Atheism In Pakistan

  • Home
  • Atheism In Pakistan

Atheism In Pakistan Promoting atheism in Pakistan exposing so called atheist secular

30/10/2024

*کراچی کے علاقے کورنگی میں ’ہالووین‘ پارٹی کے انعقاد پر پولیس خاموش تماشائی بن گئی*

صوبائی دارالحکومت کراچی کے علاقے کورنگی میں ’ہالووین‘ پارٹی کے انعقاد پر سندھ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے پارٹی بند کروادی، تاہم کسی کو گرفتار نہیں کیا۔

نجی ٹی وی چینل سما ٹی وی کے مطابق کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن میں مقامی انتظامیہ سے اجازت کے بعد ’ہالووین‘ کا انعقاد کیا گیا تھا، تاہم اہل محلہ نے پارٹی کی شکایت لگادی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پارٹی میں زیادہ تر نوجوان افراد ’ہالووین‘ تھیم پر ڈراؤنے اور نیم عریاں لباس پہن کر شریک ہوئے جب کہ پارٹی میں شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کا بھی مبینہ استعمال کیا گیا۔

’ہالووین‘ پارٹی میں نشہ آور چیزوں کے استعمال اور شور شرابے کی وجہ سے اہل محلہ نے پولیس کو شکایت کی، جس پر کورنگی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے پارٹی کو بند کروادیا۔

پولیس نے پارٹی کے مقام پر پہنچ کر فوری طور پر پارٹی رکوادی اور تمام افراد کو وہاں سے نکل جانے کی ہدایات کیں، تاہم کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے واضح طور پر’ہالووین’ پارٹی کے حوالے سے موقف سامنے نہیں آ سکا، تاہم سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد صارفین نے سوال اٹھایا کہ شراب نوشی سمیت دیگر نشے آور چیزوں کے استعمال کے باوجود پولیس نے گرفتاریاں کیوں نہیں کیں؟

یہاں یہ بات یاد رہے کہ ’ہالووین‘ مغربی تہوار ہے جس کی ابتدا امریکا سے ایک صدی قبل ہوئی تھی۔

آغاز میں ’ہالووین‘ پارٹیز کا انعقاد شیطان کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا تھا، تاہم جدید دور میں ’ہالووین‘ پارٹیز زومبیز کا روپ دھار کر، ڈراؤنے لباس پہن کر یا نیم عریاں ملبوسات پہن کر جشن منانے میں تبدیل ہوچکا ہے۔

امریکا اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں ’ہالووین‘ کی پارٹیاں ہر سال اکتوبر کے اختتامی ہفتے میں منعقد ہوتی ہیں۔

’ہالووین‘ پارٹیز میں مرد و خواتین مشترکہ طور پر ایک ہی چھت کے تلے جشن مناتے ہیں اور کورنگی میں ہونے والی پارٹی میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔

گوادر ائیر پورٹ پاکستان کا جدید ترین، ایشیاء کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بن گیا، جس کا افتتاح کر دیا گیا ہے .یورپ سے ایشیا جا...
18/10/2024

گوادر ائیر پورٹ پاکستان کا جدید ترین، ایشیاء کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بن گیا، جس کا افتتاح کر دیا گیا ہے .
یورپ سے ایشیا جانے والے تمام چھوٹے ہوائی جہازوں کو پاکستان نے گوادر ایئرپورٹ پر کم سے کم اخراجات پر ریفیولنگ کی آفر کر دی ہے، جس سے شارجہ دبئی کا ائیر ٹریفک پاکستان کی طرف مڑ جائے گا۔ جس میں ائیر لائن کمپنی کا 2 گھنٹہ وقت اور فیول بچے گا۔
اس عمل سے ابتدائی سطح پہ پاکستان کو 500 ارب کی آمدن ہوگی

15/10/2024

ٹاپ بریکنگ

کینیڈا نے انڈین ہائی کمشنر سنجے کمار ورما سمیت چھ سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کردیا

کینڈا نے اتنا بڑا قدم ملک میں پرتشدد بھارتی سرگرمیوں کے حوالےسے پولیس کی طرف سے نئی تفصیلات کے انکشاف کے بعد اٹھایا

بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند سکھوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کینڈا پہلے بھی بھارت کو انتباہ کرچکا تھا

چھ سفارتکاروں کی بے دخلی کی اطلاع پر بھارت نے انھیں واپس دہلی بلوالیا

کینڈا کی پولیس کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ان اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مل گئے تھے، ذرائع

سکھ فار جسٹس کے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنوں بھارتی قتل کی سازش سے بال بال بچے تھے

