Qalam Kahani

Qalam Kahani Qalam Kahani is all about Stories

16/08/2025

ایک ہی دن میں 200 سے زیادہ شہید ،ایک ہی فیملی کے 37 شہید،ہیلی کاپٹر کریش۔۔اور ایسی تباہی جو کبھی دیکھی نہ گئی۔ کے پی کیلئے ،بونیر، باجوڑ اور سوات کیلئے ، وہاں کے سات ضلعوں کیلئے دعا کیجیے ،سیلاب نہیں، وہاں تباہی کا ایک پیکج نازل ہو چکا ہے، کلاؤڈ برسٹ،فلیش فلڈ، آسمانی بجلی، لینڈ سلائیڈنگ اور گھروں کی چھتوں سے گزرتا پانی۔۔ یہ موسم کی تبدیلی بھی ہے، ہماری کج فہمی بھی ہے اور ہماری نا اہلیوں پر اللہ کی گرفت بھی۔ دل سے دعا کیجئے ، اللہ رحم، یا اللہ رحم! اے مالک رحم ، ہمارے ان مصیبت میں گھرے بھائیوں پر رحم۔

آپ کو پتا ہے بونیر میں کتنا طوفانی سیلابی ریلا آیا ہوا ہے اب تک ایک سو سرسٹھ افراد لا پتا ہو چکے ہیں پورے پورے گاؤں ریلے...
16/08/2025

آپ کو پتا ہے بونیر میں کتنا طوفانی سیلابی ریلا آیا ہوا ہے اب تک ایک سو سرسٹھ افراد لا پتا ہو چکے ہیں پورے پورے گاؤں ریلے میں بہہ گئے ہیں ایک گاؤں کے لوگوں کی میتیں دوسرے گاؤں سے مل رہی ہیں درختوں پتھروں دیگر آہنی چیزوں سے ٹکرا ٹکرا کر کسی میت کا ہاتھ تو کسی کا پاؤں کٹا ہوا مل رہا ہے کسی کی کھوپڑی کھلی ہوئی تو کوئی بیچارہ پانی میں ہی چورا چورا ہو چکا ہے
اللہ کریم عافیت فرماۓ

سیلاب اور آفات سے حفاظت کی دعا

اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا وَأَهْلَنَا وَبِلَادَنَا وَكُلَّ ذِي رُوحٍ فِي أَرْضِنَا،
مِنَ الْفَيَضَانِ وَالسُّيُولِ وَالزَّلَازِلِ وَكُلِّ بَلَاءٍ وَمِحْنَةٍ،
وَاجْعَلْ سَحَابَ السَّمَاءِ رَحْمَةً لَّنَا لَا عَذَابًا،
وَانْشُرْ عَلَيْنَا أَمْنَكَ وَسَكِينَتَكَ،
يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. 🤲

ترجمہ:
اے اللہ! ہمیں، ہمارے اہلِ خانہ کو، ہمارے علاقے کو اور ہماری سرزمین کے ہر جاندار کو سیلاب، طوفان، زلزلے اور ہر آزمائش و مصیبت سے محفوظ فرما۔ آسمان کے بادل ہمارے لیے رحمت بنیں، عذاب نہ ہوں، اور ہم پر اپنا امن اور سکون نازل فرما، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

16/08/2025

کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر مرحومہ حمیرا اصغر علی کی پوسٹز دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا، جو کئی دنوں سے میرے ذہن میں چل رہا تھا۔ 💭 سوچا آج اس واقعے میں اپنے رب کی رحمت کو بیان کر دوں۔

ایک بنی اسرائیل کا بڑا گناہگار شخص تھا، جس کے دن رات گناہوں میں گزرے تھے۔ بستی والوں نے اس کے گناہوں سے تنگ آ کر اُسے بستی سے نکال دیا، کہ کہیں اس کے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے ہم پر کوئی عذاب نہ آ جائے۔ ⚠️

بستی سے دھتکارا ہوا شخص جنگل میں کب تک زندہ رہ سکتا تھا؟ آخر بھوک پیاس کی وجہ سے آخری لمحے آن پڑے، تو اُس نے کچھ اِن الفاظ میں اپنے رب کو پکارا:

"اے اللہ! دیکھ آج تیرے بندے کے سارے رشتے ناتے ٹوٹ گئے۔ میرے پاس کوئی ایک گھونٹ پانی پلانے والا بھی نہیں ہے۔ اگر تو مجھے معاف کر دے، اور تیرے معاف کر دینے سے تیری سلطنت میں کوئی کمی آتی ہے، یا مجھے عذاب دینے سے تیری بادشاہی میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، تو پھر میں تجھ سے کوئی سوال نہیں کرتا۔
لیکن اگر نہ تیری سلطنت میں کمی آتی ہے، نہ مجھے عذاب دینے سے تیری بادشاہی میں اضافہ ہوتا ہے، تو دیکھ! آج میرے پاس کوئی نہیں ہے، تو میرا گواہ ہے، اور میں نے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو غفّار ہے، رحیم ہے۔
تو اگر تُو مجھے معاف کر دے، تو یہ تیری کرم نوازی ہو گی۔" 😢🙏

یہ کہتے کہتے اُس کی آخری سانس ٹوٹ گئی 💔 اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔

ادھر اُس کی آخری توبہ تھی، اُدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پیغامِ وحی پہنچ گیا:

"موسیٰ! جلدی کرو، جنگل میں ہمارے دوست کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور موسیٰ! تم نے اسے غسل بھی دینا ہے، کفن بھی دینا ہے، اور تم نے اُس کا جنازہ بھی پڑھانا ہے۔
اور اعلان کروا دو: ہمارا دوست جنگل میں فوت ہوا ہے، جو جو اس کے جنازے میں شریک ہوگا، تیرا رب اسے بھی بخش دے گا۔"

اب لوگوں کا ہجوم اللہ کے دوست کو تلاش کرنے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ جنگل میں نکلا۔
جب حضرت موسیٰؑ نے اُس شخص کو تلاش کر لیا، تو لوگ اُس کی دید کے شوق میں آگے بڑھے،
مگر جیسے ہی چہرہ دیکھا، فوراً پیچھے ہٹ گئے!

