M Tayyab jiani

M Tayyab jiani This is Muhammad Tayyab jiani's official page , world wide contact number ( 00966502073715 )
(1)

31/10/2025

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

چاروں بہن بھائی میر شاہنواز بھٹو مرتضی بھٹو، بے نظیر بھٹو، اور صنم بھٹو ایک ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے جاپان کے سفر پر روا...
29/10/2025

چاروں بہن بھائی میر شاہنواز بھٹو مرتضی بھٹو، بے نظیر بھٹو، اور صنم بھٹو ایک ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے جاپان کے سفر پر رواں دواں ان چاروں میں سے آج صرف صنم بھٹو حیات ہیں. وہی صنم جو ہمیشہ سیاست کے ہنگاموں سے دور رہیں اور آج بھی بھٹو خاندان کی آخری زنده یادگار کے طور پر خاموشی سے زندگی گزار رہی ہیں۔ باقی تینوں اپنے اپنے وقت پر تاریخ کے المیے بن گئے۔

سوڈان: المیے ہی المیےیہ 3 نوجوان نہ چور تھے، نہ قاتل، نہ کسی لشکر کے سپاہی۔ ان کی دردناک ویڈیو نہ میں لگا سکتا ہوں اور ن...
28/10/2025

سوڈان: المیے ہی المیے

یہ 3 نوجوان نہ چور تھے، نہ قاتل، نہ کسی لشکر کے سپاہی۔ ان کی دردناک ویڈیو نہ میں لگا سکتا ہوں اور نہ ہی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ صرف زندگی کی تلاش میں نکلے تھے، ایک کے کندھے پر آٹے کا تھیلا تھا، دوسرے کے ہاتھ میں چند پیکٹ میکرونی کے اور ایک کے بدنصیب ہاتھ بالکل خالی۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ محصور شہر الفاشر کے بھوکے انسانوں تک خوراک پہنچانا چاہتے تھے۔ مگر دہشت گرد ملیشیا کے درندوں نے انہیں پکڑ لیا، تینوں کو ایک گڑھے کے اندر کھڑا کیا، موبائل کیمرے آن کیے اور پھر گولیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ انہیں بھون ڈالا۔ انسانیت کی غیرت کا کفن بھی ان کے ساتھ گھڑے میں دفن ہوگیا۔ نہ اقوامِ متحدہ چیخی، نہ عالمی ضمیر جاگا۔ کیونکہ یہ نوجوان سوڈانی تھے۔ وہ سوڈان جسے اپنے پرائے، سب نے بھلا دیا ہے۔ بلکہ غزہ پر قیامت تو اغیار کے ہاتھوں ٹوٹی، مگر اہل سوڈان پر حشر اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں ہی بپا ہے۔
سوڈان وہ سرزمین ہے جہاں دریائے نیل کے کنارے قدیم تہذیبی شاہکار کھڑے ہیں، مرو کی بادشاہیاں اور نوبیہ کے آثار اس کی تاریخ کی گواہیاں ہیں، مگر آج اس کی خاکِ زر انسانی خون سے رنگین ہے۔ جہاں المیوں کی ایک لمبی لکیریں کھینچی گئی ہیں۔
غزہ پھر بھی خوش قسمت ہے کہ دنیا بھر میں اس کے لیے آواز اٹھائی گئی اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن سوڈان کو دنیا نے ایسے ہی بھلا دیا ہے جیسے کچھ عرصہ پہلے شام کو بھلا دیا گیا تھا۔ افریقہ کے شمال مشرق میں واقع اس ملک کی سرحدیں مصر، اریٹیریا، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، چاڈ اور لیبیا سے ملتی ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے یہ براعظم افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کی عظمتِ ماضی آج خون، بھوک اور تباہی کی تصویروں میں بدل چکی ہے۔ دارالحکومت خرطوم سمیت بیشتر شہر گزشتہ دو برسوں سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ 2023 میں بھڑکنے والا فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کا تصادم اب مکمل جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں لاکھوں شہری متاثر ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔
سوڈان کی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان تنازع کی بنیاد اقتدار اور اس سے جڑے مفادات پر ہے۔ جنرل عبدالفتاح البرہان کی سربراہی میں فوج ملک کی باقاعدہ ریاستی طاقت ہے جبکہ محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی کی کمان میں RSF ایک نیم فوجی گروہ ہے جس کی جڑیں دارفور کے قبائلی ملیشیاؤں تک جاتی ہیں۔ 2019 میں سابق صدر عمرالبشیر کی معزولی کے بعد اقتدار کی منتقلی اور سیاسی اصلاحات کے عمل میں دونوں گروہوں کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے۔ فوج RSF کو وزارتِ دفاع کے ماتحت لانے پر اصرار کرتی رہی، جبکہ حمیدتی اپنی فورس کو آزاد عسکری حیثیت میں برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ یہی اختلاف اپریل 2023 میں مکمل جنگ میں بدل گیا۔
اس جنگ نے سب سے زیادہ تباہی دارفور کے علاقوں میں مچائی ہے۔ الفاشر، جو شمالی دارفور کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے، گزشتہ کئی ماہ سے مکمل محاصرے میں ہے۔ خوراک، ادویات اور بنیادی سہولیات کا نظام درہم برہم ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد خوراک کے بحران سے دوچار ہیں جبکہ لاکھوں افراد اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اسپتال بند پڑے ہیں، طبی عملہ محفوظ نہیں اور بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
