Zameer Khan

Zameer Khan Subscribe My YouTube channel
Link 👇🏻
https://youtube.com/?feature=shared

15/07/2025

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ
📚 بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

15/07/2025

Adventure 🌟

15/07/2025

👰‍♂️پردہ اور ستر میں فرق اور عورت کے لیے پردہ کی حدود

پردہ عربی زبان کے لفظ "حجاب" کا ترجمہ ہے، حجاب کا حکم نامحرم مردوں اور عورتوں کو متوجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پردہ کریں،
مردوں کا مردوں سے اور عورتوں کا عورتوں سے حجاب اور پردہ نہیں۔ جبکہ "ستر" کا مطلب جسم کے وہ اعضاء ہیں جنہیں کسی بھی دوسرے انسان کے سامنے کھولنا جائز نہیں، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، محرم ہو یا نا محرم؛ لہٰذا کوئی خاتون اپنا ستر کسی خاتون کے سامنے نہیں کھول سکتی، اگرچہ خاتون کا خاتون سے پردہ اور حجاب نہیں، اسی طرح مردوں کا مردوں سے پردہ نہیں ہوتا، لیکن کوئی مرد اپنا ستر کسی دوسرے مرد کے سامنے نہیں کھول سکتا۔ اسی طرح ستر ان اعضاء کے چھپانے کو کہا جاتا ہے جنہیں نماز میں ڈھانپنا ضروری ہوتا ہے۔ مرد اور عورت کے ستر کی مزید تفصیل بوقتِ ضرورت معلوم کی جاسکتی ہے۔ البتہ ستر کا لفظ بعض زبانوں (مثلا پشتو) میں عرف اور اصطلاح کی وجہ سے حجاب اور پردہ کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، جس میں کوئی حرج نہیں۔

عورت کے لیے پردہ کی حدود اور درجات تین ہیں:

(1) گھر کی چار دیواری میں رہنا اور بلا ضرورت و حاجت اس سے باہر نہ نکلنا۔ شریعت کا اصل مزاج اور
منشا یہی ہے کہ عورت حتی الامکان گھر کی چار دیواری میں رہے، بلا ضرورت یاحاجت گھر سے باہر نہ نکلے۔

(2) حاجت اور ضرورت کے لیے گھر سے باہر جاتے ہوئے ہاتھوں اور چہرے سمیت سر سے لے کر پیر تک اپنے پورے جسم کو برقعے یا کسی بڑے کپڑے سے اس طرح ڈھانک لے جس میں اعضاء نظر نہ آئیں، نہ ہی ان کی ساخت نمایاں ہو۔ اسی طرح اگر گھر وغیرہ میں نامحرم مرد بھی ہوں تو بھی عورت کے لیے یہی حکم ہے۔

(3) ضرورت اور حاجت کے لیے گھر سے باہر جاتے ہوئے سر سے پیر تک اپنے پورے جسم کو برقعے یا کسی بڑے کپڑے سے اس طرح ڈھانک لے جس میں اعضاء نظر نہ آئیں، نہ ہی ان کی ساخت نمایاں ہو، البتہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھے۔ اس تیسرے درجے کی اجازت دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے، ایک یہ کہ چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھنے کی حاجت ہو، دوسرا یہ کہ فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔
اگر ایک ہی مکان میں متعدد گھرانے سکونت پذیر ہونے کی صورت میں مکمل پردہ کرنا دشوار ہو تو ایسی صورت میں اگر عورت اپنے پورے جسم کو ایسی موٹی چادر یا گھونگھٹ سے چھپا لے جس میں سر کے بال ،ہاتھ کی کلائیاں،بازو وغیرہ اعضاء چھپے ہوئے ہوں، صرف چہرہ ، ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کھلے ہوئے ہوں تو اس کی گُنجائش ہے، اگر گھریلو کام کاج کی وجہ سے کلائی، یا ہاتھ کے کچھ حصے سے کپڑا ہٹانے کی ضرورت پیش آئے تو اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ البتہ اس میں بھی درجِ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
لباس چست نہ ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔
اپنی نظریں حتی الامکان نیچی رکھی جائیں۔
نامحرم کے ساتھ تنہائی ہر گز اختیارنہ کی جائے۔
بے تکلّفی کی بات نہ کریں، صرف بقدرِ حاجت گفتگو کی جائے۔
مردحضرات جب گھر میں داخل ہوں تو اجازت لے کر یا دروازہ کھٹکاکر داخل ہوں، تاکہ خواتین ضروری پردہ کرلیں ۔

