Sadiey Narowal

Sadiey Narowal علاقائی، ملکی اور عالمی خبروں کا مجموعہ

Coming soon
01/12/2025

Coming soon

29/11/2025

جب صفائی نہیں — تو پھر سروس چارجز کس بات کے؟

یہ صرف میرا نہیں، بلکہ میرے ساتھیوں سمیت ظفروال کے درجنوں شہریوں کا مشترکہ اور صاف مؤقف ہے کہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے گھروں میں سروس چارجز کے بل تو بھیج دیے، مگر صفائی کی کوئی بھی عملی شکل نہ دکھائی دے رہی۔ ہمارا سوال سیدھا سا ہے: جب سروس نہیں تو بل کیسا؟

اندرونِ شہر کی گلیاں گواہ ہیں کہ نالیاں اُبل رہی ہیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر جمع ہیں اور بدبو سے گزرنا مشکل ہے۔ یہ سب صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ جس سروس کا بل ہم سے وصول کرنا چاہ رہے ہیں ، وہ حقیقت میں موجود ہی نہیں۔ شہریوں پر ایسے بل بھیجنا کسی بھی طرح سے اخلاقی، قانونی اور انتظامی لحاظ سے درست عمل نہیں۔

ٹیکس اور فیس کا اصول یہی ہے کہ پہلے سہولت، پھر چارجز۔
مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے — سہولت صفر اور بل پورے۔

ہم بجلی، پانی، انٹرنیٹ، ٹیلی فون سمیت ہر محکمے کو درخواست دے کر سروس لیتے ہیں۔ کسی ادارے کو یہ حق نہیں کہ بغیر درخواست اور بغیر سہولت کے شہری کو زبردستی اپنا "صارف" بنا دے۔ ہم نے کب ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے کسی سروس کا مطالبہ کیا؟ کبھی نہیں۔

ہم اپنی گلیوں کی نالیاں خود صاف کرتے ہیں۔
گندگی خود اٹھاتے ہیں۔
صفائی خود کرتے ہیں۔
تو پھر ہمیں زبردستی کے سروس چارجز کیوں دیے جا رہے ہیں؟

لہٰذا ہم — میں اور میرے دوست — اپنا واضح، دو ٹوک اور قانونی مؤقف رکھتے ہیں کہ:

➤ ہمارا ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے “کنکشن” فوراً منقطع کیا جائے۔
➤ ہمیں کوئی سروس نہ دی جائے، اور نہ ہی ہم اس کے طالب ہیں۔
➤ اگر اس کے باوجود ہم پر بل بھیجے گئے تو یہ سروس چارج نہیں بلکہ سیدھا سیدھا جگا ٹیکس شمار ہوگا۔

ہم شہری ہیں، غلام نہیں۔
اور شہری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حق دو، وہاں حق لو — مگر جہاں سہولت نہ ہو، وہاں زبردستی کی فیس ناقابلِ قبول ہے۔
فرحان اعجاز ظفروال

28/11/2025

ختم نبوت چوک میں ٹریفک پولیس اور ایک شہری کے درمیان ہونے والا معمولی سا مکالمہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا سوال بن گیا—آخر اس معاشرے میں سوال پوچھنا اتنا بڑا جرم کیوں بنا دیا گیا ہے؟

ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ قانون سب کے لیے ہے، اور اگر غلطی ہوئی ہے تو جرمانہ بنتا ہے۔ شہری نے بھی جرمانہ قبول کیا، اپنی غلطی تسلیم کی، مگر جیسے ہی اس نے ٹریفک پولیس کے رویّے پر زبان کھولی، بات بگڑ گئی۔ پولیس نے اسے فوراً “پولیس کے حوالے” کردیا۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر کونسی دفعہ بنتی ہے صرف یہ پوچھ لینے پر کہ “آپ کا لہجہ درست کیوں نہیں؟”

دفعہ 186؟
سرکاری کام میں مداخلت؟
مگر یہاں تو نہ کوئی دھکا تھا، نہ رکاوٹ، نہ مزاحمت۔ صرف ایک سوال تھا۔

اور اگر اس ملک میں سوال کرنا بھی مداخلت بن گیا ہے تو پھر یقین مانیں، مسئلہ ہیلمٹ کا نہیں، مسئلہ “اختیار” کا ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں شہری کی زبان پر تالہ لگانے کا عمل روزمرہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ جسے آواز اٹھانے کی ہمت ہو، اسے فوراً “آپے سے باہر” سمجھ لیا جاتا ہے۔ جیسے پولیس کے اہلکار فرشتے ہیں، جن کا لہجہ پوچھنے پر بھی ناقابلِ معافی جرم لگتا ہے۔