کینڈا کی حکومت نے گزشتہ ہفتہ نئے شواہد سے متعلق بھارت کو آگاہ بھی کردیا تھا

14/10/2024

*🛑رد الحاد کورس🛑*
*📌 37:لبرل ازم*
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
*🛑باب نمبر:37*
*سبق نمبر18:مغربی ممالک واقعتاً کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے*
ہمارے یہاں ایک ٹویٹ ہوا تھا:”مغربی ممالک واقعتاً کسی مذہب کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے۔ ہاں! اِس کی “اصلاح” اُن کا اِس وقت کا ایک بڑا پراجیکٹ ہے۔
اس پر ایک ’اشکال‘ آیا: “اتنے سادہ مت بنیے۔ مغرب یا اس کے ہم خیال لوگوں کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو ’’سیاست‘‘ میں دخل دیتا ہے، اور جس پر آپ بھی صبح شام زور دیتے ہیں۔ لہٰذا خاص اسی مذہب کی ’’اصلاح‘‘ مغرب کےلیے ضروری ہوئی”۔
ہم نے کہا: سیاست کا دین کے تابع ہونا ایک الگ مبحث ہے، لہٰذا اِس ’’سیاست‘‘ کو آپ تھوڑی دیر کےلیے الگ رکھ دیجیے، خاص ’مذہبی‘ معاملات میں بھی ملتِ اسلام کو ’درست‘ کر جانا اِس بار اُن کے ایجنڈا پر ہے۔ اب مثلاً، کسی ’مذہب‘ میں کیا چیز عورت کےلیے جائز ہے اور کیا چیز ناجائز، خالصتاً اُس مذہب کا ایک اندرونی اور ’مذہبی‘ سوال ہے؛ اس کا کوئی تعلق ’’سیاست‘‘ سے نہیں ہے۔ پردے کا حکم، میوزک کا حکم، حتیٰ کہ اب تو ’ہم جنسی‘ (ہومو سیکسوئلیٹی) کا مسئلہ، کیا تعلق ہے ان اشیاء کا ’’پالیٹکس‘‘ سے؟
ایک مذہب کی مرضی ہے ان خالص ’انفرادی‘ نوعیت کے معاملات میں وہ ایک چیز کو حرام رکھے یا حلال اور یہ اس کا اپنا ہی اصیل (شروع سے چلا آتا) فیصلہ ہونا چاہیے نہ کہ باہر سے ’انسپائر‘ کروایا جانے والا کوئی موقف۔ آپ اُس مذہب سے کفر کرنا چاہیں، آزادی سے کیجیے لیکن اُس کو باقاعدہ سبق پڑھانا اور اُس کے حلق سے اپنی مرضی کی آواز نکلوانا؟ یہ کونسا فیئر پلے (fair play) ہے؟ لیکن کسے معلوم نہیں، ان مسائل میں ’مذہب‘ کو ایک خاص پٹڑی پر چڑھانا اور باقاعدہ ایک ’راہ‘ دکھانا اُن کے ایجنڈا پر ہے اور اپنے مطلب کا ایسا کوئی ’فتویٰ‘ جب کسی وقت یہاں سے میسر آ جائے تو اس کو ’لاؤڈ سپیکر‘ کی قوت جس طرح فراہم کی جاتی ہے، آخر کسے نظر نہیں آتا؟ یہاں کے جس سپیکر کو چاہا ’آن‘ کیا اور جس سپیکر کو چاہا ’آف‘۔ ہمارے یہاں کے وہ کچھ خال خال منحنی سپیکر جو ان کی مرضی کی ’مذہبی‘ آواز دیتے ہیں اس کو کیسے کیسے زبردست ’ایفیکٹس‘ کے ساتھ میڈیا میں بلند آہنگ کرایا جاتا ہے، کسے معلوم نہیں؟
اب یہ پورا میڈیا کس کا ہے اور کس تہذیبی ایجنڈے پر ہے، بھلا کس پر مخفی ہے؟ کیا اس کو smart maneuvering نہیں کہا جاتا؟ اتنا سادہ تو نہ سمجھیے صاحب ہم کو! اِسی طرح اور بہت سے ’مذہبی‘ مسائل، جی ہاں خالصتاً ’مذہبی‘ مسائل جن کا ’سیاست‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بھی شاید اب بچنے کے نہیں۔ ’’دین‘‘ کا معاملہ پیچھے رہا، آپ کے ’مذہب‘ کی بھی اب باقاعدہ ایک تشکیلِ نو ہو رہی ہے۔ گو اِس maneuvering کا انداز خاصا سائنٹیفک ہے؛ کوئی سادہ primitive انداز کی دھونس نہیں ہے، یہ ہم بہرحال مانتے ہیں۔ بلکہ ’فن‘ کی داد نہ دینا بھی ہم تو بخل جانیں گے۔
غرض اِس بار… وہ بہت پہلوؤں سے آپ کی ’’مرمت‘‘ کر کے جانا چاہتے ، حضرات! بہتر ہے جاگ جائیے۔ سیکولرزم خاصا آگے کے گیئر لگا چکا۔
سیاست کی بحثیں پرانی ہوئیں اب آپ اپنا عام ’مذہبی‘ حرام حلال بچا ئیے، اگر بچا سکیں۔ خاص ’مذہبی‘ معاملات میں اسلام کا بتایا ہوا صحیح و غلط داؤ پر لگ چکا۔ یہ بھی ابھی کچھ سال ہے پھر شاید بانس رہے نہ بانسری۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ آپ اپنے روزمرہ معمولات، وظیفے اور سرگرمیاں برقرار رکھیے، اسلام بخیریت ہے دوستو! ’نواز شریف‘ کے حق میں اور مخالفت میں اسلام پسندوں کو سرگرم رکھیے، امید ہے کہیں پہنچ ہی جائیں گے! کچھ وقت بچ جائے تو ’یزید‘ پر بحث کر لیجیے۔ اسلام کو اور بھلا کیا مسئلے ہیں؟
واغربة الإسلام.. واإسلاماه!

شیخ حامد کمال الدین

13/10/2024

*🛑رد الحاد کورس🛑*
*📌 37:لبرل ازم*
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
*🛑باب نمبر:37*
*سبق نمبر7:لبرل کا تنازعہ کس کے ساتھ؟(مکالمہ)*
اسلام کے حلال و حرام عام آدمی کے کان میں ’’مولوی‘‘ کے خطبہ و وعظ سے پڑے ہوتے ہیں۔ صحیح و غلط کی پہچان اور فرض و مباح کا تصور اس کو مساجد کے درس و بیان سے دستیاب ہوا ہوتا ہے۔ (جس ’تحقیق‘ کے پردے میں علماء پر عدم اعتماد کی دعوت یہاں کے عام مسلمان کو وقت کا جدت پسند بیانیہ دینے لگا ہے، وہ کیسا ایک ہولناک خلا chaos ہے جو لبرلزم وغیرہ بلاؤں کی پیش قدمی کےلیے معاشرے میں نادانستہ پیدا کیا جا رہا ہے، اس پر کسی اور فرصت میں بات کریں گے)۔ لبرل کے ساتھ مکالمہ عموماً اِس مضمون کی کسی بحث سے شروع ہوتا ہے:

عام مسلمان: بھائی! عالم سے یہ مسئلہ اِسی طرح سنتے آئے ہیں۔

لبرل: ارے، مولوی کیا نہیں کہتے! عالم تھوڑی ہوتے ہیں یہ۔

(یہاں؛ وقت کے کچھ جید علماء کے نام لبرل کو پیش کیے جاتے ہیں)۔

عام مسلمان: یہ سب نامور علماء اِس پر یہی کہتے ہیں۔ بلکہ ہر مسلک کا عالم۔ اختلافی مسئلوں میں کم از کم یہ مسئلہ نہیں آتا۔

لبرل: پھر بھی، علماء ہیں صحابہ نہیں!

(صحابہؓ کے ساتھ فرطِ عقیدت؟!)

یہاں؛ اسے صحابہؓ کا قول پیش کر دیا جاتا ہے۔

عام مسلمان: عالم سے پوچھا ہے، خود صحابہؓ سے اس مسئلہ میں یہی منقول ہے۔ لیجئے، ملاحظہ فرمائیے۔

لبرل: صحابہؓ قابل احترام ہیں۔ لیکن حجت تھوڑی ہیں! معصوم تو نہیں تھے نا صحابہؓ! آپ تو یوں حوالے دے رہے ہیں جیسے کوئی حدیث ہوتی ہے!

(ایک بار پھر آپ کو لگا، صاحب اسلام سے مخلص ہیں اور حدیث کی بڑی قدر کرتے ہیں!)

