Uthal Press Club Tv

Uthal Press Club Tv UPC Tv

لسبیلہ یونیورسٹی اف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل کے ایک اعلامیہ کے مطابق فال سمسٹر 2025 کے کلاسز 15 اگست 2025 ...
06/08/2025

لسبیلہ یونیورسٹی اف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز اوتھل کے ایک اعلامیہ کے مطابق فال سمسٹر 2025 کے کلاسز 15 اگست 2025 سے شروع ہوں گے ۔لہذا تمام طلباء و طالبات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کلاسز میں اپنی حاضری یقینی بنائیں ۔علاوہ ازیں سمسٹر فیس جمع کرانے کی اخری تاریخ 5 ستمبر 2025 مقرر کی گئی ہے ۔

اســـــلام آباد/ اوتھــــــل:: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امور  گلگت بلتستان اور سیفران کے چیئرمین سینیٹر اسد قاسم...
22/07/2025

اســـــلام آباد/ اوتھــــــل:: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امور گلگت بلتستان اور سیفران کے چیئرمین سینیٹر اسد قاسم رونجھو نے کہا ہے کہ ملک کے اہم ترین خطوں کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی اضلاع کے امور سے متعلق پالیسی سازی میں قومی مفادات، بین الاقوامی تناظر اور مقامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن رویہ اپنانا ناگزیر ہے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کشمیر امور، گلگت بلتستان و سیفران ان علاقوں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات مرتب کر رہی ہے تاکہ پارلیمان میں مؤثر قانون سازی کی جاسکے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے اوتھل کے صحافیوں سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ یہ علاقے پاکستان کے مستقبل، جغرافیائی سلامتی اور خارجہ پالیسی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ان علاقوں کے عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کےلیے اقدامات کیے جائیں گے سینیٹر اسد قاسم رونجھو نے کہا کہ گلگت بلتستان میں عوام کو سیاسی، آئینی اور معاشی لحاظ سے مزید بااختیار بنانے کے لیے آئندہ اجلاسوں میں تفصیلی غور ہوگا جبکہ کشمیر کاز کے سلسلے میں پاکستان کی بین الاقوامی سفارتی مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دی جارہی ہیں سیفران کے دائرہ کار میں شامل علاقوں کے لیے ترقیاتی اسکیموں پر عملدرآمد میں شفافیت اور رفتار دونوں ضروری ہیں، سینیٹر اسد قاسم رونجھو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ایک قومی فریضے کے طور پر ادا کریں گے اور متعلقہ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ایسے فیصلے کروانے کی کوشش کریں گے جو ان خطوں کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں۔

بـــریـــکنگ نــــیوز:: اوتھل :: سینیٹر اسد قاسم رونجھو کو حکومت پاکستان کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امو...
22/07/2025

بـــریـــکنگ نــــیوز:: اوتھل :: سینیٹر اسد قاسم رونجھو کو حکومت پاکستان کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امور، گلگت بلتستان اور سیفران (SAFRON – States and Frontier Regions) کا چیئرمین نامزد کر دیا گیا ہے۔ یہ اعلیٰ سطحی ذمہ داری انہیں ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے اعتراف میں سونپی گئی ہے۔

اوتھــــــل:: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی اقلیتی رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل لاسی نے نیشنل ہائی وے اتھا...
08/07/2025