یہ رویّہ صرف اس ایک شہری کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہ ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ سوال کرنے والوں کا گلا گھونٹنے کا، حق مانگنے والوں کو مجرم بنانے کا، اور ناانصافی پر آواز اٹھانے والوں کو “ڈھٹائی” کا طعنہ دینے کا۔

پولیس کا فرض ہے قانون نافذ کرنا، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں کبھی کبھی قانون نہیں بلکہ انا نافذ کی جاتی ہے۔
اختیار نہیں بلکہ غصہ استعمال ہوتا ہے۔
اور شہری نہیں بلکہ خاموش غلام چاہئیں۔

سوال یہ نہیں کہ ایک شہری کو کیوں پکڑا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ایک سوال پوچھنے پر پکڑا کیوں گیا؟

اگر آج ہم نے اس رویّے کو چیلنج نہ کیا تو کل کو شاید زبان کھولنا ہی جرم سمجھا جائے گا۔
یہ ملک صرف پولیس کا نہیں، صرف حکومت کا نہیں—بلکہ اس شہری کا بھی ہے جس نے ٹیکس دے کر اسی پولیس کو کھڑا کیا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ اہلکاروں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عزت یکطرفہ نہیں ہوتی۔
قانون دونوں کے لیے ہے، اور اخلاق بھی۔
شہری کو غلطی پر جرمانہ کرنا قانون ہے۔ لیکن شہری کو سوال پر گرفتار کرنا طاقت کا غلط استعمال ہے—اور طاقت کا غلط استعمال معاشرے کو کمزور کرتا ہے، پولیس کو نہیں مضبوط۔

آج یہ ایک شہری تھا، کل شاید میں یا آپ ہوں گے۔
کیونکہ جب سوال کی اجازت ختم ہو جاتی ہے، تو پھر انصاف بھی کہیں دور رہ جاتا ہے۔

آخر میں صرف اتنی گزارش:
قانون کا احترام ہم سب پر لازم ہے—لیکن احترام کبھی ڈنڈے سے نہیں لیا جاتا، بلکہ رویّے سے جیتا جاتا ہے۔

فرحان اعجاز ظفروال

28/11/2025
19/11/2025

ظفروال میں آج شلجم کی قیمتوں نے ثابت کر دیا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سبزی منڈی میں کسان کے خون پسینے سے اگائے گئے شلجم 80 روپے میں پانچ کلو خرید لیے گئے — یعنی صرف 16 روپے فی کلو!
اور بازار میں یہی شلجم 180 سے 200 روپے فی کلو بیچے جا رہے ہیں۔

یہ منافع نہیں، یہ حرام خور مافیا کی کھلی لوٹ ہے۔ عوام کی جیب کاٹ کر دکان دار روزانہ ہزاروں روپے جیب میں ڈال رہے ہیں۔
مارکیٹ کمیٹی اندھی ہے؟
پرائس کنٹرول والے مردہ ہیں؟
یا سب نے آنکھیں بند کر کے شہر کو مافیا کے حوالے کر دیا ہے؟

ریٹ لسٹ صرف کاغذوں میں چھپتی ہے، بازاروں میں اس کا نام و نشان نہیں۔ دکاندار جیسے چاہیں ریٹ بولتے ہیں، جیسے چاہیں عوام کو روندتے ہیں۔
کیا ظفروال میں عوام کی حیثیت صرف اتنی رہ گئی ہے کہ وہ بغیر سوال کیے لوٹتی رہے؟
یہ آخر کس کی ڈیوٹی ہے کہ بازار چیک کرے؟ کس کا کام ہے کہ ناجائز منافع خوری روکے؟

کسان رو رہا ہے، خریدار چیخ رہا ہے، اور درمیان میں بیٹھا یہ مافیا دونوں ہاتھوں سے شہر کو نچوڑ رہا ہے۔

شلجم صرف ایک مثال ہے… پورا شہر لٹ رہا ہے۔
اور انتظامیہ تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

صاحب اختیار صاحب یقیننا اللہ آپ سے ضرور پوچھے گا

فرحان اعجاز ظفروال

17/11/2025

Address

Zafarwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sadiey Narowal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sadiey Narowal:

Share