اور حضرت موسیٰؑ سے کہنے لگے:

"ارے حضرت! یہ تو وہ بدکردار شخص ہے جس کے دن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے! جس کی راتیں ہم نے گناہوں میں گزرتی دیکھی ہیں! یہ اللہ کا دوست کیسے ہو گیا؟"

حضرت موسیٰؑ بھی حیرت میں آ گئے! 🌪️

کہ واقعی! معاملہ تو عجیب ہے!
تو پھر دوبارہ وحی نازل ہوئی:

"ہاں موسیٰ! تمہارے پاس تو اس کی پہچان یہی ہے کہ یہ بدکار شخص ہے، اس کے دن گناہوں میں، اس کی رات گناہوں میں گزر رہی تھی۔
لیکن موسیٰ! سُن لو... جب اس کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں، جب اُس کے رشتہ دار پاس نہیں تھے، تو یہ ساری رات گُڑگُڑا کر ہمیں پکار رہا تھا۔
تو موسیٰ! ہماری رحمت نے گوارا نہ کیا۔
اور موسیٰ! اگر وہ آخری لمحے میں یہ کہہ دیتا کہ یا اللہ! میرے ساتھ ساری انسانیت کو بخش دے، تو میں ساری انسانیت کو بخش دیتا۔" 😭💖

یہ ہے ہمارا رب…!😭
🌸 ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا 🌸😭
تو تم کسی کو اس کے گناہوں کی وجہ سے کیوں کوستے ہو؟
تمہیں کیا خبر اُس کا معاملہ اللہ کے ساتھ کیا ہے؟ 💔

✍️ لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے، مگر بس... اُسی کی رحمت اور عظمت کو بیان کرنا تھا۔

اللّٰہ ہمیں اپنی محبت میں اپنی فرمانبرداری کرنے والا بندہ بنا دے،
اور ہم سب کی بخشش فرما دے۔ آمین یا رب العالمین 🤍

سیلاب اور آفات سے حفاظت کی دعا اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا وَأَهْلَنَا وَبِلَادَنَا وَكُلَّ ذِي رُوحٍ فِي أَرْضِنَا،مِنَ الْف...
15/08/2025

سیلاب اور آفات سے حفاظت کی دعا

اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا وَأَهْلَنَا وَبِلَادَنَا وَكُلَّ ذِي رُوحٍ فِي أَرْضِنَا،
مِنَ الْفَيَضَانِ وَالسُّيُولِ وَالزَّلَازِلِ وَكُلِّ بَلَاءٍ وَمِحْنَةٍ،
وَاجْعَلْ سَحَابَ السَّمَاءِ رَحْمَةً لَّنَا لَا عَذَابًا،
وَانْشُرْ عَلَيْنَا أَمْنَكَ وَسَكِينَتَكَ،
يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. 🤲

ترجمہ:
اے اللہ! ہمیں، ہمارے اہلِ خانہ کو، ہمارے علاقے کو اور ہماری سرزمین کے ہر جاندار کو سیلاب، طوفان، زلزلے اور ہر آزمائش و مصیبت سے محفوظ فرما۔ آسمان کے بادل ہمارے لیے رحمت بنیں، عذاب نہ ہوں، اور ہم پر اپنا امن اور سکون نازل فرما، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اب بونیر پانی کی بھیانک لپیٹ میں ہے، جو مناظر سوشل میڈیا پر ہیں وہ دیکھے نہیں جا رہے ، کلاوڈ برسٹ کئی خاندان ، مال مویشی اور گھر بہا کر لے جا رہا ہے ۔۔۔
سانحے پر سانحہ !! یہ سال ہم پاکستانیوں کے لیے کس قدر بھاری گزر رہا ہے ، ان آٹھ ماہ میں ایسی بھیانک اور روح فرسا خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ لگتا ہے آفات نے ادھر کی راہ دیکھ لی ہے ۔ اس سال پہاڑ اور پانی بھی سخت ناراض ہیں ، خاندان کے خاندان کو سیلابی ریلے اور پہاڑی گذرگاہیں کھا گئیں ۔۔۔ سوات ، بونیر ، چلاس ، سکرود میں سیرو سیاحت کو جانے والے تابوتوں میں واپس آئے ۔۔۔ راولپنڈی میں دریائے سواں بپھرا تو کئی زندگیاں ، کئی گھر بہا کر لے گیا ۔ اس سال موسم کی سختیاں بھی عجیب ہیں ۔۔۔ واقعات اور اموات اس سے بھی عجیب!!
اللہ سے بس رحم اور عافیت کی دعا ہی کرسکتے ہیں ، یہ سال سخت ترین سالوں میں سے ایک ہے ، اور ابھی چار ماہ باقی ہیں ، خداکرے یہ وقت میرے ملک اور یہاں کے باسیوں کے لیے کوئی اور مصیبت نہ لائے ۔ عافیت رہے ، خیریت اور رحمت رہے ۔
آمین