اوتھــــــل:: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی اقلیتی رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل لاسی نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) کی جانب سے اوتھل شہر کے قریبی علاقے کھانٹا ندی سے بائی پاس نکالنے کے مجوزہ منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہری اور آباد علاقوں سے بائی پاس نکالنا عوامی مفاد کے خلاف ہے اور اس سے نہ صرف غریب لوگوں کے مکانات متاثر ہوں گے بلکہ کئی سرکاری عمارتیں بھی زد میں آئیں گی، انہوں نے کہا کہ بائی پاس جیسے ترقیاتی منصوبے عوامی سہولت کے لیے ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں غلط مقام سے شروع کیا جائے تو وہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں کھانٹا ندی کے مقام سے بائی پاس کی تعمیر سے اوتھل شہر کا رہائشی انفراسٹرکچر متاثر ہوگا جبکہ متعدد شہری، کاروباری حضرات اور سرکاری عمارتیں براہ راست زد میں آئیں گی، مکھی شام لعل لاسی نے کہا کہ بائی پاس کی تعمیر ایسے علاقوں سے کی جائے جو غیر آباد یا کم متاثر کن ہوں تاکہ ترقیاتی منصوبے کا اصل مقصد یعنی ٹریفک کی روانی اور شہری دباؤ کم کرنا حاصل ہو اور ساتھ ہی کسی بھی شہری کو نقل مکانی پر مجبور نہ کیا جائے۔ل، انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے متاثر ہونے والے بیشتر افراد غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی رہائش گاہیں اس علاقے میں قائم ہیں اگر یہ منصوبہ بغیر کسی ترمیم کے مکمل ہوا تو درجنوں خاندان بے گھر اور کاروباری طور پر برباد ہو سکتے ہیں، مکھی شام لعل لاسی نے این ایچ اے حکام اور ضلعی انتظامیہ سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ منصوبے پر دوبارہ غور کریں اور عوامی نمائندوں، متاثرہ شہریوں اور علاقائی عمائدین سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کریں تاکہ بائی پاس کا راستہ ایسا منتخب کیا جائے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو، انہوں نے کہا کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی کامیابی کا راز شفافیت، مشاورت اور عوامی فلاح میں ہے اگر عوامی مفاد کو نظر انداز کیا جائے تو ترقی تباہی میں بدل جاتی ہے۔

اوتھــــــل:: پولیس اہلکاروں کی بدمعاشی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، ایس ایس پی لسبیلہاگر پولیس اہلکاروں میں زیا...
01/07/2025

اوتھــــــل:: پولیس اہلکاروں کی بدمعاشی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، ایس ایس پی لسبیلہ
اگر پولیس اہلکاروں میں زیادہ گرمی ہے تو وہ جرائم پیشہ افراد کےخلاف نکالیں عام عوام پر نہیں
غریب لوگوں سے بدتمیزی یا بدمعاشی پر چائے مجھے تمام اہلکاروں کو کیوں نہ نوکری سے نکالنا پڑے، نکال دوں گا، ایس ایس پی لسبیلہ عاطف امیر کی پولیس اہلکاروں کو سخت وارننگ

اوتھــــــل:: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی اقلیتی رہنما سابق رکن صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل لاسی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں...
29/06/2025

اوتھــــــل:: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی اقلیتی رہنما سابق رکن صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل لاسی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں اقلیتوں کے فلاح و بہبود کے لیے شروع کی جانے والی اسکیموں پر تحفظات ہیں بیشتر اسکیموں کے ٹینڈرز تو ہوچکے ہیں لیکن ہنوز ان پر کام شروع نہیں کیا جاسکا جو کرپشن کی نذر ہونے کا خدشہ ہے حالانکہ اس حوالے سے اعلی حکام کو تحریر طور آگاہ کیا گیا لیکن اس پر کوئی شنوائی نہ ہوسکی، اقلیتی برادری کےمستحق افراد کی مالی مدد میں کوئی تاخیر نہ کی جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایس ایم سی فارم اوتھل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ مینارٹی ڈپارٹمنٹ نے ماضی میں ایک پالیسی وضع کی تھی اس پر ایک کمیٹی تشکیل دیکر مستحقِ افراد کی مالی مدد کی جائے لیکن افسوس اس بار اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا جو کسی صورت مناسب عمل نہیں یہ فنڈز کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے نہیں بلکہ حکومت بلوچستان کے ہیں ان فنڈز پر کوئی اپنا نام استعمال نہ کرے مکھی شام لعل لاسی نے کہا کہ سندھ میں اقلیتی برادری پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں سندھ میں اقلیتی برادری عدم تحفظ کا شکار ہوچکی ہے حالانکہ اقلیتی برادری ملک کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کررہی ہے لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ کے اقلیتی ایم پی ایز اور ایم این ایز کا اقلیتی برادری کے تحفظ کےلیے کوئی کردار نظر نہیں آرہا انہیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے ہرفورم پر آواز بلند کرنی چایئے کیونکہ سندھ میں اقلیتی برادری خصوصاً ہندو برادری کی ایک بہت بڑی آبادی آباد ہے لیکن ہر روز سندھ میں اقلیتی برادری پر ظلم و جبر بڑھتا جارہا ہے زبردستی لڑکیوں سے انکا مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے اور نابالغ لڑکیوں سے شادی کرائی جارہی ہے جس سے اقلیتی برادری کے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے انہوں نے حکومت پاکستان، سندھ حکومت تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سندھ کی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلیے اپنا کردار ادا کریں اور حکومت ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے بصورت دیگر بلوچستان کی اقلیتی برادری سندھ میں اقلیتی برادری کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف شدید احتجاج کرے گی۔

