Khankhail Write's

Khankhail Write's ‎ #✔ ‎"اور تیرا رب بھولنے والا نہیں" ❤وَماَ__کَانَ__رَبُّک__نَسِیّاً_ Poetry Club���

نشرِ مکرران  بسوں کے ہارن سے پتہ چل جاتا تھا کہ اس کا نمبر کیا ھے جب کبھی دوران کلاس ھارن بجتا تو ٹیچر کی موجودگی میں بھ...
08/10/2024

نشرِ مکرر
ان بسوں کے ہارن سے پتہ چل جاتا تھا کہ اس کا نمبر کیا ھے جب کبھی دوران کلاس ھارن بجتا تو ٹیچر کی موجودگی میں بھی کان میں سر گوشی کر دیتے 2766 آئی اے۔۔۔ہن 1785 بولی اے۔۔۔۔اس زمانے میں بس ڈرائیور کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور سب استاد جی کے نام سے بلاتے تھے علاقے میں چنیدہ لوگ ہی اس منصب پر فائز ھوتے تھے۔

استاد جی کے اپنے ٹشن ھوتے استری شدہ سوٹ ،کھلے بٹن بنیان نظر آتی تھی چونکہ استاد جی کا زیادہ زور کپڑوں کی استری پر زیادہ ھوتا،کھلی چپل،کھلے پائنچے،انگلیوں کے درمیان سلگتا ھوا مارون کا سگریٹ جو بیڈ فورڈ کے ڈیزل کی بو کیساتھ ملکر الٹی کرنے اور سر چکرانے کیلئے اکساتا تھا۔

بس اسٹارٹ ھونے کے بعد 20 سے 25 ھارن بجانا استاد جی کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔کچھ بسیں ایسے جدید ھارن کی بھی حامل تھی کہ استاد جی کو بار بار ھارن کا بٹن پریس کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی تھی ایک ھی بار پریس کرتے تو کم از کم 5 منٹ تک خود بخود بجتا رہتا اور استاد جی داد طلب نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھتے،

فرنٹ سیٹ مخصوص افراد کیلئے مختص ھوتی بعض اوقات تو دو دو دن ایڈوانس فرنٹ سیٹ بک کروا دی جاتی لیکن استاد جی کے پاس ویٹو پاور بھی تھی کسی بھی منظور نظر کو کسی وقت بھی نواز سکتے تھے۔

#استاد جی کا پورا علاقہ اس طرح قدر کرتا تھا جیسے 🤣 کر کے ابھی ابھی چارج سنبھالا ھو۔عموما استاد جی غصے والے ھوتے تھے جو سواریوں کی موجودگی میں کنڈیکر کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

کنڈیکر سے یاد آیا، کنڈیکر کی بھی تین اقسام ھوتی تھی ایک غریب نادار جو فقط مزدوری کیلئے آتے تھے دوسری قسم جو ہشیار ھوتے تھے مسافروں پر جگھتیں لگاتے اور ان کے تیور بھی بتا رھے ھوتے کہ آئندہ 15 سے 20 سال کی محنت شاقہ سے یہ بھی منصب استاد جی پر براجمان ہونگے ۔

تیسری قسم وہ کنڈیکر ہیں جن کی اپنی بس ھوتی یا مامے،چاچے کی بس ھوتی تھی ان کے نام کیساتھ نائیک جی کا لاحقہ بھی لگا ھوتا۔ہر کسے باشد انھیں نائیک جی کے نام سے پکارتا تو اس لمحے آدھا فٹ وہ فضا میں معلق ھو جاتے خواہ پکا سگریٹ نہ بھی لگایا ھو ان کیساتھ ایک سب کنڈیکر بھی ھوا کرتا تھا۔

بس کی گیلری میں 20/25 لوگ کھڑے ھوتے اتنے ھی پوہڑی اور سائیڈ پر ،طلباء کو خاص اہمیت حاصل تھی ان کیلئے بس کا چھت مختص ھوتا کیونکہ کرائے کی ادائیگی سے اکثر وہ مثتثنی با حکم از خود ھوتے تھے۔

رستے میں کوئی سواری ہاتھ دے اور استاد جی بس نہ روکیں سوال ھی پیدا نہیں ھوتا اگرچہ گنجائش پیدا کر ھی لی جاتی اگر خاتون مسافر ھوتی تو کنڈیکر با آواز بلند کہتا لیڈی سواری کیلئے جگہ خالی کرو تو ہر کوئی بلا توقف اپنی سیٹ چھوڑنے کو آمادہ ھو جاتا۔