یہاں اس کو آں حضرت رسولِ معصومﷺ کی حدیث پیش کر دی جاتی ہے۔

عام مسلمان: دیکھیے، حدیث مل گئی۔ یہ رہی، پڑھ لیجئے۔ اس میں بھی یہی ہے۔

لبرل: لیکن یہ حدیث بخاری کی نہیں ہے۔ قوی ہوتی تو بخاری میں آنے سے بھلا رہتی!؟ معلوم ہوتا ہے سند میں کمزوری ہے۔

عام مسلمان: بخاری میں بھی یہ حدیث مل گئی۔ لیجئے۔

لبرل: لیکن بخاری کی ساری حدیثیں ٹھیک تو نہیں ہیں نا۔ کئی ساری حدیثوں پر محدثین کا بڑا بڑا کلام ملتا ہے۔ بخاریؒ بھی آخر انسان ہی تھے، غلطی ہر کسی سے ہو جاتی ہے۔ بڑا بڑا اختلاف ہوا ہے، آپ کبھی کتابیں پڑھ کر دیکھیں۔

عام مسلمان: مگر اِس حدیث پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ علم حدیث کے سب رجال نے اس کے صحیح ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ اور سب فقہاء نے استدلال میں اسے حجت مانا ہے۔ اِس پر آپ کو اجماع دکھا دیتے ہیں، اگر آپ اختلاف کی بات کرتے ہیں۔

لبرل: لیکن اجماع حجت تو نہیں ہوتا۔ قرآن میں تو یہ حکم نہیں ملتا نا۔

عام مسلمان: چلیے قرآن مجید سے آپ کو یہ ثابت کر دیتے ہیں۔ یہ رہی آیت۔

لبرل: لیکن آیت سے یہ بات صریح طور پر تو نہیں نکلتی۔ کچھ اور بھی مطلب ہو سکتا ہے اس آیت کا۔ تفاسیر پڑھیں، بڑی بڑی آراء ہیں۔

عام مسلمان: سب نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے حتیٰ کہ جدت پسندوں کے ائمہ نے بھی۔ کوئی اور احتمال ہی نہیں ہے اِس معنیٰ کے سوا۔

(غرض اس کے سب اشکالات دور کر دیے۔ عربی کے سب اوزار لا حاضر کیے گئے؛ اور آیت کا ’کوئی اور معنیٰ‘ ہونے کے تمام امکانات رفع کر دیے گئے)۔

لبرل: لیکن یہ حکم اُس وقت کےلیے مناسب تھا آج کےلیے نہیں۔ اعتبار کلی مقاصد کا رکھا جاتا ہے؛ جزوی صورتوں کا نہیں۔ آپ نے شاطبی کی الموافقات پڑھی ہے؟

(یہاں اس کو ’’مقاصدِ شریعت‘‘ سے بھی یہی بات ثابت کر کے دے دی جاتی ہے اور یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ بات اسلام کے کلیات میں سے ہے؛ کوئی جزوی مسئلہ نہیں)۔

عام مسلمان: بھائی دیکھو! اگر اللہ اور رسولؐ کی بات ہے تو وہ تو ہے یہی۔ دینِ اسلام کے جو جو مصادر ہیں ان میں یہ مسئلہ عین اِسی طرح ہے۔ آگے بات کرو۔

’’تقیہ‘‘ کے اتنے پرت اترنے کے بعد کہیں جا کر… اندر کا لبرل نکلتا ہے (کسمساتا، با دلِ نخواستہ۔ ورنہ ابھی تک اپنی مسلمانی پکی تھی اور اسلام کو ردّ کرنے سے متعلق ہر بار بات ’آئی، گئی‘!)

لبرل: ہو گی وہ اللہ یا رسول کی بات، جس کا ویسے میں احترام کرتا ہوں۔ لیکن لوگوں کو پابند کسی بات کا نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی ہر انسان کا حق ہے۔

(یہاں چونکہ لبرل نے وہ ماسک اتار ڈالا، جو مسلم معاشرہ میں ’روزمرہ آمد و رفت‘ کے دوران اس کے زیر استعمال رہتا ہے.. اور اس کا وہ رخ سامنے آ گیا جو خدائی تنزیل کے اُس سٹیٹس پر ہی سوال اٹھاتا ہے جو انبیاء اور ان کے پیروکاروں کے یہاں مسلَّم مانا گیا… لہٰذا بقیہ مکالمہ میں ’مسلمان‘ کے ساتھ لفظ ’عام‘ کا اضافہ شاید ضروری نہیں رہا۔ گو ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ ہماری آئندہ تحریر میں آ ئے گا۔ مختصراً، رسالتِ محمدؐی اور اس میں وارد احکام کو بائنڈنگ یعنی ’’پابندی کا موجب‘‘ ماننے والا ہر شخص ہمارا مسلمان بھائی ہے خواہ وہ لبرل کہلائے یا کچھ اور۔ یہاں سیاقِ گفتگو ذرا ایک حقیقی قسم کا لبرل ہے اور وہ کسی بھی ملت سے ہو سکتا ہے)۔

مسلمان: آزادی کا تو ہم نے انکار نہیں کیا میرے بھائی۔ لوگوں کو حق بات بتا دو اور پھر آزاد چھوڑ دو؛ ماننا چاہیں تب، نہ ماننا چاہیں تب۔ زبردستی تو نہیں کی کسی سے۔ ہمارا دین ہی ہمیں ایسی کسی دھونس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے ان کو آزادی دے کر ہی یہ چناؤ ان کے آگے رکھا ہے کہ چاہے ’’فرماں بردار‘‘ ہوجاؤ اور چاہے ’’نافرمان‘‘۔ إمَّا شَاكِرًا وَّ إمَّا كَفُوْرًا. آزادی (لبرٹی) کا کیا مسئلہ اٹھا دیا آپ نے یہاں، کس نے اس پر جھگڑا کیا؟

لبرل: صرف زبردستی نہ کرنا اور لوگوں کو ماننے نہ ماننے کا اختیار دینا ہی آزادی (لبرٹی) ہے؟ ہونہہ!

مسلمان: تو آپ کس آزادی کی بات کر رہے ہیں؟

لبرل: جس میں انسان کی سوچ اور مرضی پر کوئی دباؤ نہ ہو۔ ریاستی قوانین کی استثناء کے ساتھ۔ یا ایک دوسرے کےلیے ضرر رساں اشیاء کی استثناء کے ساتھ۔ بقیہ تمام پابندیوں سے آزادی۔

مسلمان: آپ کی مراد: انسان کی انسان پر لگائی ہوئی پابندیاں؟ یہ تو ہمارے نزدیک بھی نادرست ہے۔ ہمارے دین نے بہت پہلے یہ گھناؤنا بُت توڑا: وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللهِ ’’اور نہ بنائیں ہم آپس میں ایک دوسرے کو اللہ کے ما سوا رب‘‘۔ انسانوں کو یہ آزادی فراہم کرنا تو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے کہ ایک خدائے لاشریک کے سوا یہ کسی کے حکم کے غلام نہ ہوں۔ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ، إلَى عِبَادَةِ رَبِّ الْعِبَاد ’’تاکہ نکال لائیں ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے، بندوں کے رب کی بندگی کی طرف‘‘۔ یہاں؛ کم از کم بھی یہ شرط ہے کہ بندوں کو کسی بات کا پابند کرنے میں آپ خدا کے دیے ہوئے ایک متعین دائرے سے باہر نہیں نکلیں گے چاہے آپ کوئی بڑی سے بڑی اکثریت یا مقننہ یا کوئی فرماں روا یا کوئی ایمپائر کیوں نہ ہوں۔ انسان کا وہ حق یہاں آپ سے آپ ’’خدا کی حد‘‘ ہوتا ہے جسے توڑنا صاف شریعت کو توڑنا۔ اور یہ آزادیوں کا اتنا بڑا دائرہ ہے کہ انسان کے سب حقوق خدا کی اپنی تشریع سے ہی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ غرض شریعت یہاں خود اس بات کی ضامن ہو جاتی ہے کہ انسان انسان کی آزادی میں مخل نہ ہو۔