AIM OF LIFEمقصد زندگیتحریر، محمد انور جمالیپرنسپل ایلیمنٹری کالج اوتھلاسکول لائف سے یہ سوال سنتے آرہے ہیں اور آج بھی تعل...
28/06/2025

AIM OF LIFE
مقصد زندگی
تحریر، محمد انور جمالی
پرنسپل ایلیمنٹری کالج اوتھل

اسکول لائف سے یہ سوال سنتے آرہے ہیں اور آج بھی تعلیمی اداروں, امتحانات یہاں تک کہ competitive آزمائشوں میں بھی امیدواروں سے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ آپ کا مقصد زندگی کیا ہے ؟؟۔۔۔۔پھر اساتذہ کی رہنمائی میں طلبا وطالبات اپنی ذوق اور لگن کے مطابق مختلف جوابات دیتے ہیں ۔۔۔۔جیساکہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا ٹیچر یا آرمی اور پولیس آفیسر بننا یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا بینک افیسر بننا وغیرہ وغیرہ ۔۔.پھر اساتذہ اور ساتھی طلباء اس پر اپنی اپنی سمجھ اور ذوق کے مطابق تبصرے کرتے رہتے ہیں اور طلباء اپنی زندگی میں سمجھ کر یا بلا سمجھے ایسے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں اور مستقبل میں اپنے اس مقصد کو پانے کے لئے ترکیبیں بھی بناتے ہیں اور اس کے مطابق تیاری بھی کرتے رہتے ہیں اور آگے چل کر اس فیلڈ میں اپنی کیریئر اور پرو فیشن کو کچھ اختیار کر لینے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اکثریت کی وہ محض ایک حسرت ہی بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے یا ان کے پاس دستیاب وسائل موجود نہیں ہوتے یا درکار رہنمائی میسر نہیں ہوتی یا عزم و حوصلہ اور مستقل مزاجی مفقود ہوتی ہے جو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔
بہر کیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی پروفیشن یا کیریئر کو مقصد زندگی بنالینا اور سمجھ لینا ایک صحت مند سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟؟ دیکھا جائے تو معاشرے کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ،انجینئر ،سی ایس ایس آفیسر یا فوجی افسر ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ معاشرے کو چلانے کے لیے مذکورہ پروفیشنل افراد کے ساتھ ساتھ ایک کسان،مزدور، درزی، موچی، حجام،دکاندار یہاں تک کہ ایک سوئپر کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے جن کے بغیر نظام زندگی کو چلانا ممکن نہیں ہےپھر ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر ان کیریئرز اور پیشہ جات کو ہم اپنے Aim of Life کی فہرست میں شامل کیوں نہیں کرتے؟؟ کیا ملک و قوم کی خدمت کے لیے صرف زیادہ آمدنی رکھنے والے پیشہ ور لوگ ہی کام کرتے ہیں ؟ باقی کم آمدنی رکھنے والوں کی خدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟؟؟ آخر اس طرح کی تعلیم و تربیت سے ہم اپنے بچوں کی کیا ذہن سازی کر رہے ہوتے ہیں ؟؟؟
زیادہ آمدنی اور ہائی اسٹیٹس کے چکر میں آج کالج اور یونیورسٹی کا گریجویٹ سب سے پہلے ڈگری کا اسکوپ معلوم کرنا چاہتا ہے ملک اور بیرون ملک مواقع دیکھنا چاہتا ہے خاص طور پر اگر وطن عزیز میں ملک و قوم کی خدمت کا طلب گار ہے تو پھر کسی بھی جاب میں جانے سے پہلے وہ یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ اس میں "بالائی آمدنی "کے مواقع کس قدر وسیع ہیں۔۔۔۔آج کل ملک کے قابل ترین افراد کی اکثریت اسی محکمے اور فیلڈ میں جانے کو بیتاب رہتا ہے جہاں بالائی آمدنی وافر مقدار میں مہیا ہو سکے۔ اور اس کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ان راستوں پر چلانے والے کوئی اور نہیں اپنے ہی والدین اور معزز اساتذہ کرام ہی ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ کمانے کی حرص میں مبتلا کرکے آدمی کو انسانیت سے گرا دیتے ہیں اور اسے نہ صرف مخلوق خدا کے لئے آزار بنا دیتے ہیں بلکہ بارگاہ خداوندی سے بھی دھتکارے جانے کا موجب بنا لیتے ہیں۔۔۔یہ حرام کمانے والے لوگ ہی ہوتے ہیں جو دنیا سے جاتے جاتے اپنی ہی اولادوں کے شر سے بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔کیونکہ انہیں اکثر حقداروں کی بد دعائیں در بدر کرکے رکھ دیتی ہیں ۔
اس تحریر سے غرض یہ ہیکہ کوئی بھی کیئریئر /پروفیشن یا فن و ہنر ہماری زندگی کا مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا ہماری زندگی کا مقصد تو ہمارے پیدا کرنے والے پروردگار نے روز آفرینش سے طے فرما دیا ہیکہ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔"
قرآن کے اس واضح پیغام کی روشنی میں ہمیں اپنی مقصد زندگی کو پانا ہے صرف روزی روٹی کمانا اور نام و نمود اور شہرت کے خبط میں پڑ کر مقصد زندگی اور اخروی نجات سے غافل ہو جانا علم و دانشمندی ہرگز نہیں کہلا سکتا اپنے وسائل کے اندر اپنی جستجو میں ہمیں زندگی میں جو بھی موقع و مقام ملے اس پر ہمیں اپنے مالک کا شکر گزار ہوتے ہوئے اپنے تئیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سے نہ ہمارا خالق و مالک خفا ہو اور نہ اس کی مخلوق کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف پہنچے بلکہ ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت و فلاح کا ذریعہ سمجھا جائے۔یقینا یہی ایک انسان کا اصل مقصد زندگی ہے۔جس کے حصول کے لیے ہمیں دنیا میں تھوڑی سی مہلت دے کربھیجا گیا ہے ۔

