V4videos

V4videos Follow the rules
1. respect everyone.
2. avoid abusive language in comments.
3. no religious debate
4. no politicals debates.
5. avoid conflicts.

kindly support us like share our videos.

05/12/2024
11/08/2024

#عزت کی نوٹنکی۔۔۔۔۔۔
آٹھویں کلاس کا طالب علم ,اس کا نام اسلم تھا اسلم کا ابا ٹانگہ والا تھا۔گاوں کی طرف جانے والے راستے کے بیچ کھڑا ہو کر شہر سے آنے والے سواریوں کو گاوں لے جاتا تھا یہی اس کا ذریعہ معاش تھا ویسے اب لوگ ٹانگے میں بیٹھنا زیادہ پسند نہیں کرتےتھے۔اب تو کچے راستے بھی پکے کر دیے گئے تھے رکشہ اور بائیکس نے ٹانگے کی جگہ لے لی تھی مگر اسلم کے ابا شکور ٹانگے والا ہی رہا۔اس کا خواب تھا۔اس کا بیٹا اچھے بڑے سکول میں پڑھے اور بڑا آدمی بنے سو شروع سے ہی گاوں کے متصل شہر کے پاس ایک پرائیویٹ سکول میں بیٹے کو داخل کرا دیا۔
بڑے سکول میں غریب کا بیٹا پڑھنے جائے تووہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور پڑھنے اور بڑا آدمی بننے کی راہ میں اس کی یہ احساس کمتری حائل ہوتی ہے۔
ایک دن اس کا بیٹا اسلم بیمار ہوگیا مگروہ سکول چلا گیا۔ماں کو فکر ہوئی اور شوہر سے کہا کہ اسلم کو سکول سے لے آنا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی صبع۔
شکور کو بھی فکر تھی سو وہ ٹانگے کو گاوں کے کچے پکے راستے سے نکال کر شہر کی پکی سڑک پر لے آیا۔اور سکول زیادہ دور نہ تھا۔
سکول کے باہر ٹانگہ کھڑاکر کے اندر آفس میں گیا۔اور پرنسپل صاحب سے کہا کہ اسلم کو بخار تھا صبع تو اسے گھر لے جانے آیا ہوں۔
پرنسپل نے کسی کو بھیج کو کلاس سے اسلم کو بلا بھیجا۔اسلم کی طبیعت تو خراب تھی اب یہ سن کر اس کا موڈ خراب ہوا کہ اس کا باپ اسے لینے آیا ہے۔وہ اپنے ساتھیوں کو کہتا رہا مت آو۔ساتھ میں چلا جاوں گا مگر پھر ٹیچر نے کہا کہ آپ کو بخار ہے ساتھ چلو۔
چار لاچار آفس تک آنا پڑا۔ اسلم شرم سے ڈوبا جا رہا تھا اسنے تو سکول کے دوستو کو کہا تھا کہ اس کا باپ بزنس مین ہے جب انہیں پتہ چلے گا کہ اس کا باپ ایک ٹانگے والا ہے تو کیا عزت رہے گی سکول میں۔
ایک تو اسلم کو بخار تھا اور دوسرا اس کا موڈ خراب تھا لہجے میں تلخی آگئی۔کہنے لگا اپنے ابا سے کہ کیا ضرورت تھی آپ یہاں آئے۔ابا کہاں ہے میرا۔؟
اس کے ابا نے یہ سنا تو معاملہ سمجھ کر سمبھالنے لگا۔ارے صاحب جی نے مجھے آپ کو لینے بھیجا ہے آپ کے لیے صاحب جی بہت فکر مند ہیں۔
باپ بیٹے کی گفتگو سن کر پرنسپل کو شدید شاک لگا یہ کیا دیکھ اور سن رہا ہوں آج۔۔
بیٹا نے جھوٹی شان کے لیے اپنے سگے باپ کو پرایا کر دیا اور باپ کو دیکھو بیٹے کی مرضی خوشی اور جھوٹی آن کی خاطر محض تین سیکنڈز میں فورا ہی باپ کے مرتبے سے اتر کر بیٹے کا نوکر بننے کی اداکاری کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے میں خاموشی رہی ٹانگے کی ٹھپ ٹھپ سنائی دے رہی تھی۔ پھر اسلم بولا کیا ضرورت تھی ابا میرے سکول آنے کی۔ شکور زخمی نگاہوں سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔تیری طبیعت خراب تھی بیٹا۔مجھے آنا پڑا۔
اسلم بولا ابا آپ کو اور کام نہیں کر سکتے۔یہ ٹانگہ چلانا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
ابا کیا جواب دیتا۔خاموش ہی رہا۔