لبرل: نہیں۔ انسان کی انسان پر پابندیاں تو بالکل ٹھیک ہوتی ہیں جب وہ اکثریتِ رائے سے ہوں۔ (ان پابندیوں کی حد کیا ہو، یہ بحث البتہ دینِ لبرلزم کے اپنے فرقوں کے مابین خاصی طویل اور فی الحقیقت لا ینحل ہے۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں، اکثریت کی خواہشات و شہوات ’’قانون‘‘ کا ڈنڈا ہاتھ میں لے کر معتبر بن جائیں، اس کی ایک وسیع گنجائش تقریباً ہے)۔ پس ’’انسانوں کی لگائی ہوئی پابندیوں‘‘ کے تو اصولاً ہم قائل ہیں اور یہ تو آپ پر ٹھونسی جائیں گی۔ میں ان کی بات نہیں کر رہا۔

مسلمان: تو پھر آپ کن پابندیوں سے آزادی کی بات کر رہے ہیں؟

لبرل: ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی، سوائے انسان کی اجتماعی (اکثریتی) مرضی کے۔

مسلمان: خواہ وہ پیدا کرنے والے کی عائد کردہ پابندیاں ہوں؟ چلیے صرف آخری آسمانی رسالت کی بات بھی نہیں کرتے۔ خواہ وہ سب ملتوں کے ہاں مسلّم چلی آتی شرم، حیاء، عفت اور اخلاق سے متعلقہ قدریں ہوں جو ہمیشہ انسانوں کے یہاں خدا کی تشریع سے ہی منسوب چلی آئی ہیں۔ پیدا کرنے والا جہاں پابند کرے، اور وہ بھی روئےزمین کی تمام ملتوں کی شہاد ت سے، وہاں بھی، آزادی؟

لبرل: دیکھیے آزادی ہر انسان کا حق ہے؛ کوئی قدر اس سے اوپر نہیں۔

مسلمان: کیا آپ آسمانی صحیفوں کو مانتےہیں؟ ان کی رُو سے بات کر لیں کہ انسان بطور معاشرہ اپنے پیدا کرنے والے کی مرضی خصوصاً حیاء و عفت سے متعلقہ قدروں پر مبنی اُس کے حکموں کا پابند ہے یا نہیں؟ یعنی ان کی بنیاد پر معاشرے میں روک ٹوک ہو سکتی ہے یا نہیں؟

لبرل: آزادی خود سب سے بڑی قدر ہے۔ اور یہ آپ اپنی دلیل ہے۔ اس سے اوپر کوئی بات نہیں۔

مسلمان: آزادی، پیدا کرنے والے کے صریح حکم کے آگے بھی؟ اس بات کے داعی ہیں آپ؟

لبرل: کیا کہلوانا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟ میں مذہب کی قدر کرتا ہوں۔ آپ اپنی مرضی سے اس پر عمل پیرا ہیں، بس میں اس بات کا احترام کرتا ہوں۔

مسلمان: اور اگر میں پیدا کرنے والے سے ڈر کر اور اُس کی شان اور مرتبے سے دب کر مذہب پر عمل پیرا ہوں اور ہر پل اُس کے حکم کے آگے اپنی ’’مرضی‘‘ کو قربان کروں.. اور اِس خوئےتسلیم کو اپنے سرخرُو ہونے کی بنیاد اور معیار مانوں…؟ بلکہ ایک مذہب کا نام ہی یہ ہو ’’اسلام‘‘ یعنی اپنی مرضی سے دستبرداری اور اس کے مقابلے پر خدا کی مرضی کی، جو زمین پر اُس کی رسالت کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہے، بلا چوں و چرا پابندی۔ خاص اُس کی منشا کی تعظیم، ساتھ ہمہ وقت اُس کی حمد اور پاکی (جس میں یہ معنیٰ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی ہر بات میں ٹھیک اور اُس کا ہر فرمان حق ہے)… اور پل پل اپنے قصور و کم مائیگی کا اعتراف اور اپنے عہدِ بندگی اور اظہارِ غلامی کا اِعادہ۔

لبرل: یہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے جس میں میں نہیں پڑنا چاہتا (پاکستانی پبلک میں لبرلسٹ تحریک کےلیے ’فی الحال‘ ریڈ لائن)، میں اس کی قدر بہرحال اس حوالے سے کرتا ہوں کہ بطورِ انسان یہ آپ کا فیصلہ ہے۔ ایک سچا لبرل ہوں، کسی مذہب کے خلاف تعصب نہیں رکھتا۔

مسلمان: یعنی میرا یہ فیصلہ خاص اس حوالے سے قابل قدر ہے کہ وہ میری مرضی ہے ؛ اِس حوالے سے نہیں کہ وہ خالقِ کائنات کی عبادت ہے اور اُس کے حکم کی پابندی!

لبرل: ہاں ’’پابندی‘‘ کے حوالے سے نہیں بلکہ ’’آزادی‘‘ کے حوالے سے۔

یعنی مومن کے اِس فیصلے میں بھی جتنا سا ’انسانی مرضی‘ کو دخل ہے اُسی کے بقدر یہ ایک لبرلسٹ کےلیے قابل احترام ہے۔ (گو جتنی سی اس میں ’انسانی مرضی‘ کی نفی ہے اُس کے بقدر یہ ایک ’حقیقی‘ لبرلسٹ کی نظر میں قابل اعتراض بھی ہے۔ لیکن یہ دوسری بات فی الحال پاکستانی معاشرے میں زبان پر لانے کی نہیں! لہٰذا پہلے حوالے سے؛ خدا کا فرماں بردار ہونے سے متعلق آپ کے فیصلے کا جب اُس نے احترام کیا تو کچھ ایسی غلط بیانی نہ کی۔ بس ایک غلط فہمی میں آپ کو رکھا، جسے شاید وہ ’آئندہ‘ کسی مرحلے میں دُور کرے! یہ بہرحال طے ہے کہ اُس کے عقیدے میں مطلق قدر absolute value ’’انسانی مرضی‘‘ human will ہے جس سے وہ اشیاء کی قدروں کو ماپتا ہے۔ یہی اس کا معبود)۔ یہاں بھی؛ اصل میں وہ اپنے معبود – انسانی مرضی – کو سیلوٹ کر گیا ہے۔ ساتھ میں آپ کے مذہب کی تعظیم ہو گئی! ایک گونا، اِس میں وہ سچا بھی رہا : اس نے اپنے معبود – انسانی مرضی human will – کو خاص اس کی اپنی منشا سے خدا کے حکم کے آگے جھکے ہوئے دیکھا۔ اب معبود سے جواب پُرسی تو ہونے سے رہی خواہ وہ جتنا بھی ’سمجھ سے بالاتر‘ کام کرے! لہٰذا یہاں خاموش ہونا بنتا تو ہے۔ کم از کم بھی، یہاں خاموشی لبرل عقیدہ کے منافی نہیں ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ اس سے آگے ایتھزم etheism وغیرہ کی حدود شروع ہو جاتی ہیں جو سب لبرلز کے جانے کی نہیں۔ لہٰذا (معاشرے کی سطح پر) وہ ایریا ایتھسٹک لبرلز atheistic liberals یا اگناسٹس agnosts وغیرہ ڈیل کریں گے۔ اور یہ ہم مانتے ہیں کہ بہت سے لبرل صدقِ دل سے یہاں رک جاتے ہیں۔ البتہ باقی ماندہ کام ان کے ’بھائی‘ کرتے ہیں۔ (اصل بیریئر توڑا جا چکا ہوتا ہے)۔