پاکستان کی سابقہ معروف اداکارہ اور تاحال مشہور و معروف مذہبی اسکالر سارہ چوہدری کی اپنے کمسن بچوں کے ہمراہ یوم آزادی پاک...
15/08/2025

پاکستان کی سابقہ معروف اداکارہ اور تاحال مشہور و معروف مذہبی اسکالر سارہ چوہدری کی اپنے کمسن بچوں کے ہمراہ یوم آزادی پاکستان کے موقع پرجوش اور دلکش تصاویر
💚💚
اسلامی جمہوریہ پاکستان پائیندہ باد💚🇵🇰🤍

15/08/2025

سوال: سنا ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں حساب کتاب ہوتا ہے جبکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جسم روح کا لباس ہے ، جب روح ہی پرواز کر جاتی ہے تو لباس سے قبر میں کیا حساب کتاب ہوتا ہے؟ روحانی نقطۂ نظر سے تفصیل بیان فرما دیں ۔

جواب: جس طرح لباس کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی اس طرح جسم بھی روح کا لباس ہے۔ جو روح کا جسم سے تعلق ختم کرنے پر بے جان ہو کر لمحہ بہ لمحہ ختم ہو جاتا ہے۔ کسی بھی قبر کو آپ دو ہفتے کے بعد کھول کر دیکھیں یا ایک مہینے کے بعد کھول کر دیکھیں تو وہاں جسم نہیں ہوتا ہڈی ہوتی ہے۔ سال بھر کے بعد کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوا ہڈیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جسم روح کا لباس ہے اورلباس سے تو کوئی سوال جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ایک آدمی شلوار کرتا ٹوپی وغیرہ بانس کو پہنا کر کھڑا کر دیں اور اس سے آپ سوال جواب کریں یہ لباس کیا جواب دے گا۔ اس لباس کو آپ پھاڑ دیں تب بھی اس کی طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہو گی۔ اس میں آگ لگا دیں لباس جل جائے گا لیکن ایک آہ بھی نہیں نکلے گی۔
قبر میں جسم اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ انسان کی بے حرمتی نہ ہو اور یہ قبر میں رکھنے کا رواج کوئی اسلامی نہیں ہے۔ یہودیوں کے زمانے سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زمانے سے یہ قبریں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ تو یہ انسانی عظمت کو خراب نہ کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ دیکھیں اب ایک آدمی مر گیا، اُس کی آپ لاش چھوڑ دیجئے، اب وہ پھولے گا، سڑے گا ،اُس میں بدبو ہو گی، تعفن ہو گا، اُس میں کیڑے پڑیں گے، گِدھ کھائیں گے، کوے کھائیں گے ، چیلیں کھائیں گی، چیونٹییاں لگیں گی، بلی ،کتے بھیڑیئے، سب آ کر اُسے کھائیں گے ، تو یہ آدمی کی ایک طرح سے بے عزتی ہو گی۔ تو اس بے عزتی سے بچانے کے لئے اور انسانیت کا احترام برقرار رکھنے کیلئے یہ قبر کا تصور قائم ہوا ۔ اور یہ حضرت آدم علیہ السّلام سے چل رہا ہے۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا وہاں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جسم کو اگر ہم روح کا لباس مان لیتے ہیں تو اس پر کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔ اِس جسم کے اوپر ایک اور روشنیوں کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے اور وہ اس جسم سے ۹ انچ اوپر ہوتا ہے وہ سارا حساب کتاب جزا و سزا سب اس کے اوپر ہوتا ہے ، اور وہ چیز جو ہے وہ عالمِ اَعراف میں رہتی ہے۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ روح جب عالمِ اعراف میں چلی گئی تو قبرستان میں کیا رکھا ہے۔ وہاں تو مٹی کا ڈھیر ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ قبرستان میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ جسم تو مٹی ہو گیا لیکن جس جگہ جسم کو ہم دفناتے ہیں آدمی کا اسی مناسبت سے اَعراف بنتا ہے۔ یعنی زمین سے ۲۰۰ میل اوپر اس کا اَعراف بنتا ہے۔ زمین سے ۲۰۰ میل اوپر ایک اور دنیا آباد ہے۔ بالکل اسی طرح کی جیسے کہ یہ دنیا ہے۔ اس کو ہم عالمِ اَعراف کہتے ہیں۔ اب اس کی مثال یوں ہے کہ ایک پلازہ ہے۔ اس کی ۲۰۰ منزلیں ہیں تو جو زندہ آدمی ہیں مثال کے طور پر وہ پہلی منزل پر رہتے ہیں اور جو مرے ہوئے آدمی ہیں وہ دسویں منزل پر رہتے ہیں تو اس کا تعلق اس زمین سے قائم ہے کہ پلازہ بغیر زمین کے قائم نہیں رہتا۔
ایک بات اور غور طلب یہ ہے کہ عالمِ اعراف جو ہے وہ زمین کے کُرہ سے باہر نہیں ہے۔ عالمِ اَعراف زمین کے کُرہ میں ہے تو جہاں اس کو دفن کرتے ہیں کسی مردہ جسم کو تو اس کا وہاں سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اُس گھر سے، اُس قبر سے، لیکن وہ رہتا عالمِ اَعراف میں ہے۔ تو جب ہم کسی قبر پر جاتے ہیں تو ہمارا تعلق اس بندے کے ساتھ عالمِ اعراف سے قائم ہو جاتا ہے۔ انسان جب قبرستان جاتا ہے، وہاں جا کے بیٹھتا ہے، کچھ پڑھتا ہے، ایصالِ ثواب کرتا ہے، تو اس کے اندر وہ صلاحیت کام کرنے لگتی ہے جو صلاحیت یہاں سے ۲۰۰ میل اوپر دیکھتی ہے ۔ یعنی اِیصالِ ثواب پہنچانا اِس بات کی نشاندہی ہے کہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت کام کر رہی ہے یا ایسی نظر کام کر رہی ہے جو ۲۰۰ میل اوپر بھی دیکھ سکتی ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تم قبرستان جاؤ تو کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ (اے قبرستان میں رہنے والے السّلام علیکم)۔ ظاہر ہے حضورﷺ کی کوئی بات غلط تو ہو نہیں ہو سکتی ،، بغیر حکمت کے نہیں ہو سکتی ۔ تو حضورﷺ نے جب یہ فرمایا کہ قبرستان جا کے کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں رہنے والے لوگ ہمارا سلام سنتے ہیں اور وہ ہمارے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں لیکن تم سن نہیں سکتے۔ لیکن اگر ہم اس صلاحیت کو بیدار اور متحرک کر لیں ، یعنی لاشعوری صلاحیت کو یا روحانی صلاحیت کو ، تو ہم اُن کی آواز سن بھی سکتے ہیں اور اّنہیں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ان سے رابطہ بھی قائم کر سکتے ہیں اور یہ اولیاء کا عام قاعدہ ہے… کشف القبور… تصوف میں ایک باقاعدہ اصطلاح ہے، لوگ جاتے ہیں، آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں، کچھ پڑھتے ہیں جو عالمِ اَعراف میں لوگ ہیں وہ سامنے آ جاتے ہیں۔ قبر کا جو تعلق ہے، جو گوشت پوست کا بنا ہوا جسم ہے، اس سے حساب کتاب نہیں ہوتا بلکہ اُس گوشت پوست کے اوپر ایک اور روح کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے، مکمل جسم ہوتا ہے جسے جسمِ مثالی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