15/07/2025

زکوۃ

قرآن و حدیث میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:
"يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ ‌فَتُكْوى ‌بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ." (التوبة، آيت نمبر 35)
يعني: جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
"‌سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيامَةِ." (آلِ عمران، آیت نمبر 180)
یعنی: ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔
يعني: ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔
مسلم شریف میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من صاحب ذهب ولا فضة، لا يؤدي منها حقها، إلا إذا كان يوم القيامة، صفحت له صفائح من نار، فأحمي عليها في نار جهنم، فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره ..."
(کتاب الزکوۃ، باب اثم مانع الزکوۃ، جلد:2، صفحہ: 680، طبع: مطبعة عيسى البابي الحلبي)
یعنی: ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔

زکوٰۃ نہ دینے کا گناہ

اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایمان اور نماز کے بعد سب سے بڑا رکن زکوٰۃہے،یہ ایسا مالی فریضہ اور پاکیزہ عبادت ہے جو پچھلے تقریباً تمام انبیاء ِ کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں بھی جاری رہی ہے،اور نبی آخر الزمان،سید المرسلین، شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفیٰ کی شریعت میں بھی اس کا حکم دیا گیا ہے۔اور قرآنِ کریم میں تقریباً۲۸؍مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے ہر عاقل و بالغ صاحبِ نصاب شخص پرزکوٰۃ فرض ہے، جو شخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے، اور جو فرض ہونا تسلیم کرے لیکن صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ سخت گناہگار ہے۔نیز زکوٰۃ کا صرف جیب سے نکال دینا کافی نہیں، بلکہ اس کو صحیح مستحقین تک پہنچانا اور ان کوعملاً مالک اورقابض بناکر دینا ضروری ہے، اس کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔

زکوٰۃ ادا کرنے کے بے شمار فضائل و برکات

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کے بے شمار فضائل و برکات بتائے گئے ہیں،مثلاً :
۱ ۔۔۔ زکوٰۃ ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہے۔
۲ ۔۔۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔
۳ ۔۔۔ خوف و غم سے نجات ملتی ہے، اور نقصانات سے بچاؤ ہوتا ہے اور مال کا شر دور ہوتا ہے۔
۴ ۔۔۔ زکوٰۃ انسان کو گناہوں سے پاک کردیتی ہے اور جنت میں داخلے اور جہنم سے دوری کا ذریعہ ہے۔
۵ ۔۔۔ اللہ جل جلالہ کے غضب و ناراضگی اور بُری موت سے بچاؤ ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
جس طرح زکوٰۃ ادا کرنے کے بے شمار فضائل اور فوائد قرآن و حدیث میں آئے ہیں، اسی طرح زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ مثلاً قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍo یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوبُہُمْ وَظُہُورُہُمْ ط ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo(التوبۃ:۳۴، ۳۵)
ترجمہ :اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو، جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائیگا پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیاں اور ان کی کروٹیں(پہلو)اور ان کی پیٹھیں(پشتیں)داغی جائیں گی(اور کہا جائے گاکہ)یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔

زکوٰۃ نہ دینے کی وعید سے متعلق چند احادیثِ طیبہ
حضرت زید بن اسلم ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابوصالح ذکوان نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی سونا، چاندی
(اور مال و دولت)رکھنے والا شخص ایسا نہیں جو اس کا حق (یعنی زکوٰۃ)نہ دیتا ہو ، مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اس شخص کو عذاب دینے کیلئے اس سونے چاندی اور مال و دولت کی چوڑی چوڑی تختیاں بنائی جائیں گی، پھر ان تختیوں کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا(یعنی خوب گرم کیا جائے گاجیسا کہ لوہا اور دیگر دھاتیں آگ میں خوب گرم کرنے سے سرخ ہوجاتی ہیں)پھر ان سے زکوٰۃ نہ دینے والے شخص کی کروٹ(پہلو)اور پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا، جب یہ تختیاں ٹھنڈی ہونے لگیں گی تو ان کو دوبارہ آگ میں تپا کر گرم کرلیا جائے گا، اور یہ کام اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی یعنی قیامت کے دن، یہاں تک کہ جب بندوں کا فیصلہ ہوجائے گا تو اسے یا جنت کا راستہ دکھا یاجائے گا یا جہنم کا۔

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیاپھر اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال اس کے پاس بڑے زہریلے، گنجے ناگ کی شکل میں آئے گا(یعنی اس کے سَر کے بال اس کے انتہائی زہریلے ہونے کی وجہ سے جَھڑگئے ہوں گے اور وہ نہایت خوفناک اور زہریلا ہوگا)، اس کی دونوں آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے،(ایسا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے، یہ اس ناگ کے شدید زہریلے ہونے کی علامت ہے) وہ ناگ زکوٰۃ نہ دینے والے شخص کی گردن میں لپٹ جائے گا اور اس کے دونوں جبڑے پکڑے گا(یعنی نوچے گا اور ان کو چیر دے گا) اور کہے گا:میں تیرامال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں (جس کی تو زکوٰۃ نہ دیتا تھا، آج اس کا عذاب بھگت)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمان مالداروں پر ان کے مال میں زکوٰۃ بس اتنی مقدار فرض کی ہے جو ان کے غریبوں کو کافی ہوجائے ، اور غریبوں کو بھوکے ننگے ہونے کی وجہ سے جب کبھی تکلیف اور مشقت ہوتی ہے تو اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ مالدار لوگ ان کا حق ضائع کرتے ہیں (یعنی وہ غریبوں کو زکوٰۃ نہیں دیتے)۔ یاد رکھیں(جو مالدار زکوٰۃ نہیں دیتے)بے شک اللہ عزّوجلّ ان مالداروں سے سخت حساب لیں گے اور ان کو درد ناک عذاب
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ان سے بارش روک لی جاتی ہے، اور اگر جانور نہ ہوتے تو بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برستا۔
معلوم ہوا کہ قحط سالی کا عذاب بھی زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے آتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کے ملنے میں تنگی ہوجاتی ہے۔ آج ہم میں اکثر مسلمان ضروریاتِ زندگی کی کمی اور مہنگائی کے وبال کا شکار ہیں، لیکن شاید ہی یہ خیال کبھی ذہن میں آتا ہو کہ در حقیقت اس تنگی اور پریشانی کی ایک وجہ زکوٰۃ ادا نہ کرنا ہے، اگر زکوٰۃ کی چوری معاشرہ سے ختم ہوجائے اور تمام صاحبِ نصاب مسلمان زکوٰۃ کے فریضہ کو خوشدلی کے ساتھ انجام دیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی فراوانی ہوجائے اور ہر شخص کو بآسانی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوں اور ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہو۔
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خشکی ہو یا سمندر، جہاں بھی مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے ہوتا ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے سامنے جنت میں جانے والے پہلے تین افراد اور جہنم میں جانے والے پہلے تین افراد پیش کئے گئے، سب سے پہلے جنت میں جانے والے تین افراد یہ ہیں:
(۱) ۔۔۔ شہید۔
(۲) ۔۔۔ وہ غلام جو اپنے رب کی عبادت بھی اچھی طرح کرے اور اپنے مالک کا بھی خیرخواہ ہو۔(یعنی اس کے حق میں بھی کمی نہ کرے)
(۳) ۔۔۔ وہ عیال دار شخص جو پاکباز ہو اور گزارے کے لائق روزی پر اکتفاء کرے، اپنی محتاجی بیان کرکے لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
اور سب سے پہلے جہنم میں جانے والے تین افراد یہ ہیں:
(۱) ۔۔۔ زبردستی حکومت حاصل کرکے حکمران بننے والا۔
(۲) ۔۔۔ وہ مالدار شخص جو اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے۔
(۳) ۔۔۔ اترانے والا یعنی متکبر فقیر۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جہنم میں سب سے پہلے جانے والے افراد میں وہ شخص بھی شامل ہے جو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو.
ترجمہ :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز قبول نہیں فرماتے جو زکوٰۃ نہ دیتا ہو، یہاں تک کہ وہ دونوں (یعنی نماز اور زکوٰۃ)حکموں پر عمل کرلے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عبادات کو جمع فرمایا ہے
(یعنی قرآنِ کریم میں دونوں کا حکم ساتھ ساتھ دیا ہے) تو تم ان کے درمیان تفریق نہ کرو(یعنی ان دونوں کو الگ الگ نہ کرو کہ نماز تو پڑھو مگر زکوٰۃ نہ دو، اگر ایسا کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری نماز بھی قبول نہ فرمائیں گے۔

