ججز کے برتن میں کھانا کیوں کھایا؟
ہمارے ملک پاکستان میں اس بات کی بھی تحقیقات ہوتی ہیں ۔۔۔
06/08/2025
پاکستان میں کیا کچھ لا پتہ ہو چکا؟
انسانی حقوق کے لیے ایک بل بنایا گیا تھا،وہ لاپتہ ہو گیا۔ ایک سیاسی جماعت سے کیا گیا معاہدہ لا پتہ ہو گیا۔ ایک ناول کا ترجمہ لا پتہ ہو گیا۔ ایک اہم سوال کا جواب بھی لا پتہ ہو گیا۔
اس موضوع پر ایک وی لاگ کیا تھا۔ دل چسپی رکھنے والے کمنٹس میں لنک دیکھ سکتے ہیں
04/08/2025
ایک خواب کا رف ڈرافٹ
اتوار گزرے کتنے ہی گھنٹے بیت گئے ۔۔۔ اب تو سمجھیں سوموار بھی ڈھل ہی گیا، لیکن میری نظریں جنگ سنڈے میگزین میں چھپی اپنی تحریر سے ہٹنے کا نام نہیں لیتیں۔ سوچتا ہوں، جب معاصر اخبارات نے میری تحریر جنگ کے صفحات پر دیکھی ہو گی تو مارے حسد کے جل بھن گئے ہوں گے۔ مدیر حضرات یا خواتین نے کف افسوس ملتے سوچا ہو گا، کاش عمیر محمود ہمارے ہاں چھپتا۔ شاید کہیں یہ احکامات بھی جاری کیے گئے ہوں کہ عمیر کو جنگ سے 'توڑ' لیا جائے، اور جب تک وہ ہاں نہ کرے تب تک اخبار کا ایک صفحہ خالی چھوڑ دیا جائے۔
جب پاکستان میں اتوار کی شام گہری ہوئی ہو گی اور امریکا میں سورج نکلا ہو گا، تب میری تحریر نیویارک ٹائمز کے ذمہ داران نے دیکھی ہو گی، سوچا ہو گا، کاش عمیر امریکا میں ہوتا تو جن ہاتھوں سے یہ تحریر لکھی ہے انہیں چوم لیتے۔ واشنگٹن پوسٹ نے میری تحریر کا ترجمہ کرنے کے احکامات جاری کیے ہوں گے۔ اس امریکی اخبار کے مالک جیف بیزوس نے کسی کو میرا نمبر تلاش کرنے کے لیے کہا ہو گا تاکہ ترجمہ شائع کرنے کی اجازت لی جا سکے۔ الجزیرہ اور سی این این میں صف ماتم بچھ گئی ہو گی کہ ایسے اچھے لکھاری کو ہم کیوں نہ ڈھونڈ پائے، یہ اعزاز جنگ سنڈے میگزین کی مدیر نرجس ملک صاحبہ کو ہی کیوں ملا۔ روپرٹ مرڈوخ نے بلینک چیک سائن کر کے عملے کو دیا ہو گا کہ کسی بھی قیمت پر عمیر کو ’خرید‘ لیا جائے، اور عملے نے بتایا ہو گا کہ عمیر کو خریدا نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ ’ان مول‘ ہے۔ عالمی پریس کلبز میں گفتگو ہوئی ہو گی کہ عمیر محمود کی تحریر ہی صحافت کا تاج ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے اساتذہ کرام نے فیصلہ کیا ہو گا کہ اب سے یہ تحریر صحافت کے نصاب میں شامل کر دی جائے۔
لیکن۔۔۔
پھر میرا اڑان بھرتا تخیل زمینی حقائق کے ائیرپورٹ پر اترتا ہے۔ پہلے سے معلوم اس سچ کا پھر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ میں تو فقط ایک عام سا قلم مزدور ہوں جس کے زاد راہ میں کئی برس کی صحافتی مشقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس کی کوئی شناخت نہیں ہے، جسے پاکستانی میڈیا کے بگڑتے حالات کو سہنا ہے، ہر ماہ تنخواہوں کا انتظار کرنا ہے، بے روز گار ہونے کے خوف کا سامنا کرنا ہے، اور یہ سوچنا ہے کہ اگر یہ خوف سچ ہو گیا تو کہاں کہاں سی وی بھجوانے پڑیں گے۔