بحوالہ کتاب ــــــــــــــــ روح کی پکار
مصنف ــــــــــ خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

یہ تصویر 14 اگست کے دن کی ہے—شاید پچھلے یا اس سے بھی پچھلے سال کی—مگر اس کا پیغام ایسا ہے جو وقت کے ساتھ پرانا نہیں ہوا۔...
14/08/2025

یہ تصویر 14 اگست کے دن کی ہے—شاید پچھلے یا اس سے بھی پچھلے سال کی—مگر اس کا پیغام ایسا ہے جو وقت کے ساتھ پرانا نہیں ہوا۔ اس میں ایک سپاہی زمین پر جھک کر گرا ہوا پاکستانی پرچم اٹھا رہا ہے۔ یہ منظر بظاہر ایک عام سی حرکت لگتی ہے، مگر اس کے پیچھے ایک گہری سوچ، احساس اور ذمہ داری چھپی ہوئی ہے۔ یہ جھکنا جسم کا جھکنا نہیں بلکہ دل کا اٹھنا ہے۔ یہ عمل بتاتا ہے کہ وطن کی حرمت کا خیال رکھنے والے دل آج بھی موجود ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم سب کے دل اس جذبے سے زندہ ہیں؟ہمارا سبز ہلالی پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں۔ یہ ایک داستان ہے، ایک تاریخ ہے، ایک خواب کی تعبیر ہے۔ سبز رنگ اکثریتی مسلمان آبادی کا نمائندہ ہے اور سفید رنگ ان اقلیتوں کی پہچان ہے جو پاکستان کی شناخت کا لازمی حصہ ہیں۔ چاند ترقی کی روشنی کا نشان ہے اور ستارہ علم و ترقی کی منزل کا۔ اس پرچم کے رنگوں اور علامتوں میں وہ ساری جدوجہد، قربانیاں اور خواب چھپے ہیں جو ایک آزاد وطن کے قیام کے لیے دیے گئے۔ مگر افسوس، ہم میں سے بہت سے لوگ اس پرچم کی حرمت کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ہر سال 14 اگست کے قریب آتے ہی گلی کوچے سبز و سفید جھنڈوں سے بھر جاتے ہیں۔ ہر طرف خوشیاں، نعرے، گانے، اور جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ بازاروں میں قومی پرچم کی خریداری اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ بچے، جوان اور بزرگ سب اپنے اپنے انداز میں آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ مگر جب یہ دن ختم ہو جاتا ہے تو وہی جھنڈے، جنہیں ہم نے فخر سے لہرایا تھا، اگلے ہی دن سڑکوں پر بکھرے، کچرے میں ملے یا مٹی میں لت پت پڑے ملتے ہیں۔ یہ رویہ صرف غفلت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی شعور کی کمزوری کی نشانی ہے۔یہ حقیقت تلخ ہے کہ پرچم کی بے حرمتی ہمیشہ دانستہ نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ خوشی میں اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ اس کی عزت کا خیال نہیں رکھتے۔ بچے جھنڈے لگا کر کھیل کود میں انہیں پھاڑ دیتے ہیں، گاڑیوں پر لگے جھنڈے ٹوٹ کر سڑک پر گر جاتے ہیں، دیواروں پر لگی جھنڈیوں کے ٹکڑے ہوا میں اڑ کر زمین پر گرتے ہیں۔ کوئی انہیں اٹھاتا نہیں، کوئی ان کا خیال نہیں کرتا۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہماری حب الوطنی کے دعوے حقیقت سے ٹکرا جاتے ہیں۔اس تصویر میں دکھائی دینے والا منظر ایک سوال ہے—کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ ہم زمین پر پڑے جھنڈے کو اٹھا سکیں؟ بہت سے لوگ سوچیں گے کہ یہ تو ایک چھوٹا سا عمل ہے، اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی چھوٹے اعمال بڑے کردار کی بنیاد بنتے ہیں۔ اگر ہم اپنے پرچم کو زمین سے اٹھانے کی تکلیف نہیں کر سکتے تو ہم وطن کے بڑے مسائل کے لیے کیا قربانی دیں گے؟یہ تصویر ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ حب الوطنی کا مطلب صرف نعرے لگانا یا جھنڈے لہرانا نہیں۔ اصل محبت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ہم اپنے وطن کی ہر علامت کی عزت کریں، چاہے وہ کسی بھی حالت میں ہو۔ پرچم کو زمین سے اٹھانا اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی تاریخ، اپنی قربانیوں اور اپنے عہد کی لاج رکھ رہے ہیں۔آزادی کا جشن منانا بہت ضروری ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، کسی کے غلام نہیں۔ مگر آزادی کا اصل امتحان جشن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 15 اگست کے بعد جب سڑکوں پر بکھرے جھنڈے ہمیں دیکھتے ہیں تو وہ خاموشی سے ہم سے سوال کرتے ہیں: "کیا تم نے آزادی کا حق ادا کیا؟" آزادی کا مطلب صرف خودمختاری نہیں بلکہ اپنے ملک اور اس کی علامتوں کی حفاظت بھی ہے۔یہ رویہ صرف پاکستان میں نہیں، دنیا کے ہر کونے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ اپنے قومی پرچم کو کس احترام سے رکھتے ہیں۔ کئی ممالک میں پرچم کے گرنے کو بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو پرچم کی عزت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ اپنے پرچم کو کبھی زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ ہم کیوں نہ اپنے بچوں کو یہ سکھائیں؟ کیوں نہ ان کے دل میں یہ بات ڈالیں کہ پرچم کی عزت کرنا صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے؟اس تصویر میں جھک کر پرچم اٹھانے والا سپاہی دراصل ہمیں سکھا رہا ہے کہ عزت دینا کیسے شروع ہوتی ہے۔ یہ کام قانون یا ڈیوٹی کا نہیں، دل کے احترام کا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرچم صرف ایک دن کے لیے نہیں بلکہ ہر دن کے لیے ہے۔ یہ ہمارے اسکولوں، اداروں، گھروں اور دلوں میں جگہ پانے کا حق رکھتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسے اصول اپنائیں جو پرچم کی عزت کو ہر وقت برقرار رکھیں۔ اگر کوئی جھنڈا پھٹ جائے یا مٹی میں گر جائے تو اسے احترام کے ساتھ سنبھالیں، یا مناسب طریقے سے تلف کریں۔ جھنڈیاں لگانے کے بعد جشن ختم ہونے پر انہیں خود اتاریں۔ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ یہ صرف ایک کھیل کا سامان نہیں بلکہ ایک قومی علامت ہے۔یہ تصویر ہمیں ایک خاموش پیغام دیتی ہے—وطن کی عزت کے لیے جھکنے والا انسان کبھی کسی کے سامنے جھکنے کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ عزت کا تعلق الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے ہے۔ اگر ہم نے اپنے دل میں یہ عہد کر لیا کہ ہم کبھی اپنے پرچم کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے، تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں وطن کی حرمت سب سے اوپر ہو۔یاد رکھیں، پرچم کی حفاظت صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں، یہ ہر شہری کا فرض ہے۔ اگر ہم سب اس ذمہ داری کو اپنا لیں تو شاید اگلے سال 14 اگست کے بعد ہمیں سڑکوں پر گرے جھنڈے نہ دکھائی دیں۔ ہم ایک ایسا دن دیکھ سکیں جب ہر پرچم فخر سے لہرائے اور زمین پر کوئی ٹکڑا نہ پڑا ہو۔یہ تصویر ایک سوال ہے، ایک پیغام ہے، اور ایک عہد ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اس لمحے کی طرح جھک کر اپنے وطن کی عزت اٹھا سکتے ہیں؟ پیغام یہ ہے کہ وطن سے محبت کا اصل معیار عمل ہے، اور عہد یہ کہ ہم اپنے پرچم کو کبھی زمین پر نہ گرنے دیں گے—نہ عزت میں، نہ حقیقت میں۔

دنیا بھر سے پاکستانی ستاروں کا پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستان کو خراج تحسین 🇵🇰🤍💚پاکستان پائیندہ باد🫰🤲
14/08/2025

دنیا بھر سے پاکستانی ستاروں کا پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستان کو خراج تحسین 🇵🇰🤍💚
پاکستان پائیندہ باد🫰🤲

ایک سطر… مگر ہزار داستانیں سمیٹے ہوئے۔آسٹریلوی لڑکی ہنّا تمسون کی جرات اور عزم دنیا کے لیے مثال بن گئی۔ فلسطین سے اظہارِ...
14/08/2025

ایک سطر… مگر ہزار داستانیں سمیٹے ہوئے۔

آسٹریلوی لڑکی ہنّا تمسون کی جرات اور عزم دنیا کے لیے مثال بن گئی۔ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں پولیس تشدد سے ایک آنکھ ضائع کرنے کے باوجود، وہ کل دوبارہ سڑکوں پر نکلیں۔ اس بار انہوں نے اپنی زخمی آنکھ کو فلسطین کے پرچم سے ڈھانپ رکھا تھا اور کہا:

"خوش ہوں کہ میرے پاس دوسری آنکھ ہے جس سے میں دیکھ سکتی ہوں کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔"

یہ لمحہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک گہرا پیغام ہے—کاش ہم اپنے سُست روی کے حصار توڑ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے۔

یہ تصویر پاکستان کی 78ویں سالگرہ کے موقع پر لی گئی، مگر اس میں آتشبازی کا شور نہیں، نہ ملی نغموں کی گونج ہے، نہ ہنسی خوش...
14/08/2025

یہ تصویر پاکستان کی 78ویں سالگرہ کے موقع پر لی گئی، مگر اس میں آتشبازی کا شور نہیں، نہ ملی نغموں کی گونج ہے، نہ ہنسی خوشی کے رنگ… بلکہ خاموشی ہے، تھکن ہے، ایک گہرا دکھ ہے۔ یہ شخص ہاتھوں میں پاکستان کے چند چھوٹے جھنڈے تھامے بیٹھا ہے، مگر اس کے چہرے پر ایسا کرب ہے جو لفظوں میں مکمل بیان نہیں ہو سکتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سوال ہے، شاید ہم سب سے، شاید خود اس وطن سے… کہ 78 سال گزر گئے، مگر اس کے حصے میں آج بھی صرف مٹی، گرد، محنت کا پسینہ اور محرومی کیوں آئی؟
یہ جھنڈے اس کے لیے فخر کا نشان نہیں بلکہ روٹی کا وسیلہ ہیں۔ وہ انہیں اس لیے نہیں پکڑے کہ جشن منانا چاہتا ہے، بلکہ اس لیے کہ بیچ کر اپنے گھر کے چولہے میں آج کچھ ڈال سکے۔ یہ منظر چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ آزادی کا مطلب ہم نے کتنا محدود کر دیا ہے۔ ہم قیمتی کپڑوں میں سبز رنگ اوڑھ کر، مہنگی گاڑیوں پر جھنڈے لگا کر، سوشل میڈیا پر تصویریں ڈال کر خوش ہو جاتے ہیں۔ مگر کسی نے یہ سوچا کہ ان جھنڈوں کو بنانے والے یا بیچنے والے کے گھر میں بھی اس دن روشنی، خوشی اور پیٹ بھرنے کا سامان ہے یا نہیں؟
اس کے ہاتھ سخت ہیں، شاید اینٹیں اٹھانے سے، شاید روز دھوپ میں جلنے سے۔ چہرے پر گرد اور آنکھوں میں وہ خاموشی ہے جو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے زندگی میں خوشی سے زیادہ محرومی دیکھی ہو۔ وہ اپنے وطن سے نفرت نہیں کرتا، بلکہ شاید اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ آج بھی سبز ہلالی پرچم کو سب سے نرمی سے تھام رکھا ہے۔ مگر محبت کے بدلے اسے کیا ملا؟ غربت، بے بسی اور ایک زندگی جو جشن منانے کے قابل ہی نہ رہی۔
آزادی صرف ایک دن کا نعرہ نہیں ہوتی، نہ صرف دشمن سے بچنے کا نام ہے۔ آزادی اس وقت مکمل ہوتی ہے جب کوئی بھوکا نہ سوئے، جب کسی کے بچے اسکول سے محروم نہ ہوں، جب محنت کش کا پسینہ عزت میں بدلے، نہ کہ ذلت میں۔ یہ 78 سال کا سفر ہمیں بتا رہا ہے کہ ہم نے ملک تو حاصل کر لیا، مگر قوم بنانے کا کام ابھی ادھورا ہے۔ ہم نے جھنڈے اونچے کر دیے، مگر انسان کو اونچا اٹھانا بھول گئے۔
یہ شخص ان سب تقاریب سے دور، ایک کونے میں بیٹھا، شاید دل ہی دل میں یہ سوچ رہا ہے کہ "یہ سبز پرچم میرے لیے کب خوشی لائے گا؟" اور ہم سب کے لیے یہ لمحہ ایک کڑوا سچ ہے کہ جب تک یہ سوال باقی ہے، ہماری آزادی ادھوری ہے۔ جشنِ آزادی کے اصل معنی تب ہوں گے جب یہ شخص اگلے سال اسی موقع پر جھنڈے بیچنے کے بجائے اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ خوشی منائے، جب اس کے کپڑے گرد آلود نہ ہوں بلکہ دل امید سے بھرے ہوں، جب یہ پرچم اس کے لیے صرف روٹی کا ذریعہ نہیں بلکہ فخر اور خوشی کی علامت ہو۔
یہ تصویر ہمیں رلا دینے کے لیے کافی ہے، اگر ہمارے دل ابھی تک سخت نہیں ہوئے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں پاکستان کا وہ چہرہ جھلک رہا ہے جو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیا۔ اور شاید یہ وقت ہے کہ ہم اپنی نظریں نہ پھیریں بلکہ اس حقیقت کو بدلنے کے لیے کچھ کریں… کیونکہ یہ جھنڈا صرف لہرانے کے لیے نہیں بلکہ اس زمین پر بسنے والے ہر انسان کے خواب پورے کرنے کے لیے ہے۔

"آزادی کی قیمت"تحریر: شازیہ مقصود (میری انعام یافتہ تحریر)وہ لٹے پٹُے سے قافلے جو وطن بنا کر چلے گئےجو نہ رک سکے. نہ جھک...
14/08/2025