گھر پہنچے تو اسلم ماں سےالجھ گیا۔کیوں بھیجا ابا کومیرے سکول میرے دوستو میں میری دو ٹکے کی عزت نہ رہی۔ماں کا جواب بھی وہی تھا۔ہمیں فکر تھی۔بیٹا۔
مگر اسلم ناراض ہی رہا۔ابا کو سکول نہیں آنا چاہیے تھا۔میرے دوست میرا مذاق اڑائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول پرنسپل اشفاق صاحب بہت فکر مند نظر آئے باپ ٹانگہ والا ہے ریڑھی لگاتا ہے یا ملک کا وزیر اعظم ہے اس کی اولاد کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔اور ہر بیٹے کو اپنے باپ کے پیشے پر فخر ہونا چاہیے۔پرنسپل صاحب کافی فکر مند تھے کہ کم از کم میرے سکول میں تو ایسی سوچ رکھنے والے طالب علم کی تربیت ہونی چاہیے۔اسے وہ منظر بھلائے نہ بھول رہا تھا۔کہ اس کا سگا باپ خود کو بیٹے کے گھر کا ملازم بن کر اپنے بیٹے کو لینے آیا۔اور بیٹے نے دوستوں کے سامنے اپنے ہی باپ کو ملازم بنا کر ڈانٹا۔
اشفاق صاحب نے سپر پلان بنایا۔
اسلم کو سبق سکھانے کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنسپل صاحب پانچویں جماعت سے لیکر میٹرک تک کی کلاسوں میں ایک حکم نامہ جاری کردیا۔کہ آج کے بعد ہر سٹوڈنٹ۔ پین او کیو۔ نامی پین استعمال کرے گا۔
اگلےتین دن بعدپرنسپل صاحب کلاسوں میں جا جا کر ایک ایک سٹوڈنٹ کو پین دکھانے کے لیے کہا۔کہ انہوں نے پرچیز کیا بھی ہے یا نہیں۔
سب نے پرچیز کیا تھا یہ پین۔ پین او کیو۔جس کی قیمت 1000 روپے تھی۔
آٹھویں کلاس میں پرنسپل صاحب نے وزٹ کیا اور اسی طرح سب بچوں کو کہا کہ ایک ایک کر اپنا پین او کیو پین دکھائیں خرید کر استعمال کر رہے ہیں یا نہیں۔سب کے پاس تھا سواۓ اسلم کے۔
اسلم نے بہانا بنایا کہ سر میرے گھر کے پاس سٹیشنرزکی دکان پر ختم ہوئے ہیں ایک دو دن میں پین او کیو پین وہ منگوا لے گا توخرید لوں گا۔تبھی پرنسپل نے کہا کلاس میں آپ کا بیسٹ فرینڈ کون ہے۔اسلم بولا سر میرا دوست بلال اور عمر ہیں۔پرنسپل صاحب نے اسے کہا اپنے دوستوں سے فلحال پین او کیو لے کر کام چلاو جب تک اپنا پرچیز نہیں کرلیتے۔اور ہاں اپنے والد صاحب کو کہنا کہ کل سکول آفس چکر لگائے۔
اسلم نے جی اچھا کہا ۔کچھ دیر کے لیے عمر اور کچھ دیر کو بلال نے اپنا قیمتی پین اسے کلاسورک کرنے کے لیے دیا مگر ساتھ میں بار بار جتلایا اپنے لیے پین کا بندوبست کرو جلدی۔یہ پین بہت مہنگا ہے۔اسلم کو بہت دھچکا اور کوفت ہونے لگی۔پین 1000 روپے کا ہونے کی وجہ سے خریدنے میں مشکل ہورہی تھی دوسری طرف اتنے بیسٹ فرینڈز سیدھے منہ بات نہیں کر رہے۔
اسے امید نہ تھی دوستوں سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلم کے ابا شکور سکول کے آفس میں بیٹھے تھے۔پرنسپل صاحب نےکہا ۔شکور صاحب بیٹے کی خوشی کے لیے والدین بہت کچھ کرتے ہیں مگر آپ اپنے بیٹے کی تربیت اس طرح کر رہے ہیں کہ وہ کل آپ کے بڑھاپے میں سہارا بننے کی بجائے آپ کو بوجھ سمجھ کر چھوڑدے گا۔
شکور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔مجھے کیا کرنا چاہیے۔
پرنسپل صاحب بولے جس طرح میں کہتا ہوں اس طرح کرو۔یہ کہتے ہوئے اس نے دراز سے 10 پین نکالے پین او کیو کے۔
اور اسے دیتےہوئے کہا یہ لو یہ 1000 روپے کا ایک پین ہے اور دس ہزار خرچنا آپ کے بیٹے کی تربیت سے بڑھ کے نہیں۔
شکور بولا سر میں کچھ سمجھا نہیں۔اور اس پین کے خریدنے کے لیے میرا بیٹا مجھے کہتا ہےکہ وہ خود کشی کر لے گا۔اگر میں نے اسے یہ پین خرید کر نہ دیا۔
