الطاف حسين پنهور

  • Home
  • الطاف حسين پنهور

الطاف حسين پنهور محبت، انسانیت اور ہر شئے کیلئے پوزیٹِو جزبات یہی
ثابت کرتا ہے کہ آپ "انسان" ہو۔ I believe, truth is everything in this universe.

That's why I always prefer the truth, whether the matter is small or big, whatever the result, regardless of profit or loss, I always stand by the truth.

سچائی" پر الطاف حسین پنہور کا فلسفہعلی اور اللہ میں ف ر ق !باب دوم:ـانسان (مسلمان) تین کیٹیگریز یا طبقات یا لیوِلز میں گ...
05/11/2025

سچائی" پر الطاف حسین پنہور کا فلسفہ

علی اور اللہ میں ف ر ق !

باب دوم:ـ

انسان (مسلمان) تین کیٹیگریز یا طبقات یا لیوِلز میں گھومنے اور رہنے کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ وہ 3 طبقات آخری باب (4) میں نظر آئیں گی اِس باب میں درج زیل مذکورہ طبقات کہ ڈھانچے کی دوسری کڑی ہے۔

الف اسلام الف انسان الف اللہ
عین عبادت عین عشق عین علی

تفصیل الف اسلام عین عبادت: -
الف اسلام اللہ کی طرف سے انسان کو دیا گیا ایک قانون ہے جو اس کیلئے مکمل ضابطہِ حیات ہے۔ یہ ایک کانسیپٹ ہے۔ اور عین عبادت اسے سچ ثابت کرتا ہے۔

ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان اگر اسلام کا اطلاق کرے تو اسکا یہ عمل عبادت بن جائے گا۔

پہلی مثال:-
اسلام حکم دیتا ہے کہ مانو "تمہارا رب ایک اللہ ہے، توحید پر ایمان رکھو اور عمل کرو"، اگر انسان اس حکم کی تعمیل کرے اور زبان و قلب سے توحید پر عملی اظہار و اقرار کرے تو یہ عمل اسکیلئے عبادت بن جائے گا۔ اللہ پاک توحید کہ کلمات دہرانے سے بھی انسان کی بیشمار نیکیاں لکھواتا ہےاور اجر اطا کرتا ہے۔

دوسری مثال:-
الف اسلام کہتا ہے حضرت محمد صہ اللہ کے آخرے نبی ہیں یہ بات مانو اور انکے زریعے اللہ نے جو احکامات تم تک پہنچائے ان پر عمل کرو مطلب نماز قائم کرو، روزے رکھو، ذکواۃ ادا کرو، صاحب ِحیثیت ہو تو حج ادا کرو، والدین کے ساتھ حسن صلوک کرو، اپنے نفس اور یتیموں، مسکینوں، پڑوسیوں کہ حقوق جان لو اور ادا کرو۔۔۔ جب انسان نے الف اسلام کہ ان احکامات / قوانین پر عمل کیا تو وہ عین عبادت ہوگئی۔ رسالت کو زبان، قلب سے ماننے دہرانے سے اللہ پاک انسان کی نیکیاں لکھواتا ہے۔ نماز قائم کریگا، روزے رکھے گا زکواۃ ادا کرے گا، صاحبِ حیثیت ہوتے ہوئے حج ادا کرے گا، والدین کہ ساتھ حسن صلوک کرے گا، اپنے نفس، یتیموں، مسکینوں غریبوں اور پڑوسیوں کہ حقوق ادا کرے گا تو یہ عین عبادت میں شمار ہوجائے گا اور اللہ اسکا اجر لکھوائے گا۔ ثابت ہوا کہ الف اسلام جو کہ ایک قانون ہے، انسان اسکا اطلاق کرتا ہے تو وہ عین عبادت ہوجاتا ہے۔
اب فائنلی ہم بول سکتے ہیں کہ "الف اسلام" ایک کانسیپٹ ہے اور "عین عبادت" اسکا دلیل و ثبوت! جہاں یہ عین عبادت نہیں وہاں الف اسلام بھی نہیں!
دراصل اسلام ہے ہی عبادت!