"آزادی کی قیمت"
تحریر: شازیہ مقصود (میری انعام یافتہ تحریر)

وہ لٹے پٹُے سے قافلے
جو وطن بنا کر چلے گئے
جو نہ رک سکے. نہ جھک سکے

جو چمن سجاکر چلے گئے
ہمیں یاد ہیں ہمیں یاد ہیں

پاکستان زنده باد پاکستان پائندہ باد

"دادا جان ہم اپنا گھر کب سجائیں گے؟ میرے سارے دوستوں نے اپنے گھر پر جھنڈے لگا لیے ہیں اور پورا گھر جھنڈیوں سے سجا لیا ہے"۔ احمد صاحب نے جیسے ہی نماز ختم کی، ان کا آٹھ سالہ پوتا سعد منہ بسورتے ہوئے بولا۔ "اچھا بھئی چلتے ہیں لیکن تمہیں ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ جیسے ہی 14 اگست کا دن ختم ہوگا تم اپنے بابا کے ساتھ مل کر ساری جھنڈیاں احتیاط کے ساتھ اتارو گے اور انھیں بہت سنبھال کر رکھو گے"۔ "ٹھیک ہے دادا جان وعدہ" سعد نے اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دے کر وعدہ کیا۔ جب وہ دونوں گھر سے باہر نکلے تو انہیں اسٹالز پر ہر طرف سبز ہلالی پرچم اپنی بہار دکھاتے نظر آئے۔ "بھائی یہ والا کتنے کا ہے؟"۔ انھوں نے ایک بہت بڑے جھنڈے کی قیمت پوچھی۔ "انکل سب سے بڑا ھزار روپے کا ہے، درمیان والا سات سو کا اور سب سے چھوٹا پانچ سو کا دوں گا"۔ "دادا مجھے سب سے بڑا والا لے دیں"۔ سعد نے ضد کی۔ "بیٹا کچھ مناسب پیسے کردو"۔ وہ دوکاندار سے بولے۔ "انکل جھنڈا تو قدرت کا انمول تحفہ ہے اس کی قیمت تو میں اور آپ ادا کر ہی نہیں سکتے"۔ اس بچے نے بہت خوبصورت اور گہری بات کر دی تھی۔
رات کو جب احمد صاحب سونے لیٹے تو اس بچے کی بات انھیں یاد آئی۔ واقعی آزادی اور آزاد وطن اللّٰہ تعالیٰ کا بہت عظیم الشان تحفہ ہے اور اس کی قیمت صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جنھوں نے اس آزادی کی قیمت ادا کی ہے۔ وطن کی خاطر اپنا سب کچھ وار دینے والے خاندانوں میں سے ایک خاندان احمد صاحب کا بھی تھا۔
اماں جان اور پھوپھی جان جنھہں انھوں نے ساری زندگی روتے بلکتے دیکھا، سگی چچا زاد بہنیں تو تھیں ہی لیکن ساتھ ساتھ گہری سہیلیاں بھی تھیں اور ایک جیسے نصیب رکھتی تھیں۔ ہزاروں عورتوں کی طرح دونوں نے اپنے اپنے سہاگ ملک پر وار دیے تھے اور خود رات کے اندھیرے میں اپنے بچے لئیے اور زیورات کی صندوقچی اٹھالی تھی جو آڑے وقتوں میں بہت کام آئی۔ جلتی ٹرینوں میں قتل وغارت گری سے بچتے بچاتے اپنے بچوں کو سنبھالتے ہوئے کس طرح یہ دونوں عورتیں کراچی کیمپ پہنچی تھیں یہ داستان بھی بہت المناک تھی۔ وہاں کیمپ میں موجود ایک رشتے دار کے توسط سے آگے کے رستے کچھ آسان ہوئے تھے۔ احمد صاحب بڑی آپا اور بھیا سے یہ داستان زندگی میں کئی بار سن چکے تھے۔ابا کی تو انھیں شکل بھی یاد نہیں تھی۔ بڑی آپا اور بھیا کی شفقت کے سائے تلے بڑے ہوئے تھے۔ اماں اور پھوپھی کو تو سارا بچپن ساری زندگی بس انڈیا کی باتیں کرتے دیکھا اور سنا۔ لگتا تھا اماں اپنا وجود تو پاکستان لے آئی ہیں مگر اپنا دل وہیں چھوڑ دیا ہے۔ اتنی دل سوز داستان کہ سننے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ اماں پٹنہ کے نواب خاندان کی اکلوتی وارث تھں۔ سونے پہ سہاگا ان کی شادی بھی اسی طرح کے صاحب حیثیت خاندان میں ہوئی تھی۔ان کا شاہانہ رہن سہن ان کی میکے اور سسرال کی پر شکوہ اور شاندار حویلیاں وہ نوکر چاکر وہ روپیے پیسے کی ریل پیل، یہاں تک کہ پیار اور عزت کرنے والا سہاگ۔ سب کچھ تو وہیں رہ گیا تھا۔ اماں صرف اس وقت مسکراتی تھیں جب ابا کی کوئی بھولی بسری یاد ان کے ذہن پر دستک دیتی تھی۔ ورنہ وہ سارا دن اپنے بستر پر چپ چاپ لیٹی رہتی تھیں۔ کسی دن اچانک ایسا ہوتا کہ اماں اور پھوپھی جان یادوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتیں۔ اماں اپنی گڑیا مدھو بالا کو یاد کرتیں۔ جو شادی کے دن تک ان کے ساتھ رہی۔ اور پھر ننا نے زبردستی ان سے لے کر صندوق میں چھپا دی تھی جو پھوپھی جان نے چپکے سے انہیں واپس لا کر دے دی تھی۔