تبھی پرنسپل صاحب مسکرائے اور بولے۔یہی میرا پلان ہے بس جیسے جیسے میں کہتا ہوں ویسا ہی کرو۔۔۔۔ٹھیک ہے نا۔۔شکور پرنسپل صاحب کا پلان سن کر حیران رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کے بعد اسلم گھر آیا تو روزانہ کی طرح آج بھی ماں سے الجھ پڑا کہ میرے سکول میں پرنسپل صاحب نے پین او کیو نامی پین خرید کر سکول میں استعمال کرنے کا بار بار کہہ رہے ہیں اگر آپ لوگ میرے لیے پین نہیں خرید سکتے تو میں خود کشی کرلوں گا۔وہ روہانسی ہوگیا۔
اسی اثناء میں اس کے اباگھر میں داخل ہوئے۔
بیٹے کے ڈائیلاگ سن لیے تھے۔
کہنے لگے بیٹا وقت سے پہلےنہیں نصیب سے زیادہ نہیں۔
بیٹا بدتمیزی سے بولا۔ابا چھوڑ دیں یہ کتابی باتیں آپ میرے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔
آپ نے میرے لیے ابھی تک کیا ہی کیا ہے؟ مجھے سکول میں بے عزتی محسوس ہوتی ہے۔وغیرہ
ابا خاموش ہی رہا۔پھر اندر جا کر کمرے سے پین او کیو کے پین لایا اور بیٹے کو ایک پین نکال کر دیتے ہوئے کہا یہ لو پین او کیو کا پین۔
اسلم جلدی سے پین لیا غور سے الٹ پلٹ کر کے پیکنگ دیکھنے لگا پھر پرجوش اندازمیں بولا ابا یہ تو واقعی پین او کیوہی ہے۔
اس کی خوشی دیدنی تھی۔ابا نے تھیلے سے دوسرا پین نکال کر دیا۔یہ لو۔دوسرا پین
اسلم دوسرا پین دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ابا ایک ہزار روپے کا پین ہے۔دو لے آیا؟
ابا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔میں نے اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کیا ۔پھر تھیلے سے تیسرا پین نکال کر اس کی طرف بڑھا۔
بیٹے کا فوکس پین سے ہٹ گیا۔بس ٹکر ٹکر بے بس باپ کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
باپ روکنے والا نہیں تھا۔چوتھا پین نکالا۔
اسلم شرم سے اب پانی پانی ہورہا تھا۔اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
شکور بدستور تھیلے سے پین نکال نکال کر اس کی طرف بڑھاتا رہا دس پین تھے ۔
شکور بولتا جا رہا تھا میں اپنے بیٹے کے لیے یہ کر سکتا ہوں۔اس کی آنکھوں سے لڑی لڑی آنسو بہہ رہے تھے۔اسلم چیخ مار کر اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ابا مجھے پتہ ہی نہیں چلا میں نے کتنے لفظوں کے زہر آلود تیر برسادیے۔
مجھے معاف کردیں ابا۔وہ روتا رہا۔
شکوردل ہی دل میں پرنسپل صاحب کو دعا دینے لگا۔
مگر اسلم بار بار پوچھتا رہا ابا دس ہزار روپے کہاں سے آئے آپ کے پاس ۔
اردوناول کہانیاں
تبھی پرنسپل صاحب کے منصوبے کا اگلامرحلہ شروع ہوا۔کہنے لگے بیٹا میرے پاس پیسے نہ تھے تواپنے دوست کے پاس آگیاجو فروٹ کی ریڑھی لگاتا ہے۔ اس سےکہا کہ مجھے پین او کیو نامی پین خریدنا ہے۔مگر پیسے نہیں ہیں۔
اس نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
میں نے ایک اور دوست جو کہ ہتھ ریڑھی منڈی میں چلاتا ہے اس کو جا کر کہا کہ پین او کیو پین چاہیے۔مگر ہزار روپیہ نہیں پاس ۔اسنے بھی وعدہ کیا مدد کرنے کا ۔میں آگےبڑھ گیا۔مجھے آج پتہ چلا میرے سارے دوستو نے میرےلیے پین خرید کر رکھے تھے۔میں نےسب کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا شکور بھائی آپ کا بیٹا ہمارا بھتیجا ہے۔ہم آپ کو مشکل وقت میں ساتھ دیتے رہیں گے اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق۔

