Grow with Tanvir Akhtar

Grow with Tanvir Akhtar مارکیٹنگ ایجنسی۔۔۔اپنے کاروباری اشتہارات پیج پروموشن پیج ہینڈلنگ لوگوز فلائرز کے لیئے رابطہ کریں

13/12/2024
11/11/2024

Welcome back

*اس صدی کی کمزور ترین نسل.*وہ نسل جو سن 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہے اور اج 23،  24 سال اس کی عمر ہو چکی ہے۔۔ پوری دنیا میں ...
07/07/2024

*اس صدی کی کمزور ترین نسل.*

وہ نسل جو سن 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہے اور اج 23، 24 سال اس کی عمر ہو چکی ہے۔۔ پوری دنیا میں یہ نسل انسانی تاریخ کی سب سے جسمانی طور پر کمزور لاغر اور ذہنی طور پر نفسیاتی مریض نسل سمجھی جاتی ہے۔۔۔ یہ جس دور میں بڑی ہوئی ہے وہ تاریخ انسانی کا سب سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دور ہے۔۔۔ انفارمیشن ایج۔۔

یہ نسل بڑی ہوئی ہے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے۔۔ اس کی دسترست میں انٹرنیٹ موبائل فون ٹیبلٹ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ہے۔ اس نسل کی تربیت بزرگوں نے نہیں سوشل میڈیا نے کی ہے۔۔

پوری دنیا میں اس نسل کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔ ان میں صبر کم ہے غصہ زیادہ، ان کی گردنوں میں خم آ گیا ہے جھک کر ہر وقت موبائل فون استعمال کرنے کی وجہ سے۔۔۔ ہر وقت سکرین کے اگے بیٹھ کر گھنٹوں کام کرنے کی وجہ سے ان کی انکھیں کمزور ہیں۔۔۔ سارا وقت بیٹھ کر ٹیکنالوجی سے کھیلنے کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت انتہائی نحیف اور ناتوان ہے۔۔ اور انسانی تاریخ میں یہ نسل سب سے زیادہ وقت لے رہی ہے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں۔۔

مغربی دنیا میں لاکھوں نوجوان زی جنریشن کے اب واپس اپنے ماں باپ کے گھر لوٹ رہے ہیں کیونکہ وہ باہر کی دنیا میں گزارا ہی نہیں کر سکتے۔۔ ان کو بومی رینگ جنریشن کہا جا رہا ہے یا بومی رینگ چلڈرن۔۔۔ اسٹریلیا کے اس قدیم ہتھیار کے نام پر کہ جس کو ہوا میں پھینکو تو وہ گھوم کر واپس اپنے مالک کے پاس ا جاتا ہے۔۔۔

پاکستان میں اپ ان کو ٹک ٹاک جنریشن کہہ سکتے ہیں۔۔ اور کسی پاکستانی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس جنریشن کا کیا حال ہے۔۔ کیا ان کے اخلاق ہیں، کیا ان کی تعلیم ہے، کیا ان کی تہذیب ہے، کیا ان کی زبان ہے، کیا ان کی تربیت ہے، اور کیا تاریک ان کا مستقبل ہے۔۔

ذرا سوچیں یہ ملک کی تقریبا 40 سے 50 فیصد آبادی ہے۔۔۔ یعنی تقریبا 10 12 کروڑ۔۔

سوچیں اگر پاکستان کو غزہ عراق شام لیبیا یا یمن جیسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تو اس نسل کا کیا حال ہوگا۔۔۔
یہ لکڑی سے آگ نہیں جلا سکتے، ان کو نقشہ دیکھ کر مشرق اور مغرب کا علم نہیں ہے، ہتھیاروں کا استعمال اور سروائیول تو چھوڑ ہی دیں، یہ دھوپ میں آدھا گھنٹہ نہیں کھڑے رہ سکتے نہ پانچ کلومیٹر پیدل چل سکتے ہیں۔۔ یہ نسل نہ جسمانی سختیاں برداشت کر سکتی ہے نہ نفسیاتی سختیاں۔۔

اسی لیے معاشرے میں سب سے زیادہ شادیاں اسی نسل کی فیل ہو رہی ہیں، کیونکہ ان کو رشتوں کو نبھانا ہی نہیں آتا، چھوٹے بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، معاملات کو سلجھانے کا صبر نہیں ہے۔

آج آپ ویڈیو گیم کھیلتے کسی بچے کا نیٹ بند کر دیں پھر دیکھیں کہ اس میں کس طرح جن گھستا ہے۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنے پورے پورے خاندان قتل کر دیے صرف انٹرنیٹ بند ہونے پہ۔۔