استاد جی بس چلاتے ساتھ سگریٹ کے کش لگاتے کئی لوگ سگریٹ اور ڈیزل کی ملی جلی بو کی وجہ سے الٹیاں بھی کرتے لیکن کیا مجال کہ استاد جی کو تمباکو نوشی سے کوئی روکنے کی جسارت کرے۔

اس کے ساتھ عطااللہ،لتا منگیشکر،رفیع اور صبح کا وقت ھو عزیز میاں و ہمنوا اودھم مچاتے رہی سہی کسر بیڈ فوڈ چڑھائی میں اپنے انجن کی صوت بالا سے پوری کر کے سماعتوں کو صبر جمیل عطا فرماتی۔

استاد جی سے تعلق اور واقفیت ایسے ھی بلند مرتبت سمجھی جاتی جیسے DCO سے شناسائی ھو استاد جی اگر کسے جاننے والے پر نظر التفات فرط تو وہ شخص پھولا نہ سماتا اسے اپنے پاس بیٹھنے کیلئے اشارہ کرتے تو موصوف باقی مسافروں کو پھلانگتے ھوئے استاد جی کے قریب پڑے ٹول بکس پر اپنی آدھی تشریف کیساتھ ھی براجمان ھو جاتے موڑ مڑتے ھوتے اس توازن کو برقرار رکھنا خاصہ مشکل مرحلہ ھوتا لیکن موصوف نہ صرف توازن برقرار رکھتے بلکہ اپنی گردن لمبی کر عطااللہ کا گیت اور بیڈ فورڈ بس کے انجن کی تیز آواز کے استاد جی سے گپ شپ کی سعی کرتے پھر داد طلب نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھتے یہ سلسلہ اختتام سفر تک جاری رہتا۔

جب مسافر کے اترنے کا وقت آتا تو بھی دو طریقے اختیار کیے جاتے اگر کوئی صاحب ثروت یا پھنے خان ھے تو استاد جی بریک کا پورا استعمال کرتے تا دم مسافر اتر نہ جائے اور اگر کوئی عام مسافر ھوتا تو استاد جی بریک کا تھوڑا آسرا کرتے باقی کسر کنڈیکر ان کو جگھتیں لگا کر گیٹ سے جلدی چھلانگ لگانے پر آمادہ کر لیتا اور پھر اونچی آواز میں کہتا۔۔۔چلے۔۔۔۔جان دے۔۔

*اس صدی کی کمزور ترین نسل.*وہ نسل جو سن 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہے اور اج 23،  24 سال اس کی عمر ہو چکی ہے۔۔ پوری دنیا میں ...
07/10/2024

*اس صدی کی کمزور ترین نسل.*

وہ نسل جو سن 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہے اور اج 23، 24 سال اس کی عمر ہو چکی ہے۔۔ پوری دنیا میں یہ نسل انسانی تاریخ کی سب سے جسمانی طور پر کمزور لاغر اور ذہنی طور پر نفسیاتی مریض نسل سمجھی جاتی ہے۔۔۔ یہ جس دور میں بڑی ہوئی ہے وہ تاریخ انسانی کا سب سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دور ہے۔۔۔ انفارمیشن ایج۔۔

یہ نسل بڑی ہوئی ہے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے۔۔ اس کی دسترست میں انٹرنیٹ موبائل فون ٹیبلٹ ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ہے۔ اس نسل کی تربیت بزرگوں نے نہیں سوشل میڈیا نے کی ہے۔۔

پوری دنیا میں اس نسل کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔ ان میں صبر کم ہے غصہ زیادہ، ان کی گردنوں میں خم آ گیا ہے جھک کر ہر وقت موبائل فون استعمال کرنے کی وجہ سے۔۔۔ ہر وقت سکرین کے اگے بیٹھ کر گھنٹوں کام کرنے کی وجہ سے ان کی انکھیں کمزور ہیں۔۔۔ سارا وقت بیٹھ کر ٹیکنالوجی سے کھیلنے کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت انتہائی نحیف اور ناتوان ہے۔۔ اور انسانی تاریخ میں یہ نسل سب سے زیادہ وقت لے رہی ہے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں۔۔

مغربی دنیا میں لاکھوں نوجوان زی جنریشن کے اب واپس اپنے ماں باپ کے گھر لوٹ رہے ہیں کیونکہ وہ باہر کی دنیا میں گزارا ہی نہیں کر سکتے۔۔ ان کو بومی رینگ جنریشن کہا جا رہا ہے یا بومی رینگ چلڈرن۔۔۔ اسٹریلیا کے اس قدیم ہتھیار کے نام پر کہ جس کو ہوا میں پھینکو تو وہ گھوم کر واپس اپنے مالک کے پاس ا جاتا ہے۔۔۔