غیر یقینی میں الجھا یہ صحافی اپنے سی وی میں لکھے بھی تو کیا لکھے، کہ اب تک کی ساری تگ و دو، بس ایک خواب کا رف ڈرافٹ ہے، ایک مسودہ جو فائنل اپروول کے انتظار میں ہے، جو کسی ان باکس میں ریویو کے لیے پڑا ہے، زندگی کے ڈیسک پر بہت سے کاغذوں میں کہیں دبا ہے۔
شائع ہونے اور پڑھے جانے سے پہلے، اس خواب کے رف ڈرافٹ کو بہت سی ایڈیٹنگ سے گزرنا ہے۔
02/08/2025
کسی عہدے دار کو ایکسٹینشن، اور پیٹ کے لیے ایکسپینشن ۔۔۔ دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ برسوں کی خوش خوراکی سے پیٹ تو خوب پھلتا پھولتا ہے، لیکن کپڑوں بے چاروں کی شامت آ جاتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے، پھولوں والی شرٹ ایک گملے کو اپنی آغوش میں سمونے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ہانپ چکی ہے۔
پیٹ کا پھیلاؤ اتنا ہے کہ شرٹ اسے سمیٹنے میں ناکام ہے۔ شکم بے کراں کے سامنے کپڑے کا بند باندھتے ایسی زور آزمائی ہوئی ہے کہ سلوٹیں پڑتی جاتی ہیں۔ ابھی کھڑا ہوں تو یہ حال ہے، جب بیٹھوں گا تو بٹن مزید امتحان میں پڑ جائیں گے۔ شرٹ میں روشن دان بننے لگیں گے، اور پیٹ ان سے جھانک جھانک کر باہر دیکھے گا۔
حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو کسی فربہ کا شامیاں ہونا
اس صورت حال میں دو ہی راستے بچتے ہیں؛ یا تو شرٹ وسیع کر لی جائے، یا خوراک کو محدود کر دیا جائے۔ پہلے راستے پر چلنے کی جیب اجازت نہیں دیتی، اور دوسرے راستے پر چلنے سے نیت روک دیتی ہے۔
01/08/2025
ہوٹل کے اس ملازم نے ایسا کیوں کیا؟
01/08/2025
رشتہ کرانے والے ایک ادارے کا یہ اشتہار میرے گھر میں آیا تو اس نے مجھے گدگدایا، ہنسایا، پھر سوچنے پر مجبور کیا۔ اشتہار خوش گوار تو تھا ہی، لیکن غور سے پڑھنے پر ایک اور دل چسپ بات بھی معلوم ہوئی۔
اس پر وی لاگ کیا تھا۔ دیکھنے کے خواہش مندوں کو کمنٹس میں لنک مل جائے گا۔
26/07/2025
صحافی کا کام 'خبر نگاری' ہے، ڈرامہ نگاری نہیں
روزنامہ جنگ پڑھنا بطور صحافی میری ضرورت تو تھی ہی، عادت بھی تھی۔ اور یہ عادت اس وقت سے تھی جب ابھی اس شعبے میں آنے کا سوچا بھی نہ تھا۔ گھر میں اخبار باقاعدگی سے تو نہیں آتا تھا، لیکن کوئی ایک اردو اخبار آتا تو وہ روزنامہ جنگ ہی ہوتا۔
پھر یونیورسٹی میں داخلہ ہوا، اساتذہ خبر نویسی کے اصول و ضوابط سمجھاتے، تو روزنامہ جنگ کی خبریں بطور مثال پیش کرتے۔ سکھایا جاتا کہ یک طرفہ خبر نہیں دینی، جس کے بارے میں خبر دی گئی ہو اس کا موقف ضرور شامل کرنا ہے، ساتھ ہی روزنامہ جنگ میں چھپی خبریں دکھائی جاتیں ۔۔۔ کہ دیکھیے، یہ ہوتی ہے صحافت۔
اس پیشے سے عملی طور پر وابستہ ہوا تو بھی ایک زمانے تک جنگ اخبار اور جیو ٹیلے وژن چینل کو معیار بنائے رکھا۔ کوئی خبر جنگ پر چھپتی یا جیو پر نشر ہوتی تو ہی معتبر معلوم ہوتی۔