اور آپ کو ایک کمال کی بات بتائیں¡
غزہ میں جو مجاہدین اس وقت مشرق وسطٰی کی اتنی بڑی طاقت اور پوری دنیا کی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ان کا تعلق بھی جنریشن زی سے ہے۔۔
مگر غزہ والی وہ نسل ہے جو آگ اور خون کی بھٹی میں پک کر جوان ہوئی ہے۔۔۔ جس کی راتیں ایک راہب کی طرح اور جن کے دن ایک شہ سوار کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔ جو صرف اس لیے زندگی گزارتے ہیں کہ مسجد اقصٰی کو یہودیوں سے آزاد کرا سکیں۔۔

پاکستان کی جنریشن زی میں کتنے کی خواہش یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر مسجد اقصٰی کو آزاد کرائیں یا غزوہ ہند میں شریک ہوں اور کتنوں نے اس مشن کے لیے تیاریاں کی ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا تکلیف دہ اور خوفناک ہے کہ انسان کو ڈر لگنے لگتا ہے۔۔ جو نسل نہ اپنے کسی کام کی ہو نہ پاکستان کے کسی کام کی نہ سیدی رسول اللہ کی امت کے کسی کام کی پھر اللہ اس نسل کو کیوں رکھے گا؟ یا اگر اس نسل سے کام لینا چاہتا ہے پھر اس کو اگ اور خون کی بھٹی میں سے گزارے گا تاکہ یہ کندن بن سکے۔۔۔ موجودہ حالت میں تو یہ پاکستانی قوم اور اس کی نوجوان نسل کسی کام کی نہیں ہے۔۔۔

اللہ بلا وجہ کسی قوم کو تبدیل کر کے اس کی جگہ دوسری قومیں نہیں لاتا۔۔۔ جب پچھلی فصل اجڑ جائے تو نئی فصل لگانے کے لیے کھیت میں پہلے ہل چلانا پڑتا ہے۔۔
قوموں کے عروج و زوال میں تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔۔۔۔ گلی سڑی تہذیب یا قوم کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ہل چلا کر پھر نئی قومیں وہاں آباد کی جاتی ہیں...........

*تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے*

28/05/2024

اس وقت دنیا کی تمام کاروباری منڈیاں یا تمام ممالک افراط زر اور مندی کی کیفیت سے شدید دوچار ہیں
امریکہ تک کی یہ حالت ہے کہ میکڈانلڈ سے لے کر ہر چھوٹے بڑے کاروبار کا
کاروبار یا بزنس ۳۰ پرسنٹ 30 % تک وڑ چکا ہے
مطلب ڈاؤن ہو چکا ہے
بہترین انٹرپینوئیر
Entrepreneur
وہ ہے جو
Recession
یا مندی کی موجودہ صورتحال میں
یا
Recession
اور
Inflation
کے دنوں میں بھی ایسے ہی کاروبار کر رہا ہو جیسے اس سے پہلے کرتا تھا
اس نے اس مندی کے دنوں میں اپنے لیئے نئ Opportunities
تلاش کی ہوں
اپنے بزنس کو نئ جہتوں سے روشناس کروایا ہو اور اپنے Existing
کاروبار میں ایسے رستے نکالے ہوں کہ وہ نہ صرف آج کے دنوں میں بلکہ اس مندی کے خاتمے کے بعد جب کاروبار واپس اپنی اصلی شکل میں واپس آ جائیں گے انشاءاللہ
تو یہ نۓ تلاش کردہ رستے بھی اس کے اصل کاروبار میں add ہو کر اس کے کاروبار کو چاند لگا دیں گے
آپ آی ٹی ، ای کامرس سے لے کر پکوڑے لگانے کی ریہڑی تک کوئ بھی کاروبار کر رہے ہیں جب رکاوٹ سامنے آ کر دیوار کی طرح کھڑی ہو جاۓ تو
Entrepreneurs
کا کام ہے کہ وہیں سے خندقیں کھود کر آگے بڑھتا رہے
بس رکنا نہیں ہے
تمام دوست اپنا اپنا تجربہ شیئر کریں کہ آپ نے کیسے نہ صرف اپنے بزنس کو بچا رہے ہیں
بلکہ کون کون سا نیا رستہ آپ نے اختیار کیا جو کل نارمل حالات میں آپ کے بزنس میں add ہو گا
Share your experience

Be aware Be careful
22/05/2024

Be aware Be careful

یوسف کو بادشاہی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ہے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا...
22/05/2024

یوسف کو بادشاہی کا خواب دکھایا ،، باپ کو بھی پتہ چل گیا ، ایک موجودہ نبی ہے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ہو گا !

خواب خوشی کا تھا ،، مگر چَکر غم کا چلا دیا !