پاکستان میں اپ ان کو ٹک ٹاک جنریشن کہہ سکتے ہیں۔۔ اور کسی پاکستانی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس جنریشن کا کیا حال ہے۔۔ کیا ان کے اخلاق ہیں، کیا ان کی تعلیم ہے، کیا ان کی تہذیب ہے، کیا ان کی زبان ہے، کیا ان کی تربیت ہے، اور کیا تاریک ان کا مستقبل ہے۔۔

ذرا سوچیں یہ ملک کی تقریبا 40 سے 50 فیصد آبادی ہے۔۔۔ یعنی تقریبا 10 12 کروڑ۔۔

سوچیں اگر پاکستان کو غزہ عراق شام لیبیا یا یمن جیسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تو اس نسل کا کیا حال ہوگا۔۔۔
یہ لکڑی سے آگ نہیں جلا سکتے، ان کو نقشہ دیکھ کر مشرق اور مغرب کا علم نہیں ہے، ہتھیاروں کا استعمال اور سروائیول تو چھوڑ ہی دیں، یہ دھوپ میں آدھا گھنٹہ نہیں کھڑے رہ سکتے نہ پانچ کلومیٹر پیدل چل سکتے ہیں۔۔ یہ نسل نہ جسمانی سختیاں برداشت کر سکتی ہے نہ نفسیاتی سختیاں۔۔

اسی لیے معاشرے میں سب سے زیادہ شادیاں اسی نسل کی فیل ہو رہی ہیں، کیونکہ ان کو رشتوں کو نبھانا ہی نہیں آتا، چھوٹے بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، معاملات کو سلجھانے کا صبر نہیں ہے۔

آج آپ ویڈیو گیم کھیلتے کسی بچے کا نیٹ بند کر دیں پھر دیکھیں کہ اس میں کس طرح جن گھستا ہے۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنے پورے پورے خاندان قتل کر دیے صرف انٹرنیٹ بند ہونے پہ۔۔

اور آپ کو ایک کمال کی بات بتائیں¡
غزہ میں جو مجاہدین اس وقت مشرق وسطٰی کی اتنی بڑی طاقت اور پوری دنیا کی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ان کا تعلق بھی جنریشن زی سے ہے۔۔
مگر غزہ والی وہ نسل ہے جو آگ اور خون کی بھٹی میں پک کر جوان ہوئی ہے۔۔۔ جس کی راتیں ایک راہب کی طرح اور جن کے دن ایک شہ سوار کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔ جو صرف اس لیے زندگی گزارتے ہیں کہ مسجد اقصٰی کو یہودیوں سے آزاد کرا سکیں۔۔

پاکستان کی جنریشن زی میں کتنے کی خواہش یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر مسجد اقصٰی کو آزاد کرائیں یا غزوہ ہند میں شریک ہوں اور کتنوں نے اس مشن کے لیے تیاریاں کی ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا تکلیف دہ اور خوفناک ہے کہ انسان کو ڈر لگنے لگتا ہے۔۔ جو نسل نہ اپنے کسی کام کی ہو نہ پاکستان کے کسی کام کی نہ سیدی رسول اللہ کی امت کے کسی کام کی پھر اللہ اس نسل کو کیوں رکھے گا؟ یا اگر اس نسل سے کام لینا چاہتا ہے پھر اس کو اگ اور خون کی بھٹی میں سے گزارے گا تاکہ یہ کندن بن سکے۔۔۔ موجودہ حالت میں تو یہ پاکستانی قوم اور اس کی نوجوان نسل کسی کام کی نہیں ہے۔۔۔

اللہ بلا وجہ کسی قوم کو تبدیل کر کے اس کی جگہ دوسری قومیں نہیں لاتا۔۔۔ جب پچھلی فصل اجڑ جائے تو نئی فصل لگانے کے لیے کھیت میں پہلے ہل چلانا پڑتا ہے۔۔
قوموں کے عروج و زوال میں تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔۔۔۔ گلی سڑی تہذیب یا قوم کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ہل چلا کر پھر نئی قومیں وہاں آباد کی جاتی ہیں...