15/07/2025

تین طلاقیں
تین طلاق ایک مجلس میں دی یا مختلف اوقات وہ واقع ہوجاتی ہیں اس کی بعد بیوی شوہر کیلے ہمیشہ کیلے حرام ہوگئے بغیر حلالہ اور کوئی طریقہ کار نہیں ہے دوبارہ نکاح کیلے اور آپس میں دونوں کا رہنا ناجائز اور حرام ہے تمام مذاہب میں۔

1۔ طلاق دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے، تاہم انتہائی مجبوری کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے، شریعت نے مرد کو آسانی دیتے ہوئے اس کا بہترین طریقہ بھی بتادیا ہے ،تاکہ کل کو اگر جانبین اپنے اس فعل پر نادم اور پشیمان ہوں تو انہیں اس غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو ، وہ بہترین صورت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر ( پاکی) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں ، پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے، اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم نہ کیا ہو ، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے ، جب دوسرا طہر (پاکی) آئے تو اس میں دوسری طلاق دے ، اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں مرد اور عورت کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ (1)
لیکن اگر کوئی شخص شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام ناجائز اور بدعت ہے، تاہم اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے ، مثلاً: ''ظہار'' کو قرآنِ مجید میں "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا" کہا گیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو شخص شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔
2۔ قرآن کریم میں ہے :
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]
ترجمہ:وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے، مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت مکمل ہونے کا وقت قریب ہوتا تو وہ رجوع کرلیتا اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے ان کا مقصد اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب "صحیح البخاری" میں یہ باب قائم کیا " باب من أجاز الطلاق الثلاث"(3)
امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ فتویٰ دینے والے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)
امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ، ا گرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)
3۔ آیت مذکورہ میں " مرتان " کا معنی "اثنان" ہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، یہی معنی شانِ نزول کے موافق ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں "مرتان" کامعنی " اثنان" کے لیے استعمال ہوا ہے:
الف: ﴿وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾ [الأحزاب: 31]
ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا دیں گے۔ (بیان القرآن)
ب: ﴿ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ [القصص: 54]
ترجمہ: ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا۔(بیان القرآن)
ج: حدیث میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
" أن النبي ﷺ توضأ مرتین مرتین". (6)
لہذا قرآنی حکم کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن طلاقوں کی ترتیب نہیں ،بلکہ تعداد بیان کررہا ہے ۔
4۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
ترجمہ:اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)
امام شافعی رحمہ اللہ " کتاب الام" میں لکھتے ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔ (7)
5۔ احادیث مبارکہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقین واقع ہوجاتی ہیں۔
الف : بخاری شریف میں ہے:
'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»''(8)
اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ اس بات پر دلیل ہے تین طلاقیں اکھٹی دی گئی تھیں ، چناں چہ ''عمدۃ القاری'' میں ہے کہ "طلق امرأته ثلاثاً" کا جملہ اس حدیث کے ''ترجمۃ الباب '' کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔ (9)
''فتح الباری'' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ؛ کیوں کہ اس سے یہی بات متبادر ہوتی ہے کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔ (10)
ب: صحیح البخاری میں ہے:
'' أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»''۔ (11)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فبت طلاقي " کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے ، اور وہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں ، اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے " طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"۔ (12)
