کے لیے " حجاب " کے طور پر۔۔۔ آدم، نوح، یعقوب، موسیٰ، سلیمان، عیسیٰ اور حضرت محمد ( PBUH) کو بھیجا تاکہ لوگوں کی توجہ ان کی جانب ہو جائے اور خدا حجاب میں رہے۔

‏∆ پھر آ جاتا ہے " الباب " یعنی دروازہ۔۔۔
‏ایلویٹس کے مطابق الباب سے مراد وہ شخصیت ہے کہ جو خدا تک پہنچنے کا دروازہ ہے۔
‏اب۔۔۔ ان کے نزدیک باقی تمام الباب کے نام تو مخفی ہیں لیکن آخری الباب " سلمان فارسی " ہیں۔

‏یعنی ایلوٹس عقائد کے مطابق :
‏علی ہی خدا ہے۔
‏سلمان فارسی خدا تک پہنچے کا دروازہ۔
‏اور حضرت محمد ( PBUH) کا مقصد ان دونوں کو مخفی رکھنا تھا۔
‏۔۔۔۔۔۔۔
‏کتب :
‏ایلویٹس کے نزدیک مقدس کتاب " کتاب المجموعہ " ہے جسے سرور ابن القاسم الطبرانی نے لکھا۔
‏ان کے نزدیک دوسری مقدس ترین کتاب نہجتہ البلاغہ ہے۔
‏اور تیسری مقدس ترین کتاب قرآن ہے۔
‏۔۔۔۔۔۔
‏عبادات :
‏نصیری مزہب کے مطابق دن میں 5 مرتبہ عبادت کی جانی چاہیے۔
‏ان کے ہاں عبادت کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں بلکہ گھر پہ عبادت کرنا ہی افضل ہے۔۔۔ ان وہ عبادت ہے کیا ؟ اس بارے میں بہت کم ہی معلومات میسر ہیں کیونکہ یہ فرقہ اپنے معاملات کو بہت ہی خفیہ رکھتا آیا ہے۔
‏۔۔۔۔۔
‏تہوار :
‏ایلویٹس کے نزدیک سب سے اہم تہوار " قدس " ہے جس میں وہ شراب پیتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ شراب حضرت علی کا خون ہے جو انہوں نے ان کے لیے بہایا۔۔۔۔ یہ عقیدہ مسیحیت کے بہت قریب ہے۔
‏۔
‏ایلویٹس رمضان میں روزے نہیں رکھتے لیکن عید الفطر مناتے ہیں۔۔۔
‏اسی طرح عید الضحی، کرسمس، نوروز ( ایرانی نئے سال کی تقریبات ) بھی مناتے ہیں۔
‏اور عاشورہ بھی۔۔۔ لیکن عاشورہ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ " حضرت حسین کربلا میں شہید نہیں ہوئے تھے بلکہ خدا نے انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا تھا " ۔
‏۔۔۔۔۔
‏ابنِ بطوطہ کے قلم سے :
‏معروف سیاح ابن بطوطہ نے جب لتاکیہ اور طرطوس کا دورہ کیا تھا وہ آباد ایلویٹس کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔۔۔

‏" اس ساحلی خطے کے باشندوں کی اکثریت کا تعلق نصیری فرقے سے ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ علی ہی خدا ہے۔ یہ لوگ وضو اور غسل نہیں کرتے اور نماز نہیں ادا کرتے۔
‏مالک الظاہر ( بیبرس - مملوک سلطان) نے انہیں حکم دے رکھا ہے کہ اپنے گاؤں میں مساجد تعمیر کریں۔۔۔ ان لوگوں نے مساجد تعمیر کر تو دیں لیکن اپنے گھروں سے بہت دور۔ یہ لوگ نہ تو ان مساجد کا خیال رکھتے ہیں نہ ہی یہاں نماز پڑھتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ ان مساجد میں اپنے گدھے اور بھیڑیں پالتے ہیں۔
‏اگر کوئی اجنبی کسی مسجد میں آجائے اور آذان دینے لگے تو یہ اسے کہتے ہیں " ہینکنا بند کرو تمہیں تمہارا چارہ مل جائے گا۔ "