عجیب وغریب تاریخ
Everyone Viral

انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ کسی شخصیت ، افکار اور موضوع پر تحقیق کے لیے بے شمار ذراٸع موجود ہیں۔ اگر آپ فلسفہ ، زبان و ادب ، تص...
21/08/2024

انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ کسی شخصیت ، افکار اور موضوع پر تحقیق کے لیے بے شمار ذراٸع موجود ہیں۔ اگر آپ فلسفہ ، زبان و ادب ، تصوف و روحانیت ، میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ حضرت سلطان احمد علی صاحب کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات ضرور لیں۔رواٸیتی پیری مریدی سے کہیں آگے ، اعلیٰ تعلیم و تربیت کے مظہر صاحبزادہ سلطان صاحب کی اسلام اور پاکستان کے لیے مثبت سوچ اور کردار کے بارے میں ضرور جانیں۔ آپ کی بصیرت اور دلنوازی دیکھیں۔ صاحبزادہ سلطان صاحب کے ظرف میں وسعت ، لہجے میں نرمی اور طبیعت میں عاجزی و انکساری ، اخلاق میں محبت اور خیر دیکھنے کے بعد آپ ضرور ان کو پسند کریں گے اور ان سے ملنا چاہیں گے۔ آپ ان سے ملیں گے تو ضرور ان کے گرویدہ ہوجاٸیں گے۔


゚viralシ

سن 1947ء لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں خوشحال مستقبل کے خواب سجائے اسلام کے قلعے کی طرف روانہ ゚viralシ
14/08/2024

سن 1947ء لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں خوشحال مستقبل کے خواب سجائے اسلام کے قلعے کی طرف روانہ
゚viralシ

     ゚viralシ
14/08/2024

゚viralシ

سلطان الفقر کی بصیرت 'سبز خانقاہ' کےقیام کی سعی جمیلہ مصنف: ملک محمدرفاقت حسین  دسمبر 2022حصہ چہارم (آخری قسط)حضرت سخی س...
01/07/2024

سلطان الفقر کی بصیرت 'سبز خانقاہ' کےقیام کی سعی جمیلہ
مصنف: ملک محمدرفاقت حسین
دسمبر 2022

حصہ چہارم (آخری قسط)

حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے فراست پر مبنی نظریہ سےخانقاہ حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز ؒ کو ایک ’’سبزخانقاہ‘‘ بنانے کیلئے جانشین سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی نے ایسے اقدام متعارف کروائے ہیں جو قابل تقلید ہیں- ذیل میں ان اقدامات کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے :

جانوروں کی حفاظت :

بہترین مرتب (fine tuned) حیاتیاتی نظام میں جانوروں کی بقاء کا ایک کلیدی کردار ہے- اس ضمن میں حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی بصیرت ایک بار پھر انسانیت کی راہنمائی فرماتی ہے اور آپ کے عظیم خلق سے یہ سبق ملتا ہے کہ جانوروں کی بہترین نگہداشت، ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور بلا ضرورت کسی پرندے یا جانور کو ہلاک نہ کیا جائے- خانقاہ پہ جانوروں کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے- تازی داری میں خانقاہ حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ اپنی مثال آپ ہے جہاں گھوڑوں کی بہترین نگہداشت کی جاتی ہے- خانقاہ پہ گھوڑوں کی معدوم نسل (شئین) کو خاص طور پہ بچا (preserve)کے رکھا گیاہے جوکہ حیاتیاتی ماحول کے تخفط کے حوالے سے ایک خوش آئند قدم ہے -

پاکیزگی اور صفائی کی تاکید :

سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے سیرت طیبہ کی روشنی میں باطن کی صفائی کے ساتھ ساتھ ظاہری پاکیزگی و صفائی ستھرائی پہ ہمیشہ بہت زور دیا- آپ نے اپنے پیروکاروں کو اجسام سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے ـ
ذاتی صفائی ستھرائی کے علاوہ سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نہ صرف راستوں تک کو صاف سُتھرا رکھنے کی ترغیب دیتے بلکہ اس کا اہتمام بھی فرماتے تھے -

حرف اختتام:

حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اور آپ کے جانشین صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب کا انداز تربیت پہلے خود پیکر مثال بننا ہے-کیونکہ اگر تھیوری کا پریکٹیکل عملی کردار کی صورت میں پیش کر دیا جائے تو مقصد کی خاطر زبانی لسانی تبلیغ کی ضرورت کم رہ جاتی ہے اور لوگ عمل کے حسن کو دیکھ کر خود ہی راغب ہوتے ہیں اور اسے اختیار کرتے ہیں-خانقاہ عالیہ کی حاضری روحانی فیضیابی کے ساتھ ساتھ ہمارے عہد کے عالمی مسائل میں ہمیں ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرنے پہ بھی مائل کرتی ہے- کاش کہ منبر و محراب میں عمل کا یہ شیوہ عام ہو جائے -

26/06/2024

Address

Al Aziziya
Jadaidat Arar

Telephone

+923117309190

Website

http://www.khankhailwrites.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khankhail Write's posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Khankhail Write's:

Share