تفصیل الف انسان عین عشق: -
الف انسان اللہ کی بنائی ایک پسندیدہ و خاص مخلوق ہے۔ یہ ایک کانسیپٹ ہے۔ اور عین عشق اسے سچ ثابت کرتا ہے۔

مثال:-
اللہ عاشق ہے حضرت محمدصہ کا! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ صہ کہ عشق میں ہی یہ پوری کائنات بنائی اور زمین پر انسان کہ رہنے سہنے کا انتظام کردیا ۔ ہم بول سکتے ہیں کہ الف انسان ایک کانسیپٹ ہے اور عین عشق نے ہی اسے پورا کیا! انسان کی تخلیق کا بنیادی سبب ہی عشق ہے! ہر انسان اندر عشق کی تجلی مخفی لیکن موجود ضرور ہے ۔ کسی کو دولت سے عشق تو کسی کو شہرت سے، کسی کو عورت سے عشق ہوجاتا ہے تو کسی کو مرد سے! لیکن اللہ نے جو عشق دیا اسکی حقیقی شکل انسان سے عشق ہے۔۔

جیسے دنیا میں سب سے بڑا زہن رکھنے والے انسان آئن انسٹائن نے کہا تھا کہ "انسان ایک وہم میں مبتلہ ہے جسکی وجہ سے وہ صرف اپنے قریبی چند انسانوں سے ہی عشق کرتا ہے لیکن ہمارا بنیادی مقصد یہی ہونا چاہئے کہ اپنے عشق کہ دائرے کو توسیع دے کر قدرت کی ہر چیز کو گلے لگائیں"

ایک سندھی صوفی شاعر نے فرمایا:
کوئی ہے رحمٰن کی طرف کوئی ہے بھگوان کی طرف
میں سجدہ اسے ہی کروں جو ہے انسان کی طرف

عشق کہ بھی اپنے لیوِلز ہیں۔ جب یہ دنیاوی عشق کا لیوِل کراس ہوتا ہے تو انسان کو اپنے رب کی بنائی ساری کائنات سے عشق ہوجاتا ہے۔ مزہ تب آتا ہے اس عشق میں الگ ہی سرور ہے۔

جتنے بھی اولیاء گذرے ہیں سب کو انسان سے عشق تھا قدرت کی ہر چیز سے عشق تھا۔ وہ غلط ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں اولیاء کو "اللہ" سے عشق تھا، یا پھر انسان کا، اللہ سے عشق حقیقی عشق ہے۔ کسی انسان کی اوقات نہیں کہ وہ اللہ سے عشق کرے کسی انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اللہ کو اپنا محبوب بنائے سوائے "حسین عہ" کہ!
قلندر ہو یا پھر بابا بلے شاہ، بھٹائی ہو، یا غوثِ اعظم ہو یا کوئی اور، یہ انسان اور انسان کیلے (اللہ کی طرف سے) بنائی گئی چیزوں سے عشق کرتے تھے جن میں تمام مخلوقات و کائنات آسکتی ہے تبھی ان پر اللہ کی خاص مہربانیاں ہوئی فضل ہوا، لیکن یہ اللہ کہ عاشق بننے کہ لائق نہیں تھے!

پوری کائنات میں جتنے انسان رہے ہیں ان میں صرف امام حسین ع واحد انسان ہیں جنھوں نے اللہ سے عشق کیا اور اسکی قیمت بھی چکا سکے! محبوب اپنے عاشق سے عجیب و غریب نخرے کرتا ہے اور عاشق وہ نخرے پورے کرنے کیلے عجیب و غریب صورتحال سے بھی گذر جاتا ہے۔ وہی امام حسین ع کہ ساتھ ہوا۔ جو عاشق اپنے محبوب کہ نخرے اٹھا سکتا ہے وہ محبوب سے کوئی بھی مطالبہ کرے، محبوب بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا!

وہ جسکی تقدیر میں اولاد نہیں تھی محمد نے خدا سے پوچھ کر جسے بتایا!
حسین نے تقدیر ہی بدلوا ڈالی!

حسین ع کہ عشق کی قیمت کربلہ ہے!
ہائے! ہائے کربلہ🥲

محبوب کہ نخروں نے عاشق کو یہ کیسی عجیب و غریب صورتحال سے گذار دیا ہائے!