یوسف دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ہے ،،خوشبو نہیں آنے دی !

اگر خوشبو آ گئی تو باپ ہے رہ نہیں سکے گا ،، جا کر نکلوا لے گا ! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا !

سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ہے
کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں ! لہذا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے !

اگر یوسف کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف کی مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہو رہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو !

یوسف عزیز کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ ، ان مع العسرِ یسراً ،

جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں ،،مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا۔

یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ھو گیا ،اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہو جاتا تو یوسف سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا ،، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا ، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھا کر سوالی بنایا

اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل و دانش کا سکہ جما دیا ،، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا میں : این آر او " کے تحت باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے ،،عورتیں بلوائی گئیں،، سب نے یوسف کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ : انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین ،،،

وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا ،، وہی قحط ہانکا کر کے یوسف کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا ، اور دکھا دیا کہ یہ وہ بےبس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنا دیا ،

فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے ،جس نے میرے باپ کی بینائی کھا لی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے ،، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ ،، یہ وہ کھوئی ھوئی بینائی واپس لے آئے گا !

اب یوسف نہیں یوسف کا کرتا مصر سے چلا ہے تو : کنعان کے صحراء مہک اٹھے ہیں،یعقوب چیخ پڑے ھیں : انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون۔

تم مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو تو ایک بات کہوں " مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ھے :

سبحان اللہ ،،جب رب نہیں چاہتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی ،،جب سوئچ آن کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئی ہے !

واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون !

اللہ جو چاھتا ہے وہ کر کے ہی رہتا ھے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی !

یاد رکھیں آپ کے عزیزوں کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ہو ،، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں !
م ن ق و ل

انٹرنیٹ پیکجز، ایم بیز MBs کیسے کام کرتے ہیں؟ جیسےہم جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پورے دنیا کے کمپیوٹروں کو جوڑے رکھنے کا نام ہے...
21/05/2024