‏( نوٹ : آج کل آپ انٹرنیشنل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں دیکھ اور سن رہے ہوں گے کہ شام میں فلاں تاریخی مسجد میں 54 برس بعد پہلی مرتبہ اذان دی گئی، فلاں مسجد کو 50 سال بعد کھولا گیا، فلاں مسجد کی 40 سال بعد مرمت کی جارہی ہے وغیرہ۔۔۔ تو یہ سلسلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے).
‏۔۔۔۔۔
‏مملوک اور عثمانی ادوار :
‏سلطنت مملوک اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں ایلویٹس کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ایلویٹس نے بھی مقامی حکومت کے خلاف کئی مرتبہ بغاوت اور جنگیں چھیڑیں جن میں 1834 کی عثمانی-علوی جنگ قابل ذکر ہے۔
‏۔۔۔۔۔
‏فرانسیسی دور :
‏سلطنت عثمانیہ کے سقوط اور شام پر فرانس کے قبضے کے بعد فرانسیسی حکومت نے نہ صرف ایلویٹس کو ہر طرح سے مکمل سپورٹ کیا بلکہ لتاکیہ و طرطوس میں ان کو ایک الگ آزاد ملک بھی دیا جسے " سلطنت علویہ " کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست 1920 سے 1946 تک قائم رہی پھر شام نے آزادی کے بعد دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا۔
‏فرانسیسی حکومت نے ایلویٹس کو بہت نوازا۔ انہیں اہم ترین سرکاری عہدے دیے گئے۔ فوج میں انہیں دھڑا دھڑ نوکریاں دی گئیں۔ ان کا لتاکیہ اور طرطوس تک محدود ہونا ختم کر کے انہیں بڑے شہروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔
‏چنانچہ جب شام آزاد ہوا تو حکومت، فوج سمیت اپر کلاس پر ایلویٹس چھائے ہوئے تھے۔
‏۔۔۔۔۔
‏1966 بغاوت :
‏1966 میں شامی فوج کے سربراہ حافظ الاسد نے شام کے صدر صلاح جدید کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور خود شام کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔
‏صلاح جدید کی باقی ساری زندگی جیل میں گزری۔
‏اب مدعا یہ تھا کہ شام کے آئین کے مطابق صدر کا مسلمان ہونا ضروری تھا لیکن بہت سے مسلمان
‏ایلویٹس کو مسلمان نہیں مانتے تھے۔

‏چنانچہ شام کے صوفی العقیدہ مفتی اعظم اور دیگر مفتیان سے یہ فتویٰ دلوایا گیا کہ ایلویٹس بھی اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے۔
‏لیکن صرف فتویٰ ہی نہیں بلکہ ایلویٹس نے بذات خود اپنے آپ کو اسلام کے نزدیک لانے کی کوشش کی اور ایلویٹس کے ایک طبقے نے یہ اعلان کیا کہ " علی خدا نہیں ہے بلکہ امام ہیں۔ "
‏چنانچہ ایلویٹ فرقہ مزید 3 فرقوں میں تقسیم ہوگیا۔
‏۔۔۔۔۔
‏ایلویٹس کے تین فرقے :
‏ایلویٹ فرقے کے اندر تین ذیلی فرقے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں،
‏قمری : ان کے نزدیک علی خدا ہے۔
‏شمسی : ان کے نزدیک علی خدا نہیں اور حضرت محمد ( PBUH) کا مرتبہ علی سے کم نہیں بلکہ ان کے برابر یا ان سے ارفع ہے۔
‏مرشدی : اس فرقے کی بنیاد " سلمان المرشد " نے 1920 کی دہائی میں رکھی جس کا دعویٰ تھا کہ خدا نے اسے ایلویٹس کی جانب پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔
‏۔۔۔۔۔۔
‏حافظ الاسد کے بعد :
‏حافظ الاسد کی موت کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد 2000 میں صدر بنا اور اس کا عنان 24 سال تک رہا جس دوران اس نے تقریباً 10 لاکھ شامی عوام کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا۔
‏بشار کے باپ نے بھی تقریباً 10 لاکھ ہی شامی عوام کا خون بہایا تھا تو اس طرح مجموعی طور پر یہ تعداد 20 لاکھ کے قریب جا پہنچتی ہے۔ اس دوران 1 کروڑ شامی شہری بے گھر بھی ہو ہی جبکہ 50 لاکھ شامی عوام کو ملک سے ہجرت کرنا پڑی۔ ‏