Comfort Zone یا مستقبل کا مدفونتحریر : محمد انور جمالیپرنسپل گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج اوتھلیہ ایک فطری  سچائی  ہے کہ انسان...
19/06/2025

Comfort Zone
یا مستقبل کا مدفون

تحریر : محمد انور جمالی
پرنسپل گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج اوتھل

یہ ایک فطری سچائی ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ سکون اپنے گھر میں ہی ملتا ہے ۔چاہے وہ کوئی ایک جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو۔اس لئے بلوچی میں کہتے ہیں کہ "وائے وطن ھشکیں دار"جب کہ انگلش والے کہتے ہیں کہ
East or west home is best
اپنے گھر کو چھوڑنا، اپنی ماں کی ٹھنڈی چھاؤں سے الگ ہونا،بہن بھائیوں کا پیار ،باپ کی شفقت کا سایہ اور بچپن کے ساتھیوں سنگتوں سے علیحدہ ہونا دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے ۔خاص طور پر کچی عمر میں،جب کہ گھر میں سب کچھ پکی پکائی مل جاتی ہے۔تیار کھانا،تیار بستر،تیار کپڑے اور اس پر بھی سو سو نخرے اٹھانے والے موجود ہوتے ہیں ۔ایسے میں کس کا دل چاہتا ہوگا کہ ان ساری آسائشوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو جھمیلوں میں ڈالے اور مشقتیں اٹھاتا پھرے۔
لیکن جس طرح سے ایک لشکر کے لئے سب سے محفوظ جگہ اس کا قلعہ ہوتاہے۔لیکن آج تک تاریخ میں ایسا کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔کہ کسی فوج نے اپنے قلعے میں محصور رہ کر فتح کے جھنڈے گاڑے ہوں۔اپنے دشمنوں پر فتح پانے کے لئے اسے آخر میدان میں اتر کر دشمنوں کے تیر و تفنگ کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔تب جا کر وہ میدان مارنے کے قابل ہوتے ہیں۔اور فتح کے جھنڈے گاڑنے اور جشن منانے کے مواقع میسر آتے ہیں ۔بحری فتوحات پانے کےلئےسمندروں کے سینوں کوچیر کر منجدھاروں کے تلاطم خیزموجوں سے ٹکرانا لازم ہوتا ہے۔اسی طرح زندگی کے میدانوں میں اپنا نام چمکانے اور مشکلات پر قابو پانے اور اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے اپنے گھر کی آسائشوں اور اپنی راحتوں کو قربان کرکے اپنے Comfort Zone کو خیر آباد کرنا ہی لازم ہوتاہے۔ اور جس شخص میں یہ ہمت اور جرات نہیں پائی جاتی۔وہ زندگی بھر کے لئے پھر کنویں کا مینڈک بن کر رہ جاتا ہےکہ اس کی سوچنے کی وسعت اور اس کا حلقہ احباب محدود و مسدود ہوکر رہ جاتا ہے ۔