ج: امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد حدیث کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:
''قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»''۔ (13)
مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں طلاقوں کو نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:
'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14)
د : سنن ابن ماجہ میں ہے کہ عامر شعبی سے روایت ہے کہ میں نے فاطمہ بنت حبیش سے کہا :مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں ، انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں ، وہ یمن سے باہر تھے تو آپﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔ (15)
اس روایت سے امام ابن ماجہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے "باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد" ، جس کے تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی (16) میں اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد (17)میں ذکر کیا ہے۔
6۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہوچکا تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین فقہاء ومحدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
الف : علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم ، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجما ع ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ ہے ۔(18)
ب :حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی ایک فرد کا علم نہیں جو اس سلسلے میں فیصلہ ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے ، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے،ان میں سے اکثر اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ (19)
ج :علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب پر ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ (20)
د : علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کہے : "أنت طلاق ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں) اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ (21)
7۔ ''صحیح مسلم'' میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت سے استدلال کیا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلد بازی شروع کردی جس میں ان کے لیے سہولت تھی، اگر ہم ان پر تینوں کو نافذ کردیں تو اچھا ہو۔اس کے بعد انہوں نے اس حکم کو نافذ کردیا۔(22)
اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
الف : نبی کریمﷺکے زمانے میں جب شوہر ایک طلاق دینے کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ استعمال کرتا تھا اور اس کی مراد پہلی دی گئی طلاق کی تاکید ہوتی تھی توآپﷺ اس طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے تھے، آپﷺ صاحبِ وحی تھے، کوئی شخص آپ سے غلط بیانی نہیں کرسکتا تھا، اگر کوئی غلط بیانی کرتا تو آپﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع مل جاتی، جب حضورﷺکے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الفاظِ طلاق کو دیکھتے ہوئے تین طلاقوں کا فیصلہ نافذ کیا، نیتِ تاکید کا اعتبار نہیں کیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگایا آیا ہوگا تو لوگوں کی دیانت کو دیکھتےہوئے نیت کا اعتبار کیا جاتا ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے احکام نے قانونی شکل اختیار کی جس میں سےایک قانون یہ بھی ہے۔ (23)
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اب وحی منقطع ہوگئی، اب تم لوگوں کی پکڑ تمہارے ظاہری اعمال پر ہوگی،جو ہمارے سامنےخیر و بھلائی ظاہر کرےگاہم اسے امن دیں گے اور قریب کریں گے، ہمیں ا س کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے باطن کا مواخذہ کرے گا، جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاہم اس کو نہ امن دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ میرا باطن اور میری نیت اچھی ہے۔(24)
دورِ فاروقی میں یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا، صدیوں سے اسلامی عدالتیں اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔
ب : صحیح مسلم کی اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی روایات میں مروی ہے کہ وہ ایک جملہ میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں سمجھا کرتے تھے، ان کے جلیل القدر شاگرد علماء، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، مجاہد اور طاووس ان سے یہی نقل کرتے ہیں۔ذیل میں چند روایات مذکور ہیں:
الف: مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ (25)

