
29/08/2025
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کے دور خلافت میں مکہ میں سیلاب آیا تھا جو اُم نہشل کے سیلاب کے نام سے مشہور ہے ، یہ واقعہ 17ھ کا ہے ، سیلاب ، مسجد حرام میں داخل ہوگیا اور مقام (مقام ابرہیم) کو بہا کر لے گیا ، جب پانی خشک ہوگیا تو لوگوں نے اسے مکہ کے زیریں علاقہ میں پایہ ، لوگ اسے اٹھا کر لائے اور خانہ کعبہ کے سامنے لگا دیا اور اس کے پردوں سے اسے باندھ دیا ، اس وقت حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) مدینہ میں تھے ۔
آپ کو پتہ چلا تو فورا وہاں سے روانہ ہوئے ، اور مقام کو اس کی جگہ پر منتقل کیا۔
پھر سن 1039ھ میں مکہ مکرمہ میں جب شدید بارش کی وجہ سے سیلاب آیا تھا۔ اور یہ سیلاب خانہ کعبہ اور مسجد الحرام تک پہنچ کر کافی خرابیاں لایا۔ اسی سیلاب میں خانہ کعبہ کی شامی دیوار گر گئی اور مغربی اور مشرقی دیواروں کا بعض حصہ بھی گھر گیا تھا۔
1941ءخانہ کعبہ میں جب مُوسلا دھار بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیا اور مطاف میں ڈیڑھ میٹر تک پانی کھڑا ہوگیا تھا۔ حجر اسود بھی سیلاب کی زد میں آیا ہوا تھا۔
تو کیا اللّٰہ پاک اس بات پر قادر نہیں کہ اپنے گھر کو سیلاب سے
بچا سکے بلکل وہ قادر ہے۔ ہر چیز اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔
اسی طرح آپ مساجد کو دیکھیں جن میں ہر وقت اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر و تسبیح اور نمازیں ادا کی جاتیں ہیں وہ بھی سیلاب کی نذر ہو جاتیں ہیں تو ان کے بارے ایسے لوگوں کا کیا مؤقف ہے، مساجد کے اندر رکھے قرآن کریم سیلاب میں بہہ جاتے ہیں تو کیا استغراللہ نعوذباللہ اللّٰہ پاک اپنی مساجد اور قرآن مقدس کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
جواب آئے گا جی بلکل کر سکتے ہیں
لیکن یہ اس کا قانون ہے اور اپنے قانون میں وہ جو مرضی کرئے۔ بندوں کو یہ اختیار ہے کہ ایسے موقع پر حفاظتی انتظامات کریں۔
ملک پر کوئ آفت آن پڑے تو مذہبی یا سیاسی اختلاف رکھنے والے احباب میدان میں اتر پڑتے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہبی علم نہ رکھنے والے بھی مذہب اور تصوّف پہ لکھنا شروع کر دیتے ہیں سیلاب کے دنوں میں جب ہر کوئی پریشان اور محو دعا ہے کہ اللہ پاک اس آفت کو ٹالے تو کچھ لوگ اس طرح کی پوسٹیں کرنے میں مصروف ہیں کہ ولی یا بزرگ کرامت کا اظہار کرکے سیلاب روک کیوں نہیں دیتے مزار پر پانی کیوں آ گیا وغیرہ وغیرہ اعتراض کرتے ہیں کہ ولی اپنا مزار کیوں نہ بچا سکا اس میں پانی داخل ہوگیا تو سیلاب میں کئی دفعہ مساجد شہید ہو جاتی ہیں مسجد اللہ پاک کا گھر ہے اور اللہ پاک ہر بات پہ قادر ہے لیکن پھر بھی مسجد سیلاب کی نظر ہو جاتی ہے اسی طرح حج کے دوران بیت اللہ شریف میں کئ دفعہ حادثات پیش آتے ہیں اور بہت سارے حجاج کرام فوت ہو جاتے ہیں حجاج اللہ پاک کے مہمان ہوتے ہیں اور جان سے چلے جاتے ہیں حالانکہ اللہ پاک خود ہر چیز کا محافظ ہے یاد رکھیں اللہ پاک کا ایک قانون ہے اور اللہ پاک اس کائنات کو اسی قانون کے تحت چلا رہا ہے کوئ ولی اس قانون میں مداخلت نہیں کرتا اور اگر کسی وقت مطلب کبھی کبھار ولی قانون کے بدلنے کی دعا کردے تو اللہ پاک اپنے پیارے کی دعا قبول کر لیتا ہے اور قانون کی بجائے اپنی قدرت کا اظہار فرما دیتا ہے جسے ہم کرامت کہتے ہیں یاد رکھیں کرامت ولی کی دعا سے ضرور ہوتی ہے مگر کرتا اللہ پاک ہی ہے کیونکہ سب کچھ کرنے والی ذات اللہ پاک کی ذات ہے یہ بات ذہن میں رہے ولی کسی کے کہنے یا مطالبہ کرنے پہ کرامت کا اظہار نہیں کرتا بلکہ اپنی کسی کیفیت میں ایسا کرتا ہے۔
کرامات کا انکار سخت گناہ ہے بعض علماء کرام کا تو کہنا ہے کہ کرامات چونکہ قرآن پاک سے ثابت ہیں اس لئے کرامات کا انکار اصل میں قرآن پاک کا انکار ہے اور قرآن پاک کا انکار کفر ہے لہذا اس بارے سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے لکیر کے فقیر بن کر نہ تو ایسی پوسٹوں کو شئیر کرنا چاہئے اور نہ کاپی پیسٹر بننا چاہیئے ۔