یوں تو ہمارا پورا ضلع لسبیلہ Comfort Zone کی زلفوں کا اسیر بناہوا ہے۔لس دھرتی کا ش*ذ و نادر ہی کوئی فرد دیار غیر میں ٹکنا گوارا کرتا ہے ۔یہاں تک کہ اپنے ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر خضدار اور صوبائی ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں بھی شاید اکا دکا ہی کوئی لاسی نظر آجائے گا۔بلکہ اندرون ضلع بھی اگر گھر سے ذرا فاصلے پر کسی کی پوسٹنگ ہو جائے۔تو اپنی قسمت کی خرابی کا رونا روتا رہتا ہے۔لیکن یہاں پر میں صرف اپنے علاقے لوہی کے ان نوجوانوں کا دکھڑا سنانا چاہتا ہوں۔جن کا تقریبا نصف صدی سے میں چشم دید گواہ ہوں کہ انہوں نے تمام ترقی کے مواقع صرف اس لئے ضائع کئےکہ وہ اپنے comfort Zone سے نکلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے میرے سامنےسینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے چہرے ہیں جنہوں نے پرائمری،مڈل،ہائی سکول، کالج، ایلیمنٹری کالج، یونیورسٹی، مکتب، مدارس اور تبلیغی جماعتوں سے اسلئے واپسی کرلی کیونکہ وہ اپنے دیار کو چھوڑنے پر دل گرفتہ تھے نئے ماحول میں وہ ایڈجسٹ ہونے کو آمادہ نہ تھے۔حالانکہ وہ جانتےتھے کہ وہ ایک روشن مستقبل کی خاطر نکل آئےہیں اور واپسی میں وہ ایک گمنام دنیا میں غرق ہونے جا رہے ہیں لیکن ساری تلخ حقیقتوں سے آنکھیں چرا کر اپنی دنیا میں واپس جانے کو بیتاب تھے۔میں نے کتنے لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑے ان کی منتیں کیں اپنی ہر ممکن مدد اور تعاون کے دلاسے دیئے، تسلیاں دیں۔حوصلےدیئے ۔۔۔۔لیکن
جانے والوں کو کب روک سکا ہے کوئی

آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں توکتنے دیپ تھے جو جلتےہی بجھ گئے، کتنے چراغ تھے جو ٹمتماتے ہی گل ہوگئے۔کتنے ارمان تھے جو آنسوؤں میں بہہ گئے۔کتنے خواب تھے۔جن کی تعبیریں تاریکیوں میں کھو گئیں۔

اگر ہمارے نوجوان ذرا سی استقامت دکھا لیتے۔اور اپنی کشتیاں جلاکر پلٹنے کا خیال دل سے نکال لیتے۔تو آج یہ قحط الرجال کی کیفیت کا سامنا ہرگز نہیں ہوتا۔زندگی کے ہر میدان میں ہم نمایاں مقام پر پہنچ چکے ہوتے۔ہمارے لوگ مہتاب وآفتاب کی مانند افق پر زو فشاں ہوتے۔اور ہماری آنے والی نسلوں کے سامنے بھی نئی منزلیں اور نئے راستے کھلے ہوتے۔
بہرحال میری تمام قارئین سے یہی گزارش ہےکہ خدارا وہ Comfort Zone کی آسائشوں سے باہر نکلیں۔اور زندگی کی گرمی اور سردی کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کا جگر و گردہ پیدا کرلیں۔ایسے لوگوں کو اللہ پاک ایسی ایسی منزلوں پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ پھر Comfort Zone کی طرف پلٹنا بھی بھول جاتے ہیں ۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے اگر دریا ،تو سمندر تلاش کر

وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی طبعیت ناساز، گلے کی سرجری، عوام سے صحتیابی کی دعا کی اپیلاوتھــــــل::  پاکستان پیپلز پارٹی...
06/06/2025

وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی طبعیت ناساز، گلے کی سرجری، عوام سے صحتیابی کی دعا کی اپیل

اوتھــــــل:: پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور لسبیلہ کی ممتاز سیاسی، سماجی و قبائلی شخصیت وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی طبعیت ناساز ہوگئی جس کے بعد انہیں فوری طور پر ہسپتال میں داخل کیا گیا میڈیکل ماہرین کی ٹیم نے معائنے کے بعد گلے کی پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری سرجری کا فیصلہ کیا جو کامیابی سے مکمل کرلی گئی، ڈاکٹروں نے وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کو مکمل آرام کا مشورہ دیتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے ملاقاتوں سے گریز کی ہدایت کی ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرجری کے بعد مکمل صحتیابی کے لیے مکمل سکون اور آواز کے استعمال میں احتیاط ناگزیر ہے اس بنا پر وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ اس مرتبہ عیدالاضحیٰ اوتھل میں اہلِ علاقہ کے ساتھ نہیں منا سکیں گے، وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کے ترجمان نے لسبیلہ کی بزرگ ہستیوں، پیر، سید، قاضی صاحبان، دوست احباب اور عوام سے اپیل کی کہ وہ وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کریں انہوں نے کہا کہ وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ لسبیلہ کے عوام سے دلی محبت رکھتے ہیں اور صحت یابی کے بعد جلد ضلع لسبیلہ کا دورہ کریں گے تاکہ اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرسکیں اور عوام سے براہِ راست ملاقات کر سکیں، لسبیلہ بھر سے مختلف طبقاتِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات، قبائلی عمائدین، سیاسی رہنماؤں اور عوام نے وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی ناساز طبعیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے، واضح رہے کہ وڈیرہ محمد حسن لاسی جاموٹ کی شخصیت ہمیشہ لسبیلہ میں اتحاد، خدمت اور عوامی نمائندگی کی علامت رہی ہے اور ان کی غیر موجودگی اہلِ لسبیلہ کے لیے ایک خلا محسوس کی جارہی ہے عوام پرامید ہیں کہ وہ جلد مکمل صحتیاب ہو کر اپنے علاقے کے عوام کی خدمت میں پھر سے متحرک کردار ادا کریں گے۔

سروس کٹوتی یا متوازن احتساب؟  ایس ایس پی لسبیلہ عاطف امیر کو پالیسی پر نظرثانی کی ضرورتتحریر: راجہ شوکتضلع لسبیلہ میں پو...
05/06/2025

سروس کٹوتی یا متوازن احتساب؟ ایس ایس پی لسبیلہ عاطف امیر کو پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت

تحریر: راجہ شوکت

ضلع لسبیلہ میں پولیسنگ کے نظام میں بہتری، نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایس ایس پی لسبیلہ عاطف امیر کی خدمات قابلِ تحسین ہیں ان کی تعیناتی کے بعد سے ضلع میں پولیس کی کارکردگی میں نمایاں بہتری دیکھنے کو ملی ہے وہ ایک متحرک، سنجیدہ اور مخلص آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں جو نہ صرف عوامی شکایات پر فوری کارروائی کرتے ہیں بلکہ خود بھی دن رات پولیس ناکوں اور اسٹیشنز کے دورے کر کے صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ان کی نگرانی اور مسلسل موجودگی نے پولیس اہلکاروں میں جوابدہی کا احساس پیدا کیا ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔
ایس ایس پی عاطف امیر کے طرزِ قیادت کی بدولت عوام میں پولیس کے لیے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے شہری حلقے ان کی ایمانداری، فرض شناسی اور نظم و ضبط کو سراہتے ہیں پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم ہوئے ہیں اور شکایات کے ازالے کا عمل تیز ہوا ہے۔
تاہم ان تمام مثبت پہلوؤں کے باوجود ایک پہلو ایسا بھی ہے جو پولیس فورس کے نچلے درجے کے اہلکاروں میں تشویش کا باعث بن رہا ہے اور وہ ہے سروس کٹوتی کی سزا، اطلاعات کے مطابق اگر کسی کانسٹیبل یا نچلے درجے کے پولیس اہلکار سے ڈیوٹی میں کوتاہی یا لاپروائی سرزد ہو جائے تو انہیں دو سے تین سال سروس کی کٹوتی کی سخت سزا دی جاتی ہے یہ سزا نہ صرف سخت بلکہ بعض اوقات demoralising بھی ثابت ہوتی ہے خصوصاً ان اہلکاروں کے لیے جو کم تنخواہ پر بھاری ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اب تک ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ کسی سب انسپکٹر، انسپکٹر یا افسر کے خلاف اسی نوعیت کی کارروائی کی گئی ہو کیا یہ ممکن نہیں کہ افسران بھی کبھی کوتاہی کا شکار ہوں؟ اگر نچلے درجے کے اہلکاروں کے لیے سروس کٹوتی جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں تو اعلیٰ افسران کے لیے بھی اسی پیمانے پر احتساب ہونا چاہیے تاکہ انصاف کا تصور مکمل ہو۔