انٹرنیٹ پیکجز، ایم بیز MBs کیسے کام کرتے ہیں؟

جیسےہم جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ پورے دنیا کے کمپیوٹروں کو جوڑے رکھنے کا نام ہے۔ اصل میں ہم انٹرنیت کے ذریعے کسی دور کمپیوٹر میں پڑے ڈیٹا کو ایکسس کرتے ہیں۔ یا اس میں اپنا ڈیٹا اپلوڈ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آگر آپ یوٹیوب پر کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو یہ آپ یوٹیوب کے بڑے کمپیوٹر جس کو ہم سرور کہتے ہیں میں پڑے ویڈیو کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کوئی ویڈیو یا تصویر وغیرہ فیسبک پر اپلوڈ کرتے ہیں تو حقیقت میں آپ اپنی ویڈیو یا تصویر فیسبک کے سرور پر کاپی کرتے ہیں اور فیسبک ساری دنیا کے لوگوں کے ساتھ کنیکٹ ہیں تو سب اس کو دیکھ پارہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں پر سوال یہ آتا ہے کہ اتنا سارہ ڈیٹا اتنے دور دور پڑے کمپیوٹروں میں کیسے آتا جاتا ہے؟
دیکھیے کمیپیوٹرز کئی طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ پہلا طریقہ تار یعنی کیبل کے زریعے۔ دوسرا طریقہ بغیر تار یعنی وائرلیس سیگنلز کے ذریعے۔
اس وقت دنیا میں دونوں طریقے رائج ہیں۔ بڑے لیول پر کمپیوٹرز تار کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ان تاروں کو آپٹیکل فائبر کہا جاتا ہے۔ جبکہ چوٹے لیول پر جیسے ہمارے موبائل فونز وغیرہ وائرلیس طریقے سے ملے ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کیبلز اور وائرلیس سسٹم کو کیسے مینیج کیا جاتا ہیں؟
تو جواب یہ ہیں کہ اس کے پیچھے کئی ساری کمپنیاں کام کررہی ہوتی ہے جو ہمیں انٹرنیٹ کی سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کو آئی ایس پیز ISPs یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کہا جاتا ہے۔ آئی ایس پیز اصل میں تین حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔
۔ Tier 1 ISPs
یہ آئی ایس پیز بڑے لیول پر کام کرتی ہیں یعنی یہ ٹاپ لیول پر رہتی ہے۔ یہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بڑے بڑے کیبلز بچاتی ہے ہیں اور ایک Tier1 کو دوسرے 1Tier سے ملاتی ہے۔ جیسے یورپ سے ایشیا تک سمندر کے راستے بڑے بڑے کیبلز آئے ہیں۔ ان کیبلز کے ذریعے ایک براعظم کے کمپیوٹرز دوسرے براعظم کے کمپیوٹروں کے ساتھ کنیکٹ ہوتے ہیں ان بڑے آپٹیکل فائبرز کا نقشہ نیچے تصویر میں دیا گیا ہے۔ ان کمپنیوں میں کچھ کے نام یہ ہیں۔
AT&T
CenturyLink
Version Business
NTT communications
اب جب ایک مرتبہ بڑے لیول پر کنکشن ہوگئی تو اس کے بعد باری آتی ہے کہ ملکوں میں یا شہروں میں انٹرنیٹ یعنی ڈیٹا کو پہنچایا جائے۔ اس مرحلے پر Teir2 کمپیاں آتی ہیں۔
۔ Teir 2 ISPs
یہ آئی ایس پیز Tier1 آئی ایس پیز سے انٹرنیٹ خریدتی ہے اور ملکوں یا شہروں کو ایک دوسرے کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہیں۔
۔ Teir3 ISPs
یہ آئی ایس پیز کسٹمرز یعنی اینڈ یوزر صارفین تک اینٹرنیٹ پہنچاتے ہیں۔ یہ چھوٹے اور لوکل سطح پر انٹرنیٹ سروسز مہیا کرتے ہیں۔ یہ کیبل کے ذریعے بھی سروس دیتے ہیں جیسے پی ٹی سی ایل دیتا ہے جیسے ڈی ایس ایل۔ اور وائرلیس بھی جیسے موبائل فونز یا وائی فائی۔
لیکن یہ بات نوٹ کرلینی چاہئے کہ انٹرنیٹ کا یہ Tier والا انفراسٹرکچر کوئی سٹنڈرڈ نہیں ہے بلکہ یہ ایک کمپلیکس چیز ہے اور وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ مختلف آئی ایس پیز مختلف Tier کے شکل میں اپریٹ کرسکتے جو کہ لوکل، ریجنل اور گلوبل سطح پر انٹرنیٹ سروسز مہیا کرتے ہیں۔
ایلان مسک نے سٹارلینک کے نام سے ایک سٹیلائٹ سسٹم لانچ کیا ہے جو کہ آنے والے دور میں انٹرنیٹ کیبلز کی بجائے سٹیلائٹ کے ذرئعے وائرلیس ہوگا۔ سٹیلائٹ کے ذرئعے اب بھی انٹرنیٹ سروسز مہیا کی جاتی ہے لیکن اس میں مسلہ یہ ہے کہ وہ سٹیلائٹس زمین سے بہت دور ہیں جس کی وجہ اسکا انٹرنیٹ سلو چلتا ہے۔
ائی ایس پیز کئی طرح سے انٹرنیٹ پیکجز مہیا کرتا ہے۔ مثال کے طور۔
۔ Time Based Packages
۔ Data Volume Based Packages
۔ Speed Based Packages
۔ Social Media Packages
اور اس طرح کئی اور بھی۔
یہاں ایک بات نوٹ کرلیں کہ آپ جس طرح کا پیکیج سبسکرائیب کرتے ہیں اسی حساب سے آپکو انٹرنیٹ ملے گا۔ آگر آپ نے سوشل میڈیا کا پیکیج سبسکرائیب کیا تو آئی ایس پیز آپ کو صرف سوشل میڈیا کی حد تک محدود رکھے گا اور آپ کسی اور ویبسائٹ کو ایکسس نہیں کر پائیں گے۔ یہ اصل میں ایسے ہوتا ہے کہ آپ جب پیکج لیتے ہیں۔ اس وقت ائی ایس پی اپکے سارے معلومات جسے آپکا فون نمبر، آپکی آئی پی ایڈریس، MAC ایڈریس وغیرہ لیتی ہیں۔ اس کو User Authentication کہتے ہیں۔
پھر جب آپ انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہونے کی کوشش کرتے ہیں یعنی کسی ویبسائٹ کیلئے ریکوسٹ بیجھتے ہیں تو پہلے آئی ایس پی آپ کو Authenticate کرتا ہے یعنی آپکی ریکوسٹ فلٹر کردیتا ہے کہ آپ کے پاس کونسا انٹرنیٹ پیکیج موجود ہیں۔ لہذا ایسی حساب سے آپ کے ڈیوائس پر انٹرنیٹ مہیا کیا جاتا ہے۔
اگر آپکا سوشل میڈیا پیکیج ہے تو آپ کو دوسرے ویبسائٹ سے بلاک کیا جاتا ہے۔
کیونکہ آپ کے انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کے پاس سارے صارفین اور اسکے متعلقہ پیکیجز کی معلومات ہوتی ہیں۔
منقول

