M Tayyab jiani

M Tayyab jiani This is Muhammad Tayyab jiani's official page , world wide contact number ( 00966502073715 )
(1)

       ۔5 جگن ناتھ آزد کی پہلی شادی پاکستان1946 میں........ شکنتلا ........ سی ھوئی ..... شکنتلا میں بیمار هو گئی .........
21/09/2025





۔5


جگن ناتھ آزد کی پہلی شادی پاکستان

1946 میں........ شکنتلا ........ سی ھوئی ..... شکنتلا میں بیمار هو گئی .......... بہت علاج کرائے گئے .......... لیکن صحت یاب نا هو

سکی اس کا اسی سال انتكال هو گیا ........... آزاد اسکی ............ موت پر بہت رنجیده هوا ........ آزاد نے اس کی جدائی کے صدمے

میں............. آرزو.....................استفساد..... نامی دو نظمیں لکھیں ..........

آزد کو پہلے پہل ایک اخبار ............... ملاپ ...... میں

نائب مدیر کی ملازمت ملی ... بعد میں

ایمپلائمنٹ نیوز میں ...... روزگار پایا .....

پاکستان بننے کے دوسرے سال 1948 میں آزاد

نے دوسریشادی............. وملا سے کی... جس سے اس کے تین بچے پیدا ھوئی....... آدرش ......... چندر كانت ........... اور سب سے چھوٹی بیٹی. ..... پونم

جگن ناتھ آزد کا پہلا شعری مجموعه طبل و

علم 1948 میں شایع هوا ........ دوسرا

مجموعه بیکران .......1949 میں چھپا

1977 میں آزاد کو پروفیسر اور صدر شعبہ اردو

جموں یونیورسٹی.

کی پیشکش هوئی .......

1978 کو........ آزاد گورنمنٹ ہائی سکول عیسیا

خیل اپنی جنم بهومی................. کی

یاترا ....... کرنے آیا

          آج کے سلسلے میں تلوک چند محروم صاحب کی چند خوبصورت غزلیں آپ کی خدمت اقدس میں پیش کی جاتی ہیں اس سلسلے کو جاری ...
20/09/2025








آج کے سلسلے میں تلوک چند محروم صاحب کی چند خوبصورت غزلیں آپ کی خدمت اقدس میں پیش کی جاتی ہیں اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا

غزل نمبر ۔1
اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی

اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی

دام غم حیات میں الجھا گئی امید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی

اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی

انجام فصل گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی

بس اتنا ہوش تھا مجھے روز وداع دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی

ہر موج آب سندھ ہوئی وقفہ پیچ و تاب
محرومؔ جب وطن میں ہماری خبر گئی

غزل نمبر ۔2

کیا سنائیں کسی کو حال اپنا
اپنے دل میں رہے ملال اپنا

شرمسار جواب ہو نہ سکا
بسکہ خوددار تھا سوال اپنا

کس نے دیکھا نہیں ہے بعد عروج
سایۂ چرخ میں زوال اپنا

حسرت دید لے چلے ہم تو
آپ دیکھا کریں جمال اپنا

پیچ در پیچ گیسوئے مشکیں
جا کے الجھا کہاں خیال اپنا

دل اسیر بلائے زلف دراز
محو فریاد بال بال اپنا

موت آئی نہ التجاؤں سے
اور جینا ہوا وبال اپنا

ہے یہ پر درد داستاں محرومؔ
کیا سنائیں کسی کو حال اپنا

غزل نمبر ۔3

ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا
کہ ہم نے زندگی کو جادۂ راہ سفر جانا

یکایک منزل آفات عالم سے گزر جانا
ڈریں کیوں موت سے جب ہے اسی کا نام مر جانا

تری نظروں سے گر جانا ترے دل سے اتر جانا
یہ وہ افتاد ہے جس سے بہت اچھا ہے مر جانا

جواب ابر نیساں تجھ کو ہم نے چشم تر جانا
کہ ہر اک قطرۂ اشک چکیدہ کو گہر جانا

تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا

ہم اپنے رہزن و رہبر تھے لیکن سادہ لوحی سے
کسی کو راہزن سمجھے کسی کو راہبر جانا

میں ایسے راہ رو کی جستجو میں مر مٹا جس نے
تن خاکی کو راہ عشق میں گرد سفر جانا

لب بام آئے تم اور ان کے چہرے ہو گئے پھیکے
قمر نے تم کو خورشید اور ستاروں نے قمر جانا