ایک شخص اپنے دوستوں کی محفل میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس  نے آنا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد ...
06/12/2024

ایک شخص اپنے دوستوں کی محفل میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس نے آنا چھوڑ دیا۔

کچھ دنوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس محفل کے ایک بزرگ نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر گئے۔

وہاں انہوں نےاس شخص کو گھر میں تنہا، ایک آتشدان کے سامنے بیٹھا پایا، جہاں روشن آگ جل رہی تھی۔ ماحول کافی آرام دہ تھا۔ اس شخص نے مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے، اور آتشدان کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے۔

کچھ دیر بعد، مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر، جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ چمک رہا تھا، اس کو چمٹے کے ساتھ اٹھایا اور ایک طرف الگ رکھ دیا۔ میزبان خاموش تھا مگر ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور گرم تھا اب ایک کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔

سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے، مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔

جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: "آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کے لئے بہت شکریہ، میں جلد ہی آپ کی محفل میں واپس آؤں گا"

اکثر محفل کیوں بجھ جاتی ہے؟؟
بہت آسان: "کیونکہ محفل کا ہر رکن دوسروں سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ کے ارکان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ رہے"۔

گروپ بھی ایک کنبہ کی طرح ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں، جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگاہ رہنے کے لئے، خیالات کا تبادلہ کرنے، یا محض یہ جاننے کے لئے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔

دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں

اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور اللہ کی بخشی گئی سب سے خوبصورت چیز، "دوستی" کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔

اس لئے میرا حال احوال پوچھتے رہا کریں

Copied

کوئی تبریز مل جائے میرے دل کے بھی رومی کوکہ اکتایا ہوا ہے اب میرا ذوقِ کتب خوانی
30/10/2024

کوئی تبریز مل جائے میرے دل کے بھی رومی کو

کہ اکتایا ہوا ہے اب میرا ذوقِ کتب خوانی

29/10/2024

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان مکمل، آج رات واپسی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب وہ کسی سماجی شخصیت کو پاکستان کی دعوت دے اور یہ سلسلہ علمی شخصیات کا وسیع ہونا چاہیے۔

ایوارڈ یافتہ عراقی مصنف "علی الحدیثی" کو جب مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے تصویر نشر کرتے ہوئے یہ الف...
28/10/2024

ایوارڈ یافتہ عراقی مصنف "علی الحدیثی" کو جب مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے تصویر نشر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے:

"ایک بار پھر میری کتابوں کی گٹھری بندھنے کو ہے،
یہ میری ساتویں ہجرت ہے۔
جس کے پاس اپنی چھت نہ ہو، اسے کتابیں رکھنے کا کیا حق؟
کتابیں تو محبوبہ کی مانند ہوتی ہیں،
اور محبوبہ ہمیشہ اپنی ملکیت میں رہنا چاہتی ہے،
اسے کرایے پر رکھنا ممکن نہیں۔
کرایہ دار کا نہ کوئی اپنا وطن ہوتا ہے، نہ کوئی اپنی لائبریری۔"

