28/06/2025
AIM OF LIFE
مقصد زندگی
تحریر، محمد انور جمالی
پرنسپل ایلیمنٹری کالج اوتھل
اسکول لائف سے یہ سوال سنتے آرہے ہیں اور آج بھی تعلیمی اداروں, امتحانات یہاں تک کہ competitive آزمائشوں میں بھی امیدواروں سے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ آپ کا مقصد زندگی کیا ہے ؟؟۔۔۔۔پھر اساتذہ کی رہنمائی میں طلبا وطالبات اپنی ذوق اور لگن کے مطابق مختلف جوابات دیتے ہیں ۔۔۔۔جیساکہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا ٹیچر یا آرمی اور پولیس آفیسر بننا یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا بینک افیسر بننا وغیرہ وغیرہ ۔۔.پھر اساتذہ اور ساتھی طلباء اس پر اپنی اپنی سمجھ اور ذوق کے مطابق تبصرے کرتے رہتے ہیں اور طلباء اپنی زندگی میں سمجھ کر یا بلا سمجھے ایسے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں اور مستقبل میں اپنے اس مقصد کو پانے کے لئے ترکیبیں بھی بناتے ہیں اور اس کے مطابق تیاری بھی کرتے رہتے ہیں اور آگے چل کر اس فیلڈ میں اپنی کیریئر اور پرو فیشن کو کچھ اختیار کر لینے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اکثریت کی وہ محض ایک حسرت ہی بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے یا ان کے پاس دستیاب وسائل موجود نہیں ہوتے یا درکار رہنمائی میسر نہیں ہوتی یا عزم و حوصلہ اور مستقل مزاجی مفقود ہوتی ہے جو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔
بہر کیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی پروفیشن یا کیریئر کو مقصد زندگی بنالینا اور سمجھ لینا ایک صحت مند سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟؟ دیکھا جائے تو معاشرے کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ،انجینئر ،سی ایس ایس آفیسر یا فوجی افسر ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ معاشرے کو چلانے کے لیے مذکورہ پروفیشنل افراد کے ساتھ ساتھ ایک کسان،مزدور، درزی، موچی، حجام،دکاندار یہاں تک کہ ایک سوئپر کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے جن کے بغیر نظام زندگی کو چلانا ممکن نہیں ہےپھر ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر ان کیریئرز اور پیشہ جات کو ہم اپنے Aim of Life کی فہرست میں شامل کیوں نہیں کرتے؟؟ کیا ملک و قوم کی خدمت کے لیے صرف زیادہ آمدنی رکھنے والے پیشہ ور لوگ ہی کام کرتے ہیں ؟ باقی کم آمدنی رکھنے والوں کی خدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟؟؟ آخر اس طرح کی تعلیم و تربیت سے ہم اپنے بچوں کی کیا ذہن سازی کر رہے ہوتے ہیں ؟؟؟
زیادہ آمدنی اور ہائی اسٹیٹس کے چکر میں آج کالج اور یونیورسٹی کا گریجویٹ سب سے پہلے ڈگری کا اسکوپ معلوم کرنا چاہتا ہے ملک اور بیرون ملک مواقع دیکھنا چاہتا ہے خاص طور پر اگر وطن عزیز میں ملک و قوم کی خدمت کا طلب گار ہے تو پھر کسی بھی جاب میں جانے سے پہلے وہ یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ اس میں "بالائی آمدنی "کے مواقع کس قدر وسیع ہیں۔۔۔۔آج کل ملک کے قابل ترین افراد کی اکثریت اسی محکمے اور فیلڈ میں جانے کو بیتاب رہتا ہے جہاں بالائی آمدنی وافر مقدار میں مہیا ہو سکے۔ اور اس کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ان راستوں پر چلانے والے کوئی اور نہیں اپنے ہی والدین اور معزز اساتذہ کرام ہی ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ کمانے کی حرص میں مبتلا کرکے آدمی کو انسانیت سے گرا دیتے ہیں اور اسے نہ صرف مخلوق خدا کے لئے آزار بنا دیتے ہیں بلکہ بارگاہ خداوندی سے بھی دھتکارے جانے کا موجب بنا لیتے ہیں۔۔۔یہ حرام کمانے والے لوگ ہی ہوتے ہیں جو دنیا سے جاتے جاتے اپنی ہی اولادوں کے شر سے بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔کیونکہ انہیں اکثر حقداروں کی بد دعائیں در بدر کرکے رکھ دیتی ہیں ۔
اس تحریر سے غرض یہ ہیکہ کوئی بھی کیئریئر /پروفیشن یا فن و ہنر ہماری زندگی کا مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا ہماری زندگی کا مقصد تو ہمارے پیدا کرنے والے پروردگار نے روز آفرینش سے طے فرما دیا ہیکہ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔"
قرآن کے اس واضح پیغام کی روشنی میں ہمیں اپنی مقصد زندگی کو پانا ہے صرف روزی روٹی کمانا اور نام و نمود اور شہرت کے خبط میں پڑ کر مقصد زندگی اور اخروی نجات سے غافل ہو جانا علم و دانشمندی ہرگز نہیں کہلا سکتا اپنے وسائل کے اندر اپنی جستجو میں ہمیں زندگی میں جو بھی موقع و مقام ملے اس پر ہمیں اپنے مالک کا شکر گزار ہوتے ہوئے اپنے تئیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم سے نہ ہمارا خالق و مالک خفا ہو اور نہ اس کی مخلوق کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف پہنچے بلکہ ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت و فلاح کا ذریعہ سمجھا جائے۔یقینا یہی ایک انسان کا اصل مقصد زندگی ہے۔جس کے حصول کے لیے ہمیں دنیا میں تھوڑی سی مہلت دے کربھیجا گیا ہے ۔