جنھیں جنت کی ٹکیٹ دنیا میں نبی صہ نے دی تھی وہ بھی حسین ع کا ساتھ نہ دے سکے ہائے!😢

ہم روزے میں 13گھنٹے پانی نہیں پیتے ہلک ، گلہ سوخ جاتا ہے آنتیں باہر آنے کو آتی ہیں اور حسین ع اپنے اہل و ایال بشمول معصوم بچوں کہ 3 دن پیاسے رہتے ہیں! ہائے! 😭😭

اللہ کی قسم حسین ع چاہتا وہیں کہ وہیں آبِ کوثر انکے قدموں میں آ پہنچتا !

جنگ میں محمدصہ کی مدد کیلئے 3 ہزار فرشتے لڑنے آئے تھے حسین ع چاہتا اللہ کی بنائے ہر مخلوق بشمول تمام فرشتے جنگ میں حسین کا ساتھ دینے آجاتے!

لیکن نہیں، عاشق کو عشق کی قیمت جو چکانی تھی!

اپنے محبوب کی طرف سے کیا گیا نخرہ جو پورا کرنا تھا! اس عجیب و غریب صورتحال سے خود کو گذارنا جو تھا!

اسلئے میں نے کہا کسی ماں کہ لعل میں اتنی طاقت ہی نہیں ،کسی کی اوقات نہیں کہ وہ اللہ سے عشق کرے اور اللہ کو محبوب بنائے!

عشق میں کبھی عاشق غلام تو کبھی محبوب !
حسین کہ سوا کسی میں جراءت ہے کہ خدا کو خدا کا فیصلا بدلنے پر مجبور کر سکے؟؟

انسان کی خلقت کی وجہ ہے عشق
ہرکوئی مرے گا تا کہ قیامت میں اٹھ کر دیکھ سکے
خدا کا محمد صہ سے عشق!

انسان ایک کانسیپٹ تھا، عین عشق نے اسے سچا ثابت کردیا!

الف انسان اور عین عشق ایک ہی ہیں،
جس میں عشق نہیں وہ انسان ہی نہیں!
#سچائی #فلسفہ #الطاف
جاری۔۔۔۔۔

😂😂😂😂
01/11/2025

😂😂😂😂

"سچائی"  پر الطاف حسین پنہور کا  فلسفہعلی اور اللہ میں ف ر ق!  باب اول:ـانسان (مسلمان) تین کیٹیگریز یا طبقات یا لیوِلز م...
31/10/2025

"سچائی" پر الطاف حسین پنہور کا فلسفہ

علی اور اللہ میں ف ر ق!
باب اول:ـ
انسان (مسلمان) تین کیٹیگریز یا طبقات یا لیوِلز میں گھومنے اور رہنے کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ وہ 3 طبقات آخری باب (3) میں نظر آئیں گی اِس باب میں درج زیل مذکورہ طبقات کہ ڈھانچے کی ایک کڑی ہے۔

الف اسلام الف انسان الف اللہ

تخلیقی ترتیب:
بائیں طرف سے جو پہلا ہے وہ ہے "اللہ" اس سے پہلے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہی ازل ہے وہی ابد ہے۔ وہی خالق ہے وہی مالک ہے، وہی رازق ہے وہی کامل ہے وہی کارساز ہے وہی غالب ہے۔۔۔۔۔۔
بائیں طرف سے دوسرے نمبر پر آپ "انسان" کو دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ نے ویسے تو اپنی کامل حکمت و قدرت سے بیشمار تخلیقات کیں پر اس کی سب سے خاص و پسندیدہ تخلیق "انسان" ہی تھی ۔ جسے اس نے اپنا نائب بھی بنایا ہے۔
بائیں جانب سے تیسرے نمبر پر ہے "اسلام" جو کہ اللہ کا انسان کو دیا گیا قانون ہے ، یہ انسان کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات کہلاتا ہے۔