نہ بھولے گا ہمیں محرومؔ صبح روز محشر تک
کسی کا موت کے آغوش میں وقت سحر جانا
M Tayyab jiani

      تلوک چند محروم صاحب کو حکومت ہند نے 1953 میں کیمپس کالج کا سربراہ بنا دیا تقسیم کے وقت جو طلباء ہندوستان چلے گئے ت...
19/09/2025






تلوک چند محروم صاحب کو حکومت ہند نے 1953 میں کیمپس کالج کا سربراہ بنا دیا تقسیم کے وقت جو طلباء ہندوستان چلے گئے تھے انکے تعلیم کیلئے یہ قدم ضروری تھا اس سے پہلے وہ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ، ،

تلوک چند محروم صاحب نے 60 کے قریب غزلیں لکھیں ان میں سے دو یہ ہیں
غزل ۔1
وہ دل کہاں ہے اہل نظر دل کہیں جسے
یعنی نیاز عشق کے قابل کہیں جسے

زنجیر غم ہے خود مری خواہش کا سلسلہ
یا زلف خم بہ خم کہ سلاسل کہیں جسے

ملتا ہے مشکلوں سے کسی کے حضور کا
وہ ایک لحظہ زیست کا حاصل کہیں جسے

کشتی شکستگان یم اضطراب کو
تیرا ہی ایک نام ہے ساحل کہیں جسے

پاتی نہیں فروغ بجز سوز و ساز عشق
شمع حیات در خور محفل کہیں جسے

اس دل کو شاد رکھنے کی خدمت ملی مجھے
غم ہائے روزگار کی منزل کہیں جسے

اس دور قدر دان سخن میں یہ اتفاق
شاعر وہی ہے رونق محفل کہیں جسے

محرومؔ چاک‌ سینۂ ہر گل میں ہے وہ چیز
تاثیر نالہ ہائے عنادل کہیں جسے

غزل ۔2

ملنے کا جب مزا ہے کہ دل آپ کا ملے
ظاہر میں آپ مجھ سے ملے بھی تو کیا ملے

یہ آرزو ہے اب نہ رہے کوئی آرزو
یہ مدعا ہے اب دل بے مدعا ملے

دیتا ہے ترک عشق بتاں کی صلاح تو
واعظ خدا کرے کہ نہ تجھ کو خدا ملے

خاطر سے میری آپ اٹھائیں نہ غیر کو
محفل میں جا ملے نہ ملے دل میں جا ملے

دل خاک ہو کے بیٹھ نہ جائے تو کیا کرے
کوچے میں غیر کے جو ترا نقش پا ملے

حیراں کھڑا ہوا ہوں میں صحرائے عشق میں
یاور نصیب ہو تو کوئی رہنما ملے

اس گل بدن سے یوں ہوس اختلاط ہے
گلشن میں جیسے پھول سے باد صبا ملے

یہ گل رخان دہر وہ گل ہیں کہ نام کو
جن میں نہ خوئے مہر نہ بوئے وفا ملے

ہے خرقہ و قبا پہ عبث ناز امتیاز
یکساں ہیں جبکہ خاک میں شاہ و گدا ملے

عاشق کی موت وہ ہے کہ قرباں ہو جس پہ زیست
اور زیست وہ کہ موت کا جس میں مزا ملے

بے جا نہیں رکھوں جو میں محرومؔ اپنا نام
مجھ سے اگر نہ وہ بت ناآشنا ملے

یہ سلسلہ آپ کی خدمت اقدس میں جاری رہے گا کمنٹ سیکشن میں اپنی راۓ کا اظہار ضرور کیجئے گا

 #قسط نمبر ۔2 انڈیا میں قیام کے 6 سال بعد ایک مرتبہ پھر قسمت تلوک چند محروم صاحب پہ مہربان ہوئی پاکستان سے دعوت نامہ ملا...
18/09/2025

#قسط نمبر ۔2
انڈیا میں قیام کے 6 سال بعد ایک مرتبہ پھر قسمت تلوک چند محروم صاحب پہ مہربان ہوئی پاکستان سے دعوت نامہ ملا گورڈن کالج راولپنڈی کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کا وہ فوراً چلے آئے پاکستان

تقریب کے بعد وہ موجودہ ضلع بھکر کے شہر کلور کوٹ میں اپنے دوستوں سے ملنے کیلئے تشریف لائے تھے