لیکن پھر روزنامہ جنگ پر چھپنے والی خبروں میں وہی صحافتی اصول اور اخلاقیات پامال ہوتے دیکھیں، جو سیکھی ہی اس اخبار سے تھیں۔ برسوں تک جس ادارے کو صحافت کا معیار مانتا رہا، وہی انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے لگا۔
26 جولائی 2025 کی شہ سرخی کے سامنے چھپی یہ خبر دیکھیے۔ خبر نگار محمد صالح ظافر لکھتے ہیں، عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بچوں قاسم اور سلیمان کو امریکا سے لندن واپس بلا لیا۔ حالاں کہ ان کے بارے میں خبریں دی گئی تھیں کہ وہ پاکستان جائیں گے اور اپنے والد کی رہائی کے لیے تحریک چلائیں گے۔ صالح ظاہر کو یہ 'خبر' جس ذریعے نے دی ہے، اسے انہوں نے 'حد درجہ لائق اعتماد' لکھا ہے۔ وہ ذریعہ کہتا ہے کہ تحریک انصاف کے جن لوگوں کی جمائما گولڈ اسمتھ سے شناسائی ہے، انہوں نے جمائما گولڈ اسمتھ کو ایک پیغام بھیجا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ قاسم اور سلیمان اگر پاکستان آئے تو انہیں پاکستانی انتظامیہ اور سلامتی کے اداروں سے اتنا خطرہ نہیں ہو گا، جتنا خطرہ انہیں عمران خان کی بہنوں سے ہو گا۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ عمران خان کی بہنوں نے کبھی جمائما گولڈ اسمتھ کو اپنی بھاوج کے طور پر قبول نہیں کیا۔ اور نہ ہی انہیں کبھی اس کے بچوں کے ساتھ لگاؤ ظاہر کرتے دیکھا گیا ہے۔
یہ خبر ہے؟ اسے صحافت کہا جائے یا کچرا چن کر افواہ بنانے کی مشق؟ نہ 'حد درجہ لائق اعتماد' ذریعے کی کوئی شناخت، نہ جمائما کا موقف، نہ کسی بہن کی رائے ۔۔۔ بس بیٹھے بٹھائے گھریلو معاملات پر یوں تہمت دھر دی گئی۔
ایسے خبر نگاروں کو چاہیے کہ ایسی خبریں گھڑنے کے بجائے ڈرامہ لکھا کریں، اور ایسی خبریں چھاپنے والے اخبار افسانے چھاپیں تو زیادہ ٹھیک رہے گا۔
Omair Mahmood
25/07/2025
جج، مجرم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے لگے۔ جرم ثابت ہو جائے، لیکن سزا نہ ملے۔ طاقت ور قانون سے بچ نکلے۔ قانون کو موم کی ناک بنا کر اپنے حق میں موڑ لیا جائے۔ سرکاری عہدہ، حق دار کے بجائے رشتہ دار کو دے دیا جائے۔ آپ کا خیال تھا کہ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔۔۔
24/07/2025
وہ پھر چلی گئی ۔۔۔
پورے دو ماہ بعد وہ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ میں نے بے تابی سے اسے ہاتھوں میں تھام کے یوں بھینچ لیا جیسے اب کبھی کہیں بھی جانے نہیں دوں گا۔
لفظ خاموش ہو گئے تھے لیکن دھڑکن میرا حال بیان کر رہی تھی۔
اس سے ملنے کی خوشی، دو ماہ کی جدائی کا دکھ، اس کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کی تمنا، جدائی کا گلہ کرنے کا حوصلہ ۔۔۔ میں متضاد جذبات کی بارش میں بھیگتا رہا۔ ضبط کا بند اشکوں کے سیلاب سے لڑتا رہا۔
اس کیفیت میں کتنے ہی لمحے گزر گئے، میں بس اسے تکتا رہا۔ اور جب بولا تو بمشکل اتنا کہہ پایا: ”اتنی دیر لگا دی آنے میں۔ جب وعدہ ہوا تھا کہ تم ہر ماہ مجھے ملا کرو گی، تو یہ وعدہ خلافی کیوں؟“ جملے کا آخری حصہ کہتے کہتے میں نے چیخنے کی کوشش کی تھی لیکن جذبات کی شدت سے آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