27/10/2024

جمہوریت سیکھنا پڑتی ہے

وجاہت مسعود

پچھلے 25 برس میں ہمارے عامل صحافیوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے آ گئی ہے۔ دوسری طرف کچھ صحافیوں کی قسمت ایسی کھلی ہے کہ وہ مشاہرے وغیرہ کے جھنجھٹ سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ رزق میں ایسی کشائش آئی ہے کہ باقاعدگی سے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں چھٹیاں وغیرہ مناتے ہیں اور واپسی پر ہمیں یورپ کی صاف ستھری سڑکوں، عالی شان عمارتوں اور خوابناک تفریح گاہوں کے قصے سناتے ہیں۔ درویش کو چند ہزار روپلی میں زندگی گزارنے والے صحافیوں کی غربت پر دکھ ہوتا ہے لیکن آسودہ حال صحافیوں سے حسد نہیں ہوتا۔ غالباً ایسے صحافی پیشہ ورانہ طور پر زیادہ باصلاحیت ہیں اور ہم عصر ملکی صورتحال میں بہتر معاشی حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ناچیز نے نوجوانی میں بہت سی دنیا دیکھ لی۔ زندگی کے احسانات پر شکرگزار ہے۔ ’رہیں وہ لوگ جو بزم جہاں کی رونق ہیں‘۔ ایک افسوس البتہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاح صحافی ہمیں اپنے سفرنامہ کالموں میں شہری آزادیوں اور روزمرہ آسودگی کی کہانیاں تو سناتے ہیں۔ ان ممالک کے تاریخی ارتقا، سیاسی بندوبست اور معاشی حکمت عملی پر زیادہ بات نہیں کرتے۔ معاشی ترقی غیبی مدد نہیںہوتی۔ اس کے لیے عوام اور رہنمائوں کو امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ آج سے سو برس پہلے دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ان جمہوری ممالک میں بھی برطانیہ نوآبادیاتی نظام کا سرپرست تھا اور امریکا میں نسل پرست قوانین نافذ تھے۔ عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ آج دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں سے نو ممالک میں جمہوری بندوبست قائم ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ عالمی درجہ بندی میں چوبیس ممالک میں مکمل جمہوریت ہے۔ پچاس ممالک میں ناقص جمہوریت پائی جاتی ہے۔ چونتیس ممالک میں جمہوریت اور آمریت کا مخلوط بندوبست ہے۔ تقریباً ساٹھ ممالک میں مطلق العنان آمریت قائم ہے۔ ہمارے بہت سے احباب ان آمریتوں میں سے دو چار مثالیں اٹھا کر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ جمہوریت اور معاشی ترقی لازم و ملزوم نہیں۔ اس پر مجھے 1986میں چھپنے والے Ruth Rendell کے ناول Live Flesh کا ایک جملہ یاد آ جاتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردارVictor Jennerایک طوائف کا بیٹا تھا جو 1970 میں فرانکو آمریت کے دوران ایک چلتی ہوئی بس میں پیدا ہوا ۔ ایسے بچوں کا جرائم پیشہ ہو جانا متوقع ہوتا ہے۔ وکٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ برسوں جیل کاٹنے کے بعد رہا ہو کر قانون پسند زندگی کی طرف لوٹنا چاہا۔ اتفاق سے بیس برس بعد اس کا اپنا بیٹا بھی چلتی ہوئی بس میں پیدا ہوا۔ وکٹر اپنے نوزائیدہ بیٹے کو گود میں اٹھا کر ایک بامعنی جملہ کہتا ہے۔ Spanish People no longer live in fear ۔ یہ جمہوریت کی خوبصورت تعریف ہے۔ جمہوریت میں لوگ خوف میں زندگی نہیں گزارتے۔ انہیں اپنے شہری ہونے پر فخر ہوتا ہے اور وہ خود کو اپنی قوم کی بہتری اور ترقی میں حصے دار اور ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جمہوری ترقی میں چھوٹے موٹے سیاسی اور معاشی بحران کے باوجود تسلسل پایا جاتا ہے اور کسی انہونی سازش کا دھڑکا نہیں ہوتا۔ یہاں سپین کا کچھ پس منظر بھی بیان ہو جائے۔