واپس انڈیا پہنچنے کے بعد دل میں بہت اداسی اور وطن کی یاد نے بہت ستائے رکھا تو اس دوران ایک نظم لکھی " دریائے سندھ کی یاد "

انتخاب کلام تلوک چند محروم

دریائے سندھ کی یاد

اے سندھ ، تری یاد میں جمنا کے کنارے

آنکھوں میں ابل آئے ہیں جذبات کے دھارے

وابسته طفلی و جوانی وہ نظارے

موجود تصویر کی نگاہوں میں ہیں سارے

آزادی تحلیل کا اعجاز عیاں ہے محدود مکان ہے نہ یہ پابند زماں ہے

ساحل اس نے تجھے حسن کا روپ دیا خدا نے

اک گاؤں ترے ساحل خرم پہ ہے آباد یہ ساٹھ برس پہلے کی اسے سندھ ہے روداد

اس عالم پیری میں آتے ہیں مجھے یاد

وہ کھیت وہ جنگل ، وہ جزیرے وہ سفینے وہ حسن دل آویز کے جاں بخش خزینے!

بھولا نہیں عالم تری امواج رواں کا

وہ ماضی رقصاں مری عمر گزراں کا

تو اور تلاطم وہ میرے ذوق نہاں کا

افسوس ! کہاں میں ہوں یہ ہے کہاں کا

گورشتہ کناروں سے ترے توڑ کے آیا طفلی بھی جوانی بھی وہیں چھوڑ کے آیا

ظاہر میں نہ تھا گو عمل سجدہ گزاری

میں وہ ہوں لڑکپن سے جو تھا تیر انچاری تھا میری نظر میں کرم خالق باری

وہ سیر کناروں کی وہ موجوں کی سواری
چکر ترے گردا کے ہیں اب بھی نظر میں دل میں وہی طوفان ہے، سودا وہی سیریں

گو پاک نہیں اس سے سروکار نہیں ہے

تقدیس حمن سے مجھے انکار نہیں ہے

کیا کیجئے، وہ آر نہیں، پار نہیں ہے

آسودہ کسی طور دل زار نہیں ہے

وہ ہمہ وہ جوش و خروش اس میں کہاں ہے افسردہ ہی بے جان سی اک نہر رواں ہے

دکھن کے سمنڈ کی ہوائیں بھی وہی ہیں

ساون ہی، گھنگھور گھٹائیں بھی یہی ہیں سرے کے لینے کی ادائیں بھی وہی ہیں

رنگیں، شفق آلود فضائیں بھی وہی ہیں

نظارہ ترے جلوۂ سیمیں کا نہیں ہے میں ساحل جمنا پہ ہوں دل اور کہیں ہے

جب تک کہ رہی تنگی آغوش کہستاں

دامن کو سمیٹے ہوئے نکلا تو شتاباں

پھیلائے ہیں وہ پاؤں نکل کر سر میداں

ہم ظرفی تلزم کا ہے دعوی تجھے شایاں کا

مظہر ہیں سب اللہ کے احسان کے دریا

دنیا میں بہت کم ہیں تری شان کے دریا

گو جور و جفا کی تجھے عادت بھی رہی ہے

فطرت تبری کچھ مسائل وحشت بھی رہی ہے

مضمر ترے طوفان میں آخت بھی رہی ہے

ساتھ اس کے نمایاں حقیقت بھی رہی ہے

دیہات اُجاڑے تو بسائے بھی ہیں تو نے

نقشے جو بگاڑے تو بنائے بھی ہیں تو نے !

ہاں میرے تصور میں ہے آباد وہ قریہ

آتا ہے ابھی مجھ کو بہت یاد وہ قریہ
ہر قید تکلف سے تھا آزاد وہ قریہ

تھا جلوہ گر حسن خدا داد وہ قریہ

بتا اُسی میدان میں ہے، یا ہے کہیں اور ؟

مضمون تو ہو گا رہی ، ہو گرچہ زمین اور !

سامان دل شورید کے بہیجان کے ہوں گے

پنگھٹ اسی صورت کے اُسی شان کے ہو گئے

کچھ ان میں ابھی تک مری پہچان کے ہوں گے

انسان جو ہمدرد تھے انسان کے، ہوں گے

افسوس رسائی مری ہوگی نہ وہاں تک، اب رو ئیے ایام گزشتہ کو کہاں تک ...