مسلمان: تو پھر خدا کے ایک نافرمان کا خدا کے حکم سے سرتابی کا فیصلہ بھی اتنا ہی قابل قدر ہوا؟

لبرل: میں نے کہا نا آزادی سب سے بڑی قدر ہے۔

(بلکہ انسان پرست Humanist سپرٹ کے تحت، خدا کے حکم سے سرتابی کے وقت وہ زیادہ قابل قدر ہے! کیونکہ اس میں ’’انسانی مرضی‘‘ کا ظہور زیادہ ہوا۔ مگر یہ بات ’ابھی‘ منہ پر لانے کی نہیں یا پھر اپنے ملحد ’بھائیوں‘ کےلیے چھوڑ دینے کی ہے)۔ پاکستانی سوسائٹی میں لبرلزم فی الحال اپنے اول الذکر حوالے کو ہی عوامی سطح پر لے کر چل رہا ہے یعنی مذہبی ہونے کی صورت میں آپ کی ’مرضی‘ کا احترام۔ البتہ طبعی طور پر یہ احترام وہاں بڑھ جائے گا جہاں اس کا معبود – انسانی مرضی – اپنی مطلق العنانیت کا ظہور کرے، یعنی اپنے ما سوا کسی ہستی کی ’’مرضی‘‘ کے آگے جھکنے سے اِبا کرنے لگے۔ ذاتِ انسانی Human Ego کا اثبات ظاہر ہے یہاں زیادہ مقدار میں ہوا ہے۔ (لیکن لبرلزم کا یہ extreme profile سامنے لانے کےلیے زمین ابھی خاصی ہموار کرنی ہو گی! خدا کی شرم ختم کرنے میں انسان کو اُس پوائنٹ تک لے کر جانا کچھ ایسا آسان بھی نہیں ہے؛ گو سال گزرتے رُت بدلتے پتہ بھی نہیں چلتا!)۔

مسلمان: اور ایک تیسرے آدمی کا بُت کی پوجا کرنے کا فیصلہ بھی اتنا ہی قابل قدر ہوا؟

لبرل: ہم تمام مذاہب کو ایک برابر رکھتے ہیں۔ کوئی تفریق نہیں۔ کوئی خدا کو پوجے کوئی بُت کو، یہ اس کا مسئلہ ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق ہے۔

مسلمان: ابلیس کا خدا کے حکم کو انکار کرنا اور ملائکہ کا خدا کے حکم پر سجدہ بجا لانا، دونوں قابل قدر؟

لبرل: کوئی کیا فیصلہ کرتا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ لبرلزم یہ کہتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا حق دیں۔

مسلمان: آپ اپنی اِس عبارت میں صرف ایک لفظ کی تبدیلی کر لیں؛ میں آپ کا ہم خیال ہو جاتا ہوں۔ اس سے وہ اشکال بھی ان شاء اللہ دور ہو جائے گا جو اس بحث کے مرکزی نقطہ پر مسلسل پردہ ڈالتا اور غیر ضروری طور پر اسے الجھاتا آ رہا ہے۔

لبرل: کونسا لفظ؟

مسلمان: ’’حق‘‘ کی بجائے یہاں ’’اختیار‘‘ بول لیں۔ یعنی (خدا کے امر و نہی کے آگے) ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا اختیار دیں حق نہیں۔ فریڈم freedom نہ کہ رائٹ right ۔ آپ دیکھیں حکمت اور عدل کے مالک خداوند نے ابلیس کو سجدہ سے سرتابی کا اختیار دیا تھا حق نہیں۔ اسی لیے سجدہ نہ کرنے پر راندۂ درگاہ کر دیا اور آج تک انسانی لغت اسے مردود بولتی ہے۔ بس یہی نقطہ ہے۔ لوگوں کو آپ خدا کی فرماں برداری یا نافرمانی کا وہ ’’اختیار‘‘ دیں جس کےلیے انہیں روزِ قیامت خدا کے آگے جوابدہ ہونا اور جزا و سزا کا سامنا کرنا ہے البتہ خدا کی نافرمانی کا ’’حق‘‘ آج بھی نہیں۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ خدا کی عبادت کو ان پر ’’فرض‘‘ اور خدا کی عبادت سے روگردانی کو ان کے حق میں ’’گناہ‘‘ ماننے والوں میں آپ بہرحال رہیں۔ خدا کی حدیں توڑنے کو ایک صریح ’’پاپ‘‘ یعنی ایک نہایت شنیع اور قابل اعتراض چیز معاشرے میں ضرور بنا کر رکھیں۔ (تعلیم اور ابلاغ میں اختیار کیے جانے والے لہجے اِس سلسلہ میں اہم ترین بلکہ فیصلہ کن ہو جاتے ہیں۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک ماحول میں پائے جانے والے ’’ابلاغ‘‘ اور ’’تعلیم‘‘ سے صاف ایک ’’تصورِ زندگی‘‘ نہ جھلک رہا ہو۔ جبکہ انبیاء نے، سب سے پہلے، انسانوں کو کوئی چیز دی ہے تو وہ ’’زندگی کا ایک تصور‘‘ ہی ہے۔ اور یہ ’’تصور‘‘ انسانوں میں انڈیلنے اور اسے اُن میں زندہ live اور روزمرہ زندگی سے متعلقہ relevant رکھنے کا نام ہے: تعلیم یا ابلاغ)۔ غرض خدا کی عبادت کی ایک سماجی رِٹ قائم رکھنا۔ اور اس سے سرتابی کو ایک شجرِ ممنوعہ بنا رکھنا۔ البتہ دھونس forcing سے احتراز۔ یوں معیارات بھی قائم رہے (میزان)۔ اور لوگوں کو آزادی بھی حاصل رہی (ابتلاء)۔ کیا یہ بات نہایت قرینِ انصاف نہیں جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے بہت واضح الفاظ میں کر دی ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ (البقرۃ: 256) ’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیشٰ پر ایمان لائے اس نے یقیناً وہ مضبوط کڑا تھام لیا، جو کبھی نہیں ٹوٹنے کا‘‘۔ چونکہ انسان کو گناہ کا اختیار ہے حق نہیں… لہٰذا؛ ’’ہدایت اور ضلالت‘‘ کا تصور بھی یہاں پوری طرح موجود رہا (قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ) جوکہ انبیاء کی بعثت کا اصل محور ہے، جبکہ ’’انسانی آزادی‘‘ بھی پوری طرح باقی رہی (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ) جوکہ انسانی ہستی (فی الحقیقت آزمائش) کا مرکزی نقطہ ہے۔ آپ کا کام بھی ہو گیا ہمارا بھی۔