اگر کسی اہلکار سے واقعی کوتاہی ہو تو سروس کٹوتی کے بجائے تنخواہ میں مخصوص حد تک کٹوتی کی جائے سخت وارننگ دی جائے یا کچھ عرصے کے لیے عہدے سے ہٹایا جائے یہ سزائیں بھی مؤثر ہیں اور اہلکار کی معاشی اور پیشہ ورانہ زندگی کو مکمل طور پر متاثر بھی نہیں کرتیں۔
یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت عملے کے ساتھ تعاون، انصاف اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو اس کی ٹیم بھی نہ صرف دیانتداری سے کام کرتی ہے بلکہ اس کے لیے جان فشانی سے میدان میں اترتی ہے ایک سخت سزا جہاں نظم قائم رکھتی ہے، وہیں اگر بلا امتیاز اور متوازن نہ ہو تو اندرونی بددلی اور انتشار کو جنم دے سکتی ہے جو بالآخر کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان سطور کے ذریعے ہم ایس ایس پی لسبیلہ عاطف امیر جیسے قابل اور فرض شناس افسر سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ سروس کٹوتی جیسے سخت سزا کے طریقہ کار پر نظرثانی کریں اور ایک ایسا نظام تشکیل دیں جس میں سزا اور جزا کا توازن ہو اور نچلے درجے کے اہلکاروں کو بھی وہی عزت اور انصاف ملے جس کے وہ مستحق ہیں۔
اگر وہ اپنی فورس کا اعتماد اور حمایت چاہتے ہیں جو کسی بھی کامیاب ادارے کی بنیاد ہوتی ہے تو انہیں صرف نظم و ضبط ہی نہیں، ہمدردی، توازن اور مساوات کو بھی اپنا شعار بنانا ہوگا تب ہی پولیس کا ادارہ عوام اور افسران دونوں کے لیے حقیقی معنوں میں مؤثر، شفاف اور قابلِ احترام بنے گا۔
Atif Ameer

بیــــــلہ:: ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ڈی او) بیلہ سید حسن شاہ قریشی نے رکن صوبائی اسمبلی و پارلیمانی سیکریٹری برائ...
25/05/2025

بیــــــلہ:: ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ڈی او) بیلہ سید حسن شاہ قریشی نے رکن صوبائی اسمبلی و پارلیمانی سیکریٹری برائے سیاحت و ثقافت بلوچستان نوابزادہ میر زرین خان مگسی سے بیلہ میں خصوصی ملاقات کی ملاقات میں بیلہ میں جاری تعلیمی صورتحال، مسائل اور ترقیاتی اقدامات پر تفصیلی بات چیت کی گئی، ڈی ڈی او سید حسن شاہ قریشی نے رکن اسمبلی نوابزادہ میر زرین خان مگسی کو بیلہ میں موجود تعلیمی اداروں کی مجموعی صورتحال، انفرااسٹرکچر کے مسائل، نان فنکشنل اسکولز کی بحالی، اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے جاری اقدامات سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا، رکن صوبائی اسمبلی نوابزادہ میر زرین خان مگسی نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تعلیم حکومت بلوچستان کی اولین ترجیح ہے اور بیلہ سمیت پورے ضلع میں تعلیمی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بیلہ میں تعلیمی اداروں کے انفرااسٹرکچر کی بہتری، اساتذہ کی تعیناتی، اور ضروری سہولیات کی فراہمی کے لیے محکمانہ سطح پر فوری اقدامات کیے جائیں گے ملاقات میں تعلیم سے متعلق مختلف تجاویز بھی زیر غور آئیں جنہیں آئندہ بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرنے کے لیے سفارشات تیار کی جائیں گی نوابزادہ زرین خان مگسی نے کہا کہ تعلیم کی روشنی سے ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے اور لسبیلہ کے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول فراہم کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔

اوتھــــــل:: اوتھل شہر میں قانونی خدمات کی فراہمی کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گیا، جہاں نوجوان ایڈووکیٹ محمد شکیل رونجھو ...
19/05/2025

اوتھــــــل:: اوتھل شہر میں قانونی خدمات کی فراہمی کے ایک نئے باب کا آغاز ہو گیا، جہاں نوجوان ایڈووکیٹ محمد شکیل رونجھو کی سربراہی میں شکیل لاء ایسوسی ایٹس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا، افتتاحی تقریب ایک پروقار انداز میں منعقد ہوئی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی، تقریب کے مہمانِ خاص لسبیلہ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالواحد رونجھو تھے جنہوں نے افتتاحی فیتہ کاٹ کر شکیل لاء ایسوسی ایٹس کا باضابطہ افتتاح کیا اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوان وکیل محمد شکیل رونجھو کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ لسبیلہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر اوتھل میں ایک فعال اور باصلاحیت وکیل کا اپنے دفتر کا آغاز کرنا قابل تحسین قدم ہے جو عوام کو قانونی رہنمائی فراہم کرنے میں سنگِ میل ثابت ہوگا، تقریب میں ایلیمنٹری کالج اوتھل کے پرنسپل محمد انور جمالی، سینئر قانون دان ایڈوکیٹ محمد ارشد، ایڈوکیٹ محمد علی جمالی، ایڈوکیٹ ضیاء الرحمٰن، ایڈوکیٹ محمد اسلم رونجھو، JUI لسبیلہ کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد مدنی، مولانا عبدالہادی، گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن لسبیلہ کے چیئرمین عبدالواحد سومرو، جنرل سیکرٹری قاضی احسان الحق بلوچ، سیکرٹری مالیات غلام محمد گلفام دودا، پی پی ایچ آئی لسبیلہ کے M&E آفیسر عمران ستار کھوسہ، محکمہ خزانہ کے افسران محمد کامل رونجھو، عبدالحمید رونجھو، محمد انور رونجھو، سینئر استاد محمد جمن برادیہ، محمد کریم رونجھو، اوتھل پریس کلب کے صدر محمد عمر لاسی، سینئر صحافی پیر بخش کلمتی، راجہ شوکت، نصیر احمد لنگاہ، عبدالغنی سومرو، مرتضیٰ لاسی، عبدالرزق جاموٹ سمیت علاقائی معززین، وکلاء اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے ایڈووکیٹ محمد شکیل رونجھو کو مبارکباد دی اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، ایڈووکیٹ محمد شکیل رونجھو نے اپنے خطاب میں تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد انصاف کی فراہمی کو آسان، شفاف اور بروقت بنانا ہے انہوں نے کہا کہ نوجوان وکلاء کو چاہیے کہ وہ اپنے پیشے کو صرف روزگار کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک مقدس ذمہ داری سمجھ کر ادا کریں انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ نہ صرف قانونی خدمات فراہم کریں گے بلکہ غریب اور مستحق افراد کی بلا معاوضہ رہنمائی بھی کریں گے آخر میں معزز مہمانوں کی تواضع کی گئی، دوسری جانب عوامی حلقوں کی جانب سے "شکیل لاء ایسوسی ایٹس کا قیام" اوتھل کے شہریوں کے لیے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جو قانونی معاونت کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گا، واضح رہے کہ ایڈوکیٹ محمد شکیل رونجھو ایک قابل اور کہنہ مشق ایڈوکیٹ ہیں جو اس سے قبل ضلع حب میں کافی عرصے تک وکالت کرتے رہے ہیں اور اب وہ اوتھل میں باقاعدہ اپنے فرائض انجام دیں گے۔

Address

Main RCD Road Uthal
Uthal
90150

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Uthal Press Club Tv posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Uthal Press Club Tv:

Share