یہ سلسلہ آپ کی خدمت اقدس میں جاری رہے گا ، کمنٹ سیکشن اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے گا

M Tayyab jiani

        میانوالی کی موجودہ ہ  تحصیل عیسیٰ خیل میں یکم جولائی 1887ء کو ایک عظیم شاعر پیدا ہوا۔ نام تھا تلوک چند اور تخلص ...
16/09/2025





میانوالی کی موجودہ ہ
تحصیل عیسیٰ خیل میں یکم جولائی 1887ء کو ایک عظیم شاعر پیدا ہوا۔ نام تھا تلوک چند اور تخلص تھا محروم۔

محروم نے بی اے تک روایتی تعلیم حاصل کی۔ 1908ء میں مشن ہائی اسکول ڈیرہ اسماعیل خان میں بطور انگلش ٹیچر مقرر ہوئے۔ 1933ء میں کنٹونمنٹ بورڈ مڈل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے۔

ان کا یہ شعر وقت کے گزرنے کے ساتھ نسل در نسل پسند کیا جاتا رہا ہے:
؎ اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
؎ موجِ نسیم تھی، اُدھر آئی اُدھر گئی

تلوک چند محروم اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔

دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ کا ایک سیاسی فیصلہ برصغیر کے لیے آگ، نفرت، دکھ اور جدائی کا سامان لے آیا۔ صدیوں سے آباد لوگ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ اس فیصلے نے ہولناک قیامت کی صورت اختیار کی۔ تلوک چند محروم بھی اس زد میں آ گئے اور انہیں ہجرت کر کے ہندوستان جانا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ راستے میں ان کی بیٹی زندہ جل گئی (اگرچہ اس کا کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا)۔

وہ دہلی میں مقیم ہوئے۔ جاتے وقت ان کا بیٹا جگن ناتھ آزاد تیس برس کا تھا، جس کا ذکر تفصیل سے آگے کی قسطوں میں کیا جائے گا۔ دہلی میں محروم کچھ دنوں تک نامہ تیج سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کیمپ کالج میں اردو اور فارسی کے لیکچرر کے فرائض انجام دیتے رہے۔

6 جنوری 1966ء کو یہ عظیم شاعر اس فانی دنیا سے رخصت ہوا۔

ان کا پہلا مجموعۂ کلام گنجِ معانی لاہور سے میسر زعطر چند کپور نے شائع کیا۔ دوسرا مجموعہ شعلۂ نوا کے نام سے سامنے آیا۔

محروم ہر مذہب کے پیشواؤں کا بے حد احترام کرتے تھے اور اہم تاریخی ہستیوں سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی نظموں میں مہاتما بدھ، سیتا جی اور نورجہاں کے مزار کی جھلکیاں موجود ہیں۔

ان کی مشہور غزل "اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی" ان کی عاجزی اور انکسار کی روشن دلیل ہے۔

یہ سلسلہ آپ کی خدمتِ اقدس میں جاری رہے گا۔ آپ کی قیمتی رائے کا منتظر رہوں گا۔

16/09/2025

Words ❤️🌹 ゚ M Tayyab jiani A***n Khan بولان سازع زیمر بلوچی گیت سنگیت

Big shout out to my newest top fans! 💎 Zul Kiffal, Milk Fahim, Neetu Verma, Zakir Husain, Muhammad Amin, جیانی بلوچ, Abd...
16/09/2025

Big shout out to my newest top fans! 💎 Zul Kiffal, Milk Fahim, Neetu Verma, Zakir Husain, Muhammad Amin, جیانی بلوچ, Abdul Karim, Mahar Liaquat Naul

Drop a comment to welcome them to our community,

نگاہوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن ، تفکر میں جمال سوزِ تاباں لے کے آیا ہوں فرمان چاچا عطا اللہ عیسیٰ خیلوی صاح...
15/09/2025

نگاہوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں لیکن ، تفکر میں جمال سوزِ تاباں لے کے آیا ہوں
فرمان چاچا عطا اللہ عیسیٰ خیلوی صاحب

15/09/2025

بلوچی ساز و آواز ゚ Saad Rasheed Tessie P Cutab ارتضیٰ حیدر A***n Khan

14/09/2025

سرائیکی سونگ ゚

Address

33
Jeddah Islamic Port

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M Tayyab jiani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share