انیسویں صدی میں نوآبادیاتی مقبوضات سے محروم ہونے کے بعد اسپین افراتفری کا شکار تھا۔ 1870 کی دہائی میں جمہوریہ (Republic ) قائم کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ 1931 میں دوبارہ کوشش کی گئی۔ بائیں بازو کی ری پبلکن قوتوں نے انتخاب جیتا لیکن جرمنی، اٹلی، روس، امریکا اور برطانیہ کی عالمی کشمکش میں پھنسا اسپین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اسپین کی لڑائی دوسری عالمی جنگ کا پیش لفظ تھی۔ 1939 میں جنرل فرانکو نے جمہوری قوتوں کو شکست دے کر آمریت قائم کر لی۔ خانہ جنگی میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے چار لاکھ تھی۔ فرانکو 1975 تک آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتا رہا۔ عقوبت خانوں اور سیاسی مخالفین کی موت کے اس دور میں مرنے والوں کی تعداد کا درست اندازہ ممکن نہیں۔ یہ بہرحال طے ہے کہ اسپین کے عوام فرانکو کی آمریت اور نام نہاد بادشاہت کے دو پاٹوں میں پستے اناج کی طرح بے بس تھے۔ فرانکو نے 1969 میں اپنا ایک جانشین بادشاہ مقرر کیا تھا جو خاموشی سے انتظار کرتا رہا۔ نومبر 1975 میں فرانکو کے مرتے ہی بادشاہ Juan Carlos نے جمہوریت کی طرف واپسی کا اعلان کیا۔ اہم بات یہ کہ ا سپین میں تمام سیاسی قوتوں نے جماعتی اختلافات بھلا کر جمہوری بندوبست میں حصہ بننے کا اعلان کیا۔ نصف صدی بعد آج اسپین دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت ہے۔ اسپین یورپین یونین کا رکن اور یورپ کی چھٹی بڑی معیشت ہے۔دنیا بھر میں برآمدات کے اعتبار سے اٹھارہویں اور درآمدات میں پندرہویں نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ انسانی ترقی کی درجہ بندی میں اسپین کا نمبر ستائیس ہے۔ کل آبادی پانچ کروڑ ہے اور معیشت کا حجم 1.65 کھرب ڈالر ہے۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران میں اسپین پر برا وقت بھی آیا لیکن 2022 میں معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی۔فرانکو کے چھتیس سالہ عہد میں اسپین آمریت کا استعارہ تھا۔ آج اسپین ترقی یافتہ سوشل ڈیموکریسی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ا سپین کی یہ کایا کلپ اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان کی سیاست اور معیشت میں ترقی دیکھئے۔ حالیہ برسوں میں جنوبی کوریا، برازیل ، جنوبی افریقہ، بھارت ، ایتھوپیا اور فلپائن کی ترقی دیکھئے۔ کیا ہماری قسمت میں لکھا ہے کہ ہم کراچی کےمدرسہ کےنیم خواندہ انور شاہ جیسے کندہ ناتراش مجرم کرداروں کے ہاتھوں یرغمال رہیں گے۔ رات بھر موٹر سائیکل چلا کر ماں کی خدمت کرنے والا قلعہ سیف اللہ کا نوجوان ضیا الحق مذہبی کرداروں کے بہیمانہ تشدد کا شکار ہو گا تو اس کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ ہماری سیاسی جماعتیں مکالمے کی مدد سے مفاہمت کریں گی تو اسے ’مک مکا‘ کا نام دیا جائے گا۔ جمہوریت کے دشمن سازش کریں گے تو اسے ’نیا پاکستان‘ کہا جائے گا۔ ہمارے صحافی دوستوں کو نیلے سمندروں، سرسبز باغات اور روشنیوں میں ڈوبی تفریح گاہوں کی خوشیاں مبارک لیکن خبر میں افواہ اور تجزیے میں خواہش کی ملاوٹ کرنے کی بجائے قوم کو یہ تعلیم بھی دیں کہ جمہوریت آسمانوں سے نہیں اترتی، اسے سیکھنا پڑتا ہے۔

26/10/2024

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Live With Sabookh Syed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Live With Sabookh Syed:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share