اسلم نے یہ سنا تو سوچنے لگا۔کیا فائدہ بلال اور عمر جیسے دولت مند دوستو کا جو سکول میں محض کچھ دیر کے لیے بھی ساتھ نہیں دیتے۔دوست تواباجی کے ہیں جو مدد کو پہنچے۔اس نے دولت مندوں سے مرعوب ہونا چھوڑ دیا۔

دوستو کسی کی وفا کو دولت مندی کے پیمانے میں تول کر نہ دیکھو نہ پرکھو۔اکثر غریب کی مدد کرنے غریب ہی آتے ہیں۔۔
#ٹانگہ #فرینڈ #اردو #سٹوری

11/08/2024

میں جب اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو مین روڈ پر آنے کے لیے مجھے دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں۔ یہ اصل میں دو گلیاں ہیں لیکن بہت کشادہ ہیں۔آخری والی گلی کے بائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہے جس کے باہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتاہے۔ یہ نہ کسی سے بات کرتا ہے نہ چلتا پھرتاہے۔۔۔بس چارپائی پر بیٹھا کھانستا رہتا ہے اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ہے تو پھر کھانسنے لگتاہے۔یہ اس گھر کا چوکیدار ہے‘ لیکن میں جب بھی اسے دیکھتاہوں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آگئے تو کیا یہ چوکیدار اُنہیں روک پائے گا؟ اُس روز بھی میں نے گاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار کھانستا ہوا نظر آیا۔ یہ میری روز کی روٹین ہے‘ چوکیدار کی چارپائی کے بعد مین روڈ شروع ہوجاتی ہے لہذا میں نے مین روڈ پر گاڑی چڑھائی اور آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیور کے بعد میری منزل آگئی۔۔۔!!!

میں شہر کے ایک بڑے اور متوسط علاقے میں معروف موٹیویشنل سپیکر کا خطاب سننے آیا تھا۔ احباب زور دے کر مجھے یہاں لائے تھے۔ سچی بات ہے کہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں۔ تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل سپیکرصاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے۔ اس گاڑی کے پچھلے بمپر پر الگ سے ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر ’’MS ‘‘ لکھا ہوا تھا۔۔۔شائد یہ موٹیویشنل سپیکرکا مخفف تھا۔ اور اپنی گفتگو سے حاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہوگئے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنے سامنے چلتے پھرتے لوگوں کو کس قدر اگنور کر رہے ہیں۔

اگرسکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلانا ہوگا‘ سب کو معاف کرنا ہوگا۔۔۔موٹیویشنل سپیکر کی بات سن کر پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے پوچھا’’کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔ کچھ دیر سکوت رہا۔ پھر موٹیویشنل سپیکر نے آہستہ سے کہا’’آج گھر جائیں اور جن کے باپ زندہ ہیں انہیں گلے سے لگائیں‘ پیار کریں اوراگر کوئی شکوہ ٰ بھی ہے تو اسے بھلا دیں‘‘۔

پروگرام کے اختتام سے پہلے ہی مجھے ایک ضروری میٹنگ کی کال آگئی اور اٹھنا پڑ گیا۔ میٹنگ دو گھنٹے جاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جاسکا۔ واپسی پر شدید بھوک لگی تھی لہذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا۔ بھوک کی وجہ سے کافی زیادہ آرڈر دے دیا تھا لیکن اب کافی سارا کھانا بچ گیا تھا۔ میں نے وہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ آخری گلی میں مڑتے ہی چوکیدار پھر میری نظروں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں اچانک موٹیویشنل سپیکر کے الفاظ گونجنے لگے’’کیا کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔خیال آیا کہ یہ چوکیدار بھی تو کسی کا باپ ہوگا‘ پتا نہیں اس کو کبھی اپنے بیٹے کی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نے کسی خیال کے تحت گاڑی چوکیدار کے پاس روکی اور پیک کروائے گئے کھانے کا شاپر اٹھا کر اس کے پاس آگیا۔ سلام دعا کے بعد میں نے شاپر اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے نہایت احترام سے کہا کہ یہ بالکل تازہ کھانا ہے‘ آپ کھا لیجئے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور پھر اُس نے انتہائی تیزی سے شاپر جھپٹ لیا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے۔