لبرل: جی نہیں۔ آپ کا کام ہوا ہے ہمارا نہیں۔ یہ تو وہی بات ہے جو آپ پہلے کہہ چکے۔ یعنی دھونس زبردستی نہ کرنا ہی کُل آزادی ہوئی۔ یہ وہ ’’لبرٹی‘‘ نہیں جس کی ہم بات کرتے ہیں۔ ’’اختیار‘‘ دینے کا کیا مطلب؟ وہ تو ہے ہی ہے۔ تمہاری اِس ’’ہدایت اور ضلالت‘‘ والی لغت کو ہی تو ہم ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں۔ تمہارا یہ ’’حق اور باطل‘‘ والا زعم ہی تو نکالنا ہے، جس کے بل پر یہاں مذاہب ایک دوسرے کو ’ٹھیک‘ اور ’غلط‘ کہنے چل دیتے رہے اور جس کے باعث انسانوں کے مابین مسلسل ایک روک ٹوک رہی۔ بھائی سب کا اپنااپنا سچ ہے یہاں۔ سب کا اپنااپنا ٹھیک غلط ہے۔ کوئی کسی پر معترض ہی کیوں ہو؟ مسئلے کو یہاں سے پکڑیے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کرنے کا مکمل ’’حق‘‘ ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کیا مرضی کرتا ہے۔ جی ہاں اختیار نہیں حق۔ (’’لبرٹی‘‘ کی اصل تعریف)۔

اصولاً، یہاں اسلام کے تصورِ دعوت کا بھی خاتمہ ہوا۔ (بعید نہیں اپنے جدت پسند دبستان کے ہاں کچھ ایسا قولِ جدید اس وقت پراسیس میں ہو کہ: دعوت میں چونکہ لوگوں کے عقیدہ و عمل پر معترض ہونا آتا ہے اور یہ کام اگر ایک مہم (پیہم لگاتار عمل) کے طور پر ہو تو لا محالہ ایسی کشیدگی کا موجب ہوگا جو حکمت اور موعظہ حسنہ کے تمام تر التزام کے باوجود مکہ کی دو جماعتوں کے مابین ’مرحلۂ دعوت‘ میں بھی پیدا ہو کر رہی، جہاں قومی یکجہتی معدوم اور شہر کا چین تقریباً ختم ہو گیا تھا۔ اور جوکہ ’دعوت‘ کے نام پر لوگوں کو ان کے دین و مذہب سے روکنے کا منطقی نتیجہ ہے… لہٰذا لوگوں کے مذہب اور طرزِ بود و باش سے یوں الجھنا ہی ناجائز ہوا تاوقتیکہ کوئی ایسا آسمانی پروانہ آپ اپنے پاس نہ رکھیں جیسا رسالت مآبﷺ کو جزیرۂ عرب میں ایک مخصوص عرصے کےلیے منجانب اللہ عطا تھا، اور جس کے بل پر مکہ میں یہ کشیدگی کھڑی کر لینا روا کیا گیا؛ ورنہ اصل تو آزادی، رواداری اور ہم آہنگی ہے! رسالت مآبﷺ کے بعد البتہ ’کسی کا یہ منصب نہیں‘ کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں ’دعوت‘ کے نام پر یوں مداخلت کرے اور ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کے طرزِ بود و باش پر یوں معترض ہوتے ہوئے مختلف سماجی ہتھیاروں سے ان پر حملہ آور ہو۔ لہٰذا دورِ نبوت کے بعد جن جن لوگوں نے ’’دعوت‘‘ کا یہ منصب ہاتھ میں لیا اور وہ اپنے زبان و بیان سے لوگوں کے بُتوں یا ان کے طور طریقوں کی خبر لینے چل دیے وہ صریح زیادتی کے مرتکب رہے!)۔ دعوت ظاہر ہے ایک ’’غلط‘‘ دین سے ’’صحیح‘‘ دین پر آنے کی تحریک اٹھانے کا نام ہے۔ شرائعِ آسمانی کے حرام کردہ امور سے ’’روک ٹوک‘‘ کرنے اور شرائع کے فرض کردہ امور کا لوگوں کو ’’پابند‘‘ کرنےسے عبارت ہے۔ (اب اگلے مرحلے میں شاید اِسی کا ہی گھونٹ بھرا جائے)۔ دینِ انبیاء کا ایک بڑا حصہ دراصل ہے ہی نفسِ انسانی کو ہوس کے نشیب میں لڑھکنے سے روک کر تزکیہ (پاکیزگی) کی چڑھائی چڑھانا اور پورے ایک معاشرے کو اس پاکیزگی پر لانا اور پھر اسی پر رکھنا، جس سے طبیعتیں بہرحال بھاگتی ہیں (لیکن آخر شکرگزار ہوتی ہیں)۔ یہاں؛ آسمانی دلیل کی روشنی میں آپ جہاں لوگوں کا عقیدہ وعمل فاسد دیکھیں تو اچھے اسلوب کے ساتھ سہی مگر ایک درجے میں اس پر معترض آپ بہرحال ہوتے اور اس کے خلاف ایک سماجی مزاحمت ضرور اٹھاتے ہیں۔ یوں معاشرے میں ہوس کے لشکروں کے ساتھ مسلسل برسر پیکار رہتے اور شیاطین کی جلی کٹی سنتے ہیں۔ اور یہ دعوت کا باقاعدہ حصہ ہے)۔ یہاں ’لبرلزم‘ کی گنجائش!؟