اطلاقی ترتیب:
مندرجہ بالا تین الف میں دائیں طرف سےسب سے پہلے ہے اسلام، یہ خود ایک قانون ہے یہ کسی کو فالو نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کا اطلاق ہوگا "انسان"پر۔ تو ہم بول سکتے ہیں اطلاق کہ لحٰظ سے پہلے الف کا دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اسلام ہے انسان کیلئے۔
دائیں طرف سے دوسرے نمبر پر ہے "انسان" یہ مخلوق ہے، اور یہ پابند ہے کہ یہ اپنے دائیں سائڈ والے یعنی اسلام کا اطلاق کرے، اور یہ (انسان) خود کس کیلئے ہے؟ جو اسکے آگے ہے "اللہ" کیلئے۔ یہ اللہ کا امر ہے، پسندیدہ ہے، خاص ہے اور اسکا ایک تعلق ہوا اللہ سے۔
اسکے بعد اگر سوال کا سلسلہ بڑھائیں کہ اللہ کس کیلئے ہے؟ یا اللہ کس کو فالو کرے گا ؟ (نعوذبااللہ )۔ تو دیکھیں اللہ کے آگے کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن یہی بتاتاہے کہ نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ کسی کا باپ۔ اسے ضرورت اور پرواہ نہیں ہے کہ کسی چیز یا کسی حکم کو وہ اپنائے (نعوذبااللہ )۔ بلکہ پوری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز اسکے حکم کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یا وہ کسی خاصیت کو اپنائے (نعوذبااللہ )۔ بلکہ اسکی خاصیتیں کامل ہیں اور اس نے خود اپنی مرضی اور حکمت سے اپنی کچھ مخلوقات کو عارضی طور پر اپنی کچھ خاصیتوں میں سے محدود حالت میں خاصیتیں دے رکھی ہیں جیسے کہ زندہ رہنا، کائنات کا پھیلائو اور حرکت وغیرہ۔ اور اللہ کسی کیلئے نہیں ہے (ملکیت)۔ پر سب کچھ اسکیلئے ہے (ہر شئی پر اسکی حکومت، غلبہ و قدرت ہے وہ سب کا مالک ہے)۔

مندرجہ بالا تین الف والی کڑی کہ دونوں اطراف جائیں تو ایک طرف "اسلام" ہے جس کہ پہلے یا بعد کوئی اور قانون یا مزہب نہیں ہے۔ وہی کامل، پہلا اور آخری "قانون" ہے۔ اور دوسری طرف سے " اللہ" لکھا ہے جس سے پہلے یا آخر میں کوئی خالق، کارساز، مالک یا خدا نہیں ہے وہی پہلا ہے وہ ہمیشہ سے تھا اور وہی ہمیشہ کیلئے رہے گا۔ وہی اذل و ابد کا خالق ہے وہی زمان و مکان کا خالق ہے۔
اور انسان وہ ہے جو ان دونوں (اسلام اور اللہ) کہ درمیان (تعلق بنائے) رہتا ہے۔ جس نے اسلام کو اپنایا اس نے خدا کو اپنایا۔ اور پھر خدا بھی اس انسان کو اپنائے گا۔

اس تحریر کہ پہلے دو الفاظ پر غور کریں تو میرے نظریہ میں انسان ہونا مسلمان ہونے سے مشروط ہے۔
جاری۔۔۔۔
#سچائی #فلسفہ #الطاف

30/10/2025

Meri apni Shayari Meri Apni Shakal Meri Apni Video😎

29/10/2025

Chalo AJ ye b maalum hua "Azad"

Bohat ziada Rone se Aankhen Sooj jaati hen

جنات                 🧠 شیزوفرینیا             یا                          حقیقت؟شیزوفرینیا ایک ذہنی بیماری ہے جس میں مری...
27/10/2025

جنات 🧠 شیزوفرینیا یا حقیقت؟

شیزوفرینیا ایک ذہنی بیماری ہے جس میں مریض آوازیں سنتا ہے اور بعض اوقات خیالی چیزیں بھی دیکھتا ہے۔ یہ آوازیں اور مناظر حقیقت نہیں ہوتے، بلکہ مریض کے دماغ کا وہ حصہ خراب ہو جاتا ہے جو حقیقت اور خیالات میں فرق کرتا ہے۔

👂 یہ آوازیں اور خیالات کہاں سے آتے ہیں؟
یہ آوازیں مریض کے اپنے دماغ کی پیدا کردہ ہوتی ہیں، جنہیں دماغ غلطی سے باہر سے آنے والی آوازیں سمجھتا ہے۔ شیزوفرینیا کے مریض خیالی شخصیات، جانوروں، فرشتوں یا جنات کو بھی دیکھ سکتے ہیں، جو صرف اُن کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔

🛑 پاکستان میں بہت سے لوگ اسے جنات کا اثر سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے مریض کو پیر، عامل یا تعویذ کرنے والوں کے پاس لے جاتے ہیں، جبکہ صحیح علاج نفسیاتی ماہر کے ذریعے ممکن ہے۔

🩺 شیزوفرینیا ایک بیماری ہے، جن بھوت کا سایہ نہیں!
جلدی تشخیص اور علاج سے مریض کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کے بارے میں آگاہی بڑھانا ضروری ہے تاکہ مریض کو صحیح علاج مل سکے اور وہ بہتر زندگی گزار سکے۔

#شیزوفرینیا #نفسیاتی #مریض #جنات

اگر ہم روشنی کی رفتار سے دوڑیں تو1.3 سیکنڈ میں چاند تک پہنچیں گےاور8.3منٹ میں سورج تک پہنچ پاٸیں گے۔ چاند ہم سے صرف3 لاک...
26/10/2025

اگر ہم روشنی کی رفتار سے دوڑیں تو1.3 سیکنڈ میں چاند تک پہنچیں گےاور8.3منٹ میں سورج تک پہنچ پاٸیں گے۔ چاند ہم سے صرف3 لاکھ 84 ہزار کلو میٹر اور سورج تقریبا149ملین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۔
لیکن یہ رفتار حاصل کرنا ممکن نہیں۔۔۔۔اس کے علاوہ اگر ملکی وے کہکشاں سے باہر نکلنا چاہیں تو تقریبا2 ہزارسال کا وقت لگےگا،کیونکہ ملکی وےکہکشاں میں ہماری زمین جس پوزیشن پر ہے وہاں سے نکلے کے لیے کم از کم 2000سال کا وقت چاہیۓ۔۔
لیکن اگر ہم روشنی کی رفتار سےایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک سفر کریں تو تقریبا ایک لاکھ سال کا وقت لگے گا،کیونکہ ملکی وے کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری سال ہے۔۔
ناسا ماہرین کا کہنا ہے کہ کاٸنات میں 2000 ارب کے قریب کہکشاٸیں ہیں۔جبکہ ملکی وے کہکشاں دو ہزار ارب کہکشاٶں میں ایک درمیانے ساٸز کی کہکشاں ہے جس میں 250 بلین سے لے کر 400 بلین تک ستارے موجود ہیں۔
سورج بھی ان ستاروں میں سے ایک ہے، آسمان پر آپ صرف ملکی وے کے ستارے ہی دیکھ سکتے ہیں،باقی 1999 ارب کہکشاٶں کو آپ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ وہ ہماری زمین سےبہت ہی دور ہیں۔تاہم ان میں سے105 کے قریب کہکشاٶں کو آپ کمپیوٹرز ٹیلی سکوپ سے دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن ان میں موجود ستارے اور سیارے آپ پھر بھی نہیں دیکھ سکتے، یہ ستارے اور سیارے کہکشاں کے اندر قید ہوتے ہیں۔جوکہ کہکشاں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ان ستاروں کو دیکھنے کے لیے ہبل اور جیمز ویب جیسی پاور فل ٹیلی سکوپ کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہماری زمین 3 چیزوں کے اندر قید ہے اور اس سے ہم چاہتے ہوٸے بھی نہیں نکل سکتے۔۔۔۔۔یعنی زمین ملکی وے کہکشاں،پھر لوکل کلسٹرز اور آخر میں ورگو سپر کلسٹر ہیں۔ان سب سےہمیں دنیاکی کوٸی طاقت نکال نہیں سکتی۔
رات کے وقت آسمان پر آپ جو ستارے دیکھ رہے ہیں وہ تمام ستارے ملکی وےکےاندر ہیں،جبکہ خود ملکی وےکہکشاں لوکل گروپ کلسٹرکے اندر ہے،لوکل گروپ کلسٹرز کا قطر 10ملین نوری سال ہےاور اس میں30 سے زیادہ ملکی وے کی طرح کہکشاٸیں موجود ہیں۔۔ لوکل گروپ کلسٹرز۔۔۔کی تمام تر کہکشاٸیں ورگو سپر کلسٹرز کے اندر ہیں۔
یعنی ہم ورگو سپر کلسٹر کے اندر رہتے ہیں۔۔۔۔یہ ہمارا اپنا ہی سپرکلسٹر ہے،جسمیں100کےقریب کہکشاٸیں موجود ہیں۔۔۔۔۔جن میں بعض ملکی وے کہکشاں سے ساٸز میں چھوٹی جبکہ بعض بڑی ہیں۔۔ورگو سپر کلسٹرز کا قطر110 ملین نوری سال ہے۔
اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ روشنی ورگو سپر کلسٹر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کیلٸے110 ملین سال کاوقت لیتی ہے۔اسکا اندازہ آپ خود لگالیں کہ یہ کتنا بڑا ہوگا۔۔
دلچسپ بات یہ ہےکہ ورگوسپرکلسٹر بھی کائنات کے اندر ہی ہے اور کائنات کا قطر 93 بلین نوری سال ہے۔۔ اگر کوٸی شخص کائنات سے باہر نکلناچاہے تو اس کے لیے 93 بلین سال کا وقت درکار ہوگا۔
کاٸنات کتنی بڑی ہے؟اسکا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہےکہ کائنات کےایک کنارےکی کہکشاٶں میں موجود ستاروں کی روشنی ابھی تک۔۔۔۔۔دوسرے کنارے تک نہیں پہنچی ہے۔
بلکہ اس کےلیے مزید 80 بلین سال کا عرصہ درکار ہے کیونکہ ان کی روشنی نے ابھی بمشکل تقریبا 13 بلین نوری سال کا فاصلہ طےکیاہے،یعنی فوٹانز بھی حیران و پریشان ہیں کہ ہم کاٸنات کےتیزترین ذرات ہونے کے باوجود بے بس ہیں