اور اس رات کی کہانی تو احمد صاحب کو ازبر ہو چکی تھی جس رات بلوائیوں کے حملے کی اطلاع تھی۔ گھر کے پرانے ہندو نوکر نے حق نمک ادا کرتے ہوئے یہ اطلاع دی تھی کہ آج رات بڑی حویلی پر حملے کی پوری تیاریاں مکمل ہیں۔ بڑے ابا نے گھر کی ساری خواتین کو بڑے ہال میں جمع کیا تھا اور سب کو تاکید کی تھی سب مغرب ہوتے ہی سارے چراغ گل کردیں اور ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ اپنی حفاظت کی پوری کوشش کریں اور نہ کر سکیں تو کنوئیں میں کود جائیں مگر بلوائیوں کے ہاتھ نہیں آئیں۔ وقت رخصت بڑے ابا رو رہے تھے۔ انھوں نے باری باری سب کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہم سب بھی رو رہے تھے۔ اماں روتے ہوئے بولیں۔ الہام ہو رہا تھا جیسے آخری بار مل رہے ہوں اور اب ایک دوسرے کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکیں گے اور پھر وہی ہوا تھا۔ وہ منظر ہمیشہ کے لئیے آنکھوں میں ٹھہر گیا تھا۔ "اللّٰہ کی امان میں دیا"۔بڑے ابا آنسو پونچھتے ہوئے باہر نکل گئے تھے۔
"اماں کیا واقعی آپ لوگ کنویں میں کود کر جان دے دیتے؟"۔جب احمد چھوٹے تھے تو ہزاروں بار اماں سے یہ سوال پوچھ چکے تھے۔ "ہاں بیٹا ضرورت پڑتی تو یہ بھی کر گزرتے"۔ "دوسری منزل سے کنوئیں میں کودنے میں ڈر نہیں لگتا؟"۔ وہ اماں سے معصومیت سے سوال کرتے۔ "نہیں بیٹا اس ایک رات میں زندگی کے اتنے تکلیف دہ رنگ دیکھے کہ سارا خوف ختم ہو گیا تھا"۔
اطلاع بلکل درست تھی مغرب کے کچھ دیر بعد ہی بلوائیوں نے حملہ کردیا تھا۔ پوری حویلی کو آگ لگا دی۔ گھر کے مردوں نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر یہ چند تھے اور ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ ایک ایک کر کے سارے مرد شہید ہوگئے۔حویلی کے زیادہ تر مرد اور خواتین شہید ہوئے اور جو بچ گئے ان میں ایک عمر رسیدہ مسلمان نوکر تھا جس کی مدد سے یہ دو چار زندہ بچ جانے والی عورتیں اپنے بچوں کو لے کر پاکستان جانے والی ٹرین میں بیٹھیں اور کس طرح یہ ٹرین بلوائیوں سے بچتی بچاتی پاکستان پہنچی یہ ایک علیحدہ المناک داستان تھی۔ "اور بیٹا ہمیں اپنے اصل نقصان کا اندازہ تو گزرتے ہر دن کے ساتھ ہوا۔ اس زیاں کا حساب تو اب ساری زندگی کرنا ہے"۔ اماں اور پھوپھی ایک دوسرے کے آنسو صاف کرتیں اور پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر بلک بلک کر روتیں اور دونوں چپ چاپ بہت سارے دنوں کے لئیے کمرہ نشین ہو جاتیں۔ دونوں کی پوری زندگی اسی طرح یادوں کی پٹاری کے سہارے گزر گئی۔ آخری دنوں میں اماں بہت خوش رہتی تھیں۔ شاید ان کو الہام ہو گیا تھا کہ وہ ابا اور اپنے سب پیاروں سے ملاقات کرنے والی ہیں۔ چند ہی ہفتوں کے فرق سے آگے پیچھے سفر آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ احمد صاحب نے اپنی برستی آنکھیں صاف کیں۔ آزادی کی اہمیت تو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے اس کی قیمت ادا کی ہو۔ انہوں نے دکھی دل سے سوچا کہ آزادی کے یہ ماہ وسال ان کے سامنے تھے کہ ملک کس مقصد سے حاصل ہوا تھا اور کس ڈگر پر چل پڑا تھا۔ ایک طرف وہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے کہ جس مقصد کے لیے اور جس نام پر یہ یہ ملک حاصل ہوا تھا وہ یہاں دور دور تک نافذ العمل نظر نہیں آتا تھا۔ ان کے خاندان سمیت ہزاروں خاندانوں کی دلخراش داستانیں اس مٹی کے بنیادوں میں رقم تھیں۔ ان کی ماں زندگی کی آخری سانس تک ماضی کی قید میں رہیں۔ کتنی عجیب بات ہے تحفے کی قیمت تو ادا کی گئی مگر قدر نہیں کی گئی لیکن شاید ابھی بھی وقت ہے۔ انھوں نے پر امید ہو کر سوچا۔ جس طرح آج سعد کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے بہت سارے بچے پورے ملک میں اپنے اپنے گلی محلوں کو جوش و خروش سے سجا رہے ہیں سنوار رہے ہیں، ان کے دلوں میں وطن کی محبت لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔ شاید آنے والے وقتوں میں یہ لگن ملک کو واقعی میں سجا دے، سنوار دے۔۔(آمین)۔
امید پر دنیا قائم ہے!!
(ختم شد)

13/08/2025

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qalam Kahani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share