06/05/2024

ڈاکٹر خالد الشافعی مصری ہیں اور مصر کے نیشل اکنامکس سٹڈی سنٹر میں منیجر ہیں۔ ان کے ایک حادثاتی تجربے سے کچھ سیکھیئے۔ لکھتے ہیں:
اسی گزرے اٹھارہ مارچ کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل تھا کہ میرا توازن بگڑا، گرا اور پاؤں ٹوٹ گیا۔
ہسپتال گیا، ایکسرے کرایا، ڈاکٹر نے تشخیص کیا کہ پاؤں میں ٹخنے اور انگلیوں کو آپس میں جوڑنے والی ہڈی (پانچویں میٹیٹسل بیس) ٹوٹ گئی ہے۔
پاؤں پر پلستر ٹانگ اور گھٹنے کو ملا کر چڑھا دیا گیا۔ ڈاکٹر نے نوید سنائی کہ پلستر ڈیڑھ سے دو مہینے تک چڑھا رہے گا۔
میں بڑا حیران۔ یہ ڈاکٹر کہتا کیا ہے؟ بس ایک چھوٹا سا کنکر میرے پیر کے نیچے آیا تھا۔ نہ کسی گاڑی نے مجھے ٹکر ماری ہے اور نہ ہی میں کسی اونچائی سے گرا ہوں۔
اس دن شام کو گھر واپس پہنچنے پر مجھ پر بہت ساری حقیقتیں کھلنا شروع ہوئیں، بہت سارے سبق اور بہت ساری عبرتیں ملنا شروع ہوئیں۔
زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ پر پاؤں کی اہمیت آشکار ہونا شروع ہوئی اور مجھے اپنے پاؤں کی ایسی ایسی خدمات اور ایسے ایسے استعمالات کا پتہ چلنا شروع ہوا جنہیں میں نے آج تک محسوس بھی نہیں کیا تھا۔
میرے لیئے حمام جانا ایسا مشن بن گیا جس کیلئے باقاعدہ تیاری، منصوبہ سازی، ترتیب اور شدید توجہ کی ضرورت ٹھہری۔
وضو کرنا، نماز پڑھنا، حوائج ضروریہ کیلئے جانا ایسے کام بن گئے جن کیلئے مافوق الخیال تیاریاں کرنا پڑتی تھیں۔
اس حادثے کے دوسرے دن فجر کے وقت حمام چلا گیا، وضو کے بعد ایسا گرا کہ ابھی تک یقین نہیں آیا کہ بچ کیسے گیا ہوں، حالانگہ یہ والا گرنا سیدھی سیدھی موت یا کم از کم فالج تھا۔
گھر میں میری اکیلے نقل و حرکت بند ہوگئی، ضروری ٹھہرا کہ کوئی نہ کوئی میری خدمت یا میرا خیال رکھنے کیلئے ہمہ وقت موجود رہے۔ سارے گھر والوں کیلئے باہر آنا جانا باقاعدہ صلاح مشورے، باری بندی اور ترتیب سے مشروط ٹھہرا۔ پورے گھر کا نظام اس چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے درہم و برہم ہو گیا۔
میرے لیئے حمام بہت دور کی چیز بن گئی اور کچن تو دوسرے بر اعظم پر واقع مقام بن گیا۔
مجھے پہلی بار ایسے لوگوں کے محسوسات جاننے کا تجربہ ہوا جنہیں کسی مرض نے یا ان کی پیراں سالی نے بٹھا دیا ہو، یا جن کی زندگی دوسری کی مدد کی محتاج بن گئی ہو یا دوسروں کی مدد کے بغیر ناممکن بن کر رُک گئی ہو۔
یقین کیجیئے میں ایک پاؤں کی اتنی اہمیت بھی ہو سکتی ہے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرا ایک پاؤں کیا خراب ہوا میری زندگی ہی معطل ہو کر رہ گئی، میرا سب کچھ ہی بدل کر رہ گیا۔
ایک دن کچھ وقت کیلئے گھر پر اکیلا تھا۔ بوڑھوں والے واکر کو پکڑ کر ایک ٹانگ کے ساتھ کچن میں گیا، اپنے لیئے ایک چائے بنا کر ہٹا تو مجھ پر ایک نئی اور ایسی حقیقت کھلی جو کبھی بھی میرے دماغ نہ آ سکتی، اور وہ یہ کہ: چائے کا کپ پکڑ کر واپس کیسے جاؤں تاکہ مزے سے ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ کر پی سکوں۔ اب یہ عقدہ کھلا کہ چاۓ کا کپ پکڑ کر اپنے پیروں پر چلتے ہوئے آنا بھی ایک ایسی نعمت ہے جس پر بہتوں کا خیال ہی نہیں جاتا۔
ایک چھوٹے سے کنکر نے میری زندگی کے سارے معمولات ہی بدل کر رکھ دیئے۔
صبح کو اپنے پیروں پر چل کر نکلا تھا شام کو دوستوں کے کندھوں پر سوار لوٹا۔