مسلمان: تو یہ ہے شخصی آزادی؟

لبرل: جی ہاں۔ آپ جو ’’اِکراہ‘‘ (زبردستی) سے ممانعت پر اکتفا فرما رہے تھے، اُس کا نام آزادی نہیں ہے۔ لبرٹی آتی ہے اصل میں سماجی قیود ہٹانے سے۔ یہ سماجی قدغنیں برقرار ہوں اور taboos کی تلواریں ذہنوں پر لٹکتی ہوں تو کون اس کو ’’آزادی‘‘ کہتا ہے؟ یہ تو ’’ظالم سماج کا جبر‘‘ ہوا جو طعنے دے دے کر ہی ایک ’غلط کار‘ کا جینا دوبھر کر دے؛ جس کے باعث فرد کی آزادی شدید متاثر ہوتی ہے۔ ’’لبرلزم‘‘ اس صورتحال کا معاشرے میں باقاعدہ نوٹس لیتا ہے اور آزادی کے اس ’اصل‘ معنیٰ کو وہاں ممکن بناتا ہے۔ بھئی ایک عاقل بالغ شخص جس بھی چیز کو اپنے لیے پسند کرے۔ اُس کی اپنی رائے آپ کی اپنی۔ اُس کی اپنی زندگی آپ کی اپنی۔ جب تک اُس کا وہ فعل خود آپ کی آزادی میں مخل نہیں، آپ کو اُسے ٹوکنے کا حق؟ محض ’’اختیار‘‘ کی کیا بات؟ یہ اُس کا ’’حق‘‘ ہے۔ اس پوائنٹ تک آنا پڑے گا آپ کو معاشرے کے ساتھ۔

مسلمان: یعنی کفر کرنا، زنا کرنا انسان کا حق ہے محض اختیار نہیں؟ یہ تو جہمیہ اور قدریہ سے بدتر قول ہوا۔

لبرل: پہلے کہہ چکا ہوں، میں ریاستی قانون کو مستثنیٰ رکھتا ہوں۔ لہٰذا زنا وغیرہ کے متعلق اِس ملک میں (’فی الحال‘) بات کرنے سے احتراز کروں گا۔

مسلمان: یعنی ریاستی قانون ہی ایک چیز ہوئی، ورنہ زنا کرنا انسان کا حق ہے؟ سود؟ جوا؟ لواطت؟ عصمت فروشی؟ ’بن بیاہی ماں‘ ہونا آپ کی صاحبزادی کا ایک باقاعدہ حق، جس سے آپ اُسے روکنے کے مجاز نہیں؟ بھائی کا بہن کے ساتھ، باپ کا بیٹی کے ساتھ ’باہمی رضامندی‘ سے حرامکاری کرنا؟ کوئی پابندی ہو سکتی ہے تو ’ممکنہ ضرر رسانی‘ کی دلیل سے غبارہ condom رکھنے یا بچہ ٹھہرنے سے بچانے کےلیے کچھ اور ترکیب نکالنے کی؛ کیونکہ ایسے بچے کے اپاہج پیدا ہونے کے امکانات بڑھے ہوتے ہیں، ورنہ حرج اس میں بھی کچھ نہ تھا؟ (فحش نگاری مقصود نہیں، معاملے کی سنگینی واضح کرنے کےلیے کچھ صریح الفاظ استعمال کرنا پڑے)۔ اصل چیز اب سامنے آئی، یعنی فرائڈ والا حیوان جسے پٹہ ہو تو صرف گورمنٹ کا۔ باقی ہر قید، ہر وعید، ہر ضابطۂ اخلاق بیچ میں لانا اور معاشرہ میں اس کو دستور ٹھہرانا منع۔ تو پھر ’’احکامِ خداوندی‘‘ کا کیا سٹیٹس status رہا آپ کے یہاں؟ آسمانی رسالتوں اور شرائع کو آپ نے کہاں پر رکھا؟

لبرل: آسمانی شرائع پر آپ خود عمل کریں نا جتنا کرنا چاہتے ہیں، کس نے آپ کو روکا ہے۔ انسانی آزادی وہ اصل ویلیو ہے جس پر کوئی کومپرومائز نہیں۔ آزادی بمعنیٰ حق۔ اِسی سے ’’حقوق‘‘ rights کے سب مباحث آتے ہیں ہمارے لبرل پیراڈائم میں۔

مسلمان: کیا آپ خاتمی آسمانی رسالت ’’قرآن‘‘ کو مانتے ہیں؟ چلیے، انجیل اور توراۃ کو؟ دنیا میں کسی آسمانی صحیفے کو؟ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ؟ اس کی رُو سے بات کر لیں کہ انسان کو کس بات کا ’حق‘ ہے اور کس بات کا خدا کی اِس زمین پر انسان کو کوئی ’حق‘ نہیں؟ ’اختیار‘ کی اور بات ہے، جوکہ ہمیں تسلیم ہے۔ ’حق‘ کی بات ہو رہی ہے۔

اس آخری سوال (کیا آپ قرآن کو مانتے ہیں) کا جواب بالعموم گول! (پاکستانی پبلک میں قرآن اور محمدﷺ کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا ’ابھی‘ لبرلسٹ کی ریڈ لائن ہے اور کچھ سال اِس کا ’وہ‘ جواب شاید پبلک میں آنے کی غلطی نہ کرے۔ کچھ گنجائش ’فی الحال‘ ہے تو سوشل میڈیا پر یا یونیورسٹی کلاس روموں میں، جو ایک چیز کا اندازہ کروانے کےلیے کافی تو بہت تھا، اگر آپ جاگ جانے پر آمادہ ہوتے)۔

آخر کھلا یہ کہ لبرل کی بحث اسلام کی ’تحقیق‘ سے متعلق کبھی نہ تھی۔ اِس اعتبار سے؛ نہ مولوی کے ساتھ اس کا کوئی الجھاؤ نہ مفتی کے ساتھ۔ جمہور علماء اس کا مسئلہ اور نہ غیرجمہور۔ نہ یہ فرقہ نہ وہ مسلک۔ (مولوی کی ’فرقہ واریت‘ لبرل کےلیے محض ایک سیلنگ پوائنٹ selling point )۔ لبرل کا اپنا تعرُّض البتہ نہ اجماع سے اور نہ حدیث کی کسی سند یا متن یا علت یا روایت یا تخریج سے۔ نہ صحیح اور نہ ضعیف۔ نہ بخاری نہ مسلم نہ صحاح ستہ۔ نہ کنز نہ ہدایہ۔ نہ فقہاء نہ محدثین نہ مفسرین۔ کسی سےاِس کو معاملہ نہیں۔ نہ قرآن، نہ متواتر اور نہ آحاد۔ نہ لغت اور نہ تفسیر۔ نہ قطعی اور نہ ظنی۔ یہ سب بحثیں اگر یہ کرے گا یا ایسی بعض بحثوں کی سرپرستی فرمائے گا اور ان کےلیے اپنے چینل

13/10/2024

دین دار ہونے کا دعوی کرنے والے
خدارا!
اپنے مزاج و اخلاق کو سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کریں۔ بہت نقصان کر رہے ہیں وہ لوگ جو دینی حلیہ اپنا کر اعمال ابلیسی کر رہے ہیں۔
ایک کے برے عمل کے نتیجے میں تالاب پورا گندا سمجھا جاتا یے۔
نقاب، حجاب، عمامہ یہ سب دین اسلام کا ڈریس کوڈ ہیں۔ جب یہ اپنایا ہے تو اپنے نفس کو قابو کرنے، اپنی زبان کو صحیح طور پر استعمال کرنے اور دوسروں کے بارے میں قیاس آرائی کرنے میں احتیاط کریں۔