15/07/2025

💁‍♂️آپ سست ہوں لیکن تخلیقی ہوں۔

15/07/2025

فوراً سیکس کرنے کے نقصانات: ایک سنجیدہ جائزہ

جنسی تعلق ایک ایسا عمل ہے جو صرف جسمانی نہیں بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور ذہنی طور پر بھی ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر اس عمل میں جلد بازی کی جائے، خاص طور پر فوراً اور بغیر تیاری کے سیکس کیا جائے، تو اس کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

1. جسمانی تکلیف اور چوٹ کا خطرہ
فوراً دخول (pe*******on) سے قبل اگر جسم مکمل طور پر تیار نہ ہو، خاص طور پر خواتین میں lubrication (قدرتی نمی) کم ہو، تو دخول سے درد، سوزش یا حتیٰ کہ زخم بھی ہو سکتے ہیں۔

2. جذباتی تعلق میں کمی
جب سیکس کو صرف ایک "عمل" کے طور پر لیا جائے اور جلد بازی کی جائے تو اس میں جذباتی قربت اور ربط ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بات دیرپا تعلقات میں فاصلے کا سبب بن سکتی ہے۔

3. خواتین کے لیے غیر تسلی بخش تجربہ
اکثر خواتین کو جسمانی تیاری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، جلد بازی یا فوراً سیکس ان کی جسمانی خواہش کو مکمل طور پر پورا نہیں کرتا، جس سے وہ جذباتی طور پر بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔

4. مردوں میں قبل از وقت انزال (early ej*******on)**
فوری اور ذہنی دباؤ میں کیے جانے والے تعلق سے مردوں کو جلد انزال ہو سکتا ہے، جس سے وہ خود بھی شرمندہ اور غیر مطمئن ہو سکتے ہیں۔

اورل سیکس (Oral S*x) میں جلد بازی یا احتیاط کے بغیر انجام دینے کے ممکنہ نقصانات.

1. صفائی کا خیال نہ رکھنا
منہ کے ذریعے جنسی اعضاء کو چھونا اگر بغیر صفائی یا صحت کے اصولوں کے ہو، تو منہ، گلے یا جنسی اعضاء میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔

2. وائرل اور بیکٹیریا انفیکشن کا خطرہ
اگر ایک ساتھی کو دانتوں یا مسوڑھوں میں زخم ہو یا دوسرے کو خفیہ انفیکشن، تو ایچ پی وی، ہیپاٹائٹس یا منہ کی بیماریاں منتقل ہو سکتی ہیں۔

3. نفسیاتی دباؤ
اگر دونوں فریق اس عمل میں ذہنی طور پر تیار نہ ہوں یا ایک فریق محض دوسرے کو خوش کرنے کے لیے مجبوراً کرے تو بعد میں احساس جرم، پشیمانی یا پریشانی پیدا ہو سکتی ہے۔

جنسی تعلق میں اہم باتیں

جسمانی صفائی
باہمی رضا مندی
جذباتی ہم آہنگی
ایک دوسرے کی خواہشات کو سمجھنا
وقت، ماحول اور دماغی سکون کا خیال رکھنا

یاد رکھیں
محبت، احترام اور سمجھ داری ہر رشتے کو مضبوط کرتی ہے۔ سیکس صرف جسمانی عمل نہیں، بلکہ ایک احساس، قربت اور بھروسے کا اظہار بھی ہے۔

مزید معلومات، رہنمائی یا ذاتی مشورے کے لیے ان باکس یا کمنٹس میں رابطہ کریں۔ مکمل رازداری اور احترام کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔

15/07/2025

طلاق
حیض نفاس میں طلاق کاحکم
طلاق حیض نفاس مذاق خوشی غصہ لڑائی نشہ ہر حالت میں واقع ہوجاتی ہیں۔
فقط
حالتِ حیض اور نفاس میں طلاق کےحکم میں فرق نہیں ہے