چند روز قبل الفاشر میں ایک ایسا واقعہ سامنے آیا جس نے پوری جنگ کی سفاکیت کو بے نقاب کر دیا۔ ریپڈ سپورٹ فورسز کے اہلکاروں نے تین نوجوانوں کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ شہر میں خوراک لے جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک کے پاس آٹے کا تھیلا اور دوسرے کے پاس چند پیکٹ میکرونی تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ محاصرہ شدہ علاقے میں خوراک لے جا رہے ہیں۔ فورس کے اہلکاروں نے انہیں ایک گڑھے میں کھڑا کر کے فائرنگ کر دی اور اس واقعے کو براہِ راست سوشل میڈیا پر نشر کیا۔ اس منظر نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو جھنجھوڑ دیا لیکن عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
الفاشر میں جاری جھڑپوں کے باعث شہر مکمل طور پر امداد سے کٹ چکا ہے۔ انسانی امدادی ادارے بارہا اپیل کر چکے ہیں کہ فوری جنگ بندی اور محفوظ راہداری فراہم کی جائے تاکہ خوراک اور ادویات متاثرہ آبادی تک پہنچ سکیں، لیکن زمین پر عملی صورت حال مختلف ہے۔ RSF نے شمالی دارفور کے بیشتر راستوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور فوج شہر کے اندر دفاعی پوزیشن پر ہے۔ ہر دن درجنوں شہری بمباری، گولی باری یا بھوک کے باعث جان سے جا رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور افریقی یونین کی متعدد کوششوں کے باوجود فریقین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پائیدار ثابت نہیں ہوئے۔ امریکہ اور سعودی عرب کی میزبانی میں جدہ مذاکرات کا سلسلہ بھی بارہا معطل ہوتا رہا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور عالمی تنظیموں نے سوڈان کے بحران کو انسانی المیہ اور تباہ کن قرار دیا ہے، مگر عالمی توجہ اب بھی محدود ہے۔
اس دوران بین الاقوامی منظرنامے پر ایک نیا تنازع اس وقت ابھرا جب سوڈانی حکومت نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا کہ وہ ریپڈ سپورٹ فورسز کو ہتھیار، ڈرونز اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ خرطوم نے یہ معاملہ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف تک پہنچایا، جبکہ یو اے ای نے ان الزامات کی تردید کی۔ تاہم کئی مغربی میڈیا رپورٹس نے بتایا کہ لیبیا اور چاڈ کے راستے RSF تک جدید ہتھیار پہنچائے گئے ہیں، جن میں کچھ اماراتی ڈرون بھی شامل تھے۔ ان خبروں کے بعد سوشل میڈیا پر "بائیکاٹ یو اے ای" کی مہم شروع ہوئی ہے، جسے سوڈانی شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکن آگے بڑھا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ RSF کا دارفور میں ماضی بھی متنازع رہا ہے۔ 2003 سے 2008 کے دوران دارفور میں ہونے والے تشدد میں جنجاؤید ملیشیا پر ہزاروں شہریوں کے قتل اور نسل کشی کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور یہی گروہ بعد میں RSF کی بنیاد بنا۔ موجودہ تنازع میں بھی نسلی بنیادوں پر تشدد کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔ انسانی حقوق واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹس کے مطابق دارفور میں متعدد دیہات جلائے گئے، خواتین کو نشانہ بنایا گیا اور شہری آبادی کو دانستہ طور پر بھوک سے مرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
خرطوم، ام درمان، کردفان اور نیل کے کنارے بسے دیگر شہروں میں بھی زندگی تقریباً مفلوج ہو چکی ہے۔ بجلی کے نظام کی بندش، پانی کی قلت اور قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے شہریوں کو سخت مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔ بینکنگ سسٹم مفلوج ہے، انٹرنیٹ سروس بار بار معطل ہو جاتی ہے اور عام شہری اپنے گھروں تک محدود ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق سوڈان کی 4.9 کروڑ آبادی میں سے تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ انسانی امداد کے منتظر ہیں۔ یہ خطہ اب دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ مگر عالمی سطح پر سوڈان کا ذکر بہت کم سنائی دیتا ہے۔ زیادہ تر ممالک اپنے علاقائی یا تجارتی مفادات کے باعث کھل کر کسی فریق کے خلاف مؤقف اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
سوڈان آج اس مقام پر کھڑا ہے جہاں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ ایک تھیلا آٹا اور چند پیکٹ میکرونی اب جرم کا نشان بن چکے ہیں۔ الفاشر کی گلیوں میں بھوک کے خلاف جدوجہد کو بغاوت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ملک جو کبھی عرب اور افریقہ کے درمیان تہذیبی پل سمجھا جاتا تھا، اب دنیا کے نقشے پر بھولی ہوئی انسانیت کی علامت بن گیا ہے۔ اگر عالمی ضمیر نے اب بھی آنکھ نہ کھولی، تو شاید اس المیے سے سوڈان کے لاکھوں مظلوم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں گے۔

ہم تو قائل نہ تھے قیامت کے ،، انکو دیکھا تو اعتبار آگیا
27/10/2025

ہم تو قائل نہ تھے قیامت کے ،،
انکو دیکھا تو اعتبار آگیا

23/10/2025
19/10/2025

میں نے پوچھا کہ پھر کب
Tessie Lagz Sana Sana Shaah Anni Quratulain Anni Hashir Mehmood Shaheen Xpress

اے عذرا ہے تیڈی سک وچ ذرا مکھڑا ڈکھا ماہیا
18/10/2025

اے عذرا ہے تیڈی سک وچ ذرا مکھڑا ڈکھا ماہیا

خدا مجبور دا شالا ہوئے سجڑاں دا رکھوالا جنہاں نوں ڈیکھ کے ٹھردے
16/10/2025

خدا مجبور دا شالا ہوئے سجڑاں دا رکھوالا جنہاں نوں ڈیکھ کے ٹھردے

Address

33
Jeddah Islamic Port

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M Tayyab jiani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share