پھر اس کے بعد میرا معمول بن گیا۔۔۔میں کبھی کبھارکوئی نہ کوئی بچا کھچا برگریا شوارما وغیرہ چوکیدار کے لیے لے جاتا۔ چونکہ اسے بولنے میں دقت ہوتی تھی لہذا ہماری اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں ہی ہوجاتی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کے سرہانے کوئی کتاب پڑی ہوئی ہے اور وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہا ہے۔مجھے بہت اچھا لگا کہ ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی اسے کتاب پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے گاڑی روکی ‘ سلام لیا اور قریب جاکردیکھا تو ہوش اڑ گئے۔۔۔وہ دیوانِ غالب پڑھ رہا تھا۔یہ میرے لیے شدید حیرت کی بات تھی ۔البتہ یہ نہیں پتا تھا کہ کیا وہ واقعی کتا ب پڑھ رہا تھا یا کسی اور کی کتاب اس کے سرہانے رکھی تھی۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اشاروں سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب یہاں کیسے آئی؟۔ اُس نے مریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹے جملوں میں بتایا کہ یہ کتاب اُسے بہت پسند ہے اور وہ جتنی بار پڑھتاہے اُتنی بار نیا لطف ملتا ہے۔ میرے ہاتھ پاؤ ں پھول گئے۔ غالب کو پڑھنے اور سمجھنے والا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہوگیا۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ تعلیم یافتہ ہیں؟ جواب اثبات میں آیا اور میری حیرت دوچند ہوگئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔

یہ بات بہت الجھا دینے والی تھی کہ آخر ایک پروفیسر کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسے اس عمر میں چوکیدار ی کرنا پڑرہی ہے۔ اس راز سے بھی اُس نے خود ہی پردہ اٹھا دیا اور ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کے لیے مجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ یہ بزرگ جسے میں چوکیدار سمجھتا رہا وہ اس گھر کا مالک تھا۔ تین بیٹے تھے۔ تینوں کی شادیاں کر دیں۔ بیوی فوت ہوگئی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا ہوگیا۔ کھانسی اور بیماری کی وجہ سے بچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری اُن کے بچوں کو نہ لگ جائے لہذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سے طے پایا کہ ’ابا جی‘ کی چارپائی گھر سے باہر لگوا دی جائے تاکہ وہ آرام سکون سے جی بھر کے کھانس سکیں۔ یوں اب گھر والے بھی چین کی نیند سوتے تھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی اولاد سے بالکل بھی ناراض نہیں کیونکہ انہوں نے کہیں سنا تھا کہ’اگر سکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلانا ہوگا‘سب کو معاف کرنا ہوگا‘‘۔ یہ جملہ سن کر میں چونک اٹھا۔ یقیناًانہوں نے بھی موٹیویشنل سپیکر کا کوئی لیکچر پڑھا یا سنا تھا کیونکہ یہ بات میں نے بھی وہیں سنی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ ان کے تینوں بیٹے بزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں‘ تینوں کے پاس اچھی گاڑیاں ہیں۔

میں نے اُس رو ز بہانے بہانے سے اُنہیں بہت کریدا کہ شائد اُن کے دل میں اپنے بیٹوں کے لیے کوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو لیکن وہ ہر حال میں اولاد سے راضی نظر آئے۔ پچھلے دنوں میں اُن کے گھر کے قریب سے گذرا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ ان کی چارپائی کے پاس ایک گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے تھوڑا آگے جاکر اپنی گاڑی روکی اور پروفیسر صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ فخر سے مجھے بتانے لگے کہ یہ گاڑی ان کے بیٹے کی ہے ۔ اسی دوران گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔ غالباًہم دونوں کی گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر بولے’’خیرنال جا تے خیر نال آ‘۔ میں نے چونک کر گردن موڑی۔۔۔گاڑی کافی آگے جاچکی تھی لیکن اس کے پچھلے بمپر پر ’MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔!!