طلاق میں حیض اور نفاس کاحکم یکساں ہے یعنی جس طرح حالتِ حیض میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح حالتِ نفاس میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ،اور جس حیض میں طلاق دی جائے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ اس حیض کے گزرنے کے بعد از سر ِنو تین حیض گزارنا لازمی ہے اسی طرح اگر حالت نفاس میں طلاق دی جائے تو مدتِ نفاس گزرنے کے بعد از سرِنو تین حیض بطور عدت کے گزارنا لازمی ہیں،اور جس طرح حالتِ حیض میں طلاق دینابدعت اور گناہ ہے، اسی طرح حالتِ نفاس میں طلاق دینا بھی بدعت اورگناہ ہے ۔

15/07/2025

تین طلاق کاحکم
صورتِ مسئولہ میں کہ میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق" ان الفاظ سے آپ پر تین طلاق واقع ہو چکی ہیں، اور وہ آپ پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، رجوع جائز نہیں ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی حرام ہے۔

15/07/2025

نہ کوئی سچا ابوبکر ؓ جیسا
نہ کوئی حکمران عمرؓ جیسا
نہ کوئی سخی عثمانؓ جیسا
نہ کوئی بہادر علیؓ جیسا

14/07/2025

چھ کلمے ترجمہ کیساتھ

اوّل کلمہ طیبہ
لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ؕ
ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

دوسرا کلمہ شہادت
اَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ؕ
ترجمہ :
میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ بیشک محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اللہ کے بندے اوررسول ہیں۔

تیسرا کلمہ تمجيد
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ الَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُؕ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ؕ
ترجمہ :
اللہ پاک ہے اورسب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں اوراللہ کے سواکوئی معبود نہیں اوراللہ سب سے بڑا ہے گناہوں سے بچنے کی طاقت اورنیکی کرنے کی توفیق نہیں مگراللہ کی طرف سے جو سب سے بلندعظمت والا ہے ۔

چوتھا کلمہ توحید
لآاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًاؕ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِؕ بِیَدِہِ الْخَیْرُؕ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ ۵ؕ
ترجمہ :
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کیلئے ہے بادشاہی اوراسی کے لئے حمد ہے وہی زندہ کرتا اورمارتاہے اوروہ زندہ ہے اس کو ہرگز کبھی موت نہیں آئے گی ۔ بڑے جلال اوربزرگی والا ہے ۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

پانچواں کلمہ استغفار
اَسْتَغْفِرُاللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہٗ عَمَدًا اَوْخَطَأً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِی لَآاَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَ سَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیّ الْعَظِیْمِ ؕ
ترجمہ :
میں اللہ سے معافی مانگتاہوں جو میرا پروردگار ہے ہرگناہ سے جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر۔ چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر اورمیں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اس گناہ سے جس کو میں جانتاہوں اوراس گناہ سے بھی جس کو میں نہیں جانتا،(اے اللہ)بیشک تو غیبوں کا جاننے والا اورعیبوں کا چھپانے والا اورگناہوں کابخشنے والا ہے اورگناہ سے بچنے کی طاقت اورنیکی کرنے کی قوت نہیں مگراللہ کی مدد سے جو سب سے بلند عظمت والا ہے۔

چھٹا کلمہ رد کفر
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّ اَنَآ اَعْلَمُ بِہٖ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِہٖ تُبْتُ عَنْہُ وَ تَبَرَّأْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَ الْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ وَالنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُھْتَانِ وَالْمَعَاصِیْ کُلِّھَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ؕ
ترجمہ :
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتاہوں اس بات سے کہ میں کسی شئے کو تیراشریک بناؤں جان بوجھ کر اوربخشش مانگتاہوں تجھ سے اس(شرک)کی جس کو میں نہیں جانتا اورمیں نے اس سے توبہ کی، اورمیں بیزار ہوا کفر سے اورشرک سے اورجھوٹ سے اورغیبت سے اوربدعت سے اورچغلی سے اوربے حیائیوں سے اوربہتان سے اورتمام گناہوں سے اورمیں اسلام لایااور میں کہتاہوں اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zameer Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zameer Khan:

Share