دو اپریل کی رات کو مجھے ٹوٹے ہوئے پیر والی ٹانگ میں شدید اور ناقابل برداشت درد ہوا۔ آدھی رات کو بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے۔ جلدی سے پلستر کاٹا گیا، سی ٹی سکین ہوا تو پتہ چلا کہ ٹانگ کی اندرونی وریدوں میں خون کا بہاؤ رُک گیا تھا جو پلستر کے ساتھ حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا عموماً ہو جاتا ہے۔
درد کی شدت سے میری دھاڑیں نکل رہی تھیں۔ اس بار مجھے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا۔ مجھے یکے بعد دیگرے پیٹ میں کئی ٹیکے لگائے گئے۔ ان ٹیکوں کا اپنا درد ایک نئی قیامت تھی۔ اور اس قیامت خیز حالت میں، میں اس ٹیکے کے بارے میں نہیں جو میرے پیٹ میں لگا ہوتا تھا، بلکہ اس ٹیکے کے بارے میں سوچتا تھا جو لگائے جانے کیلئے ابھی تیار ہو رہا ہوتا تھا۔
مجھے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ کھانسی کا شدید دورہ پڑا تو ڈاکٹر کو شک گزرا کہ وریدوں میں خون کی رکاوٹ اندرونی سوجن پیدا کر رہی ہے اور ہو نہ ہو اس حالت میں میرے پھیپھڑے متاثر ہو چکے ہیں۔ مسجد کے سامنے پاؤں کے نیچے آنے والا کنکر اب میرے حلق میں اٹک جانے والا کانٹا بن گیا تھا۔ وعظ اور عبرت کی پوسٹیں لگانے والے کاتب کی زندگی بذات خود خوفناک قسم کی پوسٹ بننے جا رہی تھی۔
میرے آنکھوں کے سامنے میری گزری زندگی کے سارے مناظر فلم کی طرح چلتے تھے۔ جو بات رہ رہ کر یاد آتی تھی وہ یہ تھی کہ جب میں عام سی زندگی جیتا تھا تو کتنی بے بہا نعمتوں میں گھرا ہوتا تھا۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ اُن نعمتوں کا ویسا شکر ادا کیوں نہ کرتا تھا جیسا اُن کے شکر کا حق بنتا تھا۔
ہسپتال میں میرے ساتھ والے کمرے میں داخل ایک بزرگ کے کمرے سے ابھی ابھی انسٹرومنٹ ہٹا کر لیجا رہے تھے۔ مجھے اوروں کا نہیں اپنا خاتمہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔
ہسپتال میں ہر ایک بیڈ ایک کہانی تھا اور ہر کہانی کے پیچھے سبق، خواب، کامیابیاں، ناکامیاں اور امیدوں کے بنتے بگڑتے قصے۔
ہسپتال میں انواع و اقسام کے لوگ: مریض یا ملازمین۔ اور مریضوں کی پھر آگے قسمیں: اپنی صحت اور زندگی سے مایوس، یا پھر بھر پور امید والے بے خوف لوگ۔ ورثاء سب ہی خوف اور امید میں لٹکے ہوئے۔
ملازمین کی بھی اقسام: ڈاکٹر اپنی ڈگری کی قیمت سے واقف وجاہت اور متانت کے عکاس۔ نرسیں لگ بھگ سب کام نمٹاتے ہوئے مگر قدر و قیمت نہ پانے کی شاکی۔ صفائی کرنے اپنی حالت اور دگرگوں مالی حالت کے ہاتھوں ناکام زندگی سے شاکی اور اُکھڑے اُکھڑے۔
ہسپال میں ہر مریض کی ساری زندگی جیسے رُکی ہوئی، سب پریشانیوں پر بھاری بس ایک پریشانی کہ کسی طرح ہسپتال سے نکل کر گھر پہنچ جائے۔ ملازمین کیلئے مریضوں کے درد اور بیماریاں بس ایک کام اور روٹین۔ ادھر ڈیوٹی ختم اُدھر وہ گھر روانہ۔ بھلے مریض کی جان ایسے نکلے یا ویسے۔
بہرحال میں نے جیسے تیسے رات ٹیکوں اور سرنجوں کے درد سہتے گزاری۔ جنہیں روز کے ٹیکے لگتے ہیں کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے ان سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔
میرے سینے کے ایکسریز لیئے گئے اور اب دوسری صبح کا انتظار تاکہ ڈاکٹر نتیجہ بتائے۔
دوسرے دن میری ساری زندگی ڈاکٹر کے دو کلموں پر اٹکی ہوئی تھی جس نے ایکسریز دیکھ کر رپورٹ دینا تھی۔ ڈاکٹر ایکسرے اٹھائے وارڈ میں داخل ہوا اور میں نتیجہ جاننے کیلئے جاں بلب سولی پر لٹکا ہوا۔