فیض عالم


13/10/2024

*🛑رد الحاد کورس🛑*
*📌 29:سائنس*
بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
*🛑باب نمبر:29*
*سبق نمبر10:آزادی،سرمایہ اور سیلف انٹرسٹ*
آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی کثرت اور انکی جستجو ہے۔ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سرمایہ ہے، علم معاشیات اس حقیقت کا اظہار بالکل کھلے ہوئے الفاظ میں کرتی ہے کہ خواہشات کی تسکین اسی قدر ممکن ہے جس قدر سرمائے کا حصول ممکن ہے۔ آزادی (خواہشات کی تسکین) میں اضافے کے لئے سرمائے میں اضافہ کرنا لازم ہے۔ آزادی کا رسیا فرد و معاشرہ کیا چاہتا ہے؟ “سرمایہ”، کہ سرمایہ ہی آزادی کی مجسم صورت ہے، تین سو سال کی مغربی تاریخ اسی حقیقت کا اظہار کرتی ہے۔
آزادی (بطور قدر) کا معنی خواہشات کی کثرت اس لئے ہے کیونکہ آزادی کا معنی کچھ بھی کرسکنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ یعنی آزادی کا معنی یہ نہیں کہ میں صرف نماز چاہوں یا موسیقی اور یا بندر کا کھیل تماشا، بلکہ آزادی کا معنی یہ ہے کہ میں جو چاہنا چاہوں وہ چاہ سکوں اور اسے حاصل کرسکوں۔ اس صلاحیت سے میں کس مخصوص شے کی چاھت کرتا ہوں یہ ثانوی چیز ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ میں “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” حاصل کر سکوں۔ اس “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” کا نام سرمایہ ہے کہ سرمایہ “کچھ بھی چاہنے کی صلاحیت” کو ممکن بناتا ہے۔ سرمایہ آزادی کی عملی تجسیم ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ علم معاشیات کسی معاشرے کی کامیابی (کچھ بھی چاھنے کی صلاحیت) کو اسکی مجموعی پیداوار (Gross Domestic Product) سے ماپتی ہے۔
“سیلف انٹرسٹ” (self-interest) :
آزادی کی لبرل تشریح کی رو سے ہر شخص فطرتا اس امر کا مکلف ہے کہ اپنے سیلف انٹرسٹ (ذاتی اغراض) کی تکمیل کی جدوجہد کرے۔ مگر لبرل مفکرین و معاشیات دان جب سیلف انٹرسٹ کی بات کرتے ہیں تو اس سے سیلف انٹرسٹ کی “کوئی بھی تشریح یا تصور” مراد نہیں لیتے بلکہ اسکی ایک معین تعریف و تشریح ہی کے درست ہونے کا اقرار واصرار کرتے ہیں۔ سیلف انٹرسٹ کے اس مخصوص تصور کی رو سے فرد کا سیلف انٹرسٹ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی/سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد کرے کہ اپنی آزادی/صمدیت کا قیام و اظہار ہی فرد کی اصل ذمہ داری و فرض ہے۔
پس اگر کوئی سیلف انٹرسٹ کا معنی یہ سمجھے کہ میرے نزدیک میرا سیلف انٹرسٹ یہ ہے کہ میں جنت میں جاؤں تو سیلف انٹرسٹ کے لبرل نظرئیے کی رو سے ایسا شخص گمراہ و زندیق ہے کہ وہ سیلف انٹرسٹ کے نام پر ایسی بات کو فروغ دے رہا ہے جو سیلف انٹرسٹ کی نفی و ضد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشیات دانوں کے نزدیک سیلف انٹرسٹڈ عقل مند ایجنٹ کا اصل مسئلہ عمل صرف (consumption) میں مہمیز اضافہ ہوتا اور ہونا چاہئے (جسے میکرو اکنامکس میں maximization of life time consumption سے تعبیر کیا جاتا ہے)۔ چنانچہ لبرل ماہرین معاشیات کے نزدیک سیلف انٹرسٹ کی معتبر تشریح صرف یہ ہے کہ فرد سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرے، اسکے سواء سیلف انٹرسٹ کے تمام تصورات انکے نزدیک غیر معتبر ہیں۔ فرد کو چاھیے کہ وہ اپنی ترجیحات و اعمال کو اس طرح ترتیب دے جس کے نتیجے میں سرمائے میں اضافے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہوتے چلے جائیں۔ اگر فرد یہ نہیں کررہا تو وہ ایک نامعقول انسان ہے جو اپنے “اصل سیلف انٹرسٹ” کو نہیں پہچان پایا۔
ایک صاحب علم نے توجہ دلائی کہ امریکہ میں ایک گروہ آزادی مذہب و رائے کے نام پر شیطان کی عبادت کی تبلیغ کرتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آزادی (بطور قدر) کا اصلی معنی شیطان ہی کی عبادت کرنا ہے، اسکے سواء آزادی کا دوسرا کوئی معنی نہیں۔ آزادی کا رسیا اگر شیطان کی عبادت نہ کرے تو وہ اصولا اپنی آزادی کو غلط استعمال کرتا ہے، آزادی کے فریم ورک میں ایسا شخص اسی طرح “زندیق” ہے جس طرح مذہب کا نام لیکر کفر کرنے والا زندیق کہلاتا ہے۔آزادی کا معنی خدا کی بندگی سے آزادی حاصل (یعنی اس سے بغاوت) کرکے نفس کی خواہشات کی پیروی کے حق ہونے کا دعوے کرنا ہے۔ ایسا نفس بجز شیطان کسی اور کے تابع نہیں ہوتا۔ آزادی “بغی” (خدا کے مقابلے میں سرکشی) کا نام ہے۔
آزادی کا معنی تنہائی ہے کیونکہ آزادی کا معنی ذات کے ذات کے ساتھ تعلق کی نفی ہے۔ یہاں دوسرے کی ذات کے ساتھ تعلق کی واحد بنیاد ذاتی غرض ہے کہ تعلق اور دوسرے کی ذات کا وجود اس لئے گوارہ ہے کہ وہ ذاتی اغراض کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ اغراض کی عقلیت پر مبنی یہ تعلق “محبت” (قیام ھستی) سے انکار و بغاوت ہے۔ تنہائی اضطرار (frustration) کو جنم دیتی ہے کیونکہ ذات فرد نہیں ھستی میں پنہاں ہے۔ مغربی دھریت اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ اضطرار کا احساس مقدم، دائمی و فطری ہے نیز اس سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ مغربی دھریت فرد کو آزاد (قائم بالذات) بن جانے کی تلقین کرتی ہے۔ پس جوں جوں آزادی بڑھتی ہے تنہائی اور نتیجتا اضطرار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اس اضطرار سے چھٹکارا بجز ذکر ممکن نہیں کہ وہ قلوب کا سکون ہے۔ ذکر دائمی تعلق )ھستی) کے قیام و بقا کا ذریعہ ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Atheism In Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Atheism In Pakistan:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share