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کرجلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر
22/10/2025

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رحلت فرمانے سے 3 روز قبل جب آپ صہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ک...
22/10/2025

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رحلت فرمانے سے 3 روز قبل جب آپ صہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا: "میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات حاضر ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
دریافت فرمایا:کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں
عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟ سب نے کہا اے اللہ کے رسول
آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو
حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔

اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد نبوی میں ایک رش لگ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔اور فرماتی ہیں:
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور
اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ
میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"اسی اثناء میں مسجد کے اندر
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان کے پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن
اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے،
تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔فرمایا:" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"سب نے کہا:"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:"اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں،
تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، اللہ کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔!مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ گے جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ دنیا تمہیں بھی ہلاک کر دے گی جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا:"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔پھر فرمایا:"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"مزید فرمایا:"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیاکہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان،ہماری مائیں آپ پر قربان،ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کر دی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:"اے وگو۔۔۔!
ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے،
کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے
طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے
دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔فرماتی ہیں:" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"اُم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی اطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیںحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی کا اظہار کیا تھا؟سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہپہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔جس پر میں رو دی۔۔۔۔"جب انہوں نے مجھے بے تحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:"اے پاکیزہ روح۔۔۔!اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو
غضبناک نہیں۔۔۔!"سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"اس موقع پر سب سے زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔کہہ رہے تھے:وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"پھر کہنے لگیں:"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی لَہٗ
SAW

میں نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ  کو خواب میں دیکھا🥰 میں  کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے بھرا ہوا ایک بالکل عام انسان ہوں ۔ م...
20/10/2025

میں نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو خواب میں دیکھا🥰

میں کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے بھرا ہوا ایک بالکل عام انسان ہوں ۔
مجھے نہیں لگتا کہ میرا اللہ سے کوئی خاص تعلق ہے۔
میری عبادتیں بے قاعدہ ہیں، خیالات منتشر ہیں، اور دل کو ش*ذ و نادر ہی سکون ملتا ہے۔
سچ کہوں تو، میں خود کو کسی خاص عنایت کے لائق نہیں سمجھتا۔

چند دن پہلے، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ میں نے بچپن سے کئی بار آپﷺ کو خواب میں دیکھا ہے،
مگر اُن خوابوں پر کبھی زیادہ غور نہیں کیا۔ لیکن ان پہلے والوں خوابوں میں بھی بہت خاص پیغامات ہوتے تھے پر میں خوف کی وجہ سے خاموش ہی رہا۔