“الحمد للہ، ایکسرے بالکل کلیئر ہیں”۔ اور اس کے ساتھ ہی خوفناک اور ڈراؤنی فلم کا اختتام۔
اچھا، اصلی بات تو ابھی وہیں کی وہیں۔ پاؤں ٹوٹا ہوا، پلستر لگانا ممنوع ٹھہرا۔ اب پاؤں کے علاج کی جگہ وریدوں کا علاج فوقیت پا چکا۔ مطلب صاف صاف یہی بنتا تھا کہ اب اپنے پیروں پر چلنے پھرنے کیلئے انتظار اور بھی لمبا ہو گا۔
پلستر نہ ہونے کی وجہ سے پاؤں سوج کر کُپا بن گئے، ساتھ ساتھ ٹانگ بھی نیلی پڑ گئی تھی۔
سارا زور ایک ٹانگ پر پڑنے کی وجہ سے، ٹھیک والی ٹانگ کے پاؤں اور گھٹنے میں شدید درد رہنے لگا۔
پیروں کی بجائے ہاتھوں سے سہارا لینے کی وجہ سے ہاتھ دُکھنے لگے، حرکت کم ہوئی تو وزن تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا۔
مہینہ بھر ٹوٹے پاؤں کو حرکت نہ دینے کی وجہ سے پیر کے مسلز تقریباً مرے ہوئے جیسے بن گئے۔
انسان کی کمزوری اور ضعیفی پر پڑھا تو بہت تھا مگر کمزوری اور ضعف ایسا ہوتا ہے سے واسطہ اب پڑا تھا۔ اور یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبے سے لمبا ہوتا جا رہا تھا۔
جب میں عام بندے کی طرح چل سکوں گا کے بارے میں سوچنا خواب سا لگتا تھا۔ مجھے رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ جب کوئی مجھ سے حال احوال پوچھتا تھا تو میں اکثر یکسانیت سے اکتایا ہوا مختصراً کہہ ڈالتا تھا کہ “بس ٹھیک ہوں”۔ اور یہ “بس ٹھیک ہوں” کتنی عظیم نعمت ہوتی ہے مجھے اب پتہ چل رہا تھا۔ دیکھیئے: کسی نعمت کو “بس” کہہ دینا انسان کو اس نعمت کی قدر ہی بُھلا دیتا ہے۔ خبردار، کہیں ایسا نہ ہو کہ نعمت کی قدر کا احساس اُس نعمت کے چِھن جانے کے بعد ہو۔ کسی نعمت کو کبھی بھی اتنا ہلکا نہ لیا جائے کہ اس نعمت کو نعمت سمجھنے کا شعور ہی جاتا رہے۔
مجھے بیماری اور جیل کی قید نے ٹھیک طریقے سے مطلب سمجھایا ہے کہ “اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے”۔
میرے فیس بک کی ڈی پی پر میری چلتے ہوئے کی فوٹو لگی ہوئی ہے- میں جب بھی فیس بک کھولتا ہوں اور اپنی فوٹو پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنے “بس ٹھیک ہوں” کے الفاظ عظیم القدر نعمت لگتے ہیں۔
ایک اور بات بتاؤں؟ آج پینتیسواں دن ہے اور ابھی تک میرا ماتھا سجدے کیلئے زمین پر نہیں پڑ سکا۔ چارپائی پر بیٹھے بیٹھے وضو اور لیٹے لیٹے نماز ہو رہی ہے کیونکہ اب میرا بیٹھنا بھی منع ہو چکا ہے۔ نماز کا شوق مجھے پاگل کیئے جا رہا ہے۔
مصبیبتوں کے بھی کیا رنگ نکلتے ہیں: مصیبت تاکہ صبر کرنا آ جائے، مصیبت جو شکر کرنا سکھا دے، مصیبت جو اجر و ثواب کا باعث بن جائے، مصیبت جو سرزنش بن جائے، مصیبت جو گئے گزرے اوقات کی جانچ پڑتال کرنا بتا دے اور مصیبت جو ثابت قدمی سکھا دے۔
آخر میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کیلئے اپنی امی سے معافی مانگتا ہوں، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پڑھ کر بہت روئے گی۔ میں آج تک اپنی بیماریوں اور پریشانیوں کے سارے راز اُس سے اس لیئے چھپاتا آیا ہوں کہ وہ میری وجہ سے کبھی بھی کبیدہ خاطر نہ ہونے پائے۔
اے اللہ اپنے ہر مریض بندے کو ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی دوسری بیماری نہ ہو- آمین یا رب
محمد سلیم ( Muhammad Saleem)نے آپ کیلئے انتخاب اور ترجمہ کیا ہے۔
With Thanks to Respected Mr. Muhammad Saleem