وہ میرے اندر کی ٹھوٹ پھوٹ دیکھ رہی تھی، بے چارگی سے بولی: ”میں اپنی مرضی سے تھوڑی رکتی ہوں ۔۔۔ جن کے ہاں تم نوکری کرتے ہو، وہی مجھے کئی کئی مہینے تک روکے رکھتے ہیں۔ ہمارا ملن نہیں ہونے دیتے۔“
اس کی بات سنتے ہی میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں رکے سیلاب کو بہنے کا راستہ مل گیا۔
لیکن ساتھ ہی ایک اور عجیب بات ہوئی۔ آنسو بہنے سے دل کا بوجھ بھی کم ہوا اور امید کی سر زمین آباد ہونے لگی، مرجھائے خواب پھر سے سانسیں لینے لگے، آنکھوں میں تمناؤں کے چراغ جلنے لگے، سہانے سپنے جو دیکھے تھے، ان کے سچ ہونے کا یقین ہونے لگا۔ میں اس کے ساتھ روز و شب بتانے کے منصوبے بنانے لگا۔
اور پھر، خوشی کے ان لمحوں میں خدشات کا ایک کڑوا سچ بھی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
ابھی جی بھر کر اسے ہاتھوں میں تھاما بھی نہ تھا کہ یاد آیا، اس سے جدائی کے دن کاٹنے کے لیے میں کس کس کا احسان مند ہوا تھا۔ جھکی آنکھوں سے کن کن کے سامنے وعدے کیے تھے کہ وہ آئے گی تو تمام حساب برابر کر دوں گا۔
اور پھر میں نے سب کا حساب برابر کر دیا۔
وہ بے یقینی سے مجھے دیکھتی رہی، میں نظریں چراتا رہا، اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسے اپنی گرفت سے نکلتے دیکھتا رہا۔
کچھ ہی دیر میں وہ جا چکی تھی۔
میری تنخواہ۔۔۔
23/07/2025
ایک انوکھا اشتہار
چوبرجی کوارٹرز لاہور میں رہنے والے رحمان تک پہنچائیے
18/07/2025
ون ویلنگ کرنے والے بچے! سنو
14/07/2025
جب میں نے لاہور میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی پہنی
قصہ شاہد ملک صاحب کی دعوت سے شروع ہوتا ہے۔ ملک صاحب سینیئر صحافی ہیں اور میرے استاد بھی۔ ان کے دوست ڈاکٹر امیر جعفری لاہور آئے تو مال روڈ کے ایک ہوٹل میں ملاقات طے پائی۔ مجھے اور عاطف صاحب کو بھی مجلس میں مدعو کیا گیا۔
شاہد ملک صاحب کی شخصیت جیسی دل آویز ہے، ڈاکٹر امیر جعفری بھی اسی کا عکس نکلے۔ خوب صورت لہجے میں اردو بولنے والے، درمیان میں کہیں انگریزی یا پنجابی کا ٹانکا لگتا تو گفتگو میں مزید خوش نما رنگ بکھر جاتے۔
کیسی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ امیر جعفری صاحب نے اشعار سنائے، بتایا کہ مختلف اشعار میں ایک ہی مضمون کو کیسے کیسے انداز سے برتا گیا، بظاہر سادہ سے لفظوں میں معنی کے کیا کیا سمندر چھپے ہیں ۔۔۔ میں تو ڈوبتا چلا گیا۔ گفتگو کے دوران اس چلن کا ذکر ہوا کہ دیار غیر سے چھٹی پر پاکستان آئے دوستوں کو بلا کر کسی بھی کانفرنس کو بین الاقوامی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور کانفرنس کے بڑے بڑے پینافلیکس آویزاں کر دیے جاتے ہیں۔ (پینافلیکس، مطلب رنگین بینرز جن پر تصاویر اور معلومات چھپی ہوتی ہیں)