لیکن اس بار کچھ مختلف تھا۔
آپ ﷺ کی موجودگی کا سکون لفظوں سے بڑھ کر تھا، اُن کی خاموشی نے دل کو گہرائی سے چھو لیا۔
اور پھر آپ ﷺ کے الفاظ…! جن میں معنی بھی تھے اور شفقت بھی۔
انہوں ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
"اے دیوانے! اپنے دل سے خوف نکال دو، اور وہی کرو جو تمہارا دل کہتا ہے۔"

اس رات کے بعد سے میں سوچوں کے سمندر میں غرق ہوں۔
آخر آپ ﷺ کس خوف کی بات کر رہے تھے؟
میری زندگی میں خوف تو بے شمار ہیں…
ذاتی خوف، معاشرتی خوف، سیاسی خوف۔
ظلم کے خلاف سچ بولنے کا خوف!
ان نظاموں اور طاقتوں پر سوال اٹھانے کا خوف جو ہماری زندگیوں پر راج کرتے ہیں، چاہے وہ میرے اپنے ملک کے ہوں یا دنیا کے دوسرے حصوں کے۔

کبھی کبھی میرے دل میں ایک عجیب سا احساس پیدا ہوتا ہے، جیسے میں ان ٹوٹے دلوں کو جوڑ سکتا ہوں، نفرتوں کے دریا خشک کر سکتا ہوں، انسانوں کو قریب لا سکتا ہوں۔
مگر پھر حقیقت میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے کہ میں آخر کر بھی کیا سکتا ہوں؟
میں تو ایک عام سا آدمی ہوں، جو بس روزی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ میرے دل میں سب کے لیے ہمدردی ہے۔
مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، دوسرے مذاہب کے ماننے والے، دہریے یا لاادری، جو بھی درد یا ظلم سہتا ہے، میرا دل اس کے لیے تڑپتا ہے۔
مجھے انسانوں سے محبت ہے، تقسیموں سے نہیں۔
میری خواہش ہے کہ میں مذہب اور نسل کی تمام دیواروں سے بالاتر ہو کر سچائی اور انسانیت کے لیے کھڑا رہوں،

اپنی سوچ میں میرا دل اکثر حضرت علی (رضي الله عنه) کی طرف کھنچ جاتا ہے ۔ اُن کی دانائی، اُن کی شجاعت، اُن کا قربِ الٰہی۔
ان کی روشنی میں کچھ ایسا راز پوشیدہ محسوس ہوتا ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا، جیسے وہ کائنات کے کسی چھپے ہوئے سچ کی جھلک ہو۔
میں اکثر چاہتا ہوں کہ حضرت علی (رضي الله عنه) کے بارے میں اپنے احساسات اور خیالات کو بیان کروں، مگر لوگوں کے ردعمل کا خوف مجھے روک دیتا ہے۔ کیا حضور ﷺ نے خواب میں اس خوف کو نکالنے کی بات کی تھی اور حضرت علی رضہ کے بارے میں جو دل میں ہے مجھے دنیا کو وہ بتانا ہے؟

اس خواب کے بعد میں خود کو ایمان اور خوف، خاموشی اور سچائی کے درمیان کھڑا پاتا ہوں۔
میں نے سوچا کہ یہ خواب زہنی وساوس کی وجہ سے ایک عام سا خواب ہوسکتا ہے۔
لیکن پھرمجھے حضور ﷺ کی ایک حدیث یاد آتی ہے:
"جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے حقیقت میں ہی مجھے دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل نہیں اختیار کر سکتا۔"
صحیح بخاری و مسلم
میرے پاس جوابات نہیں ہیں۔
شاید یہ صرف ایک خواب تھا۔
یا شاید… یہ اس سے کہیں زیادہ تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ میں کیا کروں؟
اگر میں آپﷺ کہ اس پیغام پر عمل کرتا ہوں، اپنے دل کی بات بیان کر دیتا ہوں، تو مجھے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Address


Telephone

+923417603474

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when الطاف حسين پنهور posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to الطاف حسين پنهور:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share