منقول

07/07/2024

■■WITH HOSTEL■■
𝐖𝐞𝐥𝐜𝐨𝐦𝐞 𝐭𝐨 𝐭𝐡𝐞 𝐩𝐞𝐬𝐡𝐚𝐰𝐚𝐫 𝐒𝐜𝐢𝐞𝐧𝐜𝐞 𝐒𝐜𝐡𝐨𝐨𝐥 𝐚𝐧𝐝 𝐂𝐨𝐥𝐥𝐞𝐠𝐞 𝐀𝐛𝐛𝐨𝐭𝐭𝐚𝐛𝐚𝐝
𝐀𝐝𝐦𝐢𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧 𝐨𝐩𝐞𝐧 𝐟𝐨𝐫 𝐅.𝐒𝐜-𝐈 (𝐏𝐫𝐞-𝐌𝐞𝐝𝐢𝐜𝐚𝐥, 𝐏𝐫𝐞-𝐄𝐧𝐠 & 𝐂𝐨𝐦𝐩-𝐬𝐜𝐢𝐞𝐧𝐜𝐞)
𝐂𝐥𝐚𝐬𝐬𝐞𝐬: 𝟑𝐫𝐝 𝐉𝐮𝐧𝐞 𝐈𝐧𝐬𝐡𝐚𝐀𝐥𝐥𝐚𝐡

Fee: Hostel and college fees per month are 34 thousand.

*𝐁𝐚𝐬𝐞𝐝 𝐨𝐧 𝐭𝐡𝐞 𝟗𝐭𝐡 𝐦𝐚𝐫𝐤𝐬, 𝐭𝐡𝐞 𝐟𝐞𝐞 𝐜𝐨𝐧𝐜𝐞𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧 𝐢𝐬 𝐠𝐢𝐯𝐞𝐧 𝐚𝐬:
1) 560+ marks ~ 14 thousand fees per month with hostel
2) 555+ marks ~ 15 thousand fees per month with hostel
3) 550+ marks ~ 16 thousand fees per month with hostel
4) 545+ marks ~ 17 thousand fees per month with hostel
5) 540+ marks ~ 18 thousand fees per month with hostel
6) 530+ marks ~ 19 thousand fees per month with hostel
7) 520+ marks ~ 20 thousand fees per month with hostel
8) 510+ marks ~ 21 thousand fees per month with hostel
9) 500+ marks ~ 22 thousand fees per month with hostel
10) 490+ marks ~ 23 thousand fees per month with hostel
11) 480+ marks ~ 24 thousand fees per month with hostel
12) 470+ marks ~ 25 thousand fees per month with hostel
13) 460+ marks ~ 26 thousand fees per month with hostel
14) 450+ marks ~ 27 thousand fees per month with hostel
15) Below 450 marks ~ 34 thousand fees per month with hostel

𝐍𝐨𝐭𝐞: 𝐓𝐡𝐞 𝐟𝐞𝐞 𝐜𝐨𝐧𝐜𝐞𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧 𝐢𝐬 𝐯𝐚𝐥𝐢𝐝 𝐟𝐨𝐫 𝐭𝐰𝐨 𝐲𝐞𝐚𝐫𝐬.
𝐅𝐚𝐜𝐢𝐥𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬:
3 times Quality food, English Language and Grammar classes, Evening Coaching classes, Night study under teacher supervision, dars-e-quran and Nazra classes, laundry facilities , sports activities and much more.

𝐅𝐞𝐞𝐥 𝐟𝐫𝐞𝐞 𝐭𝐨 𝐜𝐨𝐧𝐭𝐚𝐜𝐭 𝐮𝐬:
0333-5471363 0345-9197326
: 𝐎𝐩𝐩𝐨𝐬𝐢𝐭𝐞 𝐬𝐡𝐚𝐡𝐞𝐞𝐧 𝐜𝐡𝐞𝐦𝐢𝐬𝐭 𝐦𝐚𝐧𝐝𝐢𝐚𝐧 𝐀𝐛𝐛𝐨𝐭𝐭𝐚𝐛𝐚𝐝

dont stop sharing falasteen content
09/01/2024

dont stop sharing falasteen content

Watch, follow, and discover more trending content.

05/12/2023

15.9K likes, 160 comments. “ ”

04/12/2023

3765 likes, 444 comments. “ #غزة #مصر #المغرب🇲🇦تونس🇹🇳الجزائر🇩🇿 ”

03/12/2023

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when V4videos posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to V4videos:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share