پینافلیکس کی بات ہوئی تو ڈاکٹر امیر جعفری صاحب کو پھل خریدنے کا واقعہ یاد آ گیا۔ پھل فروش نے پینافلیکس پر پھلوں کی تصاویر، دو الگ الگ نام اور فون نمبر چھپوا رکھے تھے۔ دائیں جانب پائندہ گل کا نام اور نمبر، بائیں جانب خیال خان کا نام اور نمبر۔
امیر جعفری صاحب نے آم خریدنے تھے۔ پھل فروش نے بتایا یہ آم کاٹ کے کھانے والا ہے اور یہ جوس بنانے والا۔ انہوں نے شرارت سے پوچھا، اگر میں جوس بنانے والے آم کو کاٹ کر کھا لوں تو؟ پھل فروش نے لاپروائی سے جواب دیا، کوئی حرج نہیں۔ وہیں سیب بھی رکھے تھے۔ ان کی خوبی یہ بتائی گئی کہ ایران سے آئے ہیں۔ جعفری صاحب نے پوچھا، کیا ضمانت ہے کہ ایران سے آیا سیب اچھا ہی ہو گا؟ سیب کے اچھا ہونے کے لیے پھل فروش کی دلیل سنیے، ”کیوں کہ ایران کھڑا ہو گیا تھا نا!“ اشارہ حالیہ اسرائیل ایران جنگ کی جانب تھا۔
جعفری صاحب نے پوچھا، بینر پر دو نام لکھے ہیں، آپ پائندہ گل ہو یا خیال خان؟ جواب میں دکان دار نے اپنا نام خیال خان بتایا، لیکن کچھ اس انداز سے، جیسے یہ سوچنا ہی گستاخی ہو کہ وہ پائندہ گل ہو سکتا ہے۔ پھر خیال خان نے جعفری صاحب سے ان کا نام پوچھا، انہوں نے جواب دیا، خام خیال۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ امیر جعفری صاحب نے rhetoric میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ Rhetoric، مطلب خطابت کا علم۔ ہائیں! دنیا میں کیسے کیسے دل چسپ اور اچھوتے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ پھر جب معلوم ہوا کہ یہ پی ایچ ڈی انہوں نے امریکا کی اوکلاہوما یونیورسٹی سے کی ہے تو چند لمحوں کے لیے دل کی دھڑکن رکی۔ جب 2019 میں کچھ روز کے لیے امریکا گیا تھا تو پہلا ہفتہ اسی یونیورسٹی میں گزارا تھا۔ کیسی دل فریب یادیں وابستہ ہیں وہاں سے۔ جعفری صاحب کو بتایا، وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ اوکلاہوما یونیورسٹی کا نام آیا تو خیال کے پردے پر فلم سی چل پڑی۔ ہم نے یونیورسٹی کی اونچی چھت والی لائبریری اور وہاں کے در و دیوار کو یاد کیا۔ وہ اپنی تعلیم کے قصے سناتے رہے۔ میں اوکلاہوما یونیورسٹی میں بیتے محدود سے وقت کے بارے میں سوچتا رہا۔
امیر جعفری صاحب نے بتایا کہ انہیں امریکا سے واپس آئے ایک دہائی سے اوپر کا وقت ہو چکا ہے لیکن اب بھی ان کی گاڑی میں اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی ہمیشہ رکھی رہتی ہے، اور انہوں نے اپنی گاڑی پر یونیورسٹی کا سٹیکر بھی لگا رکھا تھا جو کسی نے اتار لیا۔ اس موقع پر انہوں نے اسٹیکر اتارنے والے کے لیے کچھ ناقابل اشاعت الفاظ بھی استعمال کیے۔
انتہائی خوش گوار ملاقات کے اختتام پر ہم انہیں ان کی گاڑی تک چھوڑنے گئے۔ وہیں سے انہوں نے اوکلاہوما یونیورسٹی کی ٹوپی نکالی، مجھے پہنائی اور یہ تصویر لی گئی۔
Be the first to know and let us send you an email when Omair Bolta Hai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.