
02/02/2025
گلگت بلتستان کی مختصر تاریخ📜📖
گلگت بلتستان ایک تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے منفرد خطہ ہے، جو اپنی قدیم تہذیب، ثقافت اور قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے۔ یہ علاقہ پاکستان کے شمال میں واقع ہے اور تاریخی طور پر سلک روڈ (ریشمی راستہ) کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔
♦️قدیم نام اور تاریخی شناخت
گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے قدیم نام مختلف تاریخی کتابوں میں ملتے ہیں:
گلگت کو قدیم سنسکرت متون میں سری گگر، سری گغرتا یا گرگوٹ کہا جاتا تھا۔ چینی سیاح فاہیان (Faxian) اور ہیون سانگ (Xuanzang) کی تحریروں میں اسے 大吉 (Da Ji) یعنی "عظیم گلگت" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
بلتستان کا پرانا نام بلور تھا، اور بعض تاریخی کتب میں اسے بلتی یل بھی کہا گیا ہے۔ تبت کے قدیم ذرائع میں اسے پالولو (Palolo) کہا گیا ہے۔
♦️لوگ کہاں سے آئے؟
گلگت بلتستان کی آبادی مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، جو صدیوں کے دوران یہاں آباد ہوئے:
♦️. دارد قبائل
دارد لوگ قدیم آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ابتدائی طور پر دریائے سندھ اور گلگت کے کناروں پر آباد تھے۔
بروشسکی بولنے والے بروشو لوگ بھی داردوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔
♦️. تبتی اثرات:
بلتی لوگ بنیادی طور پر تبتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بدھ مت کے دور میں تبت سے آ کر بلتستان میں آباد ہوئے۔
بعد میں، اسلام کی آمد کے بعد یہاں اسلامی ثقافت رائج ہوئی۔
♦️. کشمیری اثرات:
مغل دور اور بعد میں ڈوگرہ راج کے دوران کئی کشمیری خاندان گلگت بلتستان میں آ کر آباد ہوئے۔
وادی ہنزہ اور نگر میں بھی کشمیری ثقافت کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
♦️ یونانی اور وسط ایشیائی اقوام:
سکندر اعظم کی فوج کے کچھ یونانی سپاہی بھی یہاں آ کر بس گئے تھے، جن کے اثرات خاص طور پر ہنزہ اور چترال میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ترک، منگول اور ایرانی اثرات بھی یہاں کی ثقافت اور زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔
♦️آبادکاری اور قدیم حکمران
گلگت بلتستان میں کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم تھیں، جن میں ہنزہ، نگر، یاسین، گپچ، استور اور بلتستان شامل تھے۔
بلتستان میں مقامی راجاؤں کو راکپوچ کہا جاتا تھا، جبکہ گلگت میں حکمرانوں کو میروں کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
مختلف ادوار میں تبتی، کشمیری، مغل اور ڈوگرہ حکمرانوں نے یہاں حکومت کی۔
گلگت بلتستان کی تاریخ مختلف نسلوں اور تہذیبوں کے امتزاج کی کہانی ہے۔ یہاں کے قدیم باشندے دارد، بروشو، بلتی، کشمیری اور وسط ایشیائی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو مختلف ادوار میں یہاں آ کر آباد ہوئے اور ایک منفرد تہذیب تشکیل دی۔ آج بھی یہ علاقہ اپنی ثقافتی ورثے اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ایک تاریخی اور سیاحتی مقام ہے۔