29/11/2025
جب صفائی نہیں — تو پھر سروس چارجز کس بات کے؟
یہ صرف میرا نہیں، بلکہ میرے ساتھیوں سمیت ظفروال کے درجنوں شہریوں کا مشترکہ اور صاف مؤقف ہے کہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے گھروں میں سروس چارجز کے بل تو بھیج دیے، مگر صفائی کی کوئی بھی عملی شکل نہ دکھائی دے رہی۔ ہمارا سوال سیدھا سا ہے: جب سروس نہیں تو بل کیسا؟
اندرونِ شہر کی گلیاں گواہ ہیں کہ نالیاں اُبل رہی ہیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر جمع ہیں اور بدبو سے گزرنا مشکل ہے۔ یہ سب صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ جس سروس کا بل ہم سے وصول کرنا چاہ رہے ہیں ، وہ حقیقت میں موجود ہی نہیں۔ شہریوں پر ایسے بل بھیجنا کسی بھی طرح سے اخلاقی، قانونی اور انتظامی لحاظ سے درست عمل نہیں۔
ٹیکس اور فیس کا اصول یہی ہے کہ پہلے سہولت، پھر چارجز۔
مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے — سہولت صفر اور بل پورے۔
ہم بجلی، پانی، انٹرنیٹ، ٹیلی فون سمیت ہر محکمے کو درخواست دے کر سروس لیتے ہیں۔ کسی ادارے کو یہ حق نہیں کہ بغیر درخواست اور بغیر سہولت کے شہری کو زبردستی اپنا "صارف" بنا دے۔ ہم نے کب ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے کسی سروس کا مطالبہ کیا؟ کبھی نہیں۔
ہم اپنی گلیوں کی نالیاں خود صاف کرتے ہیں۔
گندگی خود اٹھاتے ہیں۔
صفائی خود کرتے ہیں۔
تو پھر ہمیں زبردستی کے سروس چارجز کیوں دیے جا رہے ہیں؟
لہٰذا ہم — میں اور میرے دوست — اپنا واضح، دو ٹوک اور قانونی مؤقف رکھتے ہیں کہ:
➤ ہمارا ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے “کنکشن” فوراً منقطع کیا جائے۔
➤ ہمیں کوئی سروس نہ دی جائے، اور نہ ہی ہم اس کے طالب ہیں۔
➤ اگر اس کے باوجود ہم پر بل بھیجے گئے تو یہ سروس چارج نہیں بلکہ سیدھا سیدھا جگا ٹیکس شمار ہوگا۔
ہم شہری ہیں، غلام نہیں۔
اور شہری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حق دو، وہاں حق لو — مگر جہاں سہولت نہ ہو، وہاں زبردستی کی فیس ناقابلِ قبول ہے۔
فرحان اعجاز ظفروال