بہترین رویہ و راستہ و اسلوب  اعتدال والا راستہ ہے... عزت دیں عزت ملے گی.. اخلاص ہر عمل اور روئیے کی روح ہے... روح کے سات...
03/04/2024

بہترین رویہ و راستہ و اسلوب اعتدال والا راستہ ہے... عزت دیں عزت ملے گی.. اخلاص ہر عمل اور روئیے کی روح ہے... روح کے ساتھ کمزور جسم بھی طاقتور ہے... اور بنا روح کے بڑا جسم بھی مردہ ہے... پازیٹوٹی... حسد و تکبر... کی میل سے پاک انسان کو مسرور و کامیاب کرتی ہے... بہترین مفتی انسان کا ضمیر ہے... سو.. ضمیر سے ہر قدم پر فتوئ لیتے رہیں...کامیابی قدم چومے گی
تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی

29/03/2024

سورہ یوسف پڑھ کر لگتا ہے کہ سگّے حسد کر سکتے ہیں۔ اپنے ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں۔ غیر نجات دِلا سکتے ہیں۔ پارسا پر تُہمت لگائی جا سکتی ہے۔ بِلا جُرم قید ہو سکتی ہے۔ غیبی مدد سے براءت مِل سکتی ہے۔ ظُلم سہہ کر عظیم منصب مِل سکتا ہے۔ تقویٰ سے عزت کا حصول ہو سکتا ہے۔ عزیز جُدا ہو سکتا ہے اور ہِجر کاٹا جا سکتا ہے۔ بِچھڑا مِل سکتا ہے اور ہر خواب پورا ہو سکتا ہے۔ قُرآن کی اِس سورہ میں کیا کشش ہے۔ کیسی جاذبیت ہے۔ کیسا دِلکش اسلوب حیسن بیان ہے۔ کیا فصاحت و بلاغت کِتنی تسلی کِتنا سبق ہے۔ کیسی نصیحتیں ہیں۔ اورکِس قدر قوی اُمیدیں ہیں۔۔۔ بےشک -
"ہر مُشکل کے ساتھ آسانی ہے" (القرآن)
منقول

ﺍﻓﻮﺍﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﯾﮟ___________________ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺻﻔﮩﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻦ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﺎﻡ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺧﺘﻢ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍ...
29/03/2024

ﺍﻓﻮﺍﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﯾﮟ
___________________
ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺻﻔﮩﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻦ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﺎﻡ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺧﺘﻢ ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﯾﮕﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻭﮬﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮬﻮﺍ۔ ﻭﮦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮐﮭﮍﯼ ﮬﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ۔
ﮐﺎﺭﯾﮕﺮ ﮬﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﻣﺴﺘﺮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺧﺎﻣﻮﺵ ! ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﻟﮑﮍﯼ ﻻﺅ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺍﮐﮭﭩﮯ ﮐﺮﻭ "!
ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﻟﮑﮍﯼ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﺴﺘﺮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﮑﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﻗﺖ ﻣﺴﺘﺮﯼ ﺍُﺱ ﺿﻌﯿﻒ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﺑﻮﻟﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ ﻣﻨﺎﺭ
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﺩﮮ ﮐﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﯼ۔
ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺘﺮﯼ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﭨﯿﮍﮬﮯ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ؟
ﻣﺴﺘﺮﯼ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " : ﻧﮩﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﻭﮐﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﺑﻨﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﮬﯽ ﺭﮬﺘﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺩﮬﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﺍِﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﻮ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮬﮯ۔ "
ﺍﻓﻮﺍﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﯾﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﺑﺮﻭﻗﺖ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍِﺱ ﮐﺎ ﺳﺪِّﺑﺎﺏ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮬﻤﯿﺸﮧ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺭﮬﮯ ﮔﺎ۔

Address

Rawalpindi
Wah

Telephone

+923465005540

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Grow with Tanvir Akhtar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Grow with Tanvir Akhtar:

Share