13/08/2025
س تحریر کا مقصد حالیہ کچھ عرصہ میں پروفیسر مشتاق علی گولڑوی کے انتقال کے بعد حضرت عیسیٰ خان المعروف خان بابا ؒ کے دربار پر ایسے حالات پیدا ہوئے جس میں لوگوں کو میرے اور میری فیملی کا خان بابا ؒ اور رحیم بی بی سے روحانی تعلق کو بیان کرنا لازمی ہوگیا تاکہ لوگوں کو اصل حقائق معلوم ہوسکیں۔ میرا اور میری فیملی کا خان باباؒ، رحیم بی بی اور پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب سے تعلق تین نسلوں پر محیط ہے۔ میرے نانا رانا غلام محمد ریلوے پولیس میں انسپکٹر تھے اور ریلوے کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب کی رہائش بھی ریلوے کالونی میں تھی۔ میرے نانا اور پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب ریلوے مسجد کا انتظام وانصرام مل کر چلاتے تھے اور اکثر پروفیسر حاجی نعمت علی کے ساتھ خان بابا سے ملنے آتے۔ خان بابا کے وصال کے بعد ان کی بیٹی بہن رحیم بی بی کے پاس بھی آتے رہتے تھے۔ اسی طرح میرے والدین کا بھی اور دوسرے فیملی ممبروں کا بھی روحانی تعلق خان باباؒ اور رحیم بی بی سے سالہا سال پر محیط ہے۔
میں 1998 سے خان بابا دربار سے منسلک ہوں اس وقت دربار کا انتظام و انصرام پروفیسر حاجی نعمت علی (سجادہ نشین اول) نے پروفیسر مشتاق علی گولڑوی اور خان صاحب کنٹین والے کے سپرد کررکھا تھا۔ میرے امریکہ جانے سے پہلے تک میں ہر سال عرس خان بابا اور رحیم بی بی پر پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب کو حاصل پور سے لے کر آتا اور واپس چھوڑ کر بھی آتا۔ اس کے علاوہ مجھے پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب، پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب اور خان کنٹین والے کے ساتھ چشتیاں شریف، تونسہ شریف، بابا فرید پاکپتن، قبلہ عالم، بابا تاج سرور چشتیاں اور حضرت کرمانوالہ جانے کا شرف بھی نصیب ہوا۔ دربار و مسجد کی تعمیر و توسیع و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ابھی بھی لے رہا ہوں۔
پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب کو دل کا عارضہ شروع ہوا تو ان کو پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے ہدایت کی کہ اپنے ساتھ رانا عمران کو رکھا کرو اور سب معاملات میں رانا عمران کو شامل کرو اور ہر سال عرس کے موقع پر میں امریکہ سے پاکستان آتا تو پروفیسر مشتاق علی صاحب عرس کے تمام انتظام و معاملات میرے سپرد کردیتے حتیٰ کہ عرس کی فلیکس پر بھی اپنے نام کے ساتھ میرا نام لکھنے اور تصویر لگانے کی ہدایت کرتے۔ بلکہ کمیٹی میں میرا نام اپنے بعد لکھ دیا۔
میرا رجحان اس طرف تب زیادہ ہوا جب میں رمضان
شریف 2022 میں عمرہ پر گیا۔یہ سفر عام سفر نہ تھا۔ مجھے مکہ مکرم میں خواب اشارہ ہوا کہ پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب کے بعد دربار کا انتظام و انصرام مجھے دیا جائے گا۔ عمرہ کی سعادت کے بعد پاکستان آنے پر پروفیسر مشتاق علی صاحب اور محمد عظیم صاحب کے ساتھ دربار قبلہ عالم پر حاضری کیلئے گئے جہاں پر انہوں نے میرے سر پر دستار بندی کی۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں۔ جن سے میرا رجھان امریکہ سے واپس پاکستان شفٹ ہونے کی طرف مائل ہوا۔ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے اپنی زندگی میں پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب کو سبل السلام حصہ سوئم لکھنے کی تاکید کی۔ پروفیسر مشتاق علی صاحب نے 2023 میں سبل السلام حصہ سوئم لکھی اور مجھے امریکہ فون کرکے کہا کہ میں نے کتاب میں آپ کا نام لکھ دیا ہے تاکہ میرے بعد کوئی مسئلہ نہ بنے۔ جس کا ان کو حکم ہوا اور کہا کہ میرے بعد دربار شریف آپ کے سپرد ہے۔مجھے پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے اپنی زندگی میں ہدایت کی کہ کرمانوالہ جاؤ اور وہاں پر بیعت کرو۔ آپ کی ہدایت پر 2004 میں اس وقت کے سجادہ نشین حضرت سید میر طیب علی شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ مجھے اور میری فیملی کو خان بابا عیسیٰ خان، بہن رحیم بی بی، پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب اور اعلیٰ حضرت پیر سید اسماعیل شاہ بخاری المعروف کرمانوالہ سرکار سے بے پناہ فیض ملا اور ابھی بھی فیض حاصل ہورہا ہے۔
حضرت پیر سید اسماعیل شاہ بخاری المعروف کرمانوالہ سرکار کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ کی پہلی بیعت سلسلہ چشتیہ میں حافظ شرف الدین فیروز پوری کے ہاتھ پر تھی جو خلفیہ ھے حضرت خوجہ اللہ بخش تونسو ی کرہم ثا نی کے اور خان بابا کے پیر و مرشد بھی حضرت خوجہ اللہ بخش تونسو ی کرہم ثا نی ھے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ پاکستان تشریف لائے تو آپ کو دوسری بیعت حضرت میاں شیر محمد شرق پور شریف والے کے ہاتھ پر کرنے کا اشارہ ہوا جو کہ سلسلہ نقشبند کے مشہور بزرگ ہیں۔ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے اپنی کتاب سبل السلام حصہ اول وحصہ دوم میں لکھ رکھا ہے اور مجھے بتایا بھی تھا کہ اعلیٰ حضرت کرمانوالہ کو چاروں سلسلہ میں بیعت کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے اپنی کتاب سے ایک واقعہ بھی بیان کیا جس میں آپ نے فرمایا کہ 1957 میں خان باباؒ کے وصال کے بعد آپ نے خان بابا سے حضرت کرمانوالہ جانے کی اجازت حاصل کی۔
پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت کرمانوالے چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے کہ حاجی نعمت علی صاحب نے آپ سے عرض کی کہ بابا جی میں مرید تو خان بابا کا ہوں اور مجھے وظائف پڑھنے کی اجازت تونسہ شریف سے ملی ہے اورآتا میں آپ کے پاس ہوں۔ تو اعلیٰ حضرت کرمانوالہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا بیلیا تونسہ نہیں چھوڑنا۔ میں بھی تونسہ شریف کا مرید ہوں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب کی کتاب سبل السلام میں موجود ہیں جن میں سے کچھ انہوں نے مجھے بتائے بھی ہوئے ہیں۔ اکثر واقات پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب کو اعلیٰ حضرت کرمانوالہ نے خان بابا کا روضہ بنانے کی ذمہ داری دی تھی اور کہا کرتے تھے کہ اصل میں خان بابا دربار اعلیٰ حضرت کرمانوالہ سرکار کا ہی تصرف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پروفیسر حاجی نعمت علی صاحب کے وصال کے بعد پروفیسر مشتاق علی گولڑوی صاحب نے خان بابا کے عرس دسمبر 2024 میں اپنے بعد میرے نام کا اعلان کیااور لوگوں کو میرا بتایا اور اپنی کتاب میں بھی واضح طور پر لکھا۔ میں دربار خان بابا پر اپنی جانشینی کو میرا اور میری فیملی کا خان بابا سے سالہاسال پر محیط تعلق اور اعلیٰ حضرت کرمانوالہ سرکار کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے۔میں جنوری 2025 سے خان بابا دربار کا انتظام وانصرام ایمانداری سے چلا رہا ہوں ,اللہ سے اور صاحب مزار سے میری یہی آرزو و دعا ہے کہ یہاں پر تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں۔امین