12/09/2025
نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے تھے، مگر وہاں، جہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔
گرد و پیش زمین خشک تھی آسمان بلکل صاف، نہ بادل تھے نہ بارش کی کوئی آہٹ۔
لیکن نوحؑ کے کانوں میں وحی کی بازگشت تھی.
"ایک طوفان آنے والا ہے۔ زمین ڈوب جائے گی۔ سرکش غرق ہوں گے۔"
یہ عام آدمی کے لیے ایک دیوانے کا خواب ہو سکتا تھا، مگر نوحؑ کے لیے یہ رب کا وعدہ تھا۔
اللہ کا حکم تھا: "کشتی بناؤ"
اور وہ بنانے لگے۔ درختوں کو کاٹا گیا، لکڑیاں جوڑی گئیں، کیل ٹھونکے گئے۔ اور وہ تین منزلہ کشتی خشکی پر اٹھنے لگی۔
قوم کے سردار روز گزرتے، ہنستے، طعنے دیتے، اور کہتے: "کیا سمندر اب تمہارے خوابوں سے نکلے گا؟"
نوحؑ نے جواب دیا، جو قرآن میں آج بھی محفوظ ہے:
"وَيَصۡنَعُالۡفُلۡكَوَكُلّمَا مَرّعَلَيۡهِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِهٖ سَخِرُوۡا مِنۡهُؕ قَالَاِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنّا فَاِنّا نَسۡخَرُمِنۡكُمۡ كَمَا تَسۡخَرُوۡنَؕ"
(سورہ ہود: 38)
"اگر تم ہم پر ہنستے ہو، تو ہم بھی تم پر ہنسیں گے، جیسے تم ہنستے ہو۔"
یہ کشتی نہیں بن رہی تھی، یہ یقین لکڑی سے جوڑ بنا رہا تھا ، توکل کے کیلوں سے جُڑی ہوئی یہ کشتی، صبر کے پانی سے سیراب کی گئی تھی۔ نوحؑ نے قوم کے قہقہوں کو نہیں سنا، صرف رب کے حکم کو سنا۔
طوفان آیا۔
وہی زمین جسے لوگ خشک سمجھتے تھے، سمندر بن گئی۔ جو کل مذاق کر رہے تھے، آج مدد کیلئے چیخ رہے تھے۔ لیکن وقت گزر چکا تھا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔
نجات صرف اُس کشتی میں تھی، جو وقت پر اللہ کے حکم پر بنائی گئی تھی۔
نوحؑ علیہ السلام پیغمبر تھے ، مگر ہم خاتم النبیین ﷺ کے اُمتی ہیں۔ ہمارے لیے بھی احکام ہیں، ہدایات ہیں، اور کچھ طوفان ہمارے ایمان، وقت، نسل، اور اقدار کو بہا لے جانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
آج ہمیں بھی خشکی پر اپنی کشتی بنانی ہے محنت کی، دعا کی، علم کی، اور نیت کی۔
بہت مذاق اڑے گا رکاوٹیں آئیں گی، تاخیر بھی ہوگی۔
مگر حکم ہو چکا ہے۔
کشتی بنانی ہے۔ اپنے ایمان کو بچانا ہے.
پانی کا انتظار تو بس ڈوبنے کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایمان کا سفر 𝐖𝐀𝐐𝐀𝐒 𝐀𝐍𝐉𝐔𝐌 ہے. یہی بندگی کا امتحان ہے.